آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(69)
جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ- سعودی عرب
سوال:جب ہم عورتوں کو عشاء کی نماز قضا
پڑھنی ہوتی ہے تب دو دفعہ وتر پڑھیں گے یا قضا والی چھوڑ دینا ہے جبکہ آپ نے تعلیم
دی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن میں دو مرتبہ وتر پڑھنے سے منع فرمایا
ہے؟
جواب:سب سے پہلی بات یہ ہے کہ وتر کی نماز،
عشاء کی نماز میں داخل نہیں ہے بلکہ یہ رات کی آخری نماز ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ
عشاء کی نماز کا وقت آدھی رات تک رہتا ہے، جو کوئی اس وقت تک عشاء نہ پڑھ سکے، اس
کے بعد بھی جیسے ہی اسے فرصت ملے سب سے پہلے عشاء کی نماز ادا کرنی ہے۔ ایسا نہیں
ہے کہ عشاء کی نماز کو حفاظت سے رکھنا ہے اور اگلی عشاء کے بعد ادا کرنا ہے۔جہاں
تک وتر کا مسئلہ ہے یہ رات کی آخری نماز ہے اور رات میں صرف ایک مرتبہ پڑھنا ہے۔
اگر یہ سوال اس پس منظر میں ہے کہ کسی عورت کو حیض آگیا
اور وہ عشاء کی نماز مع وتر نہیں پڑھ سکی تو اس کا جواب یہ ہے کہ پاک ہونے پر اس
عورت کو مغرب اور عشاء کی نماز ادا کرنی ہے اور وتر کی نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں
ہے۔
سوال: کیا پروجیکٹ کے لئے انسانی جسم
بناسکتے ہیں؟
جواب:اس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں جن کا
الگ الگ حکم ہوسکتا ہے۔اگر کوئی تصویر کشی کا علم حاصل کرے اور اس میں انسانی جسم
بنانا سیکھے تو ایسا علم حاصل کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی اس طرح کا پروجیکٹ تیار
کرنا چاہیے، ایسا علم سرے سے چھوڑدینا چاہئے تاہم غیرانسانی تصویرکشی میں حرج نہیں
ہے۔اسی طرح کوئی طالب علم اپنے سبجیکٹ کے طور پر انسانی تصویر کشی والا پروجیکٹ
رکھتا ہے تو اس کے لیے اس طرح کا پروجیکٹ رکھنا جائز نہیں ہے۔
تعلیمی مرحلے میں کبھی انسانی تصویر کشی کی ناگزیر
ضرورت پڑے جو انسانی سماج کے لیے ضرورت کا باعث ہو جیسے طبی علم یا شعبہ جرائم کی
گتھی سلجھانے کے لئے تو اس میں حرج نہیں ہے کیونکہ یہ ضرورت کی بنا پر ہے لیکن
بغیر ضرورت کے یا شوقیہ طور پر یا اختیاری مضمون کے طور پر اس فن کو اپنانے اور
ایسی تصویر کشی سے پرہیز کرنا چاہیے۔
سوال: ایک آدمی نوکری سے ریٹائر ہے ، اسے
ساٹھ سے ستر لاکھ روپئے ملے۔ یہ پیسہ انڈیا میں سیونگ اکاؤنٹ میں نہیں رکھ سکتے
ہیں کیونکہ یہ محفوظ نہیں ہے تو فکس ڈپازٹ اکاؤنٹ میں رکھ سکتے ہیں جس میں سود
ملتا ہے۔ اور اب اس کے پاس پیسہ کمانے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے تو کیا وہ سودی پیسہ
لے کر اپنا گزارا جیسے کھانا پینا اور بچوں کی تعلیم پر استعمال کرسکتا ہے؟
جواب:پہلی بات یہ ہے کہ اپنے پیسے کو سودی
بینک میں فکس ڈپازٹ کے طور پر رکھنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ طے شدہ طریقے سے سودی
منافع کمانا ہے۔ سودی بینک میں اکاؤنٹ کھولنا اور پیسہ جمع کرنا ویسے بھی جائز
نہیں ہے سوائے اضطراری حالت کے۔
بینک میں پیسے کی حفاظت کے لیے جو اکاؤنٹ کھولا جاتا ہے
یعنی بچت اکاؤنٹ اگر اس میں پیسہ رکھنے سے خطرہ ہے تو پھر ایسے بینک میں پیسہ ہی
نہ رکھا جائے۔ اس سے بہتر ہے وہ اپنا پیسہ حلال کاروبار میں لگائے اور اس کا حلال
منافع کھائے۔اگر کسی نے غلطی سے فکس ڈپازٹ کے طور پر پیسہ رکھا، اس کے ذمہ اولا
توبہ کرنا ہے پھر ایسے اکاؤنٹ سے پیسے نکال لینا ہے نیز اس کے لئے سود کا استعمال
حرام ہے اور اگرچہ اس کے پاس ذریعہ آمدنی نہیں ہے پھر بھی سودی پیسہ استعمال کرنا
اس کے لئے جائز نہیں ہے۔ زندگی گزارنے، گھر چلانے اور بچوں کی تعلیم کے لیے حلال
پیسہ استعمال کرے۔
سوال: آج کے بہت سے شوہر جو کہ حافظ،
عالم اور فاضل ہوکر بھی نہ اپنی بیوی کی عزت کرتے ہیں، نہ ان سے تمیز سے بات کرتے
ہیں بلکہ ارے ترے اور گالی گلوج سے بات کرتے ہیں حتی کہ بچوں کے سامنے بھی تو کیا
ایسے شوہر کا بھی یہی درجہ ہے جس کا ذکر بیوی کے شوہر کا زخم چاٹنے والی حدیث اور
دیگر احادیث میں ہے یا کس قسم کے شوہروں کے لئے ہے؟
جواب: سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اگر کوئی
صاحب علم ہو کر بھی اپنے اہل و عیال کے لئے بہتر نہیں تو یہ افسوس کا مقام ہے، نبی
صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اپنے اہل و عیال کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کا حکم
دیا ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ یہ درجہ دنیا کے تمام شوہروں کے لئے ہے جو بیوی کا
اپنا شوہر ہوتا ہے۔ بیوی کے ذمہ اس کی اپنی ذمہ داری ہے اور شوہر کے ذمہ اس کی
اپنی ذمہ داری ہے، ہر کسی کو اپنی اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کرنی ہے۔اگر کوئی شوہر
اپنی بیوی کی عزت نہیں کرتا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بیوی بھی اپنے شوہر کی عزت
نہ کرے یا اسلامی تعلیمات اور حقوق کو ٹھکرا دے جو اس کے ذمہ ہے۔ بیوی کے ذمہ اپنی
ذمہ داری ہے، وہ اپنی ذمہ داری کو بخوبی نبھائے کیونکہ وہ اپنی ذمہ داری اور حقوق
کے بارے میں پوچھی جائے گی، اپنے شوہر کی ذمہ داری کے بارے میں اس سے سوال نہیں
ہوگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:كُلُّكُمْ
رَاعٍ ومَسْؤُولٌ عن رَعِيَّتِهِ(صحيح البخاري:2409)
ترجمہ: تم میں سے ہر کوئی ذمہ دار ہے اور ہر کسی سے اس
کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
سوال: میں نے آپ کی ویڈیو کلپ دیکھی تھی
جس میں آپ نے بتایا تھا کہ عید سے پہلے اور بعد میں کوئی سنت اور نفل نماز نہیں ہے
سوائے اس کے کہ اگر مسجد میں عید کی نماز ہو رہی ہے تو تحیۃ المسجد پڑھ لے جبکہ
ابن ماجہ کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ سے لوٹتے تو گھر
میں دو رکعت نماز ادا کرتے ہیں۔ اس حدیث میں دو رکعت نماز کا ذکر ہے؟
جواب: یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ عید گاہ میں عید کی
نماز سے پہلے اور عید کی نماز کے بعد کوئی نماز نہیں ہے سوائے دو رکعت عید کی نماز
کے۔یہ ایک الگ مسئلہ ہے اور ایک دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم
عید گاہ سے لوٹ کر گھر واپس آتے تو گھر میں دو رکعت نماز ادا کرتے، یہ ایک دوسرا
مسئلہ ہے جو عیدگاہ سے متعلق نہیں ہے بلکہ گھر سے متعلق ہے۔ ابن ماجہ کی حدیث میں
اسی گھر والی نماز کا ذکر ہے۔
سوال: قربانی کا جانور وزن کے حساب سے
خریدنا کیسا ہے کیونکہ ہمارے ملک میں کچھ جگہوں پر قربانی کاجانور تول کر فروخت
کیا جاتا ہے یعنی کلو کے حساب سے؟
جواب:قربانی کا زندہ جانور تول کر یا بغیر
تولے اندازہ سے قیمت لگاکر دونوں صورت میں خریدنا جائز ہے۔ ذبح کرکے اس کا گوشت
تول کرلینا جائز نہیں ہے لیکن بغیر ذبح کئے ہوئے، اگر کوئی تول کر بھی جانور
خریدتا ہے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
سوال: کیا یہ باتیں صحیح ہیں۔ وضو کے
آداب (1) اونچی جگہ بیٹھ کر وضو کرنا(1/343، کتاب الطہارہ سنن الوضوء) ،(2) پاک
جگہ بیٹھ کر وضو کرنا(شامی 1/338، سنن الوضوء)، (3) قبلہ کی طرف منہ کرکے بیٹھنا
(شامی 1/337، سنن الوضوء)۔
جواب:ان تین باتوں میں سے ایک بات تو درست
ہے کہ آدمی کو پاک جگہ پر وضو کرنا چاہیے اور کوئی نماز پڑھنے والا نجاست والی جگہ
پر کیوں کر وضو بنائے گا اس لیے اس بات کے ذکر کی ضرورت ہی نہیں ہے۔باقی جو دو
باتیں ہیں، یہ اپنے من سے گھڑی ہوئی باتیں ہیں۔ اسلام نے اس طرح کا ہمیں ادب نہیں
بتایا ہے۔ آپ اونچی یا نیچی جگہ اور قبلہ کی طرف یا بغیر قبلہ کے کسی بھی طرح سے
وضو کرسکتے ہیں۔
سوال: ایک شبہ ہے اس کا جواب چاہتی ہوں
کہ کیا صرف اماں حوا، حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے بنی تھیں یا سب عورتیں ہی
مرد کی پسلی سے بنی ہیں؟
جواب:تعجب کی بات ہے، آپ عورت ہوکر ایسا
سوال کر رہی ہیں۔ ایک عورت اپنی کوکھ میں نو مہینہ ایک بچہ رکھتی ہے اور پھر بچے
کو جنم دیتی ہے، یہ آنکھوں سے نظر آنے والی چیز ہے، اس وجہ سے یہ پوچھنے والی چیز
ہی نہیں ہے۔صرف حوا علیہا السلام کو اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کی پسلی سے
پیدا کیا۔ باقی عورتیں میاں بیوی کے ملاپ سے پیدا ہوتی ہیں بلکہ تمام انسان اسی
طرح پیدا ہوتے ہیں۔
سوال: آپ نے فرمایا کہ ایام بیض کے روزے
مہینے میں کبھی بھی رکھے جاسکتے ہیں تو میں پوچھنا چاہتی ہوں کہ ایام بیض تو تیرہ
، چودہ اور پندرہ کو کہتے ہیں پھر اس کے علاوہ دنوں میں رکھے گئے روزے ایام بیض کے
کیسے ہوئے؟
جواب:ایام بیض کا روزہ کب رکھنا ہے اس کا
علم ایک عورت کو بہتر طورپر ہونا چاہئے۔ یہ صحیح ہے کہ ایام بیض کا روزہ معمول کے
مطابق ہجری کلینڈر کے اعتبار سے تیرہ، چودہ اور پندرہ کو رکھنا چاہیے لیکن اگر کسی
کے لئے کوئی مجبوری آجائے اور وہ مذکورہ تاریخوں میں روزہ نہ رکھ سکے تو کیا کرنا
چاہیے جیسے کسی عورت کو تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو حیض آجائے تو وہ ایام بیض
کا روزہ رکھے گی یا نہیں بلکہ جس عورت کی عادت ہی درمیان مہینے میں ہو، کیا وہ
کبھی ایام بیض کا روزہ نہیں رکھے گی؟ ضرور روزہ رکھے گی اور مجبوری کی صورت میں
مہینے کے شروع میں یا آخر میں بھی ایام بیض کی نیت سے تین روزے رکھے جاسکتے ہیں۔
سوال: بعض لوگ کہتے ہیں کہ حج میں جو
قربانی کی جاتی ہے کیا وہ دم شکر کہلاتی ہے اور آپ پر جو قربانی واجب ہے وہ الگ سے
کرنی پڑے گی؟
جواب:حج کی تین اقسام ہیں، ان میں سے دو
قسموں میں قربانی ہے اور ایک میں قربانی نہیں ہے۔ جن دوقسموں میں قربانی ہے وہ حج
قران اور حج تمتع ہے اور حج افراد میں قربانی نہیں ہے۔
حج کی قربانی ایک ہی ہے، اس قربانی کو عربی میں
"ھدی" کہاجاتا ہے۔ نبی ﷺ نے جب حج کیا تھا اس وقت اپنے ساتھ
"ھدی" لے کر آئے تھے اسی سبب آپ نے حج قران کیا اور جن صحابہ کے ساتھ
ھدی یعنی حج کی قربانی نہیں تھی آپ نے انہیں عمرہ کرکے حلال ہوجانے کا حکم دیا
یعنی ان لوگوں کو حج تمتع کرنے کا حکم دیا۔ آپ ﷺ نے خواہش ظاہر کی کہ اگر میں اپنے
ساتھ ھدی (قربانی کا جانور) لے کر نہیں آتا تو میں بھی عمرہ کرکے حلال ہوجاتا۔ اس
بارے میں بخاری کی یہ حدیث مطالعہ کریں۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب نے حج کا احرام باندھا تھا اور نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم اور طلحہ رضی اللہ عنہ کے سوا قربانی کسی کے پاس نہیں تھی۔ ان
ہی دنوں میں علی رضی اللہ عنہ یمن سے آئے تو ان کے ساتھ بھی قربانی تھی۔ انہوں نے
کہا کہ جس چیز کا احرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہے میرا بھی احرام
وہی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو (مکہ میں پہنچ کر) اس کی
اجازت دے دی تھی کہ اپنے حج کو عمرہ میں تبدیل کر دیں اور بیت اللہ کا طواف اور صفا
و مروہ کی سعی کر کے بال ترشوا لیں اور احرام کھول دیں، لیکن وہ لوگ ایسا نہ کریں
جن کے ساتھ قربانی ہو۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ ہم منیٰ سے حج کے لیے اس طرح سے
جائیں گے کہ ہمارے ذکر سے منی ٹپک رہی ہو۔ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک
پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو بات اب ہوئی اگر پہلے سے معلوم
ہوتی تو میں اپنے ساتھ ہدی نہ لاتا اور اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو (افعال عمرہ
ادا کرنے کے بعد) میں بھی احرام کھول دیتا۔(صحیح بخاری: 1785)
حج کی یہی ایک قربانی ہے جسے عربی میں ھدی کہتے ہیں ،
قران یا تمتع کرنے والا یہی ایک قربانی دیتا ہے۔ اس قربانی کو دم شکر نہیں کہا
جاتا ہے، حنفیوں نے دم شکر کے نام سے اس بات کو پھیلایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دم
شکر نہیں ہے، یہ حج کی قربانی ہے، حاجی(قارن و متمتع) پر صرف یہی ایک قربانی واجب
ہے۔ جب حج کے دوران کسی حاجی سے کوئی واجب ترک ہوجائے تو اس صورت میں ایک واجب کے
بدلے ایک دم دینا پڑتا ہے، یہ الگ قربانی ہے، ترک واجب کی تلافی کے لئے ہے لیکن حج
کی قربانی صرف ایک ہی ہے جس کا ذکر اوپر کیا ہوں۔
سوال:ایک خاتون بیمار اور کمزور ہو چکی
ہے اور حیض کی وجہ سے جو روزے اس سے چھوٹتے تھے اس نے کبھی نہیں قضا کی۔ اب اسے
علم ہوا ہے مگر وہ روزہ رکھ نہیں سکتی۔ کیا وہ قضا کے بدلے فدیہ دے سکتی ہے۔ اسی
طرح وہ یہ بھی پوچھتی ہے کہ میں نے حج کیا تو کیا میری یہ کوتاہی معاف نہیں ہوگی؟
جواب:جس خاتون کے کئی سالوں کے قضا روزے
باقی ہیں، اس نے قضا روزے نہیں رکھے اور اب معلوم ہوا ہے کہ حیض کے چھوٹے ہوئے
روزے بھی رکھنا ہے اس حال میں کہ اسے روزہ رکھنے کی استطاعت نہیں ہے۔ ایسی خاتون
کے ذمہ اللہ رب العالمین سے سچی توبہ کرنا ہے کیونکہ اس نے قضا کے معاملہ میں بہت
بڑی غفلت برتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر واقعی وہ روزہ رکھنے کی استطاعت
نہیں رکھتی ہے تو جتنے روزے چھوٹے ہیں ان کا حساب لگاکر غریب و مسکین کو ان روزوں
کا فدیہ ادا کردے۔ حلال پیسوں سے سنت کے مطابق حج کیا گیا ہوگا تو حج ہوجائے گا
مگر چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا اس کے ذمہ اب بھی باقی ہے، استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے
روزہ کا فدیہ ادا کرے اور اللہ سے اخلاص کے ساتھ خوب خوب توبہ کرے، اللہ کوتاہی
معاف کرنے والا ہے۔
سوال: پانچ سال کا بچہ اس کی ماں کے ساتھ
کھڑے ہوکر صف میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے۔ میں نے جب اپنے بچے کو ساتھ میں
جماعت میں کھڑا کیا تو مجھے بتایا گیا کہ ایسا کرنے پر نماز نہیں ہوتی اور جماعت
کا ثواب نہیں ملے گا؟
جواب:بچوں کو سات سال سے نماز کا حکم دینے
کی تعلیم دی گئی ہے، یہی عمر سن شعور یعنی تمیز کی عمر ہے۔ سات سال سے پہلے بچے
میں شعور کی کمی ہوتی ہے۔ جو پانچ سال کا لڑکا ہے اسے اس کی ماں اپنے ساتھ مسجد
میں لے جائے اور اپنے ساتھ صف میں کھڑا کرے یا وہ اپنی ماں کے ساتھ صف میں شامل
ہوکر نماز ادا کرے تو اس میں حرج نہیں ہے، اس سے کسی کی نماز پر اثر نہیں پڑے گا۔
نبی ﷺ نے اپنی نواسی کے ساتھ مسجد میں نماز ادا فرمائی ہے۔ بخاری میں ہے ابوقتادہ
رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور
امامہ بنت ابی العاص (جو بچی تھیں) وہ آپ کے شانہ مبارک پر تھیں پھر نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی جب آپ رکوع کرتے تو انہیں اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے
تو پھر اٹھا لیتے۔(صحیح بخاری:5996)
یہ ضرورت کا معاملہ ہے، اسے عادت پر محمول نہیں کیا
جائے گا اس وجہ سے لڑکا یا لڑکی کے لئے مناسب یہی ہے کہ اگر وہ شرارتی نہ ہو تو
اسے مسجد لاسکتے ہیں تاہم لڑکے کو مردوں کے ساتھ اور لڑکی کو عورتوں کے ساتھ رکھنا
چاہئے۔ اور جب بچہ سن تمیز کو پہنچا ہو پھر اس فرق کو لازمی طور پر برتنا پڑے گا
یعنی لڑکا کو مردوں کی صف میں ہی رکھنا ہے اور لڑکی کو عورتوں کی صف میں۔
سوال:ایک عورت نے کسی کو کچھ رقم ادھار
دی ہے اور ادھار دئے ہوئے دس سال ہوگئے مگر ابھی تک وہ رقم مقروض کے پاس ہی ہے۔
کیا ان پیسے کی زکوۃ ادا کرنی ہوگی اور کیا پچھلے سالوں کی بھی زکوۃ دینی ہے جبکہ
ابھی تک زکوۃ نہیں نکالی گئی ہے؟
جواب: قرض کی دو صورت ہوتی ہے۔ ایک صورت یہ
ہے کہ قرض ایسا ہو کہ اس کے لوٹنے کی امید نہ ہو تو ایسی صورت میں ابھی اس کی زکوۃ
نہیں دینی ہے، جب قرض لوٹ جائے اس وقت زکوۃ دینی ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ قرض ایسا ہو کہ اس کے لوٹنے کی
امید ہو تو ایسی صورت میں ہرسال کی زکوۃ دینی ہوگی اگر وہ نصاب کو پہنچے۔
اگر قرض والی دوسری صورت تھی اور وہ نصاب کو پہنچ رہا
ہے تو قرض دینے والے کو ہر سال اس کی زکوۃ دینی تھی اور تاخیر کی وجہ سے اس صورت
میں اس کے ذمہ توبہ کرنا بھی ہے اور دس سالوں کی زکوۃ ادا کرنا ہے۔ ہاں اگر پہلی
صورت ہو تو جب قرض مل جائے اس وقت زکوۃ ادا کرے۔
سوال: حاجی نو ذوالحجہ کو مسجد نمرہ میں
اگر مقیم امام کے پیچھے ظہر اور عصر کی نماز ادا کرتا ہے تو کیا وہ امام کی اتباع
میں پوری نماز ادا کرے گا؟
جواب:مسجد نمرہ عرفات میں واقع ہے اور حجاج
یوم عرفہ کو میدان عرفات میں وقوف کرتے ہیں۔ عرفہ کے دن رسول اللہ ﷺ کی سنت یہ ہے
کہ ظہر اور عصر کی نماز جمع قصر سے ادا کی جائے اور الحمدللہ مسجد نمرہ میں رسول
اللہ ﷺ کی اسی سنت پر عمل ہوتا ہے یعنی اس مسجد میں یوم عرفہ کو ظہر اور عصر جمع
قصر سے ادا کی جاتی ہے۔ مکمل نماز نہیں ادا کی جاتی ہے اور نہ ہی دو مرتبہ نماز
ادا کی جاتی ہے۔
حنفی لوگ دوران حج مکمل نماز پڑھتے ہیں، عرفہ میں بھی
مکمل نماز ادا کرتے ہیں، ایسے لوگوں کے پیچھے نماز نہ پڑھیں جو سنت کی خلاف ورزی
کرتے ہیں۔ مسجد نمرہ میں جو اصل جماعت ہوتی ہے، وہ سنت کے مطابق ہوتی ہے اور وہاں
موجود سبھی لوگ اس جماعت میں شامل ہوکر نماز ادا کرتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ حج کرنے والا دوران حج(منی، عرفہ،
مزدلفہ میں) اسی طرح نماز پڑھے گا جیسے نبی ﷺ نے نماز پڑھا ہے، یہاں پر مقیم اور مسافر
کا مسئلہ نہیں دیکھا جائے گا۔ نبی ﷺ نے دوران حج، قصر سے نماز پڑھی ہے تو ہرکسی کو
حج کے دوران قصر سے نماز ادا کرنا ہے خواہ مکہ والا ہو یا دوسرے شہر والا ہو یا
کسی دوسرے ملک سے ہی کیوں نہ آیا ہو۔
سوال: ایک خاتون کا سوال ہے کہ اس کے
بھائی کی کرانہ دکان ہے جس میں کچھ دنوں پہلے اس نے روزانہ استعمال ہونے والی
اشیائے خورد ونوش بھرا ہے لیکن کچھ دنوں کے بعد اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے
کی وجہ سے لوگ وہ سامان نہیں خرید رہے ہیں حالانکہ اس کے بھائی نے بہت سارا سامان
دکان میں بھرا ہے جیسے چاکلیٹ ، شیمپو اور صابن وغیرہ جس کی وجہ سے نقصان ہورہا
ہے۔ کیا نقصان سے بچنے کے لئے وہ خاتون اپنے بھائی سے وہ اسرائیلی سامان خرید سکتی
ہے جبکہ وہ خود اسرائیلی سامان سے بچتی ہے؟
جواب:ایک سال سے زائد عرصہ سے یہودی،
فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم کر رہا ہے اور اب تک پچاس ہزار سے زائد معصوم مسلمانوں
کو شہید کرچکا ہے۔ یہ معاملہ کسی مسلمان سے مخفی نہیں ہے حتی کہ اسرائیلی مصنوعات
کا بائیکاٹ بھی شروع سے ہوا ہے، یہ بھی ہر کسی کے علم میں ہے۔ ایسی صورت میں
دکاندار کو ایسی چیزیں اپنی دکان میں لانا ہی نہیں چاہیے، اس نے خود سے جان بوجھ
کر غلطی کی ہے۔
بہرکیف! کسی چیز کو یہودی بنائے تو اس کا استعمال اسلام
میں حرام نہیں ہے، مسلمان بلاشبہ یہودی کی بنائی ہوئی حلال چیزیں استعمال کرسکتا
ہے۔ اس خاتون کا یا کسی بھی مسلمان کا اس دکان سے اسرائیلی مصنوعات خریدنے میں
بالکل کوئی حرج نہیں ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جو عوامی سطح پر بعض لوگ اسرائیلی
مصنوعات کا بائیکاٹ کر رہے ہیں اس سے خاطر خواہ فائدہ ہونے والا نہیں ہے۔ اگر ملکی
اور عالمی سطح پر حکمرانوں کے ذریعہ منظم اور منصوبہ بند طریقے سے بائیکاٹ کیا
جائے تو ممکن ہے کچھ فائدہ حاصل ہو۔
سوال:کسی مقروض کو اس کا قرض لوٹانے کے
لئے سود کی رقم دے سکتے ہیں؟
جواب: ایسا مقروض جو خود سے اپنا قرض ادا نہ کرسکے اور
نہ ہی کوئی ایسا سامان ہو جسے بیچ کر قرضہ ادا کر سکتا ہو تو ایسے شخص کے لیے
اسلام میں زکوۃ کی سہولت ہے، ایسے شخص کو زکوۃ دی جاسکتی ہے۔ اسلام میں مقروض کے
لیے ایک راستہ موجود ہے تو ایسی صورت میں اسے سودی پیسہ دینا درست نہیں ہے، سودی
پیسہ مضطر آدمی کو دینا چاہیے یعنی کسی کی جان بچانے کی خاطر جیسے علاج، رہائی اور
انتہائی پریشان حال یا پھر سماجی کام میں صرف کر دینا چاہیے۔
سوال: فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے
لئے عام آدمی کو کیا کرنا چاہئے اور اگر ہم کچھ نہ کرسکیں تو کیا ہم گنہگار ہوں
گے؟
جواب: جب اہل فلسطین کے لئے آپ کچھ نہیں
کرسکتے ہیں تو کیوں کر گناہ گار ہوں گے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ وہ اپنے بندوں پر
اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ ایسی صورت میں بندے کو جس کی طاقت نہ ہو اس
کے بارے میں اس کا مواخذہ نہیں ہوگا۔
آپ فلسطین کے مسلمانوں کے لئے دعا کرنے کی استطاعت
رکھتے ہیں، ان کی خیر و بھلائی اور سلامتی و عافیت کے لئے اللہ رب العالمین سے
دعائیں کریں۔جو خاص لوگ اور اثرو رسوخ والے ہیں وہ اپنی ذمہ داری کے حساب سے مدد
پہنچائیں۔
سوال: ایک شخص نے دوسرے شخص کو ہفتہ دس
دن کے لئے ٹیکس سے بچنے کے لیے کچھ پیسے دئے مگر پیسہ رکھنے والے نے اس پیسے کو
کسی جگہ انویسٹ کرکے منافع کمایا۔ دینے والے نے اس طرح کرنے کی کوئی بات نہیں کہی
تھی اور جب دینے والے کو معلوم ہوا تو اس پہ کوئی اعتراض بھی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے
کہ پیسہ دینے والا کیا منافع میں سے کچھ استعمال کر سکتا ہے قرض اتارنے کے لیے؟
جواب: ٹیکس بچانے کے لیے جس نے کسی کو پیسہ رکھنے کے
لیے دیا اس نے قانونی اعتبار سے جرم کیا اور جس نے ایسے آدمی کا پیسہ اپنے پاس
رکھا اس نے اس جرم پر اس کی مدد کی اس معاملے میں دونوں قانونی مجرم ہیں۔جس نے
بطور امانت اپنے پاس کسی دوسرے کا پیسہ رکھا اسے اولا پیسہ لینا ہی نہیں چاہیے اور اگرلیا بھی تو اسے ویسے
ہی اپنے پاس محفوظ رکھنا چاہیے تھا۔ اس نے جو کمایا غلط طریقے سے کمایا۔
پیسہ دینے والے کو زائد پیسہ مانگنے کا حق نہیں ہے لیکن
اگر اسے اپنی مرضی سے دوسرا آدمی کچھ دیتا ہے تو لینے میں حرج نہیں ہے۔
سوال: میرے دوست کے لڑکے کا ایکسیڈنٹ ہو
گیا تھا۔ اس کی مدد کے لیے آپریشن کے واسطے میں نے پیسہ جمع کیا۔ بچہ تو فوت ہوگیا
لیکن جمع کیا ہوا پیسہ میرے پاس ہے۔ اس میں ایسے دو لوگوں کا بھی پیسہ ہے جو شاید
بنک کا سود ہوسکتا ہے۔ اس پیسے کو اس بچے کی بہن کی شادی یا غریب لوگوں کو دے سکتے
ہیں؟
جواب: سودی پیسہ اضطراری صورت میں مجبور
آدمی کے لئے صرف کرسکتے ہیں اور جس بچے کے علاج کے لئے خرچ کیا گیا جس میں سودی
اور دوسرے قسم کے پیسے تھے اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔اب جو پیسے بچ گئے ہیں
اسے غریب و مسکین کی ضرورت پر خرچ کر سکتے ہیں، اسے عام یا امیر لوگوں پر خرچ نہیں
کرسکتے ہیں، فقیر و مسکین کے مصرف میں خرچ کر سکتے ہیں۔
سوال: عشاء کی نماز میں نے وقت پر پڑھ لی
تھی لیکن وتر معمول کے مطابق تہجد کے لئے چھوڑ رکھی تھی مگر تہجد میں نماز سے پہلے
ہی مجھے حیض آگیا تو کیا سات دن بعد مجھے وتر پڑھنی ہوگی؟
جواب:جس عورت نے عشاء کی نماز پڑھ لی ہو اور وتر کی
نماز باقی ہو اس حال میں اسے حیض آجائے تو پاک ہونے پر اسے اس وقت کی نماز پڑھنی
ہے، وتر کی نماز اتنے دنوں کے بعد نہیں پڑھنی ہے۔
سوال: جب مجھے مغرب کے وقت حیض شروع ہوا
تو گلابی سا تھا پھر میں نے وضو کرکے مغرب پڑھ لی، اس کے بعد ٹرانسپیرنٹ ہوگیا تب
میں نے نیا وضو کرکے عشاء بھی پڑھ لی۔ اس کے بعد فجر تک باقاعدہ حیض شروع ہوا۔ کیا
میری دونوں نمازیں ہوگئیں یا دہرانی پڑے گی اور رات سونے سے پہلے سرخی تھی، جب فجر
میں اٹھی تب خشکی تھی اس لحاظ سے صرف فجر والی نماز قضا کرنا ہے یا مغرب و عشاء
بھی قضا پڑھنا ہے؟
جواب: سوال سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ مغرب
سے ہی حیض کی شروعات ہوئی ہے اس لئے اس وقت سے نماز چھوڑ دینی تھی کیونکہ حیض سے
متصل جس کلر کا بھی خون آئے وہ حیض میں ہی شمار ہوتا ہے۔جب حیض سے پاکی حاصل ہوگی
اس وقت مغرب اور عشاء کی نماز بھی دہرانی ہے۔ اور ہاں پچھلے عشاء کی وتر نماز
پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
سوال: ایک خاتون نے رمضان کے چھوٹے ہوئے
روزے مکمل کرلئے ہیں اور اب شوال کے چھ روزے باقی ہیں اور شوال ختم ہونے میں بھی
چھ دن ہیں۔ اگر وہ لگاتار چھ روزے رکھتی ہے تو آخری روزہ جمعہ کے دن ہوگا۔ اسے کسی
خاتون نے کہا ہے کہ جمعہ کے دن نفلی روزہ نہیں رکھا جاسکتا ہے، کیا واقعی جمعہ کے
دن روزہ نہیں رکھا جاسکتا ہے پھر تو اس بہن کے چھ روزے مکمل نہیں ہوں گے، وہ کیا کرے؟
جواب: حدیث کی روشنی میں خصوصیت کے ساتھ
صرف اکیلا جمعہ کا روزہ رکھنا منع ہے لیکن آگے یا پیچھے دنوں کے ساتھ ملاکر جمعہ
کا روزہ رکھنا منع نہیں ہے یعنی کوئی جمعرات اور جمعہ کا روزہ رکھے یا جمعہ اور
ہفتہ کا روزہ رکھے یا مسلسل کئی دن روزہ رکھے جس میں جمعہ بھی داخل ہوتو اس میں
حرج نہیں ہے صرف جمعہ کا ایک روزہ رکھنا منع ہے۔ کیا رمضان میں جمعہ نہیں آتا اور
ہم رمضان میں جمعہ کا روزہ نہیں رکھتے ہیں؟
لہذا جس بہن کے شوال والے چھ روزے باقی ہیں وہ بلاشبہ
لگاتار چھ روزے رکھ سکتی ہے اور اس حال میں جمعہ کا بھی روزہ رکھ سکتی ہے، اس میں
کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
سوال: کیا عورت حالت احرام میں ماسک
استعمال کر سکتی ہے ؟
جواب:احرام کی حالت میں عورت ماسک لگا سکتی
ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن چہرے کے پردہ کے لیے ماسک کا استعمال صحیح نہیں
ہے کیونکہ ماسک سے مکمل چہرے کا پردہ نہیں ہوتا ہے، چہرے کے پردہ کے لئے ضروری ہے
کہ دوپٹہ کا استعمال کریں۔
سوال: کوئی عورت حج پر جانے سے حیض روکنے
والی دوا کھائے مگر اپنے وقت پہ یا اس کے بعد اسپاٹنگ ہوجائے تو غسل کرکے پاک
ہوسکتی ہے یا حیض کا حکم لگے گا؟
جواب:جو خاتون حج پر جائے اور سہولت کے
ساتھ حج کرنے کے لئے مانع حیض گولی کا استعمال کرے تو اس میں حرج نہیں ہے لیکن اگر
مانع حیض گولی کھانے کے باوجود حیض نہ رکے اور خون آنے لگے تو اس کو حیض کا خون ہی
مانیں گے اور اس صورت میں غسل کرلینے سے عورت پاک نہیں ہو جائے گی بلکہ حیض منقطع
ہونے پر غسل کرنے سے پاکی حاصل ہوگی۔
سوال: جب سفر کے لئے گھر سے نکلیں اور
نماز کا وقت نہ ہوا ہو، ایئرپورٹ پہنچنے کے بعد نماز کا وقت ہوجائے اور ایئرپورٹ
گھر سے قریب ہو، زیادہ دور نہ ہو اس صورت میں نماز قصر پڑھیں گے یا پوری پڑھنا ہے؟
جواب: سفر کرتے وقت قصر کرنے کا معاملہ اس
وقت سے شروع ہوتا ہے جب مسافر اپنی بستی چھوڑ کر دوسری آبادی میں داخل ہو جائے۔
اگر ایئرپورٹ اپنی بستی میں داخل ہو تو وہاں قصر نہیں
کریں گے لیکن ایئرپورٹ اپنی بستی سے باہر ہو اور عام طور سے ایئرپورٹ بستی سے باہر
ہی ہوتا ہے تو ایسی صورت میں وہاں سے قصر شروع کر سکتے ہیں۔
سوال: ایک شخص کو پیسے کی شدید ضرورت ہے،
وہ شخص کسی ایسے شخص سے قرض لے سکتا ہے جو گانجا وغیرہ کی تجارت کرتا ہے اور فی
الحال اس سے قرض لینے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے؟
جواب: جس آدمی کی آمدنی حلال نہ ہو، حرام
کی کمائی ہو ایسے آدمی سے قرض نہیں لیں گے کیونکہ اس کی آمدنی حرام کی ہے۔ حرام
مال خود اس کے لئے بھی حرام ہے جو کما رہا ہے پھر دوسرا آدمی اس سے کیسے قرض لے
سکتا ہے۔ ایسے آدمی سے قرض نہیں لیا جائے گا چاہے جو بھی صورتحال ہو، وہ آدمی اپنے
اوپر حرام مال استعمال نہیں کرے گا اور پھر اس میں ایک طرح سے حرام کمائی کرنے
والے سے قرض لینے میں اس کا تعاون اور اس کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ ایسے آدمی سے
کسی طرح کا لین دین نہیں کرنا چاہیے پھر ایسے آدمی سے قرض کیوں کر لیا جائے گا۔
ہرگز ہرگز اس سے قرض نہیں لیا جائے گا ۔
سوال: کیا دعا میں یا رب کہنے کی کوئی
فضیلت آئی ہوئی ہے اور کیا یہ دعا کی قبولیت کا ذریعہ ہے؟
جواب: دعا میں یا رب کہنے کی کوئی خاص
فضیلت قرآن و حدیث میں وارد نہیں ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے
ناموں کے ذریعہ پکارنے کا حکم دیا ہے اس لئے یہ دعا کے آداب میں سے ایک ادب کہیں
گے بلکہ اسے قبولیت دعا کے اسباب میں سے کہیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ کے صفات
کا وسیلہ لگا کر دعا کرنا جائز ہے اور قرآن و حدیث میں یا رب کے ذریعہ بہت ساری
دعائیں منقول ہیں لہذا ہم بھی اس طرح دعا کرسکتے ہیں بلکہ اللہ کے جتنے اسماء ہیں
ان سارے اسماء کا وسیلہ لگا کر دعا کرنا بہتر و افضل ہے۔
سوال: ماں کی آنکھ کا آپریشن ہوا ہے، اس
میں پانی لگنے سے ڈاکٹر نے منع کیا ہے تو ایسی صورت میں وضو کیسے کرنا ہوگا؟
جواب: وضو میں آنکھوں کے اندر پانی ڈالنے
کی ضرورت نہیں پڑتی ہے بلکہ آنکھوں کے اوپری حصے کو دھونا ہوتا ہے۔ اگر ڈاکٹر نے
اوپری حصے پر بھی پانی لگنے سے منع کیا ہے یہاں تک کہ تر ہاتھ بھی وہاں پر نہیں لگاسکتے تو ایسی صورت
میں وضو کرتے وقت پورے چہرے کو دھو لے اور آنکھ کے برابر جگہ چھوڑ دے اور اگر اس
جگہ تر ہاتھ پھیرنا ممکن ہو تو آنکھوں پر تر ہاتھ پھیر لیا جائے ،وضو کے لئے باقی
اعضائے وضو جس طرح دھلے جاتے ہیں اس طرح دھلے جائیں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔