آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(75)
جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ- سعودی عرب
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سوال: جب بیٹھ کر قرآن کی
تلاوت کررہے ہوں اس وقت سجدہ کیسے کریں، کیا کھڑا ہوکر سجدہ کرنا ہے یا بیٹھے
بیٹھے سجدہ کرسکتے ہیں؟
جواب:قرآن کی تلاوت کرتے وقت جب آیت سجدہ آئے تو کھڑے
ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ بیٹھے بیٹھے اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدہ میں چلے جائیں اور
سجدہ کی تسبیح اور سجدہ تلاوت کی دعا پڑھیں۔ سجدہ میں دعا پڑھنے کے بعد بغیر تکبیر
کہے سجدہ سے اٹھ جائیں، سجدے تلاوت ہوگیا۔
سوال: ایک شوہر سے اسکی بیوی کے بارے میں
سب سے پہلے سوال ہوگا یا والدین کے بارے میں اور کیا والدین اسکی رعیت میں شامل
ہیں؟
جواب: ایک آدمی کی رعیت میں اس کی بیوی اور اس کی اولاد
ہوتی ہے۔ اور جب والدین خدمت کے محتاج ہوں تو ایسی صورت میں تمام اولاد بشمول بیٹے
اور بیٹیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگ اپنے والدین کی لازمی طور پر خدمت کریں خواہ
اس کی صورت جو بھی ہو۔
جہاں تک مسئلہ ہے پہلے یا بعد میں شوہر سے کس کے بارے
میں سوال ہوگا، اس سوال کی ایک مسلمان کو ضرورت نہیں ہے۔ مسلمان کا یہ عقیدہ ہو کہ
اس سے زندگی کے تمام کاموں کے بارے میں سوال ہوگا خواہ وہ اچھا ہو یا برا حتی کہ
ذرہ ذرہ کے بارے میں، اس سے پوچھا جائے گا اور سوال ہوگا۔ آدمی سے اس کے والدین
اور بیوی بچوں کے بارے میں بھی سوال ہوگا۔
سوال: اگر کسی جگہ چارپائی وغیرہ پر کتا
لگ جائے یا بیٹھ جائے تو اس جگہ کو ایک بار اچھی طرح خوب پانی بہا کر صاف کیا جائے
تو کیا وہ جگہ پاک ہو جائے گی یا برتن کی طرح سات بار دھونا ہوگا، ایک مرتبہ مٹی
سے بھی، تب پاک ہوگا؟
جواب:کتا چار پائی پر بیٹھ جائے یا کپڑے کو لگ جائے یا
جسم سے مس ہو جائے ان سب سے کوئی چیز ناپاک نہیں ہوتی ہے، نہ کسی چیز کو دھونے کی
کوئی ضرورت ہے۔برتن چاٹنے کا الگ مسئلہ ہے، اس کے لعاب میں زہر ہوتا ہے اس لیے
برتن دھلنے کا حکم ہے اور کہیں پر بیٹھ جانے یا ٹچ ہو جانے میں کوئی مسئلہ نہیں
ہے۔
سوال: جو ملک سے باہر طلباء (لڑکیاں)
تعلیم حاصل کرنے جاتی ہیں، کیا وہ محرم کے بغیر جاسکتی ہیں کیونکہ ایک ہی شخص پر
بہت خرچہ ہوتا ہے تو محرم کو کیسے لے کر جائیں؟
جواب:شریعت کا مسئلہ پوری طرح واضح ہے کہ ایک عورت یا
لڑکی بغیر محرم کے سفر نہیں کر سکتی ہے۔ بغیر محرم کے کوئی بھی عورت اسی کلومیٹر
سے زیادہ کا سفر نہیں کر سکتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ عورت کو اللہ تعالی نے گھر میں
سکونت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، ایک لڑکی اگر تعلیم حاصل کرتی ہے تو اسے اپنے
محلے اور قرب و جوار میں تعلیم حاصل کرنا چاہیے لیکن اگر وہ باہر کسی دوسری جگہ کا
سفر کرتی ہے تو ہر حال میں محرم کی ضرورت ہے۔
جہاں تک خرچ کا مسئلہ ہے تو اسلام نے اسے زیادہ پیسہ
خرچ کر کے باہر تعلیم حاصل کرنے کا حکم نہیں دیا ہے۔ باہر جانا اور پیسہ خرچ کرنا
یہ لڑکی کی اپنی مرضی ہے۔اسلام میں حج جیسے فریضہ کی ادائیگی کے لیے اگر محرم
موجود نہ ہو تو یہ فریضہ بھی اس عورت سے ساقط ہو جاتا ہے، اس مسئلے کو گہرائی سے
سمجھیں تب بات اچھی طرح سمجھ میں آئے گی۔
سوال: ایک بہن کے شوہر سعودی میں وفات
پائے ، دو ماہ بعد اس کی لاش اپنے ملک آئی ہے۔ ایسے میں عدت ابھی سے شروع ہوگی۔
ویسے جب سے خبر ملی ہے،وہ تب سے عدت میں
ہے؟
جواب:جس وقت اس خاتون کے شوہر کا سعودی عرب میں انتقال
ہوا ہے، اسی دن سے اس خاتون کی عدت شروع ہو گئی ہے اور اس وقت سے لے کر چار ماہ دس
دن تک عدت گزارنا ہے۔ عدت کے دوران اس کو ہر قسم کی زینت سے پرہیز کرنا ہے اور
بلاضرورت گھر سے باہر نہیں نکلنا ہے۔انڈیا میں میت کے آنے سے عدت نہیں شروع ہوگی،
عدت کی شروعات وفات سے ہوتی ہے۔
سوال: ایک عالم نے شیخ ابن عثیمین ؒ کے
فتوی کا حوالہ دے کر کہا ہے کہ پنج وقتہ نمازی عورت کا شوہر بے نمازی ہو تو اس سے
طلاق کا مطالبہ کرسکتی ہے۔ شوہر طلاق نہ دے تو اس سے خلع لے سکتی ہے کیونکہ جب وہ
نماز نہیں پڑھتا ہے تو مسلمان کہاں سے ہے۔ اس بارے میں رہنمائی کریں؟
جواب: بے نمازی کے حکم
کے سلسلے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے۔جو مسلمان جمعہ کی نماز پڑھتا ہو اور
نماز کی فرضیت کا انکار نہ کرتا ہو تو بعض اہل علم نے ایسے آدمی کو مسلمان ہی مانا
ہے جبکہ بعض دیگر اہل علم ایسے آدمی کو مسلمان نہیں مانتے ہیں جن میں بہت سے عرب
کے علماء ہیں۔
میرا بھی رجحان اس جانب ہے کہ جب تک آدمی جمعہ کی نماز
قائم کرتا ہے اور نماز کی فرضیت کا انکار نہیں کرتا ہے، ایسے آدمی کو مسلمان مانا
جائے گا گو ترک نماز سے وہ کفر کا مرتکب ہو رہا ہے۔ جن کا شوہر نماز نہ پڑھتا ہو
ایسی خواتین کو چاہیے کہ اپنے شوہر کو نماز کا پابند بنائے، اگر وہ پنج وقتہ نماز
کا پابند بن جاتا ہے تو الحمدللہ اچھی بات ہے اور اگر پنج وقتہ نماز کا پابند نہیں
بنتا ہے تو بیوی کو اختیار ہے چاہے تو اس کے پاس رہے اور اگر اس سے اس بات کی
بنیاد پر جدا ہونا چاہتی ہے تو جدا ہو سکتی ہے تاہم اس کے پاس رہنے میں بھی کوئی
حرج نہیں ہےگروہ جمعہ اور بعض نمازوں کا اہتمام کرتا ہواور نماز کا منکر نہ ہو۔ہاں
اگر مطلق طور پرکوئی نماز نہ پڑھتا ہو تو
وہ مسلمان نہیں مانا جائے گا، ایسے شخص کے ساتھ مسلمان عورت کو نہیں رہنا چاہئے۔
سوال: کیا سورہ حشر اور سورہ توبہ کی
آخری آیات کی کوئی خاص فضیلت ہے؟
جواب:سورہ حشر کی آخری تین آیات کی فضیلت میں حدیث مروی
ہے لیکن وہ حدیث ضعیف ہے اس لیے اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔
اور سورہ توبہ کی آخری دو آیات کی فضیلت میں کوئی چیز
نہیں ہے البتہ یہ دو آیات ایک انصاری صحابی کے پاس لکھی ہوئی تھی۔ اور یہ آپ کو
معلوم ہونا چاہیے کہ اس وقت کوئی رجسٹر نہیں ہوتا تھا جس میں آیات ایک جگہ لکھتے
بلکہ پتوں اور چھال وغیرہ پر آیات لکھ کر رکھا کرتے تھے۔ یہ دو آیات جس صحابی کے
پاس تھیں اس کا ذکر بخاری 4989 میں ہے۔
سوال:حکومت کی جانب سے جو غرباء کو پیسے
ملتے ہیں کیا وہ لینے چاہیے؟
جواب:غریب و مسکین کے لیے حکومت کی جو اسکیمیں ہیں ان
اسکیموں کے پیسے غریبوں کو لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یاد رہے کہ غریب والی اسکیم
سے غریب ہی فائدہ اٹھائے۔ دیکھا جاتا ہے کہ بہت سارے لوگ امیر ہوتے ہیں لیکن
غریبوں کی فہرست میں اپنا نام لکھا کر غریب مسکین والی اسکیم سے فائدہ اٹھاتے ہیں،
یہ درست نہیں ہے۔
سوال: کسی بھی تکلیف کی وجہ سے پیشاب کی
تھیلی لگاتے ہے جو دو تین دن یا کئی دنوں بعد نکالتے ہیں تو کیا پیشاپ کی تھیلی کے
ساتھ تیمم یا وضو کرکے نماز پڑھ سکتے ہیں یا پیشاب کی تھیلی نکالنے کے بعد سب
نمازیں پڑھنا بہتر ہے؟
جواب:اللہ تعالی اپنے بندوں پر اس کی طاقت سے زیادہ
بوجھ نہیں ڈالتا ہے لہذا عمل کرنے میں جو طاقت ہے اسی کے مطابق عمل کرے۔
جس کو پیشاب کی بیماری ہے اور پیشاب کا تھیلا برابر لگا
رہتا ہے تو اس کے لیے اس حال میں وضو کر کے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
بلاشبہ وہ ہر وقت کی نماز وضو کرکے پڑھا کرے گا اور اس کی نماز اپنی جگہ پر درست
ہوگی۔تیمم اس وقت کرنا ہے جب پانی نہ ملے یا پانی کا استعمال مضر ہو۔
سوال: فجر کے وقت میں جب نماز پڑھتی ہوں
تو سامنے چارپائی رکھی ہوئی ہے۔ جگہ نہ ہونے کی وجہ سے مجھے وہاں نماز پڑھنی پڑتی
ہے اور سامنے کوئی سو رہا ہوتا ہے تو اس میں میری نماز ہو جائے گی یا نہیں؟
جواب:اس مسئلے میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جو سامنے
والی چارپائی پر لیٹا ہوا شخص مسلمان ہو تو ایسی صورت میں اسے بھی اٹھا کر نماز
پڑھنے کا حکم دیا جائے کیونکہ نماز تمام مرد و عورت پر فرض ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ چارپائی پر لیٹے ہوئے شخص کے پاس
نماز پڑھنے میں قطعا کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات میں جس
بستر پر تہجد کی نماز پڑھتے وہاں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا لیٹی رہتی تھیں۔
چنانچہ صحیحین میں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ میں رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لیٹی ہوتی اور میرے پاؤں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے
قبلے کی جانب ہوتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو میرے پاؤں کو آہستہ سے
دباتے اور میں انہیں سمیٹ لیتی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے تو میں پاؤں
پھیلا لیتی اور ان دنوں گھروں میں چراغ نہیں ہوا کرتے تھے۔
سوال: اگر کسی پہ جادو کے اثرات ہوں، اس
سے ملنے یا ان کے گھر جانے سے یہ اثرات کسی دوسرے پہ اثر کر سکتے ہیں اور ملنے
والے کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے؟
جواب: جنات کے حوالے سے ایک بات ذہن میں یہ بٹھائیں کہ
سماج میں خاص طور سے عورتوں کے درمیان جنات کا ڈر اور خوف بہت پایا جاتا ہے جس کی
وجہ سے بیماری اور بہت ساری تکلیف کو جنات کا اثر بتا دیا جاتا ہے اس لیے قطعا آپ
ہر جسمانی تکلیف کو جنات کا اثر خیال نہ کریں اور بلا وجہ خود کو یا دوسروں کو
تکلیف میں مبتلا نہ کریں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر کسی پر آسیب کا اثر ہو تو اس کے
پاس جانے سے دوسرے کو اس کا اثر نہیں لگے گا اور نہ نقصان پہنچے گا۔
یاد رہے آپ پانچ وقت کی نماز پڑھیں، پانچوں نمازوں کے
بعد، نماز کے اذکار پڑھیں اور صبح و شام کے اذکار اور سونے جاگنے کے اذکار کی
پابندی کریں، کبھی آپ کے قریب شیطان نہیں آئے گا اور اگر کسی کے اوپر شیطانی اثر ہو
تو وہ بھی ختم ہو جائے گا کیونکہ اللہ کی عبادت اور ذکر کرنے والوں پر شیطان کا
اثر نہیں ہوتا۔
سوال: کیا زکاۃ کا پیسہ دوسرے ملک بھیجنا
جائز ہے جیسے فلسطین وغیرہ ؟
جواب:زکوۃ مسلمانوں کا حق ہے اور اس کے آٹھ مصارف ہیں۔
زکوۃ کو ان آٹھ مصارف میں مسلمانوں کے درمیان کہیں پر بھی خرچ کر سکتے ہیں خواہ
اپنے ملک میں یا دوسرے ملک میں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اہل فلسطین اس وقت شدید ضرورت مند ہیں، ان کے لیے زکوۃ
بھیجنا بلا شبہ جائز ہے بلکہ مسلمانوں کو اس طرف خاص توجہ دینی چاہیے۔
سوال: خواتین اپنے خاندان والوں کے ساتھ
کسی فارم ہاؤس میں جاتی ہیں تو خواتین کا گروپ کسی خاص سویمنگ پل میں تیر سکتی ہیں
اور کیا ایسی جگہ پر ہمارا جانا صحیح ہوگا؟
جواب:جو مرد و عورت کی تفریح والی اور اجتماع والی عام جگہ نہ ہو، کوئی محفوظ و مامون جگہ ہو وہاں
پر عورت شرعی احتیاط کو مد نظر رکھتے ہوئے جاتی ہے اور مسبح میں جہاں کوئی اجنبی
مرد نہ ہو، تواس میں نہانے اور تیرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ہاں اگر وہ جگہ عورت
ومرد کے اختلاط والی ہو تو اس جگہ نہ جانا چاہئے اور نہ وہاں تیرنا چاہئے۔
سوال: اگر کوئی ایسا شخص ہے جسے پڑھنا
لکھنا نہیں آتا ہو اور اسے استخارہ کرنا ہو لیکن اسے استخارہ کی دعا بھی نہ یاد ہو
تو کیا وہ استخارہ کی نیت سے دو رکعت نماز پڑھ سکتا ہے؟
جواب:جیسے ہم نماز پڑھتے ہیں اس کے لیے ضروری ہے کہ
نماز کے اذکار ہمیں یاد ہوں اسی طرح استخارہ کے لیے ہے کہ یہ دعا ہمیں یاد ہونی
چاہیے۔اگر کسی کو استخارہ کی دعا یاد نہ ہو تو استخارہ کی نماز پڑھ کر دیکھ کر بھی
دعا پڑھ سکتا ہے تاہم آدمی کوشش یہ کرے کہ یہ دعا زبانی حفظ ہو۔بوقت ضرورت نہ پڑھ
پانے والے موبائل کا استعمال کرکے استخارہ کی دعا سن سکتے ہیں مگر اسے یاد کرنے کی
کوشش کرے۔
سوال: کیا تیل پر آیت دم کر کے بالوں میں
لگا سکتے ہے اور اسے دھونے سے کوئی گناہ تو نہیں ہوگا؟
جواب:ویسے بہتر یہ ہے کہ آدمی قرآنی آیات اور مسنون
اذکار پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر پھونک مار کر چہرے اور بدن پر مسح کرلے تاہم اگر کوئی
دم کیا ہوا تیل بالوں میں لگائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔اور جب بال کو دھوتے
ہیں تو اس میں گناہ والی کون سی بات ہے، یہاں پر تو کوئی گناہ نہیں ہے۔
سوال:ایک خاتون کی ایک طلاق تین سال پہلے
ہوئی پھر دوسری ایک سال بعد ہوئی ۔اب تیسری کا مسئلہ ہے کہ خاوند نے یہ کہا کہ اگر
یہ کام جس سے منع کیا ہے اگر وہ کام کر لیا تو طلاق واقع ہو جائے گی تو اس نے وہ
کام کر لیا ،اب بتا دیں کہ طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟
جواب:جب شوہر اپنی بیوی کو کسی کام سے منع کرے اور یہ
کہے کہ فلاں کام کرے گی تو تمہیں طلاق ہے ۔ ایسی صورت میں جب بیوی وہ کام کر لے تو
طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
مذکورہ صورتحال میں شوہر نے اگر تیسری بار طلاق دی ہو
تو تیسری طلاق پڑتے ہی بیوی فورا جدا ہو جائے گی اور یہ طلاق مغلظہ کہلاتی ہے۔ اس
میں شوہر کو رجوع کا اختیار نہیں ہوتا ہے، نہ ہی اب اس عورت سے نکاح کر سکتا ہے جب
تک کہ وہ کسی دوسرے مرد سے شادی نہ کر لے اور مرد اپنی مرضی سے چھوڑ نہ دے۔
سوال:کیا غیر مسلم مسجد میں داخل ہو سکتا
ہے؟
جواب:جی بالکل، غیر مسلم مسجد میں داخل ہو سکتا ہے۔
مسجد نبوی میں ثمامہ بن اثال کو اسلام لانے سے پہلے ایک کھمبے سے تین دن تک باندھ
کر رکھا گیا تھا۔وہ بعد میں وہ اسلام قبول
کر لیتے ہیں۔
سوال:کیا عورت حیض کی حالت میں قبرستان
جا سکتی ہے؟
جواب:بلاشبہ، عورت حالت حیض میں قبرستان جا سکتی ہے۔
قبرستان جانے کے لیے یا قبرستان میں ٹھہرنے کے لیے پاک ہونا ضروری نہیں ہے۔
سوال: میری بیٹی ساڑھے تین سال کی ہے اس
کا نام "زمر" رکھا ہے، کیا یہ نام رکھنا صحیح ہے یا اس کو بدلنا پڑے گا؟
زمر : جم غفیر، گروہ اور فوج کے معنی میں آتا ہے۔آپ نے
اپنی بیٹی کا نام رکھ دیا ہے تو اسے بدلنے کی ضرورت نہیں ہے، اسے ہی رہنے دیں۔
سوال: معاملہ یہ ہے کہ کسی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے، اس بارے میں لوگوں
کا کہنا کہ جان کے بدلے جان کا صدقہ کرنا چاہئے، یہاں میرا سوال یہ ہے کہ صدقہ
کرنے میں افضل صدقہ کیا ہے، جانور ذبح کرنا یا کسی کی مالی مدد کرنا ؟
جواب:جانور ذبح کرنے سے بہتر ہے، غریب کی مدد کرنا
کیونکہ جانور کا گوشت یا کھانے سے انسان کی ایک ضرورت پوری ہوسکتی ہے جبکہ مالی
امداد کرنے سے انسان اپنی ضرورت کے حساب سے سامان خرید سکتا ہے۔ جان کے بدلے جان
کی بات جو سماج میں مشہور ہے یہ لوگوں کی اپنی بنائی ہوئی بات ہے۔نبی صلی اللہ
علیہ وسلم نے بیمار کی طرف سے صدقہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ جو ایکسیڈنٹ میں بچ گیا وہ
بھی ایک طرح سے بیمار آدمی کی طرح ہے جو بیماری سے نجات پا جائے۔ اس صورت میں اگر
کوئی مالی صدقہ کرنا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال:کیا مكة المكرمة يا مدينة المنورة
میں مرنے کی فضیلت ہے ؟
جواب:مکہ سے متعلق تو نص نہیں ہے لیکن مدینہ میں وفات
کی فضیلت آئی ہے۔ مدینہ میں مرنے والے کے لئے شفاعت نبوی حاصل ہوتی ہے، نبی ﷺ فرماتے ہیں: منِ استطاع أن
يموتَ بالمدينةِ فلْيفعلْ فإني أشفعُ لمن ماتَ بها(السلسلة الصحيحة:6/1034)
ترجمہ: جو شخص مدینہ شریف میں رہے اور مدینے ہی میں اس
کو موت آئے میں اس کی شفارش کروں گا۔
سوال: آج ہماری ٹیچر کے ساتھ تیمم کے
بارے میں گفتگو ہورہی تھی تو انہوں نے بتایا کہ اگر لکڑی یا لوھے کی الماری،
دروازہ، دیوار ہو اور اس پر گرد ہو تو اس مٹی سے تیمم ہو جاتا ہے جبکہ میرے علم
میں یہ بات تھی کہ صرف مٹی سے تیمم کرسکتے ہیں جو مٹی سے بنی ہو یا پتھر وغیرہ ہو ۔براہ
کرم رہنمائی فرمائیے کہ کیا ان کی بات درست ہے؟
جواب:تیمم پاک مٹی سے کیا جاتا ہے یا ہر وہ چیز جو مٹی
کے جنس سے ہو اس سے تیمم کرسکتے ہیں جیسے کچی اینٹ یا مٹی کی کچی دیوار وغیرہ۔
لکڑی، لوہا اور الماری مٹی کے جنس سے نہیں ہے اور اس سے
تیمم نہیں ہوگا۔ان چیزوں پر غبار بھی نہ کے برابر یا معمولی ہوتا ہے تاہم جب کسی
کے ساتھ عذر ہو اورتیمم کے لئے وہاں پاک
مٹی میسر نہ ہو تو اس وقت عذر کے باعث گردوغبار والی کسی پاک چیز پہ ہاتھ مارکے تیمم کرسکتے ہیں حتی کہ بیڈ
پہ پڑا مریض عذر کی حالت میں بیڈ پرہاتھ مار کر تیمم کرسکتا ہے۔
سوال: ایک خاتون کا شوہر جدہ میں مقیم
ہے، وہ انڈیا سے وزٹ ویزا کے بجائے عمرہ
ویزا پر آرہی ہے شوہر کے اقامہ کے کچھ مسئلہ کی وجہ سے۔ عمرہ ویزا کی وجہ سے اسے
سیدھے مکہ جانا ہوگا لیکن یہ کہتی ہے کہ اس وقت اس کے ماہواری کے ایام بھی ہونگے اور بچے چھوٹے رہنے
کی وجہ سے آتے ہی عمرہ کرنا اس کے لئے مشکل بھی ہے تو وہ چاہتی ہے کہ بغیر عمرہ کی
نیت اور احرام کے مکہ چلی جائے گی حکومت کی پابندی کی وجہ سے پھر مکہ پہنچے کے بعد
وہ واپس جدہ چلی جائے گی شوہر کے گھر پھر بعد میں اپنی سہولت سے عمرہ کرنے جائے
گی۔کیا اس کا یہ عمل درست ہے؟
جواب:سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جو لوگ بھی سعودی میں
رہتے ہوئے اپنی فیملی یہاں بلاتے ہیں ان کا سب سے پہلا اور اہم مقصد عمرہ کرانا
ہوتا ہے خواہ ویزہ کوئی بھی ہو۔ اور ہم جانتے ہیں کہ عمل میں نیت کا اصل اعتبار
ہوتا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ جو خاتون اپنے شوہر کے پاس جدہ آرہی ہے اس کا اصل مقصد
عمرہ ہی کرنا ہے مگر وہ اپنی سوچ و فکر کے حساب سے آرام کرکے عمرہ کرنا چاہتی ہے۔
اس صورتحال میں اس خاتون کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی
میقات سے احرام باندھ کر مکہ آئے اور پہلے عمرہ ادا کرے۔
احرام باندھتے وقت حیض کی حالت میں ہو تب بھی احرام
باندھے گی اور پاک ہونے تک رکی رہے گی، جب پاک ہو جائے گی پھر عمرہ کرے گی۔
اگر وہ احرام باندھ کر پاکی کی حالت میں مکہ پہنچتی ہے
اور وہ تھکی ہوئی ہے تو کچھ دیر یا کچھ گھنٹے آرام کر لے، اس میں حرج نہیں ہے لیکن
احرام میں باقی رہے اور کچھ آرام کرکے وہ پہلے اپنا عمرہ مکمل کرے۔بچے کے لیے جو
آسانی ہو اس پر عمل کرے چاہے اپنے شوہر کے پاس رکھے یا اپنے ساتھ رکھے۔ سفر کے وقت
جب بچہ ساتھ ہے تو کچھ پریشانی جھیلنی پڑے گی۔
سوال: ایک خاتون پوچھتی ہے کہ اس کے بچے نے تسبیح توڑ دی ہے توکیا اس کو وہ ایسے ہی
پھینک سکتی ہے؟
جواب:یہ تسبیح نہیں، تسبیح کا دانہ ہے اور اس سے زیادہ
اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ٹوٹ جانے پر اسے پھینک دیتے ہیں تو اس میں کوئی حرج
نہیں ہے۔درست کرکے پھر سے اسے استعمال کرتے ہیں تو بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔
سوال:کیاکمپنی سے ملنے والی سہولت قبول
کر سکتے ہیں جیسےہم جس کمپنی میں کام کر رہے ہیں کمپنی والے یہ کہہ دیں کہ آپ علاج
کے لئے فلاں اسپتال جاکر فری علاج کروا سکتے ہیں، یہ کمپنی کی طرف سے سہولت ہے تو
اس طرح کا علاج کروانا درست ہے؟
جواب:کمپنی اپنے ملازم کو جو کچھ بھی سہولت دے، اس کے
لیے سہولت سے فائدہ اٹھانا بالکل جائز ہے۔ کمپنی ایڈوانس دے، بونس دے، کھانا پینا
دے، رہائش دے، طبی سہولت دے، غرض یہ کہ کمپنی کی کسی قسم کی سہولیات ہوں ملازم انہیں
قبول کر سکتا ہے بشرطیکہ کوئی ایسی سہولت جو شریعت کے خلاف ہو اس سے پرہیز کرنا
چاہیے۔
سوال: اگر مجبوری میں کسی سے قرضہ لینا
ہو اور ہمیں معلوم ہو کہ اس کے پاس جو پیسہ ہے وہ ناجائز طریقہ سے کمایا گیا مال
ہے جیسے جوا وغیرہ تو کیا ایسے شخص سے قرضہ لے سکتے ہیں اگر کوئی دوسرا شخص قرضہ
نہ دے رہا ہو۔ اسی طرح علاج کی غرض سے سودی بینک سے لون لینا جائز ہوگا، دوسری
کوئی صورت نہیں ہے علاج بہت ضروری ہو تب سودی بینک سے قرض لے سکتے ہیں؟
جواب:دین اسلام میں انسان کی ہر ضرورت کا حل پیش کیا
گیا ہے۔ جس کے پاس انتہائی مجبوری ہو اور علاج کے لیے یا کسی دوسری ناگزیر ضرورت
کے لیے قرض لینے کی نوبت پڑجائے اور اس کے پاس حرام کمائی یا سودی لون لینے کا
راستہ ہو تو حرام راستہ سے بچتے ہوئے اسلام نے جو حلال طریقہ بتایا ہے اسے اختیار
کرے۔ وہ ایسی صورت میں زکوۃ کا مستحق ہے، ضرورت بھر لوگوں سے زکوۃ لے سکتا ہے۔
الحمدللہ اس وقت مسلم معاشرے میں متعدد ادارے ہوتے ہیں یا بہت سارے صاحب ثروت لوگ
ہوتے ہیں جن سے صدقہ یا زکوۃ کا تعاون لے کر آدمی اپنی ضرورت پوری کر سکتا ہے۔
سوال: شیعہ کے گھر کھانے وغیرہ کی دعوت
قبول کرنی چاہئے یا نہیں،اگر وہ ہمارا پڑوسی بھی ہو؟
جواب:شیعہ پڑوسی ہو یا پڑوسی نہیں ہو، کہیں کا بھی شیعہ
ہو حتی کہ کوئی کافر ہی کیوں نہ ہو۔ وہ اگر ہمیں حلال کھانا دے تو کھا سکتے ہیں اس
میں حرج نہیں ہے لیکن اگر کوئی ایسا کھانا پیش کرے جو شریعت میں حرام ہو تو وہ
نہیں کھا سکتے ہیں، یہاں تک کہ غیر مسلم یا شیعہ کی مذہبی رسومات کے تعلق سے حلال
کھانا بھی نہیں کھا سکتے ہیں کیونکہ اسلام نے ہمیں غیروں کی مشابہت اختیار کرنے سے
منع کیا ہے۔ مذہبی رسومات اور تہوار سے ہٹ کر عام موقع سے شیعہ یا کوئی ہندو اور
کافر ہمیں حلال کھانا دے تو اس کے کھانے میں حرج نہیں ہے۔
سوال:اسکول میں عید میلاد پر ریلی نکالی
جاتی ہے، سیرت پر تقاریر، نعت اور سیرت
کوئز وغیرہ لیے جاتے ہیں ۔منع کرنے پر کہا جاتا کہ جسے اچھا نہ لگے وہ شامل نہ ہو،
انہیں کس طرح روکا جائے ؟
جواب:کسی بھی ادارے میں کوئی فنکشن اور کوئی پروگرام
ہوتا ہے تو اس کا ذمہ دار ادارہ ہوتا ہے۔ اگر ادارہ بارہ ربیع الاول کے تعلق سے
جلوس نکالتا ہے اور محفل قائم کرتا ہے تو یہ شرعی اعتبار سے بدعت ہے، کسی بھی سچے
پکے مسلمان کو اس طرح کے کام میں شریک نہیں ہونا چاہیے۔
جہاں تک اس مسلمان کی ذمہ داری کا معاملہ ہے تو وہ یہ
ہے کہ اگر وہ ادارے کو اس عمل سے روک سکتا ہے تو ہاتھ سے روکے اور نہیں روک سکتا
ہے تو قرآن و حدیث کی روشنی میں اسے اس بدعت کے بارے میں آگاہ کر دے اور اس عمل سے
خود کو دور رکھے۔ اس کی ذمہ داری ادا ہو گئی اور اللہ کے یہاں وہ بری الذمہ ہوگیا۔
اس سے زیادہ اس کی ذمہ داری نہیں ہے۔ ضروری نہیں کہ ہم کسی کو سمجھائیں تو وہ
ہماری بات سمجھ ہی جائے اور مان بھی لے۔ ہمارا کام صرف تبلیغ کرنا ہے، ہدایت اور
توفیق اللہ کی طرف سے ملتی ہے۔
سوال: میں نے سنا ہے کہ قرآن حفظ کرنے
میں تدبر کیا ہو توحفظ کرنا آسان ہوتا ہے ۔مجھے قرآن پر تدبر سیکھنا ہے اس کے لیے
کوئی کتاب یا لیکچرز موجود ہوں تو رہنمائی فرمائیں جن میں ارکان ایمان اور مضامین
موجود ہوں؟
جواب:ہم نے ایسا کبھی نہیں سنا ہے کہ تدبر کرنے سے قرآن
جلدی یاد ہو جاتا ہے۔ تدبر الگ چیز ہے جس کا تعلق تفہیم القرآن یا معانی قرآن
سمجھنے سے ہے جبکہ قرآن کا حفظ کرنا زبانی طور پر یاد کرنے اور رٹنے کا نام ہے۔ اس
میں تدبر کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ ایک مسلمان کو قرآن سمجھنا بھی چاہیے
اس کے لیے آدمی قرآن کو ترجمہ اور تفسیر سے پڑھتا رہے۔ سب سے مختصر اور آسان تفسیر
احسن البیان ہے۔ اس کے پرانے ایڈیشن میں آپ کو مضامین بھی ملیں گے اس لیے یہ تفسیر
سلفی مکتبہ سے حاصل کریں اور اس سے استفادہ کریں۔
سوال: ایک لڑکی کا سوال ہے کہ ایک لڑکے
کی شادی ہوئی اور آج ہی ولیمہ ہوا اور دوسرے دن عمرہ کے لیے روانہ ہوگئے جبکہ
ولیمہ دوسرے دن ہوتا ہے یہ خوشی کا کھانا ہوتا ہے انہوں نے جو کیا ، کیاوہ طریقہ صحیح ہے؟
جواب:دوسرے دن ولیمہ کرنا کوئی ضروری نہیں ہے۔ نکاح
ہوجانے کے بعد کسی بھی وقت ولیمہ کیا جاسکتا ہے۔ ہاں یہ افضل ہے کہ آدمی رخصتی کے
بعد بیوی کے ساتھ رات گزار کر اگلے دن ولیمہ کرے تاہم اس معاملہ میں وسعت ہے۔ نکاح
منعقد ہونے کے بعد بغیر رخصتی کے بھی ولیمہ کیا جا سکتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں
ہے۔
سوال: ایک بہن کا سوال ہے کہ ماہواری کے
ایام میں مباشرت منع ہے اس کا علم ہے لیکن مباشرت کرتے وقت ماہواری کے ایام شروع
ہوگئے اس کا علم نہیں تھا (ماہواری کے ایام آنے میں عادت کے مطابق اور چار دن باقی
تھے)۔ مباشرت کے بعد اس کا علم ہوا تو اب کیا کریں ؟
جواب:اگر میاں بیوی مباشرت کر رہے تھے اسی دوران بیوی
کو حیض آگیا اور اس کا احساس جماع کے دوران نہیں ہوسکا۔ جماع کے بعد اس کا علم ہوا
تو ایسی صورت میں میاں بیوی پر کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ یہ عمل انجانے میں صادر ہوا
ہے اور اللہ تعالی نے اپنے بندوں سے بھول چوک کو معاف کر دیا ہے۔
سوال: مولوی حضرات یہ حدیث بیان کرتے ہیں
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے وہ گڈریا بہت محبوب ہے جو
بکریاں چراتا ہے جیسے ہی اذان کی آواز سنتا ہے اقامت کہتا ہے اور نماز پڑھ لیتا ہے
اس سے وہ استدلال کرتے ہیں کہ اکیلے بندے کی جماعت ہو جاتی ہے، کیا یہ بات درست ہے؟
جواب:یہ حدیث ایسے نہیں کہ اذان کی آواز سنتا ہے بلکہ
حدیث میں ہے کہ وہ پہاڑ کی چوٹی پر اذان دیتا ہے اور نماز پڑھتا ہے۔حدیث دیکھیں۔عقبہ
بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے
سنا: ”تمہارا رب اس بکری کے چرواہے سے خوش ہوتا ہے جو پہاڑ کی چوٹی کے کنارے پر
اذان دیتا اور نماز پڑھتا ہے، اللہ عزوجل فرماتا ہے: دیکھو میرے اس بندے کو یہ
اذان دے رہا ہے اور نماز قائم کر رہا ہے، یہ مجھ سے ڈرتا ہے، میں نے اپنے (اس)
بندے کو بخش دیا، اور اسے جنت میں داخل کر دیا ہے“۔(سنن نسائی:667)
ظاہر سی بات ہے
وہ بستی سے دور پہاڑ پر اکیلا ہے تو وہ اکیلے ہی نماز پڑھے گا۔ یہ حکم ہر اس آدمی
کے لیے ہے جو کسی جگہ پر اکیلا رہتا ہے خواہ وہ ٹرین میں اکیلا ہو، ہوائی جہاز میں
اکیلا ہو، راستے میں اکیلا ہو یا صحرا اور جنگل میں اکیلا ہو، وہ اکیلے ہی نماز
پڑھے گا لیکن آدمی اگر بستی میں ہے تو اس کے اوپر واجب ہے کہ جماعت کے ساتھ مسجد
میں نماز پڑھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندھے کو بھی مسجد میں جماعت سے نماز
پڑھنے کا حکم دیا اور بڑی سخت وعید سنائی ہے اس کے لئے جو جماعت کے ساتھ مسجد میں
نماز پڑھنے کے لیے نہیں آتا۔
سوال: ایک خاتون کہتی ہے کہ میرے پاس دو
چھوٹے بچے ہیں، جب وہ پاخا نہ پیشاب کرتے
ہیں تو مجھے چھینٹا پڑ جاتا ہے اور مجھے شک بھی ہو تا ہے کہ چھینٹا لگ گیا ہے تو
ایسی صورت میں ہم کیا کریں اور کس طرح نماز پڑھیں؟
جواب:سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اسلام میں شک و شبہ اور
وسوسہ کی گنجائش نہیں ہے بغیر ثبوت کے دل
میں یہ وسوسہ کرنا کہ کہیں چھینٹا پڑگیا ہو یہ صحیح نہیں ہے۔ اپنے دل سے اس وسوسہ
کو ہمیشہ کے لیے دور کرے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جب بچہ پیشاب و پاخانہ الگ جگہ کرے
یعنی خاتون کے کپڑے پر پیشاب نہ کرے بلکہ الگ جگہ کرے تو ایسی صورت میں بچے کی
صفائی کرتے وقت اگر پانی کا چھینٹا ادھر ادھر پڑتا ہے تو اس میں کوئی حرج کی بات
نہیں ہے اور اس سے کپڑا ناپاک نہیں ہوتا ہے۔
پانی سے بچے کی صفائی کرنے پر اڑنے والے چھینٹا سے اگر
کپڑا ناپاک ہو جائے گا پھر تو آدمی کبھی بھی پاک نہیں ہوگا کیونکہ وہ خود بھی
پیشاب اور پاخانہ کرنے کے بعد استنجا کرتا ہے اور استنجا کا پانی انسان کی شرمگاہ
پر لگا رہتا ہے، یہ بعد میں اس کے کپڑے پر بھی لگتا ہے۔ اس وجہ سے اپنے دل سے
وسوسہ نکال دینا چاہیے۔ اگر آنکھوں سے نظر آئے کہ پیشاب کا یا پاخانے کا کچھ حصہ
کپڑا یا بدن پر لگ گیا ہے تو اس کی صفائی کرلے۔
سوال:ڈاکٹر اسرار احمد کو بہت لوگ سنتے
ہیں، ان کی تفسیر کو بہت بہترین قرار دیتے ہیں۔اگر ان کو منع کیا جائے تو کہتے ہیں
کہ ان کا انداز بیاں دل کو ہلا دیتا ہے،وہ تفسیر بہت عمدہ انداز میں کرتے ہیں۔ ان
کے دوسرے معاملات سے اختلاف ہوسکتا ہے تو میرا سوال یہ ہے کیا ان کی تفسیر سننا
درست ہے؟
جواب:بہت سے لوگوں کا انداز اور گفتگو کا اسلوب اچھا
ہوتا ہے لیکن اسلام میں انداز بیان اور اسلوب نہیں دیکھا جاتا ہے بلکہ علم دیکھا
جاتا ہے۔ جس کے پاس قرآن و حدیث کا علم ہو اور وہ منہج سلف پر قائم ہو ایسے ہی
آدمی سے ہمیں علم لینا چاہیے۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ آجکل لوگ عمل کرنے کی نیت سے
نہیں سنتے ہیں بلکہ کان کو لذت پہنچانے کی نیت سے سنتے ہیں یہی وجہ ہے کہ لوگ سنتے
ہیں مگر اصلاح نہیں ہوتی ہے۔ ایک ایک گاؤں میں سال بھر بڑے بڑے جلسے ہوتے ہیں۔ ایک
ایک جلسہ میں دسیوں مقررین ہوتے ہیں لیکن گاؤں والوں پر ذرہ برابر بھی اثر نہیں
ہوتا۔ وجہ یہی ہے کہ لوگ صرف کانوں کو لذت پہنچاتے ہیں۔
ڈاکٹر اسرار کا انداز بیان اچھا ہے اس وجہ سے لوگ بہت
سنتے ہیں مگر ڈاکٹر صاحب کے یہاں عقائد کی خرابی پائی جاتی ہے اور دین اسلام میں
عقیدہ ہی سب سے اہم معاملہ ہے۔ جس کا عقیدہ و منہج درست نہ ہو اس سے ہرگز علم نہیں
لیا جائے گا خواہ اس کا انداز بیان کیسا بھی ہو۔ آپ انہیں سلفی علماء کا بیان سننے کو کہیں ۔شیخ جلال
الدین قاسمی حفظہ اللہ کی تفسیر سننے کے
لیے کہیں آپ کے بیان میں بڑی گہرائی ہوتی ہے۔
سوال: کیا تانبے یا پیتل کی انگوٹھی عورت
بن سکتی ہے؟
جواب:ہاں، عورت ہر قسم کی انگوٹھی پہن سکتی ہے خواہ وہ
لوہے کی ہو، تانبے یا پھر پیتل کی ہو یا ہیرے جواہرات کی ہو، اس میں کوئی حرج کی
بات نہیں ہے۔
سوال: میرے بھتیجے کو جس کمپنی سے ایک
سال کا معاہدہ ملا گرافک ڈیزائن کا ،اس میں سال بھر جتنے مناسبات آتے ہیں غیروں کے تہوار کےجیسے ھندوؤں اور کرسچن کےتمام تہوار اور اپنی عیدین وغیرہ ۔اس کے پمفلٹ بنانا
اور سوشل میڈیا کے تمام کام تو کیا غیروں کے تہوار کے پمفلٹ بنانا اور اس کی آمدنی
حاصل کرنا جائز ہے؟
جواب:ایک آدمی کا گرافک ڈیزائننگ کا کام کرنا جائز ہے،
اسے بطور پیشہ اختیار کیا جاسکتا ہے تاہم اس میں جو غیر شرعی امور ہیں ان سے بچنا
پڑے گاجیسے جاندار کی تصویر کشی کرنا اسلام میں حرام ہے اس لیے یہ کام کرنا جائز
نہیں ہے۔ اسی طرح سوال میں جو چیز مذکور ہے کہ کفار کے تہوار اور ہندوؤں کی عیدوں
کے پمفلٹ اور مذہبی چیزوں کی ڈیزائننگ کرنا، یہ بھی جائز نہیں ہے۔ یہ گناہ کے کام
پر تعاون ہے، ایسا کام کرکے اس کی کمائی لینا حرام ہے۔ ایک مسلمان کو اس چیز سے
پرہیز کرنا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ گناہ اور ظلم کے کاموں پر ایک دوسرے کا
تعاون نہ کرو۔
سوال: میں نے سنا ہے کہ جب نماز صحیح سے
نہیں ادا کی جائے تو نماز بددعا کرتی ہے
اس کے لئے ایسی کوئی دلیل ہے ؟
جواب: اس قسم کی ایک حدیث آتی ہے کہ اگر آدمی اچھے طریقے سے نماز
پڑھتا ہے تو نماز دعا دیتی ہے کہ جس طرح تو نے میری حفاظت کی اللہ تمہاری حفاظت
کرے اور جب آدمی اچھی طرح نماز نہیں پڑھتا ہے تو نماز بددعا دیتی ہے اور کہتی ہے
کہ اللہ تعالی تجھے ضائع کرے جیسے تو نے مجھے ضائع کردی۔یہ حدیث ضعیف ہے یعنی قابل
استدلال نہیں ہے۔
سوال: کیا یہ کہنا درست ہے کہ دنیا
مکافاتِ عمل ہے؟
جواب:یہ کافروں کا نظریہ ہے کہ دنیا ہی میں انسان کو
اچھے اور برےہر کام کا نتیجہ مل جاتا ہے جبکہ شریعت اسلامیہ کے اندر یہ نظریہ ہے
کہ دنیا دارالامتحان ہے اور بدلے کا دن آخرت ہے اسی لیے آخرت کو یوم الجزاء اور
یوم الحساب بھی کہا جاتا ہے۔ آخرت ہی میں انسان کے ہر عمل کا بدلہ ملے گا تاہم
دنیا میں بھی کبھی کبھی انسان کے اچھے یا برے عمل کی وجہ سے فائدہ یا نقصان ہوتا
ہے۔ یہ بسا اوقات ہوتا ہے اور کسی کسی عمل کے سبب ہوتا ہے جبکہ کلی طور پر تمام
چھوٹے بڑے عمل کا حساب آخرت میں ہوگا لہذا یہ اصطلاح درست نہیں ہے۔
سوال: اگر کسی لڑکی کے گھر والے کسی رشتے
سے مطمئن ہوں اور وہ بھائی دین اور اخلاق میں اچھا بھی ہو لیکن لڑکی کو ظاہری طور
پر اُس کی طرف کوئی کشش محسوس نہ ہوتو ایسے میں کیا کرنا چاہیے۔کیا نکاح سے پہلے
ظاہری پسندیدگی اور کشش بھی ضروری ہے یا صرف دین اور اچھے اخلاق کو دیکھ لینا کافی
ہے کیونکہ آج کل صحیح منہج اور اچھے اخلاق والا رشتہ ملنا مشکل ہے اور گھر والے
بھی شادی کے لیے فکرمند ہوتے ہیں تو کیا صرف اسی بنیاد پر ہاں کر دینا بہتر ہے؟
جواب:ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورتوں سے شادی چار چیزیں دیکھ کر کی جاتی ہے: اس کا
مال دیکھ کر، اس کی خاندانی وجاہت (حسب) دیکھ کر، اس کی خوبصورتی دیکھ کر اور اس
کا دین دیکھ کر، تو تم دیندار عورت کو پانے کی کوشش کرو، تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں
یعنی اگر ایسا نہیں کرو گے تو نقصان اٹھاؤ گے۔ (بخاری:5090)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے ہمیں
معلوم ہوتا ہے کہ نکاح کرنے میں صرف دین کو دیکھا جائے گا۔ جب لڑکا شادی کرنے لگے
تو دینداری دیکھ کر لڑکی سے شادی کرے اور لڑکی شادی کرے تو دین داری دیکھ کر لڑکے
سے شادی کرے۔ ظاہری پسندیدگی یا کشش کا نکاح سے تعلق نہیں ہے اور نہ ہی کسی لڑکی
یا لڑکا کو کشش دیکھ کر شادی کرنا چاہیے بلکہ دینداری اور اخلاق نظر آئے تو شادی
کرنے میں بالکل نہیں ہچکچانا چاہیے۔
سوال: گورنمنٹ جاب سے ریٹائرمنٹ کے وقت
لوگ دعوت دیتے ہیں ،سیریمنی ایونٹ منعقد کرتے ہیں اور رشتے دار ان کو پھول پہنا کر
کپڑے بناتے ہیں تو ایسی دعوت دینا اور اس میں شرکت کرنا کیسا ہے؟
جواب:اگر کوئی آدمی کسی عہدے سے ریٹائر ہوتا ہے اور اس
موقع سے اپنے رشتہ داروں کو دعوت دیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اس
وقت آدمی کو کافی پیسہ ملتا ہے۔ یاد رہے کہ ایک آدمی کو عام سی دعوت کرنی چاہیے،
اس میں رسم و رواج اور دکھاوا نہیں ہونا چاہیے۔اگر دعوت میں رسم و رواج ہو، منکرات
انجام دئے جائیں جیسے ناچ گانا، ڈی جے وغیرہ تو اس قسم کی دعوت میں شریک نہیں ہونا
چاہیے۔ پھول مالا پہنانا بھی غیروں کی بلکہ ہندو دیوی دیوتاؤں کی مشابہت ہے اس سے
مسلمانوں کو بچنا چاہیے۔
سوال: بارہ ربیع الاوّل کے دن مدرسوں میں
جلسہ ہوتا ہے، بچیاں نعت وغیرہ سناتی ہیں تو ایسے جلسے میں شریک ہوا جا سکتا ہے
بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے یا اس دن جلسہ کرنا ہی نہیں چاہیے؟
جواب:بارہ ربیع الاول کی مناسبت سے کسی طرح کا کوئی بھی
کام نہیں کیا جائے گا۔ نہ جلسہ کیا جائے گا، نہ کوئی محفل جمائی جائے گی اور نہ ہی
پکوان پکائے جائیں گے ، نہ عمدہ کپڑے لگائے جائیں گے یعنی اس دن کی مناسبت سے کسی قسم
کا کوئی عمل نہیں کیا جائے گا۔
اگر کوئی اس قسم کا پروگرام کرتا ہے تو ہمیں اس پر روک
لگانا چاہیے، نہ کہ اس میں شریک ہوکر اس چیز کو اور بڑھاوا دینا چاہیے۔ دین میں
بدعت کی ایجاد اسی طرح سے شروع ہوتی ہے۔ نوح علیہ السلام کی قوم میں شرک کیسے
پھیلا؟پہلے نیک لوگوں کی تصویر بنائی گئی پھر ان کو نصب کیا گیا، بعد میں ان کی
عبادت شروع ہو گئی۔اس طرح امت میں شرک پھیلا۔
سوال: دانتوں پر کوَر لگا ہوا ہو تو وُضو
کے دوران اسے اتارنا ہوگا؟
جواب:وضو کے دوران دانتوں کا کور اتارنے کی ضرورت نہیں
ہے، منہ میں پانی لے کر اچھی طرح کلی کرنا کافی ہے۔
سوال: کیا یہ تحریر درست ہے؟
"رحمت اللہ" اور "رحمة الله" میں
کیا فرق ہے؟
ایک طالب علم کمرے میں داخل ہوا
تو اس نے بورڈ پر "رحمت اللہ" لکھا ہوا دیکھا
اسے لگا یہ ایک فاش املائی غلطی ہے
کیونکہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ اسے "رحمة
الله" لکھا جانا چاہیے
پروفیسر نے سب طلباء سے سوال کیا
کیا کوئی بتا سکتا ہے "رحمت" اور
"رحمة" میں فرق کیا ہے؟
زیادہ تر طلباء نے کہا کہ یہ تو بس ہجے کی غلطی ہے!
تو پروفیسر نے وضاحت دی:
اگر لفظ "رحمت" ت کھلی ہو
تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ ایسی رحمت ہے جو پہلے رکی
ہوئی تھی
لیکن اب اللہ نے اسے کھول دیا ہے
یعنی قبض کے بعد بسط
اور یہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک کے ساتھ ہی آتی
ہے
مثال کے طور پر
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی بیوی بہت بڑھاپے
میں تھے
اولاد کی امید ختم ہو چکی تھی
تب اللہ کی طرف سے خوشخبری آئی
قرآن میں آتا ہے: قالوا أتعجبين من أمر الله رحمت الله
وبركاته عليكم أهل البيت إنه حميد مجيد
یعنی وہ رحمت جو بند ہونے کے بعد دوبارہ کھلی
ایسی ہی رحمت حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا پر نازل
ہوئی
جب انہوں نے بیٹے کے لیے دعا کی
ذِكرُ رحمت ربك عبده زكريا
پھر آگے اللہ نے ان کو یحییٰ عطا فرمایا
اسی طرح اللہ فرماتا ہے
فانظر إلى آثار رحمت الله كيف يحيي الأرض بعد موتها
یعنی زمین مردہ ہو چکی تھی
پھر اللہ کی کھلی ہوئی رحمت سے زندہ ہو گئی
یعنی پھر سے زندگی مل گئی
یہ سب مثالیں "رحمت" والی ہیں
یعنی ت کھلی ہوئی
یعنی ایسی رحمت جو دوبارہ جاری ہوئی
اللہ کی قدرت اور وسعت کو ظاہر کرتی ہے
لیکن جب "رحمة" یعنی ت بند آتی ہے
تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ رحمت ابھی امید پر ہے
ابھی ملی نہیں
ابھی دعا مانگی جا رہی ہے
جیسے اللہ فرماتا ہے:
أمن هو قانت آناء الليل ساجدا وقائما يحذر الآخرة
ويرجوا رحمة ربه
یعنی وہ اللہ کی رحمة کا امیدوار ہے
جو ابھی ملی نہیں
جو آخرت میں عطا کی جائے گی ان شاء اللہ
اسی طرح فرمایا:
فأما الذين آمنوا بالله واعتصموا به فسيدخلهم في رحمة
منه وفضل ويهديهم إليه صراطا مستقيما
یعنی ان کو رحمة نصیب ہو گی
یہ وعدہ ہے
تو فرق یہ ہے:
رحمت = ت کھلی ہوئی = وہ جو اللہ نے قبض کے بعد عطا کی
رحمة = ت بند = وہ جس کی بندہ امید رکھتا ہے
اور آخر میں ایک دعا:
اے اللہ
ہمیں اپنی ہر دو رحمتوں میں شامل فرما
خواہ وہ بند ہو یا کھلی
ہمیشہ ہمارے شامل حال رہے
اے اللہ
ہمیں وہ علم عطا فرما جو ہمیں فائدہ دے
اور ہمیں وہ باتیں سکھا دے جو ہم نہیں جانتے آمین۔
جواب: پہلی بات
یہ ہے کہ آپ دینی مسائل میں کسی اچھے عالم سے رہنمائی لیں گے، یہ کسی پروفیسر کی
بات ہے اور پروفیسر جیسے لوگوں سے شرعی باتیں قبول نہ
کریں۔دوسری بات یہ ہے کہ اس میں رحمت اور رحمۃ کے
درمیان جو فرق بتایا گیاہے وہ درست نہیں ہے۔
قرآن میں بہت ساری آیات ہیں جو پروفیسر کے اس فرق کو
غلط ثابت کرتی ہیں۔ سمجھنے کے لئے چند آیات پیش کررہا ہوں۔
پروفیسر نے کہا ہے کہ جب "رحمة" یعنی ت بند
آتی ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ رحمت ابھی امید پر ہے ابھی ملی نہیں، ابھی دعا
مانگی جا رہی ہے۔
٭٭٭سورہ کہف کی دو آیات دیکھیں جن میں بند ت
ہے اور یہ رحمت اللہ نے بندے کو عطا کردی ہے۔
(1)فَوَجَدَا
عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن
لَّدُنَّا عِلْمًا (الکہف:65)
ترجمہ:پس ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا، جسے ہم
نے اپنے پاس کی خاص رحمت عطا فرما رکھی تھی اور اسے اپنے پاس سے خاص علم سکھا رکھا
تھا۔
(2)قَالَ
هَٰذَا رَحْمَةٌ مِّن رَّبِّي ۖ
فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكَّاءَ ۖ
وَكَانَ وَعْدُ رَبِّي حَقًّا (الکہف:98)
ترجمہ:کہا یہ سب میرے رب کی رحمت ہے ہاں جب میرے رب کا
وعدہ آئے گا تو اسے زمین بوس کر دے گا، بیشک میرے رب کا وعدہ سچا ہے۔
٭٭٭سورہ انبیاء میں دیکھیں جو رحمت مل گئی
ہے، اس کے لئے بند ت مستعمل ہے۔
(1)وَآتَيْنَاهُ
أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَذِكْرَىٰ
لِلْعَابِدِينَ (الانبیاء:84)
ترجمہ: اور اس کو اہل و عیال عطا فرمائے بلکہ ان کے
ساتھ ویسے ہی اور، اپنی خاص رحمت سے تاکہ سچے بندوں کے لئے سبب نصیحت ہو۔
٭٭٭ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ نبی ﷺ کائنات کے
لئے رحمت بن کر آئے اور رحمت پھیلاکر دنیا سے چلے بھی گئے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ
(الانبیاء:107)
ترجمہ: اور ہم نے آپ کو سارے جہاں کے لئے رحمت بناکر
بھیجا۔
اگر پروفیسر کی بات صحیح مان لی جائے تو اس کا مطلب یہ
ہوا کہ نبی ابھی دنیا میں آئے ہی نہیں، ابھی دعا مانگی جارہی ہے، آخرت میں نبی
آئیں گے۔
خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا تحریر غلط ہے۔
سوال: ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ اللہ
تعالی ہم سے محبت کرتا ہے؟
جواب:اللہ تعالی نے آل عمران میں اپنی محبت کی علامت
بیان کی ہے، اللہ فرماتا ہے:
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي
يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ
وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (آل عمران:31)
ترجمہ:کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری
تابعداری کرو خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا
اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جو رسول اللہ ﷺ کی اتباع
کرے گا ، اللہ تعالی اس سے محبت کرے گا۔ جو رسول اللہ کی اتباع نہ کرے، اللہ اس سے
محبت نہیں کرتا ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔