Tuesday, September 30, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(77)

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(77)

جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ - سعودی عرب

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سوال: ایک خاتون کو اس کے شوہر نے منہ سے بول کر طلاق دی، گواہ شوہر کے گھر والے تھے ۔ جب دوسری مرتبہ اس نے طلاق دیا تو کوئی گواہ نہیں تھا مگر عورت حاملہ تھی اور جب تیسری مرتبہ طلاق دیا تب صرف چھوٹے بچے تھے جن میں کوئی بھی بالغ نہیں تھا۔ اس کے بعد عدالت کا ایک نوٹس بھی آیا، باقی دو ابھی نہیں دئے۔ عدت کا وقت دیکھا جائے تو وقت پورا نہیں ہوتا ہے تو کیا رجوع ہوسکتا ہے؟

جواب:طلاق دیتے وقت وہاں پر کوئی موجود ہو یا نہ ہو اس کا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، شوہر کے طلاق دینے سے طلاق ہو جاتی ہے بشرطیکہ ایسے طہر میں طلاق دی گئی ہو جس میں جماع نہ کیا ہو۔حالت حمل میں دی گئی طلاق بھی واقع ہو جاتی ہے۔عدالت کے پیپر کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے، اصل اعتبار شوہر کی زبان کا ہے۔

شوہر نے پہلی، دوسری اور تیسری مرتبہ طلاق دے دی ہے۔ دوسری طلاق کی صورت تو واضح ہے۔ اگر پہلی اور تیسری طلاق بھی حالت طہر (بغیر جماع والے) میں ہو تو ایسی صورت میں تیسری طلاق بھی واقع ہو چکی ہے اور تیسری طلاق کے بعد رجوع کا اختیار ختم ہو جاتا ہے۔ اب بہرصورت میاں بیوی میں جدائی ہو گئی ہے۔

یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ طلاق کی عدت تین حیض ہے اور عدت کے دوران کوئی طلاق واقع نہیں  ہوتی  جو پہلے طلاق دی گئی ہے وہی مانی جاتی ہے۔

سوال:ایک خاتون کو ہر ماہ سات دن تک حیض آتا ہے، حیض سے پاک ہونے کے بعد غسل کرتی ہے۔ پھر غسل کرنے کے بعد ایک قطرہ کپڑے پر لگا ہوتا ہے جب بھی غسل کرتی ہے اور ہمیشہ ہر ماہ ایسے ہی ہوتا ہے۔ اس لئے وہ پھر آٹھویں دن بھی  غسل کرتی ہے۔ کیا وہ ایک دن کی نماز قضا کریگی یا ساتویں دن غسل کرنے کے بعد نماز جاری رکھ سکتی ہے؟

جواب:اس مسئلہ میں اس خاتون کو حیض سے پاکی کا کیا مطلب ہے اسے سمجھنا پڑے گا۔حیض سے پاکی کی دو علامت ہے۔

ایک تو یہ ہے کہ اختتام حیض پر شرمگاہ بالکل خشک ہوجائے اور اس کو باقاعدہ روئی کے پھاہے سے چیک کر کے اطمینان کر لے۔

دوسرا یہ ہے کہ حیض کے انقطاع پر سفید پانی کا اخراج ہو۔ان میں سے کوئی بھی صورت حاصل ہو تو پھر عورت غسل کر لے اور غسل کے بعد کچھ مٹیالے یا دوسرے کلر میں ظاہر ہو تو اس کی طرف التفات نہ کرے، اپنی نماز شروع کر دے اور جاری رکھے۔

سوال: عمرہ کے بعد رشتہ دار عمرہ کرنے والوں کو دعوتیں کرتے ہیں، کیا یہ جائز ہے اور ایسی دعوتوں میں عمرہ کرنے والوں کو جانا چاہئے۔ جب ہم منع کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ دعوت قبول کرنا ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے؟

جواب:کوئی آدمی عمرہ پہ جا رہا ہے یا عمرہ سے آرہا ہے ہم اسے کس لیے دعوت کریں گے؟

عمرہ پہ جا رہا ہے اس لئے اس کی دعوت کرنا یا عمرہ سے واپس آیا اس لیے دعوت کرنا ،  یہ دین میں نئی ایجاد بدعت ہے اور اس بدعت سے ہمیں دور رہنا چاہیے۔

یہ بات درست ہے کہ دعوت قبول کرنا مسنون ہے اور  دعوت کا موقع پورا سال ہے، جب چاہیں کسی کو دعوت دیں مگر عمرہ کی وجہ سے جاتے ہوئے یا آتے ہوئے دعوت کرنا ، نبی ﷺ یا آپ کے پیارے اصحاب کی زندگی میں نہیں ملتا ، اس لئے یہ طریقہ  درست نہیں ہے۔

سوال: میرے رشتہ دار کے ساتھ میاں بیوی میں کچھ مسئلہ بنا تھا، بیوی اپنے میکے آگئی تھی کیونکہ اس کے سسرال والے بہت ظلم کررہے تھے پھر اس کے شوہر گھر کے باہر آکر لڑائی جھگڑا کیا، وہ خاتون تو گھر کے اندر تھی مگر باہر اس کی فیملی تھی اور آس پاس کے لوگ تھے ان سب کے سامنے تین بار بولا کہ میں آپ کی بیٹی کو طلاق دیتا ہوں۔ پھر لڑائی ہوئی اور پھر اس نے تین بار بلکہ دس بارہ دفعہ بولا کہ میں طلاق دیتا ہوں۔ اس  معاملہ کو کئی مفتی سے پوچھا تو کسی نے کہا طلاق ہوگئی تو کسی نے کہا کہ ایسے طلاق نہیں ہوتی، سامنے سے طلاق ہوتی ہے۔ اس بارے میں صحیح جواب عنایت کریں؟

جواب: طلاق دینے کے لیے بیوی کا سامنے ہونا کوئی ضروری نہیں ہے۔ شوہر زبان سے بول کر یا لکھ کر یا کسی کی معرفت بیوی کو طلاق بھیج دے، طلاق واقع ہو جائے گی اور چونکہ ایک وقت میں آدمی ایک ہی طلاق دینے کا اختیار رکھتا ہے اسی لیے جتنی بار بھی وہ طلاق دیا ان تمام صورتوں میں صرف ایک طلاق واقع ہوگی۔یہ طلاق رجعی ہے، اگر شوہر عدت کے دوران لوٹاتا ہے تو بیوی لوٹ جائے گی ورنہ عدت گزرنے کے بعد میاں بیوی کے درمیان جدائی ہو جائے گی۔

سوال: سفر جیسی مسافت نہ ہو اگر اتنی دوری پر پکنک پر فیملی والے جائیں یا اسی طرح کسی شادی کی پارٹی میں جاتے ہیں تو وہاں پر دو نمازوں کو جمع کرکے پڑھ سکتے ہیں؟

جواب:اولا یہ یاد رکھیں کہ عورتوں کو اختلاط والی جگہوں سے دور رہنا چاہیے اور کسی بھی عمل میں غیروں کی نقالی اور اس کی مشابہت سے بھی پرہیز کرنا چاہیے یعنی غیروں کے تہوار منانا اور ان کے فنکشن کی طرح فنکشن کرنا مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ جب آدمی مسافر نہ ہو یعنی اپنی بستی اور اپنے گاؤں محلے کے قرب و جوار میں ہو تو ایسی صورت میں وہ دو نمازوں کو جمع نہیں کرے گا۔ دو نمازوں کو جمع کرنا سفر سے متعلق ہے یا کسی مشقت  اور عذر کے باعث ہے۔

سوال: اگر کوئی قرآن حفظ کر رہاہے تو کیا اس کے لئے بھی ضروری ہے کہ اپنا قرآن بھی ختم کرے اور ساتھ حفظ بھی کرتا رہے؟

جواب:ایسی بات نہیں ہے، حفظ کرنا الگ چیز ہے اور تلاوت الگ چیز ہے۔ حفظ کو حفظ سمجھیں اور تلاوت کو تلاوت سمجھیں یعنی تلاوت کے وقت تلاوت کریں اور حفظ کے وقت حفظ کریں۔

سوال: کیا دوپٹہ اتار کر وضو ہو سکتا ہے؟

جواب:اگر عورت کے آس پاس کوئی اجنبی مرد نہیں ہے تو اپنے سر سے دوپٹہ اتار کر وضو کر سکتی ہے اور اپنے سر کا مسح کر سکتی ہے لیکن اگر وہاں پر اجنبی مرد بھی موجود ہو تووہاں پر اپنے چہرہ اور بالوں کو کھولنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس سے بے پردگی لازم آئے گی۔

وضو کے لیے سر پر دوپٹہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے یعنی وضو کرتے وقت سر پہ دوپٹہ ہو یا نہیں ہو اس سے کوئی مسئلہ نہیں، وضو ہو جائے گا۔

سوال: رشتہ داری نبھانے سے متعلق ایک الجھن ہے وہ یہ ہے کہ میرا رشتہ دار اپنے سامنے گڑگڑاتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔ کسی مسئلہ میں معافی تلافی کے بعد بھی معاف کرنے کو تیار نہیں ہے۔ وہ اس انتظار میں تھا کہ کسی  کمزور ی  کاموقع ملے  اور سب کچھ ختم کردیں۔ وہ نہ اپنانا چاہتا ہے اور نہ معاف کرنا چاہتا ہے پھر اس کے ساتھ کس حد تک رشتہ نبھانا ہے؟

جواب:صلہ رحمی اسلام میں بتاکید مطلوب ہے اس لئے جو قطع رحمی کرتا ہے اس کے تعلق سے بڑی وعید آئی ہوئی ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:

لو أن رجلين دخلا فى الإسلام فاهتجرا لكان أحدهما خارجا من الإسلام حتى يرجع ، يعني: الظالم(سلسلة الاحاديث الصحيحة رقم : 2383)

ترجمہ: اگر دو آدمی اسلام میں داخل ہوں اور ایک دوسرے سے قطع تعلقی کر لیں تو ان میں سے ایک (یعنی ظلم کرنے والا ) اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ قطع تعلقی سے باز آجائے ۔

اب یہ جان لیں کہ صلہ رحمی کسے کہتے ہیں ، جب رشتہ دار، رشتہ توڑے اس وقت رشتہ جوڑنے کو صلہ رحمی کہتے ہیں، رشتہ جوڑنے والے سے رشتہ جوڑنا تو ادلہ بدلہ ہے۔ اس بارے میں حدیث دیکھیں۔ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ، وَلَكِنِ الْوَاصِلُ الَّذِي إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا(صحیح البخاری:5991)

ترجمہ:کسی کام کا بدلہ دینا صلہ رحمی نہیں ہے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ نہ کیا جا رہا ہو تب بھی وہ صلہ رحمی کرے۔

جب یہ معلوم ہوگیا کہ رشتہ توڑنے والے سے رشتہ جوڑنا ہی اصلا صلہ رحمی ہے پھر اس کی صورت بھی حدیث سے معلوم کریں کہ کس حد تک اور کیسے صلہ رحمی کرنا چاہئے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا:

أَنَّ رَجُلًا، قَالَ: " يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي قَرَابَةً أَصِلُهُمْ وَيَقْطَعُونِي، وَأُحْسِنُ إِلَيْهِمْ وَيُسِيئُونَ إِلَيَّ، وَأَحْلُمُ عَنْهُمْ وَيَجْهَلُونَ عَلَيَّ، فَقَالَ: لَئِنْ كُنْتَ كَمَا قُلْتَ، فَكَأَنَّمَا تُسِفُّهُمُ الْمَلَّ، وَلَا يَزَالُ مَعَكَ مِنَ اللَّهِ ظَهِيرٌ عَلَيْهِمْ مَا دُمْتَ عَلَى ذَلِكَ ".(صحیح مسلم:2558)

ترجمہ: ایک شخص نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے (بعض) رشتہ دار ہیں، میں ان سے تعلق جوڑتا ہوں اور وہ مجھ سے تعلق توڑتے ہیں، میں ان کے ساتھ نیکی کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ برائی کرتے ہیں، میں بردباری کے ساتھ ان سے درگزر کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ جہالت کا سلوک کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”اگر تم ایسے ہی ہو جیسے تم نے کہا ہے تو تم ان کو جلتی راکھ کھلا رہے ہو اور جب تک تم اس روش پر رہو گے، ان کے مقابلے میں اللہ کی طرف سے ہمیشہ ایک مددگار تمہارے ساتھ رہے گا"۔

اس حدیث میں برے رشتہ دار کے مختلف دلاآزاری والے رویوں کا ذکر ہے، نبی ﷺ نے اس تمام صورتوں میں شکایت کرنے والے کو صبر کرنے کی تلقین کی ہے۔ ایسے میں صلہ رحمی کرنے والے کو اللہ کی طرف سے ہمیشہ ایک مددگار نصیب ہوگا۔ اللہ کی طرف سے یہ کتنا بڑا انعام ہے لہذا ہمیں برے رشتہ داروں کے ناروا سلوک پر صبر کرنا چاہئے اور اپنی جانب سے ہرطرح سے رشتہ استوار رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

سوال: کیا عورت کے لیے وکیل، جج یا بینک میں کام کرنا جائز ہے؟

جواب:ایک عورت، عورت کے محکمہ میں یعنی جہاں مرد لوگ کام نہ کرتے ہوں ، صرف عورتیں ہی کام کرتی ہوں اس جگہ پر کام کرسکتی ہے خواہ وکیل یا جج کا کام ہی کیوں نہ ہو ۔ جیسے عورتوں کے کیس اور ان کی وکالت کے لئے عورت وکیل اور حج کا کام کرسکتی ہے لیکن اگر اختلاط مردوزن ہو تب عورت کو وہاں کام نہیں کرنا چاہئے۔ جہاں تک بنک کا معاملہ ہے تو سودی بنک میں نہ مرد کا کام کرنا جائز ہے اور نہ ہی عورت کا۔ سودی بنک کی نوکری اور اس کی کمائی حلال نہیں ہے۔

سوال: میں نے تجوید کا علم حاصل کرتے وقت اللہ کی رضا کی تھی، اب مالی حالت کمزور ہونے کے باعث تجوید کا علم دوسروں کو پیسوں کے عوض دے سکتی ہوں؟

جواب:تجوید و قرات سیکھنا اچھی بات ہے، اس بارے میں سب کی نیت رضائے الہی ہوتی ہے کیونکہ اس کا تعلق اللہ کی کتاب سے ہے۔ اس میں دنیاوی منفعت تو نہیں ہے۔ تجوید کا علم سیکھ کر دوسروں کو فیس لے کر اس کی تعلیم دے سکتے ہیں اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ بڑے بڑے علماء قرآن و حدیث اور تبلیع کا کام اجرت کے مقابلہ میں کررہے ہیں، شریعت میں اس کی گنجائش ہے لہذا فیس لے کر بلاتردد آپ تجوید کی تعلیم دوسروں کو دے سکتے ہیں۔

سوال: كیا ایک سلفی مسجد و مدرسہ کو سولر انرجی سسٹم لگا کر دینے میں زکاۃ کی رقم دے سکتے ہیں۔ مدرسہ کو ایک خاتون مکمل طور پر عطیات، صدقہ و خیرات اور زکاۃ کے پیسے سے چلاتی ہے۔ ان کو زکاۃ کی رقم دے دیں اور وہ خود اس سے سولر لگوانے کی ادائیگی کر دیں یا ہم ان کی طرف سے کریں تو کوئی حرج تو نہیں زکاۃ کے پیسے سے؟

جواب:اگر ادارہ میں تعلیم حاصل کرنے والے سارے بچے یتیم ، مسکین اور محتاج و ضرورت ہیں تو وہاں پر ان بچوں کی تعلیمی سہولت کے لئے زکوۃ دے سکتے ہیں۔ سولر سسٹم کی ضرورت ہے تو اس واسطہ بھی زکوۃ دے سکتے ہیں تاکہ وہاں پر بچوں کی سہولت کے لئے سولر لگایا جاسکے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ زکوۃ کو اس کے مستحق لوگوں میں دینا ہے، غیرمستحقوں کو نہیں۔

سوال: بہت ساری جگہوں پر گدھی کا دودھ کچھ بیماری کے علاج کے لئے پلایا جاتا ہے ، کیا اس جانور کا دودھ پینا اور گوشت کھانا جائز ہے؟

جواب:گدھا دو قسم کا ہوتا ہے، ایک پالتو اور ایک جنگلی۔جنگلی گدھا کھانا حلال ہے اور گدھی بھی حلال ہے اس لیے اس کا دودھ پینا جائز ہے لیکن پالتو گدھا اور پالتو گدھی حرام ہے گوشت اور دودھ دونوں۔

سوال: کسی اور برانڈ کا بناہوا پروڈکٹ خرید کر اور اس کا اسٹیکر ہٹاکر اپنی برانڈ کا لیول لگاکر بیچ سکتے ہیں؟

جواب:کسی دوسری کمپنی کا سامان خرید کر اور اس کا نام ہٹا کر اپنا اسٹیکر لگا کر بیچنا جائز نہیں ہے یہ دھوکہ اور فریب ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو آدمی کسی کو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

لہذا کسی بھی مسلمان کو اس طرح کا کاروبار نہیں کرنا چاہیے۔

سوال: ایک عورت کا شوہر ملک سے باہر رہتا ہے، اس کی آپس میں لڑائی ہوئی تو شوہر نے میسج پہ لکھ کے طلاق بھیج دی پھر اس کے کچھ دنوں بعد فون پر ہی ان کی صلح ہوگئی جبکہ وہ دوسرے ملک میں ہی تھا اور وہ عورت پاکستان میں تھی اور ایسے ہی پھر فون پہ آپس میں بات چیت کرنے لگ گئے تو کیا ایسے میں ان کا نکاح بحال ہے۔ اس سے گھر والے کہہ رہے ہیں کہ تمہاری طلاق ہو گئی اب تم دوبارہ نکاح کرو، وہ ایک دفعہ پاکستان آ کے اس سے مل کے بھی چلا گیا ہے لیکن اب اس کے رشتہ دار اس کو کہہ رہے ہیں آپ کا نکاح ختم ہوگیا تھا دوبارہ کریں، اس بارے میں آپ درست رہنمائی فرمائیں؟

جواب:اصل میں اپنے یہاں طلاق کے معاملہ میں لوگوں کو بنیادی باتیں بھی معلوم نہیں ہیں۔ ہمیں اس طرح کے مسائل کو گھر گھر بتانے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں میں صحیح معلومات آئے اور خصوصا طلاق سے پرہیز کریں الا یہ کہ ناگزیر حالات پیدا ہو جائیں تو شریعت کے مطابق طلاق دی جائے۔

واضح رہے کہ لکھ کر طلاق دینے سے بھی طلاق ہو جاتی ہے اور لکھ کر رجوع کرنے سے بھی رجوع ہو جاتا ہے یا فون کرکے رجوع کر لے اس سے بھی رجوع ہو جاتا ہے، اس کے لیے آدمی کو جسمانی طور پر پاکستان آنے کی قطعا کوئی ضرورت نہیں ہے۔

جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ رجوع نہیں ہوا ہے اسے دوبارہ پاکستان آکر نکاح کرنا ہوگا ان لوگوں کو اس بارے میں صحیح علم نہیں ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جب شوہر نے عدت میں فون پر رجوع کر لیا تو رجوع ہو گیا ہے اور وہ دونوں آپس میں میاں بیوی ہیں اس لیے نہ پاکستان آنے کی ضرورت ہے اور نہ نکاح کرنے کی ضرورت ہے۔

سوال: میری بھانجی کو ایک ٹرسٹی ادارے میں جاب مل رہی ہے، اس نے ڈاکٹر آف مارمیسی کی ہوئی ہے، وہاں اسے فارمیسی میں جاب ملی ہے مگر وہ کچھ کنفیوز ہے کہ وہاں جو تنخواہ ملے گی وہ اس کےلئے حلال ہوگی کہ نہیں کیونکہ وہاں تو جو رقم ہوتی ہے، وہ لوگوں کی دی ہوئی ہوتی ہے؟

جواب:اس میں ایک مسئلہ یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ خیراتی ادارہ لوگوں کے زکوۃ اور صدقات و عطیات دونوں کو جمع کر سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ زکوۃ کو الگ ایک اکاؤنٹ میں رکھے گا اور عام نفلی صدقات و عطیات کو الگ اکاؤنٹ میں رکھے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زکوۃ کے جو مصارف ہیں زکوۃ کو انہی مصارف میں خرچ کرنا ہے جبکہ نفلی صدقات حسب ضرورت جیسے چاہیں خرچ کر سکتے ہیں اس میں حرج نہیں ہے حتی کہ اس پیسے سے ٹرسٹ میں کام کرنے والے لوگوں کو تنخواہ بھی دی جا سکتی ہے البتہ زکوۃ سے تنخواہ نہیں دی جائے گی۔ ہاں جو لوگ فقراء اور مساکین کے زمرے میں آتے ہوں وہ اگر ٹرسٹ میں ملازم ہوں تو ان کو زکوۃ سے بھی تنخواہ دی جا سکتی ہے۔

اس وجہ سے اس ٹرسٹ کے بارے میں معلوم کریں کہ اس طرح ٹرسٹ کام کر رہا ہو تو یہاں پر جاب کرنے میں حرج نہیں ہے اس شرط کے ساتھ کہ یہاں پر شرعی حدود کا بھی خیال رکھا جاتا ہو یعنی پردہ کی رعایت اور اختلاط سے بچا جاتا ہو۔

سوال: عورت کے لیے نماز جمعہ کے بارے میں کیا حکم ہے جبکہ قریبی کسی مسجد میں عورتوں کے لیے الگ نماز ادا کرنے کی سہولت موجود نہ ہو؟

جواب:کسی قریبی مسجد میں عورتوں کے لیے نماز کا انتظام نہیں ہے تو اس کے لیے عورت کو فکر کی ضرورت نہیں ہے۔ عورت کے اوپر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا یا مسجد جانا ضروری نہیں ہے، عورت کی نماز اس کے اپنے گھر میں پڑھنا افضل ہے۔ یہی معاملہ جمعہ کا بھی ہے کہ عورت پر جمعہ کی نماز فرض نہیں ہے، جمعہ کے دن اپنے گھر میں ظہر کی نماز ادا کرے گی تاہم اگر وہ کہیں پر مسجد میں سہولت کی بنیاد پر جمعہ پڑھ لیتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال: عورت اگر پرفیوم یا کوئی بھی خوشبو والی چیز کا استعمال کرتی ہے اور اگر کوئی مرد وہ خوشبو سونگھ لے تو کیا اس پر غسل واجب ہو جاتا ہے۔ اسی طرح نہاتے وقت عورت شیمپو یا صابن استعمال کرے جسے کوئی محرم محسوس کرلے تو اس میں گناہ ہوگا اور غسل کرنا پڑے گا؟

جواب: عورت کے لئے خوشبو لگاکر اجنبی مردوں کے پاس سے گزرنا یا ان کی طرف جانا حرام اور باعث گناہ ہے۔ اگر جسم پر خوشبو لگی ہو تو گھر سے نکلتے وقت اس کو دھل کر صاف کرلینا ہے، غسل فرض ہونے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ خوشبو زائل کرنے کا مسئلہ ہے۔ نہاتے وقت شیمپو  یا صابن لگانے سے دور تک اس  کی خوشبو نہیں جاتی ہےاس وجہ سے  شیمپو اور صابن سے نہانے  میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بس دھیان میں یہ رہے کہ عورت خوشبو لگاکر گھر سے باہر یا مردوں کے طرف نہ جائے اور مشترکہ فیملی میں اجنبی مرد بھی ہوں تو وہاں بھی رہتے ہوئے جسم پرخوشبو لگانے سے پرہیز کرے۔

سوال: میوچول فنڈ میں پیسہ جمع کرسکتے ہیں جس میں نفع و نقصان کی بنیاد پر منافع ملتا ہے؟

جواب:میوچول فنڈ میں پیسہ جمع کرکے اس سے منافع کمانا جائز نہیں ہے کیونکہ عموما یہ سودی بنکوں کے ذریعہ معاملہ کیا جاتا ہے اور سودی بنکوں کا معاملہ سود پر مبنی ہوتا ہے۔ اگر کوئی کمپنی بھی اس طرح کا کام کرتی ہے پھر بھی جائز نہیں ہے کیونکہ لوگوں کا پیسہ جائزوناجائز کی پرواہ کئے بغیر سرمایہ کاری کیا جاتا ہے جیسے سٹے بازی، سودی معاملات اور شیئربازوں میں حتی کہ آپ کے پیسوں سے حرام چیزوں کا کاروبار بھی ہوسکتا ہے جس کا آپ کو علم ہی نہیں ہوگا۔ گویا مضاربت کے جو اسلامی اصول ہیں ان کو مدنظر رکھ کام نہیں کیا جاتا ہے اس وجہ سے اس قسم کے فنڈ میں پیسہ نہ لگائیں۔

سوال: سجدہ کرنے کی جگہ کے سامنے شیشے کے فریم میں مچھلی رکھی ہوئی ہے کیا اس جگہ سجدہ کرسکتے ہیں؟

جواب:ہاں ، اس جگہ  سجدہ کرسکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ آپ سجدہ اللہ کے لئے کریں گے ، سامنے کوئی چیز ہو اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔اگر کوئی خاص چیز جہاں سجدہ کرنے سے اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا ہے اس جگہ سجدہ کرنے سے پرہیز کریں گے۔

سوال: کیا یہ قول درست ہے؟

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں :

"يتوسل بالنبي ﷺ في دعائه، وإنه مجاب الدعوة عند قبره" یعنی انسان کو چاہیے کہ نبی ﷺ کے وسیلہ سے دعا کرے اور آپ ﷺ کی قبر مبارک پر دعا قبول ہوتی ہے۔ (الجامع الكبير للسيوطي، 6/276)

جواب:اللہ اور اس کے رسول نے قرآن و حدیث کی پیروی کا حکم دیا ہے لہذا اگر کسی بھی عالم، محدث، مفتی اور فقیہ کا قول کتاب و سنت کے خلاف ہوجائے تو اسے رد کر دیا جائے گا۔

اگر یہ واقعی امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول ہے تو یہ کتاب و سنت کے خلاف ہے، اسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔

سوال: والدین جب تک زندہ رہتے ہیں، کیا جائیداد تقسیم نہیں ہوتی۔ میرے والد کے انتقال ہوئے پانچ سال ہوگئے ہیں جبکہ والدہ باحیات ہیں۔ اپنے بھائیوں سے جائیداد تقسیم کرنے کہتی ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ جب تک ماں زندہ ہے جائیداد تقسیم نہیں ہوگی؟

جواب:جس شخص کی جائیداد ہے اس کے زندہ رہتے ہوئے جائیداد تقسیم کرنا شریعت کی خلاف ورزی ہے، جب اس کا انتقال ہوجائے تو تدفین کے فورا بعد اس کی جائیداد وارثوں میں تقسیم کر دینا چاہیے۔

باپ کی جائیداد کو تقسیم کرنے کے لیے ماں کا مرنا ضروری نہیں ہے کیونکہ یہ ماں کی جائیداد نہیں ہے باپ کی جائیداد ہے لہذا باپ کے انتقال کے فورا بعد باپ کی جائیداد کو اس کے وارثوں میں تقسیم کر دینا چاہیے۔

بھائی کا یہ کہنا کہ امی جب تک زندہ ہے تب تک جائیداد تقسیم نہیں ہوگی یہ غلط بات ہے اور جیساکہ میں نے بتایا کہ باپ کی جائیداد باپ کی وفات کے فورا بعد تقسیم کر دی جائے گی۔

سوال: کیا مسجد میں نکاح کرنا سنت ہے ؟

جواب:مسجد میں نکاح کرنا جائز ہے مگر اس کو سنت کہنا صحیح نہیں ہے کیونکہ سنت کہنے کے لیے اس کی دلیل چاہیے جبکہ اس کی دلیل نہیں ہے۔ترمذی(1089) میں ہے، ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نکاح کا اعلان کرو، اسے مسجدوں میں کرو اور اس پر دف بجاؤ“۔ اس حدیث سے دلیل نہیں پکڑی جائے گی کیونکہ یہ ضعیف روایت ہے اور اس قسم کی جو بھی روایت آئی ہے وہ ضعیف ہے تاہم نکاح کا اعلان کرنے والی بات درست ہے کیونکہ یہ  صحیح احادیث میں مذکور ہے۔مختصر یہ کہ نکاح کہیں بھی ہو سکتا ہے، مسجد میں بھی ہوسکتا ہے مگر مسجد میں نکاح کرنے کو سنت کہنا غلط ہے۔

سوال: کیا کوئی عورت اپنی ساس کی جانب سے یا دوسرے کی جانب سے عمرہ کرسکتی ہے؟

جواب: کوئی عورت اپنی ساس یا کسی دوسرے کی طرف سے عمرہ نہیں کرے گی، اس کو عمرہ کرنے کا موقع ملے تو خود اپنے لئے عمرہ کرے۔ جو دنیا سے چلا گیا اس کے عمل کا موقع ختم ہوگیا، اس وقت جو زندہ ہے وہ خود عمل کا محتاج ہے اس لئے اپنے لئے زیادہ سے زیادہ عمرہ کرے۔ والدین یا کسی قریبی کی طرف سے عمرہ کرلے جس نے پہلے عمرہ نہیں کیا اور فوت ہوگیا تو اس کی گنجائش ہے، ہر کسی کی طرف سے یہ عمل عام نہیں ہے۔

سوال: میمن فیملی میں کسی مرد کے انتقال کے بعد میت صرف گھر والے دیکھ سکتے ہیں، باقی پڑوس کی عورتوں اور دور کے رشتہ داروں کو دیکھنے نہیں دیا جاتا ہے کیونکہ وہ میت کے لئے محرم نہیں ہے لیکن زندہ میں وہ شخص سب سے ملتا تھا۔ کیا غیرمحرم میت کو نہیں دیکھنا چاہئے؟

جواب:یہ لوگوں کا رواج ہے، ہمارے دین میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ایک عورت میت مرد کو دیکھ سکتی ہے خواہ کسی بھی قبیلہ اور ذات و برادری سے ہو۔ حتی کہ عورت محرم و نامحرم ہر مرد کو دیکھ سکتی ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اللہ نے عورتوں کو مرد کے دیکھنے کی اجازت دی ہے، عورت زندہ مرد کا بھی چہرہ دیکھ سکتی ہے اور میت کا بھی خواہ وہ مرد اس کا محرم ہو یا غیرمحرم۔

سوال : فرض نماز کے بعد دعا کرنا درست ہے؟

جواب:فرض نماز کے بعد دعا کرنا بالکل صحیح ہے مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ کوئی جب بھی فرض نماز پڑھے تو ہر بار دعا کرے۔ اپنی مرضی پر منحصر ہے، اگر کوئی دعا کرنا چاہے تو دعا کرسکتا ہے۔ ایک مسئلہ یہ بھی جان لیں کہ فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کرنا بدعت ہے، کوئی دعا کرنا چاہے تو انفرادی طور پر دعا کرسکتا ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔