آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(64)
جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ- سعودی عرب
سوال: شوہر اگر روزے کی حالت میں بیوی کے
جسم کو شہوت کی غرض سے چھوئے جبکہ شوہر کو یہ یقین ہو کہ اس کی منی نہیں نکلے گی
لیکن پھر بھی اس کی منی نکل جائے تو کیا شوہر کا روزہ ٹوٹ جائےگا اور شوہر بیوی کے
کئی بار منع کرنے پر بھی نہیں مانے اور اپنے ہاتھ کو بیوی کی شرمگاہ میں ڈالے تو
کیا اس سے بیوی کا روزہ ٹوٹ جائےگا؟
جواب:روزہ کی حالت میں شہوت کے ساتھ بیوی کو چھونا جائز
نہیں ہے کیونکہ شہوت جماع کے قبیل سے ہے یعنی اس سے آدمی جماع میں واقع ہوتا ہے اس
لیے زوجین کے لئے روزہ کی حالت میں شہوت کے ساتھ ایک دوسرے کو چھونا جائز نہیں ہے
لہذا اس عمل کے لیے اولا میاں بیوی دونوں توبہ کریں کیونکہ شوہر نے بھی غلطی کی
اور بیوی نے بھی شوہر کو اس کا موقع دیا۔دوسری بات یہ ہے کہ شہوت کے ساتھ منی خارج
کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ایسی صورت میں مرد کو توبہ کے ساتھ اس روزے کی قضا بھی
کرنا ہے۔اگر جماع نہیں ہوا ہے، فقط شہوت سے چھونے پر منی خارج ہوئی ہے تو ایسی
صورت میں کفارہ نہیں ہے، صرف توبہ اور اس روزے کی قضا ہے۔
اسی طرح روزہ کی حالت میں شوہر کا بیوی کی شرمگاہ میں
ہاتھ ڈالنا جائز نہیں ہے، یہ حرام کام ہے اس سے شوہر کو بھی پرہیز کرنا ہے اور
بیوی کو بھی پرہیز کرنا ہے تاہم اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
سوال: ایک خاتون کے شوہر کی وفات ہوگئی
ہے، کیا وہ اپنے والدین کے گھر عدت پوری کر سکتی ہے کیونکہ اس کے شوہر نے اسے بولا
تھا کہ بچوں کو میرے گھر پر مت رکھنا؟
جواب:بھلائی کے کام میں یقینا بیوی کو شوہر کی اطاعت
کرنی چاہیے لیکن عدت گزارنے والی عورت کے لیے رسول اللہ کا حکم ہے کہ وہ شوہر کے
گھر پہ عدت گزارے لہذا یہاں پر شوہر کی بات نہیں مانی جائے گی بلکہ اللہ کے رسول
صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان دیکھا جائے گا۔ ایسی صورت میں بیوی کو اسی گھر میں
عدت گزارنی چاہیے، عدت گزارنے کے بعد پھر جہاں جانا اس کے لیے مناسب ہو وہاں
جاسکتی ہے۔
بیوہ کے لئے نبی ﷺ کا فرمان ہے
:
امْكُثي في بيتِكِ الَّذي جاءَ فيهِ نعيُ زوجِكِ حتَّى
يبلغَ الْكتابُ أجلَهُ(صحيح ابن ماجه:1664)
ترجمہ: تم اپنے اس گھر ميں عدت بسر كرو جہاں تمہيں اپنے
خاوند كى موت كى خبر ملى تھى حتی کہ کتاب اللہ کی بیان کی ہوئی مدت پوری ہوجائے۔
سوال: میری بہن کے پچاس لاکھ روپئے کہیں
پر اٹکے ہوئے ہیں، کیا اسے اس رقم کی زکوٰۃ نکالنا ہے یا نہیں اور وہ رقم آنے کی
امید بس اللہ سے ہی رکھی ہوئی ہے؟
جواب:جس کسی نے قرض کے طور پر کسی کو پیسے دئے ہیں اور
اس پیسے کے آنے کی امید کم ہے تو ایسی صورت میں اس قرض کی اس وقت زکوۃ نہیں دینی
ہے۔ جب قرض واپس آجائے اس وقت زکوۃ دینی ہے۔
سوال: کیا نماز وتر ميں قنوت نازلہ نہیں
پڑھ سکتے ہیں؟
جواب:حدیث کی روشنی میں قنوت نازلہ فرض نمازوں میں پڑھی
گئی ہے اور وتر میں قنوت وتر پڑھی جائے گی۔ ایسی کوئی حدیث موجود نہیں ہے جس سے
معلوم ہو کہ قنوت نازلہ وتر میں پڑھی
جائے گی۔قنوت
نازلہ کا مطلب ہوتا ہے مسلمانوں کے اوپر نازل ہونے والی کسی مصیبت کے وقت اس مصیبت
کے دفع کے لئے اللہ سے دعا کرنا ۔قنوت نازلہ کے اوقات سے متعلق شیخ ابن بازؒ
فرماتے ہیں کہ پانچوں اوقات کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھی جاسکتی ہے کیونکہ نبی ﷺ
نے پانچوں اوقات میں قنوت نازلہ پڑھی ہے تاہم اکثر وبیشتر فجر اور مغرب میں قنوت
نازلہ پڑھی ہے۔
سوال: کیا عورتیں گھر میں عید کی نماز
پڑھ سکتی ہیں، اگر قریب میں کوئی مسجد موجود نہ ہو یا انہیں مسجد میں نماز عید ادا
کرنے کی اجازت نہ ہو تو وہ کیا کریں اور کیا ان کے لیے دیوبندی امام کے پیچھے نماز
پڑھنا جائز ہے؟
جواب:دیوبندی امام کے پیچھے نماز پڑھی جاسکتی ہے اس میں
کوئی حرج نہیں ہے تاہم عید کی نماز کو عید کی نماز کی طرح ادا کرنے کی کوشش کی
جائے۔اگر وہاں پر دیوبندی حضرات رہتے ہوں اور سلفیوں کی مسجد یا سلفیوں کی زیادہ
تعداد نہ ہو تو ایسی صورت میں جو بھی لوگ وہاں موجود ہوں وہ سب اپنی ایک جماعت
بناکر ایک امام کے پیچھے عید کی نماز پڑھ لیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مجبوری میں
دیوبندی امام کے پیچھے نماز پڑھنی پڑے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال: مردوں کے بال کاٹنے کا طریقہ کیا
ہے؟
جواب:مردوں کو بال کٹاتے ہوئے پورے سر سے برابر بال
کٹانا چاہیے یعنی دائیں بائیں آگے پیچھے چاروں طرف برابر مقدار میں بال کاٹنا
چاہیے اور اس کا کوئی خاص طریقہ نہیں ہے۔ نبی ﷺ نے بال کاٹنے میں قزع سے منع
فرمایا ہے۔ قزع کہتے ہیں سر کے کچھ حصے کے بال کو کاٹنا اور کچھ حصے کو چھوڑ دینا
نیز اس میں وہ کیفیات میں داخل ہیں کہ کہیں سے بال چھوٹا اور کہیں سے بڑا رکھا
جائے مثال کے طور پر فوجی کٹ یعنی چاروں طرف سے بالکل باریک اور درمیان میں بڑا
بال رکھنا۔ اس قسم کی کیفیت ممنوع ہے۔ پورے سر سے برابر طور پر بال چھوٹا کیا
جائے۔
سوال: جو زیورات سسرال والے بہو کو
پہناتے ہیں وہ زیادہ تر خواتین استعمال کے بعد ان کو واپس کردیتی ہیں اور اس طرح
وہ سونا سسرال والوں کے پاس ہی رہتا ہے تو اس طرح سونا بہو کی ملکیت کہلائے گی یا
سسرال والوں کی۔ اگر سسرال والوں کے پاس ہی رہے تو پھر زکوۃ وہ لوگ نکالیں گے یا
بہو کو ہی نکالنی ہوگی جبکہ وہ زکوۃ نکالنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتی ہو؟
جواب:سسرال والے جو زیورات بہو کو پہننے کے لئے دیتے
ہیں ان زیورات کے بارے میں تحقیقی طور پر معلوم کریں کہ وہ بہو کے لیے دئے جاتے
ہیں یا یونہی رسمی طور پر پہنائے جاتے ہیں۔ اگر وہ بہو کو ہدیہ کئے جاتے ہیں تو وہ
بہو کی ملکیت ہے، اس کی زکوۃ بہو کے ذمے ہوگی لیکن اگر یونہی رسمی طور پر پہنائے
جائیں اور پھر سسرال والے لے لیں تو پھر یہ سسرال والوں کی ملکیت ہے، وہ لوگ اپنے
طور پر اس کی زکوۃ ادا کریں گے۔ بہو اپنے شوہر کے ذریعہ زیورات کی حقیقت معلوم کرے
پھر زکوۃ کا فیصلہ کرے۔ اگر یہ بہو کے لئے ہوں اور نصاب بھر ہوں تو پھر سال مکمل
ہونے پر بہو کو ان کی زکوۃ نکالنی ہوگی۔ زکوۃ کے لئے وقت پہ پیسے نہ ہوں تو سال
بھر تھوڑا تھوڑا پیسہ جمع کیا کرے اور جمع شدہ پیسوں سے سال میں ایک بار زکوۃ ادا
کرے۔
سوال:کفارہ ادا کرنے کے لئے ساٹھ مسکینوں
کو ایک وقت کا کھانا کھلانا ہے یا دو وقت کا کھانا کھلانا ہوگا؟
جواب:روزے کا کفارہ ساٹھ مسکین کو کھانا کھلانا دراصل
ایک وقت کا کھانا کھلانا ہے یا پھر ایک مسکین کو نصف صاع یعنی ڈیڑھ کلو اناج دینا
بھی کافی ہوگا۔
سوال: چار مہینے بعد مجھے اسپاٹنگ شروع
ہوئی اور چار دن بعد ختم بھی ہوگئی پھر میں نے دو روزہ رکھا، اس کے بعد مستقل ہیوی
پیریڈ شروع ہوا اور نو دن تک رہا پھر جب ختم ہوا تو ایک روزہ رکھا پھر رات کو بلڈ
کلوٹ آئے پھر صبح سے کچھ نہیں آیا، اب میں نہاکر نماز شروع کروں اور روزے رکھوں یا
کیا کروں؟
جواب:اس صورت میں شروع میں جو اسپاٹنگ ہوئی وہ حیض شمار
نہیں ہوگی، اسپاٹنگ کے بعد جو نو روز مستقل بھاری خون آیا ہے، دراصل یہ حیض کا خون
ہے، حیض کا اعتبار صرف نو دنوں پر ہوگا پھر نو دن کے بعد پاکی حاصل ہوگئی۔ اس کے
بعد جو کچھ آیا اس کو بھی حیض نہیں شمار کیا جائے گا یعنی نو دن کے بعد اسے مسلسل
روزہ رکھنا ہے اور نماز جاری رکھنا ہے۔
سوال: ہمارے گاؤں میں تقریباً سبھی لوگ
فقہ حنفی سے تعلق رکھتے ہیں، یہاں امام کے پیچھے عورتوں کی نمازِ عید کا انتظام
نہیں ہوتا۔ کچھ عورتوں نے قرآن وسنت کو سیکھا ہے الحمدللہ، وہ عید کی نماز پڑھنا
چاہ رہی ہیں کیا ایسی صورت میں ان کو ایک عورت عید کی نماز پڑھا سکتی ہے؟
جواب:چونکہ وہاں پر سلفی لوگوں کی مسجد اور جماعت نہیں
ہے اور احناف کے یہاں مردوں کے ساتھ عورتوں کی نماز نہیں ہوتی، ایسی صورت میں وہاں
جو سلفی خواتین ہیں انہیں اپنی جماعت بنا کر اور کسی کو امام بنا کر نماز پڑھ لینی
چاہیے بلکہ جو بھی سلفی مرد اور خواتین ہیں، سبھی ایک جگہ جمع ہوکر ایک ساتھ مرد
اور عورتیں دونوں مل کر نماز ادا کریں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو صرف خواتین اپنی
جماعت بنا کر اور کسی خاتون کو امام بنا کر نماز عید ادا کر لیں۔
سوال:کیا ایڈوانس میں عید مبارک کہنا
جائز ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہنسی مذاق میں کہہ سکتے ہیں؟
جواب: نبی ﷺ کے زمانے میں صحابہ کرام ایک دوسرے کو عید
کی مبارکباد نماز عید کے بعد دیا کرتے تھے لہذا ہمیں بھی صحابہ کی طرح عمل کرنا
چاہئے۔ عید کا چاند نکل جانے کے بعد اگر کوئی عید کی مبارکباد دینا شروع کردیتا ہے
تو اس میں حرج نہیں ہے کیونکہ چاند نکلنے سے بہرحال عید کا دن شروع ہوجاتا ہے مگر
زیادہ پہلے سے اڈوانس میں عید کی مبارکبادی دینا مشروع نہیں ہے۔ اور عید کی
مبارکباد کوئی مذاقیہ چیز نہیں ہے کہ ہنسی مذاق میں اس کا استعمال کریں ، یہ دعائے
خیر ہے اس کو ہنسی مذاق نہ بنایا جائے اور نہ اسے ہنسی مذاق سمجھا جائے۔
سوال: میری ایک عزیز آسٹریلیا میں رہائش
پذیر ہے، وہاں اذان نہیں ہوتی ہے، اس نے غلطی سے دس منٹ پہلے افطاری کر لی ہے، اب
کیا اس روزہ کی قضا ہے یا نہیں؟
جواب:غلطی سے وقت سے پہلے افطار کر لینے پر اس سے روزہ
نہیں ٹوٹے گا، اس خاتون کا روزہ اپنی جگہ درست ہے۔ جیسے آدمی غلطی سے روزہ کی حالت
میں کچھ کھا پی لیتا ہے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ہے یہ بھی اسی طرح کا عمل ہے
لہذا اسے روزہ قضا کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس کا روزہ صحیح ہے۔
سوال: ایک فیملی آخری عشرے میں عمرے کے
لیے گئی ہے اور وہ ابھی سعودیہ میں ہے ۔ اگر عید تیس روزوں کے بعد ہے تو کیا اسے
پاکستان آکر ایک روزہ رکھنا ہوگا؟
جواب:جو آدمی روزہ کے دنوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ کا
سفر کرتا ہے اور سفر کرکے جس جگہ رہتا ہے اس کے حساب سے رمضان گزارے گا۔ یاد رہے
رمضان کا کوئی روزہ نہ پاکستان میں توڑے گا، نہ سعودی عرب میں توڑے گا حتی کہ اگر
اس نے سفر کے دن میں کوئی روزہ توڑا ہو تو اس کی بعد میں قضا کرے گا۔ اگر اس نے
سعودی میں عید منائی اور اس کا روزہ انتیس سے کم ہوجائے تو ایک روزہ بعد میں قضا
کرنا ہے کیونکہ مہینہ کم ازکم انتیس دن کا ہوتا ہے۔ اور اگر اس کا انتیس روزہ پورا
ہوگیا تو قضا کرنے کی ضرورت نہیں بشرطیکہ اس نے سفر یا عذر کی وجہ سے کوئی روزہ نہ
توڑا ہو، اگر اس نے عذر کی وجہ سے کوئی روزہ توڑا ہو تو اس کی قضا کرنا لازم ہے۔
سوال:ایک مرد ایک بیوہ عورت سے نکاح کر
چکا ہے اور وہ ولیمہ نہیں کرنا چاہتا ہے۔ ولیمہ نہ کرنے پر گناہ تو نہیں ہوگا؟
جواب:ولیمہ کے حکم کے سلسلے میں بعض علماء کہتے ہیں کہ
یہ واجب ہے اور بعض علماء سنت موکدہ کہتے ہیں۔ اگر کوئی شرعی طور پر نکاح منعقد
کرے اور ولیمہ نہ بھی کرے تو نکاح اپنی جگہ درست ہے لیکن کوشش یہی ہو کہ ولیمہ کیا
جائے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کو
حکم دیا تھا کہ ولیمہ کرو چاہے ایک بکری ہی کیوں نہ ہو۔ولیمہ چھوٹنے پر گناہ نہیں
ہوگا لیکن ایک تاکیدی سنت ہے اس کو انجام دینا بہتر اور افضل ہے، چاہے ولیمہ میں
اپنی استطاعت سے جو بھی کچھ کھلائیں۔ گوشت کی دعوت کھلانا ہی ضروری نہیں ہے۔
سوال:کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید کی
مبارکباد نہیں دیتے تھے، عید کی مبارکباد دینا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت
نہیں ہے، صرف صحابہ سے ہی ثابت ہے؟
جواب:عید کے دن مبارکبادی دینے سے متعلق صحابہ کا عمل
ملتا ہے۔ جبير بن نفير(تابعی) ایک روایت بيان كرتے ہيں جسے شیخ البانی نے صحیح کہا
ہے:
كان أصحابُ النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم إذا
الْتَقَوْا يومَ العيدِ يقولُ بعضُهم لبعضٍ : تَقَبَّلَ اللهُ مِنَّا ومنكَ۔(تمام
المنة:354)
ترجمہ:رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام عيد
كے روز جب ايك دوسرے كو ملتے تو ايك دوسرے كو كہتے"تَقَبَّلَ اللَّهُ مِنَّا
وَمِنْك" (اللہ تعالى مجھ اور آپ سے قبول فرمائے).
گویا اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صحابہ کا اجتماعی
معاملہ تھا یعنی صحابہ کرام عید کے دن ایک دوسرے کو مبارکبادی دیا کرتے تھے۔ صحابہ
کے اس اجتماعی عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ یقینا نبی ﷺ سے اس بارے میں ہدایت و
ارشاد لئے ہوں گے تبھی ان سب کا یہ اجتماعی عمل تھا اس وجہ سے صحابہ کے اس عمل کو
مرفوع کے درجہ میں رکھا جائے گا۔
اگر یہ روایت مرفوع کے حکم میں نہ بھی ہو
پھربھی سلف کے عمل کی وجہ سے اس پر عمل کرنا ہمارےلئے مشروع ہے۔
سوال: ہمارے یہاں بلوچستان میں عورتوں کے
لیے مسجد میں جانے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ انہیں کہاجاتا ہے کہ گھر میں نماز پڑھو
جبکہ قرآن و حدیث میں مسجد کا ذکر ہے تو کیا وہ کام گھر میں بھی نہیں کیا جائے۔
ایسے میں ہم اچھے اعمال کرنے سے رہ جائیں گے، ہم عورتیں کیا کریں، کیا گھر میں عید
کی نماز ادا کرسکتے ہیں؟
جواب:جہاں پر عورتوں کو مسجد جانے کی ممانعت ہے اور ان
کے لیے عید گاہ یا مسجد میں مردوں کے ساتھ عید کی نماز کا اہتمام نہیں ہے، وہ ایک
جگہ کسی گھر میں جمع ہوکر جماعت سے عید کی نماز پڑھ لیں، اس میں کوئی مضائقہ نہیں
ہے کیونکہ ان کے ساتھ عذر ہے۔
سوال: انگلینڈ میں رہنے والی فیملی کی
طرف سے سوال پوچھا گیا ہے کہ جو لندن کی بڑی مسجد ہے وہ سعودیہ کے لوگوں کے تحت
ہے۔ وہاں پر سعودی عرب میں جس دن عید ہوتی ہے اس دن عید منانے کا اعلان کرتے ہیں،
چاہے انکے انتیس روزے ہی کیوں نہ ہوئے ہوں۔ تقریبا ستر فیصد لوگ ان کے مطابق عید کرتے ہیں۔ جو پاکستانی ، بنگلہ دیشی اور
ہندوستانی ہیں، وہ وہاں مقامی انگلینڈ کے حساب سے چلنے کو کہتے ہیں، یہ تعداد میں
کم ہیں، اس سال بھی یہ مسئلہ کھڑا ہے ، ہمیں کس کے حساب سے عید کرنی چاہیئے کیونکہ
یہ نہ ہو کہ ہمارا ایک روزہ مس ہو جائے؟
جواب:روزہ میں اصل تو یہی ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ
رکھنا ہے اور چاند دیکھ کر عید منانا ہے تاہم جہاں کہیں لوگ فتنہ پیدا کررہے ہوں
وہاں فتنہ اور انتشار سے بچنے کے لئے لوگوں کی جماعت کے ساتھ رہیں یعنی ان کے حساب
سے عمل کر لیں۔ جہاں پر آپ ہیں، اگر وہاں پر سلفی جماعت بھی ہو جو نبیﷺ کی تعلیمات
کی روشنی میں عمل کرتی ہو تو آپ سلفی جماعت کے مطابق عمل کریں۔ اور سلفی جماعت نہ
ہو یا آپ کے یہاں جس حساب سے لوگ روزہ اور عید کررہے ہوں ان کے مطابق چلیں۔ مہینہ
انتیس دن کا ہوتا ہے، انتیس روزے ہوگئے تو آپ کا مہینہ مکمل ہوگیا۔
سوال: اگر تیرہ سال کے بچے کی ناک سے
کافی زیادہ خون آجائے، جو گلے میں بھی چلا جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟
جواب:جسم میں کہیں سے زیادہ خون نکلنے پر روزہ ٹوٹ جاتا
ہے خواہ حلق میں داخل ہوا ہو یا نہیں ہوا ہو۔ اس وجہ سے جو صورت پیش کی گئی ہے اس
صورت میں بچے کا روزہ ٹوٹ گیا ہے۔اگر بچہ بالغ ہوگیا ہو تو اسے بعد میں اس روزے کی
قضا کرنا ہے اور بالغ نہیں ہو تو قضا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
سوال: آسٹریلیا میں رمضان کی شروعات میں
کچھ لوگ ایک مارچ سے روزہ تھے اور کچھ لوگ دو مارچ سے۔ ایک مارچ سے جو روزہ تھے ان
کا کہنا تھا کہ مساجد میں علماء نے اجازت دیدی ہے اور چاند سائنسدانوں کی مشینوں
میں دیکھا گیا تھا گوکہ آسمان پر نظر نہیں آیا نیز ان کا کہنا ہے کہ پہلا چاند جب
نکلتا ہے تو وہ آسمان پر مکمل نہیں دکھتا اس وجہ سے ہم روزہ کی شروعات کر رہے ہیں۔
دومارچ سے جو روزہ تھے وہ لوگ چاند کا انتظار کئے اور اگلے دن روزہ کی شروعات کئے۔
بالکل اسی طرح اب کچھ لوگ عید پیر کو منانے کو کہہ رہے ہیں اور کچھ لوگ منگل کو
کہہ رہے ہیں۔ یہاں پر امام امام میں ہی فیصلہ نہیں ہو رہا ہے تو عام انسانوں کا
کیا حال ہوگا۔ اس معاملہ میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
جواب: جو لوگ رویت ہلال کا اعتبار کررہے ہیں وہ حق پر
ہیں اور جو مشین کا اعتبار کررہے ہیں وہ ناحق پر ہیں۔ اس کے باوجود اس مسئلہ میں
عوام کو انتشار سے بچنا ہے اور آپ جہاں پر موجود ہیں وہاں جس حساب سے لوگ عمل
کررہے ہیں اس کے مطابق روزہ اور عید کا معاملہ کریں۔ اگر آپ کے یہاں رویت کا
اعتبار کرنے والے بھی ہیں تو ان کے ساتھ چلیں اور اگر مشین پر بھروسہ کرنے والے
ہیں تو ان کے حساب سے ہی چلیں، کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال: رمضان میں سرکش شیاطین قید کردئے
جاتے ہیں تو پھر رمضان میں نماز اور قرآن پڑھتے وقت خیالات کیوں بھٹک جاتے ہیں؟
جواب:انسان کی طبیعت میں اللہ تعالی نے خواہش رکھی ہے
جو انسان کو برائی کی طرف لگانے کی کوشش کرتی ہے نیز قرآنی آیات سے ہمیں معلوم
ہوتا ہے کہ انسان میں تین قسم کے نفس پائے جاتے ہیں، ایک نفس امارہ ہے جو برائی کی
طرف لے جاتا ہے۔جب خود انسان میں خود بہکنے کی صفت اور محرک موجود ہے پھر برے
کاموں کے لئے یا برے خیالات اور ذہن بھٹکنے کے لئے شیطان کی ضرورت نہیں ہے۔ انسان
جب برائی کا رسیا ہو تو وہ رمضان میں بھی برا کام کرتا ہے، ایسے انسان کو کسی
شیطان کی ضرورت نہیں پڑتی، وہ خود ایک شیطان صفت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سورہ
الناس میں وسوسہ ڈالنے والے جنات اور وسوسہ ڈالنے والے انسان سےبھی اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔
سوال: جس کے پاس ایک سے زیادہ گھر ہے تو
کیا اس گھر پر بھی زکوۃ نکالے گا یا اگر کرایہ والا ہے اور کرایہ کا پیسہ نصاب کو
پہنچ جائے تب زکوۃ نکالے گا؟
جواب:رہنے والے یا کرایہ والے مکان پر زکوۃ نہیں ہے،
کرایہ والے مکان کا کرایہ اگر نصاب تک پہنچے اور ایک سال تک رہے تب اس کرایہ میں
زکوۃ دیں گے مگر مکان پر زکوۃ نہیں دیں گے، نہ رہائشی پر اور نہ کرایہ والا پر۔
سوال: میں اپنی فیملی کے ساتھ دمام سے عمرہ
کے لئے آیا، طائف سے احرام باندھا اور حرم پہنچا تو اندر داخل ہونے نہیں دیا گیااس
وجہ سے ہوٹل پر آرام کے لئے آگیا اور احرام کھول دیا پھر ابھی مسجد عائشہ آیا ہوں
، کیا یہاں سے احرام باندھ سکتا ہوں؟
جواب: احرام کی چادر اتار دینے سے آدمی احرام سے باہر
نہیں ہوجاتا کیونکہ احرام چادر کا نام
نہیں ہے ۔ بھلے آپ نے احرام کی چادر اتاردی مگر ابھی بھی آپ احرام میں ہی ہیں
کیونکہ احرام عمرہ کی نیت کو کہتے ہیں جو آپ نےطائف کی میقات پر کی تھی ۔ ہاں آپ کو چادر نہیں اتارنا
تھا ، اگر لاعلمی میں اتار بھی دئے تو اس میں کوئی دم یا کفارہ نہیں ہے۔ آپ پھر سے
احرام کی چادر لگالیں اور مسجدحرام جاکر اپنا عمرہ پورا کریں۔ آپ کو پھر سے احرام
باندھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف احرام کی
چادر پھر سے لگالیں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔