آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(71)
جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ - سعودی عرب
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سوال: کیا کوئی عورت پردے کے ساتھ اپنے دیور و جیٹھ کے
ساتھ بیڈمنٹن کھیل سکتی ہے، جب اسے اس عمل کے لئے ٹوکا گیا تو کہتی ہے کہ ہم دیگر
لوگوں کی طرح بھاگ دوڑ اور اچھل کود نہیں کرتے؟
جواب: کسی عورت کا اپنے دیور اور جیٹھ کے ساتھ بیڈ منٹن
کھیلنا جائز نہیں ہے خواہ عورت پردہ میں ہی کیوں نہ ہو اور شرافت کے ساتھ ہی کیوں
نہ کھیلے۔ دیگر مردوں کے مقابلہ میں دیور اور جیٹھ عورت کے لئے سب سے خطرناک ہیں،
ان کو رسول اللہ ﷺ نے موت قرار دیا ہے چنانچہ عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِيَّاكُمْ وَالدُّخُولَ عَلَى النِّسَاءِ"،
فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ؟
قَالَ:" الْحَمْوُ: الْمَوْتُ"(صحیح البخاری:5232)
ترجمہ: عورتوں میں جانے سے بچتے رہو اس پر قبیلہ انصار
کے ایک صحابی نے عرض کیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! دیور/جیٹھ کے متعلق
آپ کا کیاخیال ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛دیور/جیٹھ تو موت (ہلاکت) ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مردوں کو اجنبی عورتوں کے
پاس جانا ہی نہیں چاہئے اور مردوں میں شوہر کا بھائی عورت کے لئے نتائج اور انجام
کے اعتبار سے بہت ہی خطرناک ہوسکتے ہیں اس لئے بطور خاص جہاں مردوں کو اپنی بھابھی
(بھاوج) کے پاس جانے سے بہت زیادہ احتیاط برتنا چاہئے، وہیں عورت کو بھی اپنے جیٹھ
اور دیور سے دوری بناکر رکھنا چاہئے، ان لوگوں کے قریب نہیں آنا چاہئے۔
جب اسلام نے مردوں کو اجنبی عورتوں کے پاس جانے سے منع
کیا ہے اور جیٹھ و دیور کو عورت کے لئے موت یعنی ہلاکت کا سبب قرار دیا ہے پھر
عورت کا اپنے جیٹھ/دیور کے ساتھ بیڈمنٹن کھیلنا کیسے جائز ہوگا؟ یہ عمل ہرگز جائز
نہیں ہے، یہ تو سراسر حرام ہے اس لئے کوئی بھی عورت اپنے جیٹھ و دیور کے ساتھ کسی
قسم کا کوئی کھیل نہ کھیلے۔
مردوں کو جب کبھی کسی اجنبی عورت کے پاس جانے کی ضرورت
ہوتی ہے تو کوئی مرد، کسی عورت کے پاس اس وقت تک نہیں جاسکتا ہے جب تک کہ اس عورت
کے پاس کوئی محرم نہ ہو۔ غور کریں کہ اسلام کس قدر احتیاط سے کام لیتا ہے تاکہ فحش
کاری اور بے حیائی کے لئے کوئی سبیل پیدا نہ ہو۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
لَا تُسَافِرِ الْمَرْأَةُ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ،
وَلَا يَدْخُلُ عَلَيْهَا رَجُلٌ إِلَّا وَمَعَهَا مَحْرَمٌ (صحیح البخاری:1862)
ترجمہ:کوئی عورت اپنے محرم رشتہ دار کے بغیر سفر نہ کرے
اور کوئی شخص کسی عورت کے پاس اس وقت تک نہ جائے جب تک وہاں ذی محرم موجود نہ ہو۔
سوال: ایک تنظیم ہے جو مدرسہ والوں نے بنائی ہے، وہ
تنظیم لوگوں سے زکوۃ اور دیگر صدقہ و خیرات اکٹھا کرتی ہے اور وقتاً فوقتاً لوگوں
کو دیتی ہے یا ضرورت مندوں کو کاروبار شروع کرنے کے لئے دیتی ہے۔ ادارہ کے ناظم کا کہنا ہے کہ جس کا بھی
کاروبار شروع کرواتے ہیں وہ اگلے سال یا دو سال بعد خود زکوۃ لینے سے منع کرنے
لگتا ہے اور کہنے لگتا ہے کہ اب ہمیں زکوۃ کی ضرورت نہیں ہے۔ کیا اس تنظیم کو ہم
اپنی زکوۃ کی بڑی رقم ہر سال دے سکتے ہیں اور کیا یہ تنظیم صحیح کام کر رہی ہے؟
جواب:تنظیم بناکر زکوۃ و صدقات وصولنے میں کوئی حرج
نہیں ہے تاکہ سماج کے محتاج و ضرورت مند کا تعاون کیا جاسکے۔ جہاں مسلمانوں کے
درمیان بیت المال کا قیام نہ ہو وہاں تنظیم بناکر کام کرنا ایک مفید عمل ہے مگر
شرط یہ ہے کہ امانتداری سے کام کیا جائے اور مستحقوں کو حق دیا جائے۔
زکوۃ وخیرات سے متعلق یہ بات جان لیں کہ زکوۃ کے آٹھ
مصارف متعین ہیں، یہ رقم صرف انہیں لوگوں میں خرچ کی جائے گی جبکہ صدقات و عطیات
کا باب وسیع ہے، اس سے ہر قسم کا دینی کام کیا جاسکتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ زکوۃ
مستحقوں اور ضرورت مندوں کی بنیادی ضرورت
پورا کرنے کے لئے دی جائے گی ۔ زکوۃ کا پیسہ کاروبار کرنے کے لئے نہیں دیا جائے
گا۔ ہاں صدقات اور عطیات سے کاروبار کے
لئے مدد کرسکتے ہیں۔ ان دو باتوں کا خیال کرتے ہوئے یہ تنظیم کام کرتی ہے تو ٹھیک
ہے، اسے اپنی زکوۃ دے سکتے ہیں لیکن زکوۃ اور صدقات کو گڈمڈ کرکے ہر طرح کے کام
میں اور کاروبار میں بھی صرف کرتی ہے تو اس کا یہ عمل ٹھیک نہیں ہے۔
سوال: کیا مرد
فل کالا ڈریس پہن سکتا ہے، ایک عالم نے اپنے درس میں کہا کہ یہ جادوگر کا لباس ہے،
اسے نہیں پہن سکتے ہیں ،کیا یہ بات صحیح ہے؟
جواب: لباس کا تعلق دنیاوی کلچر اور معاملات سے ہے اور
معاملات میں اصل اجازت ہے یعنی دنیاوی معاملات میں ہمیں ہر ایک بات کی اجازت ہے
سوائے اس کے جس سے اسلام نے منع کیا ہے اور اسلام نے ہمیں کالے لباس سے نہیں منع
کیا ہے۔ اس وجہ سے خواہ مرد ہو یا عورت کسی کے لئے بھی کالا لباس منع نہیں ہے چاہے
فل ڈریس لگائیں یا ہاف ڈریس لگائیں۔
نبی ﷺ نے کالی چادر استعمال کی ہے اور آ پ نے کالی پکڑی
پہنی ہے اس وجہ سے کالا لباس پہنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ جادو گر کالا لباس پہنے
یا شیعہ کالا لباس پہنے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ ہندو سادھوبابا عموما داڑھی
رکھتا ہے تو کیا داڑھی رکھنا منع ہوجائے گا، نہیں۔
سوال: ایک آدمی پر جنات کا اثر ہے مگر اس کے علاج کا
طریقہ بالکل عجیب و غریب ہے۔ جس گھر میں یہ معاملہ ہے اس کا کہنا ہے کہ علاج کرانے
والے کے پاس جن ہے اس سے کام لیتا ہے اور جن کو بوتل میں قید کرلیتا ہے۔ ہر تین دن
میں ایک بکرا بارہ ہاڈیوں کے درمیان سلاتا ہے اور اسے مریض کا کپڑا پہناتاہے، وہ
مرجائے تو اس کا تیں حصہ کرلے دریا میں ڈال دیتا ہے اور علاج کے وقت اس طرح سیل
پیک علاج کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی اسے دیکھے تو اسے بھی کچھ ہوجائے گا کہا جاتا ہے اور کہتے ہیں کہ جنات کی دنیا ہوتی
ہے، اس کے بھی بچے ہیں جوہمیں لگ جاتے
ہیں، ہم ان سے اپنی جان چھڑا رہے ہیں اس میں کوئی شرک نہیں ہے۔ اس کو اپنے کام سے
روک نہیں سکتے ہیں پھر ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
جواب:جادو کا شرعی علاج رقیہ شرعیہ ہے، جو کوئی اس سے
ہٹ کر جادو کا علاج کرائے جائز نہیں ہے۔ سوال میں جو طریقہ بتایا گیا ہے وہ غیر
شرعی ہے اس طریقہ سے جادو کا علاج کرنا جائز نہیں ہے۔جادوکے علاج میں جنات سے مدد
لینا شرکیہ عمل ہے ، کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ جادو کے علاج کے لئے
جنات کی مدد حاصل کرے اور کوئی عامل جنات کے ذریعہ علاج کرتا ہے تو ایسے عاملوں سے
علاج کرانا جائز نہیں ہے۔
آپ کا کام ہے،
جسے غیرشرعی عمل کرتے ہوئے دیکھیں اس کو صحیح بات بتادیں۔ وہ آپ کی بات مان لے تو
ٹھیک ہے اور نہ مانے تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں ۔ ہمارا کام بس تبلیغ کرنا ہے۔
رقیہ شرعیہ پہ میرا بیان موجود ہے جو آپ کو پہلے بھیجا تھا، اسے خود بھی سنیں اور
اس کو بھی سننے کے لئے دیں۔
سوال: کیا کسی کو پلاٹ یا مکان خریدنے کے لیے زکاۃ کی
رقم دی جا سکتی ہے؟
جواب:جس کو بھی زکوۃ دینی ہے اس کے لئے یہ دیکھنا ضروری
ہے کہ وہ آدمی زکوۃ کے مصارف میں داخل ہے کہ نہیں اور زکوۃ کے آٹھ مصارف ہیں، ان
میں شروع کے دو زمرے میں فقیر اور مسکین داخل ہیں۔
اگر آدمی فقیر و مسکین میں داخل ہو اور وہ گھر بنانے کے
لیے ضرورت مند و محتاج ہو تو زکوۃ کے پیسے سے ایسے آدمی کی مدد کی جا سکتی ہے تاکہ
وہ زمین خرید سکے یا اپنا گھر بنا سکے کیونکہ آدمی کے لیے رہائش بنیادی ضرورت میں
داخل ہے۔
سوال: ان تصویروں کے بارے میں کیا حکم جو البم میں بند
جگہ میں رکھی ہو،کیا انہیں رکھنے سے گناہ ملے گا اور کیا ان تصویروں کو ضائع
کردینا چاہیے یا یادگار کے طور پر رکھ سکتے ہیں؟
جواب: ہر قسم کی جاندار تصویر حرام ہے خواہ موبائل میں
ہو یا البم میں ہو یا کسی اور جگہ ہو۔ اگر کسی نے البم میں تصویریں جمع کر رکھی
ہیں تو انہیں ضائع کر دینا چاہیے ورنہ اسے گناہ ملے گا۔
سوال: مغرب کی نماز کے بعد سورہ ملک پڑھنے سے قبر میں
عذاب نہیں ہوگا، کیا یہ بات درست ہے؟
جواب: مغرب بعد
یا رات میں کبھی بھی اسے پڑھ سکتے ہیں، اس کے پڑھنے سے عذاب قبر سے حفاظت کی بات
صحیح حدیث میں مذکور ہے۔
السنن الکبری للنسائی (10479) میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے
وہ کہتے ہیں:
من قرأ { تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ } كلَّ ليلةٍ؛ منعه
اللهُ عز وجل بها من عذابِ القبرِ. وكنا في عهدِ رسولِ اللهِ نسميها المانعةَ،
وإنها في كتابِ اللهِ عز وجل سورةٌ من قرأ بها في ليلةِ فقد أكثر وأطاب(صحيح
الترغيب:1589)
ترجمہ:جو شخص سورۃ الملک ہر رات پڑھے تو اللہ تعالی اس سے عذاب قبر کو
روک لے گا اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اسے مانعہ [یعنی
روکنے والی]کہتے تھے اور یہ قرآن مجید میں ایک ایسی سورت ہے جو اسے ہر رات پڑھ لے
تو وہ بہت زیادہ اور اچھا عمل کرتا ہے۔
اس حدیث کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح الترغیب و
الترہیب میں حسن کہا ہے۔
سوال:میرے گھر میں جو عورت صفائی ستھرائی اور جھاڑو
پوچھا کا کام کرتی ہے وہ عیسائی ہے، اس کے چار بچے ہیں اور سب چھوٹے چھوٹے ہیں
یعنی ابھی ان میں کوئی کمانے کے قابل نہیں ہوا ہے۔ شوہر کہیں کام کرتا ہے اور اسے
تیس ہزار تنخواہ ملتی ہے جو گھر میں خرچہ ہو جاتا ہے۔ اس کے گھر میں چھت والا
پنکھا نہیں ہے، کافی بار مدد کرنے اور پنکھا لگانے کہہ چکی ہے ، کیا میں صدقہ کی
نیت سے یا صدقہ کے پیسوں سے اس کو پنکھا خرید کر دے سکتی ہوں؟
جواب: عیسائی
عورت کو اپنے گھر پنکھا لگانے کے لئے صدقہ کا پیسہ دے سکتے ہیں، اس میں کوئی حرج
نہیں ہے۔ غیرمسلموں کو صدقہ کے پیسوں سے تعاون کرسکتے ہیں۔ پیسہ بھی دے سکتے ہیں
اور پنکھا خرید کر بھی دے سکتے ہیں۔
سوال: فرض و سنت اور نفل وغیرہ میں بھی ثنا پڑھ سکتے
ہیں، اس بات کو دلیل کے ساتھ واضح کردیتے تو مہربانی ہوتی؟
جواب: دعائے
ثنا کو استفتاح کہتے ہیں کیونکہ یہ شروع میں پڑھی جاتی ہے۔ اور اس سلسلے میں کئی
دلائل موجود ہیں ، ظاہر سی بات ہے انہیں دلائل کی وجہ سے ہم نماز میں استفتاح
پڑھتے ہیں۔
بخاری میں ہے کہ نبی ﷺ تکبیر اور قرات کے درمیان خاموش
رہتے تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ خاموشی میں آپ کیا پڑھتے ہیں تو آپ نے جواب دیا: میں پڑھتا
ہوں «اللهم باعد بيني وبين خطاياى۔۔۔۔۔۔الخ (البخاری:744)
اسی طرح حضرت عمررضی اللہ عنہ سے متعلق منقول ہے کہ وہ نماز میں جیسے ہی تکبیر
کہتے اس کے فورا بعد دعائے استفتاح پڑھتے، اس کی دلیل یہ ہے ۔
أنَّه صَلَّى خَلْفَ عُمَرَ فسَمِعَه كَبَّرَ، ثمَّ
قال: سُبحانَك اللَّهُمَّ وبحَمْدِك، وتباركَ اسمُك، وتعالى جَدُّك، ولا إلهَ غَيرُك(إرواء
الغليل:340)
ترجمہ:راوی بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عمرکے پیچھے نماز ادا کی اور سنا کہ آپ نے
تکبیر کہی پھر آپ نے کہا" سُبحانَك اللَّهُمَّ وبحَمْدِك، وتباركَ اسمُك،
وتعالى جَدُّك، ولا إلهَ غَيرُك" ۔
یہ دونوں حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ تکبیر تحریمہ کے
فورا بعد یعنی پہلی رکعت میں استفتاح پڑھنا چاہئے اور چونکہ یہ احادیث عام ہیں اس
وجہ سے فرض وسنت اور نفل تمام نمازوں کی پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے بعد
استفتاح پڑھنا چاہئے۔
سوال: بیوہ عورت کی دوسری شادی ہو تو مرنے کے بعد جنت
میں پہلے شوہر کے ساتھ رہے گی، کیا یہ بات درست ہے؟
جواب: اس بارے میں کئی اقوال ملتے ہیں کہ دنیا میں ایک
عورت کی ایک سے زیادہ شادی ہو تو جنت میں کس شوہر کے ساتھ رہے گی تاہم اس سے متعلق
قوی موقف یہ ہے کہ جس عورت کا دنیا میں ایک سے زیادہ شوہر رہا ہو، وہ اگر جنت میں
جائے تو اپنے آخری شوہر کے ساتھ ہوگی۔
سوال:کیا کبھی کبھی ظہر کی فرض نماز کے بعد سنت مؤکدہ
چھ رکعت پڑھ سکتے ہیں؟
جواب: ظہر کی نماز میں فرض سے پہلے چار رکعت سنت مؤکدہ
ہے اور ظہر کے بعد دو رکعت سنت مؤکدہ ہے۔ اس وجہ سے ظہر کی مکمل رکعات دس بنتی
ہیں۔ ظہر کے تعلق سے ایک اور حدیث آتی ہے جس میں فرض سے پہلے چار اور فرض کے بعد
چار پڑھنے کا ذکر ہے۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں:جو شخص ظہر سے پہلے کی چار رکعتوں اور بعد
کی چار رکعتوں کی پابندی کرے گا، اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جائے گی۔
(ابوداؤد:1269)۔ یہ بطور نفل ہے، اس حدیث کی روشنی میں ظہر کی فرض نماز سے پہلے
چار اور فرض کے بعد بھی چار پڑھ سکتے ہیں۔ اس میں دو سنت موکدہ اور دو نفل شامل ہے
گویا ظہر کے بعد اصل میں دو ہی رکعت سنت موکدہ ہے اس لئے چھ پڑھنے کا مسئلہ ہی
نہیں پیدا ہوتا ہے۔ ہاں اگر کوئی ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد نفل کے طور پر دو دو
کرکے جتنی رکعات پڑھنا چاہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال: وقف امینڈمنٹ بل کے خلاف آج رات نو بجے سے سوا نو
بجے تک بتی گل احتجاج میں حصہ لینا درست ہے؟
جواب:پندرہ منٹ بتی گل کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے، یہ
لایعنی اور کارعبث ہے ، یہ ویسے ہی ہے جیسے کورونا میں مودی نے تھالی پیٹنے کو کہا
تھا۔ اس سے پہلے مسلمانوں سے کالی پٹی بندھوائی گئی ، یہ بھی بے فائدہ اور لایعنی
کام تھا بلکہ شیعوں کی طرح بطور سوگ کالا کپڑا باندھنے کے مشابہ تھا۔ اب بتی گل
کرنے کے لئے مسلمانوں کو کہا گیا ہے ، یہ ایک طرح سے غم منانے جیسا ہے جبکہ اسلام میں
غم منانے کا حکم نہیں ہے۔ اگر ہندوستانی حکومت نے ظالمانہ قانون پاس کیا ہے تو اس
کو رد کرنے کے لئے جو مثبت اقدام ہوسکتے ہیں وہ کریں مگر وہ کام جس میں رتی برابر
بھی فائدہ نہیں ہے اس سے پرہیز کیا جائے۔ ممکن ہے کہ بتی گل ہونے اور اندھیرا ہونے
سے کہیں کوئی حادثہ ہوجائے۔کتنوں لوگوں کا اس وقت مخصوص کام ہوسکتا ہے جس کونقصان
پہنچے گا ، کتنے لوگ اس وقت اپنی ضرورت کےتئیں روشنی کے محتاج ہوں گے انہیں بھی
نقصان ہوسکتا ہے بلکہ دشمن عناصر موقع کی تلاش میں رہتے ہیں، وہ اندھیرے کا فائدہ اٹھاکر کہیں مسلمانوں کو
نقصان بھی پہنچاسکتے ہیں اس وجہ سے یہ عمل مسلمانوں کے حق میں مفید تو نہیں مضر
ہوسکتا ہے۔
سوال: خلع كے بعد دی جانے والی طلاق، کیا پہلی طلاق
شمار ہوگی؟
جواب: خلع طلاق نہیں ہے بلکہ یہ فسخ نکاح ہے اس لئے اگر
کسی عورت نے اپنے شوہر سے خلع لی ہو پھر اس کے بعد اسی شوہر سے نکاح کرے تو اس کے
بعد دی جانے والی طلاق پہلی طلاق ہو گی۔
سوال: میرے والد گھر میں فضول بحث کرتے ہیں اور مجھ پر
بغیر کسی وجہ کے ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں، صحیح سے بات چیت بھی نہیں کرتے اور
میری نماز اور عبادت پر بھی اعراض کرتے ہیں مطلب یہ بولتے ہیں کہ بس دین میں ہی
لگی رہتی ہے۔ انکی یہ باتیں مجھے تکلیف دیتی ہیں اور ایسی صورتِ حال میں، میں چپ
رہنا مناسب سمجھی۔ اب چونکہ وہ میرے والد ہیں اور مجھے انکی ناراضگی بھی اچھی نہیں
لگ رہی ہے تو آپ بتائیں کہ میں کیا کروں جبکہ میرے دل میں انکے لیے کوئی برائی
نہیں ہے؟
جواب: اللہ نے والدین کا مقام و مرتبہ بلند کیا ہے ان
کی طرف سے زیادتی بھی ہو تو اولاد کو صبر سے کام لینا چاہیے تاہم حق بات کہنے میں
کوئی حرج نہیں ہے، بس ادب و احترام اور سلیقہ ملحوظ خاطر رہے۔
والدین یا کسی کے طعنہ دینے سے آپ اپنی دینداری کم نہ
کریں، عبادات کی پابندی جاری رکھیں، ساتھ ہی والدین جن کاموں کا حکم دیں انہیں بھی
بجا لائیں تاکہ اعتراض کرنے کا موقع نہ ملے یعنی حتی المقدور ان کی باتوں کو مانیں
اور ان کو خوش رکھنے کی کوشش کریں اور ان کی طرف سے ہونے والی زیادتی پر صبر کریں،
اللہ آپ کی مدد فرمائے گا۔
سوال: میری لڑکی کا نام امیمہ ہے لیکن گھر والے جب آواز
دیتے ہیں تو کبھی امیمہ کبھی عمائمہ یا عمیمہ اور کبھی امایمہ جیسے لفظ ادا ہوتی
ہیں تو ان چند لفظوں کا مطلب بتا دیجئے ۔ ان میں سے کسی بھی ایک کا بھی مطلب کچھ
غلط بنتا ہوگا تو ہمیں روکنا ہوگا ایسے الفاظ ادا کرنے سے۔ اور اگر نہیں بنتا ہوگا
تو اس میں کوئی حرج کی بات تو نہیں ہے نا؟
جواب: اُمَیْمَهْ
(umaima) اُم کی تصغیر ہے، جس کا معنی ہے
"ماں"۔نبی ﷺ کی چھ پھوپھیوں میں سے ایک کا نام أُمَيْمَة بنت
عَبْدالْمطلب ہے۔ انہوں نے اسلام لایا یا نہیں اس بارے میں اختلاف ہے اور صحیح یہی
ہے کہ ان کا اسلام لانا ثابت نہیں ہوتا ہے۔
مذکورہ نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، آپ کو صحیح لفظ
بتادیا ہوں، گھر والے اسی لفظ سے پکاریں ۔ لوگوں کا عین غین درست کرنے کی ضرورت
نہیں ہے، صحیح لفظ اُمَیْمَهْ (umaima) پکاریں
، بس ہوگیا۔ امیمہ کے علاوہ اور کوئی الٹے سیدھے لفظ سے نہ پکارے۔
سوال: میں گاؤں میں رہتی ہوں، یہاں لوگ تین سے چار قرآن
اور ستر مرتبہ یسین پڑھ کر مرنے والے کے لیے دعا کرواتے ہیں تاکہ اس کا ثواب مرنے
والے کو جائے، کیا یہ عمل درست ہے؟
جواب: آپ گاؤں میں رہیں یا شہر میں مردوں کے لئے قرآن
خوانی کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔ قرآن پڑھ کر یا سورہ یاسین پڑھ کر یا چاروں قل
پڑھ کر یعنی قرآن کسی طرح پڑھ کر اس کا ثواب مردوں کو بخشنا بدعتی عمل ہے، اس سے
مردوں کو ثواب تو نہیں ملے گا مگر یہ عمل کرنے والوں کو بدعت کرنے کی وجہ سے گناہ
ضرور ملے گا اس لئے بدعتی کام نہ کریں۔ میت کے حق میں دعا کرنا کافی ہے۔ اس کے لئے
دعا کیا کریں۔ جہاں لوگ اس قسم کا عمل کرتے ہیں انہیں اس سے باز رہنے کی تعلیم دیں
کیونکہ کتاب و سنت کی اس عمل کی دلیل نہیں ہے، اگر وہ مان لیں تو ٹھیک ہے ورنہ آپ
اس قسم کے عمل سے دور رہیں۔
سوال: میں اپنے حمل کے دوران چھوٹے روزوں کی قضا دے رہی
ہوں لیکن یہ یاد نہیں آرہا کہ اس وقت ہر روزے کے بدلے فدیہ دیا یا نہیں، تب کیا
کرنا چاہئے جبکہ کافی سال پرانی بات ہے؟
جواب: سب سے پہلی بات یہ ہے کہ حمل میں چھوٹے ہوئے
روزوں کی قضا فدیہ کی صورت میں نہیں دینا ہے بلکہ روزے ہی رکھنے ہوتے ہیں لیکن اگر
کسی نے فدیہ دے دیا ہو تو قضا کی بھر پائی ہوجائے گی کیونکہ اس میں اہل علم کے
درمیان اختلاف ہے تاہم آئندہ سے اس معاملہ میں قضا کو اختیار کریں۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہر سال چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا
آئندہ آنے والے رمضان سے پہلے کرنی ہوتی ہے، اگر ایک عورت اس طرح اپنے روزوں کا
فدیہ دیا کرتی تھی تو پھر اسے وسوسہ میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یقین ہے
کہ واقعی کچھ روزوں کا فدیہ باقی ہے تو اس کی تلافی کرے اور اگر یقین نہیں ہے تو
یہ وسوسہ ہے جو شیطان کی طرف سے اس طرف دھیان نہیں دینا ہے تاہم آگے سے اس بات کو
پختگی کے ساتھ یاد رکھنا ہے کیونکہ یہ دین کا معاملہ جس کے بارے میں آخرت میں سوال
ہوگا۔
ایک آخری بات یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ ایک عورت کوئی
ضروری نہیں کہ ہر رمضان میں حمل سے ہی ہو رمضان کے چند دن وہ حیض میں بھی ہوسکتی
ہے اور حیض میں چھوٹا ہوا روزہ بالاتفاق قضا کیا جائے گا اس کا فدیہ نہیں دیا جائے
گالہذا حیض کا چھوٹا ہوا روزہ ہو تو اس کی قضا دینی ہوگی، فدیہ دینے سے کام نہیں
چلے گا۔
سوال: میرا لڑکا تعمیراتی کام کرتا ہے، اس نے غیرمسلم
کا کام لیا ہے اور گھر مکمل ہوچکا ہے۔ اب وہ اپنے گھر میں ایک مندر بنانے بول رہا
ہے۔ میں اس کو منع کر رہی ہوں کہ ایسا نہ کر مگر میرا لڑکا کہہ رہا ہے کہ میرے دل
کا حال اللہ بہتر جانتا ہے، میں موحد ہوں مگر یہ میری روزی ہے۔ کیا روزی روٹی کے
سبب وہ ہندو کے مکان میں مندر بناسکتا ہے؟
جواب: انسانی تخلیق کا مقصد اللہ رب العالمین کی عبادت
کرنا ہے ، اس بات کو اللہ نے تمام نبیوں کو دے کر اپنی امت تک پہنچانے کا حکم دیا۔
سب سے آخر میں اللہ تعالی نے حضرت محمد ﷺ کو مبعوث کیا ہے اور ان کے ذریعہ انسانیت
کو یہ پیغام سنایا گیا کہ ایک اللہ کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ
کرو۔جب ہماری تخلیق کا مقصد اللہ کی بندگی ہے پھر کسی مسلمان کے لئے کیسے جائز
ہوسکتا ہے کہ وہ مندر کی تعمیر کرے جبکہ مندر میں غیراللہ کی عبادت کی جاتی ہے۔
جہاں ایک طرف ہمارے لئے اللہ کا یہ حکم ہے کہ تم خالص ایک اللہ کی بندگی کرو تو دوسری طرف اللہ کا یہ
بھی حکم ہے کہ گناہ اور ظلم کے کام پر کسی کا تعاون نہ کرو۔ گویا ہم صرف ایک اللہ
کی بندگی قائم کریں گے اور غیراللہ کی عبادت گناہ کا کام ہے، اس پر کسی کا تعاون
نہیں کریں گے بلکہ ہماری تو کوشش یہ ہو کہ اللہ کی زمین سے بتوں کی عبادت کو ختم
کریں۔لہذا کسی بھی مسلمان مزدور کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ ہندؤں کے لئے مندر
تعمیر کرے ، مسلمان مزدور نارمل گھر تعمیر کرسکتا ہے مگر اس گھر میں یا الگ سے
مندر تعمیر کرنا اس کے لئے جائز نہیں ہے۔
سوال: ابوبکر کے کیا معنی ہیں اور یہ لقب ہے یا نام ہے۔
اگر لقب ہے تو کیا اسے نام کے طور پر رکھ سکتے ہیں؟
جواب: ابوبکر کنیت ہے اور آپ کا اصل نام عبداللہ ہے۔
ابوبکر کے متعدد معانی بیان کئے جاتے ہیں۔ بکر قوی اونٹ کو کہاجاتا ہے اس وجہ سے
ابوبکر کا ایک معنی بڑا مضبوط ۔ اور بکر کا دوسرا معنی سبقت کرنا اس وجہ سے ابوبکر
کا ایک معنی سبقت کرنے والا بھی ہے اور یہ دونوں خصوصیات آپ میں موجود تھیں۔گرچہ
لفظ ابوبکر کنیت ہے مگر اسے بطور نام رکھنے میں حرج نہیں ہے اور نام رکھنے میں
کوئی بھی لفظ منتخب کیا جاسکتا ہے جس کا معنی درست ہو۔
سوال: کیا حالت احرام میں سرسوں کا تیل یا ناریل کا تیل
استعمال کرسکتے ہیں؟
جواب: احرام کی حالت میں خوشبو والا تیل لگانا منع ہے
اس لئے جس تیل میں خوشبو ہو وہ نہیں لگا سکتے ہیں اور جس میں خوشبو نہ ہو وہ لگا
سکتے ہیں۔ سرسوں کا عام تیل خوشبودار نہیں ہوتا وہ لگایا جاسکتا ہے لیکن اگر اس
میں خوشبو ملادی جائے تو اس کا استعمال ممنوع ہوگا اور ناریل تیل عموما خوشبودار
ہوتا ہے اس کا استعمال نہ کیا جائے۔
سوال: احرام کی حالت میں کس قسم کے جوتے وچپل استعمال
کرسکتے ہیں، مردو عورت دونوں کے حساب سے بتائیں؟
جواب : جب ایک صحابی نے نبی ﷺ سے سوال کیا کہ ہم احرام
کی حالت میں کیسے کپڑے پہنیں تو اس پر آپ ﷺ نے جواب دیا:
لَا تَلْبَسُوا الْقَمِيصَ، وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ،
وَلَا الْعَمَائِمَ، وَلَا الْبَرَانِسَ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ أَحَدٌ لَيْسَتْ
لَهُ نَعْلَانِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ، وَلْيَقْطَعْ أَسْفَلَ مِنَ
الْكَعْبَيْنِ(صحیح البخاری:1838)
ترجمہ: نہ قمیص پہنو نہ پاجامے، نہ عمامے اور نہ برنس۔
اگر کسی کے جوتے نہ ہوں تو موزوں کو ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ کر پہن لے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے مرد احرام کی حالت میں سلا
ہوا کپڑا نہیں پہنے گا، بغیر سلا ہوا کپڑا پہنے گا اور جوتا لگا سکتا ہے اور جوتا
نہ ہو تو خف(موزہ) استعمال کرسکتا ہے لیکن ضروری ہے کہ موزہ ٹخنے سے نیچے تک کاٹ
لیا جائے، ٹخنے سے اوپر نہ ہو۔اسی طرح ابن خزیمہ(2601) اور مسند احمد(4899) میں ہے کہ نبی ﷺ نے مردوں
کو دوبغیرسلی ہوئی چادر اور جوتے میں احرام باندھنے کا حکم دیا چنانچہ آپ کا فرمان
ہے:لِيُحرِمَ أحدُكم
في إزارٍ ورداءٍ ونعْلَينِ۔
ترجمہ: تمہیں چاہئے کہ ایک چادر، ایک لنگی اور دوچپل
میں احرام باندھو۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے صحیح کہا ہے۔( إرواء
الغليل:1096)
مردوں کے لئے احرام کی حالت میں جوتا یا چپل سے متعلق
تین باتیں ہیں۔
(1) مردوں کے لئے احرام کی حالت میں چپل پہنے
میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس بارے میں کسی عالم کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ چپل ایک
معروف چیز ہے جس میں تسمہ لگا ہوتا ہے یا بسا اوقات ظاہر قدم کے اگلے حصے یعنی
انگلیاں ڈھکی ہوتی ہیں یا کبھی ایڑی بھی ڈھکی ہوتی ہے۔ اس قسم کی چپل لگانے میں
حرج نہیں ہے۔
(2) چپل کے علاوہ وہ جوتے جس سے ظاہرقدم کا
پورا حصہ انگلیوں اور ایڑیوں سمیت ٹخنہ تک ڈھکا ہوتا ہے۔ اس کے پہننے میں اشکال ہے
تاہم اوپر والی بخاری کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ احرام کی حالت میں اس قسم کا
جوتا بھی پہنا جاسکتا ہے تاہم اشکال سے بچنے کے لئے تسمہ والی چپل لگانے کو میں ترجیج دیتا ہوں۔
(3) ایک قسم کا وہ جوتا ہے جو ٹخنے سے اوپر تک
ہو جسے عموما جوتی کہتے ہیں، اس قسم کی جوتی کا استعمال احرام کی حالت میں
بالاتفاق ممنوع ہے یعنی وہ جوتی جو ٹخنے سے اوپر تک ہو اسے احرام کی حالت میں نہیں
لگانا چاہئے۔
جہاں تک عورتوں کا مسئلہ ہے تو اس سلسلے میں عورتوں کے
لئے کسی قسم کے جوتے اور موزے کی ممانعت نہیں ہے یعنی عورتیں اپنی صوابدید سے جس
قسم کی چپل یا جوتے و موزے لگائے، کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ ان کے حق میں اصل یہ ہے
کہ پورے جسم سمیت پیروں کا بھی پردے کرے۔ پیر کھلے نہ ہوں تاکہ مردوں کی نظر پڑے
بلکہ پیر ڈھکے ہونا چاہئے۔
سوال: سورہ آل عمران کی 167 نمبر آیت کے تحت اس کی
تفسیر میں یہ کہا گیا ہے کہ اس آیت کریمہ میں اس فقہی قاعدہ پر دلیل ملتی ہے ”کہ
بوقت ضرورت بڑی برائی کو روکنے کے لیے چھوٹے برائی کو اختیار کرنا جائز ہے۔ اسی
طرح دو مصلحتوں میں سے اگر بڑی مصلحت پر عمل کرنے سے عاجز ہو تو اسے چھوڑ کر کم تر
مصلحت پر عمل کرنا جائز ہے"۔یہاں جو یہ بات کہی گئی ہے کہ بڑی برائی کو روکنے
کے لئے چھوٹی برائی کو اختیار کرنا جائز ہے۔ سوال یہ ہے کہ کوئی ایسی مثال ہے
ہماری زندگی میں جس پر عمل کیا جائے گا؟
جواب: قرآن کی ہی آیت میں اس کی وضاحت موجود ہے ۔ اللہ
نے منافقوں کو حکم دیا: "قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوِ ادْفَعُوا ۖ"
یعنی اللہ کی راہ میں جہاد کرو یا (کم از کم شہر مدینہ کا) دفاع ہی کرو۔اس میں
جہاد بڑی مصلحت ہے مگر اللہ نے کم تر مصلحت مدینہ کا یا اپنے اہل و عیال کا دفاع
کرنے کا منافقوں کو حکم دیا۔ اس کی اور بھی بہت ساری مثالیں ہوسکتی ہیں بلکہ فتنہ
بھرے آج کے زمانے میں اس کی بہت ساری مثالیں مل سکتی ہیں۔ ہندوستانی تناظر میں یہ
مثال لیں کہ کوئی ہندو آپ کو پکڑ لے اور آپ کی جان کوخطرہ ہو، وہ آپ سے کہے سور کا
گوشت کھاؤ یا پھر گولی کھاؤ تو آپ کیا ترجیح دیں گے؟ جان بچانے کے لئے کم تر نقصان
کو ترجیح دیں گے۔
سوال: اگر کوئی نماز کی پہلی رکعت میں ایک سجدہ بھول
جائے اور اٹھ کر کھڑا ہوجائے پھر سورہ فاتحہ سے پہلے یا اس کے بعد یا دوسری رکعت
کا رکوع کرنے سے پہلے یا رکوع کے بعد یا دوسری رکعت کا سجدہ کرنے سے پہلے یاد آئے
کہ اس نے پہلی رکعت میں ایک سجدہ نہیں کیا ہے تو اسے کیا کرنا چاہئے؟
جواب:اگر کوئی نماز کی کسی رکعت میں ایک سجدہ بھول جائے
مثلا پہلی رکعت میں ایک ہی سجدہ کرے اور دوسری رکعت کے لئے کھڑا ہوجائے تو اس کو
کیا کرنا چاہئے؟
یہ بات ہمیں معلوم ہے کہ ہر رکعت میں دو سجدہ کرنا نماز کا
رکن ہے اور رکن کے بغیر نماز نہیں ہوگی اس وجہ سے مذکورہ بالا صورت میں دو میں سے
کوئی ایک صورت ہوسکتی ہے۔
(1) اگر سجدہ سے اٹھتے وقت ہی یاد آجائے یا
سجدہ سے اٹھنے کے بعد اور سورہ فاتحہ پڑھنے سے پہلے یاد آجائے تو واپس بیٹھ جائے
اور ایک سجدہ کرلے، یہ رکعت ہوجائے گی اور آخر میں سلام پھیرنے سے پہلے سجدہ سہو
کرلے۔
(2) اگر بھولا ہوا سجدہ قیام کرنے اور قرات
کرنے کے وقت یاد آئے یا رکوع سے پہلے یا رکوع کے بعد یا دوسری رکعت کا سجدہ کرنے
سے پہلے یا سجدہ کرنے کے بعد یا سلام پھیرنے سے قبل کسی وقت یاد آئے تو ایسی صورت
میں اس رکعت کو شمار نہیں کریں گے جس میں ایک سجدہ چھوٹ گیا ہے اور اس کے بدلے آخر
میں ایک رکعت زائد پڑھیں گے اور پھر سلام پھیرنے سے قبل سجدہ سہو کرکے سلام پھیریں
گے۔
سوال: بیوی اہل حدیث ہے اور شوہر تبلیغی جماعت سے ہے۔
شوہر نماز تک پابندی سے نہیں پڑھتا ہے مگر بیوی کو ہر بات پر روک ٹوک کرتا ہے اور
علم سیکھنے میں بھی کوئی نہ کوئی رکاوٹ پیدا کرتا ہے اور علم سیکھنے کے سبب عموما
لڑائی ہوتی رہتی ہے حتی کہ شوہر کا کہنا ہے کہ بیٹی کو اپنے مطابق دین کی کوئی بھی
بات مت سکھاؤ کیونکہ اس کی نظر میں بیوی غلط ہے۔ کیا میں اپنی بیٹی کی پرورش صحیح
عقیدہ کے مطابق نہ کروں۔ اس معاملہ میں شوہر کی اطاعت کی جائیگی؟
جواب:جو آدمی تبلیغی جماعت سے جڑا ہوگا اس کے اندر اہل
حدیث کے لئے نفرت بھری رہتی ہے حالانکہ عام دیوبندی کے اندر نفرت نہیں پائی جاتی
ہے مگر تبلیغ سے جڑنے کے بعد یہ اہل حدیث سے کافی نفرت کرنے لگ جاتے ہیں، یہ میرا
ذاتی مشاہدہ ہے۔
جس اہل حدیث خاتون کا شوہر تبلیغی جماعت والا ہو اسے
مشکلات جھیلنی پڑسکتی ہے مگر دین کے لئے اسے صبر و استقامت سے کام لینا چاہئے۔ اس
صورت میں میانہ روی اختیار کریں تاکہ دین وعقیدہ بھی سلامت رہے اور رشتہ بھی
برقرار رہے۔ آپ اپنی صحیح تعلیم جاری رکھیں، بچوں کے تئیں بھی صحیح منہج و تعلیم
کی لئے کوشش کریں تاہم شوہر سے جھگڑنے کی بجائے حکمت سے ان کی باتوں کا جواب دیں۔
وہ تو سارا دن گھر نہیں ہوتا اس لئے آپ اپنے حساب سے صحیح عمل کریں اور نرمی سے ان
کی باتوں کا جواب دیں۔ جس بات پر اسے اعتراض یا اشکال ہے اس کو دلیل سے مگر پیار و
محبت سے سمجھائیں جیسے نبی ﷺ نے شیریں زبان اپناکر سخت سے سخت دل کو موم بنایا اور
جیسے اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کو فرعون سے نرمی کے ساتھ بات کرنے کا حکم
دیا۔ گوکہ اپنے شوہر کی غلط بات نہ ماننا آپ کے لئے صحیح ہے، اس میں کوئی گناہ
نہیں ہے مگر گھریلوزندگی کے لئے پریشان کن ضرورہے اس لئے جب وہ غلط بات کا حکم دے تو بجائے
جواب دینے کے خاموشی اختیار کریں اور کسی بھی وقت بات کرنے میں سختی سے بچیں اور
اختلافی باتیں اس وقت کریں جب ماحول سازگار ہو۔
سوال: مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار نماز کے
برابر ہے، اگر مسجد میں جگہ نہ ملے تو کیا صحن میں پڑھنے سے بھی اتنا ہی ثواب ملے
گا؟
جواب: مسجد نبوی کے اندر و باہر اور صحن میں کسی بھی
جگہ نماز پڑھنے پر ایک ہزار ثواب ہے، یہ سارا حصہ مسجد نبوی کا ہے۔
سوال: شوہر اور بیٹا انڈیا کی کمپنی میں کام کر رہے
ہیں، کمپنی والوں نے نئی گاڑی دلوائی ہے پھر سیلری سے ہر مہینہ رقم کٹ کرتی ہے تو
اس طرح گاڑی لینا کیسا ہے؟
جواب: قسطوں پر کوئی سامان یا گاڑی خریدنا جائز نہیں ہے
کیونکہ اس میں سودی معاملہ پایا جاتا ہے۔ گاڑی خریدنے پر بھی اس میں سود دینا پڑے
گا اس وجہ سے کسی کو اس طرح کی خرید و فروخت نہیں کرنا چاہئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ
کسی مسئلہ میں پہلے شرعی حکم معلوم کیا جاتا ہے پھر عمل کیا جاتا ہے مگر یہاں پہلے
گاڑی خرید لی گئی ہے اور اب مسئلہ پوچھ رہے ہیں، مسئلہ پوچھنے کا یہ طریقہ صحیح
نہیں ہے۔
قسطوں کے کاروبار سے متعلق تفصیلی معلومات کے لئے میرا
مضمون " قسطوں کے کاروبار کا حکم" مطالعہ کریں۔
سوال: کوئی غسل جنابت سے پہلے بسم اللہ پڑھنا بھول جائے
اور دوران غسل یاد آنے پر دل میں پڑھ لے
یا اگر بالکل ہی بھول جائے اور نماز پڑھ لے تو کیا وہ نماز درست ہے یا اسے لوٹانا
ہے۔ اسی طرح وضو کے شروع میں بسم اللہ بھول جائے تو ایسی صورت میں نماز ہو جائے
گی؟
جواب:وضو اور غسل سے پہلے بسم اللہ پڑھنا مسنون ہے۔ اگر
کوئی دوران غسل بسم اللہ بھول جائے تو جب یاد آئے دل میں بسم اللہ پڑھ لے اور نہ
یاد آئے اور ایسے ہی نماز پڑھ لے تو اس کی نماز اپنی جگہ درست ہے، اسے لوٹانے کی
ضرورت نہیں ہے۔ یہی معاملہ وضو کا ہے یعنی کوئی وضو کے شروع میں بسم اللہ بھول گیا
تو جس وقت وضو کرتے ہوئے یاد آئے، بسم اللہ پڑھ لے اور نہ یاد آئے اسی حال میں
نماز پڑھ لے تواس کی نماز اپنی جگہ درست
ہے۔
سوال: کیا عورت کالی مہندی لگا سکتی ہے؟
جواب: اپنے سفید بالوں کو سیاہ خضاب لگانا حرام اور
ناجائز ہے، اس کی دلیل صحیح مسلم کی مندرجہ ذیل حدیث ہے۔
حدیث میں ہے کے فتح مکہ کے دن حضرت ابوبکر صدیق کے والد
ابو قحافہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا تو اس کی داڑھی
اور سر کے بال بالکل سفید تھے اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے
بالوں کی سفیدی کو تبدیل کرو لیکن سیاہ رنگ سے پرہیز کرو۔(صحیح مسلم:2102)
اس حدیث میں سیاہ رنگ سے پرہیز کرنے کا حکم ہے اور آپ
کا حکم یعنی امر وجوب کے لیے ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے
لکھتے ہیں کہ سیاہ رنگ کا خضاب حرام ہے اور یہی صحیح موقف ہے۔ایک اور حدیث میں ہے
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:قرب قیامت ایسی قومیں پیدا ہوں گی جو
کبوتر کی گردن کی طرح اپنے بالوں کو سیاہ کریں گی وہ جنت کی خوشبو سے محروم رہیں
گی۔ (ابوداؤد:4212)اس حدیث کو علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔
مذکورہ بالا احادیث کی روشنی میں کالا خضاب لگانا مردو
عورت دونوں کے لئے منع ہے کیونکہ یہ حکم عام ہے، اس میں مردوں کی تخصیص نہیں ہے
لہذا مرد ہو یا عورت اپنے سروں (اور داڑھی) کو کالا خضاب اور کالی مہندی نہ لگائے۔
ہاں عورت اگر اپنے ہاتھوں یا پیروں میں کالی مہندی لگائے تو اس میں کوئی حرج نہیں
ہے کیونکہ اصلا بالوں کو کالے رنگ سے رنگنامنع ہے۔
سوال: جیسے عورت کی رضامندی جانے بنا مرد کا اپنی بیوی
کو طلاق دینے سے طلاق ہوجاتی ہے تو کیا ویسے ہی مرد کی رضامندی کے بنا عورت کے کہنے
سے "میں تم سے خلع لیتی ہوں"، خلع ہوجاتا ہے یا پھر عورت کا خلع مانگنے
کے بعد بھی مرد کی زبان سے طلاق کہلوانا ضروری ہوتا ہے؟
جواب:مرد کو طلاق دینے کے لئے بیوی کی رضامندی جاننے کی
کوئی ضرورت نہیں ہے۔ طلاق مرد کا نجی اختیار ہے، وہ اپنی مرضی سے جب چاہے بیوی کو
طلاق دے سکتا ہے، اس میں بیوی کی رضامندی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مرد کے لئے یہ
ضروری ہے کہ طلاق دینے کے لئے شرعی عذر ہو تبھی اپنی بیوی کو طلاق دے اور طلاق
دینے کا شرعی عذر نہ ہو تو طلاق نہیں دینا چاہئے۔
خلع بیوی کا حق ہے لیکن خلع کے لئے شوہر کی رضامندی ضروری
ہوتی ہے یعنی جب بیوی کسی عذر کے تحت شوہر سے خلع طلب کرے اور شوہر خلع قبول کرلے
تو خلع واقع ہوگا اور خلع قبول نہ کرے تو خلع نہیں ہوگا۔
اس میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بسا اوقات عورت کو شوہر
سے الگ ہونے کےلئے شرعی عذر ہوتا ہے مگر شوہر بیوی کو نہ طلاق دیتا ہے اور نہ ہی
خلع دینےکے لئے رضامندہوتا ہے تو ایسی
صورت میں عورت شرعی ادارہ سے رجوع کرکے وہاں سے اپنا نکاح فسخ کرواسکتی ہے۔
سوال:ایک دیڈیو میں سنا کہ تین بار پڑھ کر سورۃ الاخلاص
کے حصار میں آؤ، اپنے دائیں جانب پڑھ کے
پھونکو اور بائیں جانب اوپر نیچے اور آگے پیچے بھی پھر ہر قسم کی حفاظت ہوگی
ناگہانی آفت اور بلاؤ ں سے، کیا یہ بات درست ہے؟
جواب:جو طریقہ آپ نے کسی ویڈیو میں دیکھا ہے ، وہ کسی بدعتی کا بیان کردہ طریقہ ہوگا۔ ایسے
لوگوں کی ویڈیوز اور بیانات نہ سنیں۔
ایک ہے شرعی دم یعنی قرآن اور مسنون اذکار پڑھ کر اپنے
اوپر دم کرنا ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نبی ﷺ تکلیف و بیماری کے وقت معوذات(
سورہ اخلاص، سورہ فلق اور سورہ ناس) پڑھ کر اپنے اوپر دم کرلیا کرتے تھے یعنی
دونوں ہاتھوں پر پھونک کراپنے چہرے پر
پھیرلیتے۔ ہمیں بھی رسول اللہ ﷺ کی طرح
اسی طرح دم کرنا چاہئے۔
ویڈیو میں سورہ اخلاص کا جو حصار بتایا گیا ہے، یہ
بدعتی کا اپنا بیان کردہ طریقہ ہے، ہمارے لئے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں بہترین
نمونہ ہے، آپ کے طریقہ کے مطابق ہی ہمیں دین پر عمل کرنا چاہئے۔ آپ کے طریقہ سے
بہتر کسی دوسرے کا طریقہ نہیں ہوسکتا ہے۔
سوال: کبھی کبھی بالغ بچے لاڈ میں یا کبھی بیماری کیوجہ
سے بھی ماں کے بازو پر سر رکھتے ہیں یا
گود میں تو کیا اسکی گنجائش ہے؟
جواب:جب بچہ دس سال کا ہوجائے تو اس کا بستر الگ کرنے
کا حکم دیا گیا ہے حالانکہ ابھی وہ بالغ نہیں ہوا ہوتا ہے مگر احتیاط کے تقاضہ کے
تحت بستر الگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جو بچہ بالغ ہوگیا ہے اس کے حق میں بھی بہتر
و افضل یہی ہے کہ وہ ماں کے بازو پر یا گود میں سر رکھ کر نہ سوئے تاہم کچھ لمحہ
کے لئے بیماری یا راحت و آرام کے سبب ماں کے بازو پر سر رکھ لے یا کچھ دیر کے لئے
ماں کی گود میں سر رکھ لے تو اس میں حرج نہیں ہے۔مگر یاد رہے کہ بالغ لڑکوں کو ماں
کے ساتھ نہیں سونا ہے اور نہ ہی وہ ماں کے بازو یا گود میں آرام پانے کے لئے اس
عمل کو عادت بنائے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔