آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(66)
جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ- سعودی عرب
سوال: میرے لئے حیض کے آنے اور پاک ہونے
کی کوئی متعین عادت نہیں ہے، کبھی چار دن میں پاکی ہو جاتی ہے، کبھی سات دن میں تو
کبھی آٹھ دن میں یعنی حیض کے ایام آگے پیچھے ہوتے رہتے ہیں۔ ابھی پاکی حاصل ہونے
کے بعد چھ دنوں تک کچھ نہیں دیکھا۔ صرف وائٹ ڈسچارج تھا، اس کے بعد تین یا چار دن
براؤن ڈسچارج رہا وہ بھی صرف کھبی کبھار استنجاء کے وقت، اس کے بعد وائٹ ڈسچارج
ہوتا ہے۔ ان میں جو نمازیں اور روزے رکھے ہیں، اس کا کیا حکم ہے صحیح ہیں یا پھر
سے روزں کو دہرا ہوگا؟
جواب:حیض کے صفات کے ساتھ لگاتار جتنے دنوں تک کالا خون
آتا ہے، یہ حیض مانا جائے گا خواہ چار دن یا سات دن یا آٹھ دن تک آئے۔ پھر اس کے
کچھ دن وقفہ کے بعد وائٹ ڈسچارج یا براؤن خارج ہو وہ حیض شمار نہیں ہوگا لہذا جتنے
دنوں تک حیض کے صفات والا مسلسل خون آکر بند ہو جائے اس کے بعد غسل کر کے لگاتار
نماز کی پابندی کرنی ہے اور پہلے وائٹ ڈسچارج یا براؤن ڈسچارج کے دوران جو روزہ
رکھا گیا ہے یا نماز پڑھی گئی ہے وہ اپنی جگہ پر درست ہے۔
سوال: آئی وی ایف ڈپارٹمنٹ میں نوکری
کرنا کیسا ہے؟
جواب:اگر آئی وی ایف سے مراد "ان وٹرو
فرٹلائجیشن" ہے جو بانجھ پن کے علاج سے متعلق ہوتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ
اس سلسلے میں ایک مسلمان کے علم میں یہ بات رہنی چاہیے کہ حصول اولاد کے مختلف قسم
کے جدید طریقے آج کل رائج ہیں۔ ان میں بہت سارے طریقے ناجائز و حرام ہیں اور بعض
طریقے جائز بھی ہیں۔
آئی وی ایف کا ایسا سنٹر جو حرام و حلال کی تمیز کئے
بغیر ہر طرح سے کام کرتا ہے تو ایسے سنٹر پر نوکری کرنا کسی مسلمان کے لیے جائز
نہیں ہے البتہ وہ سنٹر جو صرف حلال طریقے سے افزائشِ نسل کے جدید طریقے کا استعمال
کرتا ہے ایسی جگہ پر نوکری کرنے میں حرج نہیں ہے۔
افزائشِ نسل کے جدید طریقوں سے متعلق حلت و حرمت کا
مسئلہ جاننے کے لئے میرے مضمون "رحم مادر کی پیوندکاری اسلام کی نظر
میں"کا مطالعہ کریں۔
سوال: اگر دوران نماز سر کے بال نظر آئیں
یا دوپٹہ ادھر ادھر ہو اور بال کچھ باہر نکل آئیں تو کیا نماز قبول نہیں ہوگی؟
جواب:سوال یہ نہیں ہونا چاہیے کہ نماز قبول ہوتی ہے یا
نہیں ہوتی ہے بلکہ سوال یہ ہونا چاہیے کہ عورت کا نماز کے اندر پردہ کس طرح ہونا
چاہیے، اس پردے کا علم حاصل کرکے ایک عورت کو اسی طرح نماز ادا کرنا چاہیے۔ اس
مسئلہ کو بڑی وضاحت کے ساتھ میں نے "خواتین کی نماز اور ان کا لباس" میں
واضح کیا ہے۔
نماز کے دوران عورت کو اپنے پورے سر کو چھپاکر نماز ادا
کرنا ہے، سر اس طرح چھپایا جائے کہ سارے بال چھپ جائیں تاہم نماز پڑھتے ہوئے دوپٹہ
ادھر ادھر ہوجائے اور کچھ بال ظاہر ہوجائیں تو اس سے نماز ہوجائے گی۔ نماز پڑھنے
سے پہلے سے عورت ساتر لباس لگائے تاکہ نماز میں لباس نہ سرکے اور بال یا سر نہ ظاہر
ہو۔
سوال: اگر ہم سالگرہ پر صرف اچھا کھانا
کھلا دیں تو کیا یہ ٹھیک ہے؟
جواب:سالگرہ منانا غیرمسلموں کا کام ہے۔ اگر کوئی
مسلمان سالگرہ مناتا ہے تو وہ غیرمسلموں کا کام کرتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ
وسلم نے ہمیں غیرمسلموں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔ سالگرہ منانے کا
مطلب اس دن کسی طرح کا کوئی اہتمام کرنا ہے۔ سالگرہ کی مناسبت سے اس دن اچھا کھانا
بنانا یا اچھا کھانا کھلانا یہ بھی سالگرہ منانے جیسا ہے کیونکہ اس دن اس نسبت سے
کھانا کھایا جارہا رہا ہے لہذا یہ عمل بھی انجام دینا درست نہیں ہے۔
سوال: عورت اگر فجر کی نماز باجماعت اپنے
گھر میں ادا کرتی ہے اور اشراق تک ذکر و اذکار میں مصروف رہ کر پھر اشراق کی نماز
پڑھتی ہے، کیا اس کو حج اور عمرہ کا ثواب ملے گا؟
جواب:اشراق کی نماز جس کے ادا کرنے سے حج و عمرہ کا
ثواب ملتا ہے یہ اس کے لئے ہے جو فجر کی نماز مسجد میں جماعت سے ادا کرے لیکن وہ
عورت جو اکیلے گھر میں نماز پڑھے یا کسی گھر میں چند خواتین جمع ہوکر نماز ادا
کریں ان کے لئے نہیں ہے۔ وہ خاتون جو مسجد کی جماعت میں شریک ہوکر فجر کی نماز
پڑھے اور اسی جگہ مصلی پر بیٹھی رہے یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جائے اس کے بعد دو
رکعت نفل ادا کرے تو اسے حج و عمرہ کے برابر ثواب ملے گا۔
سوال:کیا سنوکر کلب کھولنا جائز ہے، اگر
ہماری نیت خراب نہیں یعنی جوا وغیرہ نہیں کی نیت نہیں ہے۔ بس یہ ہے کہ یہ کاروبار
کھول کر پیسہ کمانا ہے، باقی کھیلنے والے جیسے بھی کھیلیں ان کی مرضی ہے؟
جواب: کسی مسلمان کے لئے سنوکر کلب بناکر اس سے
کمائی کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں شرعی طور پر مختلف قسم کی خامیاں پائی جاتی
ہیں ۔ عام طور پر سنوکرکلب میں لوگ پیسہ لگاکر جوا کھیلتے ہیں جبکہ جوا اسلام میں
حرام ہے۔ کسی مسلمان کے لئے جوا کھیلنا جائز نہیں ہے۔ سنوکرکلب میں ہندو بھی آکر
جوا کھیلے تو اس کا گناہ کلب کھولنے والے پر ہوگا کیونکہ وہی جوا کھیلنے کا سبب بن
رہا ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایسی جگہوں پر موسیقی ، گالی گلوج ، بدزبانی اور
جھگڑالڑائی بھی ہوتی رہتی ہے۔یہ بری قسم کی جگہ کے ساتھ واجبات کی ادائیگی میں
کوتاہی کا سبب ہے۔ سنوکرکلب سے متعلق اہم بات یہ بھی ہے کہ اس میں عموما چار خانوں والے ٹیبل رکھے جاتے ہیں
اور چوسر جیسے کھیل کھیلے جاتے ہیں جو لایعنی ہونے کے ساتھ ممنوع کھیلوں میں سے ہے
یعنی چار خانوں والے ایسے جتنے کھیل ہیں جو لکڑی
یا کاغذ پہ کھیلے جاتے ہیں مثلا شطرنج، لڈو، کیرم بورڈوغیرہ ان سب سے
مسلمانوں کو باز رہنا چاہئے خواہ ان کھیلوں میں پیسہ لگاکر کھیلیں یا بغیر پیسہ
لگائے، دونوں صورت میں اس سے بچیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ کمائی کے واسطے سنوکر کلب
کھولنا کسی مسلمان کے درست نہیں ہے۔
سوال:روزے کی حالت میں کئی مرتبہ ایسا
بھی ہوتا ہے کہ کچھ کاٹتے ہوئے انگلی کٹ جاتی ہے یا کبھی چوٹ لگنے سے خون نکل آتا ہے،
اس کے علاوہ کسی دائمی بیماری کی وجہ ناک سے خون نکل آتا ہے تو ان سب صورتوں میں
روزہ قائم رہتا ہے؟
جواب:ان سب صورتوں میں روزہ اپنی جگہ قائم رہتا ہے
کیونکہ یہ سب معمولی خون ہےاور معمولی خون نکلنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ہے ۔
زیادہ مقدار میں خون نکل جائے تو اسے علماء روزہ ٹوٹنے کا سبب مانتے ہیں، معمولی
خون سے نہیں۔
سوال: میری شادی میں میرے پاس نصاب بھر
سونا نہیں تھا، شادی کے بعد شوال میں میری ساس نے تحفہ میں دو چوڑی دئے جسے ملاکر
زکوۃ کی مقدار پوری ہوگئی پھر میرے شوہر نے ایک چین دئے ۔اس کے بعد اگلے رمضان کو
میں نے اس کی زکوۃ نکالی۔ مسئلہ یہ ہے کہ اب میں اپنے شوہر سے الگ ہونا چاہ رہی
ہوں ان کی کالے کرتوت اور حرام کمائی کی وجہ سے مگر ابھی تک قانونی کاروائی نہیں
ہوئی ہے ، نہ ہی ہم دونوں میں سے کسی نے طلاق یا خلع کا اعلان کیا ہے۔ میرے شوہر
اپنا دیا ہوا چین اور اپنی ماں کا دیا ہوا تحفہ واپس مانگ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں
کہ اگر تم یہ واپس کروگی تب طلاق کے کاغذ پہ دستخط کروں گا مگر میں دینے سے انکار
کررہی ہوں یہ کہہ کر کہ یہ مجھے دیا گیا ہے تو میرا ہے، اسے کسی بھی حال میں واپس
نہیں کروں گی۔ پتہ نہیں یہ میرے پاس رہے گا یا نہیں ایسی صورت میں امسال مجھے اس
کی زکوۃ دینی پڑے گی۔ ابھی تک حالات اور تنگی کی وجہ سے زکوۃ نہیں نکال سکی ہوں۔
اگر وہ دونوں مجھ سے واپس لے لیتے ہیں تو میرے پاس زکوۃ کی مقدار سے کم ہوجائے گا
ایسے میں کیا کرنا چاہئے؟
جواب:جب کوئی آدمی کسی کو تحفہ دیتا ہے تو
وہ تحفہ اس آدمی کی ذاتی ملکیت ہوجاتی ہے۔ اب تحفہ دینے والا کبھی اس سامان کو
واپس طلب نہیں کرسکتا ہے لہذا آپ کو شوہر اور ساس نے جو کچھ تحفہ کی شکل میں دیا
ہے وہ آپ کی ملکیت ہے، اسے شوہر کو واپس لینے کا حق اور اختیار نہیں ہے۔ اگر وہ
جبرا واپس لیتا ہے تو وہ گناہگار ہوگا۔
دوسری بات یہ ہے کہ جب تک آپ کے پاس نصاب بھر سونا ہے
اور سال مکمل ہوجا رہا ہے تب تک آپ کو زکوۃ دینی ہے، جب نصاب سے کم رہے گا تو اس
وقت آپ کے ذمہ زکوۃ نہیں ہے لیکن جب تک آپ اس کے مالک ہیں آپ کے ذمہ زکوۃ دینا ہے۔تنگی
کی وجہ سے زکوۃ دینے میں کچھ تاخیر ہوجائے تو حرج نہیں ہے۔
سوال: سحری کرتے وقت دو تین منٹ اوپر
ہوجائے تو کیا اس میں کوئی مسئلہ ہے، ابھی اذان نہیں ہوئی ہو مگر کھاتے کھاتے وقت
ختم ہوگیا اور دو تین منٹ اوپر ہوگیا تو کیا روزہ ہوجائے گا یا پھر سے رکھنا پڑے
گا؟
جواب:سحری کھانے والے کو یقین اور اعتماد
کے ساتھ وقت پر سحری کھانا چاہیے اور وقت پر سحری بند کر دینا چاہیے۔ اگر کبھی
سحری کھاتے ہوئے بھول کر ایک دو منٹ زیادہ ہو جائے تو اس کا روزہ درست ہے حتی کہ
سحری کھاتے ہوئے اذان ہونے لگے تب بھی جلدی سے اپنی ضرورت پوری کرسکتے ہیں مگر اسے
معمول نہیں بنانا چاہئے ، معمول یہ ہو کہ اذان فجر سے پہلے پہلے سحری کھالی جائے۔
سحری میں اصل وقت کا اعتبار ہوگا، اذان کا اعتبار نہیں ہوگا۔دوسری بات یہ ہے کہ
اگر کوئی فجر کے وقت بیدار ہوتو پوری طرح دیکھ لے کہ سحری کھانے کا وقت ختم ہوگیا
ہے یا باقی ہے ؟ اگر وقت باقی ہے تبھی سحری کھائے اور وقت ختم ہوگیا ہے تب ہرگز
سحری نہ کھائے ورنہ سحری کا وقت ختم ہونے کے بعد عمدا سحری کھانے سے وہ روزہ نہیں
ہوگا یعنی آدمی کو معلوم ہے کہ سحری کا وقت نکل گیا ہے پھربھی سحری کھارہا ہے تواس
کا روزہ نہیں ہوگا۔
سوال:ہمیں اس بات پر یقین ہے کہ اللہ
تعالی ہی حفاظت کرنے والا ہےپھربھی دل کی تسلی اور حفاظت کے لئے گھر کے بچوں پر
آیۃ الکرسی پڑھ کر پھونک دیں تو اس میں کوئی حرج
یا بدعتی عمل تونہیں ہے ؟
جواب:قرآن پڑھ کر یا معوذتین پڑھ کر یا
معوذات پڑھ کر یا آیۃ الکرسی اور سورہ فاتحہ وغیرہ پڑھ کر اپنے اوپر یا اپنے بچوں
پر دم کرسکتے ہیں اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، شرعا اس کی اجازت ہے۔ یہ بدعتی عمل
نہیں ہے بلکہ یہ تو سنت سے ثابت ہے، نیز اپنے ہوشمند بچوں کو بھی اس کی تعلیم دیں
کہ وہ خود سے اپنے اوپر دم کرسکے اور روزانہ سوتے وقت ہر مسلمان کو معوذات پڑھ کر
اور اپنے اوپر دم کرکے سونا چاہیے جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل
مبارک تھا۔
یہاں پر بچوں کے دم کے سلسلے میں ایک خصوصی دعا بھی بتادیتا
ہوں۔ نبی ﷺ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے لئے پناہ طلب کیا کرتے تھے
اور فرماتے تھے کہ تمہارے بزرگ دادا (ابراہیم علیہ السلام) بھی ان کلمات کے ذریعہ
اللہ کی پناہ اسماعیل اور اسحاق علیہ السلام کے لیے مانگا کرتے تھے۔ وہ دعا یہ ہے۔
أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ
شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ۔
ترجمہ:میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے پورے پورے کلمات کے
ذریعہ ہر ایک شیطان سے اور ہر زہریلے جانور سے اور ہر نقصان پہنچانے والی نظر بد
سے۔
اسے امام بخاری (3371) نے روایت کیا ہے۔
اہل علم بیان کرتے ہیں کہ بچوں کو کوئی پریشانی ہو یا
نہ ہو ، ہرحال میں اس کو پڑھ کر اپنے بچوں پر دم کرسکتے ہیں۔
سوال: میری پھوپھی کا چہرہ کچھ دنوں سے کالا پڑتا جا رہا ہے۔ کوئی
عورت گھر آئی تھی اس نے کہا کہ ان پر بہت کڑی نظر ہے۔ پھر پھوپھی کو ایک عالم سے دکھایا گیا جوکہہ رہے ہیں کہ کسی نے پندرہ سال پہلے ان کے چہرے پر کچھ کروایا تھا وہ دھیرے دھیرے اب
اثر کر رہا ہے۔کیا کسی کو چہرہ دیکھ کر نظر کا پتہ چل جاتا ہے اور کیا ہمیں ان پر
یقین کر لینا چاہیے۔پھوپھی اور ان کے گھروالوں نے کسی عالم کو علاج کے لئے
بلایاہے وہ عالم لیمو، مرچی، اگربتی اورپتہ نہیں کن کن چیزوں سے علاج کر رہیں ہیں۔ ہم انہیں روکنے کی
تو طاقت نہیں رکھتے تو کیا دل میں اسے برا جاننا ہمارے لئے کافی ہوگا؟
جواب:انسان کو کسی بھی قسم کی پریشانی لاحق
ہوسکتی ہے، یہ زندگی اور دنیا ابتلا اور آزمائش کی جگہ ہے۔ جسمانی پریشانی اور
تکلیف کے وقت ہمیں جائز اسباب اپنانا چاہیے۔جس خاتون کا چہرہ کالا پڑ رہا ہے اسے
چاہیے کہ ماہر سے ماہر طبیب سے رجوع کرے اور اچھا علاج کرائے کیونکہ نبی صلی اللہ
علیہ وسلم نے ہمیں بیماری کے وقت علاج کرانے کا حکم دیا ہے۔جہاں تک کسی عالم کا یہ
کہنا کہ یہ پندرہ سالہ پرانا کوئی جادو ہے جس کا اثر ہو رہا ہے۔ یہ جھوٹی بات ہے۔
ایسا آدمی دراصل لوگوں سے اس طرح کی باتیں کرکے مال کماتا ہے، ایسے آدمی کے پاس
ہرگز ہرگز نہیں جانا چاہیے اور نہ ہی ان کی باتوں پر یقین کرنا چاہئے۔
ڈاکٹری علاج کے ساتھ رقیہ شرعیہ بھی کرنا چاہیے تاکہ
اللہ تعالی اسے شفایابی عطا فرمائے۔ رقیہ شرعیہ کہتے ہیں قرآن اور مسنون اذکار پڑھ
کر مریض پر دم کرنے کو۔
جو آدمی لیمو، مرچی اور اگربتی وغیرہ سے علاج کرتا ہے،
یہ فراڈیہ ہے، ایسے آدمی سے ہرگز اپنے مریض کا علاج نہ کرایا جائے۔ یہ شرعی طریقہ نہیں
ہے، یہ ہندوانہ اور غیر اسلامی طریقہ ہے۔ غلط کام سے نہیں روک سکتے تو آپ کم ازکم
اپنے رشتہ دار کو صحیح بات بتاتوسکتے ہیں ، یہ آپ کی ذمہ داری ہے، دل میں بھی اس
کام کو براجانیں مگر حق بتانا ذمہ داری ہے ۔
سوال: اکثر لوگ ملازمت کے سلسلے میں بستی
سے دوسوکلو میٹردور رہتے ہیں ۔ہفتہ میں
پانچ دن وہاں رہتے ہیں اور دودن اپنی بستی میں رہتے ہیں تو قصر کہاں کرینگے؟
جواب:جو آدمی دوسو کلومیٹر سفر کر کے
ملازمت کرنے جاتا ہے اور اس جگہ پانچ دن ٹھہرنے کی نیت کرتا ہے تو ایسی صورت میں
وہ وہاں پرمقیم ہے ،ملازمت والی اپنی اس
رہائش پروہ پہلے دن سے ہی مکمل نماز ادا
کرے گا لیکن سفر کرتے ہوئے راستے میں قصر کے ساتھ نماز ادا کرے گا اور اسی طرح وہ
اپنے آبائی گھر پر بھی مکمل نماز ادا کرے گا۔
سوال:ایک خاتون اور اس کے شوہر کے درمیان تقریباً تین سال سے آپس میں کوئی
بات چیت اور تعلقات نہیں ہیں ، ایسے میں ان کے رشتے کا کیا حکم ہے، کیا انکے درمیان نکاح ختم
ہو چکا ہےاور اگر نہیں ختم ہوا ہے تو وہ خاتون کہہ رہی ہے کہ ہم ایسے ہی زندگی گزارنا
چاہتے ہیں، نہ تو نکاح ختم کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر
کرنا چاہتے ہیں، کیا یہ جائز ہے؟
جواب:اگر میاں بیوی الگ الگ تین سال سے
رہتے ہوں اور آپس میں کوئی بات چیت یا تعلق نہیں ہو تو اس سے نکاح ختم نہیں ہوتا
ہے۔ نکاح اب بھی باقی ہے اور وہ دونوں میاں بیوی ہیں۔ اس طرح نکاح میں رہتے ہوئے
ایک دوسرے کا الگ الگ رہنا اور ایک دوسرے کے حقوق کو ادا نہیں کرنا گناہ کا باعث
ہے۔ اگر مرد میں کوتاہی ہے تو بیوی کو طلاق یا خلع لے کر اس مرد سے الگ ہوجانا
چاہیے لیکن نکاح میں رہتے ہوئے یونہی زندگی گزارنے سے اپنے سر پر حقوق العباد کا
گناہ آتا رہے گا۔ ایک بیوی کی حیثیت سے اس کے اوپر خاوند کے حقوق عائد ہوتے ہیں،
ان حقوق کی ادائیگی نہ کرنے سے آخرت میں اس کی پکڑ ہوگی۔ اسے اس بات کی فکر نہیں
کرنی ہے کہ شوہر بھی ہمارا حق ادا نہیں کرتا ہے، وہ بھی اللہ کے یہاں پکڑا جائے گا
لیکن عورت کو اپنے حقوق کی ادائیگی کی فکر کرنی ہے اور اپنا معاملہ درست کر لینا ہے۔
سوال:کیا درود ابراہیمی میں لفظ سیدنا کا
اضافہ جائز ہے جیسے "اللهم صل على سيدنا
محمد وعلى آل محمد"۔کئی لوگوں کو سیدنا لفظ کے اضافہ کے ساتھ پڑھتے سنا ہے؟
جواب:نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول درود
کے صیغوں میں کہیں پر سید کا لفظ نہیں آیا ہے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ افضل
درود، درود ابراہیمی ہے جس کا ہمیں التزام کرنا چاہیے۔اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی
معلوم ہونا چاہیے کہ ہم اپنی زبان میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام
بھیج سکتے ہیں، کسی بھی لفظ کے ذریعہ۔ اسی طرح عربی میں بھی یا دنیا کی کسی زبان میں
بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیج سکتے ہیں۔ اس تناظر میں آپ سید کا
لفظ بھی استعمال کر سکتے ہیں اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
درود کے جو الفاظ آپ نے لکھے ہیں وہ بھی پڑھ سکتے ہیں
لیکن اس جملہ کو سنت سمجھ کر نہیں پڑھنا ہے، نہ ہی اس کو خصوصیت کے ساتھ پڑھنے کا
التزام کرنا ہے، نہ اس کے پڑھنے سے کوئی خاص اجر و ثواب کا عقیدہ رکھنا ہے، فقط
درود بھیجنے کی حیثیت سے کبھی کبھار پڑھنا ہے جبکہ ہمیں درود ابراہیمی کا التزام
کرنا چاہیے یا درود کے وہ الفاظ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائے ہیں۔
سوال:اگر کوئی شخص کسی ملک کی شہریت حاصل
کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے لے بہت زیادہ پیسہ لگتاتو کیا وہ شہریت حاصل کرنے کے لیے
سود کے پیسہ استعمال کرسکتا ہے۔ اس میں مسئلہ یہ ہے کہ قانونی اعتبار سے شہریت
لینے میں زیادہ پیسہ نہیں لگتالیکن اندر کام کرنے والوں کو بہت زیادہ رقم دینے سے
کام ہوجاتا ہے ورنہ ریجکٹ ہوجاتا ہے؟
جواب:اسلام میں رشوت دینا اور لینا دونوں
ملعون کام ہے چنانچہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:
لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ الرَّاشِي وَالْمُرْتَشِي(ابوداؤد:3580)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے، اور
رشوت لینے والے دونوں پر لعنت کی ہے۔
اس حدیث کی روشنی میں کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے
کہ وہ زیادہ پیسہ دے کر شہریت حاصل کرے کیونکہ یہ پیسہ دینا رشوت ہے اور رشوت دینے
والے اور لینے والے پر لعنت بھیجی گئی ہے۔جس کسی کو شہریت لینی ہو اس ملک کے نظام
کے تحت شہریت حاصل کرے خواہ اسے اس میں پریشانی جھیلنی پڑے یا اس میں تاخیر ہو۔
دوسری بات یہ ہے کہ اپنے کسی ذاتی فائدے کے لیے آدمی
سود کا پیسہ استعمال نہیں کرے گا، سود حرام ہے اسے مشترکہ سماجی کام میں لگانا
چاہیے جیسے سڑک، کنواں، نہر اور نالہ وغیرہ۔
سوال: گاؤں میں لوگ گوبر سکھاکر اس سے
کھانا بناتے ہیں چولہا میں ڈال کر ، کیا یہ ہاتھ میں لگ جانے سے ہاتھ ناپاک ہوجاتا
ہے ۔ روٹی پکاتے ہوئے کبھی اس کو صحیح کرنا پڑتا ہے تاکہ تیز آنچ آئے پھر یہی ہاتھ
روٹی پکانے میں استعمال ہوتا ہے، کیا یہ سوکھے ہوئے گوہر ہاتھ یا کپڑے کو لگ جائے
تو ناپاک ہوجاتا ہے؟
جواب:اسلام نے جن جانوروں کو کھانے کا حکم
دیا ہے ان جانوروں کا پیشاب اور پاخانہ پاک ہے یعنی حلال جانوروں کا پیشاب اور
پاخانہ ہاتھ میں یا جسم پر لگ جائے تو اس سے آدمی ناپاک نہیں ہوتا ہے کیونکہ ماکول
اللحم جانور کا پیشاب اور پاخانہ پاک ہوتا ہے۔ اگر گائے، بیل، بھینس وغیرہ کا گوبر
ناپاک ہوتا تو ایسی چیز سے کھانا بنانا بھی جائز نہیں ہوتا اور گھر کی لپائی
پوتائی بھی جائز نہیں ہوتی مگر گوبر حکما پاک ہے اس سے گھر کی لپائی پوتائی کرنے
یا بطور ایندھن استعمال کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
یہاں پر ایک مسئلہ یہ بھی سمجھ لیں کہ گوبر اور ہڈی
جنوں کی خوارک ہے اور نبی ﷺ نے ان دونوں سے استنجا سے منع فرمایا ہے نیز ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کے لئے
ایک مرتبہ گوبر لایا گیا تو آپ نے اسے پھینک دیا اور فرمایایہ رکس ہے، ابن خزیمہ
کی روایت میں رجس بھی آیا ہےجس کا ترجمہ ناپاک ہونے کے کیا جاتا ہے یعنی اس حدیث
سے معلوم ہوتا ہے کہ گوبر ناپاک ہے۔ جب اسے ناپاک مانا جائے تو اس سے کام لینا
جائز نہیں ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں پر رکس یا رجس کے کئی مفہوم بیان کئے جاتے
ہیں۔ ایک مفہوم یہ ہے کہ آپ کے پاس گدھے کی لید لائی گئی تھی ۔دوسرا مفہوم یہ ہے کہ نبی ﷺ نے گوبراس لئے
پھینکا کیونکہ یہ جنوں کا کھانا ہے اسی کو رکس کہاگیا ہے یعنی رکس کا مطلب ناپاکی
نہیں بلکہ یہاں جنوں کا کھانا مراد ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ ماکول اللحم جانور کا پیشاب
وپاخانہ پاک ہے اور گوبر کو بطور ایندھن استعمال کرسکتے ہیں اور اس کے چھونے سے
ہاتھ وجسم ناپاک نہیں ہوتا کیونکہ گوبر پاک ہے۔
سوال: اگر کوئی لڑکا اور لڑکی پورا نکاح
پڑھ کر اور کلمہ پڑھ کر ایک دوسرے کو قبول کرے تو کیا اس سے نکاح ہوجاتا ہے؟
جواب:نکاح کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ لڑکا کسی
لڑکی سے شادی کے لئے اس کے ولی سے بات کرے گا اور ولی کی رضامندی کے ساتھ عقد
نکاح، منعقد کیا جائے گا جس میں ولی ہوگا، لڑکا ہوگا اور دو گواہ ہوں گے اور اگر
چاہیں تو ایک نکاح خواں یا قاضی کو رکھ لیا جائے اور اس میں لڑکے سے ایجاب و قبول
ہوگا۔ نکاح میں لڑکی کی ضرورت نہیں ہے، اس کی طرف سے وہ ولی رہے گا۔ نکاح کا یہی طریقہ
ہے، اس کے برخلاف کوئی لڑکا لڑکی دونوں جمع ہوکر ایک دوسرے کو قبول کرے اس سے نکاح
نہیں ہوگا، نہ ہی خطبہ نکاح پڑھنے سے نکاح ہوگا۔ نکاح کا جو طریقہ بتایا گیا ہے اس
طرح سے نکاح ہوگا۔نکاح میں کلمہ پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اور نہ ہی نکاح کی
جگہ لڑکی کی ضرورت ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ عام طورپر جو لڑکا اور لڑکی حرام
تعلق میں رہتے ہیں یعنی عشق ومحبت کرتے ہیں ہندؤں کی دیکھادیکھی ایک دوسرے کو قبول
کرتے ہیں ۔یہ نکاح نہیں ہے، اگر کوئی اس طرح عمل کرکے لڑکا اور لڑکی ایک ساتھ
زندگی گزارنے لگے تو یہ رشتہ حرام ہوگا اور وہ دونوں زناکار کہلائیں گے اور ان سے
پیداہونے والے بچے بھی ولدالزنا کہلائیں گے ۔ پھر اللہ کے یہاں ان حرام کاریوں کا
سخت حساب دینا پڑے گا ۔ اس طرح دنیا اور آخرت دونوں برباد ہوگی ۔ اس لئے نوجوانوں
کو اس قسم کی حرام کاریوں سے بچنا چاہئے اور نکاح کے لئے شرعی طریقہ اختیار کرنا
چاہئے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔