آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(74)
جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ - سعودی عرب
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سوال: کسی نے ایک ویڈیو بھیجی ہے اس میں
ایک آدمی کہہ رہا ہے کہ سر میں کالا خضاب لگانا حرام ہے لیکن اگر تیس سال سے کم
عمر والے لوگوں کے بال سفید ہوجائے تو وہ بلیک کلر لگاسکتے ہیں کیونکہ تیس سال سے
کم عمر میں بال سفید ہونا فطرت سے ہٹ کر ہے ،اس وجہ سے نیچرل دکھنے کے لئےبال کالا کرسکتے ہیں، اس بات کی کیا حقیقت ہے؟
جواب:احناف کے یہاں بعض ایسے فتاوی ملتے ہیں جن میں
مذکور ہے کہ نوجوانی میں یعنی تیس چالیس سال سے قبل کالا خضاب لگانا جائز ہے مگر
حقیقت یہ ہے کہ اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ قرآن و حدیث میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ
تیس یا چالیس سال سے پہلے کالا خضاب لگا سکتے ہیں اور اس کے بعد کالا خضاب نہیں
لگا سکتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عام ہے جو تمام مراحل
یعنی نوجوانی اور بڑھاپے سب کو شامل ہے
حتی کہ مردوں کے علاوہ عورتوں کو بھی شامل ہے۔
شیخ ابن بازؒ سے سوال کیا گیا کہ بعض لوگ شادی کی غرض
سے دھوکہ دینے کے لئے کالا خضاب لگاتے ہیں، اس کا حکم کیا ہے تو شیخ نے جواب دیا
کہ بعض لوگوں کا بال جلدی سفید ہو جاتا ہے مگر اسے کالا رنگ سے نہیں رنگنا چاہیے
کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان" سفیدی کو بدلو اور کالے سے
بچو" عام ہے جو مرد و عورت سب کو شامل ہے۔
سوال: نماز کا وقت ہونے کے بعد اگر کسی
کو حیض آئےاور وہ نماز نہ پڑھ سکے تو کیا
پاک ہونے کے بعد اس نماز کو پڑھنا پڑے گا؟
جواب:ہاں، اس نماز کو پاکی حاصل ہونے کے بعد ادا کرنا
ہوگا۔
سوال : ایک خاتون کہہ رہی ہے کہ بلیک کلر
لگانا حرام ہے، اگر کسی نے بلیک کلر کر لیا تو اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔ جب تک
سفید بال نہیں آجاتے تب تک اس کی نماز قبول نہیں ہوگی، کیا اس بہن کی بات درست ہے؟
جواب:یہ مسئلہ اپنی جگہ درست ہے کہ کسی کو بھی اپنے
بالوں میں کالا رنگ نہیں لگانا چاہیے خواہ وہ مرد ہو یا عورت مگر یہ بات درست نہیں
ہے کہ اس کی نماز قبول نہیں ہوگی جب تک بال سفید نہ ہو جائے۔
جس نے ایسی بات کہی ہے اس نے غلط بات کہی ہےکیونکہ اس
بات کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے۔ لوگوں کوبغیر دلیل کے اپنی طرف سے کوئی بات کرنے سے
پرہیزکرنا چاہئے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جس بات کا تمہیں علم نہ ہو اس کو بیان
نہ کیا کرو۔
سوال:عدنان کا کیا معنی ہے اور کیا یہ
نام اپنے بچے کے لئے رکھ سکتے ہیں؟
جواب:عدنان عدن سے مشتق ہے اور عدن ٹھہرنے کو کہتے ہیں
اس طرح عدنان کا معنی کسی متعین جگہ پر ٹھہرنے والا ہوا یا یوں کہیں کسی متعین جگہ
پر مستقل ٹھہرنے والا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد کا نام ہے اور یہ
نام رکھنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
سوال:آج کل ایک ٹرینڈ چل رہا ہے جس میں برقع پر عربی عبارت لکھی ہوتی ہے یا عربی کیلی گرافی ہوتی ہے۔
ممکن ہے اس میں قرآنی آیت یا شیطانی کوئی نام وغیرہ ہو۔ اس طرح کے کپڑے اور برقع
خریدیا بیچنا اور اس کی تجارت کرنا کیسا ہے؟
جواب:یہ فتنے کا زمانہ ہے، آپ روز بروز زندگی کے ہر
شعبے میں نئے نئے فتنے دیکھیں گے، ایک مسلمان ان فتنوں سے بچ کر رہے۔پردہ کے نام
پر جو خوبصورت لبھاتے، بھڑکیلے، جاذب نظر لباس بازار میں نظر آتے ہیں، یہ دراصل
اسلامی لباس نہیں ہے بلکہ لوگوں کی چاہت اور شہوت کے مطابق ان کی خواہش پورا کرنے
اور مال کمانے کی غرض سے اس قسم کے لباس بازار میں لائے جا رہے ہیں۔کسی مسلمان کے
لیے ایسا لباس خریدنا یا پہننا یا بیچنا جائز نہیں ہے۔
لباس کا مطلب وہ کپڑا ہے جو بدن کو مکمل طور پر ڈھک دے
اور جس کی طرف لوگ مائل نہ ہوں مگر یہ لباس یا اس قسم کا لباس وہ ہے جس کی طرف لوگ
زیادہ مائل ہوں گےاور عورت ایسا لباس پہننے سے گنہگار ہوگی۔
سوال: اسکول میں 15/ اگست اور 26/ جنوری
کے موقع پر طلبہ و طالبات سے دیش بھکتی
گیت پر ڈانس کروایا جاتا ہے، انہیں روکتے
ہیں تو کہتے ہیں کہ اس میں صرف ایکشن ہے، یہ ڈانس نہیں ہے، انہیں ان کے اس اقدام
سے کیسے روکا جائے؟
جواب:ایکشن کے ساتھ نظمیں پڑھنا، یہ بھی ڈانس ہے اور
شریعت کی نظر میں معیوب ہے۔بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج کالج اور اسکول کے علاوہ
دینی مدارس میں بھی لڑکیاں ایکشن کے ساتھ
نظمیں پڑھتی ہیں۔ اس پر ہر حال میں روک لگنی چاہیے۔
جہاں تک روکنے کا سوال ہے تو یہ انتطامیہ کا کام ہے۔ مینجمنٹ والے ہی پروگرام ترتیب دیتے
ہیں، وہی اس چیز کو ختم کرسکتے ہیں۔ جس ادارے میں اس طرح کی چیز پائیں اس ادارے کے
ذمہ دار سے مل کر اس کو ختم کروائیں۔ساتھ ہی بچیوں کے والدین کو بھی اس بارے میں
نوٹس لینا چاہئے اور اپنی بچیوں کو اس طرح نظم پڑھنے سے منع کرنا چاہئے۔
سوال: صرف نکاح ہوا ہو اور رخصتی نہ ہوئی
ہو تو کیا دلہا و دلہن کا گھومنے جانا اور ازدواجی تعلق قائم کرنا صحیح ہوگا؟
جواب:اگر شرعی طور پر عقد نکاح منعقد ہو جائے تو لڑکا
اور لڑکی آپس میں میاں بیوی بن جاتے ہیں، ایسی صورت میں یہ دونوں کہیں بھی گھومنے
جا سکتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ مل سکتے ہیں، بات چیت کر سکتے ہیں حتی کہ ازدواجی تعلق بھی قائم کر سکتے ہیں کیونکہ وہ
دونوں میاں بیوی ہیں خواہ رخصتی ہوئی ہو یا نہ ہو ئی ہواس کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔سماج
میں رخصتی سے قبل نکاح شدہ لڑکا ولڑکی کا ایک ساتھ رہنا اچھا نہیں ماناجاتا ہے مگر
حقیقت میں نکاح کے بعد لڑکا و لڑکی آپس میں مل سکتے ہیں ، کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال: اگر بدعتی کے پیچھے نماز نہیں پڑھ
سکتے تو جو لوگ ان لوگوں کی جانب نوکری
کرتے ہیں وہ جمعہ کہاں پڑھیں گے۔ دور جائیں تو نوکری کرنا مشکل ہے؟
جواب:بدعتی کے پیچھے علی الاطلاق نماز پڑھنا منع نہیں
ہے بلکہ ہم ضرورت کے وقت بدعتی کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ
نے صحیح بخاری میں باب باندھا ہے باغی اور بدعتی کی امامت کا بیان۔
اس باب کے تحت حسن بصریؒ اور سیدنا عثمان رضی اللہ
تعالی عنہ کے اقوال ذکر کرکے بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنے کا جواز بیان کیا ہے۔
اگر کہیں پر ہمیں مجبوری میں کسی بدعتی کے پیچھے نماز
پڑھنے کی نوبت آجائے تو اس کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں خواہ جمعہ کی نماز ہی کیوں
نہ ہو لیکن اگر بدعتی ایسی بدعت کا ارتکاب کر رہا ہو جو اس کو کفر و شرک تک پہنچا
دیتا ہو تو پھر ایسے بدعتی کے پیچھے نماز نہیں پڑھیں گے۔
سوال:کوئی کسی کا دل بے وجہ دکھائے تو جب
تک وہ انسان معاف نہیں کرے ، اللہ معاف اسےنہیں کرتا ہے، کیا یہ بات صحیح ہے؟
جواب:اگر کوئی آدمی کسی دوسرے آدمی کا دل دکھاتا ہے، اس
کو تکلیف پہنچاتا ہے اور اس پر ظلم کرتا ہے اور اذیت دیتا ہے تو جب تک مظلوم آدمی
تکلیف دینے والے کو معاف نہ کرے تب تک اس کا گناہ باقی رہتا ہے اور ایسے آدمی کو
اللہ تعالی نہیں معاف کرے گا جب تک کہ مظلوم آدمی خود اسے نہ معاف کر دے۔
اگر اسی دوران مظلوم کی وفات ہو جاتی ہے تو ظلم کرنے
والا کثرت سے مظلوم کے حق میں استغفارکرے اور اگر ظالم وفات پاجائے تو مظلوم کو
چاہئے کہ اسے معاف کردے۔
سوال: اگر کوئی ہندو اپنے برتن میں چائے،
پانی، جوس وغیرہ پیش کرے تو کیا ہم اس کے
برتن میں کھاپی سکتے ہیں حالانکہ وہ تو
ناپاک ہے، اس وجہ سے اس کے گھر کچھ کھانا جائز نہیں ہوگا۔ اور اگر کبھی ہندو ہمارے
گلاس میں پانی لے تو اس گلاس کو استعمال نہ کریں، اسی طرح یہ بات کرسچین کے حوالے
سے بھی بتادیں؟
جواب:ہندو یا غیر مسلم کے صاف ستھرے برتن میں کھانے
پینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ روز مرہ کی زندگی میں ہندوؤں کے ہاتھ کا بنا ہوا حتی
کہ ہندوؤں کے برتن یا پیکٹ والا ہزاروں سامان استعمال کرتے ہیں۔دراصل اس میں کوئی
حرج کی بات نہیں ہے۔
آپ کے پاس جو اشکال ہے وہ یہ کہ ہندو ناپاک ہوتا ہے، یہ
بات صحیح ہے ہندو ناپاک ہوتا ہے مگر حکما ناپاک ہوتا ہے یعنی وہ اندرونی طور پر
کفر و شرک کی وجہ سے ناپاک ہوتا ہے۔وہ ایسا ناپاک نہیں ہے کہ اس کے بدن یا کپڑے یا
برتن سے ہمارا ہاتھ لگ جائے تو ہم ناپاک ہو جائیں، اس قسم کا ناپاک نہیں ہوتا ہے
الا یہ کہ ظاہری طور پر نجاست نظر آئے۔یہ بات ہندو، کرسچین اور دیگر ہر قسم کے
کفار کے لیے ہے۔ہندو ہمارے برتن میں کھاپی لے تو اس کو دھل کر استعمال کریں، اس
میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
جہاں احتیاط کی ضرورت ہے، وہاں یقینا احتیاط کر سکتے
ہیں جیسے بعض کفار کے ہوٹلوں میں خنزیر پکایا جاتا ہے اور شراب پروسا جاتا ہے ایسے
ہوٹلوں میں کھانے پینے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
سوال: کیا عورت کے لئے دوسروں سے اپنے کپڑا استری کروانا جائز ہے؟
جواب:عورتوں کو اپنا کپڑا مردوں سے نہ دھلوانا چاہیے
اور نہ ہی اس سے استری کروانا چاہیے۔ اگر استری کرنے والی عورت ہو تو اس میں کوئی
حرج نہیں ہے ورنہ خود سے اپنے گھر پر اپنا کپڑا استری کریں۔
سوال: گائے کا بچہ جب چھوٹا تھا، اس وقت ہی ہم نے یہ کہہ دیا تھا کہ اسے اللہ کی راہ
میں قربان کرنا ہے یعنی اسکا گوشت لوگوں
میں تقسیم کرنا ہے۔اب ماشاءاللہ وہ کافی بڑا ہو چکا ہے،تقریبا آٹھ من کا ہے۔ابھی
قبرستان میں برآمدہ بنانے کے لئے پیسوں کی ضرورت ہے تو کیا اسے بیچ کربرآمدہ کے لئے
پیسے دے سکتے ہیں یا پھر جس طرح شروع میں کہا تھا کہ گوشت تقسیم کرنا ہے وہی کیا جائے۔
اس بارے میں رہنمائی کردیں؟
جواب:جب گائے کے بچہ کے تعلق سے یہ نیت کر لی گئی کہ
اسے اللہ کی راہ میں دینا ہے یعنی اس کا گوشت لوگوں میں تقسیم کرنا ہے تو ایسی
صورت میں یہ ایک قسم کی منت ہو گئی اور اس منت کا پورا کرنا ضروری ہے۔اور یہ بات
یاد رہے کہ جس چیز کے لیے منت مانی جاتی ہے، اسی طرح منت پوری کی جاتی ہے یعنی اس
کو قبرستان کے لیے نہیں بیچیں گے بلکہ اسے فقراء اور مساکین میں ذبح کرکے تقسیم
کریں گے۔
سوال: آج کل کے دور میں شادیوں میں بہت
سارے غیر اسلامی رسومات شروع ہو گئے ہیں،
میرے رشتہ دار کے یہاں بیٹی کا نکاح ہے انہوں نے کہا ہے کہ نکاح والے دن ایک رنگ
کا کپڑا پورے گھر والے پہنیں گے۔ کیا اس طرح سے شادی میں ایک رنگ کا کپڑا پورے
میکے والے پہن سکتے ہیں ۔اصل میں یہ کلچر موبائل کے ذریعہ بچوں کے ذہن میں آرہا ہے
اور مجھے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ایسا
کرنا صحیح ہوگا یا غلط، اگر آپ اصلاح کر دیں تو بڑی مہربانی ہوگی؟
جواب:یوں تو پہلے سے ہمارے یہاں شادی میں مختلف قسم کے
رسم ورواج پائے جاتے ہیں، ان میں ایک رواج آج کل زور پکڑتا ہوا جارہا ہے وہ ہےہلدی
کی رسم ۔ ہلدی کی اس رسم میں لڑکی کے گھر والے، اس کے رشتے دار اور اس میں شریک
ہونے والی گاؤں کی نوجوان لڑکیاں سب ایک ہی رنگ کے پیلے کپڑے پہنتے ہیں حتی کہ
لڑکے بھی پیلے کپڑے پہنے نظر آتے ہیں۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ" رسم ہلدی" مسلمانوں کا طریقہ نہیں
ہے بلکہ غیروں کی مشابہت اور ان کی نقالی ہے ۔ اس سلسلے میں نبی ﷺ کی ہدایت ملاحظہ
فرمائیں۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا: مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ.(ابوداؤد:4031،قال الشيخ
الألباني: حسن صحيح)
ترجمہ: جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہیں میں
سے ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس رسم میں بدترین اورغیرشرعی کام
انجام دئے جاتے ہیں جیسے اس رسم میں نوجوان لڑکیوں کے ساتھ گھر اور گاؤں سماج کے
نوجوان لڑکے بھی شامل ہوتے ہیں اور محرم وغیرمحرم کی تفریق کے بغیر ایک دوسرے کو
ہلدی لگائی جاتی ہے۔ گویا اس میں ایک طرف مرد وزن کا اختلاط ہوتا ہے تو دوسری طرف
ایک دوسرے کو ہلدی لگائی جاتی ہے جو شرعی طور پر حرام و ناجائز ہے۔ اسی طرح یہ رسم
ایک تقریب کی صورت میں انجام دی جاتی ہے جس میں گانے بجانے کے ساتھ لڑکے لڑکیاں
ناچتے گاتے، موج مستی کرتے اور بےہودہ ہنسی مذاق کرتے ہیں۔ جن لڑکیوں کو اجنبی لڑکوں
سے پردہ کرنا تھا وہ محفل میں بے پردہ ہوکر فل میک اپ کے ساتھ ناچتی گاتی اور
ٹھٹھا مخول کرتی ہیں۔چونکہ آج سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، ہرکسی کے ہاتھ میں موبائل
ہوتا ہے، یہ مناظر پھر ایک دوسرے کے کیمرے میں قید ہوتے ہیں اور سوشل میڈیا پر
مسلمانوں کی جگ ہنسائی کا سامان بنتے ہیں۔
جب آپ اس رسم اور اس میں ہونے والے برے کام کو شریعت کی
روشنی میں دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کو کسی بھی صورت میں اپنے
گھر ہلدی کی رسم منعقد نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ بدترین رسم ہے اور اس میں برے
کام کئے جاتے ہیں۔اگر اس کا خاتمہ نہیں کیاگیا رو روزبروز اس میں نئی نئی برائیاں
پیدا ہوں گی۔اس وجہ سے میں یہاں ہر اس مسلمان مرد و عورت کو مخاطب کروں گا جس کے
گھر شادی ہوتی ہے وہ اپنے یہاں ہلدی کی رسم نہ ہونے دے۔ گھر والوں کی چاہت سے ہی
یہ رسم منائی جاتی ہے اور جس جس کی چاہت سے یہ برا کام ہوگااور اس محفل میں جتنے
لوگ برا کام کریں گے، ان سب کی برائی اس محفل کے منعقد کرنے والوں کے حصے میں بھی
آئے گی ۔
بہرکیف! آپ اپنے گھر اس رسم کو ہرگز نہ ہونے دیں اور
اگر کوئی آپ کو ایسی رسم میں شریک ہونے کی دعوت دے تو قطعا اس میں شریک نہ ہوں
بلکہ اس رسم کو مٹانے کی کوشش کریں ۔
سوال: اگر عورت ماہواری کے دوران فجر کے
وقت نہیں اٹھتی ہے تو کیا وہ پھر بھی صبح کے بعد والے اوقات میں اذکار پڑھ سکتی
ہے؟
جواب:جی بالکل، حائضہ عورت جب بھی اٹھے، صبح کے اذکار
پڑھ سکتی ہے اور اس حال میں شام کے اذکار اور سونے جاگنے کے اذکار وغیرہ پڑھ سکتی
ہے۔حیض کی حالت میں ذکر ودعا اور تلاوت منع نہیں ہے۔
سوال: عورت کے لئے مرد سے اپنے کپڑے
سلانا کیسا ہے؟
جواب:سلائی کرنے میں بھی بہتر یہی ہے کہ اگر خاتون میسر
ہو تو اس سے سلائیں اور اگر خاتون میسر نہ ہو تو مجبوری میں مرد سے سلا سکتے ہیں۔
سوال:جب میاں بیوی میں علیحدگی ہو جائے
اور بیوی کی تصویریں اس کے سابقہ شوہر کے پاس ہیں جبکہ وہ اب اس کے لیے محرم نہیں
رہا اور وہ تصویریں ڈیلیٹ بھی نہیں کر رہا تو اس کے بارے میں کیا کرنا ہوگا ؟
جواب:جب ایک عورت کا اپنے شوہر سے نکاح کا رشتہ ختم
ہوجائے تو بیوی کے لئے وہ مرد اجنبی ہوجاتا ہے اور ایسے ہی وہ عورت مرد کے لئے
اجنبی ہوجاتی ہے۔
سوال میں تصویر سے متعلق جو پوچھا گیا ہے کہ عورت کی
تصویر مرد کے پاس ہے اور وہ ڈیلیٹ نہیں کررہا ہے، یہ معاملہ مرد کا ہے، اس کی ذمہ
داری ہے کہ وہ اپنے پاس سے تصویر ڈیلیٹ کردے۔ دوسری بات یہ ہے کہ عورت کو کیسے
معلوم کہ مرد اس کی تصویر ڈیلیٹ نہیں کررہا ہے، کیا عورت اس مرد سے رابطہ میں ہے
یا اس کے بارے میں وہ عورت پتہ لگاتی رہتی ہے؟ ان صورتوں میں عورت کے لئے تنبیہ یہ
ہے کہ اس کا نکاح اس مرد سے ختم ہوگیا ہے، وہ اس سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھے اور
نہ کسی سے اس کے بارے میں پوچھ تاچھ کرے۔
جہاں تک مرد کا معاملہ ہے، وہ اللہ کے یہاں خود جواب دہ
ہے، اگر وہ سابقہ بیوی کی تصویر رکھتا ہے یا مزید اپنے موبائل میں دوسری خواتین کی
تصویر رکھتا ہے یا گندے فوٹو اور ویڈیوز رکھتا ہے، اللہ اس کا محاسبہ کرے۔
المختصر اپنے موبائل میں بلاضرورت کسی جاندار کی تصویر
نہیں رکھنا چاہئے ، نہ عورت رکھے اور نہ ہی مرد رکھے اور خاص طور پر اجنبی مرد یا
اجنبی عورت کی تصویر رکھنا مزید گناہ کا باعث ہے۔ ہم میں سے مرد اور عورت ہر کوئی
اپنے گناہ کا ذمہ دار ہے اور قیامت میں اللہ کے سامنے جواب دہ ہوگا۔ اللہ ہمیں
ہربرائی سے بچائے۔ آمین
سوال: میں نے بہنوں کا ایک گروپ بنایا ہے
تاکہ علم حاصل کریں اور بات چیت کریں ۔ جب کوئی گروپ میں سوال کرے تو ہرکوئی اپنے
تئیں سلفی علماء کے فتاوی سے تلاش کرکے جواب دے جیسے شیخ ابن باز، شیخ البانی، شیخ
ابن عثیمین یاموجودہ علماء کے فتاوی شیئر کریں گے۔اس حوالے سے سلفی علماء کے
ویڈیوز اور یوٹیوب وغیرہ سے سرچ کرتے ہیں۔ کیا یہ عمل درست ہے؟
جواب:اس سلسلے میں ایک اہم بات بتانا چاہتا ہوں ، وہ یہ
ہے کہ شرعی مسائل کا جواب دینا عالم کا کام ہے، آپ لوگوں نے گروپ بنایا ہے، وہ
ٹھیک ہے مگر سوال و جواب کا جو طریقہ اپنایا ہے وہ غلط ہے۔ گروپ میں کوئی سوال کرے
اور ہر کوئی گوگل، یوٹیوب، ویب سائٹ، چیٹ جی پی ٹی یا کتابوں سے یا مختلف مقامات سے جواب تلاش کرکے جواب دے ، یہ انتہائی خطرناک
معاملہ ہے۔ گروپ کو پوسٹ شیئرنگ کے لئے رکھیں ، یہی کافی ہے اور اگر شرعی مسائل
میں رہنمائی درکار ہے تو کوئی عالم یا مستند عالمہ جنہیں واقعی کتاب وسنت کا علم
ہو اور فقہی مسائل کا جواب دے سکتی ہوں ان کی رہنمائی میں جواب حاصل کریں۔ اس کے
علاوہ دوسرا راستہ اختیار کرنا پرخطر اور منہج سلف کے خلاف ہے۔
اس بات کو اس طرح سمجھنے کی کوشش کریں کہ وہ کون آدمی ہے جس سے ہمیں دین کا مسئلہ پوچھنا
چاہیے، کیا اس سلسلے میں ہمیں اللہ اور اس کے رسول نے کوئی رہنمائی کی ہے؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں اللہ تعالی نے قرآن میں اس
سلسلے میں واضح طور پر ہمیں بتایا ہے کہ تمہیں دین کے بارے میں کچھ پوچھنے کی
ضرورت پڑے تو اہل علم سے پوچھو۔قرآن کی آیت بتاتی ہے کہ وہ مرد یا عورت جس کو دین
کا علم صحیح سے نہ ہو، نہ اس سے دین کا مسئلہ پوچھا جائے گا اور نہ ہی ایسے آدمی
کو چاہیے کہ وہ دوسروں کو مسئلہ بتائے۔
آپ سلفی علماء کے بیانات سنیں، ان کے سوال و جواب سے
استفادہ کریں اور جو کچھ ان سے علم حاصل ہو وہ دوسروں کو بتائیں، شیئر بھی کریں اس
میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن کسی جگہ سے تلاش کر سوال و جواب کا فریضہ انجام دینا
بالکل جائز نہیں ہے۔اس وجہ سے جو کام آپ کر رہے ہیں یہ سراسر غلط ہے، اس سے باز
آجائیں۔
سوال: ایک خاتون حالت حمل میں ہے اور حمل کا یہ تیسرا مہینہ ہے ، ان دنوں
اسے پیریڈ کا داغ لگ جاتا ہے، ایسے میں اس کے لئے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
جواب:حمل میں آنے والا خون حیض نہیں ہے، اس وجہ سے اس
خون کو کچھ بھی شمار نہیں کرنا ہے، استحاضہ والی عورت کی طرح نماز ادا کرنا ہے
یعنی نماز کے وقت وضو سے پہلے داغ دھبے کی صفائی کرلیں اور پھر وضو بناکر نماز
پڑھیں۔ اور چونکہ یہ کسی بیماری کے سبب ہوسکتا ہے اس وجہ سے ڈاکٹر سے بھی رجوع
کرنا چاہئے۔
سوال: اولاد کی کفالت تو مرد کے ذمہ ہے
یعنی شوہر کے ذمہ ۔ بیوی کے ذمہ اولاد کی کفالت
نہیں ہے ، وہ توفقط تربیت کا ذمہ دار ہے۔ایسی صورت میں کیا ایک ماں اپنے بیٹے کو زکوۃ دے سکتی اگر اس کا بیٹامفلس ہو؟
جواب:اگر بیٹا واقعی مفلس اور زکوۃ کا مستحق ہو تو ماں
اپنے ایسے بیٹے کو زکوۃ دے سکتی ہے، اس میں شرعا حرج نہیں ہے کیونکہ ماں پر اولاد
کی کفالت کی ذمہ داری نہیں ہوتی ہے۔
سوال:میرا سوال یہ ہے کہ ایک بہن نے اپنا
حصہ بھائی کے نام کردیا ہے مگر وہ بھائی اپنی بہن کے ساتھ تعلقات ختم کرلیا ہے تو
کیا بہن اپنا حصہ واپس مانگ سکتی ہے۔اس بہن کا کہنا ہے کہ بھائی اب نہ کسی خوشی
میں شامل ہوتا ہے اور نہ کسی غم میں، بلکل قطع تعلق کر لیا ہے ۔ اس نے اپنے بھائی
سے کہاکہ میرا حصہ مجھے واپس دے دو ،جب مجھے بہن ہی نہیں مانتے تو میرا حصہ کیوں
رکھا ہے، میں نے بھائی سمجھ کر دیا تھا ۔
بھائی کہتا ہے ،نہ تم میری
بہن ہو اور نہ کوئی حصہ ہے تمھارا ،کچھ نہیں دوں گا ۔اس معاملہ میں اس بہن کی
رہنمائی کردیں ؟
جواب:کسی بہن کو یا کسی بھی وارث کو اپنا حصہ کسی دوسرے
کے نام نہیں کرنا چاہیے۔ والد کی وفات کے بعد فوراً وراثت کو تقسیم کرنا چاہیے اور
جتنے وارثین ہیں، ان تمام لوگوں میں شریعت کے نظام کے مطابق جائیداد تقسیم کرنی
چاہیے اور کسی کو بھی اپنے حصے سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جب جائیداد تقسیم ہو، اس وقت بیٹیاں
حصہ نہ لے اور کئی سال کے بعد اپنے حصے کا مطالبہ کرے، یہ درست نہیں ہے بلکہ صحیح
طریقہ یہ ہے کہ جب وراثت تقسیم ہو رہی ہو اسی وقت سب کے لیے نظام وراثت کے تحت
جائداد تقسیم ہونا چاہیے اور سب کو اپنا اپنا حصہ لے لینا چاہیے۔
آخری بات یہ ہے کہ اگر کسی بہن نے اپنا حصہ ابھی تک
نہیں لیا تھا اسے حق ہے کہ وہ اپنا حصہ طلب لے اور اس بات کی فکر نہ کرے کہ میرا
بھائی مجھ سے رشتہ رکھتا ہے یا نہیں رکھتا ہے۔ جو بھائی وراثت کی وجہ سے رشتہ توڑے
گا، وہ اللہ کے یہاں جواب دہ ہوگا۔بھائی حصہ دینے پر راضی نہ ہو تو مقامی اہل علم
سے رابطہ کرکے اس معاملہ میں ان سے مدد حاصل کرے ۔
سوال: ایک عالم نے اپنے بیان میں اس طرح
کہا ہے کہ کسی کو پتہ نہیں کہ کس کس کی غیبت کیا ہے اور کس کس کو گالی دیا ہےتو اس مسئلہ سے نکلنے کے لئے نبی ﷺ نے ایک دعا
سکھائی ہے۔ اگر وہ دعا پڑھ لے تو جتنے
لوگوں کی غیبت کرڈالی ، جتنے لوگوں کو برابھلا کہا اور گالیاں دے ڈالی، اللہ تعالی
ان تمام غلطیوں کو معاف کرکے کسی گالی، غیبت، چغلی اور حقوق العباد کے معاملے میں
اللہ نہیں پکڑے گا۔ وہ دعا یہ ہے:
(اللَّهُمَّ فَأَيُّمَا
مُؤْمِنٍ سَبَبْتُهُ فَاجْعَلْ ذَلِكَ لَهُ قُرْبَةً إِلَيْكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)"اے
اللہ ! جس جس کو میں نے برابھلا کہا اور گالی دی ہے،اسے معاف کرکے قیامت کے دن
اپنی رحمت سے قریب کرلے"۔کیا اس عالم کی یہ بات درست ہے؟
جواب:سوال میں مذکور دعا اپنی جگہ درست ہے، یہ بخاری
شریف میں دعا آئی ہے مگر عالم نے جو کہا ہے کہ کوئی کسی کی غیبت کرے، چغلی کرے،
برابھلاکہے اور گالیاں دے پھر یہ دعا پڑھ
لے توسارے گناہ اور حقوق العبادمعاف ہوجائے گا۔ اس طرح کہنا درست نہیں ہے۔ حقیقت یہ
ہے کہ یہ دعا نبی ﷺ کے ساتھ خاص ہے۔ بخاری و مسلم میں وارد اس دعا کے الفاظ
دیکھیں۔
بخاری (6361)کے الفاظ:( اللَّهُمَّ
فَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ سَبَبْتُهُ فَاجْعَلْ ذَلِكَ لَهُ قُرْبَةً إِلَيْكَ يَوْمَ
الْقِيَامَةِ )
مسلم(2602) کے الفاظ:
( إِنَّمَا أَنَا
بَشَرٌ ، وَإِنِّي اشْتَرَطْتُ عَلَى رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ : أَيُّ عَبْدٍ مِنْ
الْمُسْلِمِينَ سَبَبْتُهُ أَوْ شَتَمْتُهُ أَنْ يَكُونَ ذَلِكَ لَهُ زَكَاةً
وَأَجْرًا )
اصل میں یہ دعا محمد ﷺ کے ساتھ خاص ہے کیونکہ نبی ﷺ نے
حقیقت میں کسی پر ظلم نہیں کیا اور نہ کسی کا دل دکھایا تھا اور نہ کسی کی چغلی و
غیبت کی اور نہ کسی پر بہتان لگایا بلکہ اگر کچھ صادر ہوا تو وہ بشری تقاضا کے تحت
تھا، نہ کہ کسی سے انتقاما اور ظلما۔ ہمارا معاملہ مختلف ہے، ہم دوسروں سے حسد
کرتے ہیں، غیبت اور چغلی کرتے ہیں، دوسروں پر ظلم کرتے اور بہتان باندھتے ہیں،
بھلا ہمارا مقابلہ نبی ﷺ سے کیسے ہوسکتا ہے۔
ہم اگر کسی کی غیبت کریں تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ پہلے
اپنے گناہ پر شرمندہ ہوتے ہوئے غیبت سے توبہ کریں، پھر جس کسی کی غیبت کی ہے اس سے
معافی مانگیں، اور جس محفل میں برائی کی ہے، وہاں اس کے بارے میں براءت و بے گناہی
بیان کریں۔ اگر معاملہ غیبت سے اوپر ظلم ، غصب، بہتان اور فساد سے متعلق ہے تو یہ
زیادہ بڑا گناہ ہے، ان سارے معاملات میں ظالم کومظلوم سے اپنے جرم کا تصفیہ کرانا
ہوگا، تبھی گناہ سے معافی ملے گی۔
سوال: پنجم کلمہ استغفار:اَسْتَغْفِرُ اللہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ اَذْنَبْتُہٗ
عَمَدًا اَوْخَطَأً سِرًّا اَوْ عَلَانِیَۃً وَّاَتُوْبُ اِلَیْہِ مِنَ الذَّنْبِ
الَّذِیْۤ اَعْلَمُ وَمِنَ الذَّنْبِ الَّذِیْ لَآ اَعْلَمُ اِنَّکَ اَنْتَ
عَلَّامُ الْغُیُوْبِ وَسَتَّارُ الْعُیُوْبِ وَغَفَّارُ الذُّنُوْبِ وَلَا حَوْلَ
وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ ؕ
میں اﷲ(عزوجل) سے بخشش مانگتا ہوں جو
میرا پروردگار ہے ہر گناہ سے جو میں نے کیا، خواہ جان کر یا بے جانے، چھپ کر، خواہ
کھلم کھلا اور میں اس کی طرف توبہ کرتا ہوں اس گناہ سے جسے میں جانتا ہوں اور اس
گناہ سے بھی جو میں نہیں جانتا، یقیناً تو ہی ہر غیب کو خوب جاننے والا ہے اور
توہی عیبوں کو چھپانے والا اور گناہوں کو بخشنے والا ہے اور گناہ سے باز رہنے اور
نیکی کی قوت اﷲ(عزوجل) ہی سے ہے جو بلند مرتبہ والا، عظمت والا ہے۔
آج کل لوگ یہ شیئر کر رہے ہیں اور کہہ
رہے ہیں کہ نوح علیہ السلام کے وقت میں بھی ایسے ہی بارش شروع ہوگئی تھی اور سیلاب
آگیا تھا اس لئے کثرت سے اس کو پڑھیں۔ کیا یہ کلمات اس وقت کے لئے خاص کر کے ان کو
پڑھنا درست ہے؟
جواب:اس وقت دنیا میں بدعتیوں کی تعداد زیادہ ہے، ان کے
یہاں اپنی مرضی سے وظیفہ بنایا جاتا ہے۔ اپنی مرضی سے لوگوں نے چھ کلمے بنا لئے
ہیں، یہ بدعتیوں کا خود سے بنایا ہوا پانچواں کلمہ ہے۔
ہمارے لیے حجت کے واسطے صرف قرآن اور حدیث ہے اس وجہ سے
بدعتی لوگ کیا کر رہے ہیں، نہیں کر رہے ہیں اس سے ہمیں کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے۔
ہم سلف کے پیروکار ہیں، ہمیں کتاب اللہ اور سنت رسول سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔یہ
جو چیز شیئر کی جا رہی ہے، یہ کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہے لہذا اسے کہیں شیئر نہیں
کریں۔
سوال:ایک دینی ادارہ ہے جس میں بچیاں پڑھتی ہیں اور فیس بھی کم ہے۔ ہر سال
گرمیوں میں یہاں عام لوگوں کے لیے خواتین کا سمر کورس اور بچوں کا سمر کیمپ جس میں
بچوں کو نماز اور احادیث بھی سکھائی جاتی ہےاور مہینے یا دو مہینے بعد درس بھی
ہوتا۔ہال میں اس بار ادارے نے سوچا ہے اے-سی لگوایا جائے ۔کیا زکوۃ کی مد میں جو
رقم دی جاتی اس کے لیے دی جا سکتی ہے؟
جواب:جس جگہ پر فیس دے کر تعلیم دی جا رہی ہے، اس جگہ
زکوۃ کا پیسہ نہیں دینا چاہیے۔ فیس کم ہو یا زیادہ ہو اس سے غرض نہیں ہے، اصل
مسئلہ ہے کہ وہاں پڑھنے والے بچے، جب فیس دے رہے ہیں تو یہ زکوۃ کے مستحق نہیں
ہیں۔
سوال:کیا کوئی شخص اپنے بھانجے/بھتیجے کو
اس کا قرض ادا کرنے کے لیے زکوٰۃ دے سکتا ہے، اس کی صورت یہ ہے کہ اس
بھانجے/بھتیجے نے ورک پرمٹ پر برطانیہ ہجرت کی ہے اور اس پر £23000 کا قرض ہے جو
اسے وقتاً فوقتاً اپنے چچا کو واپس کرنا ہے۔ اس کی تنخواہ اتنی ہے کہ وہ ہر ماہ
£1000 واپس کر سکتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ پورا قرض ادا کرنے میں کئی سال لگ جائیں
گےتو کیا یہ شخص (چچا) اپنے بھانجے کو زکوٰۃ دے سکتا ہے تاکہ وہ اپنا قرض ادا کر
سکے؟
جواب:مقروض آدمی کو زکوۃ دی جا سکتی ہے لیکن ایسا مقروض
جو خود سے قرض نہ ادا کر سکتا ہو یا اس کے پاس قرض ادا کرنے کے لیے سونا چاندی ،
زمین، جائیداد یا اور کوئی چیز نہ ہو۔
جس کے بارے میں آپ نے سوال کیا ہے وہ کمانے والا شخص ہے
اور قرض واپس کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہے اس لیے ایسے شخص کو زکوۃ نہیں دی جائے گی،
وہ اپنے سے کما کر زکوۃ ادا کرے پہلے اس میں وقت لگے اور قرض کوئی زیادہ نہیں ہے۔
سوال: کیا سیلاب زدگان فنڈ میں زکوۃ دی
جا سکتی ہے؟
جواب:سیلاب آنے پر علاقہ کا ہر شخص محتاج اور ضرورت مند
ہو جاتا ہے لہذا سیلاب زدہ لوگوں کے لیے زکوۃ دینے میں حرج نہیں ہے۔
سوال:جہاں غیر محرم ہوں وہاں چہرہ ڈھانپ
کر (نوزپیس لگا کر) عورت نماز پڑھ سکتی ہے
جیسے ٹرین میں نماز پڑھتے وقت اکثر دوسرے
لوگ بھی ہوتے ہیں اور اسی طرح دیگر عام جگہوں پر؟
جواب:چونکہ عورتوں کی نماز گھر میں افضل ہے اور گھر میں
بھی بالکل اندرونی کمرے میں نماز پڑھنا چاہیے لہذا عورت نماز کے وقت محفوظ جگہ
تلاش کرکے نماز پڑھے جہاں اجنبی مردوں کی آمد و رفت نہ ہو لیکن اگر وہ ایسی جگہ
موجود ہے جہاں پر اجنبی مرد بھی ہے اور نماز کا وقت ہوگیا ہے تو عورت وہاں پر مکمل
پردے میں نماز پڑھے گی۔
مکمل پردے کا مطلب ہاتھ و پیر سمیٹ مکمل چہرہ ڈھانپ کر
نماز پڑھنا ہے اور آواز آہستہ رکھنی ہے۔صرف نوز پیس لگانے سے پردہ نہیں ہوگا بلکہ
ایسا لباس لگانا ہے جس سے سر، بال، گردن اور پورا چہرہ ڈھک جائے۔
سوال: ڈاکٹر اسرار صاحب اپنے ایک بیان
میں یہ دعا پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں، کیا یہ دعا صحیح ہے؟
(اللهم الهمنا رشدنا واعذنا من شرور أنفسنا, اللهم ارنا
الحق حقا وارزقنا اتباعه وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه)
جواب:اس میں جو دعا بتائی گئی ہے، اس دعا کے دو حصے
ہیں۔
دعا کا پہلا حصہ نبی ﷺ سے منقول ہے اور ترمذی(3483) میں
اس طرح دعا وارد ہے.
(اللَّهُمَّ أَلْهِمْنِي رُشْدِي وَأَعِذْنِي مِنْ
شَرِّ نَفْسِي)
”اے اللہ! تو مجھے
میری بھلائی کی باتیں سکھا دے، اور میرے نفس کے شر سے مجھے بچا لے“۔
اسے یہاں پر شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے مگر دوسری جگہ
انہوں نے کہا کہ دوسرے طرق سے صحیح سند سے مروی ہے۔
دعا کا دوسرا حصہ نبی ﷺ کی دعا نہیں ہے یعنی یہ حدیث
رسول نہیں ہے بلکہ کسی آدمی کا قول ہے۔
(اللهم أرنا الحق حقاً وارزقنا اتباعه، وأرنا الباطل
باطلاً وارزقنا اجتنابه)
"اے
اللہ! مجھے حق کو حق دکھا اور اس کی پیروی کی توفیق دے، اور مجھے باطل کو باطل
دکھا اور اس سے بچنے کی توفیق دے"۔
خلاصہ یہ معلوم ہوا کہ دعا کا پہلا حصہ ثابت ہے اور
دوسرا حصہ کسی کی جانب سے بنائی ہوئی دعا ہے۔
سوال: اللہ نے جب پہلی بار کن کہا تو کیا
چیز بنی؟
جواب:اللہ تعالی نے مخلوقات میں سب سے پہلے قلم کو پیدا
کیا چنانچہ آپ ﷺ فرماتے ہیں۔
"إِنَّ
أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ الْقَلَمَ، فَقَالَ: اكْتُبْ، فَقَالَ: مَا أَكْتُبُ؟
قَالَ: اكْتُبِ الْقَدَرَ مَا كَانَ، وَمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى الْأَبَدِ
"(سنن الترمذی:2155)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا“ اور
فرمایا: ”لکھو“، قلم نے عرض کیا: کیا لکھوں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”تقدیر لکھو
جو کچھ ہو چکا ہے اور جو ہمیشہ تک ہونے والا ہے“۔اس حدیث کو شیخ البانی نے سلسلہ
صحیحہ (133) میں صحیح کہا ہے۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ :بعض لوگ کہتے ہیں کہ اللہ نے سب
سے پہلے محمد ﷺ کے نور کو پیدا کیا، یہ بات کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے، یہ
جھوٹی بات ہے۔مستدرک حاکم میں ایک روایت ہے، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح سند سے
مروی ہے۔
((قالَ عبدُ اللَّهِ بنُ عمرَ خلقَ اللَّهُ أربعةَ
أشياءٍ بيدِهِ : العَرشَ والقلَمَ وآدمَ، وجنَّةَ عَدنٍ ثم قالَ لسائرِ الخلقِ:
كُن فَكانَ))
ترجمہ:"اللہ تعالی نے چار چیزوں کو اپنے ہاتھ سے
پیدا فرمایا: عرش، قلم، جنت عدن، اور آدم، اس کے بعد ساری مخلوقات کو
"كُنْ" کہا تو وہ وجود میں آگئیں"۔اس کو شیخ البانی نے مسلم کی شرط
پر صحیح قرار دیا ہے۔( مختصر العلو:53)
سوال: قرآن مجید میں بادل پھٹنے کاذکر
کہاں اور کس سورت میں ہے ؟
جواب: سورہ ہود میں اللہ نے نوح علیہ السلام کی قوم پر
عذاب کا ذکر کیا ہے۔ اللہ نے کشتی میں سوار ہونے والوں کو بچالیا تھا اور باقی
سارے نافرمانوں کو موسلادھار بارش سے ہلاک کردیا تھا۔
سوال: اگر کوئی غیرمسلم کسی دینی ادارہ
کو پیسوں سے تعاون کرنا چاہے تو اس کی مدد لے سکتے ہیں؟
جواب:اگر یقین کے ساتھ یہ معلوم ہو جائے کہ غیر مسلم جو
پیسہ دے رہا ہے وہ حلال کا پیسہ ہے، اس کی کمائی حرام نہیں ہے تو غیرمسلم کا پیسہ
مدرسے میں استعمال کر سکتے ہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے اور اگر اس کی کمائی حرام ہو تو
اس کا تعاون نہیں لینا چاہیے۔
اسی طرح اگر غیر مسلم کے پیسے سے متعلق شبہ ہو تو آپ
خود اس سے اس کے ذرائع آمدنی کے بارے میں پوچھ کر اطمینان کر سکتے ہیں تاکہ آپ
پیسہ استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں، اس بات کا فیصلہ کرسکیں۔
سوال: کیا عشاء کی نماز رات بارہ بجے کے
بعد بھی پڑھ سکتے ہیں؟
جواب: عشاء کا وقت آدھی رات تک ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ
آدھی رات بارہ بجے کو کہتے ہیں، ایسا نہیں ہے۔ چونکہ دن اور رات میں کمی بیشی ہوتی
رہتی ہے تو آدھی رات کبھی بارہ بجے سے پہلے بھی ہوسکتی ہے اور کبھی بارہ بجے کے
بعدبھی ہوسکتی ہے۔آدھی رات کا حساب اس
طرح لگائیں۔ پہلے یہ سمجھ لیں کہ رات کتنے حصے کو کہتے ہیں؟ سورج ڈوبنے سے لے کر
طلوع فجر تک رات کا حصہ کہلاتا ہے۔ سورج ڈوبنے اور طلوع فجر کے دورانیہ کودیکھیں کتنے گھنٹے بنتے ہیں۔ اس کا آدھا ،
آدھی رات ہوگی مثلا طلوع فجر پانچ ہے اور غروب آفتاب چھ ہے تو دورانیہ گیارہ ہوا ،
اس کا آدھا ساڑھے پانچ یعنی آدھی رات ساڑھے پانچ گھنٹے کا ہوا۔ سورج چھ بجے ڈوبا
اس میں ساڑھے پانچ جوڑ دیں، ساڑھے گیارہ ہوا گویا آدھی رات ساڑھے گیارہ بجےرات تک ہے۔ اس طرح ہمیشہ آدھی رات کا اندازہ لگاسکتے
ہیں ۔اس حساب سے آدھی رات کا اندازہ لگاکر عشاء
کی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ ویسے شروع وقت میں عشاء پڑھ لینا بہتر ہے تاکہ سستی یا نیند
کی وجہ سے نماز چھوٹ نہ جائےمگر آدھی رات کے بعد نہیں پڑھنا ہے، اس سے پہلے پہلے
ہی ادا کرلینا ہے۔
سوال: کیا غسل کے وقت جسم پر کپڑا ڈالنا
ضروری ہے اور غسل بیٹھ کر ہی کرنا چاہئے یا کھڑے ہوکر بھی کرسکتے ہیں؟
جواب:غسل میں بہتر یہی ہے کہ آدمی بدن پر کپڑا رکھ کر
غسل کرے لیکن اگر پردے کا معقول انتظام ہے اور کوئی دیکھنے والا نہیں ہے تو اس جگہ
ننگے ہوکر بھی نہانا جائز ہے پھر بھی بہتر اور افضل کپڑا لگا کر غسل کرنا ہے
کیونکہ اس سلسلے میں ایک حدیث آتی ہے جس میں مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے ایک آدمی کو گھر کے صحن میں غسل کرتے دیکھا تو آپ نے فرمایا: بے شک اللہ
شرم کرنے والا، بردبار اور پردہ پوش ہے، جب تم میں سے کوئی بھی غسل کرے تو وہ ستر
ڈھانپے اگرچہ دیوار کی اوٹ کے ساتھ ہو۔(ارواء الغلیل: 7/368)
جہاں تک کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر غسل کرنے کا مسئلہ ہے تو
یہ آدمی کی اپنی مرضی پر منحصر ہے، کھڑے یا بیٹھے جیسے نہائے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
سوال: کیا رات کو جوٹھے برتن رکھ دیں تو شیطان چاٹتا ہے؟
جواب:نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ برتن کو رات
میں ڈھک کر رکھنا چاہیے مگر ایسا نہیں ہے کہ برتن کھلا ہوا رہ جائے تو شیطان اسے
چاٹتا ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے۔برتن جھوٹا ہو یا صاف ستھرا اسے آپ جیسے چاہیں
رکھیں اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ ہمیں نظافت کا خیال کرنا
چاہئے ۔ گھروں میں حشرات الارض بھی ہوتے ہیں ان سے بھی حفاظت چاہئے۔ میں نے ایک
مضمون لکھا ہے کہ "برتن ڈھک کر رکھنے کا حکم" یہ ضرور پڑھیں تاکہ مزید معلومات حاصل ہو۔یہ
میرے بلاگ پر موجود ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔