﷽
آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(50)
جواب از شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ- سعودی عرب
سوال: شوہر کی جاب نہیں رہتی کچھ عرصے بعد ختم ہو جاتی ہے ۔ابھی
بھی تین ماہ سے جاب نہیں ہے کوئی وظیفہ بتا دیں جو میں بچوں کے ساتھ کرسکوں تاکہ
جاب بھی ہو جائے اور شوہر کی لاپرواہی اور سستی بھی دور ہو جائے؟
جواب:نوکری کرنا ایک عمل ہے، یہ عمل صرف
دعا پڑھنے سے حاصل نہیں ہوگا بلکہ عمل کرنے سے ہوگا۔ اللہ تعالی قرآن میں ارشاد
فرماتا ہے: وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ
(النجم:39)
ترجمہ:اور انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کے
لیے وہ کوشش کرتا ہے۔
صرف سوچنے یا وظیفہ پڑھنے سے، بغیر کوشش کے
انسان کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتا ہے۔اس کو مثال سے ایسے سمجھیں جیسے کوئی عورت بستر
پر سوئی رہے اور وظیفہ پڑھتی رہے یہ نیت کرکے کہ ہانڈی میں کھانا پک جائے گا مگر
کھانا نہیں پک سکتا چاہے وہ مرتے دم تک وظیفہ پڑھتی رہے۔ یہی معاملہ نوکری کا ہے۔
کام کرنے ہی کو نوکری کہتے ہیں اور جب تک کام نہیں کرے گا وہ نوکری سے دور رہے گا۔
یہ الگ مسئلہ ہے کہ آدمی کواپنی پسند کی
نوکری نہ ملے مگر دنیا میں کام کی کمی نہیں ہے۔ ایک انسان کو چاہیے کہ زندگی
گزارنے کے لئے وہ جو بھی کام کرسکتا ہے اسے اختیار کرکے روزی حاصل کرے اور کسی بھی
عمل کو حقیر نہ سمجھے۔اپنی پسند کی نوکری تلاشنے میں برائی نہیں ہے ، وہ بھی تلاشتا
رہے اور اس کے لئے کوشش کرتا رہے اور جب تک اپنی پسند کا کام نہ ملے وہ جو کچھ بھی
کرنے کی استطاعت رکھتا ہے اسے اپنا ذریعہ معاش بنائے۔ اللہ کی زمین بہت وسیع ہے
اور اس زمین میں حصول رزق کے بہتیرے طریقے ہیں۔ ساتھ ساتھ وہ اللہ کی بندگی بھی
کرتا رہے اور اللہ سے حلال روزگار ، حلال روزی اور روزی میں خیر و برکت کی اپنی
زبان میں دعا کرتا رہے۔ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز فجر میں سلام پھیرتے تو یہ دعا پڑھتے:
اللهم إني أسالك علما نافعا ورزقا طيبا
وعملا متقبلا.(ابن ماجة:925)
ترجمہ: اے اللہ! میں تجھ سے نفع بخش علم،
پاکیزہ روزی اور مقبول عمل کا سوال کرتا ہوں۔
اس دعا کو بھی پڑھا کریں مزید افضل اوقات
میں اپنی زبان میں بھی دعا کرتے رہیں تاہم کام کرنے سے اس میں برکت ہوگی، خواہ کام
معمولی اور چھوٹا ہی کیوں نہ ہو،بغیر کوشش اور کام کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
سوال:حیض میں میری عادت عام
طور پہ پانچ یا چھ دن کی ہے لیکن اس مہینے ہارمونل امبیلنس کی وجہ سےovaries میں سویلنگ ہے جس کی وجہ سے اکیس
دن ہو چکے ہیں تو کیا اس کنڈیشن میں میں غسل کر کے نماز شروع کر سکتی ہوں، اس کے
بارے میں کیا حکم ہے بتا دیجئے؟
جواب: حیض کے موٹے موٹے تین صفات ہیں، اس
کا رنگ سیاہی مائل ہوگا، وہ گاڑھا ہوگا اور اس میں بدبو ہوگی۔ ان صفات کے ذریعہ آپ
حیض کو پہچان سکتے ہیں۔ چونکہ آپ کی عادت پانچ یا چھ دن رہی ہے تو غالبا آپ کو
اتنا ہی دن حیض آیا ہوگا، اس کے بعد آنے والا خون بیماری کا خون ہوسکتا ہے پھر بھی
حیض کےصفات کے ذریعہ متعین کیا جائے گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر کسی کو حیض کے صفات
والا خون مسلسل آئے تو صرف پندرہ دن تک حیض مانا جائے گا۔ اس کے بعد والا خون
استحاضہ کا مانا جائے گا اس لئے پندرہ دن کے بعد غسل کرکے عورت کو نماز کی پابندی
کرنی ہے۔
سوال: کیا اللہ تعالی نے
سسرالی رشتہ کے بارے میں قرآن پاک میں ذکر فرمایا ہے؟
جواب:پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں دین کی بات کے
لئے صرف قرآن کی طرف رجوع نہیں کرنا ہے بلکہ قرآن اور حدیث دونوں کی طرف رجوع کرنا
ہے کیونکہ یہ دونوں دین کے مصادر ہیں اور اللہ نے قرآن میں جابجا فرمایا ہے کہ
اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ نے سسرال کا ذکر قرآن
میں کیا ہے، فرمان الہی ہے:
وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ
بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا ۗ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا(سورة
الفرقان - آیت 54)
ترجمہ: اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر
کو پیدا کیا، پھر اسے خاندان اور سسرال بنا دیا اور تیرا رب بے حد قدرت والا ہے۔
سوال: اگر نوجوان بیٹا سستی،
لاپرواہی، یا احساس کمتری کی وجہ سے کوئی نوکری یا کام نہیں کرتا، اسے اپنی بیوی،
بچے اور بوڑھے ماں باپ کی ذمہ داری کا کوئی احساس نہیں ہے تو کیا اس نوجوان کے لئے
ماں باپ کی دعا جو انہوں نے اس کے حق میں کی ہے کہ اے اللہ ! اسے ہدایت دے ، اسے
ذمہ داری کا احساس کرادے، قبول ہوگی؟
جواب:جو لڑکا اپنے والدین اور بیوی بچوں کی
ذمہ داریوں سے لاپرواہ ہو اس کو ایک طرف احساس بھی دلانا ہے، پھر دعا کرنی ہے ۔
اللہ دعا قبول کرنے والا ہے ۔ ممکن ہے کہ والدین کی یہ دعائیں اللہ قبول کرلے۔ اللہ دعاؤں کو سننے
والا اور دلوں کو پھیرنے والا ہے بلکہ والدین کی دعا اولاد کے حق میں قبول کی جاتی
ہے۔ ہمیں ہر مشکل میں اس کو پکارنا چاہئے۔ ساتھ ساتھ دنیاوی طورپر جائز اسباب بھی
اپنانا چاہئے۔ جیسے اپنے اس بیٹے کے معاملے میں اللہ سے دعا بھی کریں اور بیٹے کو
احساس بھی دلائیں ،خود سے اسے نہ سمجھاسکیں تو کسی دوسرے کے ذریعہ بھی کہلوائیں۔یہ
علم کی کمی اور دین سے غفلت کا سبب ہوسکتا ہے اس لئے اس لڑکے کو علماء اور دینی
مجلس سے جوڑیں پھر اسے حقوق اللہ اور حقوق العباد کا احساس ہونے لگے گا۔ ان شاء
اللہ
سوال: ایک روزہ کا فدیہ ڈیڑھ
کلو اناج ہے جیساکہ آپ نے بتایا ہے ، اس بات کو کسی سے میں نے ذکر کی تو اس نے کہا کہ اللہ نے ایک وقت
مسکین کو کھانا کھلانے کو کہا ہے پھر اس کی مقدار کیسے متعین کی جائے گی ، مقدار
کی کیا دلیل ہے، اس کی وضاحت کردیں؟
جواب:ضعیف و بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت جو
روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھے یا وہ بیمار جس کے ٹھیک ہونے کی امید نہ ہو ایسے لوگ
اپنا روزہ چھوڑ سکتے ہیں اور اپنے روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا دیں گے۔ اللہ
تعالی فرماتا ہے:
فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ
سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ وَعَلَى
الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَن
تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ(البقرۃ:184)
ترجمہ: تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر
میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی پوری کرلے اور اس کی طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک
مسکین کو کھانا دیں، پھر جو شخص نیکی میں سبقت کرے وہ اس کے لئے بہتر ہے۔
یاد رہے کہ اس آیت میں روزہ کا فدیہ ایک
وقت کا کھانا نہیں بلکہ ایک مسکین کو
کھانا کھلانا بتایا گیا ہے اور کھانے کا اطلاق پکے ہوئے کھانا پر بھی ہوتا ہے اور
اناج و غلہ بھی کھانے میں شمار ہوتا ہے۔ اس لئے اس میں کوئی تردد نہیں کہ
غیرمستطیع آدمی اپنے روزہ کے فدیہ کے طور پر پکا ہوا کھانا ایک مسکین کو کھلایا
کرے یا کچا کھانا یعنی غلہ دیدے ۔ دونوں صورتیں جائز ہیں۔
اس بات میں اختلاف ہے کہ کیلوگرام کی شکل
میں ایک مسکین کا فدیہ کتنا ہوگا۔ کسی نے ایک صاع کہا، کسی نے نصف صاع کہا اور کسی
نے ایک مد کہا ہے۔ کسی نے ایک وقت کا کھانا کہا ہے تو کسی نے دو وقت کا کھانا بھی
کہا ہے کیونکہ قرآن میں ایک وقت کا تعین نہیں ہے، ایک مسکین کے کھانے کا تعین ہے۔
بہرحال! فدیہ کم نہ دیا جائے بلکہ زیادہ
دینا ہی بہتر ہے کیونکہ اللہ نے "فدیۃ طعام مسکین" کے بعد آگے کہا ہے
"فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ"کہ اگر تم اس سے زیادہ
فدیہ دو تو بہتر ہی ہے۔ کوئی پکا ہوا ایک وقت کا کھانا مسکین کو دیدے تو ایک روزہ
کے فدیہ کے لئے کافی ہے اور کوئی دو وقت کا کھانا دینا چاہے تو اور بہتر ہے۔ اناج
کی شکل میں نصف صاع کے اعتبار سے تقرینا ڈیڑھ کلو اناج بطور فدیہ دے یعنی ایک روزہ
کا فدیہ اناج کی شکل میں تقریبا ڈیڑھ کلو دینا چاہئے۔
سوال: آپ نے کہا ہے کہ سجدہ
سہو کیلئے وضو ضروری ہے تو اس کی کیا دلیل ہوگی؟
جواب:سجدہ سہو ، نماز کا سجدہ ہے اس لئے جس
طرح بغیر وضو کے نماز نہیں ہوگی اسی طرح سجدہ سہو بغیر وضو کے نہیں ہوگا۔ نبی ﷺ کا
فرمان ہے: لا تُقْبَلُ صَلاةٌ بغيرِ طُهُورٍ (صحیح مسلم:224)
ترجمہ: بغیر طہارت کے نماز قبول نہیں ہوگی۔
سوال: جس طرح کپڑوں پر حیض
یا منی لگی ہو تو اسے کپڑوں سے صاف کرنا ضروری ہے نماز کیلئے، کیا باقی اور کوئی
ڈسچارج عورت کے کپڑے پر لگا ہو تو اسے بھی صاف کرنا ضروری ہے نماز کے لئے؟
جواب: عورت کو تین قسم کا خون آتا ہے، حیض
، نفاس اور استحاضہ۔ان تینوں کو آپ جانتے ہوں گے۔حیض ونفاس میں تو نماز ممنوع ہے
اور استحاضہ میں وضو سے پہلے کپڑے اور جگہ کی صفائی کی جائے پھر وضو کرکے نماز
پڑھی جائے ۔
خون کے علاوہ منی جیسا مادہ تین قسم کا ہوتا ہے۔
ایک منی ہے جو گاڑھی ہوتی ہے اور شہوت سے نکلتی ہے ، یہ وہی منی ہے جو جماع کے وقت
نکلتی ہے۔ اس سے غسل کرنا لازم ہے اور کپڑے صاف کرنا ہےجہاں پر منی لگی ہو۔ ایک
مذی ہے جو گاڑھی نہیں ہوتی ہے بلکہ پانی کی طرح لیس دار ہوتی ہے ، یہ شہواتی
خیالات کی وجہ سے نکلتی ہے اور یہ حکما ناپاک ہے۔ اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور کپڑا
اور بدن پر جہاں لگ جائے اس جگہ کو دھونا ہے۔ ایک تیسری چیز ودی ہے جو
عموما پیشاب کے وقت خارج ہوتی ہے۔ آدمی اس وقت استنجا کرتا ہی ہے تو اس وقت اس کی
صفائی ہوجاتی ہے۔ منی سے ہٹ کر عورتوں کو سفید پانی کی طرح رطوبت نکلتی ہے جسے
لکوریا کہتے ہیں۔ یہ حکما پاک ہے مگراس کے
نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے تاہم کپڑے سےاسے دھلنا ضروری نہیں ہے۔
یہاں پر عورتوں کو مذی اور رطوبت کے فرق کو سمجھنا ہے ، وہ یہ ہے کہ مذی کا خروج
اس وقت ہوتا ہے جب دل میں شہوانی خیالات
پیدا ہوں یا شہوت بھڑکنے والی کسی چیز پر نظر پڑے لیکن رطوبت(سفید پانی) معمول کے
مطابق رحم سے خارج ہوتی رہتی ہے، اس کا شہوت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
سوال: حالت جنابت میں قرآن
پڑھنا منع ہے تو کیا اس کے علاوہ کسی کو جزاک اللہ خیرا کہنا، سلام کرنا یا عادتا
بسم اللہ کہناجیسے الفاظ روزانہ کی بنیاد پر، یہ بھی نہیں کہے جاسکتے ہیں؟
جواب:جنبی قرآن کی قرات نہیں کرے گا، باقی
دیگر اذکار پڑھنے میں اور دعا کرنے میں اس کے لیے کوئی حرج نہیں ہے۔ سلام کرنا یا
بسم اللہ کہنا اور جزاک اللہ خیرا کہنا بھی ذکر اور دعا ہے ۔ اس میں کوئی حرج نہیں
ہے ۔ نبی ﷺ ہمہ وقت ذکر واذکار کرتے تھے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
كانَ النبيُّ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ
يَذْكُرُ اللَّهَ علَى كُلِّ أحْيَانِهِ(: صحيح مسلم:373)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر
حالت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے تھے۔
سوال: وتر طاق کو کہتے ہیں
تو ہم اس کی قضا میں جفت کیسے ادا کرنا ہے، وتر کی قضا نماز میں دعائے قنوت پڑھنا
ہے یا نہیں؟
جواب:وتر طاق کو کہتے ہیں لیکن اسے قضا
کرنے کی صورت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جفت پڑھا ہے اس لئے ہمیں جفت پڑھنا ہے
اور اس میں اپنی عقل نہیں لگانا ہے۔ دین نام ہے اپنی عقل کو شریعت کے تابع کر دینے
کا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " كَانَ إِذَا فَاتَتْهُ الصَّلَاةُ مِنَ اللَّيْلِ مِنْ
وَجَعٍ أَوْ غَيْرِهِ، صَلَّى مِنَ النَّهَارِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً(صحیح
مسلم :746)
ترجمہ:ہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب
آپ کی رات کی نماز بیماری یا کسی اور وجہ سے رہ جاتی تو دن کو بارہ رکعتیں پڑھ
لیتے۔
اس میں دعائے قنوت نہیں پڑھنا ہے، دو دو
رکعت کرکے جفت نماز پڑھنی ہے۔
سوال: ایک جاننے والی خاتون
ہے ، ان سے رابطہ آن لائن ہی ہے۔ بقول ان کے والدین کو علاج کے لیے پیسوں کی ضرورت
تھی۔ انہوں نے کہا امی کے دل کا بڑا آپریشن ہے اس سلسلے میں پہلے انہوں نے کافی
مانگا تو پھر زکوۃ کی رقم دی۔ پھر کچھ ہی وقت میں ایک سے ڈیڑھ ماہ کے درمیان انہوں نے کہا کہ ان
کے ابو کو بھی یہ مسئلہ ہو گیا ہے اور ڈاکٹر نے آپریشن کے لئے کہا ہے۔اس بار میں
نے کہا رپورٹس بھیجیں۔ رپورٹس آنے پر دیکھا اس میں گڑ بڑ ی تھی۔ اس پر ایک
ایپلیکیشن سے کچھ مٹایا اور لکھا گیا تھاجو کہ صاف پتہ چل رہاہے۔ اب وہ بار بار
پیسے بھی مانگ رہی ہے۔ ایسی صورت میں صرف یہ سوچتے ہوئے کہ وہ بار بار مانگ رہی
ہیں، کیا زکوۃ کی رقم دی جا سکتی ہے؟
جواب:زکوۃ کا معاملہ کافی اہم ہے۔ زکوۃ کا
ایک پیسہ بھی غیرمستحق کو نہیں دیا جائے گا اور جس کے بارے میں یقینی طور پر علم
ہو کہ یہ زکوۃ کا مستحق ہے اسی کو زکوۃ دی جائے گی اور جس کے بارے میں آپ نہیں
جانتے ہیں جو آپ سے دور ہے، اس کی حقیقت نہیں معلوم ہے ، فقط آن لائن رابطہ ہے او
ر رپورٹ میں بھی آپ کو شبہ ہو رہا ہے ایسے
آدمی کو زکوۃ نہیں دی جائے گی۔ زکوۃ کے علاوہ دوسرا پیسہ دینا چاہیں تو اس میں
کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال: گھر میں جوائنٹ فیملی
میں رہتی ہوں، ہمیشہ لڑائی ہوتی رہتی ہے اور میں اللہ کی رضا کے لئے پھر سب سے مل
جل کر رہنا شروع کردیتی ہوں۔ جب دوبارہ لڑائی ہوتی ہے تو سب کہتے ہیں کہ اب کسی سے
نہیں ملنا ہے ، اگر میں اپنی عزت کے لئے سب سے ملنا چھوڑ دوں تو مجھے گناہ تو نہیں
ہوگا؟
جواب:جوائنٹ فیملی عام طور سے سماج کے لئے
فتنہ و فساد کا باعث ہے۔ اگر اس فتنہ سے نجات چاہتے ہیں تو علاحدہ طورپر اپنا
انتظام کرلیں، سارے فتنے اور لڑائی سے نجات مل جائے گی۔دوسری بات یہ ہے کہ لڑائی
جھگڑے کے سبب رشتہ توڑ لینا اور بات چیت بند کرلینا یہ جائز نہیں ہے لیکن آپ کے
لیے یہ جائز ہے کہ جوائنٹ فیملی سسٹم سے الگ ہو کر علاحدہ زندگی گزاریں۔ رشتہ داری
توڑنے پر بہت زیادہ وعید آئی ہے حتی کہ رشتہ توڑنا عبادت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے
اس لئے قطع کلامی اور رشتہ توڑنا جائز نہیں ہے۔ہاں لڑائی کی جگہوں سے بچیں، بلاوجہ
جواب نہ دیں، بحث ومباحثہ نہ کریں، بلاثبوت سنی سنائی بات پر یقین نہ کریں، نزاع
میں پہل نہ کریں، فضول باتوں کو سن کر ان سنی کردیں یعنی جھگڑے لڑائی کے اسباب اور
مواقع سے دور رہیں تاہم رشتہ داری ضرور
نبھائیں ۔اس قسم کے موقع پر عورتوں کو آپس میں لڑنے کی بجائے گھر کے مردوں کو آپس میں مل کر گھریلو
مسائل حل کرنا چاہئے۔
سوال: اگر یہودی یا عیسائی
بیوی ہو جو اہلِ کتاب میں سے ہو تو کیا وہ اپنے مسلمان شوہر کی وراثت میں حصہ پائے
گی یعنی اسے اپنے شوہر کی جائیداد میں سے کچھ ملے گا؟
جواب:جس کسی مسلمان نے یہودی یا عیسائی
عورت سے شادی کی ہو تو وہ اپنے مسلمان شوہر کی جائیداد سے حصہ نہیں پائے گی کیونکہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: لا يرث المسلم الكافر ولا الكافر
المسلم (بخاري:6383)
ترجمہ: مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوگا اور
نہ کافر مسلمان کا وارث ہوگا۔
سوال: کیا ہومیوپیتھی میڈیسن
کا استعمال کرنا جائز ہے؟
جواب:ہومیوپیتھی میں الکوحل کی ملاوٹ ہوتی
ہے اور الکوحل نشے کی چیز ہے جس کی وجہ سے ہومیوپیتھی کا استعمال جائز نہیں ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
إنَّ اللهَ خلق الداءَ و الدواءَ ،
فتداوُوا ، و لا تتداوُوا بحرامٍ(السلسلة الصحيحة:1633)
ترجمہ: بے شک اللہ تعالی نے بیماری اور دوا
دونوں کو پیدا کیا ہے تو تم علاج کراؤ اور حرام چیزوں سے علاج نہ کرو۔
اس مسئلہ کو نبیذ سے سمجھنے کی کوشش کریں ۔
نبی ﷺ نے نبیذجو ایک قسم کی مشروب ہے اسے حلال ٹھہرایا ہے، آپ ﷺ بھی نبیذ پیا کرتے
تھے مگر جب اسی نبیذ میں نشہ پیدا ہوجائے تو آپ نے اس کے پینے سے منع فرمایا ہے
۔منع کی علت نشہ کا پیدا ہونا ہے۔ یہی بات ہومیوپیتھی میں پائی جاتی ہے۔
سوال: اگر کوئی شخص سوتے
ہوئے نماز کے وقت تھوڑا سا بیدار ہو جائے اور اس نے نماز کی نیت بھی کی ہو لیکن
پوری طرح جاگ نہ سکے اور دوبارہ سو جائے تو کیا اس نماز کی قضاجائز ہے؟
جواب:ہاں، بلاشبہ
اس نماز کی قضا جائز ہے بلکہ اس کو اس نماز کی قضا کرنا واجب ہے کیونکہ اس سے
فریضہ چھوٹ گیا ہے اور یہ اس کے سر پہ قرض کی طرح ہے لہذا جیسے ہی وہ اٹھے فورا
وضو کرکے چھوٹی ہوئی نماز ادا کرے اور چونکہ اس معاملہ میں کوتاہی اور سستی کا بھی
دخل لگ رہا ہے اس کے لئے اللہ تعالی سے توبہ بھی کرلے کہ اس نے سستی کرتے ہوئے وقت
پر نماز نہیں اد ا کی ۔
سوال: اگر ڈاکٹر نے کسی وجہ
سے کان میں پانی ڈالنے سے منع کیا ہو تو مجبوری میں نقصان سے بچنے کے لئے وضو کے
دوران کان کا مسح چھوڑ سکتے ہیں، اس سے وضو ہوجائے گا؟
جواب:وضو کرتے وقت کان میں پانی نہیں ڈالا
جاتا ہے بلکہ کان کا مسح کیا جاتا ہے یعنی فقط تر انگلی کان پر پھیری جاتی ہے۔ اگر
ڈاکٹر نے کان میں ذرہ برابر بھی پانی لگنے سے منع کیا ہو تو کان کا مسح چھوڑ سکتے
ہیں کیونکہ یہ مجبوری کے تحت ہے اور مجبوری کی شریعت میں گنجائش ہے۔ اس سے وضو
ہوجائے گا۔
سوال: ایک دینی ادارے کے کام
کے لئے لیپ ٹاپ اور دیگر اسی طرح کے gadgets زکوۃ کے پیسوں سے خریدے جاسکتے ہیں؟
جواب:روپیے پیسے کی زکوۃ روپیے پیسے کی شکل
ہی میں دینا ہے، اس سے کوئی سامان خرید کر نہیں دینا ہے۔اگر کوئی دینی ادارہ ہو
اور اس میں غریب بچے پڑھتے ہوں تو ان غریب بچوں کے لیے زکوۃ کے پیسے مدرسے کو دے
سکتے ہیں، یہ پیسے صرف انہی بچوں پر صرف کئے جائیں گے مگر زکوۃ
کے پیسوں سے دینی ادارے کے لیے لیپ ٹاپ یا
گزٹس نہیں خرید سکتے ہیں۔
سوال:رمضان میں اگر فوت شدہ
آدمی کی طرف سے عمرہ کیا جائے تو کیا انہیں بھی حج کا ثواب ملے گا؟
جواب:اس میں کچھ بنیادی باتیں ہیں جنہیں
سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پہلی چیز یہ ہے کہ عمرہ حج کی طرح ایک فریضہ ہے اور یہ ہرکسی
میت کی طرف سے کرنا عام نہیں ہے۔ ایک آدمی اپنے وفات یافتہ والد یا والدہ یا بھائی
یا شوہر یا بیوی یا بیٹا جو قریبی آدمی ہو اس کی طرف سے ادا کرسکتا ہے۔اور رمضان
میں عمرہ کرنا حج کے برابر ثواب ہے اس بنیاد پر میت کی طرف سے عمرہ کرنا بھی حج کے
برابر ثواب کی امید ہے۔
سوال: ایک خاتون کو پانچ ماہ کا ایک بیٹاہے ،وہ دوسری اولاد نہیں ہونے دینا
چاہتی ہے اس کے لیے روک تھام کرنا چاہتی ہے اس کا سیزر ہوا ہے، کیا وہ ایسا کر
سکتی ہے، گناہ تو نہیں ہوگا؟
جواب:اگر خاتون کا آپریشن ہوا ہے اور طبی
اعتبار سے اس وقت حمل کا ٹھہرنا عورت کے لئے نقصان دہ ہے تو ایسی صورت میں وقتی طورپروہ خاتون حمل روکنے کی مناسب تدبیر
اپنا سکتی ہے تاہم اس جگہ یہ بات دھیان میں رہے کہ ہمیشہ کے لئے حمل روکنا بغیر
عذر کے جائز نہیں ہے لہذا جب عذر ختم ہو جائے اس وقت ضبط تولید کی تدبیر ہٹالے۔
سوال:کینسر کی ایک خاتون ہے
اسے کسی نےخاتون نے کہا ہے کہ اپنے موبائل میں سورہ رحمن لگادیا کریں اور چلتے
پھرتے سوتے سورہ رحمن سنتی رہا کریں اور جب نماز کے بعد وقت ملے تو اسے پڑھ بھی
لیا کریں، اس سے ساری بیماریاں دور ہوجائیں گی خاص طور پر کیسنر۔کسی دوا کی کوئی
ضرورت نہیں ہے، بس اسے
موبائل میں لگاکر ہر وقت سنتی رہا کریں۔ کیا یہ عمل درست ہے؟
جواب:قرآن وحدیث میں کہیں پر یہ عمل نہیں
بتایا گیا ہے کہ کینسر کا مریض سورہ رحمن سنا کرے۔ قرآن پڑھنا اور سننا دونوں طرح اجر
وثواب کا باعث ہے مگر کینسر کے مریض کو سورہ رحمن کی تلاوت سننے کا وظیفہ بتانا
اور کسی قسم کے علاج سے منع کرنا دینی علم کی کمی کے باعث ہے۔اللہ تعالی نے ہر مرض
کی دوا نازل کی ہے اور نبی ﷺ نے مریض کو علاج کرنے کا حکم دیا ہےلہذا کینسر کے
مریض کو اچھے سے اچھے ڈاکٹر سے علاج کرنا چاہئے ۔ ساتھ ہی قرآن پڑھ کر اپنے اوپر
دم بھی کیا کیا کرے کیونکہ دم کرنا حدیث سے ثابت ہے ۔ موبائل سے تلاوت سننا دم
نہیں ہے بلکہ دم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ قرآن پڑھ کر مریض کو پھونکا جائے یا مریض
قرآن پڑھ کر اپنے ہاتھوں کو پھونک کر بدن پر پھیرلے جیسے ہمارے نبی محمد ﷺ دم کیا
کرتے تھے ۔ نیز کینسر کے لئے سورہ رحمن کو خاص کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
نبی ﷺ مرض الموت کے وقت شدت تکلیف میں سورہ اخلاص، سورہ فلق اور سورہ ناس یعنی یہ
تینوں سورتیں پڑھ کر اپنے اوپر دم کیا کرتے تھے ۔ ان تینوں سورتوں کو پڑھ کرمریض دم کیا کرے یا مزیدقرآن سے تلاوت کرنا چاہے تو کوئی حرج نہیں ہے مگر بغیر دلیل کے اپنی طرف
سے کوئی آیت یا کوئی سورہ کسی بیماری کے لئے خاص نہیں کرے ۔
سوال:ایک لڑکی جو پہلے ایک
لڑکے کے ساتھ حرام رشتے میں تھی۔ جب گھر والوں کو معلوم ہوا تو اس لڑکی کی اسی
لڑکے سے بات پکی کردی ، بہت مدت کے بعد نکاح ہوا اور نکاح کے بعد جب رخصتی کا وقت
آیا تو لڑکا کے بارے میں اپنی فیملی کے
ساتھ زیارت کی نیت سے مزار جانے کی خبر آئی۔ کسی نے کچھ نہیں کہا اور سب نے یہی
سوچا کہ گھر والے لڑکے کو زبردستی لے گئے ہوں گے کیونکہ بظاہر معلوم ہوتا ہے لڑکا
خود سے مزار نہیں گیا ہوگا پھر بھی لڑکی سے کہا گیا کہ وہ لڑکے سے پوچھے کہ اس کا
عقیدہ کیا ہے، پتہ نہیں کتنی بار مزار گیا ہے تو لڑکی کہتی ہے مجھے صحیح وقت ملے
گا تو پوچھوں گی ۔ ایسے میں میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس لڑکی کو صحیح وقت کا انتطار
کرنا چاہئے یا فورا پوچھنا چاہئے۔ نکاح سے پہلے لڑکی کا بھی عقیدہ ٹھیک نہیں تھا
مگر نکاح کے بعد وہ الحمدللہ سلفی ہوگئی ہے؟
جواب:سب سے پہلے تو اس بہن سے آپ یہ بتائیں
کہ جس طرح اللہ تعالی نے اسے صحیح عقیدے کی اسے سمجھ دی ہے اور صحیح دین کی طرف
آنے کی اللہ نے توفیق دی ہے تووہ اس بات پر اپنے رب کا شکرادا کرےاور وہ گزشتہ
تمام قسم کے گناہوں سے سچی توبہ کرے۔ پہلے اس نے جو کچھ شرک یا بدعت اور کفر و
معصیت کا کام کیا اس سے توبہ کرے بطور خاص اس کا جو کسی لڑکے سے ناجائز تعلق و
رابطہ تھا اس سے سچی توبہ کرے اور اللہ سے رو رو کر اس گناہ کی معافی مانگے۔
پھر اس کے بعد اسے اس بات کی ضرورت ہے کہ
بغیر کسی تاخیر کے اور کسی نقصان کی پرواہ کئے بغیر اس لڑکے کےدین و عقیدہ کے بارے
میں معلومات حاصل کرے کیونکہ شرکیہ عقیدہ پر ہونے کی وجہ سے اس سے نکاح کرنا اوراس
کے ساتھ رہنا جائز نہیں ہے۔اگر لڑکا شرکیہ عقیدہ رکھتا ہو یا گھروالوں کے کہنے سے
ہی سہی مزار پر حاضری دیا کرتا ہوتو اپنے اس شرکیہ عمل سے توبہ کرے ،شرک سے توبہ کے بعد لڑکی اس کے ساتھ رہ سکتی ہے۔
سوال: رمضان میں عورتیں جمع
ہوکر قرآن اور اس کی تفسیر سنتی ہیں ، کیا ایسی مجلسوں میں جانا یا قرآن پڑھ کر
سمجھانا جائز ہے؟
جواب:رمضان اصل میں عبادت کرنے کا مہینہ ہے
اس مہینے کے اوقات کو غنیمت جانتے ہوئے زیادہ سے زیادہ وقت ہمیں عبادت میں لگانا
چاہیے اور مختلف قسم کی عبادتیں کرنا چاہیے۔اگرکہیں رمضان میں تفسیر قرآن کا اجتماع ہو تو اس میں
شرکت کرنے میں حرج نہیں ہے لیکن اجتماع مختصر ہو تاکہ لوگ عبادت پر زیادہ توجہ دے
سکیں۔نبی ﷺ معلم کائنات بن کرآئے یعنی قرآن کی تعلیم دینا آپ کی ذمہ داری تھی مگر
آپ رمضان میں روزانہ تفسیر قرآن نہیں بیان فرماتے تھےبلکہ عبادت پر توجہ دیتے
خصوصا آخری عشرہ میں عبادت کے لئے کمر کس لیتے مگر ہمار ے یہاں رمضان بھر تفسیر
قرآن ہوتی ہے بلکہ آخری عسرہ میں اور زور بڑھ جاتا ہے۔ہمیں سیرت رسول کی روشنی میں
رمضان گزارنا چاہئے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ایک معمولی علم والی
عورت جسے شریعت کاعلم نہیں اور نہ
ہی قرآنی علوم اور تفسیرقرآن پر مہارت ہے ، صرف اردو ترجمہ پڑھنا جانتی ہے ایسی
عورت سے ہرگز تفسیر قرآن نہ سنا کریں۔ قرآن کی تفسیر اس کے ماہر سے سنیں ۔ الحمد
انٹرنیٹ پر متعددمستند اہل علم کی تفسیر آڈیو، ویڈیو اور کتابی شکل میں موجود ہے ۔
آپ ان سےفائدہ اٹھائیں زیادہ بہتر ہے، بنسبت اس عورت کی مجلس سے جو قرآن کی مفسرہ
نہیں ہے۔
سوال: سنت مؤکدہ اور نفل میں
کیا فرق ہے۔ اگر ساری سنت نفل ہی ہوتی ہے کوئی فرق نہیں ہوتا تو پھر کیا ہم عشاء
میں چار سنت غیر مؤکدہ فرض سے پہلے اور دو سنت مؤکدہ فرض کے بعد پڑھتے ہیں، وہ بھی
قیام لیل میں شامل ہوں گی؟
جواب:نوافل کا ذکر دو طرح سے ہوتا ہے۔ایک
حیثیت تو یہ ہے کہ فرض نماز کے علاوہ جتنی
نمازیں ہیں وہ سب نوافل میں داخل ہیں۔اور
ایک دوسری حیثیت یہ ہے کہ نوافل میں کچھ نوافل کی تاکید آئی ہوئی ہے اسے سنت موکدہ
کہتے ہیں اور جس کی تاکید نہیں آئی ہے وہ عام نوافل میں ہے۔آپ نے عشاء سے پہلے چار
سنت غیر موکدہ لکھا ہے، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے یعنی عشاء کی فرض نماز سے پہلے
چار رکعت نماز کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔عشاء کی فرض نماز کے بعد دو رکعت سنت موکدہ
ہے۔اور رہا مسئلہ قیام اللیل کا تو قیام اللیل کا وقت عشاء کی نماز کے بعد شروع
ہوتا ہے اس سے پہلے نہیں۔عشاء کی نماز چار فرض اور دو رکعت سنت موکدہ ہے، اس نماز
کی ادائیگی کے بعد الگ سے قیام کرنے کو قیام اللیل کہیں گے۔
سوال:کیا قرآنی سورتوں کے
نام سب کے سب توقیفی ہیں یا بعض نام اجتہاد سے رکھے گئے ہیں؟
جواب:قرآن کریم کی سورتوں کے نام توقیفی
ہیں یا نہیں؟ اس بارے میں اہل علم کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض اہل علم یہ
کہتے ہیں کہ کچھ نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھے ہیں اور کچھ نام صحابہ نے
رکھے ہیں جو انہیں سورتوں سے اخذ کئے گئے ہیں۔اس بارے میں مجھے جس موقف پر اطمینان
ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کے سارے اسماء توقیفی ہیں یعنی وہ سارے نام محمد ﷺ کی طرف سے
ہیں۔ یہ بات صحیح ہے کہ واضح طور پر ایسی حدیث نہیں ہے جس میں قرآن کی سورتوں کے
تمام نام موجود ہوں مگر متعدد احادیث سے یہ اشارہ ضرور ملتا ہے کہ عہد رسول میں ہی
قرآن کی سورتیں اپنے ناموں کے ساتھ معروف تھیں۔ اس بارے میں چند دلائل پر غور
کریں۔
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:
قالَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ
لِرَجُلٍ: أمعكَ مِنَ القُرْآنِ شيءٌ؟، قالَ: نَعَمْ، سُورَةُ كَذَا وسُورَةُ
كَذَا، لِسُوَرٍ سَمَّاهَا(صحيح البخاري:7417)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک
صاحب سے پوچھا کیا آپ کو قرآن میں سے کچھ شے یاد ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں فلاں
فلاں سورتیں انہوں نے ان کے نام بتائے۔
اس حدیث میں واضح طور پر یہ بیان ہے کہ صحابی نے نام لے کر
ان سورتوں کو رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا کہ مجھے فلاں فلاں سورت یاد ہے۔ اس کا مطلب
ہے کہ عہد رسول میں سورتوں کے نام صحابہ کے درمیان معروف تھے۔ اسی قسم کی ایک اور
روایت ہے۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا:
سَمِعَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه
وسلَّمَ رَجُلًا يَقْرَأُ في سُورَةٍ باللَّيْلِ، فَقَالَ: يَرْحَمُهُ اللَّهُ
لقَدْ أذْكَرَنِي كَذَا وكَذَا، آيَةً كُنْتُ أُنْسِيتُهَا مِن سُورَةِ كَذَا
وكَذَا(صحيح البخاري:5038)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک
صاحب کو رات کے وقت ایک سورت پڑھتے ہوئے سنا تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص پر
رحم کرے، اس نے مجھے فلاں آیتیں یاد دلا دیں جو مجھے فلاں فلاں سورتوں میں سے بھلا
دی گئی تھیں۔
یہاں پر بھی پہلی حدیث کی طرح واضح اشارہ
ملتا ہے کہ صحابی نے نام کے ساتھ فلاں
فلاں سورت کو ذکر کیا۔ اسی طرح حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:
صَلَّيْتُ مع النبيِّ صَلَّى اللَّهُ عليه
وسلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَافْتَتَحَ البَقَرَةَ، فَقُلتُ: يَرْكَعُ عِنْدَ
المِائَةِ، ثُمَّ مَضَى، فَقُلتُ: يُصَلِّي بهَا في رَكْعَةٍ، فَمَضَى، فَقُلتُ:
يَرْكَعُ بهَا، ثُمَّ افْتَتَحَ النِّسَاءَ، فَقَرَأَهَا، ثُمَّ افْتَتَحَ آلَ
عِمْرَانَ، فَقَرَأَهَا، يَقْرَأُ مُتَرَسِّلًا ؛ إذَا مَرَّ بآيَةٍ فِيهَا
تَسْبِيحٌ سَبَّحَ، وإذَا مَرَّ بسُؤَالٍ سَأَلَ، وإذَا مَرَّ بتَعَوُّذٍ
تَعَوَّذَ(صحيح مسلم:772)
ترجمہ:
ایک رات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے سورہ بقرہ کا
آغاز فرمایا، میں نے (دل میں) کہا: آپ سو آیات پڑھ کر رکوع فرمائیں گے مگر آپ آگے
بڑھ گئے میں نے کہا: آپ اسے (پوری) رکعت میں پڑھیں گے، آپ آگے پڑھتے گئے، میں نے
سوچا، اسے پڑھ کر رکوع کریں گے مگر آپ نے سورہ نساءشروع کردی، آپ نے وہ پوری پڑھی،
پھر آپ نے آل عمران شروع کردی، اس کو پورا پڑھا، آپ ٹھر ٹھر کر قرائت فرماتے رہے
جب ایسی آیت سے گزرتے جس میں تسبیح ہے توسبحان اللہ کہتے اور جب سوال (کرنے والی
آیت) سے گزرتے (پڑھتے) تو سوا ل کرتے اور جب پناہ مانگنے والی آیت سے گزرتے تو۔
(اللہ سے) پناہ مانگتے۔
اس حدیث میں صحابی نےان چند سورتوں کے نام
بیان کئے جن کی تلاوت رسول اللہ ﷺنے نماز میں فرمائی ۔ اسی طرح حضرت نواس بن سمعان
کلابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے
ہوئے سنا:
يُؤْتَى بالقُرْآنِ يَومَ القِيامَةِ
وأَهْلِهِ الَّذِينَ كانُوا يَعْمَلُونَ به، تَقْدُمُهُ سُورَةُ البَقَرَةِ وآلُ
عِمْرانَ، وضَرَبَ لهما رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ ثَلاثَةَ
أمْثالٍ ما نَسِيتُهُنَّ بَعْدُ؛ قالَ: كَأنَّهُما غَمامَتانِ، أوْ ظُلَّتانِ
سَوْداوانِ، بيْنَهُما شَرْقٌ، أوْ كَأنَّهُما حِزْقانِ مِن طَيْرٍ صَوافَّ ،
تُحاجَّانِ عن صاحِبِهِما(صحيح مسلم:805)
ترجمہ:قیامت
کے دن قرآن اور قرآن والے ایسے لوگوں کو لایا جائے گا جو اس پر عمل کرتے تھے، سورہ
بقرہ اورسورہ آل عمران اس کے آگے آگے ہوں گی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان
سورتوں کے لئے تین مثالیں دیں جن کو (سننے کے بعد) میں (آج تک) نہیں بھولا، آپ نے
فرمایا: جیسے وہ دو بادل ہیں یا دو کالے سائبان ہیں جن کے درمیان روشنی ہے جیسے وہ
ایک سیدھ میں اڑنے والے پرندوں کی دو ٹولیاں ہیں، وہ ا پنے صاحب (صحبت میں رہنے
والے) کی طرف سے مدافعت کریں گی۔
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن
کی سورتوں کے نام عہد رسول سے ہی صحابہ کے درمیان معروف ہے اور آپ ﷺ کے رہتے ہوئے
آپ کے علاوہ کسی ودسرے نے ان سورتوں کے نام نہیں رکھے ہوں گے ۔ اس لئے صحیح بات
یہی ہے کہ قرآنی سورتوں کے تمام نام توقیفی ہیں ، یہ اجتہادی نہیں ہیں بلکہ آیات
اور سورتوں کی ترتیب بھی توفیقی ہیں۔
سوال: ایک خاتون کے یہاں کام
والی کو پاؤں میں چوٹ آئی اور وہ اپنے گھر گاؤں چلی گئی اور واپس نہیں آئی ۔اس کی
تنخواہ خاتون کے پاس رکھی ہے بہت لوگوں سے پتہ کیا لیکن وہ نہیں ملی، اب یہ خاتون
اس شہر سے آ گئی ہے، وہ پوچھتی ہے کہ میں ان پیسوں کا کیا کروں؟
جواب:کام والی عورت کی تنخواہ امانت ہے،
کھوج تلاش کرکے اس تک اس کی تنخواہ بھیجنا اس کی ذمہ داری ہے اس لئے امانت داری کی
ادائیگی کے لئے ہر ممکن کوشش کرے اور آج کا زمانہ کہیں سے کہیں پیسہ بھیجنے اور
کسی کو تلاش کرنے کے لیے آسان سے آسان ہے۔ کوشش کے باوجود بھی اس عورت کے بارے میں
پتہ نہ چلے تو اس کی تنخواہ کے برابر پیسہ اس کے نام سے صدقہ کر دینا چاہیے۔
سوال: ایک لڑکی کے حیض کی
وجہ سے روزے چھوٹے ہوئے ہیں، ان کو رکھتے ہوئے اس کا وزن کافی کم ہورہا ہو اور
لگتا ہو کہ شاید روزہ کی وجہ سے ہے تو کیا اس کو رخصت ہے؟
جواب:چھوٹے ہوئے روزے دو چند ہوتے ہیں، وہ
ہزاروں کی شکل میں نہیں ہوتے جن کو روزانہ مہینہ اور سال بھر قضا کرنے کی نوبت
پڑے۔ حیض کی وجہ سے مشکل سے چھ سات روزے چھوٹے ہوں گے۔ شرعی طور پر اس بات کی
آزادی ہے کہ سال بھر میں آدمی اپنی آسانی سے کسی بھی وقت روزہ قضاکر سکتا ہے۔روزہ
کی قضا کے بارے میں وزن گھٹنا بڑھنا نہیں دیکھا جاتا ہے بلکہ روزہ رکھنے کی طاقت
ہے یا نہیں بس اتنا دیکھا جاتا ہے اور آزادی ہے جب آسانی ہو خصوصا سردی کے موسم
میں دن بہت چھوٹا ہوتا ہے اس وقت رکھا جائے لیکن طاقت ہوتے ہوئے روزے کی معافی
نہیں ہے۔ وزن سے متعلق کوئی مسئلہ ہو تو طبیب سے رجوع کرے مگر حیض میں چھوٹے روزوں
کی قضا کرنا لازم ہے۔
سوال: مدارس میں ہونے والے
جلسہ میں سات سال کی چھوٹی بچیاں حصہ لے سکتی ہیں جو کھلے عام ہوتا ہے، جس میں مرد
بھی ہوتے ہیں اور والدین بھی؟
جواب:مردوں کے جلسے میں بچیوں کا پروگرام
میں حصہ لینا جائز نہیں ہےخواہ وہ چھوٹی ہو ں یا بڑی ہوں۔ آج کل مدارس میں بڑی
تباہی مچی ہوئی ہے، جہاں دینی تعلیم ہوتی ہے وہیں پر شرعی تعلیم کی دھجیاں بکھیری
جاتی ہیں خصوصا سالانہ پروگرام کے موقع سے۔ جوان لڑکیوں کے ساتھ پروگرام میں
مولانا اور دیگر مرد حضرات نظر آتے ہیں اور بالغ و نابالغ بچیوں سے اسٹیج پر مردوں کے سامنے
تقریر کرائی جاتی ہے حتی کہ ایکشن کے ساتھ نظم اور تلاوت کرائی جاتی ہے، یہ نہایت
افسوس والی بات ہے۔ مدارس سے ان چیزوں کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ پروگرام کی صورت یہ
ہونی چاہیے کہ لڑکیوں کے پروگرام میں لڑکیاں ہوں اور لڑکوں کے پروگرام میں صرف
لڑکے ہوں۔
سوال: ایک آدمی نے ایک پرانا
گھر پینتالیس لاکھ میں لیا،اس کا ارادہ ہے کہ وہ کچھ وقت کے بعد اسے بیچ کر دوسری
جگہ رہائش کے لئے گھر لے گا۔ جس سے سودا ہوا وہ پیسے لے کر غائب ہوگیا، جب ایک سال
بعد اس سے رابطہ ہوا تو اس نے وہ رقم توڑ توڑ کر دی، تو کیا اس رقم پر زکوۃ ہوگی؟
جواب: پیسے کی زکوۃ میں اس پیسے پر زکوۃ
دینی ہے جو نصاب تک پہنچے اور جس پر سال گزرا ہو اس لحاظ سے جو پیسہ توڑ توڑ کر
ملا ہو یا اپنے پاس پہلے سے موجود کوئی بھی ذاتی پیسہ ہو اس کا حساب لگایا جائے کہ
کس پیسے پر سال گزرا ہے اور وہ نصاب تک پہنچا ہے یا نہیں؟ اگر نصاب بھر پیسہ ہے
اور اس پر سال گزرا ہے تو اس میں سے چالیسواں حصہ زکوۃ دے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جس گھر کے لیے یہ نیت کی گئی کہ اس کو بیچ کر دوسری جگہ گھر لیں گے تو وہ گھر سامان تجارت ہے اس پر سالانہ اعتبار سے زکوۃ دینی پڑے گی۔ اگر سال سے پہلے ہی بیج دیا گیا تو پھر اس میں زکوۃ نہیں ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔