آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(68)
جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفطہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ - سعودی عرب
سوال:ایک خاتون ہمیشہ ایام بیض کا روزہ
رکھتی ہے لیکن اس ماہ شوال کی تیرہ تاریخ سے اس نے اپنے رمضان کے چھوٹے روزوں کی
نیت کرکے روزہ رکھنا شروع کیا تو کیا اس کا ایسا کرنا درست ہے یا پھر اس کو پہلے
ایام بیض کا روزہ رکھ کے پھر چھوٹے روزے رکھنے پڑیں گے؟
جواب: اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، ایام بیض
کی حیثیت سے مہینے میں کبھی بھی تین روزہ رکھا جاسکتا ہے، ضروری نہیں کہ تیرہ،
چودہ اور پندرہ کو ہی رکھا جائے۔
اس وجہ سے شوال کی تیرہ تاریخ سے رمضان کے قضا روزہ
رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال: اگر کوئی کسی کا بچہ گود لیتا ہے
تو پھر قیامت کے دن سوال کس سے ہوگا اس کے اصلی ماں باپ سے یا اس سے جس نے اسے
پالا ہے؟
جواب:اگر بچے کی تعلیم و تربیت اور اس کی
دیکھ ریکھ کے بارے میں سوال ہے تو اس سلسلے میں یہ دیکھا جائے گا کہ اس میں والدین
کا قصور ہے یا نہیں؟
اگر والدین نے ضرورت مند کو اس کی خوشی کے ساتھ گود
لینے کے لیے بچہ دیا تو اب ایسی صورت میں اس بچے کی تعلیم و تربیت اور دیکھ ریکھ
گود لینے والے کے ذمہ ہے۔ اگر گود لینے والا بچے کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی کرتا
ہے تو اس معاملے میں صرف گود لینے والے سے قیامت میں سوال ہوگا کیونکہ اسی نے اس
بچے کی ذمہ داری اپنے سر لی تھی۔
سوال: اگر عورت حیض کی حالت میں ہو اور
بارہ ذوالحجہ کو پاکی حاصل ہو تو طواف حج اور سعی کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب:یوم النحر کو طواف افاضہ کیا جاتا ہے۔
اگر عورت اس دن حیض کی حالت میں ہو تو جب پاک ہوگی اس وقت طواف افاضہ اور حج کی
سعی کرے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے یعنی ضرورت کی بنیاد پر طواف افاضہ اور سعی کو
مؤخر کرسکتے ہیں۔
سوال: ایک سال کچھ مہینے پہلے ایک بیوہ
عورت کا سترسالہ مرد سے دوسرا نکاح ہوا تھا اور وہ ایک دن بھی شوہر کے ساتھ نہیں
رہی۔ فقط دعا سلام اور کبھی کبھار بات چیت ہوتی۔ ابھی اچانک اس کے شوہر کا انتقال
ہوگیا ہے۔ ایسی صورت میں اس عورت کے لیے عدت ہے یا نہیں اور وہ پانچ چھ دن کے اندر
دوسرے ملک سفر کرنے والی تھی، ٹکٹ بھی بک ہو گیا ہے، کیا وہ سفر کرسکتی ہے؟
جواب: چونکہ اس خاتون کا نکاح ہوا تھا اور
اس کا شوہر ستر سال کا ہو یا اس سے بھی زیادہ سال کا ہو، اس کی وفات کی وجہ سے اس
کی بیوی پر چار ماہ دس دن عدت گزارنا فرض ہے اور اس عدت میں بلاضرورت وہ کہیں بھی
سفر نہیں کرسکتی ہے اسے اپنے گھر رہنا ہے اور وہیں پر عدت گزارنا ہے لہذا وہ اپنے
سفر کا ٹکٹ کنسل کردے اور عدت اپنے گھر گزارے۔ اگر سفر کرنا اس کے لئے بہت ہی
ناگزیر ہو تو وہ سفر سکتی ہے ورنہ اپنے گھر مکمل عدت گزارے۔
سوال: کوئی عورت اپنے ہی شہر میں گھر سے
ایک گھنٹہ دور جائے اور وہاں اسے پتہ نہیں کہ نماز پڑھنے ملے گی یا نہیں تو کیا وہ
اپنے گھر میں جمع اور قصر کرسکتی ہے؟
جواب:گھر پر رہتے ہوئے نہ نماز کو اپنے وقت سے پہلے ادا
کرنا ہے، نہ ہی جمع کرنا ہے اور نہ ہی قصر کرنا ہے۔ ان تینوں کاموں میں سے کسی کی
اجازت نہیں ہے۔
گھر سے نکلتے وقت عورت کے لئے اپنے گھر میں صرف وہی
نماز پڑھنا ہے جس وقت کی نماز ہے اور مکمل نماز پڑھنا ہے۔ اور گھر سے نکلنے کے بعد
جس جگہ نماز کا وقت ہو اس جگہ نماز پڑھنا ہے۔ اگر کسی عذر کی وجہ سے اس جگہ نماز
نہیں پڑھ سکے تو پھر راستے میں جہاں ممکن ہو یا گھر پہنچ کر نماز ادا کرنا ہے۔
سوال: بینک اکاؤنٹ میں انٹریسٹ کا جو
پیسہ آتا ہے اس کو ہم تو کام میں نہیں لے سکتے ہیں لیکن جیسے فون پے کے ذریعہ
انجانے میں وہ پیسے بھی کام میں لے لئے تو کیا حکم ہے کیونکہ ہمیں اندازہ نہیں
رہتا کہ کتنے پیسے انٹریسٹ کے تھے؟ دوسری بات یہ ہے کہ سودی پیسوں کو نکال کر کسی
غریب مسلم کی مدد کرنا جائز ہے؟
جواب:جس نے اپنے بینک اکاؤنٹ میں پیسہ جمع
کیا ہے، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ ہم نے کتنا جمع کیا ہے۔ اس کے لیے اتنا ہی پیسہ
خرچ کرنا جائز ہے جتنا جمع کیا ہے چاہے بینک سے نکال کے خرچ کرے یا موبائل ایپس
جیسے فون پے وغیرہ سے خرچ کرے۔ نجی پیسہ سے زائد پیسہ سود ہے جس کا استعمال اس کے
لیے حرام ہے۔
جب نجی پیسہ اور سودی پیسہ کی مقدار کا علم نہ ہو تو
بینک سے رابطہ کرکے وہاں سے مکمل تفصیل طلب کرسکتے ہیں۔
بینک کا سودی پیسہ کسی مضطر آدمی کو دے سکتے ہیں یعنی
جیسے پیسے کی شدید حاجت ہو اور اس کے پاس کوئی سبیل نہ ہو خواہ علاج ، غذا، رہائی
اور دیگر بنیادی ضرورت کے لئے ہو۔ اسی طرح رفاہی اور سماجی کاموں میں اس کو صرف
کرسکتے ہیں۔
سوال: ایک عورت جوائنٹ فیملی میں رہتے
ہوئے کام کاج کے وقت ماسک پہن لے اور سوٹ کے ساتھ بڑا دوپٹہ اوڑھ لے تو کافی ہے
جبکہ گھر میں نامحرم بھی ہو۔ اسی طرح باہر جاتے وقت نقاب لگانا ضروری ہے نیز کسی
رشتہ دار کے گھر جائیں تو وہاں عبایا اتار سکتے ہیں جبکہ سوٹ و بڑا دوپٹہ رہے یا
عبایا نہیں اتار سکتے ہیں؟
جواب:اللہ تعالی نے عورت کو غیر محرموں سے
مکمل طور پر پردہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ پردہ کرنے کے لئے کوئی مخصوص لباس لگانے کی
ضرورت نہیں ہے، جس کپڑے سے بھی پردہ ہوجائے اس کا استعمال کرنا جائز ہے۔ گھر سے
نکلنے کے لئے بھی برقع پہننے یا عبایا لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اصلا پردہ
مقصود ہے خواہ کوئی بھی ساتر لباس لگائیں۔ قمیص، شلوار اور چادر میں پردہ ہو جاتا
ہے، ان کپڑوں کے ساتھ عورت گھر میں رہتے ہوئے بھی غیر محرموں سے پردہ کرسکتی ہے،
ان کپڑوں میں پردہ کرتے ہوئے باہر بھی نکل سکتی ہے اور انہی کپڑوں میں دوسرے رشتہ
داروں کے گھر بھی پردہ کر سکتی ہے، کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ان کپڑوں کے علاوہ کوئی
دوسرا کپڑا استعمال کرتی ہے جس سے مکمل بدن کا پردہ ہو جائے تو اس کا بھی استعمال
کرنا جائز ہے۔
ایک بات یاد رکھیں ماسک سے پورے چہرے کا پردہ نہیں ہوتا
ہے اس لیے چہرے کے پردہ کے لیے ماسک کا استعمال صحیح نہیں ہے آپ دوپٹے سے مکمل
چہرہ غیرمحرم سے چھپائیں۔
سوال: ایک عورت پر اس کا شوہر اور اس کی
پہلی بیوی یعنی سوکن بہت ظلم کررہے ہیں۔ سوکن کے لئے اس کی زبان سے بددعا نکلتی ہے
کیونکہ وہ بہت مظلوم ہے۔ اس کا شوہر کہتا ہے تم اس کو جو بدعا دے دے رہی ہو اس سے
اس کے گناہ جھڑ رہے ہیں،کیا یہ بات ٹھیک ہے؟
جواب: پہلی بات یہ ہے کہ ظلم جس قدر بھی ہو
کسی بھی خاتون کے لیے جائز نہیں ہے کہ دوسرے کے حق میں بددعا کرے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اپنے معاملے کو دو خاندان کے ذریعہ
یا پنچایت بٹھاکر حل کرنے کی کوشش کرے تاکہ اسے انصاف مل سکے نیز اگر خود میں بھی
غلطی ہو تو اس کی اصلاح کرے۔
تیسری بات یہ ہے کہ اگر بیٹھک اور لوگوں کی نصیحت سے یہ
معاملہ حل نہ ہو اور ظلم اس قدر ہو کہ برداشت سے باہر ہو تو طلاق یا خلع لے کر الگ
جائے اور صبر کرنا ممکن ہو تو صبر کرے، اللہ کے یہاں اس کا بہترین بدلہ ہے تاہم
لعن و طعن اور بددعا سے پرہیز کرے۔
سوال: کیا مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
میں مکروہ اوقات میں نوافل ادا کرسکتے ہیں؟
جواب: مکروہ اوقات میں نوافل ادا کرنا دنیا
کے ہر کونے میں مکروہ ہے خواہ مسجد نبوی ہو یا آپ کے گاؤں کی مسجد ہو یا آپ کا گھر
ہی کیوں نہ ہو۔ تمام جگہوں کے لیے یہ حکم یکساں ہے تاہم مکروہ اوقات میں سبب والی
نمازیں پڑھنا ہر جگہ جائز ہیں خواہ مسجد نبوی ہو اور کوئی اور مسجد۔
سوال: کیا مرد حالت احرام میں چمڑے کی
جوتی پہن سکتا ہے جبکہ اس جوتی سے اس کا پنجہ بند رہتا ہے اور ٹخنہ کھلا رہتا ہے
صرف سعی کے وقت؟
جواب:مرد احرام کی حالت میں ایسا جوتا پہن
سکتا ہے جو ٹخنے سے نیچے ہو خواہ وہ چمڑے کا ہو یا پلاسٹک کا ہو یا کسی اور چیز کا
ہو، چپل بھی پہن سکتا ہے جس سے پورا پیر کھلا رہتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سعی کی
جگہ پر کسی کو جوتا چپل نہیں پہننا چاہئے تاکہ وہ جگہ صاف ستھری رہے، وہاں لوگ سعی
کرتے ہیں، بیٹھتے ہیں اور نماز کے وقت نماز بھی ادا کرتے ہیں۔
سوال: میری ایک سہیلی ہے جس کے والد کا
انتقال ابھی حال ہی میں ہوا ہے ان کی والدہ انڈیا میں عدت میں ہے لیکن دو لڑکے یو
ایس میں رہتے ہیں۔ وہ لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی والدہ اور بہن وہیں آجائے تو کیا اب
جو باقی ایام ہیں عدت کے وہ وہاں جاکر مکمل کر سکتی ہے؟
جواب: جس خاتون کا شوہر انتقال کیا ہے اور
وہ ابھی عدت میں ہے اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ بیٹے کی چاہت کی وجہ سے اپنا گھر
چھوڑ کر اس کے پاس جائے۔ اگر بیٹے کو والدہ کی زیادہ فکر ہے تو اسے خود اپنی والدہ
کے پاس آنا چاہیے کیونکہ گھر میں عدت گزارنا یہ اللہ کا حکم ہے، اللہ کے حکم کو
توڑ کر بندے کی چاہت نہیں پوری کی جائے گی۔
سوال: ایک بہن کا سوال ہے کہ اس کی بہو
کے پانچ ماہ کا حمل ضائع کردیا ہے۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ بچہ کے اعضاء(ناک) نہیں بنی
ہے، اسکی کئی طرح کے اسکین لیا اور حمل کو ضائع کردیا ہے۔ کیا اس بچہ کی دیت واجب
ہے اور کیا اس بچہ کے والدین کو حمل ضائع کرنے پر گناہ ملے گا؟
جواب: اگر کوئی آدمی زندہ ہو اور اس کی ناک
کٹی ہو تو کیا اس آدمی کو قتل کیا جاسکتا ہے۔ ہرگز قتل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اسی
طرح ماں کے پیٹ کا بچہ ہے، وہ بھی ایک جان ہے اس کا ضائع کرنا، اس کا قتل کرنا ہے۔
اور جس نے بھی اس قتل میں ساتھ دیا ہے والدین، رشتہ دار اور داکٹر سب گنہگار ہیں
اس لئے سب سے پہلے ان سب لوگوں کو اللہ سے اپنے گناہ کی معافی مانگنا چاہئے اور
سچی توبہ کرنی چاہئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس صورت میں دیت اور کفارہ بھی ہے کیونکہ
چار ماہ کے بعد بچے میں روح پھونک دی جاتی ہے یعنی ایک زندہ بچہ کا قتل کیا گیا
ہے۔ ورثاء کے معاف کرنے سے دیت معاف ہوجاتی ہے کیونکہ یہ بندوں کا حق ہے جو معاف
کرنے سے معاف ہوجاتا ہے مگر کفارہ معاف نہیں ہوگا کیونکہ یہ اللہ کا حق ہے۔ کفارہ
کی صورت میں ایک غلام آزاد کرنا ہے یا مسلسل دو ماہ کے روزے رکھنے ہیں۔
سوال : ایک عورت کو ماہواری ہر مہینے سات
دن چلتی ہے اور آٹھویں دن وہ پاک ہوکر اپنی نماز شروع کر دیتی ہے۔ ابھی دو تین مہینے
سے ماہواری دس بارہ دن آتی ہے مگر اس بار شوال کے مہینے میں تیسری تاریخ کو
ماہواری آئی اور آج سولہ تاریخ ہے ابھی تک چل رہی ہے یعنی ماہواری کو تیرہ چودہ دن
ہوگئے ہیں تو کیا وہ پاک ہوکر نماز اور اپنے روزے شروع کر سکتی ہے یا وہ ماہواری
کی وجہ سے اپنی نماز اور روزے شروع نہیں کر سکتی ہے؟
جواب: جیساکہ سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک
خاتون کو ان دنوں مسلسل تیرہ چودہ دن سے خون آرہا ہے۔ اگر یہ خون حیض کے صفات والا
ہے اور بغیر انقطاع کے تسلسل کے ساتھ آرہا ہے تو یہ سارے ایام حیض کے مانے جائیں
گے۔
حیض کے صفات تین ہیں، اس کا رنگ کالا ہو، وہ گاڑھا ہو
اور بدبودار ہو۔
اگر مسلسل پندرہ دن تک خون آئے تو پندرہ دن تک حیض مانا
جائے گا لیکن پندرہ دن کے بعد بھی اگر خون جاری رہے تو پھر پندرہ دن کے بعد غسل کر
کے نماز کی پابندی کرے گی کیونکہ زیادہ سے زیادہ حیض کی مدت پندرہ دن ہی مانی
جاسکتی ہے، پندرہ دن کے بعد استحاضہ کا خون مانا جائے گا۔
سوال: والد اولاد پر غصہ کرے اور غصہ میں
بددعا دیں تو کیا تب بھی اولاد پر والد کا احترام کرنا واجب ہے؟
جواب: والد کا احترام ہرحال میں اولاد پر
واجب ہے کیونکہ اللہ نے اولاد کو والدین کا احترام کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر والدین
اپنے حق کی ادائیگی میں کوتاہی کرے یا اولاد کو ناحق طور پر بددعا دے یا بےجا طور
پر غصہ کرے تو یہ ان کی غلطی ہے اس پر اللہ کے یہاں ان کی پکڑ ہوگی لیکن اس وجہ سے
اولاد اپنے والدین کا احترام ترک نہیں کرے گی۔ والدین کے اولاد پر بے پناہ احسانات
ہوتے ہیں جن کا بدلہ اولاد جیتے جی کبھی نہیں چکا سکتی ہے۔ کم از کم ان احسان کے
بدلے حتی المقدور خدمت ہی کیا کرے۔
یہاں پر والدین کے لئے بھی ایک نصیحت ہے کہ آپ اپنی
اولاد پر بے جا ظلم نہ کریں، ان کو نہ ستائیں، نہ پریشان کریں اور نہ بددعا دیں۔
آپ کے ذمہ عدل و انصاف اور اولاد کے ساتھ نرمی ہے۔ اگر اولاد میں سے کوئی زیادتی
بھی کرے پھربھی والدین صبر کریں اور اپنی اولاد کو کبھی بھی صورت میں بددعا نہ
دیں۔ آخر اولاد تو آپ کی ہی ہیں۔ ان کو آپ کے علاوہ کس سے خیر کی امید ہوسکتی ہے۔
عموما دیکھا جاتا ہے کہ والدین کی ناانصافی ، ظلم یا
تعلیم و تربیت میں کوتاہی کی وجہ سے اولاد نافرمان بنتی ہے لہذا اپنے اولاد کو
تعلیم و تربیت دیں، کئی اولاد ہوں تو سب سے یکساں محبت اور لین دین میں انصاف
برتیں اور نرمی کا معاملہ کریں۔
سوال: ایک خاتون کے پاس ساڑھے چار تولہ
سونا ہے اور نو لاکھ نقدی ہے۔ کیا وہ ان دونوں کو جمع کرکے زکوٰۃ ادا کرے گی یا
سونا کا حساب الگ ہوگا جبکہ سونا کا وزن ساڑھے سات تولہ سے کم ہے؟
جواب: سونا نصاب کو نہیں پہنچا ہے تو سونے
کی زکوۃ نہیں دینی ہے لیکن نو لاکھ نقدی زکوۃ کے نصاب کو پہنچ رہی ہے، اگر اس پر
ایک سال گزر گیا ہے تو نو لاکھ کی زکوۃ ادا کریں گے۔ اور نولاکھ کی زکوۃ بائیس
ہزار پانچ سو روپے بنتے ہیں۔
سوال: کیا رمضان کے چھوٹے ہوئے روزے اگلے
شعبان کے مہینے میں رکھ سکتے ہیں کیونکہ حدیث میں ہے کہ عاشہ رضی اللہ تعالی عنہا
چھوٹے روزے شعبان کے مہینے میں رکھتی تھیں؟
جواب: رمضان کا چھوٹا ہوا روزہ اگلے رمضان
سے پہلے کبھی بھی رکھ سکتے ہیں،شعبان میں بھی رکھ سکتے ہیں اس میں کوئی حرج کی بات
نہیں ہے۔ اس سلسلے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ عنہا کا عمل صحیح حدیث میں
مذکور ہے کہ وہ شعبان میں رمضان کے چھوٹے ہوئے روزے قضا کرتی تھیں۔
سوال: اگر پڑوسی کے درخت کے پھل ہمارے
صحن اور آنگن میں گرتے ہیں تو اس کو ان کی اجازت کے بغیر کھا سکتے ہیں یا ان کی
اجازت لینی ہوگی اور دوسرا سوال یہ ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ اجازت دے دی ہے تو وہ
کافی ہوگی یا ہر بار اجازت لینی ہوگی؟
جواب: جس کا درخت ہوتا ہے پھل بھی اسی کا ہوتا ہے اس
لیے اگر اس کے درخت کا پھل توڑ کر یا گرا ہوا اس کی اجازت کے بغیر نہیں کھانا
چاہیے۔
کسی دن اس نے اپنے صحن میں گرے ہوئے پھل کھانے کی اجازت
دی پھر بھی شک و شبہ ہو رہا ہے کہ کہیں یہ وقتی اجازت ہو تو اس سے ہمیشہ کے لیے
اجازت لے لیں کہ کیا ہمیشہ آپ کے درخت کا گرا ہوا پھل ہم استعمال کر سکتے ہیں۔ اگر
وہ ہمیشہ کے لیے اجازت دے دے تو ہمیشہ کھایا کریں، ہمیشہ کے لیے اجازت نہیں دے تو
جس طرح وہ اجازت یا حکم دے اس کے حساب سے عمل کریں۔
سوال: جس نے قرآن کو ترجمہ کے ساتھ اکثر
پڑھا ہوا ہے مگر وہ صرف عربی میں زیادہ قران پڑھتا ہے تو کیا اس کو سزا ہوگی۔ بعض
لوگ کہتے ہیں کہ وہ اندھوں کی طرح قیامت میں اُٹھایا جائے گا کیا یہ بات صحیح ہے؟
جواب: قرآن کے ہمارے اوپر پانچ حقوق ہیں ان
سارے حقوق کو ادا کرنا چاہیے۔
وہ پانچ حقوق اس پر ایمان لانا، اسے پڑھنا، اسے سمجھنا،
اس پر عمل کرنا اور اس کی تبلیغ کرنا ہیں۔ ان پانچوں حقوق کو ادا کرنے سے قرآن کا
حق ادا ہوتا ہے۔
جو آدمی قرآن کی برابر تلاوت کیا کرے اسے تلاوت کا اجر
ملے گا، یہ کوئی گناہ کا کام نہیں ہے کہ اس پر سزا ملے گی۔ جس نے کہا کہ اس پر سزا
ملے گی، وہ غلط کہا ہے۔ دین کے بارے میں بلا دلیل اس طرح کی باتیں کرنا جہالت اور
بے دینی ہے بلکہ ایسے شخص کو سزا ملے گی تو بے دلیل اس قسم کی باتیں کرتا ہے۔
سوال: اگر کسی کو دوپہر میں احتلام
ہوجائے لیکن غسل اس طرح کرے کہ سر کو پانی سے نہ دھوئے بلکہ صرف تر ہاتھ دو یا تین
بار سر پر پوری طرح سے بالوں کی جڑوں تک پھیر دے اور باقی جسم کو پانی سے دھو لے
تو کیا ایسا غسل شرعاً کافی ہوگا اور اگر اسی طرح کے غسل کے بعد نماز ادا کی جائے
تو کیا وہ نمازیں درست شمار ہوگی؟
جواب: احتلام سے غسل فرض ہوجاتا ہے اور جس
پر غسل فرض ہوجائے اسے پورے جسم کو پانی سے دھلنا ضروری ہے۔ سر پر بھی پانی بہاکر
پورے سر کو بالوں سمیت حتی کہ اس کی جڑوں تک بھی پانی پہنچانا ہے۔ صرف تر ہاتھ سر
پر پھیرنے سے غسل نہیں ہوگا کیونکہ اس طرح سے پانی پورے سر کو نہیں دھوسکے گا۔
اس طرح غسل کرنے سے نہ غسل ہوگا اور نہ نماز ہوگی
کیونکہ جب غسل نہیں ہوا تو نماز بھی نہیں ہوگی اور پڑھی گئی نماز کو پھر سے دہرانا
ہوگا۔ غسل کرنے کا مسنون طریقہ میں نے تفصیل سے اپنے مضمون "غسل کا مسنون
طریقہ اور اس کے بعض مسائل" میں بیان کیا ہے اسے ضرور پڑھیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اسلام نے غسل کا ایک طریقہ ہمیں
بتایا ہے جو ہرکس وناکس کو معلوم ہے، اس سے ہٹ کر کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرتا ہے
تو اسے عمل کرنے سے پہلے اس کی حیثیت معلوم کرنا چاہئے پھر صحیح طریقہ پر عمل کرنا
چاہئے۔
سوال:ایک مسجد میں قالین کے نیچے سردی سے
بچنے کے لئے گدے بچھائے گئے تھے، اب گرمی آچکی ہے ابھی مسجد سے ان کو ہٹایا نہیں
گیا ہے، ایسے قالین پر نماز کا کیا حکم ہے جس کے نیچے گدے ہوں؟
جواب:ضرورت کی بنا پر مسجد میں قالین کے
نیچے پتلے گدے بچھانے اور اس پر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ صحابہ کرام بھی
گرمی کی شدت کی وجہ سے سجدہ کی جگہ پر کپڑے کا کنارہ رکھ لیتے۔ ویسے نماز پڑھنے کے
واسطے قالین کافی ہے اور اس کے نیچے گدا نہ ہو تو بہتر ہے کیونکہ سجدے میں اصل
زمین پر پیشانی کو قرار حاصل ہونا چاہیے۔
سوال: اگر کسی لڑکی کو آٹھ نو سال میں
حیض آنے لگے اور وہ کمزور ہو تو کیا وہ روزہ چھوڑ سکتی ہے؟
جواب: جس لڑکی کو حیض آنے لگے وہ بالغ
ہوجاتی ہے ایسی صورت میں وہ دین کا مکلف ہوجاتی ہے۔ اب وہ لازمی طور پر نماز کی
پابندی کرے گی اور لازمی طور پر رمضان کا فرض روزہ رکھے گی۔ نو دس سال کی لڑکی
جسمانی طور پر کمزور بھی ہو پھر بھی وہ روزہ رکھ سکتی ہے، اس سے کم عمر کے بچے
روزہ رکھتے ہیں۔ ہاں اگر کوئی بالغ لڑکی واقعی جسمانی اعتبار سے اس قدر کمزور ہو
کہ وہ روزہ رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتی ہو تو وہ بوڑھی عورت کے حکم میں ہوگی یعنی
وہ ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو فدیہ دے گی اور جس عمر سے وہ روزہ رکھنے کی
استطاعت رکھے اس سال سے لازمی روزہ رکھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر لڑکی بیمار نہ ہو
تو نو دس سال کی بچی آرام سے روزہ رکھ سکتی ہے۔
سوال: ایک آدمی پاکستان میں پندرہ روزہ
رکھا اور پھر سعودی آگیا ہے، یہیں پر عید کیا۔ چونکہ پاکستان میں ایک دن بعد سے
روزہ رکھا گیا اس وجہ سے سعودی میں اس کا اٹھائیس روزہ ہوا تو کیا اسے ایک روزہ
رکھنا ہوگا یا اس کا معاملہ ختم ہوگیا، اس بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب: اس میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ اگر اس نے رمضان میں
بیماری کی وجہ سے یا سفر کی وجہ سے کوئی روزہ چھوڑا تھا تو اسے اس روزے کی قضا
کرنا ضروری ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان سے سعودی آنے پر اس کا مکمل روزہ
اٹھائیس بنتا ہے تو اسے ایک روزہ قضا کرنا پڑے گا کیونکہ مہینہ کم ازکم انتیس دن
کا ہوگا۔
سوال: ہم نے تو دو ہی عید کی نماز سنی ہے
مگر کچھ لوگ شوال کا روزہ رکھنے کے بعد عید کی نماز ادا کرتے ہیں ، اسلام میں اس
کی کیا حقیقت ہے؟
جواب: یہ بات صحیح ہے کہ کچھ لوگ شوال کا
روزہ رکھنے کے بعد پھر عید کی طرح اگلا دن مناتے ہیں یعنی اس دن غسل کرتے ہیں، نیا
لباس پہنتے ہیں اور اچھا کھانا پکاتے ہیں اور عید کی نماز پڑھتے ہیں۔ اس عمل کا
اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ شوال کے چھ روزے رکھنے کے بعد اور کوئی عمل نہیں کرنا
ہے، محض چھ روزے رکھنا ہے ، رمضان کا روزہ اور شوال کا چھ روزہ رکھنے سے پورے سال
کا اجر ملتا ہے۔ جو لوگ شوال کا نفل روزہ رکھ کر عید کی طرح دن مناتے ہیں اور عید
کی نماز پڑھتے ہیں وہ بدعت کا ارتکاب کرتے ہیں اور بدعت کرنے سے ثواب نہیں ملتا ہے
بلکہ الٹا گناہ ملتا ہے۔ اور یہ عمل مقلدین احناف میں پایا جاتا ہے۔
بڑی حیرت کا مقام ہے کہ ایک طرف امام ابوحنیفہ ؒ کا
کہنا ہے کہ شوال کا روزہ رکھنا مکروہ ہے اور دوسری طرف حنفی لوگ شوال کا روزہ
رکھنے میں اس قدر غلو کرتے ہیں کہ اس میں عید بھی مناتے ہیں۔ اللہ کی پناہ
کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ شوال کا روزہ رکھ کر
عید منائے، آپ اگر کسی کو ایسا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اسے منع کریں کیونکہ ایسا
کرنے سے گناہ ملے گا۔
سوال: لاکڑاکاکڑا کی بیماری میں ہم شریعت
کے رو سے کیسے علاج کریں۔یہاں کے لوگ اس بیماری کو لیکر متعدد قسم کے غیراسلامی
رسوم گھرے ہوئے ہیں؟
جواب:جلد سے متعلق ایک بیماری جسے لاکڑا
کاکڑا یا خسرہ یا چکن پاکس بھی کہتے ہیں، اس میں جسم پر دانے نکل آتے ہیں۔ یہ ایک
وائرس ہے جو دوسروں کو بھی لگ سکتا ہے اس لئے اس میں احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔
اسلام نے ہمیں بیماری کے وقت اس کا علاج کرنے کا حکم
دیا ہے، یہ بھی ایک بیماری ہے اس کے لئے طبیب سے مراجعہ کیا جائے گا اور مریض کا
علاج کرایا جائے گا اور طبیب جس قسم کا احتیاط بتائے اس پر عمل کیا جائے گا۔ سنی
سنائی باتوں اور ضعیف الاعتقادی والے کاموں اور رسم و رواج سے پرہیز کرتے ہوئے، یہ
طب کا مسئلہ ہے تو اس بارے میں طبیب کے مشورے اور رائے کو ترجیح دینا ہے اور ہمہ
شمہ کی فضول باتوں پر دھیان نہیں دینا ہے۔
سوال: ایک حدیث ہے کہ عورت اگر اپنے شوہر
کے بدن سے خون اور پیپ اپنی زبان سے صاف کرے پھر بھی وہ اپنے شوہر کی شکرگزاری
پوری طرح سے نہیں ادا کرپائے گی۔ میرا سوال یہ ہے کہ ایک عورت کو اپنے شوہر کے لئے
اتنی شکرگزاری کیوں ادا کرنی ہے؟
جواب:یہ بات صحیح حدیث میں مذکور ہے کہ
عورت شوہر کے زخم کا خون وپیپ چاٹے پھر بھی اس کا حق نہیں ادا ہوگا۔
عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى
الله عليه وسلم : لا يَصْلُحُ لبَشَرٍ أن يسجدَ لبَشَرٍ ، ولو صَلَحَ أن يسجدَ
بشرٌ لبَشَرٍ ، لَأَمَرْتُ المرأةَ أن تسجدَ لزوجِها من عِظَمِ حَقِّهِ عليها ،
والذي نفسي بيدِه ، لو أَنَّ من قَدَمِهِ إلى مَفْرِقِ رأسِه قُرْحَةً تَنْبَجِسُ
بالقَيْحِ والصَّدِيدِ ، ثم أَقْبَلَتْ تَلْحَسُه ، ما أَدَّتْ حَقَّه(صحيح
الجامع:7725).
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہیکہ
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کسی آدمی کیلئے درست نہیں ہےکہ
وہ کسی آدمی کو سجدہ کرے ، اگر کسی آدمی کا کسی آدمی کیلئے سجدہ کرنا درست ہوتا تو
میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ، اسلئے کہ اسکا حق بہت بڑا ہے
۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر شوہر کے سر سے پیر تک زخم ہو
جس سے خون و پیپ بہہ رہا ہو ، پھر عورت آگے بڑھکر اسے اپنی زبان سے صاف کرے تو بھی
اسکے حق کو ادا نہ کر پائے گی ۔
جہاں تک آپ کا سوال ہے کہ شوہر کی اس قدر شکر گزاری
کیوں ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے مرد کو بیوی کے مقابلہ میں فوقیت دی
ہے یعنی مرد کو بڑا مقام دیا ہے کیونکہ وہ عورت کے لئے حاکم ہوتا ہے، اس کی دیکھ
ریکھ اور معاشی کفالت کرتا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ
اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ
أَمْوَالِهِمْ(النساء:34)
ترجمہ:مرد عورت پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ
نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے مال خرچ کئے ہیں۔
اس کے بدلے عورت کے ذمہ ہے کہ وہ اپنے شوہر کا شکر
بجالائے اور اگر وہ شوہر کا شکرگزار نہیں بنتی تو یہ بڑا ہی سنگین معاملہ ہوسکتا
ہے یعنی شوہر کی عدم شکرگزاری عورت کو جہنم میں لے جاسکتی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
يا معشر النساء تصدقن، فإني رأيتكن أكثر أهل النار .
فقُلْن : وبم ذلك يا رسولَ اللهِ ؟ قال تكثرن اللعن، وتكفرن العشير(صحيح
البخاري:1462)
ترجمہ:اے عورتوں کی جماعت! صدقہ و خیرات کیا کرو بیشک
مجھے دکھایا گیا ہے کہ جہنم میں تمہاری اکثریت ہے تو وہ کہنے لگیں اے اللہ کے رسول
وہ کیوں ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم گالی گلوچ بہت زیادہ کرتی ہو
اور خاوند کی نافرمانی یعنی ناشکری اور احسان فراموشی کرتی ہو ۔
سوال: کیا اسلام میں مایوں مہندی کی ایسی
رسم کرنا جائز ہے جس میں ڈھول، میوزک، گانا، پیلے پھولوں کے گجرے اور بالغ لڑکیوں
کا نامحرم رشتوں کے سامنے لڈی ڈالنا، ناچنا اور آتش بازی وغیرہ شامل ہو۔ اور اس
میں شرکت کرنا کہاں تک جائز ہے۔ اگر اس قسم کی محفل میں شریک ہونے کے لئے شوہر ہی
بیوی کو حکم دے تو کیا کرنا چاہئے جبکہ حکم نہ ماننے سے شوہر کی مہینوں ناراضگی،
سخت کشیدگی اور کدورتوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ایسے حالات میں بیوی کے لئے کیا حکم
ہے، کیا وہ ایسی محفل میں جانے کے لئے شوہر کے حکم کی پابند ہوگی یا پھر شرکت کرکے
گناہ گار ہوگی؟
جواب:عورتوں کے لئے مہندی لگانے میں حرج
نہیں ہے مگر جب اس میں مایوں مہندی جیسی رسم و رواج داخل ہوجائے جس میں مختلف قسم
کی خرافات ہوتی ہیں تب اس سے بچنا چاہئے۔ رسم ورواج میں ناجائز اور حرام کام بھی
شامل ہوجائے پھر وہ کام کرنا حرام ٹھہرے گا۔ ناچ گانے، رقص و سرود، مردوں سے
اختلاط، آتش بازی اور موسیقی یہ سب اسلام میں حرام ہیں، کسی مسلمان مرد یا عورت کے
لئے اس طرح کی محفل میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے۔
اور کسی عورت کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے شوہر کی
ایسی بات مانے جس میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی ہو۔ نبی ﷺ نے ہمیں حکم دیا
ہے:
لا طاعةَ لِمخلُوقٍ في معصيةِ الخالِقِ(صحيح الجامع:7250)
ترجمہ: اللہ کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی بات نہیں
مانے گی۔
اس وجہ سے کوئی باپ یا بھائی یا شوہر کسی عورت کو اللہ
کی نافرمانی والا کام کرنے کہے اس کو ٹھکرا دینا چاہئے۔ مذکوہ بالا صورت میں عورت
کو ایسی محفل میں شرکت نہیں کرنا چاہئے حتی کہ اس معاملہ میں شوہر کا حکم بھی
ٹھکرا دینا چاہئے۔
سوال: نماز میں سجدے کے بعد قیام کے لئے
اٹھتے وقت انگلیوں کو آٹا گوندھنے کی طرح موڑ کر اٹھنا ہے یا بغیر موڑے ہوئے بھی
اٹھ سکتے ہیں؟
جواب:اصل یہ ہے کہ دوسرے سجدہ سے اٹھتے وقت
ہاتھوں کو زمین کا سہارا دے کر اٹھنا چاہئے جیساکہ صحیح بخاری (824) کی حدیث میں
ہے۔ اور اس میں دونوں صورتیں جائز ہیں یعنی آٹا گوندھنے والی کیفیت کے ساتھ یا
کھلے ہاتھ کے ساتھ۔ دونوں طریقے درست ہیں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔