آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(76)
جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ-سعودی عرب
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سوال: ایک شادی شدہ عورت ہے، اس کے تین
بچے ہیں اور وہ بہت دنوں سے "اکسٹرا میریٹل افیئر" میں ہے اور اب وہ
اپنے شوہر سے خلع لے چکی ہے اور جس لڑکے کے ساتھ تھی اب اس سے نکاح کرنا چاہتی ہے
مگر لڑکی کے باپ اور چچا راضی نہیں ہیں اور نکاح میں شامل نہیں ہونا چاہتے ہیں
کیونکہ وہ اس نکاح کے خلاف ہیں۔ اس کے باوجود لڑکی نکاح کرنا چاہتی ہے تو کیا باپ
و چچا کو شامل نہیں ہونا چاہئے اور شامل نہیں ہوئے تو باپ و چچا کو گناہ ملے گا؟
جواب: شادی شدہ عورت، تین بچے کی ماں وہ اپنے شوہر کے
ہوتے ہوئے غیر مرد سے عشق کرتی رہی حتی کہ اس نے بے حیائی کا اتنا بڑا ثبوت دیا کہ
اپنے شوہر سے خلع کے ذریعہ الگ ہو گئی اور اس کی اتنی ہمت بڑھی ہوئی ہے کہ اللہ کا
ڈر نہیں ہے، اس کے پاس باپ کی بھی عزت نہیں ہے اوران کی رضامندی کے خلاف اپنے عاشق
سے شادی رچانے چلی ہے۔ اس شادی میں باپ اور چاچا نہیں جائے گا تو باپ اور چاچا
کیسے گنہگار ہوگا بلکہ ایسی شادی میں جانے پر گناہ ملے گا کیونکہ ایک بے حیا مرد اور
ایک بے حیا عورت کی شادی ہے۔ اور اس میں ان کو جانا بھی نہیں چاہئے۔ امام ابوداؤد
ؒ نے خلع کے باب میں ایک حدیث ذکر کیا ہے۔
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا:
أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلَاقًا فِي
غَيْرِ مَا بَأْسٍ، فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ(ابوداؤد:2226)
ترجمہ:جس عورت نے اپنے شوہر سے بغیر کسی ایسی تکلیف کے
جو اسے طلاق لینے پر مجبور کرے طلاق کا مطالبہ کیا تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔
دوسری بات یہ سمجھ لیں کہ آخرت میں مرد کا حساب تو ہوگا
ہی، اس عورت کا بھی سخت محاسبہ ہوگا جس نے عشق کی وجہ سے شوہر سے خلع لیا ہے۔اوپر
والی حدیث سے اندازہ لگاسکتے ہیں۔
اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر یہ دونوں زنا میں واقع
ہوئے ہوں تو یہ سمجھ لیں کہ زانی اور زانیہ کا اسلام میں نکاح نہیں ہوتا نیز جس
لڑکی کا ولی (باپ) نکاح سے راضی نہ ہو وہ نکاح بھی نہیں ہوتا۔ اگر اس لڑکی نے بغیر
ولی کے نکاح کر لیا تو یہ نکاح نہیں ہوگا اور لڑکا اور لڑکی کا رہنا زنا شمار کیا
جائے گا۔
سوال: کیا کسی کے موبائل فون کو اس کی
اجازت کے بغیر استعمال کرنا یا جب وہ موبائل چلا رہا ہو تو اس کے اسکرین پر باریک
بینی سے نظر رکھناآنکھوں کی خیانت کے زمرے میں آتا ہے۔اس بارے میں آپ کی رہنمائی
درکار ہے تاکہ ہم یہ نصیحت اُن لوگوں تک پہنچا سکیں جو اس طرح کے رویوں میں مبتلا
ہیں؟
جواب:میری نظر سے یہ سوال ہی غلط ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ
دراصل اسی کے دماغ میں یہ سوال آئے گا جو اپنے موبائل کا منفی استعمال کرے گا۔ جو
موبائل کا مثبت استعمال کرے اور اپنے موبائل میں غلط چیزیں نہ رکھیں تو اس کے دماغ
میں کبھی یہ سوال نہیں آئے گا کہ کوئی میرے موبائل چلانے کی طرف نظر اٹھا کے دیکھ
رہا ہے حتی کہ وہ اپنا موبائل کسی کو دیکھنے کے لیے دے بھی سکتا ہے اس میں اس کو
کوئی تردد نہ ہوگا۔
بطور مثال ایک شخص کوئی کتاب پڑھ رہا ہو اور وہ کتاب
اچھی ہو اس سے بھلا اس کو کیا غرض کہ کوئی اس کی طرف یا اس کی کتاب کی طرف دیکھ
رہا ہے لیکن وہیں پر کوئی گندی کتاب پڑھتا ہو، گندی تصویروں والی کتاب دیکھ رہا ہو
تو ایسی کتاب پڑھنے اور دیکھنے والے کے ذہن میں ضرور خیال آئے گا کہ کوئی اسے دیکھ
تو نہیں رہا ہے۔
اس لیے یہاں سے ہمیں نصیحت ملتی ہے کہ ہم اپنے موبائل
میں صرف صحیح چیزیں رکھیں اور اپنے موبائل کا مثبت استعمال کریں کیونکہ یہ لوگوں
کا ہی معاملہ نہیں ہے، گناہ کا بھی معاملہ ہے جس پہ آخرت میں محاسبہ ہوگا۔
ہاں ، ایک پہلو یہ ہے کہ موبائل کی بعض ضروری چیزیں
پرسنل ہوتی ہیں جس کی وجہ سے کسی کو اپنا موبائل دیکھنے کے لئے دینا مناسب نہیں
ہوتا، اس وجہ سے موبائل کسی کو نہیں دیا جاسکتا ہےجیسے بنک اکاؤنٹ اور مختلف ضروری
کاغذات وغیرہ ۔ تاہم موبائل کو ایسا رکھیں کہ کسی کےتانک جھانگ کی وجہ سے پریشان
نہ ہوں اور گناہوں سے بھی بچ سکیں۔
سوال: تدفین کے دوسرے دن جو لوگ تعزیت کے
لیے آتے ہیں، کیا ان کے لیے کھانے کا انتظام کرنا چاہیے؟
جواب:تدفین کے دوسرے دن کیا، پہلے دن بھی لوگ جمع ہوں
تو ان کے لیے کھانا بنانا، دعوت کا اہتمام کرنا شرعی طور پر خلاف سنت ہے لیکن آج
یہ طریقہ سماج میں مشہور ہوتا جا رہا ہے۔ وفات کے دن بڑی تقریب منعقد کی جاتی ہے
جس میں کہیں کہیں پر پورے گاؤں والے کو، کہیں کہیں پر سارے رشتہ داروں کو اور دور
و نزدیک سے آنے والے سارے لوگوں کو دعوت کھلائی جاتی ہے، یہ دین میں نئی ایجاد
بدعت ہے اس سے ثواب تو نہیں ملے گا لیکن بدعت کے ارتکاب پر گناہ ضرور ملے گا۔
جس کے گھر میں وفات ہوئی ہے اس گھر کے لوگوں کے لئے
پڑوسی وفات کے دن کھانا بنا دے، بس اتنی گنجائش ہے اور اگر دوچند میت کے خاص قریبی
مہمان/رشتے دار اس کے گھر رک جائیں، وہ بھی اس میں شریک ہو جائیں تو کوئی حرج نہیں
لیکن دعوت کی جو مروجہ شکل آج کل نظر آتی ہے یہ بالکل شریعت کے خلاف ہے۔ جب یہ کام
پہلے دن نہیں کرسکتے ہیں تو دوسرے یا تیسرے یا اور کسی دن کیسے انجام دے سکتے ہیں۔
صحابہ کرام میت کے واسطے جمع ہونے اور کھانا بنانے کو نوحہ شمار کرتے تھے۔ چنانچہ
جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
كنا نرى الاجتماع الى أهل الميت و صنعة الطعام من
النياحة. (ابن حاجة:1612)
ترجمہ: ہم یعنی صحابہ کرام میت کے گھر والوں کے پاس جمع
ہونے اور ان کے لیے ان کے گھر کھانا تیار کرنے کو نوحہ سمجھتے تھے۔
سوال: میرا سوال یہ ہے کہ نئے مسلم کے
لئے "شہادہ"(قبول اسلام) لیتے وقت غسل کرنا واجب ہے، اس کو دلیل سے واضح
کریں؟
جواب:اہل علم کے درمیان اس معاملہ میں اختلاف ہے کہ نئے
مسلم کے لئے غسل کرنا واجب ہے یا مستحب ہے۔ بعض نے واجب کہا ہے جن میں امام مالک
اور امام احمد بن حنبل بھی ہیں اور بعض نے مستحب کہا ہے جن میں شیخ ابن باز وغیرہ
ہیں۔
دلائل کی روشنی میں غسل واجب معلوم ہوتا ہے۔ اس کی ایک
دلیل یہ ہے۔
عَنْ خَلِيفَةَ بْنِ حُصَيْنٍ، عَنْ جَدِّهِ قَيْسِ
بْنِ عَاصِمٍ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
أُرِيدُ الْإِسْلَامَ،" فَأَمَرَنِي أَنْ أَغْتَسِلَ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ".
قیس بن عاصم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اسلام لانے کے ارادے سے حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے مجھے پانی اور بیر کی پتی سے غسل کرنے کا حکم دیا۔ [سنن ابي داود/كتاب
الطهارة/حدیث: 355]
اس حدیث میں ذکر ہے کہ جب صحابی قیس بن عاصم اسلام لانے
کا ارادہ کرتے ہیں تو آپ ﷺ ان کو اسلام قبول کرنے سے قبل غسل کرنے کا حکم دیتے ہیں
اور اصول فقہ کا قاعدہ ہے کہ حکم دینا واجب کے درجہ میں ہے لہذا کسی غیر مسلم کے
اسلام قبول کرنے سے پہلے اسے غسل کرنے کا حکم دیا جائے گا پھر وہ کلمہ پڑھ کر
اسلام میں داخل ہوجائے۔
سوال: میں پوچھنا چاہتی ہوں کہ کوئی نکاح
کی خواہش رکھے لیکن نکاح نہ ہوپارہا ہو، گھر والے اہل حدیث بھی نہ ہوں اور دین کی
پیروی کرنے میں پریشان کرتے ہوں۔ اپنے جسمانی پرابلم اور کسی بڑی تکلیف کی وجہ سے
نکاح نہیں ہوپا رہا ہو تو ایسی عورت کیسے اللہ سے بہترین توکل، امید اور حسن ظن
رکھے اور دین پر کیسے ثابت قدم رہے؟
جواب:حسن ظن کا کوئی خاص طریقہ نہیں ہے، اللہ کے بارے
میں حسن ظن کا مطلب یہ ہے کہ آپ اللہ کے بارے میں اچھا گمان کریں یعنی یہ سمجھیں
وہ آپ کے ساتھ اچھا ہی کرے گا، کبھی بھی برا نہیں کرے گا۔ وہ اپنے بندوں پر
مہربانی کرنے والا اور ان کے ساتھ عدل وانصاف کرنے والا ہے۔ وہ کبھی بھی کسی بندہ
پر ظلم نہیں کرتا۔ دراصل اسی طرح اللہ کے بارے میں گمان کرنا چاہئے، اسی کو حسن ظن
کہتے ہیں۔ شکوے شکایات کرنا، بے صبری کا مظاہرہ کرنا، اپنے اوپر طاری ہونے والے
سخت حالات کو ظلم سمجھنا اور اللہ کے فیصلے و تقدیر پر راضی ہونے کی بجائے ناراض
ہونا اور اللہ کے بارے میں اپنے ذہن و دماغ میں ناانصافی جیسے خیالات لانا، یہ
ساری باتیں اللہ کے ساتھ حسن ظن کے خلاف ہیں۔ اللہ ہمیں اپنے بارے میں حسن ظن
رکھنے کا حکم دیا ہے لہذا ہر حال میں اللہ کے بارے میں حسن ظن رکھیں گے۔
دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے، ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ
ہے، کسی کی شادی نہیں ہوتی اس میں کبھی خود کی غلطی ہوتی ہے تو کبھی دوسری جانب سے
غلطی ہوتی ہے جیسے ہم کسی غریب سے، بے روزگار یا چھوٹے روزگار والے سے یا اپنے
علاوہ دوسری برادری سے یا حسن وجمال نہ رکھنے والوں سے شادی نہیں کرتے۔ شادی کے
معاملہ میں اس وقت سب سے زیادہ ظلم و ستم لڑکے والوں کی طرف سے ہوتا ہے، وہ سیکڑوں
لڑکیاں دیکھ کر کسی ایک سے اپنے مزاج اور اپنے اسٹیٹس کے حساب سے شادی کرتے ہیں۔
دیکھا جائے تو عموماً ہم سب کے گھر میں بیٹی اور بیٹا دونوں ہوتے ہیں، اس کا مطلب
ہم میں سے ہر کوئی اس معاملہ میں غلطی کررہا ہے لہذا ہم سبھی کو اپنی اصلاح کی
ضرورت ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ایک لڑکی شادی کے معاملہ میں اپنے
ولی پر منحصر ہوتی ہے، وہ محض اپنی مرضی سے شادی نہیں کرسکتی ہے لہذا وہ اللہ سے
دعا کرتی رہے اور وہ خود عبادت کرنے والی اور دیندار بھی ہو۔ اگر جسمانی دقت کی
وجہ سے شادی نہ ہو پائے تو صبر کرنے پر عنداللہ ثواب ملے گا۔ ایسی صورت میں بکثرت
روزہ رکھے۔ کتنے لوگ بغیر شادی کے بھی دنیا سے چلے جاتے ہیں، اللہ سب کے حال کو
دیکھتا ہے، اپنے معاملات میں انسان اپنی بساط بھر کوشش کرے(کامیابی ملے یا نہ ملے
اللہ پر توکل ہرحال میں قائم رکھنا ہے)، نیک عمل کرتا رہے، گناہوں سے بچتا رہے اور
اپنی نیت خالص رکھے۔ یہی بندہ مومن سے مطلوب ہے۔ اگر بندہ مطلوبہ اعمال کو انجام
دیتا رہے تو اللہ اس کی مدد کرتا ہے اور سب سے بڑی بات آخرت میں اس کے لئے کامیابی
ہی کامیابی ہے۔
سوال: رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ
"مشرق و مغرب کے درمیان والی تمام سمت قبلہ ہے"۔ اس حدیث کا کیا مطلب
ہے؟
جواب:ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ میں یہ حدیث موجود ہے
اور اس میں اہل مدینہ کو مخاطب کر کے قبلہ کے بارے میں خبر دی گئی ہے کہ ان کا
قبلہ مشرق اور مغرب کے درمیان ہے تاکہ مدینہ والے مشرق و مغرب کے درمیان ہوکر ہی نماز
ادا کیا کریں، دوسری سمت میں نہیں ادا کریں۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم
پوری دنیا والوں کے لئے عام بھی ہے کہ وہ لوگ بھی اپنے قبلہ کی سمت میں ہوکر ہی
نماز ادا کیا کریں لیکن چونکہ دنیا میں تمام لوگوں کے لئے بالکل تعین کے ساتھ خانہ
کعبہ کی جہت معلوم کرکے ٹھیک اس جانب ہوکر نماز پڑھنا ذرا دشوار ہے اس لیے اگر
نماز پڑھتے وقت کعبہ سے تھوڑا بہت مائل ہوگئے تو نماز پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
یہی مفہوم ہے کہ مشرق و مغرب کی درمیانی سمت قبلہ ہے۔
سوال: ری سیلنگ کا شرعی حکم کیا ہے؟
جواب:سوال کی نوعیت کی وضاحت ہوتی تو جواب دینے میں
آسانی رہتی کیونکہ ایک چیز کی متعدد شکلیں اور مختلف حالات ہوتے ہیں، ان میں سائل
کبھی خاص نوعیت کے بارے میں جاننا چاہتا ہے۔
یہاں پر عام حالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے مختصر جواب دے
رہا ہوں۔ اس میں کوئی شق باقی رہ جائے تو الگ سے سوال کرسکتے ہیں۔
آنلائن مارکیٹ میں اگر کوئی آدمی کسی خاص دکاندار یا
خاص تاجر اور کمپنی سے جڑ کر سامان بیچنے کا کام کرتا ہے اس کی دو صورتیں جائز
ہیں۔
پہلی جائز صورت یہ ہے کہ آدمی اس تاجر یا کمپنی کا وکیل
بن کر سامان بیچے، ایسے میں کمپنی والا اپنی طرف سے اس کو جو نفع دے، وہ لے سکتا
ہے، یہاں پر نفع کمپنی سے لے گا۔
دوسری جائز صورت یہ ہے کہ تاجر یا کمپنی ری سیلر سے یہ
اتفاق کرے کہ میرا یہ سامان اتنے کا ہے، مجھے اتنا پیسہ چاہیے، آگے جتنا نفع کر
بیچو مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ایسی صورت میں پھر ری سیلر اپنا منافع رکھ کر کمائی
کرسکتا ہے، اس صورت میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
بہت سے لوگ ری سیلنگ کے کام میں ناجائز صورت بھی اختیار
کرتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ری سیلر کا کسی کمپنی سے بحیثیت وکیل یا بحیثیت ایجنٹ کوئی
اتفاق نہیں ہوتا، وہ مختلف کمپنیوں کی تصاویر لے کر خود سے آن لائن پرچار کرتا ہے
اور کسٹمر کا آرڈر آنے پر آنلائن کمپنیوں سے خرید کر سامان پر بغیر قبضہ کئے آرڈر
والے کو بیچ دیتا ہے، یہ شکل جائز نہیں ہے کیونکہ جب ری سیلر سامان خریدتا ہے تو
اس پر قبضہ نہیں کرتا بلکہ بغیر قبضہ کئے آرڈر والے کو بیچ دیتا ہے۔ نبی صلی اللہ
علیہ وسلم نے ایسے سامان کو بیچنے سے منع فرمایا ہے جو آدمی کے پاس موجود نہ ہو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لاَ تبع ما ليسَ عندَكَ.(صحيح الترمذي:1232)
ترجمہ:ایسی چیز مت بیچو جو تمہارے پاس نہیں ہے۔
سوال: صَلَّ اور رَحْمَةَ کے درمیان کیا
فرق ہے؟
جواب:(1)صلاۃ: کا معنی دعائے رحمت و مغفرت اور حسن ثناء
ہے۔
(ا)جب کہا جاتا ہے کہ اللہ کی صلاۃ محمد ﷺ پر
، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ اپنے فرشتوں کے درمیان اپنے رسول کی حمد و ثنا
بیان فرماتا ہے۔
(ب)اور جب ہم لوگ نبی ﷺ پر صلاۃ پیش کرتے ہیں
تو اس اس وقت ہم اللہ سے بطور دعا یہ کہتے ہیں کہ اے اللہ! تو حضرت محمد صلی اللہ
علیہ وسلم کی حمد و ثنا فرشتوں کی جماعت میں بیان فرما۔
(2)رحمت:
بخشش و مہربانی کے معنی مستعمل ہے۔
اللہ اپنے بندوں پر رحمت بھیجتا ہے اس کا مطلب یہ ہوتا
ہے کہ اللہ اپنے بندوں کی کوتاہیاں اور غلطیاں معاف کرتا ہے اور اسے اپنے فضل و
مہربانی سے نوازتا ہے۔
دونوں الفاظ کے درمیان اختصار کے ساتھ فرق بیان کر دیا
گیا ہے، اس کی تفصیل جاننے کے لیے صلاۃ و سلام اور رحمت و مہربانی سے متعلق کتابیں
دیکھیں۔
سوال: موئے مبارک ﷺ کی کیا حقیقت ہے، آج
کل مختلف جگہوں پر اس کی زیارت کروائی جاتی ہے؟
جواب: اس وقت پوری دنیا میں کہیں پر رسول اللہ صلی اللہ
علیہ کا کوئی موئے مبارک موجود نہیں ہے مگر بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج جہاں جہاں
بدعتی لوگ موجود ہیں، وہاں وہاں یہ لوگ اپنے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا
موئے مبارک ہونے کا دعوی کرتے ہیں بلکہ عموما موئے مبارک کے نام پر جھوٹے بال کی
زیارت بھی کرواتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی کے پاس بھی کوئی موئے مبارک نہیں ہے۔
ذرا دیکھیں کہ یہ لوگ رسول سے سچی محبت کرنے کا دعوی کرتے ہیں مگر حال یہ ہے کہ نہ
اللہ سے ڈرتے ہیں اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جھوٹ بولنے سے
دریغ کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو میری طرف عمدا جھوٹ
منسوب کرے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ
مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ(صحيح البخاري: 110)
ترجمہ: جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے وہ اپنا
ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی سامانوں میں سے کوئی
بھی چیز دنیا میں کہیں پر بھی موجود نہیں ہے۔ جوتا، چپل، لاٹھی، عمامہ، کرتا،
ازار، بال، بستر، تکیہ، تلوار، کٹورا، پلیٹ، صراحی وغیرہ، غرض یہ کہ ان میں سے
کوئی چیز دنیا میں موجود نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے دو چیزیں
چھوڑی ہیں، ان میں سے ایک اللہ کی کتاب ہے اور دوسری آپ کی سنت ہے۔ بس یہی دونوں
چیزیں دنیا میں موجود ہیں جو قیامت تک موجود رہیں گی۔
سوال: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کہنا کیسا ہے یا پھر ہمیں بس رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہنا چاہیے یعنی
اکرم اور کریم میں کیا فرق ہے؟
جواب:رسول یا نبی کے ساتھ صرف ﷺ کہنا، لکھنا اور بولنا
کافی ہے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ میرا نام آئے تو درود پڑھو۔ یہی کافی ہے۔ اگر نبی/
رسول کے ساتھ اکرم بھی لگاتے یا کریم لگاتے ہیں تو کوئی حرج نہیں ہے، دونوں
استعمال کرسکتے ہیں ، یہ دونوں الفاظ مناسب ہیں۔ کریم بہت عظمت و بزرگی والا اور
بہت احسان و سخاوت کرنے والا ہوتا ہے، یہی معنی اکرم کا بھی ہے یعنی معنوی لحاظ سے
دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
سوال: کیا کسی آدمی کو کھانا یا راشن کے
لئے پیسہ دینا صدقہ جاریہ کہلائے گا کیونکہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ کھانے کے بعد ہمارے
حق میں دعا کرتے ہیں اس لئے وہ صدقہ جاریہ ہے۔ اور طبی امداد کے طور پر پیسہ دئے
تو کیا یہ صدقہ جاریہ ہوگا؟
جواب:صدقہ ایک الگ چیز ہے اور صدقہ جاریہ ایک الگ چیز
ہے۔ صدقہ جاریہ وہ عمل ہے جس کا نفع مستمر رہے اور جو برابر قائم یعنی جاری رہے
جیسے کوئی مدرسہ بنائے ، یہ مدرسہ جب تک قائم رہے گا اس کے بنانے والے کو ثواب ملے
گا۔ جاری رہنے والا عمل صدقہ جاریہ ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ کرکے ختم ہوجانے والا عمل
صدقہ جاریہ نہیں ہے۔ آپ نے کسی غریب کو ایک بار کھانا کھلایا ، یہ ایک بار کی بات
ہے، اس کا ثواب مل گیا۔ آگے سے وہ دعا دے یا نہ دے اس کا مسئلہ نہیں ہے۔ اصل مسئلہ
عمل کا ہے، یہ عمل ختم ہوگیا، برابر جاری نہ رہا اس لئے یہ صدقہ جاریہ نہیں ہے۔
جہاں تک طبی امداد کے لیے پیسہ دینے کا مسئلہ ہے تو یہ
بھی دراصل صدقہ ہی ہے یعنی کسی ضرورت مند کی ضرورت پورا کرنا۔ ہاں اس میں ایک پہلو
یہ ہے کہ اگر آپ کسی ایسے مریض پر پیسہ خرچ کرتے ہیں جس کے تندرست ہونے کے بعد وہ
عوام کو دینی سے فائدہ پہنچائے جیسے عالم و داعی یا خود بھی طاعت اور بھلائی کے
کام کرنے کے لیے لمبے وقت تک زندہ رہے تو یہ صدقہ جاریہ میں شامل ہو سکتا ہے۔
سوال: ایک آنلائن جاب ہے اس میں کسی بھی
رسٹورنٹ کو پانچ اسٹار ریٹنگ دینا ہوتا ہے، ایسے کرنے پر وہ لوگ کچھ پیسہ دیتے
ہیں، کیا یہ جاب صحیح ہے؟
جواب:عام طور سے ہوٹلوں میں خصوصاً بڑے اور پانچ ستارے
ہوٹلوں میں بے حیائی ہوتی ہے جیسے ان ہوٹلوں میں زنا کاری کے لیے لڑکیاں مہیا کی
جاتی ہیں یا خود کسٹمر اپنے ساتھ زنا کاری کے لئے لڑکی لے کر آتا ہے کیونکہ یہ سب
سے زیادہ محفوظ جگہ مانی جاتی ہے بلکہ سیاحتی مقامات پر پائے جانے والے ہوٹلوں میں
اصل کام زنا کاری ہی ہے۔ اسی طرح سے عموما ایسے بڑے ہوٹلوں میں اختلاط مرد و زن
بھی ہوتا ہے، موسیقی اور رقص بھی ہوتا ہے یعنی منکرات کے بہت سارے کام ہوتے ہیں
حتی کہ کھانے پانی پینے والی چیزوں میں شراب اور ان جیسی کئی حرام چیزیں بھی ہوتی
ہیں لہذا کسی مسلمان کو اس طرح آن لائن ریٹنگ کرکے پیسہ نہیں کمانا چاہیے۔ ایک طرف
پیسہ بھی حرام ہوگا، دوسری طرف نہ جانے کتنے لوگوں کا گناہ اس کے سر آئے گا جو اس
کی ریٹنگ کے سبب ہوگا۔
سوال: مجھے یہ معلوم ہے کہ سفر کی حالت
میں نماز قصر کرنا ہے لیکن اگر کسی مہمان کے یہاں ٹھہریں تو وہاں پر نماز مکمل
پڑھنی چاہیے یا قصر کریں، اسی طرح جب بیٹی میکے چاتی ہے یا داماد سسرال جاتا ہے تو
وہ وہاں پر مکمل نماز پڑھیں گے یا قصر سے پڑھیں گے؟
جواب:سفر کے تعلق سے ایک عام قاعدہ ذہن میں بیٹھا لیں
اور اسی قاعدے کے حساب سے عمل کریں۔
آپ دنیا میں کہیں جائیں خواہ حج و عمرہ پہ، سیر و تفریح
پہ، تجارت اور دنیاوی اغراض و مقاصد کے تحت یا کوئی عورت میکے جائے یا داماد سسرال
جائے یا کوئی مرد و عورت کسی اور جگہ جائے۔
اگر سفر کرنے والا وہاں پر چار دن یا اس سے کم رکنے کا
ارادہ کرتا ہے اور یہ سفر 80 کلومیٹر یا اس سے زیادہ کا ہے تو وہاں پر قصر سے نماز
ادا کرے گا۔
اور اگر چار دن سے زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ کرتا ہے اور
80 کلومیٹر یا اس سے زیادہ کا سفر ہے تو مکمل نماز ادا کرے گا کیونکہ ایسی صورت
میں اس پر مقیم کا حکم لگے گا۔
اس جگہ دو باتوں کا مزید علم حاصل کرلیں۔اسی کلومیٹر یا اس سے زیادہ
سفر کرتے وقت عورت کے لیے ساتھ میں محرم کا ہونا ضروری ہے لیکن 80 کلومیٹر سے کم
کے سفر کے لیے عورت کو محرم کی ضرورت نہیں ہے تاہم احتیاطا فتنے کے خوف سے محرم کے
ساتھ سفر کرتی ہے تو بہتر ہے۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ 80 کلومیٹر سے کم سفر کرنے پر
قصر نہیں ہے، مکمل نماز پڑھنا ہے خواہ وہ جگہ میکہ ہو یا سسرال ہو یا تعلیم گاہ ہو
اور کوئی جگہ ہو۔
سوال: جب ہم کسی مسلمان بہن بھائی کو
منکر سے روکتے اور ڈراتے ہیں تب اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ دین بہت آسان ہے، اتنا
مشکل نہیں جتنا تم لوگ بناتے ہو یا ہم تمہاری طرح دکھاوا نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کو
کیا جواب دیا کریں؟
جواب:جب آپ لوگوں پر دین حق اور توحید پیش کریں گے تو
لوگ طرح طرح کا طعنہ دیں گے۔ آپ کو ہر قسم بات سے پریشان ہونے اور ہر سوال کا جواب
دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ نے دین حق کسی پر پیش کیا، یہ آپ کی ذمہ داری تھی جو آپ
نے ادا کر دی، نتیجے میں طعنہ دے یا گالی دے تو صبر کریں، اللہ آپ کو اس پہ
دہرااجر دے گا۔ ایک دعوت کا کام کرنے پر، دوسرا تکلیف پر صبر کرنے پر۔
اللہ تعالی نے ہمیں یہ تعلیم دے دی ہے کہ جاہلوں کے ہر
سوال کا جواب نہیں دیا جائے گا، خاموشی سے گزر جایا جائے گا۔
اور یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کا آپ جواب دیں گے۔
اللہ تعالی نے دین آسان بنایا ہے اور محمد صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمادیا: "الدین یسر" یعنی دین آسانی کا نام ہے۔ اسی آسان
دین کو جب بدعتیوں اور بے دینوں پر پیش کریں گے تو یہ لوگ آپ کو ایسا ہی طعنہ دیں
گے۔ یہ حقیقی کوئی سوال نہیں ہے بلکہ ایک طنز اور طعنہ ہے۔
سوال: کیا خواب کی تعبیر جاننا جائز ہے؟
جواب:خواب کی تعبیر جاننا جائز ہے بشرطیکہ وہ خواب اچھا
ہو، اگر خواب برا یا ڈراؤنا ہو تو اسے کسی سے بیان نہیں کیا جائے گا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عام طور سے فجر کی نماز کے
بعد صحابہ سے خواب کے بارے میں پوچھتے ہیں تاکہ آپ اس کی تعبیر بتا سکیں چنانچہ
سلسلہ صحیحہ کی ایک روایت ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر سے فارغ ہوتے تو پوچھتے: ”کیا کسی نے کوئی خواب
دیکھا ہے؟“ اور مزید فرماتے: ”نبوت میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہی سوائے نیک خواب
کے۔“(سلسلہ صحیحہ: 4103)
اس جگہ آپ یہ بات دھیان میں رکھیں کہ ہر کسی سے خواب کی
تعبیر نہیں پوچھنا چاہیے کیونکہ ہر کوئی اس کا اہل نہیں ہوتا ہے اور خواب کی تعبیر
کے میدان میں کچھ کم علم لوگ کتابیں دیکھ کر یا ویسے ہی اپنی عقل سے کچھ بھی تعبیر
بتا دیتے ہیں لہذا جو خواب کی تعبیر نہیں جانتے ہوں یا کم علم ہوں ایسے لوگوں سے
خواب کی تعبیر نہیں پوچھیں۔
سوال: جو عورت کسی کے نکاح میں ہو، وہ
زنا کرے تو اس پر کون سی حد قائم ہوگی؟
جواب: اگر کوئی شادی شدہ عورت زنا کا ارتکاب کرتی ہے
اور اس کا جرم ثابت ہو جاتا ہے تو قصاص کے طور پر اسے رجم کیا جائے گا یعنی کمر کے
برابر گڈھا کھود کر اس میں ڈال کر پتھر سے مار مار کر ہلاک کر دیا جائے گا۔
جرم کے ثبوت کے لیے یا تو زانیہ اقرار کرے کہ میں نے
زنا کیا ہے یا پھر چار عینی گواہ موجود ہوں جنہوں نے اپنی آنکھوں سے یہ عمل دیکھا
ہو۔
اگر یہ شرعی ثبوت نہ ہو تو سزا نہیں دی جائے گی اور سزا
دینے کا اختیار بھی حاکم کو ہوتا ہے، انفرادی طور پر کوئی آدمی یا گاؤں سماج والے
اپنے طور پر یہ سزا نہیں دے سکتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ عموما ہمارے معاشرے میں اسلامی
حکومت نہیں پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے زانی پر شرعی حد نافذ نہیں کی جاتی ہے، ایسے
میں کم از کم ہم میں سے کسی کو اس معاملہ میں خبر لگے تو بے حیائی کرنے والے/کرنے
والی کو تنہائی میں خیر و بھلائی اور اعمال صالحہ کی نصیحت کرے اور آئندہ کے لیے
اس گناہ سے سچی پکی توبہ کرائے۔
سوال: سورہ النساء آیت نمبر 101 اور 102
میں نماز خوف کا ذکر اور طریقہ بیان ہوا ہے تو اس میں دونوں دستوں کی ایک رکعت کا
ذکر ہے۔ کیا دونوں دستے دوسری رکعت نہیں پڑھیں گے؟
جواب:حالت جنگ میں نماز کے مختلف حالات ہوتے ہیں اس لیے
حالات کے مد نظر نماز ادا کی جاتی ہے یعنی اس کی کوئی ایک خاص حالت متعین نہیں ہے۔
اگر جنگ اپنے شہر میں ہو تو ایسی صورت میں مکمل نماز
ادا کرنی ہے، قصر نہیں کرنا ہے لیکن اگر اپنے شہر سے باہر حالت سفر میں جنگ ہو تو
قصر سے نماز ادا کرنا ہے۔
اب اس قصر کے متعدد حالات ہو سکتے ہیں اور احادیث میں
مختلف صفات کے ذریعہ نماز کا طریقہ بیان کیا گیا ہے، نماز کے وہ سب طریقے درست ہیں
جن کا ذکر صحیح حدیث میں ہے۔
ایک طریقہ یہ ہے کہ جب جنگ جاری ہو اور نماز کا وقت ہو
جائے تو مجاہدوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، ایک حصہ دشمن سے قتال کرے گا،
دوسرا حصہ امام کے ساتھ ایک رکعت نماز پڑھ کے دشمن کی طرف لڑنے آجائے گا اور اپنے
طور پر دوسری رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے گا اور پہلا حصہ جو قتال میں مصروف تھا وہ
امام کے ساتھ مل کر ایک رکعت ادا کرے گا اور امام تشہد میں بیٹھا انتظار کرتا رہے
گا یہاں تک کہ یہ لوگ دوسری رکعت اپنے طور پر پڑھ لیں گے تب امام سلام پھیرے گا۔
دوسرا طریقہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ فوجیوں کو دو حصوں
میں تقسیم کیا جائے گا اور ان دونوں حصوں کو امام ایک ساتھ نماز پڑھائے گا۔ اس میں
دشمن کی طرف رہنے والا حصہ صرف سجدہ اس وقت کرے گا جب امام کے ساتھ والا حصہ سجدہ
کرکے اٹھ جائے تاکہ دشمن کو حملہ کا موقع نہ ملے اور پھر امام ایک ساتھ سب کے لیے
سلام پھیرے گا۔
اور بھی کئی طریقے ہیں بلکہ کبھی جنگ میں ایسا بھی ممکن
ہو کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا موقع ہی نہیں ملے تو ایسی صورت میں اکیلے اکیلے
آدمی نماز پڑھ لے گا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔