Monday, April 28, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(60)

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(60)

جواب از : شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ - سعودی عرب

سوال: ایک بڑی عمر کی خاتون جو بیمار بھی رہتی ہے وہ اعتکاف گھر میں کرنا چاہتی ہے اور پہلے بھی کرتی رہی ہے۔مسجد میں اعتکاف کرنے کے قریبی مواقع نہیں ہیں۔ اس نے سوال کیا ہے کہ کیا کوئی اجازت نکلتی ہے گھر میں اعتکاف کرنے کی؟
جواب: اعتکاف کے لئے مسجد شرط ہے اس لئے گھر میں اعتکاف کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے یعنی کسی بھی حالت میں گھر میں اعتکاف نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مسلک احناف میں عورتوں کو گھر میں اعتکاف کرنے کے لیے کہا جاتا ہے اس لئے کہ احناف کے نزدیک عورت مسجد نہیں جاسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ احناف کی یہ بات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ عورت بالکل مسجد جاسکتی ہے ، وہاں نماز پڑھ سکتی ہے اور اعتکاف کے لیے مسجد شرط ہے خواہ مرد ہو یا عورت۔
اس خاتون نے پہلے جو عمل کیاسو کیا تاہم آئندہ گھر میں اعتکاف نہ کرے اور اگر وہ مسجد میں اعتکاف نہیں کرسکتی ہے تو اسے بالکل پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں جس قدر ہوسکے عبادت اور نیک عمل کرے اور شب قدر کے حصول کے لئے جتن کرے۔اعتکاف کا اہم مقصد شب قدر کا حصول ہے ، ایک عورت اپنے گھر میں رہتے ہوئے یہ عمل کرسکتی ہےیعنی شب قدر پانے کے لئے کوشش کرسکتی ہےاور جسے شب قدر نصیب ہو جائے، اس نے رمضان کی ساری بھلائی پالی۔
سوال: کیا ہم گھر میں چلتے پھرتے کام کرتے قرآن سن سکتے ہیں اس لیے کہ جب قرآن یاد کرنا ہو تو ایسا سننے سے جلدی یاد ہوجاتا ہے؟
جواب: گھرمیں  چلتے پھرتے اور کام کاج کرتے ہوئے بلاشبہ قرآن کی تلاوت سن سکتے ہیں ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم تلاوت کے وقت تلاوت سنی جائے ۔ ایسا نہ ہو ایک طرف  تلاوت چل رہی ہو اور دوسری طرف گھر والے شور مچا رہے ہوں۔
سوال: ایک بہن نے گروپ میں آنلائن گیم کے بارے سوال کیا ہے، اس قسم کا میرا بھی ایک سوال ہے کہ آج کل بچے پب جی یا اس قسم کی گیمز کی کمپنی وغیرہ کو گیمز کے لیے میپ بنا کر دیتے ہیں۔ اگر کمپنی کو یہ پسند آجائے تو وہ خرید لیتی ہے۔ بچوں کا کہنا ہے کہ اس میں ہم کوئی ناجائز کام نہیں کرتے، کیا یہ کام جائز ہے؟
جواب: پب جی اور اس قسم کے گیمز کھیلنا جائز نہیں ہے ، میں نے پب جی کے بارے میں تفصیل سے سمجھا یا ہے۔ یہاں پر یہ بتانا مقصود ہے کہ جو کام اصل میں غلط ہو اس کام کے لیے کسی قسم کا تعاون کرنا جائز نہیں ہے۔ پب جی اور اس قسم کے گیمز کے لیے میپ بنانا غلط کام پر تعاون کرنا ہے اس لئے یہ عمل بھی جائز نہیں ہے ۔ اس کو مثال سے ایسے سمجھیں کہ ہم ہولی نہ کھیلیں لیکن ہولی کھیلنے والوں کے رنگ بیچیں ، یہ بھی گناہ کا کام ہے کیونکہ رنگ بیچنا گناہ پر تعاون ہے اسی طرح میپ بنانے کا مسئلہ گناہ کے کام پر تعاون ہے اس لئے مسلم بچوں کو یہ کام نہیں کرنا چاہیے۔
سوال: میرے گھر والوں کو حال ہی میں معلوم ہوا کہ میری خالہ کو کینسر ہے اور ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ وہ دربار وغیرہ پر جاتی تھیں۔ کیا میرے لیے ان کی مغفرت کے لیے دعا کرنا درست ہے اس وجہ سے کہ میں ان سے ملنے کے قابل نہیں ہوں اور مجھے ڈر ہے کہ اگر میں انہیں دین کے بارے میں مشورہ دوں گی تو اس سے مسائل پیدا ہوں گے اور ہمارے گھر والے ناراض ہو جائیں گے، اس صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟
جواب: آپ اپنی خالہ کے لیے ہدایت و مغفرت کی دعا کر سکتے ہیں ، وہ مسلمانوں میں سے ہیں گوکہ انہوں نے شرکیہ عمل کیا مگر وہ کلمہ کا اقرار کرنے والی ہیں ۔ ان کی مغفرت کے لیے دعا کرسکتے ہیں اور چونکہ وہ ابھی زندہ ہیں اس لیے ان کی ہدایت کے لئے بھی دعا کرسکتے ہیں، ممکن ہے کہ اللہ تعالی آخری وقت میں ان کے دل کو صحیح بات کی طرف پھیردے ۔ ساتھ ہی موقع مناسبت کی تلاش میں رہیں ، اگر اپنی خالہ کو حق بات بتانے اور ان کو شرک سے توبہ کرانے کا موقع مل جائے تو ضرور اپنی دینی ذمہ داری نبھانے کی کوشش کریں۔شرک کی حالت میں خاتمہ بہت بڑی بدنصیبی ہے، اس میں آخرت کا بڑا نقصان ہے لہذا کوشش کرکے اپنی خالہ کو اکیلے میں مل کرشرک سے توبہ کے لئے کہیں، اس میں حکمت اور پیار ومحبت والا انداز اپنائیں۔
سوال: صدقہ جس کی طرف سے ہو وہ ہی اپنے ہاتھ سے رقم دے گا یا کوئی بھی اس کی رکھی ہوئی رقم میں سے صدقہ کے لئے نکال سکتا ہے۔ ہم ایک ڈبے میں کچھ رقم رکھیں کہ جب کسی ضرورت مند/فقیر کو دینا ہو تو اس میں سے دے دینا اور جب ہمیں ضرورت ہو تو ہم بھی اپنی ضرورت کیلئے نکال سکتے ہیں، اس میں کوئی مسئلہ تو نہیں ہے؟
جواب: آپ نے پیسہ رکھنے اور خرچ کرنے کے لئے صندوق بنایا ہوا ہے جس سے صدقہ بھی کرتے ہیں اور ضرورت کے وقت خرچ کے لیے بھی پیسے لیتے ہیں ۔ یہ آپ کا مال ہے جس طرح چاہیں تصرف کریں ، اگر کسی اور کو بھی اس سے خرچ کرنے یا صدقہ کرنے کی اجازت دیتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ جس کا مال ہے وہ اپنی مرضی سے جسے چاہے اجازت دے اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
سوال: کیا اعتکاف ایک دن یا تین دن بھی کرسکتے ہیں۔ کئی خواتین بولتی ہیں کہ ہم تین دن کے لئے اعتکاف کررہے ہیں یا ایک دن کے لئے۔ کیا اعتکاف چند گھنٹوں کا بھی کرسکتے ہیں جیساکہ طاق راتوں میں کوئی عشاء کے لئے مسجد جائے اور سحری تک وہیں رہے عبادت کی نیت سے تو کیا یہ بھی اعتکاف میں شامل ہوگا؟
جواب: اعتکاف کے سلسلے میں بعض اہل علم یہ کہتے ہیں کہ ایک دن یا کچھ گھنٹوں کا بھی اعتکاف کرسکتے ہیں ، رمضان اور غیررمضان ہمیشہ کرسکتے ہیں مگر اس سلسلے میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اعتکاف صرف رمضان میں مسنون ہے اوررمضان کے آخری عشرہ میں ہی مسنون ہے ۔اس لئے کہ نبی ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں لیلۃ القدر کی تلاش میں اعتکاف کیا کرتے تھے ۔ پہلے آپ نے رمضان کے پہلے عشرہ میں اعتکاف کیا پھر درمیانی عشرے میں اعتکاف کیا پھر آپ سے کہا گیا کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ میں ہے تو آپ نے رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا یہاں تک کہ آپ کی وفات ہوگئی۔ نبی ﷺ نے یہ منقول نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی امت کے لئے غیررمضان میں اعتکاف مشروع کیا ہواور نہ ہی آپ نے رمضان کے علاوہ کبھی اعتکاف کیا سوائے ایک مرتبہ کے کہ آپ نے رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف چھوٹ گیا تو شوال میں اس کی قضا فرمائی ۔ اعتکاف کے سلسلے میں یہی مشروع ہے کہ رمضان کےآخری عشرہ میں کیا جائے لیلۃ القدر کی تلاش اور اس میں خود کومتفرغ کرکے عبادت کے لئے ۔ انتہی۔(منقول از ویب سائٹ: اہل الحدیث و الاثر، نور علی الدرب:233b)

ہم لوگوں کو شیخ کے کلام پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرنے کی دعوت دیتے ہیں کیونکہ یہی سنت رسول ہے۔

سوال: کیا دین صرف عالم سے ہی لیں گے اگر کوئی اور دین سیکھ لیتا ہے جیسے ڈاکٹر ذاکر نائیک، ڈاکٹر اسرار، انجینئر مرزا یا کوئی بھی جسے دین کی سمجھ ہو تو کیا ان کی بات نہیں سننی چاہیے؟
جواب: یہ بات بالکل صحیح ہے کہ دین کا علم صرف عالم ربانی سے لینا چاہیے۔ جو باضابطہ عالم نہیں ہو ان سے ہرگز علم نہیں لینا چاہیے کیونکہ دین کوئی معمولی چیز نہیں ہے کہ ہر ایرے غیرے  سے حاصل کریں۔ دین کا اصل علم جن کے پاس ہے ہم صرف انہیں سے علم حاصل کریں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کا وارث علماء کو بنانا ہے لہذا نبی نے جن کو وارث بنانا ہے اور جو علم نبوت کے اصل وارث ہیں انہیں سے علم نبوت حاصل کیا جائے گا۔
جہاں تک ڈاکٹر ذاکر نائیک ، ڈاکٹر اسرار اور انجینئر محمد علی مرزا کی بات ہے تو یہ لوگ اولا علماء نہیں ہیں۔ نیز یہ سب راہ سلفیت سے بھٹکے ہوئے ہیں اور ان لوگوں کی بڑی بڑی گمراہیاں ہیں  جو لوگوں پر واضح ہوچکی ہیں اس  وجہ سے ان لوگوں سے اور ان جیسے دوسرے متعالمین سے دوری اختیار کی جائے گی۔اس بارے میں مزید معلومات کے لئے میرا مضمون"طلب علم کے آداب" پڑھیں۔
سوال: کیا ہمیں آنلائن قرآن نہیں منگوانا چاہیے کیونکہ پتہ نہیں کس طرح سے ڈاک سے آتا ہے، غیر مسلموں کے ہاتھ میں بھی جاتا ہے اور ان کو کیا پتہ کہ اس میں کس طرح کی کتاب ہے۔ عام کتاب کو جیسے پارسل والے پھینک پھینک کر پارسل پاس کرتے ہیں، ویسے ہی قرآن کی بھی بے حرمتی ہوتی ہے تو کیا ہمیں آنلائن قرآن نہیں منگوانا چاہیے۔ مجبوری یہ ہے کی ہمارے علاقہ میں وہ قرآن نہیں ملتے ہیں جو ہمیں آنلائن پر سہولت سے مل جاتے ہیں تو ہم کیا کریں؟
جواب: یہ بات تو صحیح ہے کہ ہر قسم کے پارسل کے ساتھ ایک ہی طرح سے معاملہ کیا جاتا ہے حتی کہ قرآن کو بھی اسی طرح سے پھینکا جاتا ہوگا جیسے دیگر پارسل پھینکے جاتے ہیں اس لئے اپنے قریب سے ہی قرآن خریدا کریں لیکن جس کتاب کے لیے ضرورت مند ہوں مثلا کوئی تفسیر منگانی ہے جو آپ کے یہاں نہیں ہے تو اس کو آن لائن طلب کرسکتے ہیں کیونکہ یہ ضرورت کا معاملہ ہے اور ضرورت کے وقت اس قسم کے عمل کے لیےآپ معذور ہیں۔خلاصہ یہ ہے کہ ضرورت کے وقت قرآن یا دیگر دینی کتابیں دوسری جگہوں سے آنلائن منگاسکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال: ایک مسجد میں ایک شہر کے تمام مساجد اور مدارس کے ذمہ داروں نے صرف خواتین کیلئے ایک خاص مقصد کے تحت پروگرام رکھا ہے۔ کیا حالت حیض میں عورت اس پروگرام کیلئے مسجد میں جاسکتی ہیں؟
جواب: حیض کی حالت میں عورت کے لئے مسجد میں ٹھہرنا ممنوع ہے اس لئے مذکورہ پروگرام کے واسطے حیض کی حالت میں عورت کا مسجد میں جانا جائز نہیں ہے۔اس پروگرام میں فقط غیرحائضہ ہی شریک ہوسکتی ہے ۔ ہاں اگر یہ پروگرام مسجد کے کسی ایسے ہال اور حصے میں منعقد کیا جائے جو تعلیمی سرگرمی کے لئے مختص ہے، نماز کے لئے وہ حصہ نہیں ہے تو پھر اس جگہ حائضہ عورت بیٹھ سکتی ہے۔
سوال: کسی نے کاروبار میں پیسہ لگایا تھا مگر اس کے ساتھ فراڈ ہوگیا۔ اب اس کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ وہ زکوٰۃ نکال سکے۔ سوال یہ ہے کہ اس کے ساتھ تقریبا پچیس ہزار کا جو فراڈ ہوا ہے کیا وہ ان پیسوں کی زکوٰۃ کی نیت کر سکتا ہے؟
جواب: اس میں پہلا مسئلہ یہ ہے کہ آدمی کے ساتھ جو فریب ہوا ہے اس فریب والے پیسے میں زکوۃ کی نیت نہیں کی جا سکتی ہے کیونکہ زکوۃ کے لئے ضروری ہے کہ مال زکوٰۃ کا مستحق کو مالک بنایا جائےیعنی ہاتھوں سے مال زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جس مال کی زکوۃ دینی ہے اگر وہ کہیں پھنس گیا ہے ، اس کے آنے کی امید نہیں ہے یا کم ہے تو ایسی صورت میں جب مال آجائے پھر زکوۃ دینی ہے لیکن جو مال اپنے اختیار  میں ہے ، نصاب کو پہنچ رہا ہے اور سال گزر گیا ہے تو اس میں سے زکوۃ ادا کرے گا ، زکوۃ کے لئے پیسے نہیں تو لگائے گئے سرمایہ میں سے ضرورت بھر پیسے نکال کر زکوۃ ادا کریں۔یا سرمایہ کا منافع آنے والا ہو جس میں کچھ تاخیر ہوگی تو کچھ تاخیر سے زکوۃ ادا کردیں کیونکہ یہاں پر تاخیر کے لئےعذر ہے۔
سوال: جب امام تین رکعت وتر کی نماز پڑھا رہے ہوں تو کچھ لوگ دو رکعت تک بیٹھے ہوئے وقت گزارتے ہیں اور امام کی آخری رکعت میں شامل ہوکر وہ لوگ صرف ایک رکعت امام کے ساتھ پڑھ کر سلام پھیر دیتے ہیں۔ ایسا کرنا صحیح ہے ، کیا ان لوگوں کی امام کی اتباع کرتے ہوئے باقی دو رکعت امام کے سلام پھیرنے کے بعد نہ پڑھنے کا گناہ ہوگا؟
جواب: اگر امام تین رکعت ایک سلام سے پڑھنے کی نیت کرتا ہے مگر مقتدی عمدا دو رکعت چھوڑ کر صرف تیسری رکعت میں شریک ہوتا ہے اور پھر امام کے ساتھ ہی سلام پھیر دیتا ہے وہ غلط کرتا ہے کیونکہ امام نے ایک سلام سے تین رکعت پڑھائی ہے تو امام کی متابعت میں  مقتدی کو بھی تین پڑھنی ہے۔جو امام کے ساتھ تین رکعت والی وتر(ایک سلام سے) میں تیسری رکعت میں شامل ہوا اس کے ذمہ فوت شدہ دو رکعت کی قضا کرنا ہے ۔جو ایسا نہیں کرتا ہے وہ عبادت میں عمدا غلطی کرنے پر گنہگار ہوگا۔ ہاں جب امام دو سلام سےتین رکعت  وتر پڑھائے اور کوئی مقتدی امام کے ساتھ  تیسری رکعت میں شامل ہو  اس کے لئے یہی ایک رکعت کافی ہے کیونکہ وتر کی کم ازکم ایک رکعت بھی ہے۔

اس مقام پر ایک افسوس والی بات یہ ہے کہ جو امام کے ساتھ شروع سے لے کر آخر تک شریک نہیں رہتا وہ رات بھر قیام کے اجر سے محروم رہتا ہے اس لئے ایسے بدنصیبوں کو نقصان اور غلطی پر تنبیہ کریں تاکہ وہ شروع سے آخر تک امام کے ساتھ مکمل نماز ادا کرے اور ساری رات قیام کا اجر پاسکے۔
سوال: اگر ہمارے پاس سونا ہے لیکن اتنا نہیں ہے کہ اس پر زکوٰۃ فرض ہو۔ ساتھ ہی ایک مکان لیا ہوا ہے کاروبار کی نیت سے جس کی رقم آٹھ لاکھ ہے اور مکان اپنا ہے۔ دکان اور گھر کا ایڈوانس بھی ہے لیکن اس کے علاوہ قرض ہے۔ اب کیا جو مکان لیا ہوا ہے اس کی زکوٰۃ ادا کرنی ہے اور اگر کرنی ہے تو کیا سونا بیچ کر کرنی ہے یا اس کے لئے قرض لے سکتے ہیں؟
جواب: جو سونا نصاب بھر نہیں ہے اس پر زکوۃ نہیں ہے اور جو مکان آٹھ لاکھ کا ہے مگر کرایہ کے لیے ہے تو ایسے مکان پر بھی ہے زکوۃ نہیں ہے۔ رہا مسئلہ مکان کے ایڈوانس کا تو یہ کرایہ دار کی امانت ہے، یہ مکان مالک کا پیسہ نہیں ہے بلکہ اس کے پاس دوسرے کی امانت ہے اس پر مکان مالک زکوۃ نہیں دے گا۔ صورت مسئولہ میں مکان مالک پر کسی شئی میں زکوۃ نہیں ہے۔
سوال: ایک خاتون نے اس رمضان میں  دورہ قرآن کروایا ہے جس کی وجہ سے ان کی طالبات انہیں تحفے دے رہی ہیں، دورہ قرآن کروانے پر، کیا وہ ان کے لیے لینا جائز ہے؟
جواب: ہاں، اس کے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اپنے استانی کو ان کی محنت و مشقت کے تئیں طالبات ہدیہ اور اکرامیہ دے رہے ہیں تو یہ ان کے لئے حلال ہے ، وہ بلاشبہ ان ہدایا کو قبول کرسکتی ہیں۔
سوال: کیا کچھ دنوں یا کچھ گھنٹوں کا اعتکاف گھر پہ کر سکتے ہیں، عورت کے لئے اس کی اجازت ہے؟
جواب: بعض علماء چند گھنٹوں کا اعتکاف کرنا جائز قرار دیتے ہیں مگر مجھے اس پر اطمینان نہیں ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح کا ثبوت نہیں ملتا ہے ۔ نبی ﷺ نے رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا ہے اور آپ نے اپنی امت کو اسی کا حکم دیا ہے لہذا جسے اعتکاف کرنا ہو وہ رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرے ۔ جہاں تک گھر میں اعتکاف کا مسئلہ ہے تو اس کی اجازت نہیں ہے ، اعتکاف کے لیے مسجد ہی ضروری ہے۔جو عورت مسجد میں اعتکاف نہیں کرسکتی ہے وہ گھر میں آخری عشرہ میں زیادہ سے زیادہ محنت کرے اور شب قدر پانے کی کوشش کرے،اس سے  اعتکاف کا مقصد حاصل ہوجائے گا۔اعتکاف میں بھی اہم مقصد شب قدر کا حصول ہے۔
سوال: حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "بعض روزے داروں کو روزے سے بھوک کے سوا کچھ نہیں ملتا اور بعض قیام کرنے والوں کو قیام سے بیداری کے کچھ نہیں ملتا"۔ تو اس میں کس طرح کا قیام مراد ہے؟
جواب:  یہ ابن ماجہ(1690) کی حدیث ہےجسے شیخ البانی نے حسن صحیح کہا ہے۔ اس حدیث کا مفہوم جاننے کے لئے روزہ اور قیام کی فضیلت سے متعلق حدیث پر نظر ڈالیں تو بات واضح ہوجائے گی۔

نبی ﷺ کا فرمان ہے :
مَن صامَ رمضانَ إيمانًا واحتسابًا ، غُفِرَ لَهُ ما تقدَّمَ من ذنبِهِ (صحيح البخاري:2014)
ترجمہ: جس نے رمضان کا روزہ ایمان کے ساتھ ،اجر وثواب کی امید کرتے ہوئے رکھا اسکے گزشتہ سارے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔
اسی طرح نبی ﷺ کا فرمان ہے: من قام رمضانَ إيمانًا واحتسابًا ، غُفِرَ له ما تقدَّم من ذنبِه( صحيح مسلم:759)
ترجمہ: جو رمضان میں ایمان اور اجر کی امید کے ساتھ قیام کرتا ہے اس کے سارے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔

ان دونوں احادیث میں روزہ اور قیام کی فضیلت ان کے لئے بتائی گئی ہے جو ایمان اور اجر وثواب کی نیت سے روزہ رکھے اور قیام کرے۔ جو ایمان کے ساتھ اور اجر کی نیت سے روزہ نہ رکھے اور قیام نہ کرے ان کا روزہ محض بھوک وپیاس ہے اور ان کا قیام محض رات جاگنا ہے، وہ ثواب سے محروم ہے۔ لہذا ہم اخلاص کے ساتھ رب کی خوشنودی کے لئے روزہ رکھیں اور قیام کریں اور روزہ وقیام میں فساد پیدا کرنے امور سے پرہیز کریں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص روزہ میں جھوٹ بولنا، جہالت کی باتیں کرنا، اور ان پر عمل کرنا نہ چھوڑے، تو اللہ کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے۔ (ابن ماجہ:1689، صححہ البانی)
سوال: ماں باپ کی خدمت کرنے سے جو ثواب ملتا ہے کیا شوہر کے ماں باپ کی خدمت میں بھی یہی اجر ہے۔ ایک عورت کے لئے شوہر کے ماں باپ اور ان کی فیملی کا خیال کرنا ، ان کی ذمہ داری لینا اسلام میں اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: حقیقی والدین کی خدمت کا جو اجر ہے وہ شوہر کے والدین کی خدمت میں نہیں ہے، ماں باپ اصل وہی ہیں جو حقیقی ہیں۔ شوہر کے ماں باپ عورت کے لئے ماں باپ ہی نہیں ہیں، پھر ان کی خدمت کرنے سے والدین جیسے اجر کیسےملے گا۔ ان کی خدمت حسن سلوک اور احسان  کے درجے میں ہے مگر ماں باپ پر اولاد احسان نہیں کرتی ۔دوسری بات یہ ہے کہ عورت کے اوپر  شوہر کے والدین اور ان کی فیملی کے ذمہ داری نہیں ہے، عورت پر فقط اپنے شوہر اور اس کے بچوں کی ذمہ داری ہے۔ شوہر کی ذات پر اس کے فیملی کی ذمہ ہے، نہ اس کی بیوی پر۔
سوال: کیا ایک عورت اپنے مخصوص ایام میں مسجد میں نماز کے اوقات میں رک سکتی ہے اگر وہ جہاں پر ایسی جگہ ہو جہاں نماز نہیں پڑھی جاتی وہاں بیٹھ کر انتظار کر سکتی ہے مگر وہ مسجد کے اندر ہی ہے جہاں پر وضو وغیرہ بنایا جاتا ہے  یا پھر سیڑھیوں کے پاس رک سکتی ہے جو کہ مسجد کے اندر ہی ہیں؟
جواب: مسجد کا وہ حصہ جو نماز پڑھنے کے لئے نہیں ہے جیسے وضو خانہ یا اسٹور روم یا آرام گاہ ایسی جگہوں پر حائضہ عورت ٹھہر سکتی ہے مگر نمازپڑھنے والی جگہوں پر نہیں ٹھہرسکتی ہے۔ اس بارے میں بعض اہل علم کا یہ کہنا ہے کہ مسجد کے گیٹ سے اندر حائضہ اور نفساء کا داخل ہونا منع ہے، وہ مسجد سے باہر رہتے ہوئے ذکر یا سماع درس وغیرہ کرسکتی ہے۔ بہتر ہے کہ عورت مخصوص ایام میں گھر ہی رہے مسجد نہ جائے۔
سوال: جیسے شریعت میں مرد اور عورت دونوں کے لئے مسجد میں ہی اعتکاف کرنا شرط ہے لیکن اگر کسی علاقہ یا محلہ میں مسجد موجود نہ ہویا مسجد تو ہو مگر عورتوں کے لیے کوئی انتظام نہ ہو تو کیا ایسی صورت میں عورت گھر میں اعتکاف کر سکتی ہے یا بہتر ہے کہ نہ کرے، ایسی حالت میں کیا کرنا چاہیے؟
جواب: جہاں پر مسجد نہ ہو یا مسجد میں عورتوں کے لئے جگہ مخصوص نہ ہو ایسی صورت میں عورت  اعتکاف چھوڑ دے ۔ الحمدللہ عورت اپنے گھر رہتے ہوئے شب قدر پانے کی کوشش کرسکتی ہے ، یہی اس کے کافی ہے ۔ اعتکاف میں بھی اصل حکمت شب قدر کی تلاش و جستجو ہے وہ عورت گھر رہتے ہوئے بھی کرسکتی ہے۔
سوال: کیا بیٹا کا نام حماد اور بیٹی کا نام حمدہ رکھ سکتے ہیں اور دونوں کا معنی کیا ہے ؟
جواب: حماد کا معنی زیادہ تعریف کرنے والا اور حمدہ کا معنی قابل تعریف ہے۔ یہ دونوں نام رکھے جاسکتے ہیں ، حماد بیٹے کے لئے اور حمدہ بیٹی کے لئے۔
سوال: رمضان المبارک کا جو کلینڈر آتا ہے اس میں سحری اور افطاری کا وقت لکھا ہوتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ہم کو روزہ کب کھولنا ہے کلینڈر والے وقت پہ یا اذان پہ جبکہ اذان کیلنڈر والے وقت کے کچھ دیر بعد ہوتی ہے؟
جواب: اصل اعتبار وقت کا ہوگا یعنی جب افطار کا وقت ہوگاتب افطار کرنا ہے۔ سماج و معاشرے میں مختلف فرقوں کے مسلمان پائے جاتے ہیں ان کے یہاں کلینڈر اور اذان دونوں میں خطا پائی جاتی ہے ۔ عام طور پر دیوبندی اور بریلوی دونوں طبقوں کے کلینڈر میں غلط وقت ہوتا ہے، اس میں افطار کا وقت احتیاطا پانچ سے دس منٹ سے تاخیر والا ہوتا ہے اور اسی طرح اذان کا معاملہ ہے  یعنی احتیاط کرنے والے تاخیر سے اذان ہوتے ہیں اس لئے افطار کرنے میں اصل وقت کا اعتبار کیا جائے گا۔ آج زمانے کی ترقی کے سبب سورج ڈوبنے  کا علم گھر بیٹھے بھی حاصل کرسکتے ہیں ۔ جیسے ہی سورج ڈوبے فورا افطار کرنا چاہئے تاہم بہتر ہے کہ اپنے علاقہ کے سلفی ادارہ کا کلینڈر حاصل کریں ، اہل حدیث ہی اپنے کلینڈر میں صحیح وقت لکھتے ہیں اور صحیح وقت پر افطار کرتے ہیں۔
سوال: حدیث ہے کہ سحری دیر تک کریں، اس کا کیا مطلب ہے؟
جواب: سحری دیر سے کھانے کا مطلب یہ ہے کہ سحری کا وقت فجر سے پہلے تک ہے تو آخری وقت میں سحری کھائیں یعنی فجر سے کچھ دیر پہلے سحری کھائیں جیسے نبی ﷺ سحری کھاتے اور کچھ دیر میں فجر کی اذان ہوجاتی تھی ۔ لوگ جلدی یعنی شروع رات میں یا آدھی رات میں  کھالیتے ہیں ، یہ صحیح نہیں ہے ۔ سحری آخری وقت میں کھانا چاہئے۔
سوال:کیا یوٹیوب پر موجود شیخ محمد الیاس گھمن کی اصول تفسیر اور خلاصہ التفسیر سے استفادہ حاصل کر سکتے ہیں، مزید یہ کہ محمد الیاس گھمن یہ کس عقیدہ سے تعلق رکھتے ہیں اور کیا ان سے عقیدہ کا علم بھی لیا جا سکتا ہے؟
جواب: مولانا محمد الیاس گھمن ایک غالی اور کٹر قسم کے حنفی مقلد عالم ہیں۔ یہ اہل الرائے میں سے ہیں یعنی رائے اور قیاس پر عمل کرنے والے ہیں اس وجہ سے ان سے دین سیکھنا، عقیدے کا علم حاصل کرنا درست نہیں ہے۔ ان کو سننے والا آدمی بھی کتاب و سنت سے دور ہو کر رائے اور قیاس پر عمل کرنے لگے گا جبکہ دین نام ہے منہج سلف کے مطابق کتاب و سنت پر عمل کرنے کا۔ دین میں تقلید کی گنجائش نہیں ہے، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔
سوال:کیا ماں زکوٰۃ کے پیسوں سے اپنی بیٹی کی مدد کر سکتی ہیں جس کے حالات فی الحال درست نہیں۔ داماد دوسرے ملک جانے کی تیاریوں اور کچھ میڈیکل ٹیسٹ کے مسائل میں کافی وقت سے بےروزگاری کا شکار ہے۔کیا ایسے میں ماں بیٹی کو زکوٰۃ کی مالیت سے مدد کر سکتی ہے؟

جواب: حالات کی تنگی کی وجہ سےبیٹی اور داماد بنیادی ضرورتوں کے لئے محتاج ہوں تو ان کی ضرورت کے مطابق ماں اپنی بیٹی یا داماد کو زکوۃ  دے سکتی ہےاور اگر ضرورت پوری ہوجاتی ہو تب بیٹی کو زکوۃ نہیں دینا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو آدمی طاقت و قوت والا ہے، کماسکتا ہے اس کو بھی زکوۃ نہیں دینا چاہئے ۔ روزگار کے لئے دوسرا ملک جانا ضروری نہیں ہے ، اپنے ملک میں بھی روزگار یا کام کاج کی کمی نہیں ہوگی اور جب تک کسی ملک کا ویزا نہ مل جائے تب تک گھر میں بیٹھے رہنا بھی عقلمندی نہیں ہے۔ اللہ نے مرد کو اپنے اہل وعیال کا کفیل بنایا ہے اسے اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کا ہمہ وقت احساس ہونا چاہئے ۔

سوال: ایک دوست ہے جو رمضان میں سعودی عرب سےہندوستان  واپس آیا ہے، اس کا ایک روزہ آگے چل رہا ہے اب وہ یہاں مسجد میں رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرنا چاہتا ہے تو کس حساب سے وہ اعتکاف شروع اور ختم کرے، مزید یہ کہ اگر اس کا روزہ تیس ہو جائے تو پھر کیا وہ اکتیسواں روزہ بھی رکھے گا؟
جواب: روزہ میں آدمی جہاں ہوتا ہے اس جگہ کا اعتبار ہوتا ہے۔ اگر وہ سعودی سے  سفر کرکےہندوستان گیا ہے تو وہ ہندوستان کے حساب سے روزہ کے تمام معاملات مثلا افطار ، سحور، اعتکاف ، شب قدر اور عید وغیرہ انجام دے گا۔ اس حال میں وہ مسلمانوں کے ساتھ اکتیسواں روزہ بھی رکھے گا۔

سوال: مجھے حیض آنے سے پہلے ہلکی سی اسپاٹنگ ہوتی ہے ، پھر کسی وقت نہیں رہتی صرف واٹس ڈسچارج ہوتا ہے پھر دو دن بعد خون جاری ہوتا ہے ، اس کے چار دن بعد میں پاک ہوجاتی ہوں۔ جب اسپاٹنگ ہوتی ہے اس میں کیا مجھے روزہ رکھنا چاہئے یا جب فلو میں شروع ہو تب روزہ نہیں رکھنا چاہئے۔ اس بار مجھے چاردن پہلے فجر میں اسپاٹنگ ہوئی پھر اس کے بعد بالکل نہیں اس لئے ابھی تک تو روزہ رکھ رہی ہوں۔ کیا یہ روزہ رکھنا صحیح ہے یا برابر فلو رہے تب روزہ نہیں رکھنا ہے؟
جواب: جس وقت آپ کو ہلکی ہلکی اسپاٹنگ ہوتی ہے جو حیض سے منفصل طور پر آتی ہے، یہ حیض نہیں ہے ان دنوں میں آپ کو نماز پڑھنا ہے اور روزہ بھی رکھنا ہے اورجب باقاعدہ جب خون جاری ہوتاہے ، یہ حیض ہے اس میں نماز و روزہ سے پرہیز کرنا ہے اور جب اس سے پاکی حاصل ہوجائے تو غسل حیض کرکے پھر سے نماز کی پابندی کرنی ہے۔ گویا نے اسپاٹنگ کے دنوں میں آپ نے  جو روزہ رکھا ہے وہ ٹھیک کیا ہے۔ آپ کا روزہ درست ہے، جب فلو میں خون آنے اس وقت روزہ ونماز سے رک جائیں۔
سوال: زید ابھی حال ہی میں انتقال کرگیا ہے۔اس کی بیوی حمل سے تھی جو کہ اب بچے کو جنم دے چکی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہاسپٹل والے باپ کا نام پوچھ رہے ہیں اور آدھار کارڈ مانگ رہے ہیں مگر زید کے گھر والے زید کی بیوی بچے کو گھر نہیں لانا چاہتے ہیں اور نہ ہی زید کا نام اس بچے کے ساتھ جوڑنا چاہتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اب ہمارا بیٹا اس دنیا میں نہیں ہے اس لئے اس کے بیوی بچے سے ہمارا کوئی رشتہ نہیں۔ ایسی حالت میں فرشتہ بن کر اس بچے کے خالہ خالو اپنی سرپرستی میں لینے کے لیئے تیار ہوگئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا مجبوری کی بناء پر اس بچے کا خالو باپ کی جگہ اپنا نام دے سکتا ہے جبکہ ارادہ یہ ہو کہ جب بچہ بڑا ہو جائے گا تب اسے ساری حقیقت بتا دی جائے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ بچے کے باپ کا اداھار کارڈ آج شام تک دینا ہے تبھی ہاسپٹل والے اس بچے کو اور اس کی ماں کو ہاسپٹل سے رہا کریں گے۔اس بچے کے خالو کا کہنا ہے کہ ہم اس کی پوری ذمہ داری اٹھائیں گے مگر اس بات سے ڈر رہے ہیں کہ اپنا نام دینا مجبوری کی بناء پر کیا ٹھیک رہے گا۔جب زید کا انتقال ہوا تھا اس کے دوسرے دن ہی زید کی ماں نے اپنی بہو کو اس کے گھر (میکے) زبردستی بھیج دیا تھا، عدت بھی پورا نہیں کرنے دی تھی اپنے گھر پر، تب سے ساری زمہ داری اس بچی کے والدین اٹھا رہے ہیں۔ یہ معاملہ یعنی بچے کو نام دینے کا محض کاغذی طور پر ہوگا اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: اس مسئلہ میں مجھے کوئی دقت نظر نہیں آتی ہے۔ جب لڑکی کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے تو اس وقت لڑکی اور بچے کا ذمہ دار لڑکی کے والدین ہیں۔ لڑکی کو ہاسپیٹل سے گھر لے جانے کے لئے لڑکی کے والدین کو جانا چاہئے اور اپنے کاغذات پیش کرکے بیٹی اور اس کے بچے کو لانا چاہئے۔  کاغذات میں بچے کے والد کا اصل نام لکھوائیں اور سرپرست کی حیثیت سے والدین کا نام ہو ۔ ہاسپٹل سے بچے کو گھر لانے کے بعد اب اس بچے کو جسے گود لینا ہے  وہ گود لے لے ، اس مسئلہ میں کوئی پیچیدگی نہیں ہے۔ جب لڑکی کے والدین موجود ہیں  تو لڑکی کا خالو کیوں لڑکی کو ہاسپیٹل  سے لانے کے لئے کاغذات دے گا، ان کا معاملہ بچے کے ساتھ ہے ، جب بچہ گھر آجائے پھر اسے اپنے ساتھ لے جائے۔

شاید ہاسپیٹل والے کو بتایا نہیں گیا ہوگا کہ لڑکی کا شوہر مرگیا ہے کیونکہ جو مرا ہوا ہو اس کا کارڈ نہیں مانگا جاتا ہے ، جو زندہ ہوتا ہے اسی کا کارڈ مانگا جائے گا ۔ ہاسپیٹل والے کو صحیح خبر دی جائے کہ شوہر مرگیا ہے اور سسرال سے اس کا رشتہ نہیں ہے ، وہاں سے نکال دیا گیا ہے اور بچے کے والد کی جگہ اس کے حقیقی والد کا نام لکھا جائے اور سرپرست کی حیثیت سے والدین جائیں ، ان کے پاس بیٹی کے ثبوت کے لئے کاغذات ہوں گے وہ پیش کریں اور اپنی بیٹی کو گھر لائیں۔
سوال: حدیث میں ہے کہ عید کی رات کو اللہ کے فرشتے نیچے زمین پر اترتے ہیں، کیا اس رات بھی عبادت کرنی چائیے؟
جواب:ایسی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے جس سے معلوم ہو کہ خصوصی طور پر فرشتے عید کی رات زمین پر اترتے ہیں۔ بعض روایات میں عید الفطر کے دن فرشتوں کے نزول کی بات ہے مگر یہ ثابت نہیں ہے۔ اسی طرح  پانچ راتوں میں جاگ کر عبادت کرنے والی حدیث بھی آتی ہے جن میں شب عید بھی ہے مگر یہ روایت بھی  ضعیف ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ شب عید پہ خصوصی عبادت کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے تاہم جیسے دیگر راتوں میں عبادت کرتے ہیں اس رات بھی عبادت کرسکتے ہیں ، عبادت کرنا ممنوع نہیں ہے مگر اس رات کی جو خصوصیت بیان کی جاتی ہے کہ یہ لیلۃ الجائزۃ (انعام کی رات)ہے یااس رات بندگی کرنے سے جنت واجب ہوجاتی ہے یا اس رات فرشتے نازل ہوتے ہیں، یہ باتیں ثابت نہیں ہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔