آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(59)
جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ - سعودی عرب
سوال: میں ایک آنلائن کام کرتی ہوں جس کے
حوالے سے مجھے جاننا ہے کہ یہ حرام ہے یا حلال ہے۔ اسی آنلائن کام سے میں گھر کا
مکمل خرچہ اٹھاتی ہوں۔ ہم دو بہنیں اور امی ابو ہیں۔ ابو کی کوئی نوکری نہیں، چھ
مہینے پہلے انہیں نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔ میں غیر شادی شدہ ہوں اور یہ کام دو
سال سے کر رہی ہوں۔ پہلے یہ کام میری مجبوری نہیں تھا لیکن اب اسی پیسے سے گھر بھی
چلتا ہے اور بہت سے لوگوں کا راشن بھی اسی سے جڑا ہے۔ میرے کام کی تفصیلات یہ ہیں
کہ میرا ایک فیس بک پیج ہے جس پر لوگ آکر پیسے دیتے ہیں اور میرے پاس آنلائن گیمز
ہیں، وہ آکر مجھ سے اپنا اکاؤنٹ بنواتے ہیں اور اس میں پیسے مجھے بھیجنے ہوتے ہیں،
مطلب یہ ہوا کہ ان کے گیم میں (Coin) میں ڈالتی ہوں۔ ان سے اس (Coin)کے پیسے لے کر وہ اپنی گیم جاکر (Play)کرتے ہیں۔
اب یہی (Coin)مجھے پیچھے کمپنی سے بہت سستا پڑتا ہے اور میں کسٹمر کو مہنگا دیتی
ہوں۔ جب کسٹمر مجھ سے اکاؤنٹ میں (Coin)ڈلوانے کے بعد جاکر گیم کھیلتا ہے۔ ہمارے پاس کھچہ (Cashout Rules) ہے، اگر وہ یہی (Coin) جیت جاتا ہے ہمارے (Rules) کے مطابق تو ہم اسے (Coin) لے کر اس کی (Winnings)یعنی اس نے دس ڈالر لگا کر دس (Coin) لیے اور
جیت کر وہ تیس (Coin) آگیا تو ہم اسے تیس ڈالر
بدلے میں دے دیتے ہیں۔ میرا کام یہیں تک ہے کہ میں کسٹمر کے اکاؤنٹ میں پیسے لے کر (Recharge)کر دیتی ہوں(Coin)، اور اگر وہ (Coin) ہار جاتا
ہے تو وہ جو اس نے ایک (Coin) کا ایک ڈالر بھرا یا دس (Coin) کا دس ڈالر
بھرا اور وہ ہار گیا تو وہ دس ڈالر میرے ہو جاتے ہیں لیکن وہ دس (Coin) جو کسٹمر ہارا ہے اس کی (Cost)ہٹانے کے
بعد والے پیسے میرے ہوتے ہیں اور یہ گیمز انگریز کھیلتے ہیں ہمارے پاس آکر اور اگر
کسٹمر دس ڈالر لگا کر گیم کھیلتا ہے اور جیت جاتا ہے تو ہم اسے (Rules)کے مطابق (Cashout) یعنی کہ ڈالر اسے اس کے اکاؤنٹ میں لازمی بھیجتے ہیں ۔ ہم خود گیمز
نہیں کھیلتے ہیں، ہمارے پاس (Acces)ہے اکاؤنٹ بنانے کی، سستا (Coin)لے کر
مہنگا دینے کی اور اسے کسٹمر ہار جائے تو اس کے پیسے ہمارے لیکن (Coins Cost) نکالنے کے بعد (Profit)ہمارا ہوتا ہے اور اگر وہ جیت جاتا ہے تو ہم (Rules)کے مطابق اسے اس کے پیسے لازمی دیتے ہیں، یہ میرا کام ہے اس بارے
میں شرعی رہنمائی فرمادیں، کیا یہ جائز ہے؟
جواب:اسلام میں حرام کمائی امیر و غریب سب
کے لئے حرام ہے، ایسا نہیں ہے کہ کوئی مالدار ہے تو اس کے لئے حرام کمائی حرام ہے
اور کوئی غریب ہے تو اس کے لئے حرام کمائی جائز ہوجائے گی۔ حلال و حرام کی اسلامی
تعلیمات سب کے لئے یکساں ہے۔ گیم سے متعلق آپ نے جو اپنا مسئلہ پوچھا ہے اس کا
معاملہ بہت ہی سنگین ہے۔ کئی سالوں سے آپ ایک ایسا گناہ کا کام کررہی ہیں جس کی کمائی تو حرام ہے ہی، آپ کی وجہ سے اتنے
دنوں میں نہ جانے کتنے لوگوں نے گناہ کیا ہوگا۔ ان گناہوں کا وبال ان لوگوں پر بھی
ہوگا ساتھ ہی جو لڑکی ان لوگوں کے لئے سبب بن رہی ہے ان سب کا گناہ اس خاتون کے سر
بھی ہوگا۔ اس حیثیت سے آپ کئی لوگوں کے گناہ اپنے کھاتے میں ڈال رہی ہیں۔
انٹرنیٹ پر موجود گیمز عام طور پر فضول و لایعنی قسم کے
ہوتے ہیں جن سے وقت کا ضیاع اور واجبات میں کوتاہی ہوتی ہے بلکہ بہت سارے حرام
کھیل ہیں جیسے پب جی اور اس قسم کے کھیل کھیلنا ناجائز ہے۔ پھر اگر کھیلوں میں جوا
شامل ہوجائے تو وہ شدید گناہ کا باعث ہے۔ اولا آپ انٹرنیٹ گیموں کے کام میں ملوث ہیں
پھر ہار جیت والے کھیل جسے جوا کہتے ہیں
اس کے سکے بیچتی ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ لوگوں کو جوا کھلوا رہی ہیں یعنی آپ کی وجہ سے بہت سارے لوگ جوا کھیل رہے
ہیں اور جوا اسلام میں حرام ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے کہ تم گناہ اور ظلم کے کام پر
کسی کی مدد نہ کرو۔
آپ کے ذمہ سب
سے پہلے اللہ تعالی سے سچی توبہ کرنا لازم ہے کیونکہ کئی سالوں سے اس گناہ کے کام
میں ملوث ہیں ، ہمیشہ ہمیش کے لئے اس کام سے توبہ کریں ۔ یاد رہے کہ اہل خانہ کی
معاشی کفالت گھر کے مرد کی ذمہ داری ہے، آپ شکر ادا کریں کہ ابھی آپ کے والدین زندہ ہیں ۔ ایک نوکری چلی
گئی تو کیا ہوا، دنیا میں کام کی کمی نہیں
ہے۔ کام اس قدر ہے کہ محنت و مزدوری کرنے والے لوگ نہیں مل رہے ہیں۔ آدمی زندگی
گزارنے کے لئے کوئی بھی جائز پیشہ اختیار کرسکتا ہے اس لئے آپ اپنے والد سے کہیں کہ جو بھی حلال کام ملتا ہے، اختیار کرے اور
اپنے گھر کا خرچ خود چلائے کیونکہ یہ ان کی ذمہ داری ہے۔ نیزاگر حلال نوکری شرعی
حدود میں رہ کر آپ کے لئے میسر ہو تو آپ
بھی کوئی حلال نوکری کرسکتی ہیں مگر غریبی
کی وجہ سے یا نوکری اور آمدنی نہ ہونے کی وجہ سے انٹرنیٹ گیموں اور جوا کے کام
والا پیشہ اختیار نہیں کرسکتی ہیں ۔ یہ باطل عمل، حرام کمائی اور گناہ والا کام
ہے۔
سوال:ایک فیملی امریکہ سے عمرہ کے لئے
آرہی ہے۔ لندن میں دیر تک رکنا ہوگا۔ مکہ میں ہوٹل کنفرم نہیں ہوا۔ کیا وہ جدہ میں
کچھ آرام کرکے جحفہ سے احرام کی نیت کرسکتے ہیں کیونکہ بہت دیر تک سفر میں حالت
احرام میں رہنا انہیں مشکل لگ رہا ہے؟
جواب: سوال میں عمرہ کے لئے جو طریقہ پوچھا جارہا ہے وہ
صحیح نہیں ہے۔ عمرہ کے لئے شرعی طریقہ ہے اسی کے مطابق عمرہ کرنا ہے۔ جو لوگ عمرہ کے لئے امریکہ سے آرہے ہیں۔ وہ احرام کا
لباس پہن کر فلائٹ میں بیٹھیں اور جب طائف کے قریب پہنچیں تو فلائٹ ہی میں عمرہ کی
نیت کرلیں۔ عمرہ کی نیت کرنے کے بعد وہ احرام میں داخل ہوں گے یعنی پہلے سے محرم
نہیں ہوں گے بلکہ طائف کی میقات پر نیت
کرنے سے احرام میں داخل ہوں گے ۔ اس طرح وہ لوگ احرام میں مکہ پہنچیں اور اگر وہ تھکے
ہوئے ہوں تو فورا عمرہ نہ کریں ، رہائش پر کچھ دیرآرام کرلیں اور جیسے آرام مل جائے اس دن یا
اگلے دن ہو تو اگلے دن عمرہ کرلیں لیکن احرام میں باقی رہنا ہوگا جب تک عمرہ مکمل
نہ کرلیں۔ ان لوگوں کوعمرہ کا یہی طریقہ اختیار کرنا ہے۔
سوال: زکوۃ کی رقم کسی بے قصور کو جیل سے
رہائی کے لئے خرچ کرسکتے ہیں؟
جواب: زکوۃ کے مصارف میں ایک مصرف گردن آزاد کرنا ہے۔
اس مصرف میں غلام آزاد کرنے کے ساتھ وہ لوگ بھی داخل ہیں جو قیدی ہیں اور جن کی
رہائی کے لئے مال کی ضرورت ہو تو ایسے قیدیوں کی رہائی کے لئے زکوۃ دے سکتے ہیں۔
سوال: ایک عورت کو عام طور پر تین یا چار
دن حیض آتا ہے۔ اس بار تیرے دن پورا خون آیا اور چوتھے دن دوپہر کو وہ غسل کرلیتی
ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ حیض کے بعد اسے سفید پانی عام طور پر نہیں آتا پھر عشاء کے
وقت خون دکھ رہا ہے تو کیا یہ حیض ہے، رمضان میں اسے کیا کرنا چاہئے؟
جواب:جیساکہ اس عورت کی عادت تین یا چار دن حیض کا ہے
اور ایسے میں اسے چوتھے دن خون بند ہوگیا جس کی وجہ سے اس نے دوپہر کو غسل کرلیا
مگر رات میں عشاء کے وقت اسے خون نظر آرہا ہے تو اس کو حیض نہیں مانیں گے کیونکہ
جب حیض سے پاکی حاصل ہوجائے تو اس کے بعد آنے والا خون کچھ بھی شمار نہیں ہوگا۔
حیض سے پاک ہوتے وقت کسی عورت کو سفید
پانی آسکتا ہے تو کسی کو نہیں بھی آسکتا ہے تاہم خون آنا بند ہوجائے اور شرمگاہ
مکمل خشک ہوجائے ، یہ بھی پاکی کی علامت ہے۔
سوال: لندن میں ایک سنٹر ہے جس میں رمضان
میں تراویح پڑھائی جاتی ہے اور جمعہ بھی پڑھایا جاتا ہے، کیا مسجد جیسے ثواب اس
جگہ ملے گا؟
جواب:سنٹر مصلی کے حکم میں ہوگا اور مسجد کا حکم الگ
ہوتا ہے۔ اگر وہاں مسجد کی تعمیر نہیں ہوسکتی ہے یا کسی عذر کی وجہ سے سنٹر میں
جمعہ کی نماز پڑھی جاتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جمعہ کی نماز ادا کرنے کا
جو ثواب ہے وہ جمعہ پڑھنے والوں کو ملے گا اور تراویح کا زیادہ مسئلہ نہیں ہے، یہ
نماز کہیں بھی پڑھ سکتے ہیں اور جماعت سے پڑھنے پربلاشبہ جماعت کا اجر ملے گا۔
سوال: احرام پیٹی میں عطر کی بوتل ہو اور وہ احرام پر گر جائے تو کیا
یہ احرام استعمال کرسکتے ہیں اور اگر اندر کسی تسبیح میں یا کسی دوسری چیز میں بھی
خوشبو لگ جاتی ہے یا ہاتھ پہ خوشبو محسوس ہوتی ہے تو کیا دم دینا پڑے گا؟
جواب:احرام کی حالت میں خوشبو لگانا منع ہے، جس کپڑے
میں یا جس چیز میں خوشبو لگ جائے اس کو محرم آدمی استعمال نہیں کرے گا۔ خواہ احرام
کی پیٹی ہو، احرام کا لباس ہو، یا تسبیح کا دانہ ہو۔غلطی سے ہاتھ یا جسم پر کہیں
خوشبو کا احساس ہو تو اسے فورا دھل کر صاف کرلے۔ عمرہ کرنے والے کو اپنے ساتھ
خوشبو رکھنا ہی نہیں چاہئے خصوصا احرام کی پیٹی میں۔ غلطی سے خوشبو لگ جائے تو اس
میں کوئی فدیہ یا کفارہ نہیں ہے۔
سوال: ایک عورت کی طبیعت بہت زیادہ خراب
ہے، کسی نے اسے بتایا کہ وہ نظر کی دعا اس طرح پڑھے۔ اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر سات
مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھے اور اکتالیس مرتبہ درود شریف پڑھے اور اپنے ہاتھ کو جیسے
وسوسہ اپنے دل سے کھینچ کر نکال پھینک رہے ہوں ویسے اشارہ کر کے وہ پھینک دے۔ کیا ایسا
کرنا صحیح ہے؟
جواب:کسی کی طبیعت خراب ہو ، کم خراب ہو یا زیادہ خراب
ہو، اس صورت میں وہ رقیہ کرسکتا ہے۔ الحمد
للہ رقیہ میں شفا ہے۔ اللہ نے چاہا تو رقیہ سے بیماری دور ہوجائے گا۔ دوسری بات یہ
ہے کہ سات مرتبہ سورہ فاتحہ اور اکتالیس مرتبہ درود پڑھنا نظربد کی دعا نہیں ہے
اور نہ ہی اس طرح کسی بھی قسم کی بیماری میں نبی ﷺ نے دعا پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ اس
وجہ سے بیمار کے لئے رقیہ کا جو طریقہ بتایا گیا ہے وہ پوری طرح غلط ہے یعنی مخصوص تعداد کے ساتھ فاتحہ و درود
پڑھنا اور دل سے جھٹک کر پھینک دینا ، یہ غیرشرعی طریقہ ہے، ہمیں رسول اللہ ﷺ نے
ایسا کوئی طریقہ نہیں سکھایا ہے۔ بغیر تعداد خاص کئے ہوئے دورد ، سورہ فاتحہ اور
دیگر مسنون اذکار پڑھ کر مریض پر پھونک سکتے ہیں۔ نبی ﷺ بیماری کی حالت میں سورہ
اخلاص ، سورہ فلق اور سورہ ناس پڑھ کر اپنے دونوں ہاتھوں پر پھونک کر چہرے پر ہاتھ
پھیر لیا کرتے تھے۔ آج پتہ نہیں کیوں لوگوں کو نبی ﷺ کے طریقہ سے دشمنی ہے۔ لوگ
نبی کے طریقہ پر کیوں نہیں عمل کرتے ہیں۔ صحیح بخاری(5751)
میں ہے، عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض وفات میں معوذات پڑھ کر پھونکتے تھے پھر جب آپ کے لیے
یہ دشوار ہو گیا تو میں آپ پر دم کیا کرتی تھی اور برکت کے لیے نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کا ہاتھ آپ کے جسم پر پھیرتی تھی۔ (معمر نے بیان کیا کہ) پھر میں نے ابن
شہاب سے سوال کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح دم کیا کرتے تھے؟ انہوں
نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے اپنے دونوں ہاتھوں پر پھونک
مارتے پھر ان کو چہرے پر پھیر لیتے۔
سوال: انڈیا کے کچھ غریب لوگ اپنے آپ کو
سيّد کہتے ہیں، ان کو زکاة یا فديہ دینا کیسا ہے؟
جواب:اصلی سید کہیں کے بھی ہوں، ان کو زکوۃ یا فدیہ
دینا جائز نہیں ہے لیکن اصلی نہیں، نقلی ہوں ، بس اپنا نام سید رکھ لئے ہوں تو ایسے سید کا اعتبار نہیں ہوگا اور ایسے ضرورت
مند کو زکوۃ دے سکتے ہیں کیونکہ وہ اصلا سید نہیں ہیں۔
سوال: تکمیل تراویح قرآن کے موقع پر وتر
کی دعا جیسے حرم میں کی جاتی ہے ویسے کروا سکتے ہیں اور اس موقع پر قریبی گھر
والوں کو دعا میں شرکت کے لیے بلانا ٹھیک ہے؟
جواب:تکمیل تراویح کوئی رسمی چیز نہیں ہے۔ تراویح، تہجد کی نماز ہے جو سال
بھر مشروع ہے اور یہ نماز جسے قیام اللیل بھی کہتے ہیں کبھی ختم نہیں ہوتی ہے۔ وتر
کی دعا میں مزید اضافی دعائیں کرنا جائز ہے اس میں حرج نہیں ہے مگر اسے دعا کو
تکمیل تراویح کی رسم بنانا اور اس کے لئے لوگوں کی بھیڑ جمع کرنا اور صرف اس دعا
کے لئے گھر والوں کو بلانا یہ دین میں بدعت ہے۔ اس قسم کی رسم ایجاد نہ کریں۔ جیسے
پہلے وترمیں دعا کی گئی ہے، اسی طرح آخری دن بھی دعا کی جائے ۔ آخری دن کے وتر میں
کوئی خصوصیت نہیں ہے اور نہ ہی آج کے دن اس امام کے پاس اتنا پاور نہیں آگیا ہے کہ
وہ جو دعا کرے ان کی دعا قبول ہوگی اور کوئی اپنے گھر یا دوسری جگہ دعا کرے اس کی
دعا قبول نہیں ہوگی نیز دعا کی یہ شکل ایک رسم اور بدعت اختیار کرلے گی اس لئے اس طرح
کا عمل شروع نہ کریں۔
سوال:کیا دعا قنوت پڑھتے وقت ہاتھ اٹھانا
چاہئے یا نہیں؟
جواب:دعائے قنوت میں ہاتھ اٹھانے کی کوئی خاص دلیل نہیں
ملتی ہے، قنوت نازلہ پر قیاس کرکے اہل علم
ہاتھ اٹھانا جائز کہتے ہیں اور اس سلسلے میں بعض آثار ملتے ہیں اس وجہ سے ہاتھ اٹھانا
چاہیں تو اٹھاسکتے ہیں اور نہ اٹھائیں تو بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
سوال: ایک خاتون کے ذمہ پچھلے رمضان کے
پندرہ روزے باقی ہیں اور اب اس عورت کا اس رمضان سے پہلے انتقال ہوگیا تو کیا باقی
روزوں کا فديہ دینا ہے یا اولاد اور کسی اور کو روزہ رکھ کر قضا کرنا ہے؟
جواب:جس خاتون نے عذر کی وجہ سے رمضان کے بعض روزے چھوڑ
دئے اور پھر رمضان کے بعد اسے روزہ رکھنے کی مہلت ملی مگر کسی وجہ سے وہ قضا روزے
نہ رکھ سکی، اسی حال میں اس کا انتقال ہوگیا تو ایسی صورت میں جو روزے میت کے ذمہ باقی رہ گئے تھے ان روزوں کو میت کے ورثاء میں
سے کوئی بھی وارث بطور قضا رکھ سکتا ہے اور اگر ان روزوں کا فدیہ دے دیا جائے تو
فدیہ دینے سے بھی کام چل جائے گا۔
سوال: اگر کوئی شخص بدعتی ہے اور اپنے
بچوں کا نگراں ہے اور بیوی بچے صحیح منہج
اور عقیدے پر ہیں اور یہ شخص جو بدعت کر رہا ہے اپنے بیوی بچوں کی طرف سے فطرہ نکال رہا ہے، کیا یہ فطرہ مقبول
ہوگا ؟
جواب:جب بدعتی شخص اپنے
گھروالوں کی طرف سے فطرہ ادا کردے تو گھر والوں کی طرف سے فطرہ ادا ہوجائے گا۔
گھروالے اس کے ماتحتی میں ہیں اور وہ سب اس کاکمایا ہوا بھی کھاتے ہیں اس میں کوئی
حرج نہیں ہے۔ گھروالوں میں جوصاحب علم ہیں ان کو چاہئے اس بدعتی کی اصلاح کی
مسلسل کوشش کرتا رہے اور گھر والے اس کی
ہدایت کی دعا بھی کرتے رہیں۔ ہوسکے تو اپنے قریب کے کسی سلفی عالم کے ذریعہ اصلاح کی کوشش کریں، انہیں گھربلاکر یا ان سے جوڑ کر اور ان کی علمی مجلس
میں بھیج کر جوبھی طریقہ ممکن و سہل ہو۔
سوال: کیا کسی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر
معافی مانگنا یا تعظیما کسی کے سامنے ہاتھ جوڑنا شرک ہے؟
جواب:کسی سے معافی
مانگتے وقت یا کسی کے سامنے کھڑا ہوتے وقت ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہونا شرک کے قبیل سے
ہے کیونکہ یہ غیرمسلم کے یہاں عبادت کی علامت ہے اور غیرمسلم کی عبادت کی کیفیت
اختیار کرنا شرک ہے۔
سوال: میں نے زمین بیچی تھی اس میں کچھ
پیسے خرچ ہوگئے ، بچے ہوئے پیسے دولاکھ کے قریب ہیں اور تین تولہ سونا ہے اور سات
آٹھ تولہ چاندی ہے، اس میں مجھے کیسے زکوۃ دینا ہے؟
جواب:آپ کے پاس تین
چیزیں ہیں ، ان میں سے دو چیزوںمیں یعنی سونا اور چاندی میں نصاب پورا نہیں ہورہا ہے اس لئے سونا اور چاندی
میں زکوۃ نہیں دینی ہے لیکن پیسہ، چاندی کے نصاب کو پہنچ رہا ہے اس لئے دو لاکھ
روپئے میں آپ کو زکوۃ دینی ہے بشرطیکہ اس پیسے
پہ سال گزر گیا ہو۔
سوال:نماز میں سجدہ والی سورت آنے پر
پہلے سے اعلان کرنا درست ہے کہ پہلی یا دوسری رکعت میں سجدہ ہے؟
جواب:اس میں کوئی حرج
نہیں ہے کہ امام نماز شروع کرنے سے پہلے
آیت سجدہ کے بارے میں مقتدیوں کو خبر کردے ۔اس سے لوگوں کو غلطی نہیں لگے گی
کیونکہ بسا اوقات سجدہ تلاوت کرنے سے بعض لوگ سجدہ میں تو چلے جاتے ہیں لیکن بعض
لوگ رکوع کی حالت میں چلے جاتے ہیں خصوصا جو لوگ مسجد کے اوپر حصے میں یا
دوسری جانب ہوں ان کو یہ غلطی لگ سکتی ہے۔یہ اعلان کرنا کوئی ضروری نہیں ہے تاہم
اس کی خبردیدینا بہتر ہے ۔
سوال:کیا رمضان المبارک میں آٹھ رکعات تراویح پڑھنے کے بعد صرف ایک رکعت وتر
جماعت سے پڑھ سکتے ہیں جبکہ اگر ایک رکعت پڑھیں گے تو نو ہی رکعت ہوگی؟
جواب:رمضان المبارک ہو
یا غیررمضان ہو، آٹھ رکعت قیام کرنے کے بعد ایک رکعت وتر پڑھ سکتے ہیں، اس میں
کوئی حرج نہیں ہے اور اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ قیام کی نو ہی رکعات بنتی ہیں
تاہم افضل و کامل صورت یہی ہے کہ آدمی قیام اللیل میں گیارہ رکعات کا معمول بنائے
جیساکہ نبی ﷺ کا معمول رہاہے۔ قیام اللیل میں وسعت ہے، حسب ظروف کم یا زیادہ تعداد
میں قیام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔