آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(62)
جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹرحی السلامہ- سعودی عرب
سوال: اگر ہم تراویح پڑھنے تاخیر سے
جائیں اس حال میں کہ عشاء کی ایک چھوٹ جائے تو امام کے سلام پھیرنے کے وقت ہم بھی
سلام پھیریں گے یا بغیر سلام کے اٹھ کر ایک رکعت پڑھیں گے اور تشہد بھی پڑھیں گے
یا نہیں اور اس میں سجدہ سہو بھی ہوگا۔ دو رکعت چھوٹ جانے کا بھی مسئلہ بتادیں نیز
اگر کسی نے لاعلمی میں امام کے ساتھ سلام بھی پھیرا ہو اس کی نماز ہوئی یا قضا
کرنی ہوگی؟
جواب:جماعت والی نماز میں جو تاخیر سے شامل ہو اسے
مسبوق کہتے ہیں۔ اگر مسبوق سے ایک رکعت چھوٹ جائے تو امام کے سلام پھیرتے وقت اسے
سلام نہیں پھیرنا ہے بلکہ امام کے سلام پھرنے کے بعد تکبیر کہہ کر اسے کھڑا ہو
جانا ہے اور اسے اپنی ایک رکعت مکمل کرکے تشہد میں بیٹھ کر تشہد کے سارے اذکار
پڑھنے ہیں پھر سلام پھیرنا ہے اور اس میں کوئی سجدہ سہو نہیں کرنا ہے۔ اگر دو رکعت
چھوٹی ہو تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد اسے سلام پھیرے بغیر کھڑا ہو جانا ہے اور
اپنی چھوٹی ہوئی دو رکعت ادا کرکے تشہد میں بیٹھنا ہے، سارے اذکار پڑھنا ہے پھر
سلام پھیر دینا ہے۔
اگر کسی مسبوق نے (جس کی ایک رکعت یا دو رکعت چھوٹی
ہو)امام کے ساتھ سلام پھیر دیا تو اس کی وجہ سے اس کی نماز باطل نہیں ہوگی، اس کی
نماز اپنی جگہ درست ہے لیکن آئندہ رکعت چھوٹنے پر امام کے ساتھ سلام نہ پھیرے۔
سوال:میں نماز تراویح کے لئے مسجد جاتی
ہوں تو وہاں چند بچیاں جلدی آتی ہیں اور پہلی صف میں بیٹھ جاتی ہیں لیکن نماز
سنجیدگی سے نہیں ادا کرتیں۔ نماز میں ہلتی رہتی ہیں، کبھی تراویح کی دو رکعت میں
سے پہلی میں بیٹھی رہتی ہیں لیکن دوسری میں اچانک کھڑی ہو کر جلدی جلدی پہلی رکعت
پڑھ کر دوسری میں شامل ہو جاتی ہیں۔ کئی بار سمجھانے اور آداب مسجد و نماز بتانے
کے باوجود وہ باز نہیں آرہی ہیں جس کی وجہ سے سنجیدہ نمازیوں کو دشواری کا سامنا
ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم سنجیدہ خواتین پہلی صف میں جائے نماز بچھا کر ایک دوسرے
کے لیے جگہ روک سکتے ہیں اور ان بچوں سے کہہ سکتے ہیں کی وہ پیچھے بیٹھ جائیں اور
ہماری نماز میں مخل نہ ہوں۔کیا کسی کے لیے ایسے حالات میں جگہ روکنا جائز ہے؟
جواب:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں جگہ خاص
کرنے سے منع فرمایا ہے اس لیے پہلے سے اپنے لیے یا کسی اور کے لیے مسجد میں جگہ
خاص کرکے رکھنا جائز نہیں ہے لہذا ایسا عمل نہیں کیا جائے گا البتہ جو لوگ نماز کے
معاملے میں غلطی کر رہے ہیں ان کی اصلاح کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
وہ لڑکیاں جو وقت پر آکر مسجد کی اگلی صف میں ہوتی ہیں
مگر تراویح پڑھنے میں حرکتیں کرتی ہیں یا جلد بازی اور سستی اور کوتاہی کرتی ہیں،
ایسی لڑکیوں کو نماز کے بعد الگ سے بٹھا کر نماز کی فضیلت، اس کی ادائیگی کا طریقہ
اور مسجد کے آداب بتائیں۔خصوصیت کے ساتھ یہ بتائیں کہ تراویح جسے قیام اللیل کہتے
ہیں اطمینان و سکون اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے والی نماز ہے۔ قیام اللیل کی فضیلت سے
متعلق رسول کا فرمان ہے کہ جو آدمی رمضان میں ایمان اور اجر و ثواب کی امید میں
قیام کرتا ہے اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
یہ حدیث ہم سے تقاضہ کرتی ہے کہ ہم سکون و اطمینان سے،
دلچسپی اور عبادت کی لذت کے ساتھ قیام رمضان کریں ورنہ قیام کرنے کا کوئی فائدہ
نہیں ہوگا۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں یہ حدیث آئی ہوئی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "بعض
روزے داروں کو روزے سے بھوک کے سوا کچھ نہیں ملتا اور بعض قیام کرنے والوں کو قیام
سے بیداری کے کچھ نہیں ملتا"۔(ابن ماجہ:1690)
تراویح میں ایک رکعت چھوڑ کر دوسری رکعت میں شامل ہونا
تراویح کے ساتھ کھلواڑ ہے ایسے میں وہ قیام کے اصل اجر سے محروم رہیں گی اور امام
کے ساتھ آخر تک قیام کرنے کا جو اجر ہے وہ بھی نصیب نہیں ہوگا۔
نصیحت کرنے پر وہ نصیحت قبول نہ کرے تو ان کے سرپرست سے
شکایت کی جاسکتی ہے تاکہ گھر والے تنبیہ کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ دشواریوں کے حل
کے لئے چھوٹی بچیوں کو صف بندی کے وقت پیچھے کھڑا کرسکتے ہیں کیونکہ صف بندی کا
طریقہ یہ ہے کہ آگے بڑوں کو ہونا چاہئے اور پیچھے بچوں کو چنانچہ حضرت ابو مسعود
رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں
(ہمیں برابر کھڑا کرنے کے لیے) ہمارے کندھوں کو ہاتھ لگا کر فرماتے: ”برابر ہو جاؤ
اور جدا جدا کھڑے نہ ہو کہ اس سے تمہارے دل باہم مختلف ہو جائیں، میرے ساتھ تم میں
سے پختہ عقل والے دانش مند (کھڑے) ہوں، ان کے بعد وہ جو (دانش مندی میں) ان کے
قریب ہوں، پھر وہ جو ان کے قریب ہوں۔(صحیح مسلم:432)
سوال: اسماء الحسنی طاق راتوں میں پڑھ
سکتے ہیں کیونکہ میں نے کسی کو دیکھا کہ وہ اپنے بچوں کو قرآن کی کسی آیت کا حوالہ
دیکر بتارہے تھے کہ اللہ تعالی نے اپنے ناموں کی تسبیح کرنے کو کہا ہے اس لئے آج
بیٹھ کر اسماء الحسنی پڑھو اور یاد کرو۔ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جنت کی
بشارت بھی دی ہے یاد کرنے والے کو۔کیا یہ عمل درست ہے خاص کر طاق راتوں میں؟
جواب:سب سے پہلی بات یہ ہے کہ رمضان کی طاق رات ہو یا
سال کا کوئی بھی دن اور رات ہو یعنی سال کے بارے مہینے کبھی بھی اللہ رب العالمین
کے مفرد اسماء کا ذکر نہیں کیا جائے گا یعنی اللہ اللہ کہنا، رحمن رحمن کہنا ذکر
نہیں ہے۔ اس طرح ذکر کرنا بدعت ہے اور اس طرح صوفی بدعتی لوگ ذکر کرتے ہیں۔ ذکر
میں مکمل مفید جملہ کہاجائے گا جیسے لاالہ الا اللہ، اللہ اکبر، سبحان اللہ، لاحول
ولاقوۃ الاباللہ وغیرہ۔ شیخ صالح فوزان حفطہ اللہ منفرد لفظ کے ساتھ ذکر کرنے کے
بارے میں کہتے ہیں:
"هذا من البدع ؛ قراءة أسماء الله الحسنى
بعد الصلوات واعتياد ذلك ، وترديد كلمة ( يا لطيف ) بعدد معين وبصفة معينة ؛ كل
هذا من البدع المحدثة في الإسلام ، وخير الهدي هدي محمد صلى الله عليه وسلم ، وشر
الأمور محدثاتها ، وكل بدعة ضلالة۔(المنتقى من فتاوى الفوزان:2/8)
ترجمہ: نمازوں کے بعد اسمائے حسنی پڑھنا اور اس کا
معمول بنانا بدعت میں سے ہے، اسی طرح "یالطیف" باربار مخصوص تعداد اور
مخصوص صفت کے ساتھ کہنا یہ سب دین اسلام میں ایجاد کرلی گئی بدعت ہے جبکہ بہترین
راستہ محمد ﷺ کا راستہ ہے اور سب سے بری چیز دین میں نئی ایجاد ہے اور ہر بدعت
گمرائی ہے۔
اس وجہ سے کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اسمائے حسنی
کا طاق راتوں میں یا کبھی بھی بتکرار ورد کرے۔ نبی ﷺ نے ہمیں جو اذکار سکھائے ہیں
وہ اذکار مشروع طریقے پر پڑھے جائیں۔
سوال میں جس دلیل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ قرآن میں
نہیں ہے، حدیث میں اس کا ذکر ہے مگر اس کا وہ مطلب نہیں ہے جو سمجھا گیا ہے۔ حدیث
اس طرح سے آئی ہوئی ہے۔نبی ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ لِلَّهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا، مِائَةً
إِلَّا وَاحِدًا، مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ(صحیح البخاری:7392)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں، جو انہیں یاد کر
لے گا وہ جنت میں جائے گا۔
اسی طرح نبی ﷺ نے فرمان ہے:
لِلَّهِ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ اسْمًا مَنْ حَفِظَهَا
دَخَلَ الْجَنَّةَ(صحیح مسلم:2677)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں، جس نے ان کی
حفاظت کی وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔
بخاری اور مسلم کی ان دونوں احادیث میں اسمائے حسنی کو
یاد کرنے اور حفاظت کرنے کا ذکر ہے، تکرار کے ساتھ ذکر کرنے کے لئے نہیں کہا گیا
ہے۔ ذکر الگ چیز ہے اور یاد کرنا اور حفاظت کرنا الگ چیز ہے۔ یہاں پر اسمائے حسنی
کو یاد کرنے اور حفاظت کرنے سے مراد ان کی معرفت حاصل کرنا، ان پر ایمان لانا، ان
کے تقاضوں کو پورا کرنا اور ان کے مطابق عمل کرنا ہے۔
سوال: جو عورتیں گھروں میں اعتکاف بیٹھی
ہیں اب ان کے لیے کیا حکم ہے کچھ کو معلوم نہیں تھا کہ صرف مسجد میں بیٹھ سکتے
ہیں، کچھ کو بتایا بھی لیکن نیت والی حدیث کا حوالہ دے کر اپنی مرضی کی، اب کیا وہ
اعتکاف جاری رکھیں گھروں میں یا پھر ختم کردیں؟
جواب:گھر میں اعتکاف نہیں ہوتا ہے، اگر کسی نے ضد میں
یا نادانی اور جہالت میں گھر میں اعتکاف کا ارادہ کیا ہے اور گھر میں اعتکاف کررہی
ہے وہ اپنا ارادہ ترک کردے کیونکہ دراصل وہ اعتکاف ہے ہی نہیں ، پھر اعتکاف کی نیت
سے گھر میں بیٹھے رہنا صحیح نہیں ہے۔ اپنا ارادہ ترک کردے ، معاملہ ختم ہے۔ پھر
بھی کوئی گھر میں اعتکاف کی نیت سے بیٹھی رہے اسے اعتکاف کا اجر نہیں ملے گا۔ اور
یہاں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ کسی بھی عمل پر اس وقت اجر ملتا ہے جب اسے
مشروع طریقہ پر ادا کیا جاتا ہے۔
سوال:ایک خاتون بیس روزہ کو حالت حیض میں
تھی اور اب وہ پچیس رمضان کو پاک ہوگئی ہے، کیا وہ اعتکاف میں بیٹھ سکتی ہے جبکہ
اس کی نیت پہلے سے دس دن اعتکاف بیٹھنے کی تھی لیکن عذر کی وجہ سے رک گئی۔ ایک
دوسری خاتون پوچھتی ہے کہ وہ تین دن کے لئے اعتکاف میں بیٹھی ہے، تین دن ہوگیا، اب
کیا وہ عصرکے بعد گھر جاسکتی ہے؟
جواب:اعتکاف کے سلسلہ میں درست بات یہی ہے کہ اعتکاف
صرف رمضان میں مشروع ہے اور وہ رمضان کے مکمل آخری عشرہ میں کیا جاتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے آخری عشرہ میں
اعتکاف کیا اور آپ نے صحابہ کو بھی اس میں اعتکاف کرنے کا حکم دیا چنانچہ اسلاف سے
بھی رمضان کے آخری عشرہ میں ہی اعتکاف کرنا منقول ہے اس وجہ سے جس خاتون نے اعتکاف
کی نیت کی تھی لیکن حیض کی وجہ سے اعتکاف کے چند دن گزر گئے ہیں اور اب چند دن
باقی بچ گئے ہیں ایسے میں اسے اعتکاف نہیں کرنا چاہیے۔ اس سال اعتکاف چھوڑ دے
آئندہ جس سال آخری عشرہ میں مکمل پاکی حاصل ہو اس وقت مکمل عشرے کا سنت کے مطابق
اعتکاف کرے۔ نیز اسے یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جو کسی عمل کی نیت کرے مگر کسی عذر کے
سبب وہ عمل نہ کرپائے تو اسے اپنی نیت کے مطابق اجر ملتا ہے اس صورت میں اس خاتون
کو اپنی نیت کے مطابق اعتکاف کا اجر ملے گا۔
اور جو دوسری خاتون نے تین دن کے لیے اعتکاف کیا وہ
مغرب تک اپنا اعتکاف کرے اور آئندہ چند دن کا اعتکاف نہ کرے کیونکہ ایسا ہمارے نبی
اور اسلاف سے اعتکاف کرنا ثابت نہیں ہے۔ اس لئے جو کوئی اعتکاف کرے وہ یا تو مکمل
عشرے کا اعتکاف کرے یا اعتکاف چھوڑ دے ۔
سوال:رمضان کی انتیسویں رات تقریباً تمام
مساجد میں اور حرمین میں بھی ختم قرآن کی دعا کی جاتی ہے، اسکا کیا حکم ہے۔ چند
سال پہلے حرم میں بیس رکعت تراویح ہوتی تھی اس وقت میں ایک مرتبہ انتیسویں رات
قیام اللیل کے لیے حرم میں تھی اور عشاء کی نماز کے بعد دس رکعت تراویح پڑھائی گئی
اور آخری رکعت میں شیخ سدیس نے ختم قرآن کی دعا کی تھی؟
جواب:دین کے معاملہ میں سب سے اصل بات یہ ہے کہ ہمارے
لیے دلیل قرآن اور حدیث ہے، کوئی ملک یا کوئی شخص نہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ سعودی عرب میں عام طور سے وتر کی
نماز میں دعائے قنوت کو قنوت نازلہ کی شکل دے کر پڑھتے ہیں اس لیے اس میں اپنی
مرضی سے امام صاحب جو دعا چاہتے ہیں، کرتے ہیں۔ یہاں پر ختم قرآن کی دعا کا کوئی
مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہاں پر اپنی طرف سے جو دعا چاہتے ہیں، وہ کرتے ہیں اور یہ
معاملہ صرف آخری رمضان کا نہیں ہے بلکہ شروع رمضان سے لے کر آخری رمضان تک کا ہے
اور یہ معاملہ صرف حرم میں نہیں بلکہ پورے سعودی عرب کی مساجد کا ہے۔
قرآن تو تراویح کی نماز میں پڑھا جاتا ہے جبکہ وتر کی
نماز الگ ہے اور اس کی قرات بھی متعین ہے یعنی تین رکعت وتر میں سورہ اعلی، سورہ
کافرون اور سورہ اخلاص پڑھتے ہیں یہاں پر ختم قرآن کا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ وتر کا معاملہ یہ ہے کہ اس میں امام
صاحب قنوت نازلہ کی طرح اپنی طرف سے مزید دعاؤں کا اضافہ کرتے ہیں، اب ان دعاؤں
میں جو بھی اچھے الفاظ والی دعائیں ہیں وہ سب کی جا سکتی ہیں۔
سوال: ایک خاتون کے شوہر پاکستان گئے
تھے، وہ تقریبا ڈیرھ ماہ بعد بیسویں روزے میں اپنے گھر واپس آئے۔ جس دن وہ گھر آئے
اس دن اس کے گھر مہمان بھی آگئے اس وجہ سے میاں بیوی کو رات میں تنہائی نہیں ملی
اور اس نے روزہ رکھ لیا۔ ایک دن ایسا ہوا یعنی تیسرے دن کہ شوہر نے روزے کی حالت
میں اپنی بیوی سے ازدواجی تعلق قائم کر لیا، اب اس کی بیوی پریشان ہے کہ اس کو کیا
کفارہ ادا کرنا ہے؟
جواب:ورزہ کی حالت میں جماع کرنا گناہ کبیرہ ہے جس نے
ایسا عمل کیا اس کے ذمہ توبہ کے ساتھ قضا اور کفارہ دونوں ہے۔ بیوی سے جبرا جماع
کیا گیا جبکہ بیوی نے اپنا بھرپور دفاع کیا تو ایسی صورت میں بیوی کا روزہ صحیح
ہوگا بشرطیکہ اس نے روزہ کی حالت میں کھانے پینے والا کوئی عمل نہ کیا ہو اور اس
کے ذمہ کوئی قضا یا کفارہ نہیں ہے لیکن بیوی کی رضا بھی اس میں ہے تو میاں بیوی
دونوں کے ذمہ توبہ کے ساتھ قضا و کفارہ ہے یعنی اس روزہ کی قضا کرنا ہے پھر یا تو
ایک غلام آزاد کرنا ہے یا مسلسل دو ماہ کے روزے رکھنا ہے یا ساٹھ مسکین کو کھانا
کھلانا ہے۔
سوال:جو لوگ جان بوجھ کر روزہ نہیں رکھتے
ہیں، کیا ان کی طرف سے بھی فطرانہ دینا ہے؟
جواب:جو آدمی بغیر کسی عذر کے جان بوجھ کر روزہ چھوڑتا
ہے وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے ایسے آدمی کے لئے سچی توبہ کے ذریعہ اپنی اصلاح
کرنا کرنا لازم ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ایسے شخص کی طرف سے بھی صدقۃ الفطر
ادا کیا جائے گا کیونکہ یہ ایک فریضہ ہے جو چھوٹے بڑے تمام لوگوں کے ذمہ ہے۔
اگر روزہ نہ رکھنے والا روزے کی فرضیت کا منکر ہو تو
پھر ایسا آدمی کافر ہے، اسلام میں داخل نہیں مانا جائے گا اور جو کافر ہے اس کے
اوپر صدقۃ الفطر نہیں ہے ۔ صدقۃ الفطر ادا کرنا تو مسلمانوں کے ذمہ ہے۔
سوال: کیا والد کی قبر میں بیٹی کو دفن
کیا جا سکتا ہے؟
جواب:مذکورہ سوال سے متعلق کئی مسائل ہیں۔
پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ایک سے زائد میت ہوں تو ان سب کے
حق میں شرعا اصل حکم یہی ہے کہ ان سب کو الگ الگ قبر میں اکیلے اکیلے دفن کیا جائے
گا یعنی ایک ساتھ ایک قبر میں کئی لوگوں کو دفن نہیں کیا جائے گا۔
اگر کوئی ایسی ضرورت اور مجبوری ہو کہ ایک ساتھ کئی میت
کو قبر میں دفن کرنا پڑے تو ضرورت کے وقت اس کی گنجائش ہے یعنی ایک قبر میں سے ایک
سے زیادہ میت کو دفن کر سکتے ہیں۔
جب ضرورت کے وقت ایک قبر میں ایک سے زیادہ میت کو دفن
کرنا پڑے تو مردوں کو مردوں کے ساتھ اور عورتوں کو عورتوں کے ساتھ دفن کیا جائے
گا۔
اور ایک آخری مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی قبر میں والد کو
دفن کیا جائے یہاں تک کہ اس کی قبر دھنس جائے اور اس پر ایک زمانہ گزر جائے جس سے
معلوم ہو کہ میت کا جسم باقی نہیں ہوگا تو پھر ایسی صورت میں اس جگہ پر کسی کو بھی
دفن کیا جا سکتا ہے خواہ بیٹی ہی کیوں نہ ہو۔ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ یہ
قبر اس وقت خالی پڑی ہوئی جگہ ہے، وہاں کسی کو بھی دفن کیا جا سکتا ہے۔
سوال:ایک بیوہ عورت ہے جس کا ذمہ اس کے
بیٹے پر کھانے پینے کا ہے، وہی دیکھ ریکھ کرتا ہے تو کیا ایسی عورت کو اس کے بھائی
ذاتی خرچ کے لئے زکوٰۃ کی رقم دے سکتے ہیں تاکہ وہ مزید کہیں پر خرچ کرنا چاہے تو
کرے؟
جواب:جب بیوہ عورت کے لئے کمانے والا بیٹا ہے تو پھر اس
صورت میں اس عورت کا کفیل و ذمہ دار اس کا بیٹا ہے اور بیٹا مجبور نہ ہو اور ماں
کی دیکھ ریکھ کے لیے اس کی کمائی کافی ہو تو ایسی بیوہ کو اس کا بھائی زکوۃ نہیں
دے گا۔ اس صورت میں بھائی اپنی بہن کو زکوۃ کے علاوہ اصل مال سے اضافی خرچ کے لئے
تعاون کرے۔
ہاں اگر بیٹا غریب ہو یا کمانے والا نہ ہو یا اپنی ماں
کی ضرورت نہ پوری کر پاتا ہو تو ایسی صورت میں بھائی اپنی بیوہ بہن کو ضرورت بھر
زکوۃ دے سکتا ہے۔
سوال:کیا واش بیسن میں اگر کوئی شخص اپنی
جوتی دھوتا ہے تو ہر بار وضو کرنے کے لیے اسے واش بیسن دھونا پڑے گا تاکہ وضو کرتے
وقت وہ صاف رہے؟
جواب:واش بیسن میں جوتی دھلنے سے بیسن ناپاک نہیں ہو
جاتا اس لیے وضو بنانے کے لیے واش بیسن دھونے کی ضرورت نہیں ہے۔
صفائی ستھرائی کی غرض سے واش بیسن جتنی دفعہ دھونا
چاہیں یہ آپ کی مرضی ہے لیکن وضو کے لیے واش بیسن دھلنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ظاہری
طور پر وہاں پر نجاست دکھائی دے تب اس کی صفائی ضروری ہے۔
سوال: آج وتر کی نماز میں امام نے قنوت
وتر رکوع سے پہلے پڑھے اور رکوع کے بعد قنوت نازلہ پڑھا، کیا امام کا یہ عمل درست
تھا؟
جواب: امام کا یہ عمل خلاف سنت ہے، وتر کی نماز میں
رکوع سے پہلے یا رکوع کے بعد ایک مرتبہ ہی دعا کرنا ہے، یہی سلف سے منقول ہے اور
اسی بات کی دلیل ملتی ہے۔ جس امام نے ایسا کیا ہے اس کو اس عمل سے باز رہنے کی
تلقین کی جائے اور دین میں بدعت ایجاد کرنے سے منع کیا جائے۔
سوال: جس کے پاس تھوڑا سونا ہے کیا وہ
لوگ زکوۃ کے مستحق ہیں، کیا ایسے رشتہ داروں کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟
جواب:تھوڑا سونا ہونے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اصل مسئلہ
یہ ہے کہ جو کوئی ایسا غریب ہو کہ اس کے کھانے پینے رہنے سہنے اور دوا علاج کی
ضرورت میں سے کوئی ضرورت پوری نہ ہوتی ہو تو اس ضرورت کے واسطے آپ زکوۃ دے سکتے
ہیں۔ اور اس کی ضرورت اپنے ذرائع آمدنی سے پوری ہوجاتی ہو تو اس کو زکوۃ نہیں دیں
گے۔
سوال: ایک آدمی ظہر کی نماز میں فجر کی
نماز کی نیت سے شامل ہوا تو وہ سلام کب پھیرے گا۔ کیا وہ پہلے تشہد میں سلام
پھیرکر بقیہ دو رکعت میں ظہر کی نیت سے شامل ہوجائے گا یا امام کے پہلے تشہد میں
بیٹھ کر آخری تشہد تک انتظار کرکے امام کے ساتھ سلام پھیرنا ہے یا کوئی اور طریقہ
ہے؟
جواب: جو آدمی فجر کی نیت سے ظہر کی نماز میں شامل ہوا
ہے اس کے بارے میں علماء کے دو اقوال ہیں۔ ایک قول تو یہ ہے کہ امام کے ساتھ دو
رکعت پڑھ کر اس سے منفصل ہوجائے اور علاحدہ طور پر سلام پھیرلے اور دوسرا قول یہ
ہے کہ پہلے تشہد کے بعد بیٹھا رہے یہاں تک کہ امام دوسرے تشہد پر بیٹھ جائے تو اس
کے ساتھ سلام پھیرے، یہی طریقہ مناسب ہے تاکہ امام کی متابعت قائم رہے کیونکہ امام
بنایا ہی اس لئے گیا ہے تاکہ اس کی متابعت کی جائے۔
سوال: آپ نے کہا تھا کہ اگر نصاب سے کم
سونا ہو اور کچھ رقم بھی ہو جو ملانے سے نصاب تک نہیں پہنچتے ہوں یعنی سونے کے
نصاب کو نہیں پہنچتا ہو تو اس میں زکوۃ نہیں ہے مگر ابھی حال ہی میں ایک ویڈیو نظر
سے گزری اس میں ایک معلمہ بتا رہی تھی کہ اگر نصاب سے کم سونا ہے اور کچھ رقم بھی
ساتھ ہے جو کہ نصاب سے کم ہے تو اسے سونے کی قیمت پر نہیں بلکہ باون تولہ چاندی کی
قیمت کا اعتبار کریں گے۔ اگر سونا اور رقم ملا کر باون تولہ چاندی کی قیمت کے
برابر یا زیادہ ہے تو زکوة فرض ہوگئی، کیا ان کی یہ بات درست ہے؟
جواب:سونا الگ نصاب ہے اور چاندی الگ نصاب
ہے۔ اگر کسی کے پاس کچھ سونا ہے اور کچھ پیسہ ہے جو دونوں میں سے کوئی نصاب کو
نہیں پہنچتا ہے تو یہاں پر صرف سونے کا نصاب دیکھیں گے، چاندی کا نصاب نہیں دیکھیں
گے۔
چاندی کا نصاب اس وقت دیکھیں گے جب چاندی کی زکوۃ دیں
گے یا پیسے کو چاندی کے ساتھ ملائیں گے یا پیسے کی الگ سے زکوۃ دیں گے۔
سوال میں جس ویڈیو کا ذکر ہے اس میں غلط مسئلہ بتایا
گیا ہے۔
سوال: اگر رشتہ دار مسکین ہو اور درگاہ
وغیرہ جانے والے ہوں یعنی شرکیہ اعمال کرنے والے ہوں تو کیا ایسے رشتہ دار کو زکوۃ
یا صدقہ دے سکتے ہیں؟
جواب:اہل علم نے شرک کرنے والے کو زکوۃ دینے سے منع کیا
ہے کیونکہ شرک آدمی کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے۔ اس وجہ سے جو شرک اکبر میں
مبتلا ہو یعنی درگاہ کو جانے والوں، میت کو پکارنے والوں، غیراللہ کی نذرونیاز
کرنے والے اور اسے حاجت روا سمجھنے والوں کو زکوۃ نہ دی جائے البتہ ان کو نفلی
صدقات دے سکتے ہیں۔
سوال: چار مارچ کو میری طلاق ہوئی تھی
اور آج پچیس مارچ ہے۔ میرے شوہر سعودی عرب میں ہوتے ہیں، انہوں نے مجھے کال پر ایک
بار کہا ہے کہ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔ اگر ہم دونوں ساتھ نہیں رہتے ہیں تو میری
عدت کتنے دنوں تک اور کیسے ہوگی اور کیا میں گھر سے باہر بھی نہیں نکل سکتی ہوں؟
جواب:جس وقت شوہر نے اپنی بیوی کو فون کال پہ طلاق دیا
اس وقت بیوی کو طلاق پڑگئی اور اسی وقت سے بیوی کی عدت شروع ہوگئی۔ میاں بیوی چاہے
الگ الگ رہ رہے ہوں اس کا مسئلہ نہیں ہے، طلاق کی مکمل عدت بیوی کو گزارنی ہوگی۔
اس کی عدت تین حیض ہے اور اپنے گھر میں رہ کر یہ عدت گزارنی ہے۔ بغیر ضرورت کے گھر
سے اس کے لئے باہر جانا جائز نہیں ہے۔ اگر شوہر عدت کے دوران یعنی تین حیض سے پہلے
پہلے رجوع کر لیتا ہے تو پھر میاں بیوی کا رشتہ بحال ہو جائے گا اور عدت میں رجوع
نہیں کرتا ہے تو میاں بیوی کے درمیان جدائی ہوجائے گی۔
سوال: مجھے افطار کے بعد تھوڑا خون جیسا
لال نظر آیا سفید پانی میں ملا ہوا اور ابھی رات تین بجے تک کافی گھنٹے گزر گئے
ہیں مگر نہیں خون آیا اور نہ خون جیسا کچھ نکلا، ایسے میں روزہ و نماز کا کیا کرنا
ہے۔ ضروری بات یہ ہے کہ مجھے رمضان کے شروع میں حیض آیا تھا اور رمضان کے آخر میں
یا رمضان کے بعد اگلا حیض آئے گا یہ امید تھی مگر ایک ہفتہ پہلے ہی کچھ ہلکا خون
سفید پانی میں دکھا تو کیا یہ حیض ہے۔ اور جو اثر دکھا وہ مغرب کے بعد دیکھی ہوں
مگر پتہ نہیں یہ اثر پہلے سے تھا یا افطار بعدہی ظاہر ہوا، ایسے میں میرا روزہ
ہوگا؟
جواب:اگر اگلے حیض کا وقت آنے میں کچھ ایام باقی ہیں
اور اس وقت حیض کی صفات والا خون نہیں آیا ہے نیز جو ہلکا خون کا اثر سفید پانی
میں دکھا ہے اس کے بعد پھر کئی گھنٹوں سے خشکی ہے یعنی کہ خون نہیں آیا ہے تو ایسی
صورت میں آپ نماز پڑھیں گے اور روزہ بھی رکھیں گے کیونکہ یہ حیض میں شمار نہیں کیا
جائے گا۔
اور جو لالی سفید پانی میں افطار کے بعد نظر آئی دراصل
وہ حیض میں شمار ہی نہیں ہوگی تو افطار سے پہلے یا افطار کے بعد کا کوئی مسئلہ ہی
نہیں ہے، اس لیے روزہ اپنی جگہ درست ہے۔
سوال: کیا بہن اپنے بھائی کو فطرانہ دے
سکتی ہے؟
جواب:اگر بھائی فقیر و مسکین کے زمرے میں آتا ہو تو بہن
اسے فطرانہ دے سکتی ہے۔ مسکین نہ ہو تب اسے فطرانہ نہیں دے سکتی ہے۔
سوال: کسی نے میوچول فنڈ میں انوسٹ کیا
ہو اس کی بھی زکوۃ دینی ہوگی یا سارے پیسے ملاکر مثلا سرکایہ کاری والا، بنک والا
اور شیئرمارکیٹ والا ایک ساتھ سب کی زکوۃ دینی ہوگی اور کتنے پیسوں پر زکوۃ نکالنی
ہوگی؟
جواب:پہلی بات
یہ ہے کہ میوچول فنڈ میں سرمایہ کاری کرنا جائز نہیں ہے، یہ سودی معاملہ ہے۔ اسی
طرح شیئرمارکیٹ میں سٹہ بازی اور سودی معاملہ داخل ہے۔ مسلمان سٹے بازی اور سود سے
توبہ کرے اور آئندہ اس سے پرہیز کرے۔ زکوۃ دیتے وقت جہاں جہاں جتنا مال ہے، ان سب
کو ملایا جائے گا اور ملاکر کل سرمایہ کا چالیسواں حصہ بطور زکوۃ نکالا جائے گا
مگر ضروری ہے کہ سب پر ایک سال گزرا ہو۔ یعنی زکوۃ دیتے وقت جس جس مال پر سال گزرا
ہے ان سب کو جمع کرکے زکوۃ دیں گے۔
جہاں تک معاملہ ہے کہ کتنے پیسے میں زکوۃ بنتی ہے تو اس
کا جواب یہ ہے کہ آپ کے شہر میں 595 گرام چاندی کی جو قیمت بنتی ہے، اس کے برابر
یا اس سے زیادہ پیسہ ہوجائے اور وہ ایک سال تک محفوظ رہے تو اس کی زکوۃ دینی ہوگی۔
سوال:آخری عشرے میں نمازوتر کو جفت کرنے
کے لئے ایک رکعت امام کے سلام پھیرنے کے بعد ادا کریں گے لیکن امام ایک سلام سے
تین رکعتیں پڑھائے توکیا ایسی صورت میں بھی جفت کرسکتے ہیں؟
جواب: امام تین رکعت وتر کی نماز کو ایک
ساتھ سلسل کے ساتھ پڑھائے تو اس کو بھی جفت بناسکتے ہیں یعنی جب امام آخری رکعت
پڑھ کر سلام پھیردے تو مقتدی بغیرسلام پھیرے تکبیر کہہ کر اٹھ جائے اور مزید ایک
رکعت ادا کرکے اسے جفت بنالے۔ پھر اس کے بعد جب دوبارہ نفل پڑھنا ہو، پڑھے اور آخر
میں وتر ادا کرے۔
سوال: ایک خاتون کے پاس دو لاکھ روپیہ
ہے، اسے دے کر وہ گیارہ ماہ کے لئے گھر رہن رکھنا چاہتی ہے۔ اور ایک شخص اس کو
مکان رہن پہ دینے کے لئے تیار ہے۔ اس خاتون کے شوہر نے اس سے بات کی کہ ہم ہر ماہ
دو ہزار روپے کرایہ دے دیا کریں گے، اس پہ وہ شخس راضی ہوگیا تو کیا یہ طریقہ درست
اور جائز ہے؟
جواب:اگر کوئی دو لاکھ قرض دے کر اس سے گھر
رہن لیتا ہے اور قرض دینے کی وجہ سے اس گھر کا کرایہ سستا دے کر اس گھر میں رہتا
ہے تو یہ جائز نہیں ہے کیونکہ قرض کے بدلے نفع کمانا ہے اور یہ نفع کمانا سودی
معاملہ ہے۔ ہاں اگر مکان کا کرایہ قرض کی وجہ سے کم نہیں ہوا ہے، کرایہ برابر دیا
جارہا ہے تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے مگر سوال سے بظاہر معلوم ہورہا ہے کہ قرض
دے کر نفع کمانے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ مکان رہن پہ دینے والا خود سے قرض
نہیں مانگ رہا ہے، یہاں پر آدمی خود ہی اپنی جانب سے قرض آفر کررہا ہے اور مکان
گروی لے رہا ہے، اس وجہ سے یہ سودی معاملہ ہے ، ایسا معاملہ نہیں کیا جائے۔ آپ کو
کرایہ پر مکان چاہئے تو دستور کے مطابق مکان کرایہ پر حاصل کریں۔
سوال: والدین وفات پا جائیں تو ان کی طرف
سے مالی عبادت کرسکتے ہیں مطلب ان کی طرف سے مسکین کو یا مسجد اور مدرسہ کے لیے
پیسے دے دیں تاکہ انکو فائدہ ہو۔ بہن، بیٹی جو کہ نہایت غریب ہوں، ان کے شوہروں کا
کام وغیرہ نہ ہو تو والدین کی طرف سے بہن بیٹی کو پیسوں کا یا کپڑوں کا صدقہ
کرسکتے ہیں تاکہ مرحوم والدین کو اجر ملے؟
جواب: میت کی طرف سے مالی صدقہ کرسکتے ہیں
، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بلاشبہ آپ اپنے والدین کی جانب سے مسجد یا مدرسہ اور
غریب و محتاج (اپنے رشتہ داروں و غیررشتہ دار) سب کو صدقہ دے سکتے ہیں۔صدقہ کے طور
پر پیسے اور ضرورت کی چیزیں مثلا کپڑے، سامان اور اشیائے خوردونوش وغیرہ دے سکتے
ہیں۔
سوال: ایک خاتون اپنی فوت شدہ خالہ کی
زکوۃ ادا کرنا چاہتی ہے تو کیا یہ عمل جائز ہے کیونکہ اس کی خالہ کسی وجہ سے زکوۃ
نہیں دے سکی اور کوئی وارث ادا کرنے کو تیار بھی نہیں ہے۔ اگر یہ جائز ہے تو زکوۃ
کس حساب سے دے، پچھلے پانچ سال کی زکوۃ دینی ہے۔ ہر سال کے گولڈ ریٹ سے دینا ہے یا
آج کے حساب سے؟
جواب: جو خاتون اپنی خالہ کے زیورات کی
زکوۃ دینا چاہتی ہے وہ زکوۃ دے سکتی ہے جبکہ اصل میں میت کے مال سے دینا تھا یا
زکوۃ دینا اس کے وارث کے ذمہ تھا تاہم وہ خاتون بھی دے سکتی ہے۔ جن پانچ سالوں کی
زکوۃ میت کے ذمہ باقی ہے، ان سالوں کا ریٹ الگ الگ سال کے اعتبار سے معلوم کرکے
سال کی قیمت کے حساب سے زکوۃ ادا کردے یعنی ہرسال کی اس سال کے ریٹ کے حساب سے
زیوارت کی قیمت کا چالیسواں حصہ زکوۃ دے۔
سوال: میت کو کفن سمیت عود(خوشبودار
لکڑی) کی دھونی دینا مستحب ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میت کو خوشبو کی
دھونی دو تو تین مرتبہ دو(مسنداحمد) دھونی دینا ممکن نہ ہو تو میت کو عطر (ایسی
خوشبو جس میں الکحل نہ ہو) لگایا جاسکتا ہے۔ (بحوالہ بخاری ومسلم)۔ یہ ایک کتاب کا
اقتباس ہے ، کیا اس میں موجود حدیث صحیح ہے اور کیا اس بات کی دلیل ہے کہ عورت
خوشبو لگاکر باہر جائے؟
جواب: سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے
کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إِذَا أَجْمَرْتُمْ الْمَيِّتَ
فَأَجْمِرُوهُ ثَلَاثًا(مسنداحمد:14540)
ترجمہ: جب تم ميت كو خوشبو كى دھونى دو تو اسے تين بار
دھونى دو۔
مسند احمد کی یہ حدیث صحیح ہے، اسے شیخ البانیؒ نے صحیح
کہا ہے۔ اس حدیث میں عورتوں کے لئے خوشبو لگاکر باہر جانے کی کوئی دلیل نہیں ہے،
یہ حدیث تو میت کے بارے میں ہے جبکہ زندہ کا معاملہ الگ ہے۔ کیا کسی زندہ عورت کو
کفن پہنایا جاتا ہے یا اسے قبر میں مٹی کے نیچے دفن کیا جاتا ہے ، نہیں، ہرگز
نہیں۔۔ اسی طرح زندہ عورت خوشبو لگاکر باہر نہیں نکلے گی۔ زندہ عورتوں کے لئے حدیث
میں خوشبو لگاکر باہر نکلنے سے منع کیا گیا ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔