آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(63)
جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ - سعودی عرب
سوال: سورہ آل عمران کی آیت
نمبر 26 اور 27 کی فضیلت کے بارے میں سنا ہے کہ ہر نماز کے بعد پڑھنے سے دولت آتی
ہے اور رزق بڑھتا ہے، کیا یہ بات صحیح ہے؟
جواب:ایسی کوئی صحیح حدیث میرے علم میں نہیں ہے کہ ان
دو آیتوں کو نماز کے بعد پڑھنے سے رزق میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسم اعظم کے طور پر یہ
دعا مروی ہے مگر وہ موضوع ہے البتہ قرض کی ادائیگی کے طور پر اسے پڑھ سکتے ہیں اس
کی سند کو شیخ البانی نے جید کہا ہے۔ان دونوں روایات کا متن نیچے دیکھیں۔
٭اسمُ اللهِ الأعظمُ الذي إذا دُعيَ بهِ
أجابَ في هذه الآيةِ منْ آلِ عمرانَ : ( قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ
تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ
مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ
شَيْءٍ قَدِيرٌ ) إلى آخره(السلسلة الضعيفةؒ2772)
٭ أَلا أُعلِّمُك دعاءً تدعو به لو كان عليك
مثلُ جبلِ أُحُدٍ دَيْنًا لأدَّاه اللهُ عنك ؟ قل يا معاذُ : ( اللهمَّ مالكَ
الملكِ تُؤتي الملكَ مَن تشاءُ، وتنزعُ الملكَ ممن تشاءُ، وتُعِزُّ مَن تشاءُ،
وتذِلُّ مَن تشاءُ، بيدِك الخيرُ إنك على كلِّ شيءٍ قديرٌ. رحمنُ الدنيا والآخرةِ
ورحيمُهما، تعطيهما من تشاءُ، وتمنعُ منهما من تشاءُ، ارحمْني رحمةً تُغنيني بها
عن رحمةِ مَن سواك )(صحيح الترغيب:1821)
سوال: وقت پہ دینے کے لئے پیسے نہیں ہوتے
ہیں اس لئے تھوڑی تھوڑی کرکے زکوۃ دے سکتی ہوں؟
جواب:زکوۃ تھوڑی تھوڑی کر کے نہیں دے سکتے ہیں، زکوۃ
ایک بار ہی مستحقوں میں تقسیم کر دینا ہے یعنی جب جس چیز کی زکوۃ دینی ہو اس کی
زکوۃ اسی وقت مکمل طور پر دے دینی ہے۔مال کی زکوۃ ہے تو مال میں سے زکوۃ نکال کر
دینے میں کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے البتہ زیورات کی زکوۃ میں عورتوں کو دقت ہوتی ہے
ایسی خواتین کو چاہیے کہ تھوڑا تھوڑا کر کے پیسہ جمع کرتی رہے۔ جو پیسہ تھوڑا
تھوڑا کرکے زکوۃ دینے کے لیے سوچ رہے ہیں، اسی کو تھوڑا تھوڑا کرکے اپنے پاس جمع
کرکے رکھیں اور جب سال لگ جائے تو اس وقت اکٹھے زکوۃ دے دیں۔
سوال: کیا نفل نماز کے سجدہ میں قرآنی
دعائیں پڑھی جا سکتی ہیں؟
جواب:فرض ، سنت اورنفل تمام نمازوں کے سجدے میں قرآنی دعائیں پڑھ سکتے ہیں اس میں کوئی
حرج نہیں ہے۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ رکوع اور سجدے میں قرآن پڑھنے کی ممانعت
ہے کیونکہ یہ دونوں مقامات اللہ کی
عظمت وبزرگی بیان کے لئے ہیں لیکن سجدے میں قرآنی
آیات کو بطور دعا پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔
سوال: ایک بچی جس کے والدین طلاق لیکر
الگ ہوگئے ہیں اور اس بچی کی کفالت اس کے نانا نانی کر رہے ہیں ،کیا وہ بچی یتیم
کہلائے گی اور ایسے میں اس بچی کے لئے زکوٰۃ کا پیسہ استعمال کر سکتے ہیں؟
جواب:جس بچی کے والدین زندہ ہیں ایسی بچی یتیم نہیں
کہلائے گی، ماں باپ کے الگ ہونے سے بچہ یتیم نہیں ہو جاتا، یتیم تو وہ ہوتا جس کا
باپ بچپن میں مرجاتا ہے۔ اور یہ افسوس کی بات ہے کہ ماں باپ زندہ ہوتے ہوئے بچی کی
پرورش نہیں کر رہے ہیں۔اگر ننہال میں رہتے ہوئے اس بچی کی ضرورت نہیں پوری ہوتی ہوتو
ایسی صورت میں اس بچی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے زکوۃ دے سکتے ہیں اور اگر نانا
نانی بچی کی ضرورت پوری کر دیتے ہوں تو
پھر زکوۃ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
سوال: دعا کی ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر
شئیر کرتے وقت آمین کہہ سکتے ہیں؟
جواب:دعا والی ویڈیو پر آمین نہیں کہنا ہے، نہ شیئر
کرتے ہوئے ،نہ دیکھتے اورنہ سنتے ہوئے
کیونکہ یہ دعا اصل نہیں ہے بلکہ نقل ہے۔ آمین ہمیں اس دعا پر کہنا چاہیے جو اصل
ہو۔
سوال: عورتوں کی نماز گھر میں افضل ہے تو
کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ مسجد میں آنا اس لئے چھوڑ دیں کہ گھر میں پڑھنا افضل ہے
اور انہیں جماعت کی نماز سے زیادہ ثواب ملے گا؟
جواب:اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عورتوں کی افضل نمازاپنے
گھر میں ہے لہذا وہ گھر میں نماز پڑھتے
ہوئے افضلیت کا ثواب پاسکتی ہے تاہم مسجد جانا چاہتی ہو تو کوئی اسے روک نہیں سکتا
ہے۔ اس وجہ سے وہ اپنی چاہت کے حساب سے مسجد میں بھی پڑھ سکتی ہے اور گھر میں
پڑھنا چاہے تو گھر میں پڑھ سکتی ہے، اس معاملے میں وہ با اختیار ہے۔عورتوں کی نماز
گھر میں افضل ہونے کے باوجود عہد رسو ل میں خواتین مسجد میں آکر بھی نماز ادا کیا
کرتی تھیں اس لئے گھر کی افضلیت اپنی جگہ، عورتیں نماز کے لئے مسجد آسکتی ہیں۔
سوال: کیا امام کا سترہ مقتدی خواتین کے
لئے کافی ہوگا؟
جواب:ایک امام کے پیچھے جتنے لوگ نماز پڑھ رہے ہیں ان
تمام لوگوں کا سترہ امام ہوتا ہے خواہ مرد ہو یا عورت ہو۔ امام کے پیچھے خواتین
بھی ہوں تو وہ امام جیسے مردوں کے لیے سترہ ہے ویسے عورتوں کے لیے بھی سترہ ہے۔
سوال: زکوۃ کی رقم بطور عیدی دے سکتے ہیں
مصارف زکوۃ کو؟
جواب: پہلی بات یہ ہے کہ زکوۃ کے آٹھ مصارف متعین ہیں صرف انہی مصارف میں زکوۃ کا مال خرچ کر سکتے
ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ زکوۃ کو زکوۃ کی صورت ہی میں مستحق کو دینا ہے، اس کو
عیدی بنا کر یا قرض اور اجرت و مزدوی کی صورت میں نہیں دے سکتے ہیں اس وجہ سے کسی مستحق کو بھی زکوۃ دینا ہے تو بطور
زکوۃ دینا ہے، نہ کہ عیدی کی حیثیت سے۔
سوال: کیا ہم فطرانہ رقم کی صورت میں غزہ
کے مسلمانوں کی مدد کے لئے بھیج سکتے ہیں جبکہ غلہ دینا افضل ہے؟
جواب:فطرانہ میں اصل یہ ہے کہ آپ جہاں پر موجود ہیں
وہاں کے غریب و مسکین کو اناج کی صورت میں فطرہ دیں کیونکہ یہ مسکین کی غذا ہے۔
اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ غزہ کے مسلمان اس وقت بے حد محتاج و مسکین ہیں
لہذا ان کی بھی ہر طرح سے امداد کرنی چاہیے اس کے لیے آپ الگ سے امداد کریں اور
فطرانہ اپنے محلے سماج کے مسکین کو اناج کی صورت میں دیں۔
سوال: بیوہ عورت ایک شادی شدہ مرد سے جس
کی بیوی انتقال کر گئی ہے ،نکاح کرنا چاہتی ہے تو کیا نکاح کے بعد ولیمہ کرنا
ضروری ہے؟
جواب:بیوہ عورت شادی شدہ مرد سے نکاح کرسکتی ہے اور
ولیمہ کا مسئلہ بیوہ عورت کے ذمہ نہیں ہے، یہ تو مرد کا عمل ہے۔ مرد کو چاہیے کہ
اسے جو استطاعت ہے اس کے مطابق رخصتی کے بعد ولیمہ کھلائے اس ولیمہ سے ایک تو خوشی
کا اظہار ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ شادی کا اس میں اعلان بھی ہو جاتا ہے۔ولیمہ کوئی
بھاری بھرکم یا گوشت کھلانے کی بڑی دعوت نہیں ہے ، شادی کرنے والے کو جتنی
استطاعت ہے، اپنی استطاعت کے حساب سے اپنے کچھ
خاص قریبی لوگوں کو بھی ولیمہ
کھلاسکتا ہے۔
سوال: چھوٹے بچو کو جن کے اوپر ابھی روزے
فرض نہیں ہے ان کو عادت کروانے کے لحاظ سے ہم روزہ رکھوائیں تو کیا ان بچو کو بھی
روزے کا پورا ثواب ملتا ہے اور اگر ان کو بھوک لگے اور وہ روئیں اور بالکل نہ رہ
پائیں تو کیا ہمیں اُن کا روزہ تڑوا دینا چاہیے اور اس میں کوئی گناہ تو نہیں
ہوگا؟
جواب:تربیت کے طور پر بچوں سے روزہ رکھوانے کا پورا
ثواب ملے گا جیسے نماز اور دیگر عبادات کا ملتا ہے۔ اور جو بچہ روزہ سے ہو مگر دن
کے کسی حصے میں رونے بلکنے یا بھوک و پیاس کی وجہ سے روزہ توڑنے کی نوبت آجائے تو
اس کا روزہ توڑوا سکتے ہیں کیونکہ یہ اس کا فرض روزہ نہیں ہے۔اس میں گناہ کی کوئی
بات نہیں ہے۔
سوال: جب امام قنوت وتر پڑھائے تو مقتدی
کو بھی ساتھ میں قنوت پڑھنا ہے اور آمین نہیں کہنا ہے؟
جواب:جب امام دعائے قنوت میں جہری طور پر دعا پڑھ رہا
ہو تو ایسی صورت میں مقتدی کو پیچھے دعائے قنوت نہیں پڑھنا بلکہ مقتدی کو دعاؤں پر
فقط آمین کہنا ہے یا اگر وہ خاموش بھی رہے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال: اگر شوہر سید ہو اور بیوی شیخ ہو
تو ان کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟
جواب:زکوۃ کس کو دینا ہے اس کا اعتبار ہوگا، بیوی کا
کفیل اس کا شوہر ہوتا ہے اس لئے اصل اعتبار شوہر کا ہوگا ۔اگر شوہر واقعتا اہل بیت
سے ہے اور وہ فقیر و محتاج بھی ہے تو اسے زکوۃ نہیں دیں گے۔
سوال: اگرکسی کے پاس اکیس کیرٹ کا گیارہ تولہ سونا ہو تو اس کی زکوۃ
کتنی بنے گی ؟
جواب:آپ کو سونا گرام کے حساب سے لکھنا چاہیے تھا
کیونکہ تولہ میں فرق ہوتا ہے۔ اگر دس گرام کے حساب سے تولہ مانتے ہیں جو عام طور
پر یہی رائج ہے تو 110 گرام سونا بنتا ہے۔ اور اسے چوبیس قیراط کا بناتے ہیں تو اس
کا وزن 96.25 گرام بنتا ہے یعنی یہ زکوۃ کے نصاب کو پہنچ رہا ہے۔ اب اپنے شہر کے
حساب سے اس کی قیمت معلوم کریں جو قیمت ہوگی اس کا چالیسواں حصہ زکوۃ ادا کریں۔
سوال: میری شادی کی عمر ہو چکی ہے لیکن
میرے والدین یہ کہہ کر میری شادی نہیں کروا رہے ہیں کہ ہمارے پاس مالی وسائل نہیں
ہیں اور ہم قرض میں مبتلا ہیں۔ میں شدید اضطراب اور ذہنی کشمکش کا شکار ہوں۔ احتلام
کی شکایت بڑھتی جا رہی ہے اور شہوت پر قابو رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔ نگاہوں کی حفاظت
بھی نہیں کر پا رہی ہوں، یہاں تک کہ اب لڑکیوں کے بارے میں ناپسندیدہ اور غلط
خیالات ذہن میں آرہے ہیں جو مزید بےچینی اور گناہ کے خوف میں مبتلا کر رہے ہیں۔
روزے بھی رکھتی ہوں مگر پھر بھی نفس پر قابو نہیں رہتا۔ اب تو گھر سے نکلنا بھی
چھوڑ دیا ہے۔ براہ کرم میری رہنمائی فرمائیں اور کوئی مؤثر دعا بتائیں؟
جواب:ایک طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
نوجوانوں کو شادی کا حکم دیا ہے جیساکہ آپ کا فرمان ہے:
يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنْ اسْتَطَاعَ منكُم
الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ ، وَأَحْصَنُ
لِلْفَرْجِ ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ
وِجَاءٌ(صحیح البخاري:5066و صحیح مسلم :1400)
ترجمہ :اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو کوئی
استطاعت رکھتا ہو وہ ضرور شادی کرے کیونکہ یہ (شادی) نگاہوں کو بہت جھکانے والی
اور شرمگاہ کی خوب حفاظت کرنے والی ہے اور جو شادی کی طاقت نہیں رکھتا وہ روزہ
رکھے ، پس یہ اس کے لئے ڈھال ہوگا۔
دوسری طرف پیغام نکاح ملنے پر اپنی ولیہ کی شادی نہ
کرنا انتہائی فساد کا باعث ہے جیساکہ اس بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ
فرمایا ہے۔
إذا خطبَ إليكم مَن ترضَونَ دينَه وخلقَه ، فزوِّجوهُ
إلَّا تفعلوا تَكن فتنةٌ في الأرضِ وفسادٌ عريضٌ(صحيح الترمذي:1084)
ترجمہ:اگر تمہارے ہاں کوئی ایسا آدمی نکاح کا پیغام
بھیجے جس کے دین اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس کے ساتھ (اپنی ولیہ) کی شادی کر
دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین میں بہت بڑا فتنہ اور فساد پھیلے گا۔
زمانے کے حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ عموما آج کل شادی کا
پیغام لڑکوں کی طرف بھیجنا پڑتا ہے لیکن پھر بھی مذکورہ بالا حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے
غور کریں تو جو لڑکی شادی کے لائق ہو گئی ہو اور اسے گناہ میں واقع ہونے کا خطرہ
ہو اس کے باوجود اس کاولی شادی نہ کرائے تو یہ بڑا ظلم اور فرد و معاشرے کی تباہی کا سبب ہے۔ایسی صورت میں پہلے مرحلے میں
لڑکی اپنے گھر کے لوگوں سے شادی کے معاملے میں کھل کر بات کرے اور شادی کرانے کے
لیے تاکیدا حکم دے، اگر وہ اس پر راضی نہ ہوں تو پھر لڑکی کو چاہیے کہ اپنے قریبی
کسی نیک آدمی یا عالم کا تعاون حاصل کرے ۔ اور ان کو اپنا ولی
بنا کر مناسب جگہ رشتہ کرلے، کسی غریب لڑکا یا کسی دوسری ذات و برادری کا مسلمان
ہی کیوں نہ ہو جو جہیز اور لین دین سے
اوپر اٹھ کر سنت کے مطابق شادی کرنا چاہے اسے اپنی شادی کرلے حتی کہ کوئی شادی شدہ
مرد ہی کیوں نہ مل جائے اس سے شادی کرنے میں
تامل نہ کرے۔جہاں تک دعا کا مسئلہ ہے تو اس کا باب بہت وسیع ہے ، نبی ﷺ نے ہمیں
شادی کے لئے کوئی خاص دعا نہیں بتائی ہے جس کے پڑھنے سے کسی کی شادی ہوجائے، شادی
ایک عمل ہے اس کے لئے کوشش کرنا ہے نیز اپنی زبان میں اللہ سے شادی کی آسانی اور
نیک شوہر کے لئے دعابھی مانگنی چاہئے ۔ دعا کے لئے بطور خاص افضل اوقات کا اہتمام
کریں جیسے نماز کے سجدوں میں یا رات کے آخری پہر میں یا جمعہ کی قبولیت کی ساعت
میں وغیر ۔
سوال: عیدین کی نماز دوگانہ کے بعد خطبہ
کے آخر میں اجتماعی دعا کرنا شرعاً کیسا ہے؟
جواب: عیدین کے خطبہ کے بعد یا خطبہ کے آخر میں
اجتماعی طور پر دعا کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے اس لئے کسی امام کو نماز عید میں اجتماعی طور پر دعا نہیں
کرنا چاہئے۔ امام اگر اپنے خطبہ کے آخر میں دعائیہ کلام کہتا ہے اور مقتدی اس پر
آمین کہتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ اسے اجتماعی دعا نہیں کہیں گے ۔
سوال: میری امی نے چھ دن پہلے فطرانہ
نکال دیا ہے اور گھر کے بغل کی عورتیں بول رہی ہیں کہ یہ فطرانہ نہیں مانا جائے
گا، اس بارے میں صحیح بات کیا ہے؟
جواب: فطرانہ کا اصل وقت عید کا چاند نکلنے کے بعد سے لے کر عید کی
نماز پڑھنے سے پہلے تک ہے تاہم عید سے ایک
یا دو دن پہلے بھی فطرانہ دے سکتے ہیں۔ اگر چھ دن پہلے آپ کی امی نے فطرانہ دے دیا
تو یہ صدقہ ہوگا، الحمد للہ آپ لوگوں کو
صدقہ کا اجر ملے گا۔ اب پھر سے عید سے ایک یا دو دن پہلے یا شب عید میں عید کی
نماز سے پہلے پہلے دوبارہ گھر والوں کی طرف سے فطرانہ ادا کردیں۔ اللہ کے راستے
میں خرچ کرنے سے مال نہیں گھٹتا ہے۔
سوال: میری مامی نے گاؤں میں دس سال قبل
ایک بنجر زمین خریدی تھی، اس زمین میں نہ کھیتی ہے اور نہ گھر اور مستقبل میں اس
زمین کے تعلّق سے کچھ فیصلہ نہیں کیا گیا کہ اُس زمین کو بیچنا ہے یا گھر بنا کر
رینٹ پر دینا ہے یا کھیتی کرنی ہے اور فی الحال اس زمین سے نہ کوئی فائدہ مل رہا
ہے، نہ نقصان تواس زمین کی زکوٰۃ ہے دینا ہے یا نہیں دینا ہے؟
جواب: اس زمین پر کوئی زکوۃ نہیں ہے کیونکہ اس کے
بیچنے کی نیت نہیں کی گئی ہے۔ اگر اس پہ گھر بنائیں یا کاشت کریں یا کرایہ پر دیں
تو ان صورتوں میں بھی زمین پر زکوۃ نہیں ہوگی ۔ زکوۃ صرف ایک صورت میں دینی ہوگی
جب اسے بیچنے کی نیت کی جائے ۔ جب بیچنے کی نیت کرلی جائے گی اس وقت یہ سامان
تجارت ہوجائے گی پھر اس کے بعد جب سال مکمل ہوگا
اس کی زکوۃ دینی ہوگی اور بیچنے کی نیت جب تک رہے تب تک ہرسال زکوۃ دینی
ہوگی ۔ بیچنے کے علاوہ کوئی دوسری نیت ہو تو
زکوۃ نہیں دینی ہوگی۔
سوال: ہم لوگ ہرسال رمضان میں زکوۃ دیتے
ہیں ویسے ہی اندازہ کرکے ، کیا یہ صحیح ہے یا اس میں کوئی حساب کتاب کرنے کی ضرورت
ہے، نقدی اور سونا و چاندی میں؟
جواب:زکوۃ کا تعلق
رمضان سے نہیں ہے بلکہ جب آپ کے مال پر سال مکمل ہو اور وہ نصاب کے برابر ہو تو
شریعت کی متعین مقدار میں زکوۃ دینی ہوگی
۔ اندازے سے کچھ دے دینا زکوۃ نہیں ہے، اس طرح
زکوۃ ادا نہیں ہوگی ۔آپ دیکھیں کہ جونقد پیسہ جمع ہے یا کاروبار میں لگا ہے
یا کسی کو قرض دیا ہے وہ سب کتنا ہے اور کس
پر سال مکمل ہوا ہے ، اسی طرح سونا کتنا ہے اور چاندی کتنی ہے ۔ ان سب کا حساب
لگائیں ۔ سونا پچاسی گرام یا اس سے زیادہ ہو اور اس پر سال گزر جائے تو اس کی قیمت میں سے ڈھائی فیصد زکوۃ دینی ہوگی ۔
چاندی 595 گرام یا اس سے زیادہ ہو اور اس
پر سال گزر جائے تو اس کی قیمت میں سے ڈھائی فیصد زکوۃ دینی ہوگی ۔ نقدی روپیہ
چاندی کے نصاب کے حساب سے ہوجائے اور اس پر سال گزر جائے تو اس کی زکوۃ دینی ہوگی
۔
سوال:ایک آدمی ایک لاکھ تھوڑا تھوڑا کر
کے جمع کیا ہو اور اس پر سال گزر گیا ہو تو کیا اس پر زکوۃ ہے؟
جواب:تھوڑا تھوڑا کرکے
ایک لاکھ جمع شدہ پیسے پر زکوۃ نہیں دینی ہے ۔ آپ یہ دیکھیں کہ اس پیسے میں کتنے پیسے ہیں جس پر سال یا کم ازکم سال کے
قریب وقت ہوا ہے ۔ اگر یہ پیسے چاندی کے نصاب کی قیمت کے برابر ہوجائے تو اس کی
زکوۃ نکالیں اور نصاب کو نہ پہنچے تو اس کی زکوۃ نہیں دینی ہے۔ہاں ایک صورت یہ ہے
کہ تنخواہ والوں کے پیسے بچت کے طور پر ماہانہ حساب سے کچھ کچھ ہی جمع ہوتے ہیں ،
ایسی صورت میں اگر آپ کے پاس پیسہ ہمیشہ اسی طرح تھوڑاتھوڑا کرکےسال بھر جمع ہوا
کرتا ہے تو سال کا کوئی ایک مہینہ مثلا رمضان مقرر کرلیں اور ہر سال رمضان میں جمع
شدہ پیسوں کی زکوۃ ادا کیا کریں ۔ اس وقت
یہ نہیں دیکھنا ہے کہ کس پیسے پر سال گزرا ہے بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ رمضان میں بچت
کے طور پر مکمل پیسے کتنے ہیں ، اگر وہ سارے پیسے مل کر نصاب بھر ہوجائیں تو اس
میں سے ڈھائی فیصد زکوۃ دیں۔
سوال: کیا عورت عورتوں کو عید کی نماز
مسجد یا کہیں اور پڑھا سکتی ہے اور کیا
مرد صرف عورتوں کو نماز پڑھا سکتا ہے یا نہیں، برائے کرم دلیل کی طرف بھی رہنمائی
کریں؟
جواب:اصل میں عورتوں کے لئے عید کی نماز مردوں کے ساتھ
ہی ہے الگ سے عورتوں کی عید کی نماز کا ثبوت نہیں ہے خواہ کوئی مرد پڑھائے یا عورت
پڑھائے۔ اس وجہ سے اس مسئلہ میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے۔شیخ ابن عثیمینؒ اس
بات کے قائل ہیں کہ عورتوں کے لیے الگ سے عید کی نماز نہیں ہے لیکن شیخ ابن بازؒ
اس کی اجازت دیتے ہیں یعنی عورتیں الگ سے عید کی نماز قائم کر سکتی ہیں۔
بہرکیف!عورتوں کے معاملے میں افضل اور صحیح صورت تو یہی
ہے کہ عید گاہ میں عورتوں کی نماز کے لیے بھی اہتمام کیا جائے تاکہ شریعت کے مطابق
عورتیں عید کی نماز پڑھیں۔
سوال:اپنا خون کپڑے پر لگ جائے تو کیا
ایسے کپڑے میں نماز ہو جائے گی؟
جواب:حکما خون نجس ہے اس لئے کپڑے پہ اس کے لگنے سے اس
کو زائل کرنا ضروری ہے۔جس کے کپڑے میں خون لگا ہو اور نماز سے پہلے نظر آجائے تو
پہلے اس کی صفائی کرلے پھر نماز پڑھے او ر جو نماز پڑھ رہا تھا اس دوران اس کے
کپڑے پہ خون لگا ہوا معلوم ہو تو اس کی دو حالت ہیں۔ اگر معمولی خون لگاہو تو نماز
توڑنے کی ضرورت نہیں ہے ، اس میں نماز ہوجائے گی لیکن اگر زیادہ مقدار میں خون لگا
ہو تو نماز توڑ دے اور پہلے اسے کپڑے سے زائل کرے پھر اس میں نماز ادا کرے۔ شیخ
ابن باز ؒ سے معمولی خون لگے کپڑے میں نماز کا حکم پوچھا گیا تو شیخ نے جواب دیا
کہ معمولی خون معاف ہے لیکن اگر زیادہ خون لگا ہوا ہو تو یہ معاف نہیں ہے پس اگر کسی
کو یہ علم تھا کہ اس کے کپڑے یا اس کے بدن پر زیادہ مقدار میں خون لگا ہو اہے اور
اس نے نماز پڑھی تواس کی نماز صحیح نہیں ہے۔(بن بازڈاٹ کام)
سوال: اگر کوئی عورت روزے کی حالت میں
ہو، فجر کے بعد اذکار کر رہی ہو اور اشراق کا انتظار کر رہی ہو، تب اس کا شوہر اسے
محبت کے لیے بلائے اور کہے کہ وہ صرف پیار کرنا چاہتا ہے کیونکہ نیند نہیں آ رہی
اور بےچینی ہو رہی ہےتو بیوی نیتاً شوہر کی اطاعت کے لیے اس کے پاس چلی جائےلیکن
اگر شوہر زبردستی ہمبستری کر لے جبکہ بیوی مسلسل منع کر رہی ہوتو ایسی صورت میں
شریعت کا کیا حکم ہے،یہ بھی واضح رہے کہ شوہر دین سے دور ہے، نماز کا پابند نہیں
ہے، روزے رکھتا ہے اور بیوی اسے نرمی کے ساتھ دین کی طرف بلاتی ہے، سمجھانے کی
کوشش کرتی ہے، لیکن وہ اس پر عمل نہیں کرتا،کیا ایسی صورت میں بیوی گناہگار ہوگی
اور اگر آئندہ ایسا معاملہ پیش آئے تو بیوی کو کیا کرنا چاہیے نیز بیوی اللہ
تعالیٰ سے سچے دل سے توبہ کر چکی ہے، مگر وہ چاہتی ہے کہ آئندہ ایسا نہ ہو؟
جواب: اگر شوہر نے بیوی کو بستر پر بلایا اور بیوی محض
اس نیت سے گئی کہ سونے اور آرام پہنچانے میں شوہر کا ساتھ دے مگر شوہر نے جبرا
روزہ کی حالت میں بیوی سے جماع کرلیا، بیوی نے جماع سے بچنے کی پوری کوشش کی مگر
پھر بھی جبرا شوہر نے اس سے جماع کرلیا تو اس صورت میں بیوی گنہگار نہیں ہوگی ، صرف شوہر
گنہگار ہوگا۔ اسے اللہ سے توبہ کے ساتھ اس روزے کی قضا اور کفارہ بھی دینا ہے۔
کفارہ میں ایک غلام آزاد کرنا یا مسلسل دو ماہ کا روزہ رکھنا یا پھر ساٹھ مسکین کو
کھانا کھلانا ہے۔
اگر جماع والے کام میں بیوی کی رضامندی بھی شامل ہو یا
شوہر نےبیوی کو بستر پربلایا ،جماع کا ارادہ ظاہر کیا اور بیوی نے اس کام سے شوہر
کو روکنے یا خود کو بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی تو پھر بیوی بھی گنہگار ہے اس کے
ذمہ بھی توبہ کے ساتھ قضا اور کفارہ دینا ہے۔
آئندہ کے لئے بیوی احتیاط کرے اور ایک بیوی کو اپنے
شوہر کی طبیعت اور اس کی ذہنیت کا علم پوری طرح ہوتا ہے اس وجہ سے وہ آگے کبھی اس
طرح کے کام پر شوہر کا تعاون نہ کرے ۔ دنیاوی معاملات میں شوہر کی اطاعت کرے مگر
روزہ کی حالت میں شوہر کی ایسی کوئی بات نہ مانے جس سے جماع میں واقع ہوجائے۔ نیز
اس کے ذمہ اپنے شوہر کو نماز کی تعلیم و ترغیب دینا بھی ہے۔ بغیر نماز کے آدمی
مسلمان بھی نہیں رہتا ہے اور ایسے شوہر کے ساتھ ایک عورت کا زندگی گزارنا بھی درست
نہیں ہوتا اس لئےاس کی بے عملی دور کرے اور نماز کی پابندی کرائے۔
سوال:ہمارے یہاں ایک مسجد ہے جو ذرا
چھوٹی ہے جس میں عورتوں کی نماز کے لیے جگہ نہیں ہوتی تھی اس بنا پر اسی مسجد کے
پاس میں ہی کچھ جگہ لی گئی ہے اور جگہ وقتی طور کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے لی
گئی ہے تاکہ عورتوں کو جمعہ ، تراویح ،عیدین کی نمازیں با جماعت ادا کرائی جاسکیں
اور اب وہاں نماز ہوتی ہے مائک کے ذریعہ۔مسجد اور اس جگہ کے درمیان دو سے تین گھر
کا فاصلہ ہے تو کیا وہاں عورتوں کی نماز ہو جاتی ہے حالانکہ یہ محض مجبوری کے سبب
ہے تاکہ عورتوں کو مزید دین کی طرف راغب کیا جا سکے؟
جواب:جو جگہ عورتوں کی نماز کے لئے مسجد سے ہٹ کر لی
گئی ہے اور وہاں عورتیں مسجد کے امام کی اقتداء میں لاؤڈاسپیکر کے ذریعہ نماز ادا
کرتی ہیں اس سے ان کی نماز نہیں ہوگی کیونکہ یہ جگہ مسجد کا حصہ نہیں ہے اور نہ ہی
یہ جگہ مسجد سے متصل ہے۔ مسجد کے امام کی اقتداء مسجد میں ہی کی جائے گی اس سے
باہر رہ کر اقتداء نہیں کی جائے گی۔ ہاں اگر صفیں متصل ہوں تو مسجد سے باہر بھی
لوگ نماز ادا کرسکتے ہیں۔ مذکورہ بالا صورت میں عورتوں کی جگہ مسجد سے الگ دو تین
گھروں کا فاصلہ ہےاس وجہ سے عورتوں کا
مسجد کے امام کی اقتداء میں نماز درست نہیں ہے خواہ کوئی بھی مجبوری ہو۔عورتوں کی
نماز کے لئے مسجد سے متصل جگہ لے کر اس کو مسجد میں داخل کیا جائے یا مسجد میں ہی
اوپر یا نیچے انتظام کیا جائے ۔ اور جو جگہ بروقت خریدی گئی ہے اسے تعلیم گاہ
بنادی جائے تاکہ اس میں عورت حیض کی حالت میں بھی بیٹھ سکےکیونکہ حیض والی مسجد
میں نہیں بیٹھ سکتی ہے۔
سوال: اگر کوئی نوجوان لڑکاو لڑکی نکاح
سے پہلے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہوں اور ملاقات بھی کر تے ہوں یعنی زنا بھی کرلئے ہوں پھر بعد میں نکاح کر لیے ہوں تو نکاح
کے بعد جو اولاد ہوگی ، وہ حرام ہوگی؟
جواب: اجنبی لڑکاو لڑکی
کا آپس میں محبت کرنا حرام ہے اور ان دونوں نے جو زناکاری کی ہے وہ بہت بڑی معصیت
اور گناہ کبیرہ ہے۔ اگر ان دونوں نے اپنے اس گناہ سے سچے دل سے توبہ کرکےآپس میں
شرعی طور پر نکاح کیا ہو، تو یہ نکاح جائز ہے اور پھر اس نکاح کے بعد جو بچے پیدا
ہوں گے وہ بچے حرام کے نہیں کہلائیں گے بلکہ صحیح النسب کہلائیں گے اور اپنے
والدین کی طرف منسوب کئے جائیں گے۔
ہاں ، اگر دونوں نے توبہ نہ کی ہو اور شرعی طور پرعقد
نکاح نہ کیا ہو پھر ان دونوں کا رشتہ اب بھی حرام کا ہی کہلائے گا اور ان سےپیدا
ہونے والے بچےزنا کے بچے کہلائیں گے ۔
سوال:اگر شوہر طاق راتوں میں یعنی لیلۃ
القدر میں اپنی حاجت کو بلائے تو کیا بیوی کو جانا چاہیے،لیلۃ القدر ہونے کی وجہ
سے اس پر گناہ تو نہیں ہوگا؟
جواب:اگر کوئی شوہرجنسی ضرورت کے تحت اپنی بیوی کو
رمضان کی طاق راتوں میں بلائے تو بیوی کو جانا چاہیے کیونکہ بیوی پر شوہر کی اطاعت
واجب ہے۔ لیلۃ القدر میں جاگنایقینا بڑے ثواب کا کام ہے لیکن پھر بھی یہ کام نفل
ہے جبکہ شوہر کے بلانے پر بیوی کا اس کے پاس جانا واجب ہے۔جب رمضان کی طاق ہو اور
شوہر ہمبستری کے لئے بلائے تو بیوی کو جانا چاہئے، انکار نہیں کرنا چاہئے ۔ضرورت
تو کچھ دیر کی ہوتی ہے، شوہر کواپنی ضرورت پوری کرنے دے پھر بیوی غسل کرکے آرام سے
عبادت کرے۔ شوہر کی ضرورت پوری کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پھر ساری رات شوہر کے
پاس رہے گی، وہ اس سے فارغ ہونے کے بعد غسل کر کے اپنی عبادت کر سکتی ہے ، اس میں
کوئی مسئلہ نہیں ہے۔اس جگہ شوہر کے لئے ایک نصیحت ہے کہ رمضان کی طاق راتوں میں
خود کو عبادت کے لئے متفرغ کریں بلکہ پورے گھروالوں کے ساتھ عبادت کریں جیسے نبی ﷺ
رمضان کے آخری عشرہ میں اپنے اہل وعیال کو بھی عبادت کے لئے جگاتے ۔
سوال:مسجد میں جماعت ہورہی ہے ، ایک شخص
بعد میں آیااور امام سورہ فاتحہ پڑھ کر دوسری قرات کررہا ہے تو اس وقت دعائے ثنا
پڑھنا کیسا ہے؟
جواب: مسبوق مسجد میں اس وقت آتا ہے جب امام سورہ فاتحہ
کے بعد قرآن کی قرات کر رہا ہے تو ایسی صورت میں وہ جلدی سے سورہ فاتحہ پڑھ لے گا
اور پھر خاموشی سے امام کی قرات سنے گا کیونکہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے کہ
جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو۔ اس جگہ پرمسبوق کو دعائے ثنا نہیں پڑھنا ہے،
فقط سورہ فاتحہ پڑھنا ہے کیونکہ سورہ فاتحہ پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی ہے، یہ نماز
کا رکن ہے۔
سوال:مجھے پیشاب سے فارغ ہونے کے بعد،
احتیاط کے باوجود پیشاب کا قطرہ خارج ہو جاتا ہے، یہ معلوم کرنابھی مشکل ہوتا ہے
کہ کپڑے کے کس حصے پر لگا ہے یا نہیں لگا ہےحتی کہ دوران وضو بھی قطرہ خارج ہوتا
ہے بلکہ وضو کے کچھ منٹ کے بعدبھی نماز پڑھنے سے پہلے قطرہ خارج ہوتا ہے اس وجہ سے
مجھے دوبارہ پھر سے طہارت اور وضو کرنا پڑتا ہے یعنی ایک ہی نماز کے لئے بار بار
طہارت اور وضو کرنا پڑتا ہے ۔ ایسے میں میرے لئے کیا حکم ہے؟
جواب:جس کو پیشاب کے قطروں کی شکایت ہے وہ آدمی ہر نماز
کے وقت طہارت اور وضو کرے گا اور ایک وضو
سے ایک وقت کی ساری نماز پڑھے گا جیسے استحاضہ والی عورت کرتی ہے، جسے ہمیشہ بیماری کا خون آتا رہتاہے۔طہارت
کا طریقہ یہ ہوگا کہ وہ آدمی وضو سے پہلے شرمگاہ اور جہاں کپڑے میں پیشاب لگا ہے
اس کی اچھی طرح صفائی کرلے اور ممکن ہو تو پیڈ یا چڈی کا استعمال کرے تاکہ وضو اور
نماز کے دوران زمین پرپیشاب نہ گرے۔ پھر وضو کرے اور ایک وضو سے ایک وقت کی ساری نمازیں یعنی فرض و سنت ادا کرے اور اس
دوران پیشاب کے قطرے آنے کا احساس ہوتو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، نماز اپنی جگہ
درست ہے اور باربار وضو کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے، ایک ہی وضو کافی ہے۔
سوال:کیا خواتین ماہ واری کے ایام میں
مسجد کو آسکتی ہیں، ہمارے یہاں ایک مسابقہ رکھا گیا ہے جس کا امتحان مسجد میں رہے
گا تو ایسے موقع پر وہ عورتیں جو ماہ واری کے ایام سے گزر رہی ہیں کیا وہ مسجد میں
آکر گھنٹہ ،دو گھنٹے مسجد میں بیٹھ کر امتحان لکھ سکتی ہیں؟
جواب: درس و تدریس اور تعلیم وتربیت سے متعلق آج کل
مساجد میں خواتین کے لئے مختلف قسم کے پروگرام ترتیب دئے جاتے ہیں، اس میں شرعا
کوئی حرج نہیں ہے ۔ مساجد میں عورتوں کا اجتماع اور دینی و علمی پروگرام کرنا جائز
ہے مگر ہم سب کو معلوم ہے کہ بلوغت کی عمر سے لے کر پچاس ساٹھ سال تک کی خواتین کو
ہر ماہ پابندی سے حیض آتا ہے ۔ مسجد میں عورتوں کا پروگرام رکھنے سے ان عورتوں کے
لئے رکاوٹ پیدا ہوتی ہے جو حیض کی حالت میں ہوتی ہیں۔ حیض کی حالت میں عورتوں کے
لئے مسجد میں ٹھہرنا جائز نہیں ہے ، اس بارے میں اکثر اہل علم کا یہی قول ہے ۔ اس
سلسلے میں صحیحین کی ایک حدیث سے (جوعیدکی نمازسے متعلق ہے)استدلال کیا جاتا ہے جس
میں حائضہ کو حکم دیا گیا ہے: وَيَعْتَزِلُ الْحُيَّضُ الْمُصَلَّى(صحیح
البخاری:324) یعنی حائضہ عورت جائے نماز سے دور رہے۔
حیض والی عورت عیدگاہ جاسکتی ہے مگر اسے نماز کی جگہ سے
دور رہنے کا حکم ہوا ہے جبکہ وہ مصلی ہے اور مسجد تو خاص نماز پڑھنے کی ہی جگہ ہے
اس وجہ حائضہ مسجد میں نہیں بیٹھ سکتی ہے۔ مسجد میں درس قرآن ہو، درس حدیث ہو،
حلقہ تحفیظ القرآن الکریم ہو، مسابقہ ہو یا علمی و تربتی کسی قسم کا اجتماع ہو
حائضہ عورت مسجد میں منعقد ہونے والے ایسے کسی پروگرام میں شریک نہیں ہوسکتی ہے۔
عورتوں کے سلسلے میں بہتر ہے کہ مسجد سے الگ دوسری جگہ پردینی اجتماع کیا جائے تاکہ سبھی خواتین اس میں شامل
ہوسکیں ۔یاد رہے حائضہ مسجد کے گیٹ کے اندر داخل ہوکر نماز کی جگہوں پرنہیں ٹھہر
سکتی ہے ، مسجد سے باہر رہتے ہوئے درس وغیرہ سن سکے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
سوال:اگر کوئی شخص فطرہ کا پیسہ یا غلہ
جمع کرکے رکھا تھا فطرہ کی نیت سے لیکن بھول کر عام صدقہ کر دیا تو اس کا کیا حکم
ہے؟
جواب:پہلی بات یہ ہے کہ فطرہ میں پیسہ نہیں دینا چاہئے،
فطرہ اناج سے دینا چاہئے کیونکہ نبی ﷺ نے اناج سے ہی فطرہ دینے کا حکم دیا ہے، یہ
مساکین کی غذا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کسی نے اپنے گھر میں فطرہ دینے کی نیت سے
اناج رکھا ہوا تھا اسے صدقہ میں کسی کو دے دیا اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جب فطرہ
دینے کا وقت آئے وہ گھر میں موجود اناج میں سے فطرہ ادا کردے اور جو اناج صدقہ
کردیا وہ صدقہ ہوگیا، اس میں صدقہ کا اجر ملے گا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔