آپ کے سوالات اور ان کے جوابات (58)
جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ
دعوہ سنٹر، حی السلامہ ـ سعودی عرب
سوال: ایک عورت کو چار دن حیض آتا ہے پھر غسل کے بعد تھوڑا بہت خون
آتا رہتا ہے اور بعض اوقات چھ یا سات دن تک چلتا ہے۔ اگر اس نے چوتھے دن غسل کرلیا
اور اسی دن دوبارہ زیادہ خون آگیا مگر اس نے پانچویں دن غسل نہیں کیا اور اپنی
سمجھ کے مطابق عمل کیا یعنی ناپاکی کی حالت میں روزہ رکھا اور فجر سے پہلے غسل
کرکے نماز پڑھ لی۔ بعد میں اسے کوئی داغ یا حیض کا نشان نظر نہیں آیا۔ اب سوال یہ
ہے کہ کیا اس کا روزہ درست ہوگا؟
جواب:
جو عورت چوتھے دن حیض کی حالت میں تھی پھر اس نے پاکی کا خیال کرکے غسل کر لیا
لیکن غسل کے بعد اسی دن پھر حیض کا خون زیادہ مقدار میں آنے لگا یہاں تک کہ اس نے
دوبارہ اس دن غسل نہیں کیا۔
سوال
سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ پانچویں دن اس نے روزہ رکھا ہے مگر پھر بھی سوال میں
لکھا گیا ہے کہ پانچویں دن غسل نہیں کیا گیا شاید یہ غلطی سے لکھ گیا ہو۔
بہر
کیف چوتھے یا پانچویں دن کا جو بھی مسئلہ ہو اس میں شرعی حکم یہ ہے کہ اگر فجر سے
پہلے عورت حیض سے پاک ہوگئی تھی لیکن اس نے پاکی کا غسل نہیں کیا تھا اور اسی حالت
میں اس نے روزے کی نیت کی اور سحری کھالی یہاں تک کہ فجر کے وقت یا اس کے بعد کسی
وقت غسل کیا تو اس کے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اس کا روزہ اپنی جگہ درست ہے۔نیز
حیض کی وجہ سے رمضان کے جتنے روزے چھوٹ گئے ہیں ان کی قضا رمضان کے بعد کرے۔
سوال: کیا ایک عورت اپنے شوہر کو صدقہ دے سکتی ہے، اس کی صورت یہ
ہے کہ عورت شوہر کو ان کی ضرورت کے وقت پیسے دیتے وقت صدقہ کی نیت کر لے لیکن شوہر
خود غرض ہو مطلب صدقہ لینا اپنی عزت میں کمی کا باعث سمجھتا ہو اور وہ پیسہ ادھار
کے طور پر لے رہا ہو کہ جب میرے پاس پیسے آئے گاتو لوٹادوں گا۔ اب جب عورت صدقہ کی
نیت کر رکھی تھی تو جب شوہرپیسے لوٹائے اور اگر ان کو پتہ چل جائے کہ میں نے پیسے
دیتے وقت صدقہ کی نیت کی تھی اور وہ اس پر بہت غصّہ ہو تو کیا عورت اس جگہ صدقہ کی
نیت نہیں کر سکتی ہے اور اگر انہوں نے پیسے لوٹا دئے تو کیا عورت کو صدقہ کا ثواب
نہیں ملے گا؟
جواب:
اگر شوہر اپنی بیوی سے ضرورت کے وقت قرض اور ادھار مانگتا ہے تو بیوی کو بطور قرض
ہی پیسہ دینا چاہیے کیونکہ مانگنے والے کی نیت قرض کی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب
شوہر کمانے اور قرض چکانے کی حیثیت رکھتا ہو تو بیوی اپنے شوہر کو صدقہ نہیں دے گی
کیونکہ صدقہ کا اصل مستحق فقیر و محتاج ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ جب شوہر نے مانگتے
وقت قرض مانگا ہے اور وہ اپنی حیثیت سمجھ کر صدقہ سے بچ رہا ہے پھر ایسے میں بیوی
کا قرض سے متعلق صدقہ کی نیت کرنا غلط ہے جبکہ اسے معلوم ہے کہ اس بات سے شوہر
ناراض بھی ہوگا اس لیے آئندہ عورت اس عمل سے پرہیز بھی کرے۔ بیوی نے جو عمل کیا ہے
اس میں اس کے لئے صدقہ کا اجر نہیں ہے، اگر عورت واقعی صدقہ کا اجر چاہتی ہے تو وہ غریب و مسکین
پر صدقہ کرے جو اصل مستحق ہے۔
سوال: کیا حائضہ عورت سجدہ تلاوت کرسکتی ہے؟
جواب:
عورت حیض کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت کر سکتی ہے اور آیت سجدہ آنے پر سجدہ
تلاوت بھی کر سکتی ہے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ تلاوت کے لیے وضو یا پاکی
شرط نہیں ہے۔
سوال: صدقہ فطر کب ادا کرنا مستحب ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ شوال کا
چاند نظر آنے کے بعد دینا چاہئے جبکہ کچھ کہتے ہیں کہ فطرہ پہلے ہی دینا چاہئے
تاکہ جو ضرورت مند ہو عید کا چاند نظر آنے سے پہلے پہلے اپنی ضرورت پوری کرلے، بعد
میں دینے کا کیا فائدہ؟
جواب:
صدقہ فطر کے دو اوقات ہیں، ایک واجبی اور ایک وقت جواز۔ واجبی وقت عید کا چاند
نکلنے سے لے کر عید کی نماز پڑھنے سے پہلے پہلے تک ہے یعنی اس وقت میں فطرہ دے
دینا ہر حال میں ضروری ہے۔ اور ایک وقت جواز ہے وہ عید سے ایک دو دن پہلے ہے یعنی
فطرانہ عید سے ایک دو دن پہلے بھی دینا جائز ہے۔ اگر کوئی ضرورت مند و مسکین کا
خیال کرکے ایک دو دن پہلے فطرہ دے دے تو کوئی حرج نہیں ہے تاہم زیادہ دن پہلے دینے سے فطرانہ ادا نہیں ہوگا۔
سوال: ایک خاتون کے والد کا آج انتقال ہوا ہے، وہ ڈائلیسس پر تھے
ان کے جسم میں خون کے اندر تک ٹیوب لگی ہوئی تھی جو کافی اندر تک ہے اس کو نکالنے
کے لئے بھی ایک سرجری ہوگی۔ کیا ٹیوب کو تدفین کے لیے نکالنا ہوگا یا اسے نکالے
بغیر بھی تدفین کرسکتے ہیں؟
جواب:
اگر میت کے جسم میں لگے ٹیوب کو نکالنے کے لیے سرجری کرنے کی ضرورت ہے تو میت کو
سرجری کرکے ٹیوب نکالنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ایسے ہی ٹیوب کے ساتھ دفن کر دینا
چاہیے، اس میں قطعا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہاں اگر بغیر سرجری کے یونہی آسانی کے
ساتھ ٹیوب نکل جائے تو اسے نکال دیا جائے ورنہ میت کو چیر کر ٹیوب نکالنے کی ضرورت
نہیں ہے کیونکہ میت کو چیر پھاڑ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
سوال: کیا تراویح اور وترکے سجدے میں اپنی زبان میں دعا کر سکتے؟
جواب:
فرض نماز کے علاوہ سنن اور نوافل کے سجدوں میں اپنی زبان میں دعا کرسکتے ہیں،
تراویح اور وتر کی نماز میں بھی اپنی زبان میں دعا کر سکتے ہیں، اس میں مسئلہ نہیں
ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدے کی حالت میں کثرت سے دعا کرنے کا حکم دیا ہے
کیونکہ اس حالت میں بندہ اللہ سے بہت قریب ہوتا ہے۔
سوال: مجھے عام طور پر چھ دن کے لیے حیض آتا ہے لیکن کبھی کبھار
دس، پندرہ یا بیس دن کے بعد ہلکی سی اسپاٹنگ ہونے لگتی ہے جو دو تین دن تک رہتی ہے
اور پھر اپنے مقررہ وقت پر حیض آجاتا ہے۔ اس بار مجھے اٹھائیس یا انتیس تاریخ کو
حیض آنا تھا لیکن چھبیس کو ہلکی سی اسپاٹنگ شروع ہوگئی جو تقریباً تیرہ سے چودہ دن
تک جاری رہی مگر باقاعدہ خون نہیں آیا۔ اس کے بعد اچانک خون آنا شروع ہو گیا۔ دس
دن کے بعد میں نے روزہ رکھنا اور نماز پڑھنا شروع کر دیا لیکن اب تین دن سے مسلسل خون
جاری ہے اور معمول سے زیادہ مقدار میں آرہا ہے۔ میں ڈاکٹر کے پاس گئی تو اس نے کہا
کہ میرے مطابق اب آپ کے اصل ایام شروع ہوئے ہیں۔ اب مجھے سمجھ نہیں آرہا ہے کہ میں
روزہ اور نماز جاری رکھوں یا نہیں، اس کے علاوہ مجھے دن میں دو تین بار ایسا محسوس
ہوتا ہے جیسے پیشاب نکل گیا ہو لیکن مکمل یقین نہیں ہوتا۔ اگر میں حیض کی حالت میں
رہوں اور نماز و روزہ جاری رکھوں تو پیشاب کے مسئلہ کی شرعی حیثیت کیا ہوگی، میں
اس بارے میں بہت الجھن کا شکار ہوں؟
جواب:آپ نے
لکھا ہے کہ آپ کو حیض کے واسطے چھ دن کی عادت ہے، پھر اس کے پندرہ بیس دن کے بعد
دو تین دن کے لیے اسپاٹنگ ہوتی ہے۔ اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ حیض سے پاکی حاصل ہونے
کے کچھ دن کے بعد اگر دوبارہ اسپاٹنگ ہو یا ہلکا پھلکا خون آئے تو اسے حیض نہیں
مانیں گے، آپ کے لئے حیض وہی ہے جو چھ دن تک مسلسل آتا ہے۔ ابھی جو حالیہ صورتحال
ہے جس میں پہلے کئی دنوں تک اسپاٹنگ ہوئی اور اب دو تین دنوں سے باقاعدہ خون آرہا
ہے جس کے بارے میں ڈاکٹر کا بھی کہنا ہے کہ یہ حیض ہے۔ اگر اس میں حیض کے صفات
پائے جاتے ہوں تو اس کو حیض مانا جائے گا اور اس میں آپ کو نماز و روزہ سے رکنا
ہے، جب حیض سے پاکی حاصل ہو جائے اس وقت غسل طہارت کر کے نماز اور روزہ شروع کریں
گے۔ پیشاب کا مسئلہ زیادہ پیچیدہ نہیں ہے۔
حیض کی حالت میں عورت ناپاک ہی ہوتی ہے اس وقت پیشاب کے قطرے نکل جائے تو کوئی
مسئلہ نہیں ہے کیونکہ عورت اس وقت ناپاک ہی ہوتی ہے تاہم جب کبھی پیشاب نکلنے کا
شبہ ہو تو استنجا کر لیا کریں، وسوسہ دور ہو جائے گا۔ پاکی کی حالت میں اگر پیشاب
آئے تو ظاہر سی بات اس کا اثر کپڑے پر دکھائی دے گا۔ ایسی صورت میں جب کپڑے پر
پیشاب کا اثر ہو تو اس کو دھل کر صاف کر یں اور جب کپڑے پر اثر نہ ہو تو ایسے
وسوسہ پر دھیان نہ دیں کیونکہ اصل حکم ظاہر پر لگتا ہے۔
سوال: اگر مجھے نظربدلگی ہے اور ہم دوائیں کھا رہے ہیں تو کیا
نظربد صحیح ہوسکتی ہے اور اگر ہم کسی کو رقیہ کررہے ہیں اور ہمیں جمائی آرہی ہے تو
کیا اس شخص پر نظر کی علامت ہے، اس بارے میں دلائل سے رہنمائی فرمائیں؟
جواب:
اگر کسی کو جسمانی بیماری ہو تو اسے طبیب سے دکھانا چاہیے اور جائز اسباب اپنا کر
اپنی بیماری دور کرنا چاہیے۔ جب کوئی بیمار آدمی، ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے تو ڈاکٹر،
آدمی کی بیماری دیکھ کر اس کے حساب سے ہی دوا لکھتا ہے یونہی کسی کو ڈاکٹر دوا
نہیں لکھ دیتا اور پھر بیماری میں علاج کرانے کی تعلیم ہمیں نبی صلی اللہ علیہ
وسلم نے دی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالی نے ہر بیماری
کا علاج نازل کیا ہے اس لیے جسمانی بیماریوں کے لیے علاج کرنا حکم رسول ہے۔ دنیاوی
علاج کے ساتھ آدمی جسمانی تکلیف کے لئے رقیہ شرعیہ بھی کرسکتا ہے۔
جہاں
تک نظر بد کا مسئلہ ہے تو اس سلسلے میں کسی کو وہم اور وسوسہ میں مبتلا نہیں ہونا
چاہیے کیونکہ حتمی طور پر کوئی نظر بد ہونے کا حکم نہیں لگا سکتا ہے اور نہ ہی
جمائی آنے والی مذکور ہ بات نظر بد کی علامت ہے۔ اس سلسلے میں بس یہ بات ذہن نشین
رکھیں کہ جسمانی بیماری لاحق ہونے پر طبیب سے رجوع کریں اور اگر صاحب علم و معرفت
کے تجربات کی روشنی میں آسیب یا نظربد کا گمان ہو تو اس کے لیے رقیہ شرعیہ کریں۔
سوال: کسی اکیڈمی میں آنلائن درس اور دروس کورس چلتے ہیں تو اس کی
ریکارڈنگ کی جاتی ہے اور یوٹیوب چینل پر شیئر کردئے جاتے ہیں لیکن اس رکارڈ کو
پرائیویٹ موڈ میں رکھا جاتا ہے، وہاں سے کوئی نہیں سن سکتا۔ کلاس میں صرف آواز
پہنچتی ہوتی ہے، کیمرہ آف ہوتا ہے ، کیا ان دروس کو یوٹیوب پر لائیو کے ذریعہ نشر کرسکتے ہیں، ایسا کرنا صحیح ہے؟
جواب:
ایک عورت اپنی آواز بلاضرورت غیر محرم تک بلند نہیں کرسکتی ہے یہی وجہ ہے کہ غیر
محرموں کی موجودگی میں اس کے لیے بلند آواز سے تلاوت کرنا، جہرا نماز پڑھنا یا
جہرا دعا مانگنا منع ہے حتی کہ مرد امام کے پیچھے اگر عورتیں نماز پڑھیں تو انہیں
امام کی غلطی پر بھی آواز نکالنےکی ممانعت ہے، وہ امام کو متنبہ کرنے کے لئے فقط
اپنے ہاتھوں سے تالی بجاسکتی ہے۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز میں مردوں کو «سبحان الله» کہنا چاہیئے اور عورتوں
کو تالی بجانی چاہیئے۔ (ابوداؤد:939، صححہ البانی)
اسی طرح وعظ و نصیحت اور درس و تدریس کی
اپنی آواز عورت غیر محرموں تک نہیں پہنچا سکتی ہے۔ اللہ تعالی نے دین کی تبلیغ کے
لیے صرف مردوں میں سے نبی اور رسول بھیجے، اگر عورتوں کو کھلے عام بغیر کسی قید کے
بات کرنے اور وعظ کرنے کی اجازت ہوتی تو اللہ تعالی عورتوں میں سے بھی نبی بنانا
مگر اللہ نے ایسا نہیں کیا ہے کیونکہ اس میں فتنے کا اندیشہ ہے۔ اگر عورت یوٹیوب
یا کسی سوشل پلیٹ فارم کے ذریعہ اپنے دروس آنلائن نشر کرتی ہے تو اس کی آواز
عورتوں کے علاوہ مردوں تک بھی جائے گی جو کہ شرعا جائز نہیں ہے اور درس میں کیمرے
کا استعمال ہو تو اور بھی سخت منع ہے یعنی ایک عورت کے لیے اپنا درس کیمرہ یا بغیر
کیمرہ کے پبلک فورم پر آنلائن نشر کرنا جائز نہیں ہے۔ عورت دینی کام عورتوں کے درمیان زمینی سطح پر آف لائن
کرے۔
سوال: اگر چاندی کا نصاب ، چاندی اور پیسے ملاکر پورا ہورہا ہو تو
کیا پورے مال پر زکوۃ دینی چاہئے یعنی نصاب سے کم سونا ہو اس پر بھی؟
جواب:
اگر کسی کے پاس کچھ چاندی، کچھ سونا اور کچھ پیسے ہوں اور ان میں سے کوئی بھی زکوۃ
کے نصاب تک نہ پہنچتا ہو لیکن اگر پیسہ چاندی کے ساتھ ملانے سے چاندی کے نصاب تک
پہنچ جاتا ہو تو پھر پیسے کو چاندی کے ساتھ ملا کر زکوۃ ادا کریں گے۔ یاد رہے کہ
چاندی اور سونا یہ دو الگ الگ جنس ہیں اس لیے ان دونوں کو نہیں ملایا جائے گا لہذا
سونا نصاب سے کم ہو تو اس کی زکوۃ نہیں دی جائے گی۔
سوال: ایک خاتون کی طلاق ہوچکی ہے اور اس کو ایک دو سال کا بچہ ہے
جس کی ذمہ داری خاتون کے پاس ہے وہ اس بچے کو اپنے والد سے ملنے نہیں دیتی۔ ایسا
اس نے کاغذی کاروائی میں بھی لکھوا لیا ہے اور والد کا دستخط لے لیا ہے، کیا بیٹے
کو باپ سے نہ ملنے دینا جائز ہے؟
جواب:
شرعی طور پر بیٹے پر ماں کی طرح باپ کا بھی حق ہے لہذا ماں کے لئے اپنے شوہر کو بیٹے
سے روکنا یا اس سے ملنے نہ دینا جائز نہیں ہے اور اس نے جو کاغذی کاروائی کی اور
اپنے سابق شوہر سے نہ ملنے دینے پر دستخط کروایا یہ غلط عمل ہے۔ اس میں کوئی حرج
نہیں ہے کہ بچہ چھوٹا ہے تو اس کی پرورش کے لیے ماں اپنے پاس رکھے کیونکہ بچے کی
کمسنی میں اس کی پروش کا حق ماں کو حاصل ہے مگر باپ سے نہ ملنے دینا یہ ظلم و
زیادتی ہے، عورت کو اپنے اس عمل سے باز آجانا چاہیےاور باپ کو اپنے بیٹے سے ملنے
دینا چاہئے۔
سوال:ایک عورت نفاس کی حالت میں ہے، جب خون آنا بند ہوگیا تو اس نے
غسل کرکے نماز و روزہ شروع کردیا تھا لیکن تین دن بعد پھر خون آنے لگا تو اس نے
روزہ نہیں رکھا، دوسرے دن پھر خون کا آنا بند ہوا اور تین دن تک نہیں آیا تو کیا
وہ غسل کرکے نماز و روزہ کرے گی جبکہ ابھی تیس دن ڈیلیوری کے ہوئے ہیں؟
جواب:
نفاس کی اکثر مدت چالیس دن ہے لہذا عورت کے لئے نفاس کا اعتبار چالیس دن تک ہوتا
ہے۔ جو صورتحال ذکر کی گئی ہے کہ پہلی دفعہ خون بند ہونے پر عورت نے غسل کرکے نماز
و روزہ کی پابندی کی، اس معاملے میں اس نے درست عمل کیا پھر جب دوبارہ خون آنا
شروع ہوا تو وہ نماز و روزہ سے رک گئی ، اس کا یہ عمل بھی درست عمل تھا۔ اب پھر سے
خون آنا بند ہوگیا ہے تو اسے غسل طہارت کرکے پھر سے نماز و روزہ کی پابندی شروع کر
دینی چاہیے اور یاد رہے کہ چالیس دن کے بعد اگر خون آئے تو اس کا کوئی اعتبار نہ
کرے یعنی اسے نفاس نہ شمار کرے۔
سوال:حج میں فرض نماز قصر کرکے پڑھتے ہیں تو کیا ایسے میں فجر کی
سنت دو رکعت اور وتر کی نماز پڑھ سکتے ہیں اسکی فضیلت کی بنا پر؟
جواب:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر اور حضر دونوں حالات میں فجر کی سنت اور وتر کی
نماز ادا فرمائی ہے لہذا حج کے ایام میں بھی حج کرنے والا فجر کی سنت اور وتر کی
نماز ادا کرے گا۔
سوال: میری بہن مکہ میں رہتی ہے ، اس نے رمضان کے شروع میں ایک
عمرہ کیا ہے، اب کئی دنوں کے بعد دوسرا عمرہ کرنا چاہتی ہے تو اس کا شوہر کہہ رہا ہے کہ میں تمہیں
حرم میں چھوڑ دوں گا تم بچوں کے ساتھ عمرہ کرلینا۔ کیا وہ اپنے شوہر کے بغیر بچوں
کے ساتھ عمرہ کرسکتی ہے؟
جواب:
آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ عورت کو محرم کی ضرورت عمرہ کا عمل انجام دینے کے لیے
ضروری نہیں ہے بلکہ عورت کو سفر میں محرم کی ضرورت ہوتی ہے لہذا جس عورت کا شوہر
اسے حرم تک چھوڑ دے وہ عورت اکیلی یا اپنے بچوں کے ساتھ بلاشبہ عمرہ کرسکتی ہے اس
میں کوئی حرج نہیں بلکہ جو بھی خاتون مکہ میں رہتی ہے وہ اکیلی حرم جاکر عمرہ
کرسکتی ہے اس میں محرم کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
سوال:"سونے پر زکوٰۃ کا نصاب ساڑھے سات تولہ (87.48 گرام) ہے۔
اگر کسی کے پاس اس سے کم سونا ہو اور اس کے ساتھ چاندی، نقدی یا دیگر قابلِ زکوٰۃ
اثاثے اتنے نہ ہوں کہ وہ نصاب تک پہنچ جائیں تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی البتہ
اگر کوئی شخص ساڑھے سات تولہ سے کم سونے کے ساتھ اتنی نقد رقم، چاندی یا دیگر
زکوٰۃ کے قابل اثاثے رکھتا ہے کہ ان کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی (612.32
گرام) کے برابر یا زیادہ ہو تو زکوٰۃ واجب ہوگی"۔ کیا یہ بات درست ہے۔ اگر
صرف تین تولہ سونا ہو اور باقی چاندی ہو اور دونوں کی مالیت کو ملا کر ساڑھے باون
تولہ چاندی کی رقم بن رہی ہوں تو زکوۃ دینا ہوگی یا سونا اور چاندی کا نصاب علاحدہ
علاحدہ دیکھا جائے گا؟
جواب:
آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ سونا اور چاندی دو الگ الگ جنس ہیں لہذا زکوۃ میں ان
دونوں کا الگ الگ اعتبار کیا جائے گا ان دونوں کو ایک ساتھ نہیں ملایا جائے گا۔
اگر کسی کے پاس نصاب سے کم سونا ہو اور نصاب سے کم چاندی ہو اور نصاب سے کم پیسہ
ہو تو اس پیسے کو سونا یا چاندی سے ملا کر دیکھیں گے کہ سونا یا چاندی کے ساتھ
نقدی ملا کر سونا یا چاندی کا نصاب پورا ہوتا ہے یا نہیں؟ اگر پیسہ کو سونا سے
ملانے سے سونے کا نصاب پورا ہو جاتا ہے تو اس کی زکوۃ ادا کریں گے یا اگر پیسے کو
چاندی سے ملا کر چاندی کا نصاب پورا ہو جاتا ہے تو اس کی زکوۃ ادا کریں گے اور
پیسے کو سونا یا چاندی سے الگ الگ طور پر ملانے سے نصاب نہیں پورا ہوتا تو پھر
زکوۃ نہیں ادا کریں گے۔ سونا کا نصاب پچاسی گرام اور چاندی کا نصاب پانچ سو پچانوے
گرام ہے۔
سوال:برطانیہ سے ایک خاتون پوچھتی ہے کہ میں ایک حنفی فیملی سے ہوں
اور مجھے ان کا سکول آف اسلام پسند ہے اور میرے کئی ساتھی بھی حنفی تھے مگر بہت
تھوڑے وقت میں زیادہ تر شافعی سکول آف تھاٹ کو فالو کرنے لگے ہیں اس لئے کہ اس میں
حنفی جیسی سختی نہیں ہے اور یہ آسان ہے، کیا ایسا کرنا درست ہے؟
جواب:
قرآن و حدیث کی روشنی میں چار ائمہ میں سے کسی کی تقلیدکرنا جائز نہیں ہے کیونکہ
اللہ تعالی نے قرآن میں جا بجا اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا ختم دیا ہے جبکہ
تقلید امام کی بات بلا دلیل مان لینے کو کہتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ
تعالی نے یہ اجازت کسی کو نہیں دی ہے کہ کوئی کسی کی بات بغیر دلیل کے مان لے۔ دین
نام ہے قرآن و حدیث کا اور یہی دونوں چیزیں ہمارے لئے دلیل ہیں، ان دونوں سے باہر
دین نہیں ہے لہذا یہیں سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بغیر دلیل کے کسی کی بات ماننا
اسلام نہیں ہے اس وجہ سے دین اسلام میں تقلید سراسر جہالت اور بے دینی ہے۔ آپ کے
لیے نہ حنفی ہونا صحیح ہے اور نہ ہی شافعی ہونا صحیح ہے، آپ کے لیے اللہ اور اس کے
رسول کے کلام پر عمل کرنا صحیح ہے یعنی قرآن و حدیث کی پیروی کرنا صحیح ہے جس کا
اللہ اور اس کے رسول نے ہمیں حکم دیا ہے۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے کہ"
تمہارے لئے رسول اللہ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے"۔ جب اللہ نے ہمارے لئے
رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ رکھا ہے پھر رسول کو چھوڑ کر ان کی تقلید کرنا جن
کی تقلید کے لئے قرآن وحدیث میں دلیل نہیں ہے، جائز نہیں ہے۔
سوال: لوگوں میں یہ بات عام ہے کہ جتنی مرضی ہو رمضان میں نئے کپڑے
پہن لو انکا حساب نہیں لیا جائے گا، کیا اس کی کوئی حقیقت ہے؟
جواب:
لوگوں کی یہ بات قرآن و حدیث کی روشنی میں بے بنیاد اور جھوٹ ہے کیونکہ ہمارے دین
میں کہیں پر ایسی بات نہیں بتائی گئی ہے کہ رمضان میں جتنا کپڑا پہن لو اس کا حساب
نہیں ہوگا۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں ہمیں معلوم ہے کہ اللہ کے یہاں ذرہ ذرہ کا
حساب ہوگا خواہ وہ کپڑا ہو، کھانا پینا ہو یا زندگی سے متعلق کوئی بھی چیز ہو۔ہم
نے کوئی چیز رمضان میں استعمال کی ہو یا دوسرے مہینوں میں استعمال کی ہو یعنی زندگی کے تمام مہینوں اورتمام ایام کا اللہ کے یہاں حساب ہوگا۔
سوال: لیلۃ القدر میں خواتین کے مخصوص پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں
جو تقریباً تین گھنٹوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ کافی دوری پر پروگرام ہے، اس میں اجتماعی
دعا بھی ہے، قرآن بھی پڑھایا جائےگا۔ اس
طرح کے پروگرام میں شرکت کے لئے عورتوں کا نکلنا کیسا ہے جبکہ بعض خواتین اس
کنڈیشن میں بھی نہیں ہوتیں؟
جواب:
لیلۃ القدر کو پانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر شب بیداری کرتے
اور عبادت پر محنت و مشقت کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں
اپنے گھر والوں کو ضرور جگاتے مگر آپ صحابہ کے ساتھ یا اپنے گھر والوں کے ساتھ کوئی
اجتماعی پروگرام منعقد نہیں کرتے۔ حتی کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے جب آپ
سے سوال کیا کہ ہم شب قدر پائیں تو کون سی دعا مانگیں ،اس پر آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے انہیں شب قدر کی دعا سکھائی۔ آپ نے شب قدر میں مجلس قائم کرکے اجتماعی دعا یا اجتماعی قرآن
خوانی یا اجتماعی ذکر و عبادت نہیں کی بلکہ انفرادی طور پر آپ نے شب قدر میں عبادت
کی ہے اور ہمارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے
لہذا آپ کے مطابق ہمیں شب قدر میں انفرادی طور پر عبادت کرنی چاہیے اور جو لوگ شب
قدر جیسی عظیم رات میں لمبے لمبے پروگرام منعقد کرتے ہیں اور اجتماعی طور پر مختلف
عمل انجام دیتے ہیں، خواتین کو ایسے پروگرام سے دوری اختیار کرنا چاہیے بلکہ
عورتوں کا گھر سے نکلنا خصوصا رات میں اور وہ بھی دور دراز مقامات کے لیے قطعا
جائز نہیں ہے۔ رمضان کے آخری عشرے اور اس کی طاق راتوں میں عورتیں اپنے گھر میں
مختلف قسم کی عبادتیں انجام دیں، اگر مسجد میں عورتوں کے لئے تراویح اور قیام
اللیل کا اہتمام ہو تو اس میں شرکت کرنے میں حرج نہیں ہے مگر تین گھنٹے والے جس
پروگرام کی بات کی گئی ہے ایسے پروگرام میں تو ہرگز نہیں جانا چاہیے۔
سوال: آٹھ سال پہلے میری کزن پندرہ رمضان المبارک کو فوت ہوئی تھی،
اب ہر سال اس کے گھر والے پندرہ رمضان المبارک کو افطاری کرواتے ہیں۔ نیت یہی ہے
کہ اس دن ہماری بہن کا انتقال ہوا تھا جبکہ اس کا مسلک اہلحدیث ہے، کیا ہم ایسا
کھانا کھا سکتے ہیں؟
جواب:
پہلی بات یہ ہے کہ میت کی طرف سے فقراء اور مساکین کو کھانا کھلا سکتے ہیں حتی کہ
افطار کے وقت بھی میت کی طرف سے فقراء اور مساکین کو کھلا سکتے ہیں مگر میت کی طرف
سے کھانا کھلانے کے لیے پندرہ رمضان کا دن متعین کرنا بدعتی عمل ہے لہذا جو بھائی
میت کی طرف سے اس طرح کا عمل انجام دے رہے ہیں اس کو خبر دے کراسے، اس بدعت سے
روکنا چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ میت کی طرف سے جو کچھ کھلایا جاتا ہے وہ صدقہ
ہوتا ہے اور وہ صدقہ فقیر و مسکین کے لیے ہوتا ہے نہ کہ عام اور مالدار لوگوں کے
لئے لہذا میت کی طرف سے کھانا ہو تو اسے آپ نہیں کھائیں گے الا یہ کہ آپ مسکین
ہوں۔باقی عام افطاری کوئی کسی کو بھی کھلاسکتا ہے، اس میں غریب و مالدار کی کوئی
قید نہیں ہے۔
سوال: ایک خاتون کہتی ہے کہ رمضان کے آخری عشرے تک صدقہ کرنے کو
مؤخر کرسکتے ہیں تاکہ زیادہ اجر مل سکے؟
جواب:
نیکی کے عمل کو مؤخر کرنا درست نہیں ہے، نیکی کے لیے مناسب یہ ہے کہ جیسے ہی دل
میں کسی نیکی کا خیال پیدا ہو اور اس نیکی کے کرنے کی استطاعت ہو تو فورا اس پر
عمل کرنا چاہیے یعنی نیکی کی انجام دہی میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ زندگی کا
کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ انسان کب بیمار ہو جائے، کب نیکی کے لیے رکاوٹ پیدا ہو جائے
یا کب اس کی موت ہو جائے اور اس کا سوچا ہوا کام یونہی پڑا رہ جائے۔ جو کوئی صدقہ
و خیرات کو روک کر رکھے اور رمضان میں دینے کے لیے ارادہ کرے اس کے لیے بہتر ہے کہ
صدقہ کا مال اپنے پاس ہو تو فورا اسے اللہ کے راستے میں خرچ کرے اور اگر اللہ اسے
رمضان کا مبارک مہینہ نصیب فرمائے تو اس مہینے میں بھی صدقہ و خیرات کرے لیکن جب
بھی نیکی کا خیال پیدا ہو اس میں تاخیر نہ کرے۔
سوال: رمضان میں خواتین تراویح پڑھنے مسجد جاتی ہیں اور اپنے یہاں
کی مسجد میں اکثر مردوں اور خواتین کا حصہ الگ یا پھر اوپر نیچے رہتا ہے۔ خواتین
میں سے کسی نے عورتوں سے کہا ہے عورتوں کو زور سے آمین نہیں کہنا چاہیے ۔اب خواتین
اتنی خاموشی سے آمین کہہ رہی ہیں کہ انکے ہی حصہ میں آواز نہیں آرہی ہے۔ کیا
عورتوں کا اپنے جی میں یا ایکدم پست آواز میں نہ سننے کے برابر آمین کہنا کافی ہے
یا پھر کچھ ہلکی بلند آمین ہو جو صرف خواتین کے ہی حصہ تک محدود ہو؟
جواب:
جب عورت مردوں کے ساتھ مسجد میں نماز ادا کرے تو اس کے حق میں جہرا آمین کہنا جائز
نہیں ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو مردوں کی موجودگی میں اپنی
آواز پست رکھنے کا حکم دیا ہے لہذا عورتیں مسجد میں نماز پڑھتے وقت اپنی آمین کو
اپنے جی میں ہی کہے اسے خود کو یا دیگر عورتوں کو یا اپنے حصے میں موجود مکمل
عورتوں کو سنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ مردوں کے ساتھ نماز پڑھتے ہوئے عورت کو اپنی مکمل
نماز خاموشی سے ادا کرنی ہے حتی کہ ایک عورت اگر شوہر کے پیچھے بھی نماز پڑھے تب
بھی اسے بلند آواز سے آمین نہیں کہنی ہے۔ ہاں جب وہ تنہا نماز پڑھے یا صرف عورتوں
کی جماعت ہو اور وہاں غیرمحرم نہ ہوتوایسی
صورت میں آمین بلند آواز سے کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال: جیساکہ حدیث سے ثابت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ وتر کو مغرب کی
نماز کی مشابہت سے بچاؤ اور دوسری رکعت میں تشہد نہ بیٹھنے سے مغرب کی مشابہت سے
بچا جاسکتا ہے اسکی کیا دلیل ہے۔ حنفی کا کہنا ہے کہ مشابہت سے بچنے کے لیے پہلا
تشہد چھوڑنا لازم نہیں بلکہ وتر کی تیسری رکعت میں سورت اخلاص اور دعائے وتر پڑھی
جاتی ہے جبکہ مغرب کی تیسری رکعت میں نا سورت ملائی جاتی ہے نہ ہی دعائے قنوت ہوتی
ہے اور یہ اس حدیث کا مطلب ہے کہ مغرب کی مشابہت سے بچا جاسکتا۔ آپ مجھے دلیل سے
بتائیے کہ اس حدیث میں مغرب کی مشابہت سے کیا مراد ہے اور کیا یہ فرق تشہد چھوڑنے
والا نبیﷺ نے خود بیان کیا ہے؟
جواب:
یہ بات صحیح ہے کہ نبی ﷺ نے وتر کو مغرب کی طرح پڑھنے سے منع کیا ہے، آپ کا فرمان
ہےکہ وتر کو مغرب کی نماز کی طرح نہ بناؤ۔
اب
سوال یہ ہے کہ تین رکعت وتر کو کیسے ادا کریں جس سے مغرب کی مشابہت نہ ہو۔ اس
سلسلے میں شراح حدیث اور اہل علم نے لکھا ہے کہ دو رکعت پر نہ بیٹھنے سے مغرب کی
مشابہت نہیں ہوگی لہذا جب کوئی تین رکعت وتر ادا کرے تو مسلسل ادا کرے، دوسری رکعت
پر نہ بیٹھے۔ اگر کوئی سوال کرے کہ دو رکعت پر نہ بیٹھنے کی کیا دلیل ہے تو ہم اسے
کہیں گے کہ نبی ﷺ نے وتر کو مغرب کی طرح پڑھنے سے منع کیا ہے اور دو رکعت پر بیٹھنے
سے مغرب کی مشابہت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ عام طور پر تین رکعت وتر کو دو
سلام سے پڑھا کرتے تھے یعنی پہلے دو رکعت پڑھ کر سلام پھیرتے پھر ایک رکعت پڑھتے
تاکہ مغرب سے مشابہت نہ ہو، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی تین رکعت ایک سلام سے
پڑھے تو دوسری رکعت پر نہ بیٹھے۔
جہاں
تک حنفیوں کا کہنا ہے کہ تیسری رکعت میں سورت ملانا ہوتا ہے اور دعائے قنوت پڑھی
جاتی ہے، اس سے مغرب کی مشابہت ختم ہوجاتی ہے لہذا دو رکعت پر بیٹھنا صحیح ہے۔
حنفیوں کا یہ کہنا غلط ہے کیونکہ نبی ﷺ نے تیسری رکعت کے لئے سورہ پڑھنے اور دعائے
قنوت پڑھنے کی تعلیم خود ہی دی ہے پھر آپ نے مغرب کی مشابہت سے بھی بچنے کو کہا ہے
اس کا مطلب ہے کہ مشابہت سے مراد سورہ پڑھنے اور دعائے قنوت پڑھنے سے الگ چیز ہے
اور وہ دو رکعت پر بیٹھنا ہے اس لئے آپ کا عام معمول دو سلام سے وتر پڑھنے کا رہا
ہے بلکہ جس حدیث میں تین وتر کو مغرب کی طرح پڑھنے سے منع کیا گیا ہے اسی میں اس
بات کا اشارہ بھی ہے کہ دو رکعت پر نہیں بیٹھنا ہے۔ حدیث دیکھیں:
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:تین وتر نہ پڑھو پانچ یا سات پڑھو اور مغرب کی نماز کی مشابہت نہ
کرو۔(دارقطنی) اس حدیث میں تین وتر کو مغرب کی طرح پڑھنے سے منع کیا گیا ہے اور
آگے یہ کہا گیا ہے کہ پانچ یا سات رکعت پڑھو۔ پانچ یا سات رکعت وتر ایک سلام سے مسلسل
پڑھتے ہیں درمیان میں نہیں بیٹھتے ہیں لہذا جب تین وتر ایک سلام سے پڑھتے ہیں تواس میں مغرب کی مشابہت نہیں رہتی ہے۔
جو حنفی حدیث پر عمل کرنے والوں سے تشہد
چھوڑنے کی دلیل مانگتا ہے جبکہ دلیل موجود ہے کہ وتر کو مغرب کی طرح نہ پڑھو، ایسے
حنفی سے دو رکعت پر بیٹھنے کی دلیل طلب کریں۔
سوال: ہم خواتین کو رمضان
المبارک میں تراویح کی نماز مسجد میں ادا کرنے کا موقع ملتا ہے تو محسوس ہوتا ہے
کہ جماعت کی نماز کے کتنے فائدے ہیں اور یقینی طور پر جماعت کی نماز میں ہمارا
خشوع و خضوع اکیلے نماز پڑھنے کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ مرد حضرات کو یہ موقع
روزانہ پانچ وقت ملتا ہے لیکن ہم خواتین کے لئے گھر میں اکیلے خشوع و خضوع کے ساتھ
نماز ادا کرنا ایک جدوجہد ہے اس بارے میں ہمیں کچھ نصیحت کریں تاکہ رمضان کے علاوہ
بھی ہم خواتین خشوع و خضوع سے گھر میں نماز ادا کر سکیں؟
جواب:اسلام
نے بہت ساری حکمتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عورتوں کی نماز کو گھر میں افضل قرار دیا
ہے جبکہ مسجد میں بھی جماعت سے نماز پڑھنا ان کے لئے جائز ہے مگر افضلیت گھر میں
ادا کرنا ہے۔
جیساکہ
سوال میں ذکر کیا گیا ہے کہ خواتین مسجد میں مردوں کے ساتھ جماعت سے نماز ادا کرتی
ہیں تو ان میں خشوع و خضوع زیادہ ہوتا ہے مگر گھر میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔ یہ بات
درست نہیں ہے۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ جماعت سے نماز پڑھنے پر عورتوں میں نماز کے
تئیں شوق و دلچپسی پیدا ہوتی ہے کیونکہ وہ عموما مسجد نہیں جاتی ہیں۔ کبھی کبھار
مسجد جانے پر یہ دلچسپی عام بات ہے۔ جہاں تک خشوع و خضوع کا معاملہ ہے تو اس بارے
میں صحیح بات یہ ہے کہ جب عورت اکیلے اور تنہائی میں شور و ہنگامے اور لوگوں کی
نظروں سے دور اپنے گھر میں رب کی بندگی کرتی ہے اس میں زیادہ اخلاص اور زیادہ خشوع
و خضوع پیدا ہوسکتا ہے کیونکہ نماز رب کی بندگی ہے اور جب عابد و معبود کے درمیان
کوئی نہ ہو تو اس کی عبادت کا عالم کیا ہوگا یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ نے رات کی تنہائی
والی عبادت کو فریضہ کے بعد سب سے افضل عبادت قرار دیا ہے۔ نیز حدیث جبریل میں
عبادت کی کیفیت بیان کی گئی ہے کہ تم اپنے رب کی اس طرح بندگی کرو گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو اور اگر تم اللہ
کو نہیں دیکھ سکتے تو یہ سوچو کہ رب تمہیں دیکھ رہا ہے۔ عبادت کی یہ کیفیت عورت
اپنے گھر کی عبادت میں پیدا کرسکتی ہے۔
اس
سلسلے میں عورتوں کو ایک نصیحت کروں گا کہ آپ ہمیشہ اول وقت پر نماز پڑھنے کی کوشش
کریں اور نماز کے لئے گھر کا مناسب حصہ منتخب کریں جہاں سکون سے نماز پڑھ سکیں اور
اگر امکان ہو کہ نماز کے وقت شور ہویا نماز سے مشغول کرنے والا کوئی سبب ہے تو پہلے نماز سے مشغول کرنے والا
محرک دور کرلیں یا اس جگہ نماز پڑھیں جہاں آپ کا دھیان ادھر ادھر نہ بھٹکے۔ مختصر
یہ ہے کہ عورتیں اپنے گھر میں یقینا خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرسکتی ہیں
بشرطیکہ ان کے دل میں اللہ کا خوف، اس کا تقوی اور ایمان وعمل جاگزیں ہوں۔ اپنے
گھر کا ماحول دینی رکھیں، گھر کو آلات لہو و لعب اور فلم بینی سے پاک رکھیں پھر
سکون سے عبادت کرسکتے ہیں۔
سوال:کیا ماں بیٹی کو زکوۃ دے سکتی ہے؟
جواب: اصلا ماں کے اوپر اولاد کی معاشی کفالت کی ذمہ داری نہیں ہوتی بلکہ یہ باپ کی
ذمہ داری ہے لہذا اگر ماں مالدار ہو تو اپنی غریب بیٹی کو زکوۃ دے سکتی ہے ۔اگر
باپ موجود نہ ہو اور اولاد کی کفالت ماں کررہی ہو تو ایسی صورت میں بیٹی کو زکوۃ
نہیں دے گی البتہ بیٹی شادی شدہ اور مسکین
ہویعنی شوہر بھی مسکین ہو تو بیٹی کو یا داماد کو زکوۃ دے سکتی ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔