Tuesday, September 30, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات (78)

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات (78)

جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ- سعودی عرب

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سوال: ایک خاتون نے ایک نئے مسلم سے شادی کی ہے، اس کا پورا گھرانہ مسلم ہوگیا ہے مگر ان میں سے کسی نے اپنا نام نہیں تبدیل کیا ہے۔ میاں بیوی کے کاغذات میں وہی پرانے نام ہے، اب جب بچہ آئے گا تو اس کے کاغذات میں بھی وہی شرکیہ نام آئے گا، ایسے میں کیا کرنا چاہئے۔ نام بدلنے کو کہا جاتا ہے تو جواب دیتے ہیں کہ اللہ نام نہیں دیکھتا بلکہ دل اور نیت دیکھتا ہے؟

جواب: نام کے سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ ہندی زبان میں نام ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا یعنی اگر لفظ کا معنی درست ہو تو ہندی نام بھی رکھا جاسکتا ہے۔ آپ بنگلہ دیش جائیں گے تو پتہ چلے گا کہ وہاں کے مسلمانوں کے بہت سارے نام ہندی ہیں جیسے سورج، آکاش اور وجے وغیرہ۔ اسی طرح امریکہ جائیں گے تو بہت سارے مسلمانوں کے نام انگریزی میں آپ کو ملیں گے، گویا زبان کے فرق سے نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ معنی درست ہو۔ ہاں یہاں اس بات کا ضرور خیال کرنا چاہیے کہ جو مسلمان جس معاشرے میں رہتا ہو اس کا خیال کرکے اس زبان میں نام رکھے تاکہ وہاں کے دوسرے مذاہب کے لوگوں سے مسلمانوں کی الگ شناخت ہو۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر نیومسلم فیملی میں کسی کا نام شرکیہ یا غلط ہے تو پھر اسے بدلنا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو کوئی مسلمان ہوتا اور نام کا معنی درست نہیں ہوتا تو نام بدل دیا جاتا تھا۔

سوال میں جن نئے مسلمانوں کا ذکر ہے ان میں سے کسی کا نام مذکور نہیں جس سے اندازہ لگایا جاسکے کہ ان کے نام میں کچھ خرابی ہے یا نہیں؟

بہرکیف! اس سلسلے میں قریب کے عالم دین سے نام کا ذکر کرکے ان سے مشورہ لیں، اگر بدلنے کی ضرورت پڑے تو عالم کے ذریعہ فیملی کو نصیحت کروائیں، بلاشبہ وہ مان لیں گے۔

نام کی وجہ سے آنے والے بچے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، بچہ اپنی جگہ اپنی الگ پہچان رکھے گا تاہم نام میں معنوی خرابی ہو تو اسے بدل دینا چاہیے اور انے والے بچوں کا نام مسلم ماحول کے مطابق رکھنا چاہیے۔

سوال: تقریبا دوسو لیٹر پانی کے ٹینک میں چھپکلی ٹوائلیٹ کردے یا پھر اس پانی میں بلی کے ٹوائلیٹ کا کچھ حصہ گرجائے تو کیا وہ پانی ناپاک ہوجائے گا؟

جواب:پانی کی پاکی اور نجاست کے سلسلے میں صحیح مسئلہ یہ ہے کہ اگر پانی میں نجاست گرنے سے اس کا رنگ یا اس کی بو یا اس کا مزہ بدل جائے تب اس کا پانی ناپاک مانا جائے گا خواہ وہ پانی زیادہ ہو یا کم ہو یعنی دو سو لیٹر بھی پانی ہو لیکن اس میں نجاست گرنے سے اس کا رنگ یا اس کی بو یا اس کا مزہ، ان تین اوصاف میں سے کچھ بھی تبدیل نہ ہو تو وہ پانی پاک مانا جائے گا، اس سے وضو کر سکتے ہیں اور غسل کر سکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال: ایک خاتون کا بیٹا حافظ قرآن ہے لیکن وہ عورت غیر مردوں سے ملتی جلتی اور ان سے باتیں کرتی ہیں اور گالی گلوج بھی کیا کرتی ہے۔ جب میں نے اس کو اس سے منع کیا تو وہ کہتی ہے کہ میرا بیٹا مجھے بخشوا لے گا۔ کیا یہ بات درست ہے کہ عورت بے حیا اور گالی باز ہو تب بھی اس کا حافظ بیٹا بخشوا لے گا؟

جواب:لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ جس کے گھر میں حافظ قرآن ہو وہ اپنے گھر کے دس لوگوں کے بارے میں شفاعت کرے گا، یہ بات ثابت نہیں ہے، یہ بات غلط ہے۔

جس کے گھر میں حافظ قرآن ہو اور اگر اس کے گھر میں کوئی شرابی، زانی یا بے حیا ہو تو ایسے مجرموں کو اپنے جرم کی سزا ہرحال میں ملے گی۔ گھر میں حافظ قرآن ہونے سے اس کا جرم معاف نہیں ہو پائے گا بلکہ حافظ قرآن کو خود بھی اس وقت فائدہ ملے گا، جب وہ قرآن کا مطلب سمجھتا ہو اور قرآن پر عمل بھی کرتا ہو، ورنہ صرف قرآن حفظ کرنے سے اس کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

احادیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ جو صاحب قرآن یا قاری قرآن ہے اس کو قرآن کی فضیلت نصیب ہوگی اور صاحب قرآن یا قاری قرآن وہ ہے جو قرآن کے حقوق کو ادا کرتا ہے یعنی اس کو سمجھ کر پڑھتا ہے، اس میں غور و فکر کرتا ہے، اس پر عمل کرتا ہے اور اس کی تبلیغ کرتا ہے۔

سوال: کیا ریزر کے ساتھ عورت اپنے غیر اضافی بال اتار سکتی ہے؟

جواب:عورت اپنے غیر ضروری بالوں کی صفائی ریزر، استرا لوہا، پاؤڈر یا کریم کسی بھی چیز سے کرسکتی ہے، اس میں کسی بھی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

لوگوں میں یہ مشہور ہے کہ عورت زیرناف کی صفائی کے لئے لوہے کا استعمال نہیں کر سکتی ہے، یہ جھوٹی بات ہے۔ صحیح بخاری میں حدیث ہے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب تو رات کے وقت آئے تو اپنی اہلیہ کے پاس اس وقت تک نہ جا یہاں تک کہ وہ عورت جس کا خاوند اس سے دور رہا ہے وہ لوہا استعمال کر لے یعنی زیرناف بال مونڈ لے اور پراگندہ بالوں والی کنگھا کر لے۔(بخاری:5246)

اس حدیث میں " تستحد المغیبۃ" کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، اس کا مطلب ہی ہوتا ہے عورت کا لوہا یعنی استرا استعمال کرنا۔ گویا ہمیں حدیث سے بھی ثبوت ملتا ہے کہ عورت غیر ضروری بالوں کی صفائی کے لئے لوہا اور استرا وغیرہ کا استعمال کرسکتی ہے۔

سوال: بچے کی پیدائش کے بعد چالیس دن پر نہائی مگر پھر بھی خون آرہا ہے تو ایسے میں مجھے نماز پڑھنا چاہئے؟

جواب: نفاس کی اکثر مدت چالیس دن تک ہوتی ہے۔ ایک عورت کو برابر خون آتا رہے تو چالیس دن کے بعد غسل کرکے نماز کی پابندی کرے گی۔ اس کے بعد آنے والا خون نفاس کا خون نہیں مانا جائے گا کیونکہ نفاس کی اکثر مدت صرف چالیس دن تک ہے۔ لہذا آپ اپنی نماز جاری رکھیں اور آنے والے خون کو کچھ بھی شمار نہ کریں۔

سوال: کیا (عزّة)نام رکھ سکتے ہیں ، یہ لفظ قرآن سورہ یونس میں بھی آیا ہوا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ تمام عزت، اللہ کے لئے ہی ہے؟

جواب:((عِزَّۃ)) جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے، یہ نام بھی رکھ سکتے ہیں ، اس کا معنی شرافت ، غلبہ اور عزت کے ہے۔
((عَزَّہ)) عین کے زبر کے ساتھ نام رکھتے ہیں تو یہ صحابیہ کا نام ہوجائے گا۔ صحیح مسلم(1449) نمبر کی حدیث میں ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی بہن کا نام یہی ((عَزَّہ)) آیا ہوا ہے۔

لہذا عین کے زبر اور زیر کے ساتھ دونوں طرح سے یہ نام رکھا جاسکتا ہے۔

سوال: ایک عورت سے عصر کی نماز چھوٹ گئی تو کیا وہ مغرب کے ساتھ ملا کر پڑھ سکتی ہے؟

جواب: اولا جس کی عصر نماز چھوٹ جائے وہ فورا اسی وقت ادا کرلے جب اسے فرصت ملے۔ عصر کی نماز کی بڑی اہمیت آئی ہے، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

من فاتَتْه العصرُ فكأنما وَتِرَ أهلَه ومالَه(صحيح مسلم:626)

ترجمہ: جس کی عصر کی نماز فوت ہوگئی گویا اس کے اہل و عیال اور مال و دولت( سب کچھ) تباہ و برباد ہوگئے۔ جس سے عصر کی نماز کسی عذر کی وجہ سے چھوٹی ہے یہاں تک کہ مغرب کا وقت ہوگیا تو وہ پہلے عصر کی نماز پڑھے پھر مغرب کی نماز پڑھے یعنی نماز میں ترتیب قائم رکھے۔

سوال: بعض دوائیوں میں جیسے کیلشیم وغیرہ میں بھیڑ کے بال یا اس کی جلد میں سے کوئی چیز ڈالتے ہیں تو کیا ان دواؤں کو استعمال کرسکتے ہیں یا اس کے بارے میں پتہ لگانا ہوگا کہ حلال طریقہ پر ذبح ہوا کہ نہیں یا اس کی جلد کو دباغت دی گئی کہ نہیں ؟

جواب: کسی دوا میں کسی جانور کا کوئی حصہ شامل ہو تو یہ دیکھنا اور جاننا ضروری ہے کہ جانور حلال ہے یا حرام پھر اگر حلال جانور ہے تو یہ دیکھنا ہے کہ اسے شریعت کے مطابق ذبح کیا گیا ہے کہ نہیں؟ اس بنیاد پر جب کسی دوا میں حلال جانور کا حصہ شریعت کے مطابق ذبح کرکے شامل کیا گیا ہو اسی دوا کو استعمال کرسکتے ہیں۔

سوال: ایک خاتون کے پاس اپنا ذاتی مکان ہے اور اس کے علاوہ دوسری کرایہ والی پراپرٹیز سے منافع آتا ہے تو زکوۃ کرایہ پہ دینی ہے جو کہ چوبیس لاکھ ہے یا پراپرٹی پہ جو دو کروڑ کی ہے یا دونوں کو ملا کر دینا ہے۔ اور دوسری زمین بھی ہے جو ذاتی مکان کے علاوہ ہے اس کا کیا حکم ہے، اگر اس نے اس کو بیچ کر اتنی ہی قیمت کی کوئی دوسری زمین لی ہے، تو کب اس کی زکوۃ نکالے گی؟

جواب: گھر ، مکان اور غیر تجارتی زمین پر کوئی زکوۃ نہیں ہے۔ کرایہ والی جگہ، زمین اور مکان کے صرف کرایہ پر زکوۃ ہے۔ اور یہ زکوۃ بھی دو شرطوں کے ساتھ دینی ہے، جب وہ کرایہ نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر ایک سال گزر جائے۔اور جو زمین تجارتی نہ ہو یعنی بیچنے کی نیت سے نہ ہو اس زمین کی کوئی زکوۃ نہیں ہے۔

سوال: ایک خاتون کے پاس بارہ تولہ سونا ہے، اس کے گھر کے حالات بہت خراب ہیں۔ شوہر ٹرک چلاتے ہیں اور قرض دار بھی ہیں، اسی آمدنی سے قرض ادا کرتے ہیں۔ اس آمدنی سے زکوة نہیں نکال سکتی اور سونا بیچنا نہیں چاہتی کیونکہ وہ بیٹیوں کی شادی کے لئے رکھا ہے۔ کسی جاننے والی نے اس کو کچھ رقم بطور صدقہ دی ہوئی ہے۔ وہ پوچھتی ہے کہ کیا وہ اس صدقہ کی رقم کو بطور زکوة کی ادائیگی استعمال کرسکتی ہے؟

جواب:اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ اگر بیٹیوں کے لئے سونا رکھا ہے تو اس کے نام سے علاحدہ کردے، اس صورت میں ہر بچی کا الگ الگ نصاب دیکھا جائے گا اور سونا تقسیم ہونے سے نصاب تک نہیں پہنچے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب تک خاتون کی اپنی ملکیت میں ہے اور دس تولہ سونا ہے تو سالانہ اعتبار سے ہرسال اس کی زکوۃ دینی ہوگی۔ جو پیسہ نفلی صدقہ کے طور پر اسے ملا ہے یہ اس خاتون کی ملکیت ہوگئی۔ وہ اب اس پیسے سے زکوۃ دے سکتی ہے۔

یہاں آئندہ کے لیے ایک امر کی وضاحت کر دیتا ہوں کہ زکوۃ کے لیے آئندہ سال بھی دشواری ہوگی تو وہ پہلے سے ہی تھوڑا تھوڑا پیسہ بچا کر رکھے تاکہ وہ جمع شدہ پیسے سے زکوۃ ادا کرسکے۔

سوال: اگر کسی ہمسائے کو پیسے ادھار دیں پھر انکے گھر سے کوئی کھانے پینے کی چیز آجائے یا آپ اس کے گھر جاتے اور وہ مہمان نوازی کرتے ہیں آپ اس کے گھر سے کھاپی لیتے تو کیا یہ سود کے زمرے میں آئے گا کیونکہ میں نے سنا تھا کہ نیک لوگ جب کبھی ادھار دیتے تو اس کے گھر کے سائے میں بھی نہیں بیٹھتے تھے اور کسی قسم کا فائدہ نہیں لیتے تھے کہ سود کے زمرے میں نہ آجائے؟

جواب: یہ جو آپ نے سنا ہے یا جو کوئی ایسا سوچتا اور کرتا ہے کہ قرض دینے والے کے سائے میں بھی نہیں رہنا ہے، اس کا کچھ بھی نہیں کھانا اور نہ لینا ہے اس بات کا شریعت اسلامیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ لوگوں کی ذاتی بات ہے۔

ایک بستی میں جہاں ہم رہتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ لین دین، تعلقات ، ہدیہ تحفہ اور ایک دوسرے کے یہاں کھانا پینا چلتا ہے، اس میں کسی طرح کا کوئی حرج نہیں ہے۔

جہاں تک مسئلہ ہے سود کا تو اسے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سود کس کو کہتے ہیں؟

ایک آدمی کسی کو قرض دے اور یہ کہے کہ اس قرض کے بدلے مجھے دعوت کھلاؤ، مجھے اتنا پیسہ دو، مجھے یہ فائدہ دو یعنی قرض دیتے ہوئے قرض دینے والا اگر کوئی شرط لگائے تو یہ سود ہے لیکن جس نے قرض لیا ہے وہ اپنی خواہش سے اگر قرض دینے والے کو اپنے گھر بلائے یا اس کو کوئی تحفہ دے حتی کہ قرض لوٹاتے وقت کچھ زیادہ پیسہ ہی کیوں نہ دیدے تو اس کے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اس لئے اس مسئلہ کو اچھی طرح سمجھیں کہ اگر قرض دیتے وقت کوئی شرط طے نہیں ہوئی ہے تو قرض لوٹانے والا آدمی قرض کے ساتھ کچھ زیادہ دینا چاہے یا کچھ تحفہ دینا چاہے تو وہ دے سکتا ہے اور قرض دینے والا آدمی وہ تحفہ یا زیادتی قبول کرسکتا ہے اس میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے۔ صحیح بخاری (2393) میں ایک حدیث ہے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر مخصوص عمر کا اونٹ قرض تھا، وہ شخص اپنا قرض لینے کے لیے آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اسے اس کا اونٹ دے دیا جائے۔ صحابہ کرام نے تلاش کیا مگر مطلوبہ عمر سے بڑی عمر کا اونٹ ہی ملا، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے وہی دے دو یقینا تم میں سے بہتر وہ ہے جو بہتر انداز سے قرض چکائے۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قرض چکانے والا اگر قرض چکاتے وقت کچھ زیادہ دیدے تو حرج نہیں ہے لیکن یہ معاملہ پہلے سے مشروط نہ ہو۔

سوال: آجکل HPV نام کی ویکسین کم عمر بچیوں کو لگانے کی مہم سوشل میڈیا پر عام ہورہی ہے۔ واقعی میں جو فوائد بتائے جارہے ہیں وہ سچ ہے یا نہیں لیکن اس ویکسین کا لگانا کہیں توکل کے خلاف تو نہیں ہوگا؟

جواب: اسلام نے احتیاط برتنے، تدبیر کرنے اور جائز اسباب اختیار کرنے کی اجازت دی ہے بلکہ حکم بھی دیا ہے۔انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا اللہ کے رسول کیا میں اونٹ کو پہلے باندھ دوں پھر اللہ پر توکل کروں یا چھوڑ دوں پھر توکل کروں؟ آپ نے فرمایا: اسے باندھ دو پھر توکل کرو۔(ترمذی:2517)

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جائز تدبیر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لہذا پاکستان میں احتیاط کے مدنظر لڑکیوں کے لئے ایچ پی وی انجیکشن لگانے کی جو مہم شروع کی گئی ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور یہ توکل کے خلاف نہیں ہے۔

سوال: ایک بچہ بہت بیمار رہتا ہے، ہر مہینے لازمی بخار رہتا ہے۔ گھر میں سب لڑکیاں ہی ہیں ، وہی اکلوتا بیٹا ہے، کیا اس کو نظر لگتی ہے۔ والدین اس پر دم کرتے ہیں پھر بھی اکثر بیمار رہتا ہے۔ جب کچھ ٹھیک ہوتا ہے پھر اسے نظربد لگ جاتی ہے ، دم بھی کیا جاتا ہے پھر بھی یہ حال ہے جبکہ صحت کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کیا یہ جادو وغیرہ ہے یا اور کوئی مسئلہ ہے؟

جواب: ہمارے سماج میں مسئلہ یہی ہے کہ کسی کی طبیعت خراب ہوتی ہے تو لوگ فوراً نظربد یا اثرات اور آسیب کا وہم و گمان کرنے لگتے ہیں جبکہ بیماری کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ اللہ تعالی مختلف قسم کی پریشانی اور بیماری بھیج کر ہمیں آزماتا ہے۔ ایسی صورت میں اولا ہمیں صبر کرنا ہے اور دوسرے نمبر پر اس کے ازالہ کے لیے جائز اسباب اختیار کرنا ہے۔ یہ بھی ہمارے علم میں رہے کہ اللہ تعالی نے ہربیماری کے لیے علاج نازل کیا ہے۔

بچے کے جسم میں جس قسم کی بھی پریشانی ہو اس کے لیے قریبی ڈاکٹر سے دکھائیں۔ ایک سے ٹھیک نہ ہو، دوسرے کو دکھائیں، تیسرے کو دکھائیں، ساتھ ساتھ بچے پر دم بھی کیا کریں لیکن طبیب سے مراجعہ کرتے رہیں۔

سوال:ایک لڑکی بیرون ملک ایک شراب بیچنے والی کمپنی کے پوسٹرز آنلائن بنا کر دے رہی تھی۔ ابھی قرآن میں شراب کی حرمت کے متعلق پڑھا، اپنے غلط کام پر افسوس بھی ہوا لیکن کمپنی کے ساتھ اس کا اگريمنٹ ہے۔ اب اس صورت میں وہ کیا کرے۔ کیا ابھی جو پراجیکٹ چل رہا ہے أسے مکمل کرلے؟

جواب: شراب بیچنے والی کمپنی کے لیے پوسٹر بنانا گناہ کے کام پر تعاون ہے اور اللہ تعالی نے ہمیں گناہ کے کام پر ایک دوسرے کا تعاون کرنے سے منع فرمایا ہے۔ جس کسی نے اس طرح کے کام کا پروجیکٹ لے رکھا ہے، اسے فوراً اس پروجیکٹ کو مسترد کر دینا چاہیے کیونکہ اس سے نہ صرف حرام کمائی آرہی ہے جس سے گھر بار اور زندگی متاثر ہو رہی ہے بلکہ اس کام کی وجہ سے پل پل گناہ بھی مل رہا ہے کیونکہ یہ گناہ کے کام پر تعاون ہے۔

جب اللہ تعالی نے شراب حرام کی تھی اس وقت صحابہ نے یہ نہیں سوچا کہ ہم بعد میں شراب پینا چھوڑ دیں گے بلکہ یکلخت شراب سے انہوں نے کنارہ کشی اختیار کر لی۔

سوال: زکوة کی رقم پانی کے کنوئیں وغیرہ بنانے کی مد میں کوئی دینا چاہے تو دی جاسکتی ہے۔کیا یہ فی سبیل اللہ میں آتا ہے کیونکہ کسی کا کہنا ہے کہ پانی کے کنوئیں میں کافی رقم درکار ہوتی ہے تو لوگوں کو زکوة کی رقم اس مد میں دینا چاہیے؟

جواب: اسلام میں زکوۃ کے مصارف متعین ہیں، قرآن نے ان کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے اور وہ فقط آٹھ مصارف ہیں۔
کنواں بنانے کے لیے زکوۃ نہیں دیں گے خواہ اس کی تعمیر میں جتنا بھی پیسہ لگے کیونکہ یہ زکوۃ کا مصرف نہیں ہے اور فی سبیل اللہ سے صرف جہاد مراد ہے۔

سوال: میں عشاء کی نماز پڑھ رہی تھی اور جب سورۃ الفاتحہ میں "وَلاَ الضَّالِّينَ" کو لمبا کرکے پڑھ رہی تھی تو میری امی کی بات پر مجھے تھوڑی سی ہنسی آگئی اور ایک ہلکی سی چیخ جیسی ہنسی نکل گئی جو صرف مجھے ہی سنائی دی۔ پھر میں نے وہی آیت مکمل کرکے "آمین" کہہ دیا اور دوبارہ نہیں دہرایا۔کیا میری نماز صحیح ہے؟

جواب: نماز پڑھتے ہوئے اگر ہلکی سی مسکراہٹ آجائے تو اس سے نماز باطل نہیں ہوتی لیکن اگر کھل کھلا کر یا قہقہ کے ساتھ کوئی نماز میں ہنس دے تو اس کی نماز باطل ہو جاتی ہے۔ چونکہ آپ نے نماز میں چیخ کر ہنسی نکالی ہے اس وجہ سے آپ کی نماز باطل ہوگئی، اس نماز کو پھر سے دہرانا ہوگا۔

سوال: اگر نماز پڑھتے ہوئے انجانے میں دوپٹے سے باہر ایک بال بھی ظاہر ہو جائے تو کیا نماز کو دہرانی پڑے گی؟

جواب: نماز پڑھتے ہوئے ایک آدھ بال دوپٹے سے باہر ہوجائے تو اس سے نماز باطل نہیں ہوتی ہے اور دین اتنا مشکل نہیں جتنا آپ سمجھ رہے ہیں۔ اللہ تعالی نے دین کو آسان بنایا ہے، اسی وجہ سے اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو استطاعت کے مطابق دین پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے۔

سوال: عسقلان جسے آج کل غزہ کہتے ہیں اس بارے میں حدیث کی کیا حیثیت ہے؟

جواب: غزہ اور عسقلان یہ دونوں الگ الگ شہر ہیں اور ان دونوں میں چار فرسخ یعنی تقریبا اکیس کلومیٹر کی دوری ہے۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ صلیبی جنگ سے پہلے تک غزہ عسقلان کے تابع تھا۔ امام شافعی کی جائے پیدائش کے بارے میں بعض مؤرخین غزہ اور بعض عسقلان لکھتے ہیں۔
عسقلان کی فضیلت میں مسند احمد کی یہ روایت کافی بیان کی جا رہی ہے مگر یہ موضوع ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شہر عسقلان عروس البلاد میں سے ایک ہے، اس شہر سے قیامت کے دن ستر ہزار ایسے آدمی اٹھیں گے جن کا کوئی حساب کتاب نہ ہوگا اور پچاس ہزار شہداء اٹھائے جائیں گے جو اللہ کے مہمان ہوں گے، یہاں شہداء کی صفیں ہوں گی جن کے کٹے ہوئے سر ان کے ہاتھوں میں ہوں گے اور ان کی رگوں سے تازہ خون بہہ رہا ہوگا اور وہ کہتے ہوں گے کہ پروردگار! تو نے ہم سے اپنے رسولوں کی زبانی جو وعدہ فرمایا تھا اسے پورا فرما، بیشک تو وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے بندوں نے سچ کہا، انہیں نہر بیضہ میں غسل دلاؤ، چنانچہ وہ اس نہر سے صاف ستھرے اور گورے ہو کر نکلیں گے اور جنت میں جہاں چاہیں گے، سیرو تفریح کرتے پھریں گے۔ فائدہ:۔ محدثین نے اس حدیث کو " موضوع " قرار دیا ہے۔ [مسند احمد/مسند المكثرين من الصحابة/حدیث: 13356]

عسقلان کی فضیلت میں صحیح حدیث یہ ہے۔

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس معاملے کی ابتدا نبوت و رحمت سے ہوئی ہے، اس کے بعد خلافت و رحمت ہو گی اور پھر بادشاہت اور رحمت۔ بعد ازاں گدھوں کا ایک دوسرے کو کاٹنے کی طرح لوگ اس پر ٹوٹ پڑیں گے، تم جہاد کو لازم پکڑنا، بہترین جہاد، رباط (سرحد پر مقیم رہنا) ہے اور (شام کے ساحلی شہر) عسقلان کا رباط سب سے افضل ہے۔(سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی:3270)

سوال: کیا خواتین کے لیے بینک اکاؤنٹ بنانا جائز ہے اور کون سا بینک اکاؤنٹ صحيح ہوگا جس میں سود نہ ہو؟

جواب: بلا ضرورت سودی بینک میں کسی بھی قسم کا اکاؤنٹ کھلانا جائز نہیں ہے خواہ مرد ہو یا عورت ہو۔ بینک سود پر مبنی ہوتا ہے اس کے ذریعہ کسی طرح کا تعامل سود پر تعاون ہے اور یہ ناجائز ہے۔

لیکن روز مرہ کی زندگی میں بہت سارے کاموں کے لیے آدمی بینک کے لیے ضرورت مند ہوتا ہے تو ایسی ضرورت کہ تئیں مرد ہو یا عورت ہو اکاؤنٹ کھلوا سکتا ہے، اور جس اکاؤنٹ کی ضرورت ہو وہ اکاؤنٹ کھلوائے۔ باقی رہا سود کا معاملہ تو بینک میں اکاؤنٹ کھولتے ہی سود پر تعاون شروع ہو جاتا ہے چاہے آپ کوئی بھی اکاؤنٹ کھلوائیں۔


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔