Monday, April 28, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(67)

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(67)

جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ- سعودی عرب

سوال: ایک ڈیزائن والی چادر ہے جس پہ پھول بنے ہوئے ہیں کیا اس نوعیت کی چادر نماز کی ادائیگی کے لیے مناسب سمجھی جاسکتی ہے، یہ چادر عام طور پر نرم کپڑے کی ہوتی ہے اور بعض اوقات باریک بھی ہوسکتی ہے۔ اس پر پھول پتی کا ڈیزائن بھی ہوتا ہے اور گلے کی طرف سے کچھ کھلی ہوتی ہے اس لئے بعض اوقات پن لگا کر اسے درست کرنا پڑسکتا ہے تاکہ نماز کے دوران پردہ قائم رہے؟
جواب:گھر میں عورت خوبصورت اور ڈیزائن والے کپڑے پہن سکتی ہے، اسے باہر پہن کر نہیں جانا چاہئے یا غیرمحرموں کے سامنے نہیں آنا چاہئے۔ نماز کے واسطے عورت کے لئے دبیز کپڑا چاہئے جس سے اس کا جسم نہ ظاہر ہو یعنی سر سے لے کر پیر تک ڈھکنا ہے۔ جب اندرون جسم عورت کپڑا پہنی ہو اس کے اوپر باریک چادر اوڑھ لے تو اس میں حرج نہیں ہے کیونکہ اس کے نیچے کپڑا موجود ہے جس سے جسم ڈھکا ہوا ہے مگر یاد رہے کہ جسم کی طرح  سر اور اس کے بال چھپے ہوں، کپڑا کے اندر سے نہ جھلکے یعنی سر بھی دبیز قسم کے کپڑے سے ڈھکنا ہے اور ایسے ہی نقش ونگار والے کپڑے نہ پہنے جس سے نماز میں خیال بھٹکے۔ ایسی ڈیزائن اور پھول پتی والی چادر جو بھڑکیلی معلوم نہیں پڑتی ہو یعنی سادہ ہو اور ذہن منتشر نہ ہو تو اس کے استعمال میں حرج نہیں ہے۔ کپڑے سے متعلق تفصیلی معلومات کے لئے نماز میں عورت کے لباس سے متعلق میرا مضمون مکمل طور پر پڑھیں۔
سوال: جادو کے لئے بعض لوگ مخصوص آیات پڑھتے ہیں ، میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کا خود ساختہ علاج درست ہے، ان سے دلیل طلب کی جائے تو کہتے ہیں کہ قرآن کی آیات سے بڑی دلیل کیا ہے؟
جواب:رقیہ شرعیہ کوئی دنیاوی علاج نہیں ہے بلکہ شرعی علاج ہے، یہ ذکر اور عبادت کے قبیل سے ہے، اس معاملہ میں ہم اسی طرح عمل کریں گے جیسے شریعت نے ہمیں حکم دیا ہے۔ اپنی مرضی سے نہ کسی بیماری کے لئے کوئی آیت خاص کریں گے اور نہ ہی اپنی مرضی سے کسی آیت کے لئے تعداد متعین کریں گے۔ مکمل قرآن شفا ہے اس لئے بغیر تعین کے جہاں سے بھی آیت اور سورہ پڑھیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
جو کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ قرآن کی آیت سے بڑی کیا دلیل ہے، اس سے پوچھیں کہ اس آیت میں اس بات کی کہاں دلیل ہے کہ اسے جادو میں یا کسی خاص بیماری میں پڑھنا ہے اور مخصوص تعداد کے ساتھ اتنی اتنی بار پڑھنا ہے۔ اس آیت میں دین کا جو حکم بیان کیا گیا ہے، بس اسی کی دلیل مل رہی ہے اور ہر آیت کا یہی تقاضہ ہے کہ جس آیت میں جس بات کا ذکر ہے اس بات کے لئے دلیل لی جائے گی اور جو بات آیت میں بیان نہیں ہے اس کی دلیل نہیں پکڑی جائے گی، باقی تفصیل میرے مضمون "مجرب وظیفہ کی شرعی حیثیت" میں موجود ہے۔
سوال: ایک خاتون کے شوہر کی وفات ہوگئی ہے، وہ کہتی ہے کہ میں اپنے گھر کی واحد کفیل ہوں، میرے گھر میں اور کوئی محرم نہیں ہے اور گھر کے کام بھی خود ہی کرنے ہوتے ہیں تو کیا میں عدت کے دوران گھر سے باہر نکل سکتی ہوں اور کیا میں مجبوری میں پردے میں رہ کرکسی غیر محرم سے بات کرسکتی ہوں؟
جواب:جس عورت کا شوہر وفات پاجائے اور اس کے پاس کوئی ذریعہ آمدنی نہ ہو، اسے کمانے اور مزدوری کرنے کے واسطے گھر سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے تو وہ عورت عدت میں مزدوری کے لئے گھر سے باہر نکل سکتی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ یہ ضرورت کے پیش نظر ہے اور ضرورت کے وقت غیر محرم سے عورت پردہ کے ساتھ شرعی حدود میں رہتے ہوئے بات بھی کرسکتی ہے۔
ساتھ ہی اس عورت کو چاہئے کہ عدت گزرنے کے بعد دوسری شادی کرنے کی طاقت ہو تو بہتر ہے کہ دوسری شادی کرلے تاکہ زمانے کے فتنوں سے حفاظت ملے اور معاشی طور پر کوئی ذمہ داری اٹھانے والا میسر ہوجائے۔
سوال: ایک خاتون کے پاس زیور ہے جو ابھی نصاب تک نہیں پہنچا ہے لیکن اس کے پاس چار لاکھ نقدی رقم بھی ہے جس پر ایک سال گزر چکا ہے، کیا اس کی زکوۃ نکالنی ہے؟
جواب:اس صورتحال میں صرف نقدی پیسے چار لاکھ کی زکوۃ دینا ہے، زیور کا نصاب پورا نہیں ہوا ہے اس لئے زیور میں زکوۃ نہیں ہے۔ چار لاکھ پر ایک سال مکمل ہوگیا ہے اور اس کی ڈھائی فیصد زکوۃ دس ہزار بنتی ہے، وہ مستحقوں کو دیدے۔
سوال: ایک حدیث ہے، ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جب کوئی مجھ پر سلام بھیجے گا تو اللہ تعالی مجھ پر میری روح واپس فرمائے گا تاکہ میں اس کے سلام کا جواب دے دوں۔ (سنن ابی داؤد: 2041) کیا یہ حدیث صحیح ہے؟
جواب:اس حدیث کی صحت و ضعف کے بارے میں ائمہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض نے اس حدیث کو ضعیف اور متعدد اہل علم نے اسے حسن بھی کہا ہے۔ شیخ البانیؒ، حافظ ابن حجر عسقلانیؒ، شعیب ارناؤوطؒ، امام سخاوی ؒاور شیخ ابن بازؒ وغیرہ نے اس کو حسن کہا ہے۔
اور یہ برزخ کا معاملہ ہے، اسے دنیاوی کی زندگی پر قیاس نہیں کیا جائے گا یعنی یہ نہیں کہاجائے گا نبی ﷺ دنیاوی زندگی کی طرح زندہ ہیں۔ نیز روح لوٹائے جانے سے متعلق یہ بھی کہاجاتا ہے کہ یہ حجرہ عائشہ کے پاس کھڑے ہوکر سلام پیش کرنے سے متعلق ہے جیساکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ علماء نے اس حدیث کو نبی ﷺ کی قبر مبارک کے پاس سلام کرنے سے خاص مانا ہے، نہ کہ دور سے سلام کرنے والوں کے لئے، ساتھ ہی وہ اس موقف کو امام احمد اور امام ابوداؤد کی طرف بھی منسوب کرتے ہیں۔ ایک دوسری حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ پر درود پڑھا جاتا ہے تو فرشتے آپ تک پہنچاتے ہیں۔ الحمدللہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جب بھی ہم نبی ﷺ پر درود وسلام بھیجتے ہیں تو وہ آپ تک پہنچایا جاتا ہے، یہی ہمارے لئے سب سے اہم ہے۔
سوال:کیا شوال کے روزوں کے ساتھ ایام بیض اور پیر و جمعرات کی فضیلت والی نیت کرسکتے ہیں مطلب یہ کہ پیروجمعرات کو ایام بیض کا دن آرہا ہو ان دنوں میں روزہ رکھیں اور نیت ہو کہ جمعرات و پیر کی فضیلت بھی ملے، ایام بیض کی بھی اور شوال کے روزے بھی اسی میں گن لئے جائیں؟
جواب: اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ شوال کے چھ روزے رکھتے وقت درمیان میں ایام بیض آجائیں یا سوموار اور جمعرات پڑ جائے تو ان کی بھی نیت کر لیں۔ ان شاءاللہ یہ سارے اجر حاصل ہوں گے۔ اور جس نے شوال کے چھ روزے رکھ لئے اسے ایام بیض کے روزے الگ سے رکھنے کی ضرورت نہیں ہےکیونکہ ایام بیض کے روزے اسی میں داخل مانے جائیں گے ۔ شیخ محمد بن صالح عثیمینؒ کہتے ہیں کہ  جس نے شوال کے چھ روزے رکھے اس سے ایام بیض کا روزہ ساقط ہوگیا چاہےاس نےیہ روزےایام بیض کےوقت یااس سے پہلےیابعدمیں رکھےسب برابرہیں کیونکہ یہ اس پرصادق آتاہےکہ اس نےمہینہ میں تین روزے رکھے ۔

سوال: ایک خاتون اپنی شادی کے لئے استخارہ کر رہی ہے لیکن اس کو فیصلہ کرنا مشکل لگ رہا ہے، وہ دل کی خوشی سے فیصلہ کرنا چاہتی ہے۔ یہ اس کی دوسری شادی ہے۔ اس نے پہلے خلع لی ہے۔ پہلے والا شوہر بہت تنگ کرتا تھا۔ وہ چاہتی ہے کہ اسے کسی طرح سمجھ آجائے کہ یہ بندہ اس کے لئے صحیح ہے کہ نہیں۔ پہلی شادی بھی والدین نے کی تھی، اب بھی وہی رشتہ طے کرنا چاہتے ہیں، اس کی رہنمائی کر دیں تاکہ وہ اس ہاں اور نہ کی درمیانی کیفیت سے نکل کر صحیح فیصلہ کر سکے؟
جواب:نبی ﷺ نے دین اور اخلاق دیکھ کر شادی کرنے کا حکم دیا ہے، جس مرد میں دینداری اور اخلاق ہو اس سے شادی کی جاسکتی ہے، اس میں کچھ بھی سوچنے اور تردد کرنے کی ضرورت نہیں ہے خواہ وہ امیر ہو یا غریب یا کسی بھی ذات اور برادری کا ہو۔
استخارہ کی نماز پڑھ کر کسی کو غیب کی خبر نہیں معلوم ہوجاتی ہے اور نہ ہی شادی سے متعلق کسی کے سامنے کچھ غیبی معاملہ ظاہر ہوتا ہے۔ استخارہ اللہ سے اپنے معاملہ میں توفیق و مدد طلب کرنے کا نام ہے۔ خلع یافتہ جس عورت کو دوسری شادی کرنی ہو وہ مرد کی دینداری اور اخلاق معلوم کرے، اس معاملہ میں اچھا انسان ہو تو اس سے شادی کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن جس مرد کے پاس دنیداری اور اخلاق نہ ہو وہ ویسے بھی برا آدمی ہے، اس سے شادی نہ کی جائے۔ یہی شادی کرنے کا ایک معیار ہے۔
سوال: جب میں وضو کرکے نماز کے واسطے کھڑی ہوتی ہوں یہ سوچ کر کہ فلاں وقت کی نماز پڑھنی ہے لیکن پہلی تکبیر کہتے ہی جبکہ ابھی ہاتھ کھڑے ہی ہیں اچانک کوئی ضروری کام یا یہ یاد آ جاتا ہے کہ دل میں خصوصی نیت کرنا بھول گئے ہیں تب کیا واپس اپنے ہاتھ نیچے کرسکتے ہیں تاکہ دل میں نیت کرسکیں یا جو کام یاد آیا ہے اسے انجام دے سکیں یا ہاتھ نیچے کرنے سے نیت ٹوٹ جائے گی، کیا خاص طور سے دل میں نیت کرنا بھی ضروری ہے اور اس طرح نماز درست مانی جائے گی؟
جواب:نماز ایک عظیم الشان عبادت ہے، نماز پڑھنے کے وقت اپنے مشاغل ترک کرکے اور اپنی توجہ اللہ کی طرف کرکے نہایت یکسوئی کے ساتھ اللہ کی بندگی کرنی چاہیے۔
جب نماز کے لئے تکبیر تحریمہ کہہ دی جائے تو اس سے آدمی نماز میں داخل ہو جاتا ہے اور تکبیر تحریمہ کہنے سے بہت ساری چیزیں اس کے اوپر حرام ہو جاتی ہیں اسی لئے اس کو تکبیر تحریمہ کہتے ہیں۔ نماز میں داخل ہونے کے بعد اب آدمی کو نماز ادا کرنا ہے، کام کی طرف نہیں جانا ہے، جب سلام پھیر دے اس کے بعد اپنا کام کرنا ہے۔ جہاں تک نیت کا مسئلہ ہے تو یہ دل کے ارادے کا نام ہے، زبان سے کچھ بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب نمازی وضو کر رہا ہوتا ہے اور نماز کی طرف چل کر آتا ہے اسی وقت اس کے دل میں نماز کا خیال پیدا ہو جاتا ہے، یہ نیت میں شامل ہے اور یہی کافی ہے ۔ پھر جس نماز کا وقت ہوتا ہے اس وقت نماز کی ایک ترتیب ہوتی ہے، پہلے سنت پھر فرض اور پھر سنت ہو تو سنت، اس ترتیب سے ادا کی جاتی ہے۔
بہر کیف! گھر کی عورتوں کو اپنے کام کاج مکمل کرکے اور اچھی طرح فرصت پاکر نماز کی طرف آنا چاہیے تاکہ خشوع خضوع کے ساتھ نماز ادا کرے۔
سوال: میاں بیوی کا ایک جوڑا ہے، ان کی اولاد بھی ہے، پہلے یہ دونوں اچھے سے رہتے تھے لیکن پھر شوہر، بیوی پر ظلم کرنے لگا اور تکلیف دینے لگا۔ شوہر نے دوسری شادی کرلی پھر تیسری شادی بھی کرلی۔ پہلی بیوی جس کا مسئلہ ہے اسے دو مرتبہ طلاق دی اور رجوع بھی کیا پھر ایک مرتبہ خلع لیا لیکن پھر اسی شوہر سے نکاح بھی کر لیا۔ اس خاتون کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے شوہر کے تمام حقوق ادا کرتی ہے، بات چیت بھی اچھے سے کرتی ہے لیکن جسمانی تعلق نہیں ہے۔ شوہر بیوی دونوں اسی میں خوش ہیں بلکہ شوہر کو کوئی دلچسپی بھی نہیں ہے اس لئے کہ تیسری بیوی شوہر کی پسند کی ہے۔ پہلی بیوی بھی اسی میں خوش ہے، وہ اس ڈر سے تعلق بنانا بھی نہیں چاہتی ہے کہ اگر جسمانی تعلق قائم کرے گی تو شوہر پھر سے ظلم کرے گا تو کیا عورت گنہگار ہوگی یا اللّہ کے یہاں جوابدہ ہوگی، جسمانی تعلق قائم نہ رکھنے کی وجہ سے شوہر کے ساتھ؟
جواب:جس عورت کے ساتھ مذکورہ بالا مسئلہ درپیش ہے اور وہ اس وقت شوہر کے ساتھ بروقت ٹھیک ٹھاک رہ رہی ہے سوائے اس کے کہ آپس میں جنسی تعلق نہیں ہے اور مصلحتا اور ظلم کے ڈر سے بیوی اس عمل سے کنارہ کشی اختیار کر رہی ہے لیکن بیوی کو اس طرح رہنے میں کوئی دقت نہیں ہے اور نہ ہی شوہر کو اس معاملہ میں کوئی شکایت ہے تو اس طرح اس عورت کے لئے زندگی گزارنے میں کوئی حرج اور گناہ نہیں ہے نیز بیوی کے لئے بھی مسئلہ نہیں ہے، وہ پہلے سے صاحب اولاد ہے اور شوہر کو بھی اس کے علاوہ بیوی ہے جس سے جنسی خواہش پوری ہوجاتی ہے۔
سوال: اگر کوئی عورت عشاء کی نماز کے بعد وتر چھوڑ کر سو جائے اور رات کے آخری پہر میں اپنا نوافل پڑھ کر دعا کرنے لگے اور وقت کا اندازہ نہ ہو اور فجر کی اذان ہو جائے تو کیا وتر ادا کرکے فجر کی نماز پڑھے گی یا وتر چھوڑنا پڑے گا۔ اسی طرح جب کوئی تہجد کے وقت دعا مانگ رہا ہو یعنی فجر سے پہلے تو کیا صبح کے اذکار پڑھے جاسکتے ہیں اور اگر کسی نے پڑھ لیا تو کیا اسے فجر کے بعد دوبارہ صبح کے اذکار پڑھنا ہوگا جو شام تک کفایت کر جائے؟
جواب:ایک آدمی کو دینی معاملہ میں پہلے شرعی حکم معلوم کرنا چاہیے پھر اس پر عمل کرنا چاہیے، اپنی مرضی سے عمل کرنے کا نام دین نہیں ہے۔
جس نے عشاء کے بعد وتر نہیں پڑھی اس حال میں کہ وہ رات کے آخری پہر میں بیدار ہوکر نوافل ادا کرتا ہے پھر دعا میں مشغول ہوجاتا ہے یہاں تک کہ فجر کی اذان ہونے لگتی ہے اور وتر کی نماز رہ جاتی ہے اب ایسی صورت میں وتر نہیں پڑھنا ہے کیونکہ وتر کا وقت ختم ہوگیا ہے۔ اب فجر کی سنت اور فجر کی نماز ادا کرنا ہے۔ اسی طرح تہجد کے وقت صبح کے اذکار نہیں پڑھنے ہیں، صبح کے اذکار کا وقت فجر کے بعد شروع ہوتا ہے اس لئے جب فجر کا وقت ہو تو آدمی اول وقت پر فجر کی نماز پڑھے، فجر کی نماز کے بعد پھر صبح کے اذکار پڑھے۔
جس کسی کا یہ مسئلہ ہے اسے چاہیے کہ وقت دیکھ کر خیال اور توجہ سے نماز ادا کرے اور وتر کو فجر سے پہلے ادا کرے، دعا کا معاملہ بہت وسیع ہے، کبھی بھی کی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح صبح کے اذکار تہجد کے وقت نہ پڑھے بلکہ فجر کی نماز کے بعد پڑھے۔ فجر سے پہلے صبح کے اذکار پڑھ لئے تو اسے شمار نہ کرے، فجر کے بعد دوبارہ صبح کے اذکار پڑھے۔
سوال: بچے کی پیدائش کے وقت اگر ماں اس تکلیف کی وجہ سے فوت ہوجائے تو اس خاتون کو شہادت کا درجہ ملتا ہے، کیا یہ بات صحیح ہے؟
جواب: ہاں یہ بات صحیح ہے کہ جو عورت حالت حمل میں یا زچگی کی حالت میں وفات پا جائے وہ عورت شہید کے حکم میں ہے چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہیدوں کے مختلف اقسام بتاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
وَالْمَرْأَةُ تَمُوتُ بِجُمْعٍ شَهِيدٌ (ابوداؤد:3111صححہ البانی)
ترجمہ: جو عورت حالت حمل میں وفات پا جائے وہ شہید ہے۔
یہاں تک کہ اگر ولادت کے بعد بھی حالت نفاس میں عورت انتقال کرجاتی ہے تب بھی اہل علم کے اقوال کی روشنی میں وہ شہید ہے۔
سوال: اگر حج کے دوران منی ، مزدلفہ وغیرہ میں عورت کو وضو کرنا ہو اور وہاں پردہ کا انتظام نہ ہو تو کیا عورت سر کا اور کان کا مسح اسکارف کے اوپر سے کر سکتی ہے اور اسی طرح پیر کا مسح موزہ پر کرسکتی ہے؟
جواب:تمام مشاعرے مقدسہ میں خواتین کے لیے بڑی تعداد میں مخصوص حمام بنے ہوتے ہیں اس لیے عورتوں کو منی، عرفات اور مزدلفہ میں وضو کرنے میں کسی طرح کی کوئی پریشانی نہیں ہے۔ اور وضو میں مسح کرتے وقت ویسے بھی کوئی دقت نہیں ہے جیسے اسکارف کے اندر سے سر کے اوپر تر ہاتھ پھیرنا ہے اسی طرح کان کا مسح کرلینا ہے۔ سر پر اسکارف رہتے ہوئے اس کے نیچے سے مسح کرنے میں بھی  کوئی دقت کا مسئلہ نہیں ہے اور اگر عورت نے وضو کرکے جراب لگایا ہو تو پھر اس پر بھی مسح کرسکتی ہے بشرطیکہ مسح کی مدت میں مسح کیا جائے اور جراب موٹا ہو نیز دونوں ٹخنوں کو ڈھکنے والا ہو۔
سوال: میری دادی نے عید رات یا ایک دن پہلے میری چچی کو اس کی بہن کے لئے فطرہ دیا تھا، دادی اور چاچی دونوں ایک ساتھ اوپر نیچے رہتے ہیں مگر چاچی نے اپنی بہن کو وقت پر فطرہ نہیں دیا، عید کے کئی دن کے بعد اپنی بہن کو فطرہ دیا، کیا اس سے فطرہ ادا ہوگیا؟
جواب:فطرہ دینے والے کو چاہیے کہ جسے فطرہ دینا ہو اسے خود ہی اپنے ہاتھوں سے صحیح وقت پر مستحق کو فطرہ دے۔ دوسری بات یہ کہ جس نے فطرہ لیا اسے چاہیے کہ وقت پر مستحق کو فطرہ دے دیتی لیکن اس نے اپنے پاس رکھ کر غلطی کی۔ اگر مستحق کو پہنچانے میں کوئی عذر رہا ہو تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ فطرہ دینے والے کا فطرہ ادا ہوگیا کیونکہ اس نے مستحق کے رشتہ دار کو دینے کے لیے دے دیا تھا تاہم آئندہ سے اس معاملہ کو دھیان میں رکھے اور مستحق کو خود سے فطرہ دے تاکہ اس طرح کی نوبت نہ آئے۔
سوال: کالے گاجر اور چقندر وغیرہ کو مٹی کے برتن میں رائی، نمک اور پانی ملا کر سات آٹھ دن چھوڑے رکھنے سے کانجی تیار ہوجاتی ہے اور اسے پیاجاتا ہے، کیا یہ نشہ میں آتی ہے؟
جواب:میرے علم کے مطابق کانجی ایک قسم کے گاجر کا مشروب ہے جو نمکین اور ترش ہوتا ہے۔ اس میں نشہ آور کوئی چیز نہیں ہے اور نہ ہی اس میں نشہ ہوتا ہے اس لیے اس کو نشہ آور چیزوں میں شمار نہیں کریں گے۔
ہاں اگر اس مشروب کو تیار کرنے میں ایسی چیزوں کی ملاوٹ کی جائے یا ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے نشہ پیدا ہو تو ایسی صورت میں ایسے مشروب کو منشیات میں شمار کریں گے اور اس وقت اس کا پینا جائز نہیں ہوگا لیکن جو عام طور سے کانجی معروف ہے وہ نشہ آور نہیں ہے اور اسے پینے میں حرج نہیں ہے۔
سوال: کیا بیوی شوہر کے کہنے پر حمل ضائع کروا سکتی ہے اگر وہ بیوی کو طلاق کی دھمکی دے؟
جواب:اگر بیوی صاحب اولاد ہو اور شوہر یہ حکم دے کہ اپنی اولاد کا قتل کرو ورنہ تجھے طلاق دے دوں گا تو کیا بیوی اپنی اولاد کا قتل کرے گی۔ ہرگز نہیں قتل کرے گی، مذکورہ بالا معاملہ بھی ٹھیک اسی طرح ہے یعنی حمل ساقط کرنا بھی اولاد کا قتل ہے جیسے عہد جاہلیت میں لوگ اپنی بچیوں کو زندہ درگور کرتے تھے۔ اس وجہ سے کسی عورت کو اپنے شوہر کی یہ بات نہیں ماننی چاہیے چاہے وہ طلاق کی دھمکی ہی کیوں نہ دیتا ہو تاہم بیوی اپنے شوہر کو اسقاط حمل کی خطرناکی سےباخبر کرے، اگر اسے سمجھ میں نہ آئے تو اسے کسی عالم دین سے رہنمائی حاصل کرنے کا مشورہ دے یا اس بارے میں عالم کا فتوی پڑھ کر سنائے، ہو سکتا ہے اسے اللہ کا ڈر محسوس ہو اور اپنی غلطی سے باز آجائے۔
یاد رکھیں، ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ لوگوں کی صرف وہی بات ماننی ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق ہو اور جو بات اللہ یا اس کے رسول کے حکم کے خلاف ہو اسے تسلیم نہیں کرنا ہے خواہ حکم دینے والا شوہر ہو یا والدین ہوں چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
لا طاعةَ لِمخلُوقٍ في معصيةِ الخالِقِ(صحيح الجامع:7520)
ترجمہ:اللہ کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔
حمل کا ساقط کرنا قتل میں شمار کیا جاتا ہے اور اس قتل کے مختلف احکام ہیں جن کو جاننے کے لئے میرا مضمون "اسقاط حمل پہ دیت وکفارہ کا حکم" کا مطالعہ کریں۔
سوال: جائے نماز پر پھولوں کے ڈیزائن کی کاریگری رہتی ہے، نماز میں ڈیزائن پر دھیان چلا جاتا ہے، کیا ہم جائے نماز کو الٹی کرکے پڑھ سکتے ہیں جبکہ پیچھے بھی ڈیزائن کی شکل رہتی ہے۔ ایسے میں نماز کیسے پڑھوں؟
جواب:ایسی جائے نماز جس میں نقش و نگار ہو اس پر نماز نہیں پڑھنی چاہئے کیونکہ اس سے دھیان بھٹک جائے گا۔ آپ اس جائے نماز پر سیدھی کرکے یا الٹی کرکے نماز نہ پڑھیں بلکہ اسے لپیٹ کر رکھ دیں اور چٹائی یا سادہ جائے نماز پر نماز ادا کریں۔
سوال: کیا نفلی روزہ کسی وجہ سے توڑ سکتے ہیں جیسے اگر کسی کے گھر مہمان آجائے اور میزبان کھانے کے لئے بولے تو کیا ایسی صورت میں نفلی روزہ توڑ سکتے ہیں اور اس صورت میں کوئی فدیہ، کفارہ یا قضا ہوگی؟
جواب:آدمی اللہ کی رضا کے لئے روزہ رکھتا ہے، اسے دوسرے بندوں کی خواہش پہ قربان نہیں کرنا چاہئے، جب کسی آدمی نے روزہ کی نیت کرلی تو چاہئے کہ اسے پورا کرے اور جب کوئی شرعی عذر درپیش ہو تو اسی وقت روزہ توڑے خواہ نفلی روزہ ہی کیوں نہ ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ بغیر عذر کے بھی نفلی روزہ توڑ سکتے ہیں اس میں کوئی گناہ نہیں ہےاور نہ ہی اس کی کوئی قضا یا کفارہ ہے تاہم بہتر یہی ہوتا ہے کہ بغیر عذر کے نفلی روزہ بھی نہیں توڑنا چاہئے۔
سوال: اگر مسجد کے پیچھے الگ سے عورتوں کے لئے نماز کا انتظام کیا جائے۔ خواتین اور مرد کی مسجد کے درمیان اینٹ کا پارٹیشن ہو تو کیا ایسی صورت میں خواتین مردوں کے ساتھ نماز پڑھ سکتی ہیں؟
جواب: مسجد کے امام کی اقتداء میں نماز پڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ نماز پڑھنے کی جگہ مسجد کا حصہ ہو اس لئے اگر عورتوں کی نماز کے لئے مسجد کے پیچھے انتظام کیا جائے جو مسجد کا حصہ نہ ہو تو اس جگہ عورتوں کے لیے مسجد کے امام کی اقتداء میں نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔ مسجد سے باہر امام کی اقتداء میں اسی وقت نماز درست ہے جب صفیں متصل ہوں اور تکبیر کی آواز آرہی ہو  خواہ لاؤڈاسپیکر سے ہی سہی۔

عورتوں کی نماز کے لئے انتظام کرنا ہو تو مسجد کے اندر ہی انتظام کیا جائے یا مسجد کے دائیں بائیں یا پیچھے(صف امام کی جگہ کے پیچھے ہو تاکہ مقتدی امام سے آگے نہ بڑھے) حصہ مختص کرکے اسے مسجد میں شامل کر دیا جائے جو مسجد سے سٹاہو، منفصل طور پر نہ ہو پھر عورتیں اس حصے میں مسجد کے امام کی اقتداء میں نماز پڑھ سکتی ہیں۔
سوال: ایک آدمی دبئی میں رہتا ہے اس نے شریعت کے مطابق اپنی بیوی کو تین طلاق دیا تھا یعنی ایک ماہ میں ایک طلاق، دوسرے ماہ میں دوسری طلاق اور تیسرے ماہ میں تیسری طلاق۔ عدت گزرچکی ہے، اب دو سال کے بعد لڑکی کہتی ہے کہ میں اس طلاق کو نہیں مانتی ہوں، اس نے کیس وغیرہ بھی کیا ہے۔ ایسی صورت میں کیا حکم ہے؟
جواب: تین الگ الگ مہینوں میں ایک ایک طلاق دینا شریعت کے مطابق طلاق دینا نہیں ہے بلکہ طلاق دینے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ آدمی حالت طہر جس میں بیوی سے جماع نہ کیا ہو، صرف ایک طلاق دے۔ طلاق دینے کے بعد اگر شوہر عدت میں رجوع کر لیتا ہے تو میاں بیوی کا رشتہ بحال ہو جائے گا اور اگر عدت میں رجوع نہیں کرتا ہے تو عدت گزرنے کے بعد یہی طلاق بائن ہو جائے گی اور میاں بیوی میں ہمیشہ کے لیے جدائی ہو جائے گی۔
مذکورہ بالا صورت میں عورت پر صرف ایک طلاق واقع ہوئی ہے کیونکہ ایک طلاق دینے کے بعد تین حیض اس کی عدت ہوتی ہے اور اس عدت میں دوسری یا تیسری طلاق دینے سے کوئی طلاق معتبر نہیں ہوگی صرف پہلی طلاق مانی جائے گی۔ اس وجہ سے مذکورہ صورت میں صرف ایک طلاق واقع ہوئی ہے اور عدت گزرنے کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان رشتہ ازدواج ختم ہو چکا ہے تاہم اگر وہ دونوں پھر سے اکٹھا ہونا چاہتے ہوں تو نئے نکاح اور نئے مہر کے ذریعہ شرعی طور پر عقد نکاح کرکے وہ دونوں اکٹھا ہو سکتے ہیں۔
سوال: میرے بھائی نے آج سے تیس سال پہلے ایک دکان کرایہ پر لی تھی اور اس نے 65000 پکڑی دی تھی پھر بیس سال میں خالی کردی اور دکان کے مالک سے چھ لاکھ پکڑی واپس لیا۔ ان پیسوں میں مزید جوڑ کر بھائی نے نو لاکھ میں دوسری دکان لی تو کیا بھائی کا بڑھا کر پیسہ لینا جائز ہے۔ بھائی نے ان پیسوں سے کاروبار بڑھایا، حج کیا، گھر بنایا، بچوں کی شادی کیا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ کیا یہ پیسے وراثت میں آئیں گے یا نہیں کیونکہ 65000 والدین کا پیسہ تھا؟
جواب: جس آدمی نے دکان  کے کرایہ کے طور پر صرف 65 ہزار پگڑی دیا تھا جبکہ اس نے واپسی پر چھ لاکھ روپیہ لیا، اس میں 65 ہزار سے زائد رقم حرام ہے کیونکہ اس کی امانت صرف 65 ہزار تھی، اس سے زیادہ ایک روپیہ بھی لینا اس کے حق میں جائز نہیں تھا۔
جہاں تک والدین کا مسئلہ ہے تو یہ پیسہ والدین نے جس حیثیت سے اسے دیا تھا اس کا اعتبار ہوگا۔ اگر اپنے بیٹے کو تحفہ اور تعاون کی شکل میں دیا تھا تو یہ مال بیٹے کا ہے اور اگر قرض کے طور پر دیا تھا تو باپ کو قرض کے طور پر اتنے ہی پیسے لوٹانا پڑے گا۔
وراثت کا تعلق موت سے ہے یعنی جب آدمی وفات پا جاتا ہے وہ اپنے پیچھے جو کچھ چھوڑتا ہے وہ ترکہ ہے جسے نظام وراثت کے تحت تقسیم کیا جائے گا۔ اگر اس ترکہ میں حرام مال ہو تو جس قدر حرام مال ہو اسے ضرورت مند میں تقسیم کر دینا چاہیے اور جو حلال مال ہو اسی کو وارثوں میں تقسیم کرنا چاہیے۔
سوال: ایک آدمی عمرہ کرنا چاہ رہا ہے مگر اس کا احرام روم میں بند ہے ، کسی دوسرے کا احرام جو دھویا ہوا ہے اسے پہن کر عمرہ کرسکتا ہے؟
جواب: احرام حج اور عمرہ کی نیت کو کہتے ہیں اور جو سفید چادر ہوتی ہے اسے احرام کا لباس کہا جاتا ہے۔ جس کے پاس احرام کا لباس نہ ہو وہ دوسرا لباس خرید کر یا کسی دوسرے سے مانگ کر اس میں عمرہ کرسکتا ہے اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
سوال: نیند لگی رہنے کی وجہ سے کوئی روزہ دار مغرب کے بعد اٹھے یا عشاء کے بعد اٹھے تو کیا وہ روزہ ہوجائے گا یا اسے پھر سے روزہ رکھنا پڑے گا؟
جواب: ایک روزہ دار کو سونے کے وقت اس بات کا خیال کرنا چاہیے تھا کہ اس کے ذمہ نماز پڑھنا اور وقت پر افطار کرنا بھی ہے۔ جو کوئی بغیر پرواہ کے روزہ رکھ کر مغرب کے بعد یا عشاء کے بعد بھی سویا رہا  اس کا روزہ تو اپنی جگہ درست ہے تاہم شرعی طور پر نماز چھوڑنے اور وقت پر افطار نہ کرنے کی وجہ سے غفلت کا اظہار کیا ہے۔ آج کل مختلف قسم کی سہولتیں موجود ہیں، ان کا استعمال کرکے سونے والا اپنے آپ کو صحیح وقت پر بیدار کر سکتا ہے یا اس معاملے میں کسی جاگنے والے کا تعاون لے سکتا ہے۔
بہر کیف! ایسے آدمی کا روزہ اپنی جگہ درست ہے، اسے قضا کرنے کی ضرورت نہیں ہے تاہم آئندہ اس معاملہ میں اس طرح کی غفلت سے پرہیز کرنا پڑے گا۔
سوال: اگر ہمیں کچھ سامان لینا ہو اور وہ مارکیٹ میں نہ ملے تو کیا وہ سامان بلیک سے لے سکتے ہیں؟
جواب: کسی آدمی کے لیے جائز نہیں ہے کہ غیر نظامی طور پر یا بلیک مارکیٹ سے سامان خریدے کیونکہ یہ جرم  پر تعاون ہے۔ اللہ تعالی نے ہمیں گناہ اور ظلم کے کام پر تعاون کرنے سے منع فرمایا ہے لہذا جس کسی کو سامان خریدنا ہو وہ نظام کے تحت اور صحیح جگہ سے سامان خریدے۔
سوال: اگر کوئی آدمی تھوڑا تھوڑا پیسہ جمع کرتا ہے جیسے گھر بنانے کے لئے یا شادی کے لئے تو اس میں بھی زکوۃ دینا پڑے گا؟
جواب: جب آدمی کے پاس پیسہ جمع ہوتے ہوتے نصاب بھر ہو جائے تو اس میں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کتنے پیسوں پر سال گزرا ہے۔ وہ پیسے جن پر سال گزرا ہے اور وہ زکوۃ کے نصاب کے برابر ہے تو اس میں زکوۃ دینا چاہیے۔ اس میں ایک دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ایک آدمی تنخواہ سے یا محنت و مزدوری سے تھوڑا تھوڑا پیسہ بچا کر رکھتا ہے یہاں تک کہ سال میں کافی مقدار میں پیسہ جمع ہو جاتا ہے ایسے آدمی کو سال میں ایک مرتبہ اپنے مال کی زکوۃ دینا چاہیے۔ ساتھ ہی یہ معلوم رہے کہ ہم پیسہ حفاظت کے طور پہ جمع کریں یا گھر یا شادی اور کسی ضرورت کے لئے جمع کریں ان ساری صورتوں میں سال میں ایک مرتبہ زکوۃ دینا چاہیے اگر پیسے زیادہ مقدار میں اکٹھے ہوتے ہوں۔
سوال: ایک آدمی نے ایک کام کرلیا تھا مگر وہ جھوٹی قسم کھالیتا ہے یعنی جب اس سے پوچھا جاتا ہے تو اس نے قسم کھالی کہ اس نے نہیں کیا ہے جبکہ وہ کام کیا ہوتا ہے پھر بعد میں وہ بتا بھی دیتا ہے کہ اس نے یہ کام کیا تھا تو اس صورت میں کیا کرنا ہے، کفارہ دینا پڑے گا؟
جواب: اگر کوئی آدمی جھوٹی قسم کھاتا ہے تو وہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہے ایسی صورت میں اس آدمی کے ذمہ اللہ رب العالمین سے سچی توبہ کرنا ہے یعنی وہ ایسی توبہ کرے کہ پھر کبھی اس طرح کی جھوٹی قسم نہ کھائے اور کوئی اس میں کفارہ نہیں ہے۔
سوال: ایک غیرمسلم کا سوال ہے کہ ایک مسلمان غریب ہے وہ بھی جنت میں جائے گا اور امیر مسلمان بھی پھر انصاف کہاں ہوا، ایک دکھ تکلیف میں زندگی گزارا جبکہ دوسرا بناتکلیف کے لیکن نتیجہ دونوں کا ایک جیسا ہے ، یہ ناانصافی ہے اور امیر آدمی کو جنت میں کچھ کمی کی جارہی ہے تو یہ بھی ناانصافی ہے کہ اسے امیر گھرانہ میں کیوں پیدا کیا؟
جواب:دین پر عمل کرنا سب کے لئے برابر ہے خواہ غریب ہو یا امیر۔ دین پر جو عمل کرے گا، وہی جنت میں جائے گا۔ ایسا نہیں کہ کوئی مالدار ہے تو جنت میں چلا جائے گا، دین کا معاملہ غریب و امیر سب کے لیے برابر ہے۔ جہاں تک معاملہ امیری و غریبی میں فرق کا ہے تو اس میں غریبوں کا زیادہ فائدہ ہے۔ غریبوں کو بہت ساری مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ان ساری مشکلات میں صبر پر اجر ہی اجر ہے جبکہ مالداروں کے لیے آسانی ہوتی ہے اس کے لیے ہر آسانی میں آزمائش ہے۔ صحیح طور پر مال کا حاصل کرنا اور مال کا صرف کرنا، یہ ایک بڑے امتحان کا کام ہے۔ اس وجہ سے مالی اعتبار سے غریب و مسکین کا فائدہ ہے اور امیروں کے لیے سخت امتحان ہے یہی وجہ ہے کہ حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں عام طور سے داخل ہونے والے مسکین ہوں گے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔