Monday, April 28, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(65)

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(65)

جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ- سعودی عرب

سوال: کیا ہم اپنی بچی کا نام امۃ الودود رکھ سکتے ہیں؟
جواب:الودود اللہ کے اسمائے حسنی میں سے ہے اس لئے أمة کے اضافت کے ساتھ لڑکی کا نام أمة الودود رکھنے میں حرج نہیں ہے جیسے لڑکے کا نام عبد الودود رکھنے میں حرج نہیں ہے۔
سوال: کیا ہم دوائی کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھ سکتے ہیں؟
جواب:کھانے پینے کی تمام چیزوں سے پہلے بسم اللہ کہنا چاہیے، یہ مسنون ہے۔ دوا کھانے سے پہلے بھی بسم اللہ پڑھنا چاہیے، پھر دوا کھانا چاہیے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو "بسم اللہ" کہے اور اگر شروع میں کہنا بھول جائے تو پھر کہے:بِسْمِ اللَّه فِي أَوَّله وَآخِره(میں اللہ کا نام لیتا ہوں ابتدا اور انتہا میں)۔ (سنن الترمذی:1781، صححہ البانی)
سوال: ایک شخص کی وفات کے بعد اس کا مال اور گھر وغیرہ وراثت میں تقسیم کیا جاتا ہے ، سوال یہ ہے کہ کیا گھریلو سامان بھی ترکہ ہے جیسے فریج ، بیڈ ، صوفہ، برتن وغیرہ، کیا ان کو بھی تقسیم کرنا ہوگا اور اگر کرنا ہے تو اس کا کیا طریقہ ہے؟
جواب:میت جو کچھ بھی اپنے پیچھے چھوڑتا ہے وہ سب ترکہ میں شامل ہے خواہ زمین ہو، گھر ہو، نقد رقم ہو یا کپڑے اور استعمال کے سامان  ہوں جیسے فریج، صوفہ، برتن وغیرہ یہ ساری کی ساری چیزیں ترکہ میں شامل ہیں۔
ان ساری چیزوں کو تمام وارثین وراثت کے نظام کے تحت تقسیم کریں گے البتہ ان میں سے بعض معمولی چیزوں کو وارثوں کے مشورے سے صدقہ کر دیا جائے مثلا کپڑے یا کچھ سامان وغیرہ تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے تاہم میت کی ساری چیزیں ترکہ ہیں۔ اللہ تعالی نے سورہ نساء میں تفصیل سے ترکہ کے احکام بیان کئے ہیں ، تفسیر میں تفصیل دیکھیں۔
جیسے جائیداد کا بٹوارہ ہوگا اسی طرح دیگر ساری چیزوں اور سامانوں کا بھی بٹوارہ ہوگا البتہ ترکہ کے جس سامان کو تقسیم کرنے میں دشواری ہو تو تقسیم کرنے کا جو بھی مناسب طریقہ ہوگا، اسے اپنایا جا سکتا ہے جیسے اس چیز کو بیچ کر اس کی قیمت تقسیم کر دی جائے یا کوئی کچھ سامان لے لے اور کوئی کچھ سامان لے لے یعنی سامان کی تقسیم میں وارثوں کی آپسی رضامندی سے جو بھی طریقہ اپنایا جائے اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
سوال: بیوہ عورت کی عدت کب سے شروع ہوتی ہے خاوند کے فوت ہونے کے فورا بعد یا پھر تدفین کے بعد۔ اصل میں ایک خاتون کے شوہر کا مدینہ میں انتقال ہوگیا ہے اور وہ خاتون ابھی مدینہ میں ایک ہوٹل میں رہائش پذیر ہے۔ ابھی خاوند کی تدفین میں پیپر ورک ہورہا ہے اور خاوند کو فوت ہوئے تیسرا دن ہے؟
جواب:عدت کا معاملہ دفن کرنے سے نہیں ہے بلکہ وفات پانے سے ہے لہذا جیسے ہی بیوی کو اپنے شوہر کی وفات کی خبر ملے، عدت شروع کر دینا چاہیے۔ شوہر کو وفات پائے تین دن ہوگیا ہے تو عدت کے بھی تین دن گزر گئے ہیں کیونکہ وفات سے عدت شروع ہوگئی ہے۔
سوال: عید کی نماز میں دعائے ثناء سات تکبیرات سے پہلے پڑھنا ہے یا بعد میں ،آپ کی تحریر میں ہے کہ سات تکبیرات سے پہلے پڑھنا ہے جبکہ ایک دوسرے سلفی عالم کے جواب میں ہے کہ سات تکبیرات کے بعد دعائے ثناء پڑھنا ہے؟
جواب:اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ عیدین کی نماز میں دعائے استفتاح تکبیرات زوائد کے بعد پڑھی جائے گی یا تکبیر تحریمہ کے بعد اور اس میں صحیح بات یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد ہی دعائے استفتاح پڑھی جائے گی کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عام طور سے تکبیر تحریمہ کے بعد سکتہ کرتے اور اس میں دعائے استفتاح پڑھتے۔ اسی وجہ سے فرض یا سنت یا نفل تمام نمازوں میں تکبیر تحریمہ کے فورا بعد دعائے استفتاح پڑھی جاتی ہے لہذا نماز عید میں بھی تکبیر تحریمہ کے فورا بعد دعائے استفتاء پڑھی جائے گی پھر تکبیرات زوائد کہے جائیں گے اور تکبیرات زوائد کے بعد سورہ فاتحہ اور قرات ہے چنانچہ اس سلسلے میں ایک حدیث ملتی ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" التَّكْبِيرُ فِي الْفِطْرِ سَبْعٌ فِي الْأُولَى، وَخَمْسٌ فِي الْآخِرَةِ، وَالْقِرَاءَةُ بَعْدَهُمَا كِلْتَيْهِمَا".(ابوداؤد:1151، حسنہ البانی)
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عید الفطر کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں ہیں، اور دونوں میں قرأت تکبیر (زوائد) کے بعد ہے۔
اس حدیث سے متعین طور پر معلوم ہوتا ہے کہ تکبیرات زوائد کے بعد قرات کی جائے گی ، یہیں سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ تکبیرات زوائد کے بعد دعائے استفتاح نہیں بلکہ قرات ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ نماز عید میں دعائے استفتاح کب پڑھی جائے گی تو شیخ نے جواب دیا کہ تکبیر تحریمہ کے بعد دعائے استفتاح پڑھی جائے گی یہی بات اہل علم نے کہی ہے تاہم اس معاملے میں وسعت ہے اس وجہ سے اگر کوئی تکبیرات زوائد کے بعد بھی دعائے استفتاح پڑھے تو کوئی حرج نہیں ہے۔(مجموع فتاوى و رسائل الشيخ محمد صالح العثيمين - المجلد السادس عشر - كتاب صلاة العيدين)
سوال: ایک خاتون جس کے شوہر کا مدینہ میں انتقال ہوا ہے کیا وہ اپنے شوہر کی نماز جنازہ میں شریک ہونے کے لئے مسجد نبوی جاسکتی ہے۔ وہ عمرہ کی غرض سے آئی تھی اور ابھی ہوٹل میں قیام پذیر ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ پاکستان واپس آئے گی تو عدت کہاں گزارے گی سسرال یا میکے۔ واضح رہے کہ اس کے خاوند سعودیہ میں نوکری کرتے تھے اور خاتون بھی اس کے ساتھ ہی رہتی تھی؟
جواب:شیخ صالح فوزان حفظہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا شوہر کے جنازے میں شرکت کرنے کے لیے عورت مسجد جاسکتی ہے تو شیخ نے جواب دیا کہ "ہاں جا سکتی ہے اس میں حرج نہیں ہے"۔
جہاں تک عدت گزارنے کا مسئلہ ہے۔ چونکہ وہ شوہر کے ساتھ سعودی عرب میں رہتی تھی لہذا اگر یہیں پر رکنے کی گنجائش ہو تو یہیں پر رہ کر عدت گزار لے اور اگر یہاں سے مجبورا پاکستان جانا پڑے تو سسرال یا میکے جس جگہ اس کے لیے ٹھہرنا مناسب ہو وہاں عدت گزار سکتی ہے۔
سوال: قصر نماز میں سنت مؤکدہ بھی پڑھنا ہے؟
جواب:اللہ تعالی نے مسافر کو نماز میں رخصت دی ہے لہذا سفر میں ہوتے ہوئے مسافر اپنی نماز کو قصر کے ساتھ ادا کرے گا اور جب قصر کرے گا تو سنت مؤکدہ نہیں پڑھنی ہے البتہ فجر کی سنت اور وتر کی نماز پڑھنا ہے۔ نبی ﷺ سفر و حضر ہمیشہ فجر کی سنت اور وتر پڑھا کرتے تھے۔
سوال: نابالغ بچوں کو جو عیدی کے پیسے سب رشتہ دار وغیرہ دیتے ہیں، کیا یہ ان کی ہی امانت ہوتی ہے۔کیا والدین اس میں سے خرچ نہیں کرسکتے۔کسی نے ایک دو علماء کی ویڈیو اس مسئلہ کی بھیجی ہے، ان میں وہ کہتے ہیں کہ نابالغ بچوں کی عیدی صرف بچوں کی ہوتی ہے، انہی پر ہی خرچ کریں گے؟
جواب:چھوٹے بچوں کےعیدی  پیسے اصل تو انہیں کے ہیں اس لئے ان کی ضرورتوں پر یا ان کی مرضی سے مناسب چیز پر خرچ کیا جائے تاہم ذمہ دار اپنی ضرورت کے لیے بھی خرچ کرسکتا ہے اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹے کے کمائے ہوئے مال سے متعلق فرمایا ہے کہ تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔ جب بیٹے کا کمایا ہوا مال باپ کا ہے تو پھر بچوں کا ہدیہ و تحفہ باپ کا کیسے نہیں ہوگا۔ کچھ لوگ غیر اہم باتوں کو زیادہ وقعت دیتے ہیں جبکہ یہ موضوع ایسا نہیں ہے۔
سوال: اگربیٹا بیٹی کی شادی کے لئے زیور خرید کر رکھے گئے ہیں تو کیا اس کی زکوۃ نکالنی ہوگی؟
جواب:زیور کسی کے پاس ہو بچہ ہو، جوان ہو، بوڑھی ہو، اگر وہ نصاب تک پہنچے تو سال مکمل ہونے پر اس کی زکوۃ دینی ہے چاہے وہ شادی کے لیے ہو یا پہننے کے لیے ہو یا رکھنے کے لیے ہو یا پیسہ محفوظ کرنے کے لئے ہو۔ کسی بھی مقصد سے زیورات رکھے گئے ہوں۔ اگر وہ نصاب بھر ہے اور اس پر سال پورا ہو رہا ہے تو اس کی زکوۃ دینی ہے۔
سوال: کیا ویزا کا کاروبار کرنا جائز ہے، اگر کاروبار اس طرح کریں کہ جو غریب لوگ پوری رقم نہ دے سکیں، کچھ رقم لے کر بھی انہیں ویزا دے دیا جائے یعنی غریب لوگوں کی مدد کی جائے۔ نیز اگر یہ کام جائز نہیں ہے تو اگر لوگ اس رقم کی زکوٰۃ ادا کر دیں تو کیا یہ مال پاک ہو جائے گا؟
جواب:حکومت کی اجازت اور لائسنس کے ساتھ ویزا آفس کھولنے اور ویزا کا کاروبار کرنے میں حرج نہیں ہے کیونکہ ویزا کی کاروائی کے لیے ہر حال میں آفس کی ضرورت ہوتی ہے اس وجہ سے اس قسم کی آفس کھولنے میں حرج نہیں ہے۔
بہت سے لوگ بغیر لائسنس کے صرف ویزا کی خرید و فروخت کرتے ہیں یعنی کم پیسوں میں یا فری میں ویزا حاصل کرتے ہیں اور آگے زیادہ پیسے پر فروخت کرتے ہیں اس طرح کا کاروبار غیر نظامی ہے اور یہ جائز نہیں ہے۔
آفس کے ذریعہ بھی ویزا کی خرید و فروخت میں لوگ حرام کمائی کرتے ہیں بلکہ متعدد طرح سے مزدوروں کو ویزا کے نام پر دھوکہ اور فریب دیتے ہیں۔ ایک آدمی امانت داری سے ویزہ کے معاملے میں نظامی طور پر صحیح کام کرے تو اس میں حرج نہیں ہے۔
اس میں غریب کا مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی زکوۃ دینے سے حرام مال پاک ہو جائے گا۔ جو پیسہ حلال طریقے سے کمایا جائے وہی حلال ہوگا۔
سوال: میرے شوہر کینیڈا کی کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔ انہوں نے 2020 سے یہ ملازمت شروع کی۔ اس سے پہلے کہیں اور یہ ملازمت نہیں کئے تھے۔بغیر کام کے بھی میرے شوہر کو بہت تجربہ تھا۔ 2020 سے پہلے بہت کوشش کے باوجود جب کہیں بھی ملازمت نہیں مل رہی تھی تو وہ سات سال تجربہ کی سرٹیفیکٹ کسی دوسری کمپنی سے کچھ پیسے دے کر حاصل کئے۔ اس سرٹیفیکٹ کے ذریعہ ان کو ملازمت مل گئی اور پانچ سال سے یہ ملازمت کر رہے ہیں۔ وہ کمپنی میں ایسے لوگوں سے انٹرویو لیتے ہیں جو دوسری کمپنیوں میں بیس سال سے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اب میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ جو سات سالہ تجربہ والی سرٹیفیکٹ پیسے سے لے کر نوکری حاصل کیا ، کیا وہ غلط تھا۔اب میرے شوہر یہ ملازمت چھوڑ کر کہیں اور ملازمت کرنا چاہتے ہیں تو کیا وہ بارہ سال تجربہ کی سرٹیفیکٹ دے کر نئی ملازمت کرسکتے ہیں یا صرف پانچ سال تجربہ کی سرٹیفیکٹ دے کر نئی ملازمت کرسکتے ہیں؟
جواب:آپ کے شوہر نے پیسہ دے کر جو سات سالہ تجربہ والی سرٹیفیکیٹ خریدا ہے، یہ جھوٹی سرٹیفیکیٹ ہے اور اس بنیاد پر نوکری کرنا جائز نہیں ہے حتیٰ کہ اس کی کمائی بھی حلال نہیں ہے لہذا ایسی نوکری کو چھوڑ دے اور جہاں پر وہ کام کر رہے ہیں اور جتنے سال سے کام کر رہے ہیں اس سے اپنے حقیقی کام کی سرٹیفیکٹ حاصل کرے اور جہاں بھی نوکری کے لئے سرٹیفیکیٹ دے تو اصلی سرٹیفیکیٹ پیش کرے تاکہ آمدنی حلال ہو۔ چونکہ بارہ سال کا تجربہ  حاصل نہیں ہے اس لئے بارہ سال تجربہ والی سرٹیفیکیٹ پیش کرنا جھوٹ اور فریب ہوگا، نئے کام کے لئے صرف پانچ سال کے کام کی سرٹیفیکیٹ پیش کرنی ہوگی۔
سوال: کیا فوت شدہ رشتے دار جیسے دادا دادی، نانا نانی، خالہ خالو جن کی اولاد نہیں تھی، کیا ان کی طرف سے مالی صدقہ کیا جاسکتا ہے؟
جواب: مالی صدقہ کا باب بہت وسیع ہے، آپ دور و نزدیک کسی بھی رشتہ دار کی طرف سے مالی صدقہ کرسکتے ہیں جو دنیا سے وفات پاچکے ہیں۔ اپنے دادا، دادی، نانا، نانی، خالہ، خالو ہر کسی کی طرف سے مالی صدقہ کرسکتے ہیں۔
سوال: اللہ کے نام کے آگے محمد لگاسکتے ہیں جیسے بچے کا نام عبدالعزیز ہو تو اس سے پہلے محمد لگاکر محمد عبدالعزیز لکھ سکتے ہیں، بعض لوگ اس سے منع کررہے ہیں؟
جواب:اللہ کے نام کے آگے محمد نہیں لگا سکتے ہیں لیکن کسی کا نام عبدالعزیز ہو تو اس نام کے آگے محمد لگا سکتے ہیں یعنی محمد عبدالعزیز لکھ سکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ عبدالعزیز، اللہ کا نام نہیں ہے، عبدالعزیز بندے کا نام ہے۔ العزیز اللہ کا نام ہے۔
سوال: انڈیا میں عید کے موقع پر غیرمسلم سیاسی لیڈرس اور دوست وغیرہ عید کی نماز میں شریک ہوتے ہیں اور دیکھا دیکھی نماز ادا کرتے ہیں تو نماز میں انہیں اپنی صفوں کے درمیان کھڑا کرنا کیسا ہے؟
جواب:غیر مسلم مسجد میں داخل ہوسکتا ہے اور مسجد میں بیٹھ بھی سکتا ہے حتی کہ وہ نماز کے وقت میں مسلمانوں کو نماز پڑھتے ہوئے وہاں ٹھہر کر دیکھ بھی سکتا ہے، اس میں حرج نہیں ہے لیکن غیر مسلم ہوتے ہوئے مسلمانوں کی صف میں داخل ہوکر وہ نماز ادا نہیں کرسکتا ہے کیونکہ نماز کے لیے مسلمان ہونا شرط ہے، پاک و صاف ہونا اور باوضو ہونا بھی شرط ہے۔
مسلمانوں سے میری نصیحت ہے کہ سیاست کو سیاست والی جگہ پر رکھنا چاہیے، سیاست کو مسجد میں اور عبادت میں داخل نہیں کرنا چاہیے۔
سوال: آج سے تقریبا بائیس سال پہلے میرے والد کو کاروبار میں نقصان ہوا جس کی وجہ سے ان پر تقریبا آٹھ کروڑ کا قرضہ چڑھ گیا۔ چند سال اپنے گھر اور بچوں کو سنبھالنے میں لگے۔ جیسے ہی بیٹے کمانے کے قابل ہوئے گھر کی کفالت کی ذمہ داری ان پر آگئی اور والد صاحب جتنا کماتے اس کو اپنے قرض میں دے دیتے۔ وہ تقریبا آدھے سے زیادہ قرض ختم کر چکے ہیں۔ اب ان کی عمر بڑھ چکی ہے اور بیمار بھی رہتے ہیں۔ ان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش اپنی زندگی میں اپنا قرضہ ختم کرنے کی ہے۔ ہم آٹھ بہن بھائی ہیں۔ میرے بھائی ماشاءاللہ اچھا کماتے ہیں۔ والدین اور گھر کی ہر طرح کی کفالت یعنی والدین کی دوائی ، ان کی ضروریات اور خواہشات سب بھائی پورا کرتے ہیں۔ وہ والد صاحب کو ہدیتا اپنی استطاعت کے مطابق پیسے بھی دیتے ہیں کہ اپنے قرض میں دے سکیں لیکن اپنی ذمہ داریوں کی وجہ سے مکمل قرضہ نہیں چکا سکتے۔ ہم بہنوں کے پاس زیور ہے جس کی ہر سال زکوۃ نکالتے ہیں اور ہماری بھابھیوں کے پاس بھی زیور ہے جس کی زکوۃ میرے بھائی نکالتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنی زکوۃ کی رقم اپنے والد صاحب کو دے سکتے ہیں کہ وہ اسے اپنے قرض کی مد میں دے دیں۔ کیا یہ جائز ہے۔ میرے والد کا کوئی اثاثہ اور جائیداد نہیں اور وہ گھر کے کفیل بھی نہیں؟
جواب:اس میں پہلا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اس طرح کا مقروض ہوجائے کہ وہ خود سے قرض کی ادائیگی کی طاقت نہ رکھے یا اسے مکمل قرض ادا کرنے کی سکت نہ ہو، نہ ہی ایسی کوئی چیز ہو جسے بیچ کر یا قرض میں دے کر قرض اتارا جا سکتا ہو ایسی صورت میں وہ شخص اتنی زکوۃ کا مستحق ہے جس سے وہ اپنے قرض سے نجات پاسکے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اولاد اپنے باپ کو زکوۃ نہیں دے سکتی ہے اس لئے اولاد کو اپنے اصل مال سے باپ کی مدد کرنی چاہیے۔ جب مقروض کو آٹھ اولاد ہو اور سبھی اپنے مال کی زکوۃ نکالنے والے ہوں گویا یہ سب لوگ مالدار ہیں، انہیں اپنی مالداری میں سے باپ کو تعاون کرنا چاہیے۔ بیٹیوں کے پاس پیسے نہ ہوں تو اپنے کچھ زیورات بیچ دے اور بیٹا اچھی حیثیت والا ہے اور پھر شرعی طور پر بیٹے کا مال باپ کا ہوتا ہے ایسے میں مقروض باب خود سے اپنی اولاد کے مال سے ضرورت بھر لے سکتا ہے۔
اس میں آخری نقطہ یہ ہے کہ اگر اولاد کے پاس باپ کو اصل مال سے دینے کے لیے رقم نہ ہو تو مجبوری میں قرض ادا کرنے کے لئے زکوۃ بھی دے سکتی ہے۔
سوال: کیا لڑکی شادی کے بعد اپنے ماں باپ کے گھر چار یا پانچ دن کے لئے ہی رہے گی کیونکہ بیٹی کے سسرال والے اس سے زیادہ نہیں بھیجتے اور ماں باپ سے بات کرنے پر بھی پابندی لگائی ہے حتی کہ کسی رشتہ دار سے بھی بات نہیں کرسکتی ہے اور کسی کے پاس آنے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ کیا اسلام میں اس طرح کا قانوں بیٹیوں کے لئے ہے ، کیا شادی کے بعد ماں باپ سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے، اس بارے میں آگاہ کریں؟
جواب:جب ضرورت ہو بیٹی اپنے باپ کے یہاں شوہر کی اجازت سے آسکتی ہے اور جتنے دن مرضی ہو میکے میں رہ سکتی ہے، اس میں چار پانچ دن کی کوئی قید نہیں ہے اور نہ ہی شریعت میں ایسی کوئی قید والی تعلیم دی گئی ہے۔
یہ سارا کا سارا ڈرامہ جوائنٹ فیملی سسٹم کا ہے۔ یہ سسٹم دراصل ہندوانہ ماحول کا نتیجہ ہے، اسلام میں اس طرح کا سسٹم نہیں ہے کہ کئی فیملی والے مل جل کر ایک ساتھ رہیں۔
اگر آپ اپنے گھریلو معاملات درست کرنا چاہتے ہیں تو جوائنٹ فیملی سسٹم سے باہر آئیں اور اپنے شوہر کے ساتھ الگ زندگی گزاریں پھر جوائنٹ فیملی سسٹم کا ڈرامہ اور چار پانچ دن کی قید، اور رشتہ داروں سے ملنے جلنے اور ان سے بات کرنے کی پابندی سب ختم ہو جائے گی۔ اس کا یہی ایک بہتر علاج ہے، ورنہ جوائنٹ فیملی سسٹم کی چکی میں پستے رہیں گے۔  جہاں کہیں شدید مجبوری ہو ، فتنے اور بڑے نقصان کا اندیشہ ہو وہاں مجبوری میں مشترکہ فیملی میں رہیں اور تکلیف پر صبر کریں۔ اس سسٹم کے ذمہ داروں کو امانتداری اور انصاف کے ساتھ گھر چلانا چاہئے کیونکہ یہ حقوق العباد کا معاملہ ہے۔ جو اس معاملے میں کسی پر ظلم کرے گا ، آخرت میں اس کا نقصان اٹھائے گا۔
سوال: کیا لڑکی اپنے نکاح کے وقت شرط رکھ سکتی ہے جیسے کہ شوہر دوسری شادی نہ کرے یا اسے تعلیم مکمل کرنے کی اجازت دی جائے گی؟
جواب:لڑکی نکاح کے وقت شوہر کے سامنے جائز شرط رکھ سکتی ہے لیکن جو ناجائز ہو اسے شرط کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اگر لڑکی تعلیم حاصل کر رہی تھی اور شادی کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے شرط رکھتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن دوسری شادی سے منع کرنے کی شرط ناجائز ہے کیونکہ اللہ تعالی نے ایک مرد کو چار شادی کرنے کی اجازت دی ہے۔ کسی عورت کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے شوہر کو دوسری شادی سے منع کرے یا نکاح میں ایسی شرط لگائے۔
سوال: ایک خاتون کا انتقال ہوا ہے جس کی طلاق ہو چکی تھی اور اسے کوئی اولاد نہیں ہے۔ وارث میں تین بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ اس نے کچھ گھریلو سامان اور زیورات چھوڑے ہیں۔ وراثت کیسے تقسیم ہوگی؟
جواب:سامان اور زیورات کو بیچ کر اس کی جو قیمت ہوگی، اس قیمت کو میت کے بہن بھائیوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ بھائی کو دہرا اور بہن کو اکہرا حصہ ملے گا یعنی بھائی کو دو روپیہ تو بہن کو ایک روپیہ حصہ ملے گا۔ اس طرح قیمت تقسیم کی جائے۔
سوال: Goswamy Palastri Plus Lepam نام سے ایک گوسوامی آیورویدک واٹر پروف پٹی ہے جو درد میں آرام کے لئے لگائی جاتی ہے۔ یہ لگانے کے بعد درد کی کمی کے ساتھ دس یا پندرہ دن میں خود سے نکلتی ہے۔ کیا اس پٹی کو لگانے کے بعد غسل جنابت اور غسل حیض ہو جائے گا۔ پٹی کی جگہ پانی نہیں پہنچے گا تو ایسی صورت میں اس پٹی پر ہاتھ پھیرنا ہوگا یا پھر اس کا طریقہ کیا ہوگا؟
جواب:اس میں پہلی بات یہ ہے کہ یہ کس طرح کی پٹی ہے اس کی جانکاری ضروری ہے۔ اگر اس میں دوائی مواد ہے جس کے استعمال سے تکلیف میں آرام ملتا ہے تو اس کے استعمال میں حرج نہیں ہے لیکن اگر تعویذ گنڈے کی طرح کوئی چیز ہے تو اس کا استعمال جائز نہیں ہے۔
دوسری بات یہ کہ یہ واٹر پروف ہے اس پر پانی لگنے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے لہذا غسل میں اس کے اوپر پانی پڑ جانا ہی کافی ہے اس سے غسل جنابت یا غسل حیض ہو جائے گا کیونکہ پٹی کا لگانا عذر کی وجہ سے ہے لہذا عذر کے وقت پٹی کے اندر پانی پہنچانے کی ضرورت نہیں ہے۔
سوال: ایک عالم کا بیان ہے کہ باوجود استطاعت اور فرضیت کے کوئی شخص حج نہ کرے وہ سخت مجرم ہے، وہ یہودی یا نصرانی ہوکر مرے گا اس کا کیا مطلب ہے، کیا جو آدمی حج نہ کرے وہ یہودی یا نصرانی کی موت مرتا ہے؟
جواب:اصل میں اس طرح کی ایک روایت آتی ہے جس کی وجہ سے یہ بات بیان کی جاتی ہے۔ سنن دارمی اور ترمذی کے اندر مرفوع روایت ہے مگر مرفوعا یہ حدیث ثابت نہیں ہے۔سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو حج کرنے سے ظاہری ضرورت یا ظالم حاکم، یا روک دینے والی بیماری نہ روکے اور وہ بغیر حج کئے ہوئے مر جائے، تو چاہے تو وہ یہودی کی موت مرے اور چاہے نصرانی کی موت مرے۔(سنن دارمی:1823)
ترمذی(812) میں بھی یہ حدیث ہے ، شیخ البانی نے اسے ضعیف کہا ہے البتہ موقوفا یہ روایت صحیح ہے جو کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے۔
عن عُمرَ بنِ الخطَّابِ – رضي اللهُ عنه – أنه قال: مَن أطاق الحجَّ فلم يَحُجَّ فسواءٌ مات يهوديًّا أو نصرانيًّا( أضواء البيان:1/334)
ترجمہ: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ جو آدمی حج کی طاقت رکھتا ہے اور وہ حج نہیں کرتا ہے پس اس کے لئے یہودی یا نصرانی ہوکر مرنا برابر ہے۔
اسے شیخ محمد امین شنقیطی نے صحیح کہا ہے اور حکمی اور ابن کثیر وغیرھم نے بھی صحیح کہا ہے۔
یہ حدیث عام نہیں ہے بلکہ صرف مالدار لوگوں سے متعلق ہے، مالدار آدمی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ جس کے پاس مال و دولت ہو اور اس پر حج فرض ہو جاتا ہو پھر بھی وہ حج نہیں کرتا ہے ایسا آدمی یہودی یا نصرانی ہو کر مرے کوئی ٹھیک نہیں ہے۔ یہ بات صرف ایسے ہی لوگوں کے بارے میں ہے۔ ہر کسی کے بارے میں یا غریب لوگوں کے بارے میں یہ بات نہیں ہے۔
سوال: سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم کب پڑھنا چاہئے، مغرب کے وقت یا سونے سے پہلے؟
جواب:ایک کلمہ ہے "سبحان اللہ وبحمدہ" اور ایک دوسرا کلمہ ہے، "سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم"۔ یہ دو الگ اذکار ہیں۔
بخاری(6682) کی سب سے آخری حدیث میں یہ ذکر آیا ہے۔ سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم۔ یہ ایک عام ذکر کے طور پر ہے، اس کے لئے وقت کی کوئی قید نہیں ہے۔ آدمی جب چاہے اسے پڑھے، یہ کلمہ اللہ رب العالمین کو بہت ہی محبوب ہے۔
اور سبحان اللہ وبحمدہ یہ کلمہ دن میں کسی وقت بھی سو بار پڑھتے ہیں سمندر کے جھاگ کے برابر گناہ معاف ہوتے ہیں۔(بخاری:6405)
اور ایک حدیث میں ہے کہ جو صبح اور شام سو مرتبہ اس کو پڑھے گا اس کے لئے قیامت کے دن سب سے افضل چیز ہوگی۔(مسلم:2692)
سوال: ایک شخص کو اپنے اوپر جادو کا گمان ہوتا ہے جس کے علاج کے لئے ایک آدمی کے پاس جاتا ہے۔ وہ  آدمی رقیہ شرعیہ کے تحت علاج کرتے ہیں مگر انہوں نے کچھ کاغذات دئے ہیں جن کے اوپر زعفران سے آیتیں لکھی ہوئی ہیں ،اسے مخصوص دنوں میں پانی میں گھول کر پلانا ہے اور پانی بھی دیا ہوا ہے جس پر انہوں نے کہا کہ یہ دم کا پانی ہے۔ یہ گھر میں پورا چھڑکنا ہے۔معالج کے بارے میں انٹرنیٹ پر چیک کیا تو وہ مشہور معلوم ہوتے ہیں اور وہ شرعی طور پر رقیہ کرتے ہیں مگر ہمیں اس  بارےمیں اطمینان نہیں ہو رہا ہے۔ ایک وقت میں علاج کا تقریبا 35ہزار روپے لئے ہیں۔ کیا یہ طریقہ صحیح ہے؟
جواب:پیشہ ور جتنے بھی عامل اور راقی ہیں، یہ سب جھاڑ پھونک کے لئے عموما مختلف قسم کے غیر شرعی طریقے اختیار کرتے ہیں اس لئے کسی بھی پیشہ ور عامل پر پورا بھروسہ نہ کریں اس بارے میں اہل علم سے ضرور رہنمائی حاصل کریں بلکہ میں یہ کہوں گا کہ اس قسم کے پیشہ ور عاملوں کے پاس نہ جائیں، جو نیک و صالح عالم ہوں ان سے دم کروائیں اور خود سے بھی اپنے اوپر دم کرسکتے ہیں یا گھر کا کوئی فرد بھی قرآنی آیات اور مسنون اذکار پڑھ کر دم کرسکتا ہے، اس کے لئے کوئی خاص راقی نہیں ہوتا اور نہ ہی رسول اللہ ﷺ نے خاص قسم کے راقی کی تعلیم دی ہے۔
شریعت کی روشنی میں رقیہ شرعیہ نام ہے مسنون اذکار پڑھ کر مریض پر براہ راست دم کرنے کا۔ اگر کوئی اس سے ہٹ کر رقیہ کے لئے دوسرا طریقہ اختیار کرتا ہے تو وہ غیر شرعی طریقہ ہے۔ کاغذ پر لکھ کر اور پانی میں گھول کر مریض کو پلانا غیر شرعی طریقہ ہے، اسی طرح پانی دم کرکے گھروں میں چھڑکنا بھی غیر شرعی طریقہ ہے لہذا ان دونوں طریقوں پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔
میں نے رقیہ شرعیہ کو اچھے سے سمجھایا ہے، میرے چینل پر رقیہ کا بیان سنیں، آپ خود سے رقیہ کرنے لگیں گے اور غیرشرعی کاموں سے بچیں گے۔
سوال: ایک آدمی کا اچانک سعودی میں انتقال ہوگیا ہے۔ کمپنی والوں نے کچھ رقم دئے ہیں۔ میت کی ماں دوسرے گھر دوسرے بیٹے کے ساتھ رہتی ہے اور میت کی بیوی کرایہ کے گھر میں رہتی ہے۔ (میت )آدمی دوسرا گھر بنا رہا تھا مگر کام پورا نہیں ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ مال جو کمپنی نے دیا ہے یا جو گھر بن رہا ہے اس میں ماں کا حصہ آتا ہے۔ میت صاحب اولاد تھا اور اس کے بچے چھوٹے چھوٹے ہیں؟
جواب:میت نے جو کچھ کمایا اور اپنے پیچھے زمین، جائیداد اور مال و دولت چھوڑا وہ سب ترکہ ہے جو میت کے وارثین میں وراثت کے نظام کے تحت تقسیم کیا جائے گا۔
اور وہ گھر جو میت بنا رہا تھا اس میں ماں کا چھٹا حصہ ہے۔ باقی جو کمپنی کی طرف سے مالی مساعدہ ہے وہ میت کی بیوی اور بچوں کے لئے ہے، اس میں دیگر وارثوں کا حق نہیں ہے کیونکہ عام طور سے یہ مساعدہ میت کے ان لوگوں کے لئے ہوتا ہے جن کو میت نے اپنے پیچھے چھوڑا ہے اور جن کا نان و نفقہ میت کے ذمہ ہوتا ہے۔اگر ماں اپنے مرنے والے بیٹے کے ساتھ ہوتی تو اس میں شریک ہو سکتی تھی لیکن وہ دوسرے بیٹے کے ساتھ ہے اس لئے اس میں شریک نہیں ہوگی۔
سوال: شوال کے چھ روزوں کے بارے میں کسی نے مجھ سے کہا ہے کہ اسے لگاتار رکھنا چاہئے تو کیا لگاتار چھ روزے رکھنا ضروری ہے یا پورے مہینے میں رکھ سکتے ہیں؟
جواب:شوال کے نفلی چھ روزے رکھنا مسنون ہے، ان روزوں کو پورے شوال میں کسی بھی طرح سے رکھ سکتے ہیں یعنی ایک ساتھ بھی رکھ سکتے ہیں اور متفرق طور پر ایک ایک کرکے بھی رکھ سکتے ہیں گویا پورے مہینے میں جس طرح چھ روزے رکھنا آپ کے لئے آسان ہو اس طرح سے رکھ سکتے ہیں، اس میں ایک ساتھ رکھنے کی کوئی قید نہیں ہے۔
سوال: کیا بغیر سحری کے روزہ رکھ سکتے ہیں ، آنکھ نہ کھلے تو اور دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا رات میں کھا کر سوسکتے ہیں سحری میں نہ کھائیں تو؟
جواب:روزہ رکھنے کے لئے سحری کھانا ضروری نہیں ہے، بغیر سحری کھائے بھی روزہ رکھ سکتے ہیں، روزہ رکھنے کے لئے فقط نیت کرنا شرط ہے۔ اگر فرض روزہ رکھ رہے ہیں یا قضا روزہ رکھ رہے ہیں تو فجر سے پہلے پہلے روزہ کی نیت کرنا ضروری ہے اور اگر نفل روزہ ہے جیساکہ شوال کا روزہ تو اس کے لئے فجر کے بعد بھی نیت کرسکتے ہیں بشرطیکہ فجر کے بعد کھانے پینے والی کوئی چیز منہ میں نہ لی گئی ہو اور روزہ توڑنے والا کوئی عمل نہ کیا گیا ہو۔
اگر کسی نے رات میں روزہ کی نیت کر لی اور سحری میں آنکھ نہ کھلی تو وہ روزہ رکھ سکتا ہے اور اگر کوئی رات میں کھانا کھاتا ہے تو یہ سحری نہیں ہے، یہ کھانا ہے۔ سحری فجر سے پہلے پہلے روزہ رکھنے کی نیت سے کھائی جاتی ہے۔
سوال:میت کی بخشش کی دعا میں جو مسنون الفاظ ہیں جیسے وابدلہ دارا خیرا من دارہ وزوجا خیرا من زوجہ واھلا خیرا من اھلہ ۔۔۔۔۔اس سے کیا کیا مراد ہے؟
جواب:بہتر دار سے مراد دنیا کے گھر سے بہتر گھر آخرت میں عطا کر۔بہتر اہل سے مراد دنیا کے ماں باپ، اولاد اور اعزاء و اقرباء سے بہتر اہل عطا کر۔بہتر بیوی سے مراد حورعین یا جنت میں دنیاوی بیوی عطا کر۔
سوال: جس کا خاتمہ لا الہ الا اللہ پر ہو اس شخص کے بارے میں احادیث میں کیا آتا ہے؟
جواب:مرتے وقت جس کی زبان سے کلمہ نکلتا ہے اس کے لئے حدیث میں آیا ہے کہ وہ جنت میں داخل ہوگا چنانچہ ابو داؤد کی حدیث ہے۔معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس کا آخری کلام «لا إله إلا الله» ہوگا وہ جنت میں داخل ہوگا۔(ابوداؤد:3116)
موت کے وقت کلمہ نصیب ہونا حسن خاتمہ کی علامت ہے لیکن یہاں یہ بات یاد رہے کہ محض کلمہ پڑھنا حسن خاتمہ کی علامت نہیں ہے بلکہ جو زندگی میں کلمہ کے تقاضہ کو پورا کر رہا ہو اور موت کے وقت صدق دل سے کلمہ پڑھا ہو اس کو یہ کلمہ فائدہ پہنچائے گا۔
سوال:اگر ہمیں چھ سات مہینے بعد اچانک کسی بات پہ یاد آئے کہ میری ایک وقت کی نماز چھوٹ گئی تھی تو کیا اب اس کی قضا ضروری ہے؟
جواب:جس کو چھ سات مہینے کے بعد اپنی بھولی ہوئی کوئی نماز یاد آئے وہ یقینا اس نماز کی قضا کرے گا۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص کوئی نماز بھول جائے تو جب یاد آئے اسے پڑھ لے، یہی اس کا کفارہ ہے اس کے علاوہ اس کا کوئی اور کفارہ نہیں۔(ابوداؤد:442)
سوال: ايک سکالر نے تیسری مرتبہ طلاق دئے جانے کے متعلق بیان کیا ہے کہ دوران عدت شوہر اگر رجوع کر لے تو نکاح باقی رہتا ہے مگر عدت گزر جانے کے بعد نکاح ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟
جواب:تیسری طلاق دیتے ہی عورت کو طلاق مغلظہ واقع ہو جاتی ہے، اس طلاق کے بعد شوہر کو رجوع کا اختیار بالکل بھی نہیں ہوتا۔ تیسری طلاق کے بعد عورت تین حیض عدت تو گزارے گی لیکن اس عدت میں شوہر کے لئے رجوع کا بالکل بھی اختیار نہیں ہوتا۔تیسری طلاق دیتے ہی میاں بیوی میں جدائی ہوجاتی ہے اور بیوی عدت گزار کر کہیں دوسرے مرد سے شادی کرسکتی ہے۔
جس کسی کی بات آپ نے اس بارے میں سنی ہے اس نے غلط بات بیان کی ہے۔
سوال: حال ہی میں ایک خاتون کی ڈیلیوری ہوئی ہے اور بچی سات ماہ کی ہے، اب اس کو پھر سے حمل ٹھہر گیا ہے جو چھ ہفتے کا ہے۔ ڈاکٹر کمزوری کی وجہ سے حمل کو ضائع کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ وہ خاتون پوچھ رہی ہے کہ صحت کے لئے حمل کو ضائع کرسکتی ہے ؟
جواب: اکثر و بیشتر ڈاکٹر عبدالدینار(پیسوں اور دنیا کے بندے) ہوتے ہیں۔ ان کو اللہ کا ذرہ برابر خوف نہیں ہوتا ہے اور نہ انہیں اللہ کا حکم معلوم ہوتا ہے۔ اس قسم کے معاملہ میں علماء کی رہنمائی سے عمل کریں۔ کمزوری کی وجہ سے حمل ساقط نہیں کیا جائے گا خواہ ایک دن کا ہی حمل کیوں نہ ہو۔ حمل ٹھہرنے کے بعد وہ ایک نفس کے حکم میں ہے، اس نفس کو بغیر شرعی عذر کے ساقط کرنا بچے کا قتل ہے اور کمزوری ایسا عذر نہیں ہے جس کی وجہ سے چھ ہفتے کا حمل ساقط کیا جائے گا۔ خاتون کو کمزوری کا احساس تھا توپہلے سے ہی  حمل روکنے والی تدبیر اپناسکتی تھی اس میں کوئی حرج نہیں تھا، اب حمل ٹھہر گیا ہے تووہ  اس حمل کی حفاظت کرے اور اللہ پر توکل و بھروسہ کرے اور اپنے معاملہ میں آسانی کے لئے اس سے دعائیں مانگتی رہے۔ جیسے وہ خاتون دنیا میں آئی ہے، اس کی روزی روٹی اور حفاظت اللہ کررہا ہے، آنے والے بچے کا بھی اللہ ہی محاٖفظ و نگراں ہے۔ اس بارے میں ذرہ برابر بھی دل میں کوئی خوف نہ رکھے اور مایوسی کا شکار نہ ہو۔ اولاد نعمت ہے، اس پہ خوش ہوا جاتا ہے۔
سوال: ایک خاتون نےشوال کے تین روزے رکھ لئے ہیں۔ اب اسے پتہ چلا ہے کہ پہلے رمضان کے فرض روزے کو پورا کرنا ہے پھر شوال کے سنت روزے رکھنا ہے۔ اس سے رمضان کے چار روزے چھوٹے ہیں تو وہ ایسی صورت میں کیا کرے اور ان تین روزوں کو وہ کس میں شمار کرے گی؟
جواب:سب سے پہلی بات یہ ہے کہ کسی کو عمل کرنے سے پہلے شرعی حکم معلوم کرنا چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ شوال کے چھ روزے قضا روزہ سے پہلے رکھ سکتے ہیں یا نہیں، اس بارے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ پہلے قضا روزہ رکھا جائے گا پھر شوال کے روزے رکھے جائیں گے۔
جس کسی نے انجانے میں چند روزہ شوال کے رکھ لئے ہیں، وہ روزہ شوال کی نیت سے ہی رہیں گے، اب سے وہ پہلے قضا روزے رکھے اور قضا مکمل کرنے کے بعد شوال کے جتنے روزے باقی بچ گئے ہیں وہ رکھ لئے جائیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔