Tuesday, September 30, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات (79)

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات (79)

جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ - سعودی عرب

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سوال: ہم باہر سے ریڈی میڈ فوڈ خرید کر کھاتے ہیں جیسے بسکٹ ، مٹھائی ، اسنیکس وغیرہ۔ یہ سب اکثر ناریل مکس فوڈ بھی ہوتے ہیں ، یہ شبہ ہوتا ہے کہ کہیں ان میں غیراللہ کے لیے پیش کئے گئے ناریل بھی مکس ہو، ایسے ہی ناریل پاؤڈر بھی ملتا ہے۔ کیا انہیں خرید کر استعمال کرسکتے ہیں؟

جواب: پہلی چیز یہ ہے کہ اسلام ظاہر پر حکم لگاتا ہے یعنی باطنی امور پر اسلام حکم نہیں لگاتا۔دوسری بات یہ ہے کہ یہ محض ایک وسوسہ ہے کہ یہ ناریل غیراللہ کے لئے پیش کیا گیا ہوگااس لئے بغیرثبوت واعتماد کے اس طرح کا وسوسہ پیدا کرنا درست نہیں ہے۔

بازار سے خرید کر جو بھی حلال فوڈ کھانا ہو وہ کھائیں خواہ وہ ناریل سے بنا ہو یا اس کا پاؤڈر ہو اور جو نہ کھانے کا دل ہو وہ نہ کھائیں کیونکہ عموماً بازار کی چیزوں میں کیمیکل وغیرہ کی ملاوٹ ہوتی ہے اور بازار کی مصنوعی چیزوں  سے انسان کو نقصان پہنچتا ہے اسے اعتبار سے بچتے ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن جو خدشہ آپ نے ذکر کیا ہے اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

سوال: آج کل لوگوں میں ٹرینڈ بنا ہوا ہے کہ کبھی بھی کوئی خوشی کا موقع ہوتا ہے تو کیک کٹ کرتے ہیں، کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟

جواب: جو لوگوں کا ٹرینڈ ہو، رسم و رواج ہو اور غیروں کی نقالی ہو ان چیزوں سے خود کو اور اپنے گھر والوں کو دور رکھیں گے۔جہاں تک کیک کھانے کا مسئلہ ہے تو  خوشی کا موقع ہو یا عام موقع ہو کیک  کھانے میں حرج نہیں ہے لیکن کیک کھانے اور کٹ کرنے  میں کسی قوم کی نقالی کرنا یا اس میں رسم و رواج نبھانا درست نہیں ہے، اپنے آپ کو اس سے دور رکھیں اور جس کو رسم ورواج کرتے دیکھیں اسے غیروں کی نقالی سے منع کریں۔

 سوال: ایک لڑکی پوچھتی ہے کہ وہ یونیورسٹی سے لیٹ گھر پہنچتی ہے جس کی وجہ سے اس کی نماز عصر نکل جاتی ہے۔ یونیورسٹی سے آف ٹائم، چار بجے ہوتا ہے اور وہ چھ سات بجے تک گھر پہنچتی ہے۔ ایسے میں وہ عصر کس ٹائم ادا کرے، ظہر کے ساتھ ملا کر جبکہ اس کے یہاں مغرب پونے سات تک ہورہی ہے؟

جواب: شرعی اعتبار سے یہ ہمارا یا آپ کا یا کسی اور کا کام نہیں ہے کہ کسی مسلمان کو یہ بتائے کہ کوئی فلاں کام میں مشغول ہے، وہ فلاں نماز کس وقت پڑھے جبکہ  شریعت میں نماز کا وقت متعین ہے اور یہ تعین اللہ رب العالمین نے کیا ہے لہذا ہم نماز کے وقت میں دنیا کی ہر چیز چھوڑ کر نماز ادا کریں گے خواہ تعلیم ہو یا نوکری ہو یا گھر اور باہر کا کوئی کام ہو۔اللہ تعالی نے سورہ جمعہ میں نماز جمعہ کے تعلق سے حکم دیا ہے کہ جب نماز کے لئے اذان دی جائے تو کاروبار اور کام کاج بند کردو اور اللہ کے ذکر (نماز)کی طرف دوڑو۔

وہ جس جگہ پر رہتی ہے اس جگہ کے اعتبار سے عصر کا اول وقت معلوم کرے اور اول وقت پر اپنی ہی جگہ میں نماز ادا کر لے۔ عصر کا وقت عموما تین بجے کے بعد شروع ہونے لگتا ہے۔ظہر کے ساتھ ملاکر نہیں پڑھنا ہے بلکہ ظہر اپنے وقت پر اور عصر اپنے وقت پر پڑھنا ہے۔ ہاں کبھی دشواری ہو توجمع صوری اختیار کرلے، اس کی صورت یہ ہے کہ  ظہر کوآخری وقت میں ادالے اور عصر کو اول وقت میں، اس طرح مشکل کے وقت  دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔

سوال: کیا خواتین ایسی جگہ سلام کرکے داخل ہوں گی جہاں محرم اور غیر محرم اکٹھے بیٹھے ہوئے ہوں جیسے ہم گھر میں داخل ہوں تو گھر کے ہال میں محرم اور غیر محرم دونوں موجود ہوں تو کیا وہاں سلام کرکے داخل ہوں گے؟

جواب: ایک عورت ایسی جگہ پر غیرمحرم سے سلام کرسکتی ہے جہاں پر فتنے کا اندیشہ نہ ہو اور چونکہ جب ہال میں ایک جگہ محرم اور غیر محرم سبھی لوگ ہوں تو وہاں پر فتنے کا اندیشہ نہیں ہے لہذا عورت وہاں پر سلام کرسکتی ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور سلام نہیں کرتی ہیں تو بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ سلام کرنا واجب نہیں ہے بلکہ مسنون ہے۔

سوال: جوائنٹ فیملی ہے اور اس گھر میں دیور اور جیٹھ دونوں رہتے ہیں۔ جب وہ گھر آئے تو بطور ادب پردہ کرتے ہوئے ان کو سلام کرنا ضروری ہے؟

جواب: سلام کرنے کا پہلے حکم جانیں پھر آپ کو پتہ چلے گا کہ سلام کرنا ضروری ہے یا نہیں ضروری ہے؟کسی کو بھی سلام کرنا ضروری نہیں ہے، اسلام میں سلام کا حکم سنت کا ہے یعنی کسی کو سلام کرنا مسنون ہے لیکن جب کوئی مسلمان کسی کو سلام کرے پھر جواب دینا واجب ہو جاتا ہے۔

اولا جیٹھ اور دیور سے سلام کرنا ضروری نہیں ہے۔ ثانیا جیٹھ اور دیور غیر محرم میں سے آتا ہے اور جہاں پر عورت کو سلام کرنے میں فتنے کا اندیشہ ہو جیسے جوان لڑکا ہو یا کوئی اجنبی مرد اکیلے میں ہو تو ایسی صورت میں سلام نہیں کرنا چاہیے۔اس وجہ سے حالات دیکھ کر جب فتنہ کا امکان نہ ہو سلام کرسکتے ہیں ورنہ اس سے بچنا چاہئے۔

سوال: نبی کے صدقے سے کیوں نہیں مانگنا چاہیے جبکہ ہمارے ملک میں تو یہ بہت عام ہے اور ایسے لوگوں کو کیسے منع کریں؟

جواب: دین نام ہے قرآن اور حدیث کا یعنی جو بات قرآن اور حدیث میں ہے اسی پر عمل کیا جائے گا جو بات قرآن و حدیث میں نہیں ہے اس پر عمل نہیں کیا جائے گا، یہ سیدھی سچی بات ہے۔ اب اگر کوئی آدمی قرآن اور حدیث سے ہٹ کر کوئی ایسا کام کر رہا ہے جو قرآن و حدیث میں موجود نہیں ہے، وہ کام بدعت ہے یعنی نئی ایجاد ہے اور نئی ایجاد کو بدعت کہتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدعت سے منع فرمایا ہے۔اس سلسلے میں بہت ساری احادیث ہیں، میں صرف ایک اصولی حدیث کا حوالہ دیتا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:من عمل عملا ليس عليه امرنا فهو رد.(صحیح مسلم:1718)

ترجمہ: جس نے کوئی ایسا کام کیا جو دین میں سے نہیں ہے وہ باطل و مردود ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ نبی ﷺ کے جاہ ومرتبہ کا وسیلہ لگانے سے متعلق کوئی صحیح حدیث نہیں ہے نیز اللہ تعالی نے براہ راست خود کو پکارنے کا حکم دیا ہے اس لئے اللہ کو پکارنے اور اس سے دعا مانگنے کے لئے کسی وسیلہ کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ بندوں کے قریب ہے۔

سوال: میں نے ایک وصیت کی تھی کہ میری نماز جنازہ ہمارے علاقے کی مسجد جہاں جامعہ کے ساتھ، پڑھنے والے بچوں کی رہائش گاہ بھی ہے، وہاں پر ادا کی جائے کیونکہ وہاں امام اور مقتدی بدعتی نہیں ہیں، تو کیا ایسا کرنا درست ہے؟

جواب: نماز جنازہ کے لئے اس طرح کی وصیت کرنا درست نہیں ہے کیونکہ کسی خاص جگہ نماز جنازہ پڑھنے سے ممکن ہے کہ دوسروں کے لئے دشواری ہوجائے البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ میرا جنازہ کوئی اہل حدیث یعنی موحد پڑھائے یا کسی کے نام وصیت کر جائیں کہ فلاں عالم دین میرا جنازہ پڑھائے اس طرح وصیت کرنے میں، میں سمجھتا ہوں حرج نہیں ہے لیکن کسی جگہ کو خاص کرنے سے دشواری ہوسکتی ہے۔

سوال: دم اور فدیہ میں کیا فرق ہے؟

جواب: جب ہم فدیہ بولتے ہیں تو اس میں دم بھی شامل ہوتا ہے اس لیے فدیہ ایک عام لفظ ہے اور دم ایک خاص لفظ ہے۔
دم کا لفظی معنی خون کے ہوتا ہے اس وجہ سے حج یا عمرہ میں فدیہ کے طور پر جانور ذبح کرنے کو دم دینا کہتے ہیں۔ اور فدیہ عام ہے یعنی حج اور عمرہ میں غلطی کرنے پر اس کی تلافی کے لیے جو کفارہ دیا جاتا ہے اسے فدیہ کہتے ہیں خواہ وہ روزہ رکھنے کے تعلق سے ہو یا کھانا کھلانے کے تعلق سے ہو یا دم دینے کے تعلق سے ہو۔

سوال: اگر کوئی پوچھے کہ آپ کا فیوریٹ صحابی کون سا ہے تو کسی ایک صحابی کا نام لے سکتے ہیں لیکن محبت سب سے کرتے ہیں؟

جواب:اس طرح کا سوال صحابہ کے تعلق سے غیر مناسب معلوم ہوتاہےکیونکہ صحابہ کے درمیان ایمان وعمل کے اعتبار سے درجات موجود ہیں لہذا اپنی مرضی سے کسی کو دوسرے پر فوقیت دینا درست نہیں ہے۔ آپ صحابہ کے تئیں خوبیوں کے اعتبار سے ان کا مقام ومرتبہ بیان کریں مگر خود سے درجہ بندی یا فیوریٹ منتخب نہ کریں۔

سوال: میرے پاس کئی چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ، مجبوری میں بچوں کے درمیان وقفہ کے لئے انجکشن لگایا ہے۔ وقفہ کے لئے جو انجکشن لگوایا ہے اس سے برابر بلیڈنگ ہوتی رہتی ہے تو اس حالت میں میرے لئے نماز اور ازدواجی تعلق قائم کرنے کا کیا حکم ہے اور بچے چھوٹے ہونے کی وجہ سے اکثر پیشاب بھی کر دیتے ہیں جو کپڑوں کو بھی لگ جاتا ہے تو ہر ٹائم کیسے پاک صاف رہوں؟

جواب: حیض ایک معلوم اور متعین چیز ہے جو ہر ماہ اپنے وقت پر اپنے صفات کے ساتھ آتا ہے۔حیض اور نفاس کے علاوہ جو تیسرا خون آتا ہے وہ استحاضہ کا ہے۔ اس حالت میں جسم اور کپڑے میں لگے خون کی صفائی کرکے اور وضو کر کے ہر وقت نماز ادا کریں گے، اس میں نماز ممنوع نہیں ہے یعنی استحاضہ کی حالت میں ہر نماز کے وقت صفائی کرکے اور وضو بناکر نماز ادا کرتے رہنا ہے۔ جہاں  تک استحاضہ میں شوہر سے جماع کا مسئلہ ہے تو بلاشبہ میاں بیوی اس حالت میں جماع کرسکتے ہیں کیونکہ استحاضہ ناپاکی کی حالت نہیں ہے، یہ طہارت والی حالت ہے۔

سوال: كيا كسى جنازہ  یا قبر کی تصویر میت کے ان گھر والوں کو دکھائی جاسکتی ہے جو دوسرے ملک میں ہوں، پھر ضائع کر دی جائے اور کیا ویڈیو کال پر ان کو ایسے مناظر دکھائے جا سکتے ہیں؟

جواب: ویڈیو کال میت کو دیکھنے کے لیے ہو یا گھر والوں سے بات کرنے کے لیے ہو اس کی ممانعت نہیں ہے آدمی ویڈیو کال کے ذریعہ میت کو دیکھ سکتا ہے اور بات چیت کرسکتا ہے۔جہاں تک میت( جاندار) کی  تصویر کا معاملہ ہے تو بہر کیف اس سے پرہیز اولی و افضل ہے۔ غیرجاندار کی تصویر جیسے قبر یا قبرستان کی تصویر لینا جائز ہے ۔

سوال: میرے ایک قریبی رشتے دار کے یہاں شادی ہے، فنکشن میں مردو عورت کے درمیان فرق نہیں ہوگا اس لئے اس میں نہ جانا مناسب سمجھی۔ اس میں میرے محرم اپنے دوست و احباب کو دعوت دینا چاہے تو یہ عمل کیسا ہے ، اگر غلط ہے تو کیسے منع کروں؟

جواب: اگر ایسی کوئی دعوت ہے جس میں مرد اور عورتیں دونوں اکٹھا ہوں گے ایسی دعوت میں شریک ہونا جائز نہیں ہے کیونکہ عورت ومرد کا اختلاط اسلام میں جائز نہیں ہے۔ جیسے اس دعوت میں آپ نہیں جائیں، ویسے آپ اپنے دوسرے رشتہ داروں کو بھی ایسی دعوت میں جانے سے منع کریں خواہ وہ مرد ہی کیوں نہ ہو۔ آپ کو یہاں پر دوسروں کو اس میں شریک ہونے سے منع کرنا ہے نہ کہ آپ اپنے رشتہ داروں کو کہیں کہ مزید اپنے دوستوں کو یہاں لے کر آئیں، اختلاط سے اسلام نے منع کیا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ رشتہ دار ہونے کی حیثیت سے اس طرح کی مجلس منعقد کرنے سے منع بھی کرنا چاہیے، یہ آپ کی ذمہ داری بھی ہے۔ نیز ایسی دعوت جس کا شریعت میں ثبوت نہ ہو جیسے بارات اس میں ویسے بھی جانےسے پرہیز کرنا چاہئے۔

سوال: تبلیغ والی مسجد کے کام کے لئے کچھ پیسہ دے سکتے ہیں ؟

جواب:جی، مسجد اللہ کا گھر ہے، اس کے لئے تعاون دے سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال: غیر مسلم کو زکوۃ دے سکتے ہیں اور اس کو دوست بناسکتے ہیں؟

جواب: غیرمسلم کو زکوۃ نہیں دے سکتے ہیں، زکوۃ صرف مسلمانوں کا حق ہے اس لیے مسلمان ہی کو زکوۃ دی جائے گی۔اور اسی طرح غیرمسلم کو اپنا دوست نہیں بنا سکتے ہیں، دوستی بھی صرف مسلمان سے ہی کی جائے گی۔

سوال: خاتون کو اپنے شوہر کے انتقال کے بعد عدت کہاں گزارنی چاہیے۔ سسرال میں صرف دیورو جیٹھ وغیرہ ہیں اور اس کے جوان بیٹے ہیں جس کے باعث وہ گھر میں سہولت سے کام کاج نہیں کرپا رہی ہے اور اس کے ساس سسر بھی نہیں ہیں جبکہ خاتون کے بوڑھے اور بیمار و معذور والدین چاہتے ہیں کہ بیٹی اکیلے رہنے کے بجائے عدت اپنے والدین کے پاس آکر پوری کرے۔ خاتون کو کوئی اولاد اور بھائی نہیں ہے؟

جواب: لازمی طور پر عورت اس گھر میں عدت گزارے گی جس گھر میں وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہا کرتی تھی۔ اس گھر سے نکل کرکسی اور جگہ جاکر عدت گزارنا اس کے لیے جائز نہیں ہے۔جب وہ اپنی عدت گزار لے جو کہ چار ماہ دس دن ہے پھر اس کے بعد جہاں ٹھہرنا چاہتی ہو وہاں ٹھہرے اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ سسرال میں دیور یا جیٹھ کا مسئلہ ہے، وہ تو اپنے گھر میں ہوگا اور عورت اپنے گھر میں رہے گی اس کو اپنے جیٹھ اور دیور سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔

تیسری بات یہ ہے کہ عورت کی زندگی صرف عدت تک نہیں ہے بلکہ عدت کے بعد بھی اسے زندگی گزارنی ہے۔ اس میں اسے اختیار ہے کہ وہ سسرال کو منتخب کرے یا میکہ کو۔

آخری بات یہ ہے کہ عدت کے دوران اگر مشکلات کا سامنا ہو جیسے اشیائے خورد و نوش کی فراہمی اور دیگر ضروریات کی تکمیل پھر وہ اپنے میکے جا سکتی ہے مگر یہ انتہائی مجبوری میں ہے، اولا اس کی کوشش یہی ہو کہ عدت کے ایام شوہر کے گھر گزارے۔

سوال: ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی کے گھر کھانا کھایا تھا، ہم لوگ بھی یہود و نصاری کے ہوٹلوں میں جیسے KFC اور MCDONALD'S میں کھاتے ہیں اور حلال لکھا ہونے کے باوجود ہمیں شک ہو تو کیا ہم بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے بسم اللہ پڑھ کر ان کا ذبیحہ کھا سکتے ہیں؟

جواب: یہودی کی دعوت قبول کرنا جائز ہے جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی عورت کی دعوت کھائی ہے۔ اسی طرح یہودی ہوٹل میں کھانا بھی جائز ہے بلکہ کوئی بھی ہندو ہوٹل میں کھانا کھا سکتے ہیں۔ اس کے لیے یہی شرط ہے کہ کھانا آپ کے لیے حلال ہو اور اس میں شک و شبہ کا امکان نہ ہو بلکہ غیرمسلم ہوٹلوں میں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کہیں یہاں پر بے حیائی کا ماحول تو نہیں ہے۔
کے ایف سی اور میک ڈونلڈز وغیرہ کی چیزیں یہودی کی ہوتی ہیں تاہم یہ دکان چلانے والے مسلمان بھی ہوتے ہیں جیساکہ سعودی میں کے ایف سی اور میک ڈونلڈزچلانے والے مسلمان ہیں، یہاں اس میں کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جہاں کہیں کسی ہوٹل کے کھانے میں شک ہو اور خاص طور سے اس کا چلانے والا ہندو ہو تو اس ہوٹل میں کھانے سے بلاشبہ پرہیز کرنا چاہیے۔

سوال: نماز کی تیسری رکعت کے لئے جب کھڑے ہوتے ہیں تو اللہ اکبر بولتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں۔ کیا جب رفع یدین کریں تو دوبارہ اللہ اکبر کہنا چاہئے؟

جواب: تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوتے وقت اللہ اکبر کہنا ہے اور یہ اللہ اکبر رفع دین کرتے وقت نہیں کہنا ہے بلکہ صرف کھڑا ہوتے وقت ہی کہنا ہے۔

سوال: شوہر نے غصے میں ہاتھ میں قرآن لے کر قسم کھایا کہ میں تجھے طلاق دے دوں گا، اس صورت میں کیا کرنا چاہیے؟

جواب: میں خواتین کو نصیحت کروں گا کہ گھروں میں ایسے ماحول سے پرہیز کریں جس سے میاں بیوی کے درمیان اختلاف، تنازع اور جھگڑا کی نوبت آتی ہے۔ بیویاں اپنے شوہروں کی اطاعت کریں ، ان کی ناراضگی سے بچنے کی کوشش کریں اور خصوصا ایسے حالات پیدا کرنے سے بچیں جس سے طلاق تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔

سوال میں جو صورتحال مذکور ہے کہ ایک مرد نے قرآن اٹھا کر قسم کھایا کہ میں تجھے طلاق دے دوں گا۔ اس بات سے طلاق واقع نہیں ہوتی کیونکہ یہاں طلاق نہیں دی گئی بلکہ طلاق کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔

جہاں تک قسم کی بات ہے تو یہ عمل آدمی کی جہالت پر مبنی ہے اس طرح کی قسم کھانے والا دینی مسائل سے ناواقف ہے۔ اسے چاہیے کہ اپنے اس عمل سے توبہ کرے اور قسم کا کفارہ ادا کردے۔

سوال: کیا کوئی حدیث اس طرح کی ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی تم سے کہے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے سرک گیا تو یقین کرلینا لیکن اگر کوئی کہے کہ فلاں کی فطرت بدل گئی تو مت یقین کرنا؟

جواب:مسنداحمد(27499) میں ہے، حضرت ابودردا ءرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پاس بیٹھے آئندہ پیش آنے والے حالات پر مذاکرہ کر رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا سَمِعْتُمْ بِجَبَلٍ زَالَ عَنْ مَكَانِهِ , فَصَدِّقُوا , وَإِذَا سَمِعْتُمْ بِرَجُلٍ تَغَيَّرَ عَنْ خُلُقِهِ , فَلَا تُصَدِّقُوا بِهِ , وَإِنَّهُ يَصِيرُ إِلَى مَا جُبِلَ عَلَيْهِ .
یہ روایت منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے کیونکہ زہری نے ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا ہے۔

شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی ضعیف کہا ہے۔ (السلسلة الضعيفة:135)

سوال : ایک عورت عدت میں ہے ، جب بچوں کی طبیعت خراب ہوتی ہے تو ڈاکٹر کے پاس لے جاتی ہے اور سودا لینا ہو تب بھی وہ بازار جاتی ہے کیونکہ اس کے پاس کوئی نہیں ہے۔ ایسا ہوتا ہے کہ راستہ چلتے ہوئے محلے یا پہچان کے لوگ سلام کرلیتے ہیں یا باپ چیت کرلیتے ہیں تو نامحرموں پر نظر پڑجاتی ہے۔ اسی طرح کبھی کبھی موبائل استعمال کرلیتی ہے، کبھی کبھی اسٹیٹس دیکھ لیتی ہے اس میں بھی نامحرم ہوتے ہیں ان پر نظر پڑجاتی ہے، کیا یہ صحیح ہے یا اس میں مسئلہ ہے؟

جواب:جو عورت عدت میں ہے، اس کے لئے ضرورت کے وقت گھر سے نکلنا جائز ہے جیسا کہ سوال میں مذکور ہے کہ وہ سودا لینے یا بچوں کے علاج کے لئے گھر سے باہر جاتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

جہاں تک راستے میں نامحرموں پر نظر پڑجانے کا مسئلہ ہے تو یہ کوئی بات نہیں ہے۔ عورت عدت میں ہو یا عدت میں نہیں ہو، ایک عورت مرد کا چہرہ دیکھ سکتی ہے۔ یہ اجازت عورت کو عدت میں بھی ہے۔ مردوں کے لئے اجنبی عورت کا چہرہ دیکھنا منع ہے مگر عورتوں کے لئے اجنبی مرد کا چہرہ دیکھنا منع نہیں ہے اس لئے راہ چلتے ہوئے اجنبی مرد پر نظر پڑجائے تو اس میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے۔

اسی طرح عدت میں جائز کام کے لئے موبائل استعمال کرنے میں حرج نہیں ہے اور اس حال میں اجنبی مرد کے چہرے پر نظر پڑجانے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ عورت اجنبی مرد کا چہرہ دیکھ سکتی ہے، اس کے لئے جائز ہے۔

سوال: میں قرات کی تعلیم حاصل کررہی ہوں، روایت حفص پڑھ چکی ہوں، اب امام عاصم کوفی رحمة الله عليه کے بارے میں پڑھ رہی ہوں ۔ ہماری ٹیچر نے دوران تعلیم کہا کہ امام عاصم کوفی رحمةالله روزانہ ایک مرتبہ مکمل قرآن کی تلاوت کرتے تھے اور انہوں نے آخری عمر تک جب تک وہ پڑھ سکتے تھے یہ عمل کیا، میرا سوال یہ ہے کہ کیا ان کے بارے میں یہ بات درست کہی گئی ہے اور اگر درست ہے تو کیا یہ عمل سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف نہیں ہے؟

جواب:میرے علم کے مطابق عاصم کوفی کے بارے میں ایسی کوئی بات منقول نہیں ہے البتہ ان کے ایک شاگرد شعبہ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ روزانہ ایک رات میں پورا قرآن ختم کرتے تھے۔ اور بھی کئی سلف کی طرف منسوب ہے کہ روزانہ مکمل قرآن پڑھا کرتے تھے۔ ان میں کچھ روایات ثابت تو کچھ غیرثابت ہیں۔

تلاوت قرآن کے سلسلے میں ہمیں رسول اللہ ﷺ کی کیا سنت ملتی ہے، یہ دیکھنا چاہئے۔ حدیث رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ تین دن سے کم میں قرآن کی تلاوت نہیں کرنا چاہئے۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :لاَ يفقَهُ من قرأَهُ في أقلَّ من ثلاثٍ(صحيح أبي داود:1390)

ترجمہ : جس نے قرآن تین دن سے کم میں پڑھا اس نے قرآن سمجھا ہی نہیں۔

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن سمجھ کر پڑھنا چاہئے اور اس میں یہ بھی دلیل ہے کہ قرآن تین دن سے کم میں نہیں ختم کرنا چاہئے، یہی افضل طریقہ ہے۔

سوال : کیا فوت شدہ شوہر کی طرف سے بیوی قرآن پڑھ سکتی ہے یا فوت شدہ بیوی کے لئے شوہر قرآن پڑھ سکتا ہے؟

جواب:قرآن پڑھ کر میت کو بخشنا یا میت کے لئے قرآن پڑھنا بدعت ہے کیونکہ کتاب وسنت میں اس کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں:من عمل عملا ليس عليه امرنا فهو رد.(صحیح مسلم:1718)

ترجمہ: جس نے کوئی ایسا کام کیا جو دین میں سے نہیں ہے وہ باطل و مردود ہے۔

اس وجہ سے کوئی بیوی اپنے فوت شدہ شوہر کے لئے یا کوئی شوہر اپنی فوت شدہ بیوی کے لئے قرآن نہیں پڑھے گا، یہ بدعت ہے۔ اگر کوئی میت کے لئے قرآن پرھتا بھی ہے تو اس سے میت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا اس لئے ایسے عمل سے باز رہیں۔ میت کے لئے کثرت سے دعائے استغفار کریں، یہی افضل و بہتر ہے۔

سوال: حاملہ عورت کی عدت کب تک ہوگی؟

جواب:اللہ تعالی فرماتا ہے:وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ(الطلاق:4)

ترجمہ: اور جو حمل والی ہیں ان کی عدت یہ ہے کہ وہ اپنا حمل وضع کر دیں۔

اس آیت میں اللہ تعالی نے حمل والی عورتوں کی عدت بیان کیا ہے۔ عورت کو خواہ طلاق ہوئی ہو یا اس کا شوہر فوت ہوا ہو ان دونوں صورتوں میں حمل والی عورت کی عدت وضع حمل ہے یعنی جب تک اسے بچہ پیدا نہ ہوجائے تب تک اس کی عدت ہے۔

سوال:میری فیملی اہل حدیث نہیں ہے، میرے والد صوفی خاندان سے ہیں اور وہ نماز بھی نہیں پڑھتے ہیں بلکہ ان کو دین سے کوئی لینا دینا بھی نہیں ہوتا ۔ ان میں کفر و شرک بھی موجود ہے، وہ پولیس آفیسر ہیں اور آج کل تقریبا دس دنوں کے لئے یا اس سے زیادہ کے لئے پوجا میں ان کی ڈیوٹی لگی ہوئی ہے۔ اپنی ڈیوٹی کے لئے اٹھنے کے واسطے مجھے الارم لگانے کے لئے کہتے ہیں، اگر میں الارم نہ لگاؤں تو غصہ کرتے ہیں ،گالی دیتے ہیں اور چیختے چلاتے ہیں، اس میں گھر والے بھی پریشان ہوں گے اور مجھے ہی کوسیں گے، تو کیا مجبوری میں الارم لگا سکتی ہوں دل میں برا جان کر؟

جواب:مسئلہ فقط الارم کا نہیں ہے بلکہ باپ کے بے دین ، بے نمازی اور کفر و شرک پر ہونے اور غیراللہ کی عبادت کی جگہ ڈیوٹی کرنے کا ہے۔ یہ سارے کام اسلام مخالف ہیں بلکہ بہت سارے ایسے اعمال ہیں جن کے کرنے یا بولنے سے آدمی اسلام سے ہی نکل جاتا اور مرتد ہوجاتا ہے۔ آپ نواقض اسلام کا ضرور مطالعہ کریں تاکہ اس بارے میں آپ کو شریعت سے مکمل رہنمائی مل سکے اور اپنے گھروالوں کو بطور خاص اپنے والد کو حق بات بتاسکیں۔

اسی مناسبت سے پچھلے جمعہ میرا ایک بیان بھی تھا جسے آپ کے لئے سننا بیحد ضروری ہے تاکہ اپنے گھر والوں کی صحیح رہنمائی کرسکیں۔ بیان کے لئے لنک پر کلک کریں۔
https://www.youtube.com/watch?v=Jyp7RMKxmQo&t=3s
سوال میں الارم کا مسئلہ پوچھا گیا ہے، آپ بروقت یہ کام کردیں گوکہ یہ بھی ایک قسم کا برائی پر تعاون ہے مگر آپ یہاں معذور ہیں۔ ساتھ ہی نواقض کا بیان پڑھیں اور میں نے جو ابھی لنک دیا ہے اس کوبھی  سنیں۔

سوال: وہ نوجوان جنہیں الجھن محسوس ہوتی ہے، جن کے خیالات میں وضاحت نہیں ہے اور جو اس وجہ سے بے مقصد اور اداس محسوس کرتے ہیں، ان کے لیے آپ کیا نصیحت کریں گے؟

جواب:نوجوان وہ طبقہ ہے جس کے کندھے پر بڑی ذمہ داری ہوتی ہے، وہ خود کے ساتھ اپنے گھر اور سماج کی بہتری اور اچھے بدلاؤ میں اچھا رول ادا کرسکتا ہے کیونکہ اس کے بازو میں سب سے زیادہ قوت و طاقت ہوتی ہے لہذا نوجوان اپنے وقت اور اپنی ذمہ داری کو محسوس کرے۔ جب وہ خود کو قوم وملت کا نایاب ہیرا سمجھے گا تو اسے مایوسی نہیں ہوگی، وہ فولاد بن کر باطل قوتوں سے ٹکرائے گا اور ڈٹ کر حق کی نشر واشاعت کرے گا۔ اللہ تعالی ایک چھوٹی سورت نازل فرمائی ہے، اس میں یوں تو سارے مسلمانوں کے لئے تعلیم دی گئی ہے بطور خاص نوجوان اس سورت کی روشنی میں اپنی زندگی گزارے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:

وَالْعَصْرِ (1) إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ (2) إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (3)
ترجمہ: زمانے کی قسم، بیشک (بالیقین) انسان سرتا سر نقصان میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان ئے اور نیک عمل کیے اور (جنہوں نے) آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔

بظاہر یہ چھوٹی سورت ہے مگر مومن کی پوری زندگی اور زندگی کے تمام شعبہ کو شامل ہے۔ وہ نوجوان جو دینی تعلیم سے ناآشنا ہے وہ علماء اور علم کی مجلس سے جڑ کر تعلیم حاصل کرے اور شریعت کی روشنی میں خود کو ڈھالے، عبادت کا پابند بنے اور جس قدر ہوسکتا ہے وہ اہل علم کے ساتھ مل کر سماج کی اصلاح کا کام کرے۔ جو نوجوان علماء میں شمار ہوتے ہیں وہ سماج کی اصلاح کا اصل ذمہ دار ہیں ، انہیں اصلاح کرنی ہی ہے، ساتھ ہی سماج کے دیگر نوجوانوں کو بھی خود سے جوڑ کر ان کی صلاحیت کے مطابق کام لے اور ان کو بھی تعلیم و تربیت سے لیس کرے۔

اس جگہ ایک افسوس کی بات یہ ہے کہ نوجوان صرف دنیاوی ترقی کو کام سمجھتا ہے اس لئے جس کو دنیاوی ترقی نہیں ملتی وہ مایوس رہتا ہے اور جس کو دنیاوی ترقی مل جاتی ہے وہ اسی میں مگن رہتا ہے، دین سے کوئی سروکار نہیں رہتا۔

یاد رکھیں، اللہ نے اس دنیا میں ہمیں اپنی عبادت کے لئے بھیجا ہے ، یہ دنیا فانی ہے یہاں پر اچھے اعمال کرنا ہے تاکہ آخرت میں بہتر بدلہ ملے۔ دنیاوی ترقی حاصل کرنے کی ممانعت نہیں ہے مگر اللہ اور اس کے رسول کے احکام کو بھول جانا دانشمندی نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے آخرت میں پچھتانا پڑے گا، اس لئے وہ دن نہ دیکھنا پڑے، دنیا میں ہی اپنی ذمہ داری کا احساس کرلیں۔ قرآن کی ایک آیت پڑھیں اور اندازہ لگائیں کہ اصل کامیابی کیا ہے اس کی فکر کریں۔فرمان الہی ہے :

كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۖ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ(آل عمران:185)

ترجمہ: ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن اپنے بدلے پورے پورے دئے جاؤگے ، پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے بے شک وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کی جنس ہے ۔

سوال: ایک خاتون ہے جس کے بیٹے کے لئے رشتہ کی بات چل رہی ہے، بیٹا میڈیکل وغیرہ کی پڑھائی کیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ سامنے سے خود بہت رشتے آتے ہیں اور جب یہ لوگ انہیں میں سے کسی رشتے پر حامی بھر کر اپنے بیٹے کا بائیو ڈاٹا بھیجتے ہیں تو وہاں سے جواب آتا ہے کہ ہمارا استخارہ اطمینان بخش نہیں تھا یا بیٹی ابھی پڑھ رہی ہےیعنی  اس قسم کے وجوہات بیان کرتے ہیں ۔مطلب پہلے خود ہی رشتہ کے لئے فورس کرتے ہیں پھر بائیو ڈاٹا جانے کے بعد انکار کرتے تو اس خاتون کا کہنا ہے کہ کہیں کوئی خاندان میں سےکسی نے  بندش وغیرہ تو نہیں کردیا ہے۔ کیا ہم کوئی دعا وغیرہ کرواسکتے ہیں؟

جواب:سوال سے بظاہر معلوم ہوتا ہے یہ عورت خواہ مخواہ شک و شبہ کرنے والی اور دل میں وسوسہ پالنے والی ہے۔ معقول بات یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنی بیٹی کا رشتہ کسی کے یہاں تبھی لے کر جاتا ہے جب اسے لڑکا پسند ہوتا ہے، ایسے میں لڑکی والے کی طرف سے انکار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ وہ تو نکاح کا پیغام لے کر گیا ہے۔ بھلا وہ لڑکے کا بایو ڈاٹا دیکھ کر کیوں انکار کرے گا؟ یہ بندش وندش نہیں ہے، ذہن کا فتور ہے بس ۔ اس کو رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث بتائیں۔ یہ حدیث بخاری (4802) اورمسلم (1466) نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت سے شادی چار اشیاء کی وجہ سے کی جاتی ہے، اس کے مال، حسب نسب، حسن، اور دین کیوجہ سے، دین دار کو پالو تمہارے ہاتھ خاک آلود کر دے گی۔

آپ اس خاتون کو اس حدیث کی روشنی میں بتائیں کہ اپنے بیٹے کو ڈاکٹری پڑھایا ہے تو اس کے نکاح میں دنیاوی سوچ و فکر نہ رکھیں بلکہ لڑکی کے دین اور اخلاق کی بنیاد پر شادی کریں، جلد ہی بیٹے کی شادی ہوجائے گی لیکن جب دنیاوی سوچ ہوگی تو مشکلات آسکتی ہیں۔

سوال: اگر کسی نے ہمبستری کی پھر اسکے بعد اس ڈر سے دوا کھا لے کہ کہیں حمل نہ ٹھہر جائے تو کیا یہ صحیح ہے؟

جواب: ضرورت اور مصلحت کے وقت حمل روکنے والی مناسب تدبیر اپنائی جاسکتی ہے، شرعا اس کی گنجائش ہے۔ بلاعذر حمل روکنے کی کوشش کرنا درست نہیں ہے کیونکہ نکاح کا ایک مقصد اولاد کا حصول بھی ہے۔

جس کسی عورت کے ساتھ کوئی مصلحت ہو اور وہ حمل روکنے کی جائز و مناسب تدبیر کرنا چاہے تو تدبیر کرسکتی ہے تاہم جماع سے پہلے تدبیر کرے، جماع کرنے کے بعد دوا کھانا صحیح نہیں ہے کیونکہ حمل بننے کے بعد اسے ساقط کرنا بڑا بھاری گناہ ہے، یہ قتل کے زمرے میں آتا ہے۔ جماع سے پہلے یا جماع کے وقت مثلا کنڈوم استعمال کرے یا عزل (منی شرمگاہ کے باہر خارج کرنا) کرے حرج نہیں ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔