Monday, April 28, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات (48)

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات (48)

جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

جدہ دعوہ سنٹر حی السلامہ -سعودی عرب


سوال: قرآن پڑھتے وقت وسوسے آتے ہیں کہ غلط پڑھ لیا پھر پیچھے سے دس بارہ بار پڑھتی ہوں اور بار بار ایسا ہوتا۔اس کی کیسے اصلاح کریں گے؟

جواب: قرآن پڑھنے میں کسی قسم کا وسوسہ ذہن میں نہیں پیدا کرنا چاہیے۔ فقط اس بات پر اطمینان ہو کہ آپ کو صحیح طورپر قرآن پڑھنے آتا ہے یا نہیں۔ اگر صحیح سے قرآن پڑھنے آتا ہے تو تلاوت کے وقت کسی طرح کا کوئی وسوسہ ذہن میں نہ رکھیں بس پڑھتے جائیں۔ ساتھ ہی ایک طریقہ بتا دیتا ہوں اس پر عمل کریں۔ ذہن صاف ہوجائے گا۔

جس وقت تلاوت کرنی ہو اس وقت موبائل سے ریکارڈنگ چالو کرلیں اور صرف پانچ منٹ قرآن کی تلاوت کریں اس کے بعد تلاوت بند کرکے ریکارڈنگ چالو کرکے قرآن سے ملائیں اور دیکھیں کہ کیا آپ نے غلطی کی ہے یا غلطی نہیں کی ہے، اس طرح چند دن کریں آپ کو اطمینان ہوجائے گا۔اگر چند دن میں اطمینان نہ ہو تو اس کے بعد دوسرا تجربہ یہ کریں کہ آپ ایک بیٹھک میں جتنی تلاوت کرتے ہیں، اس قدر مکمل تلاوت کرلیں اور پیچھے کچھ بھی نہ دہرائیں، لگاتار تلاوت کرتے جائیں ساتھ ہی اس کو بھی ریکارڈ کرلیں۔ اب اس مکمل ریکارڈنگ کو قرآن سے ملا کر دیکھیں اس میں جہاں غلطی ہوگئی ہو اس کی تصحیح کرلیں، معاملہ ختم۔ تلاوت کا اس طرح چند دن معمول بنائیں ، وسوسہ دور ہو جائے گا پھر بغیر رکارڈنگ کے تلاوت کرتےرہا کریں۔

سوال: کیا نواسی اور پوتی کا شوہر نانی اور دادی کا محرم ہوتا ہے؟

جواب:نواسی کا شوہر نانی کے لئے محرم ہے اور اسی طرح پوتی کا شوہر بھی دادی کے لیے محرم ہے۔

سوال: ایک خاتون تین رمضان کے روزے حاملہ رہنے کی وجہ سے نہیں رکھ پائی اور نہ قضا کیا اور نہ مسکین کو ہی کچھ دے سکی تو اس معاملہ میں اب وہ کیا کر سکتی ہے؟

جواب: حاملہ کے قضا روزہ کے سلسلے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ اس کی قضا کرنی ہے اور بعض علماء کہتے ہیں کہ اس کا فدیہ دینا ہے ۔ اس بارے میں قوی موقف یہ ہے کہ حمل کے دوران چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کی جائے گی  اس لئے وہ خاتون حسب سہولت روزہ قضا کرتی رہے، لگاتار قضا کرنا ضروری نہیں ہے نیز روزہ کی ادائیگی میں تاخیر بھی ہوئی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ سے توبہ کرلے۔

سوال: پہلے لوگ ایک گھر میں جمع ہو کر سوا لاکھ مرتبہ آیت کریمہ کا ورد کرتے تھے۔ اب ایک اور طریقہ رواج پاگیا ہے کہ لوگ اپنے اپنے گھروں پر پڑھتے ہیں پھر وہ فون پر تعداد بتا دیتے ہیں کہ اتنا پڑھا، آپ گنتی میں شامل کرلیں ۔ کیا اس طرح کرنا بھی بدعت میں شامل ہے؟

جواب: آج دنیا آنلائن ہونے کی وجہ سے بدعتی لوگ بہت سارے کام آنلائن کرنے لگے ہیں جس کی شریعت میں اجازت نہیں ہے۔ قرآن کی آیات کو اپنی طرف سے مخصوص تعداد متعین کرکے پڑھنا بدعت ہے۔ ایسا کوئی اکیلے کرے تب بھی بدعت ہے، اجتماعی شکل میں گھر میں کرے تب بھی بدعت ہے اور الگ الگ جگہ مخصوص آیت کو مخصوص تعداد میں پڑھ کر گروپ کی شکل میں فون پر ایک دوسرے کو بتائے تب بھی بدعت ہے ۔ گویا قرآن کی آیات مخصوص کرکے پڑھیں یا  قرآن کو اجتماعی شکل میں گھر میں  جمع ہوکرپڑھیں یا اپنے اپنے گھروں میں قرآن  پڑھ کر ایک دوسرے کو فون پر بتاکر اجتماعی شکل میں پڑھیں ، یہ سب بدعتی عمل  ہیں ۔مسلمانوں کو اس طرح کے بدعتی عمل سے بچنا چاہیے، اس میں ثواب تو نہیں ملے گا لیکن بدعت کرنے کا گناہ ضرور ملے گا۔

سوال: اگر کوئی شخص مشت زنی کے گناہ میں ملوث رہا ہو تو توبہ کا کیا طریقہ ہے۔ اسے انٹرنیٹ سے معلوم ہوا ہے کہ اگر روزے کی حالت میں یہ گناہ کیا تو اب وہ روزے قضا کرنے پڑیں گے لیکن وہ شخص قضا روزوں کی طاقت نہیں رکھتا ہو تو اب کیا کرے اور کیا اس گناہ کے کرنے پر بھی جنابت کی طرح غسل کرنا تھا۔ اگر اس نے غسل کے بغیر نمازیں پڑھیں تو ان نمازوں کا کیا ہوگا؟

جواب: مشت زنی صحیح قول کی روشنی میں فعل حرام ہے کیونکہ یہ غیر فطری طریقہ سے شہوت پوری کرنا ہے۔جو آدمی ایسا عمل کر رہا ہے اسے اللہ سے سچی توبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ سچی توبہ کی علامت یہ ہے کہ وہ اپنے اس فعل حرام پر نادم و شرمندہ ہو اور وہ اللہ سے پختہ وعدہ کرے کہ آئندہ ایسا گناہ نہیں کرے گا اور پھر وہ اس گناہ کو ہمیشہ کے لیے ترک کر دے۔اس طرح توبہ کرنے سے ان شاءاللہ اس کی توبہ قبول ہوسکتی ہے۔

مشت زنی سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے بشرطیکہ منی کا اخراج ہوا ہو جو شہوت کے ساتھ نکلتی ہے۔ مذی جو لیس دار مادہ ہوتا ہے اس کا حکم الگ ہے۔جس نے روزہ کی حالت میں مشت زنی کی اور مشت زنی کے ذریعہ اس نے جتنا روزہ ضائع کیا اس کے اوپر توبہ کے ساتھ اتنے روزوں کی قضا واجب ہے لیکن اسے فدیہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو بندہ رمضان کا روزہ رکھ رہا تھا اس حالت میں مشت زنی کر رہا ہے اس کا مطلب ہے کہ وہ نہ بیمار ہے اور نہ وہ ضعیف ہے اس لئے اس کے اوپر روزوں کی قضا لازم و واجب ہے۔ جہاں تک سوال میں یہ ذکر ہے کہ وہ روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا یہ بات مشکوک نظر آتی ہے۔ اگر واقعتا وہ اپنی بات میں سچا ہے تو روزہ نہ رکھ سکنے کی وجہ سے ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو فدیہ دے۔

اور چونکہ مشت زنی سے غسل واجب ہو جاتا ہے اس لئے اس میں غسل طہارت یعنی غسل جنابت کرنا واجب ہے۔ اگر اس نے غسل کے بغیر بہت ساری نماز ادا کی ہے تو وہ بہت بڑا گنہگار آدمی ہے۔ اللہ رب العالمین سے اپنے اس عمل کے لیے رو رو کر اور گڑگڑا کر توبہ کرے۔ اور ناپاکی کی حالت میں پڑھی گئی نماز کے لئے اللہ سے معافی مانگے ممکن ہے پروردگار معاف کر دے۔

سوال: تلاوتِ سجدہ کی جو دعا ہے کیا اس کے ساتھ سجدے کی تسبیح بھی پڑھنا ہے؟

جواب:اس سجدہ میں سجدہ تلاوت کی دعا پڑھنا کافی ہے تاہم اس میں مزید تسبیحات بھی پڑھنا چاہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال:ایک عورت کے پاس دنیا کی ہر سہولت موجود ہے، کیا کوئی اس عورت کو راشن ڈال کر اپنا روزہ رکھواسکتا ہے؟

جواب: کوئی آدمی اپنا روزہ کسی دوسرے سے نہیں رکھوا سکتا اور نہ ہی کسی کے لئے جائز ہے کہ وہ دوسرے کا روزہ رکھے۔ روزہ بدنی عبادت ہے اور بدنی عبادت کوئی بھی کسی دوسرے کی طرف سے انجام نہیں دے گا۔جس کے اوپر روزہ فرض ہے روزہ اسی کو رکھنا پڑے گا اور اگر وہ روزہ رکھنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو ضعیفی اور بڑھانے کی وجہ سے تو ہر روزہ کے بدلے فدیہ ادا کرے گا۔

سوال: ایک آدمی بیمار ہے، اس سے رمضان کے روزے چھوٹ گئے ہیں مگر وہ اب بیماری کی وجہ سے روزہ  نہیں رکھ سکتا ہے،ان چھوٹے ہوئے روزوں کا فدیہ کیا ہوگا؟

جواب: بیمار کی دو قسم ہے۔ ایک بیمار وہ ہے جس کے ٹھیک ہونے کی امید ہے تو ایسا آدمی جب ٹھیک ہوگا اس وقت  اپنا چھوٹا ہوا روزہ خود سے رکھے گا۔ایک دوسرا بیمار وہ ہے جس کے ٹھیک ہونے کی امید نہیں ہے ایسا آدمی اپنے چھوٹے ہوئے روزوں کا فدیہ ادا کرے گا اور ہر روزے کا فدیہ ڈیڑھ کلو اناج ہے جو مسکین کو دینا ہے۔اگر مرد پہلی قسم میں داخل ہے تو اسے ابھی انتظار کرنا ہے اور جب ٹھیک ہو جائے گا تو چھوٹا ہوا روزہ رکھے گا لیکن اگر اس مرد کا تعلق دوسری قسم سے ہے تو اس سے جتنا روزہ چھوٹا ہوا ہے ہر روزے کا فدیہ مسکین کو ادا کر دے۔

سوال: جب کوئی لڑکی پارلر کا ہنر سیکھنے جاتی ہے اور اپنے سامنے بالوں کی کٹنگ اور آئبرو بنتے دیکھ رہی ہو جبکہ اس کو معلوم ہےکہ یہ کرنا منع ہے پھر ایسے میں وہ کس کو منع کرے مالکن کو یا جو بنوائے اس کو یا وہ یہ عمل ہوتے وقت اس جگہ سے ہٹ جائے۔ یاد رہے کہ وہ خود اپنے کورس میں یہ دونوں چیزیں نہیں سیکھتی؟

جواب: سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس وقت شاید کوئی ہی ایسا کوئی بیوٹی پارلر ملے جس میں لڑکیاں حرام طریقے سے زیب زیب و زینت نہ کرواتی ہوں۔ ایسی صورت میں حرام کام کرنے والی لڑکی اور حرام کام کروانے والی لڑکی دونوں کو گناہ ملے گا۔

دوسری بات یہ ہے کہ جو لڑکی ایسے پارلر میں جاتی ہے جہاں پر حرام کام ہوتے ہوئے دیکھتی ہے تو ان دونوں کو منع کرنا ہے یعنی جو گناہ کرے اور جو گناہ کروائے اور آئندہ ایسے پارلر میں کسی غرض سے بھی نہیں جانا چاہیے جہاں پر غلط چیز دیکھنے کو ملے۔ جس لڑکی کو پارلر کی ضرورت ہو وہ ایسے پارلر کا انتخاب کرے جس میں صحیح کام ہوتا ہو۔

سوال: کیا دلہن کے لئے شادی پر لازمی طور پر لال رنگ کا لباس پہننا ضروری ہے یا وہ کوئی بھی رنگ پہن سکتی ہے یا سفید رنگ کا لباس ضروری ہے یا اس میں آزادی ہے۔ آج کل دلہن کے لباس عام طور پر بہت بھاری اور مہنگے ہوتے ہیں جو صرف ایک بار پہنے جاتے ہیں اور پھر ساری زندگی سنبھال کر رکھ دئے جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اکثر اس جوڑے کا خرچ دولہے والوں پر ہوتا ہے جو کبھی کبھار لاکھوں میں چلا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ خرچ دولہے والوں پر ڈالنا جائز ہے یا دلہن کو اپنا لباس خود خریدنا چاہیے اور کیا نکاح کے لئے کسی مخصوص لباس کی شرط ہے یا وہ سادگی سے کسی بھی لباس میں نکاح کرسکتی ہے؟

جواب: شادی کے موقع پر کپڑے کا تعلق شادی سے بالکل بھی نہیں ہے۔ جب کپڑے کا شادی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ایسے میں لال کپڑا یا سفید کپڑا، مہنگا کپڑا یا سستا کپڑا، مخصوص لباس یا سادگی والا لباس، لباس دولہا خریدے یا دلہن والے خریدے۔۔ یہ سارے سوالات فضول ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق و واسطہ نہیں ہے۔

شادی کی موقع پر کپڑے سے متعلق یہ سب ،لوگوں کے اپنے بنائے ہوئے رسم و رواج ہیں، اسلام سے تعلق نہیں ہے ۔عہد رسول کی شادی کا ایک واقعہ ملاحظہ کریں اور دیکھیں کہ  شادی کس چیز کا نام ہے۔

ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ میں اپنے آپ کو آپ کے لئے ہبہ کرتی ہوں ۔ پھر وہ دیر تک کھڑی رہی ۔ اتنے میں ایک مرد نے کہا کہ اگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی ضرورت نہ ہو تو اس کا نکاح مجھ سے فرمادیں ۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس انہیں مہر میں دینے کے لئے کوئی چیز ہے؟ اس نے کہا کہ میرے پاس اس تہمد کے سوا اور کچھ نہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم اپنا یہ تہمد اس کو دے دوگے تو تمہارے پاس پہننے کے لئے تہمد بھی نہیں رہے گا ۔ کوئی اور چیز تلاش کرلو۔ اس مرد نے کہا کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ کچھ تو تلاش کرو ، ایک لوہے کی انگوٹھی ہی سہی ! اسے وہ بھی نہیں ملی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ۔ کیا تمہارے پاس کچھ قرآن مجید ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں ! فلاں فلاں سورتیں ہیں ، ان سورتوں کا انہوں نے نام لیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ہم نے تیرا نکاح اس عورت سے ان سورتوں کے کے بدلے کیا جو تم کو یاد ہیں۔(صحیح البخاری: 5135)

اس حدیث میں آپ نے پڑھا کہ مہر کے بدلے لڑکے کا لڑکی سے نکاح کردیا گیا۔ یہاں پر نہ بڑی محفل، نہ تقریب کا انعقاد ،نہ ہلدی  کی رسم ، نہ مایوں کی رسم ، نہ لباس کے نخرے ،  نہ بارات و جہیز کا تصور یعنی نکاح کے وقت  کسی قسم کے رسم ورواج نہیں انجام دئے گئے۔ یہی اسلامی شادی ہے اسی طرح ہمیں شادی کرنا چاہیے۔

خلاصہ یہ ہے کہ کپڑے سے متعلق جو سوال کیاگیا ہے ، یہ لوگوں کا اپنا بنایا ہوا رواج ہے تاہم اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ نکاح کے وقت دلہن اچھا  اورعمدہ لباس لگائے مگر شادی کے لیے کوئی لباس خاص کرنا جائز نہیں ہے اور یہ بھی جائز نہیں ہے کہ شادی کا لباس لڑکے والے سے طلب کرے۔ یہ صراحتا ظلم ہے اور یہ حرام ہے، قیامت میں اس کا حساب اللہ کے سامنے دینا پڑے گا۔جس کو لباس لگانا ہے وہ اپنا لباس لگائے، اسے دوسروں سے فرمائشی جبروطلب کرکے کیوں لگانا ہے۔

سوال: کیا مائے  مستعمل سے وضو کرسکتے ہیں اور جو وضو کرتے وقت پانی کے چھینٹے آجاتے ہیں کیا وہ ناپاک ہوتے ہیں کیونکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وضو کے دوران جو گناہ دھلتے ہیں اس کی وجہ سے وہ پانی ناپاک ہو جاتا ہے؟

جواب: وضو کے چھینٹے کو نجس کہنا غلط ہے۔ گناہ حسی چیز نہیں ہے کہ اس کا اثر پانی پر پڑے گا، گناہ باطنی چیز ہے اور یہ وضو سے کیسے جھڑتا ہے اس  کیفیت کا علم اللہ کو بہتر ہے۔مائے مستعمل یعنی استعمال شدہ پانی سے وضو اور غسل کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ اس بارے میں صحیح یہ ہے کہ مائے مستعمل یعنی جس پانی سے پہلے وضو یا غسل کیا گیا ہو اس سے دوبارہ وضو یا غسل کیا جاسکتا ہے  اس سلسلے میں کافی دلائل ملتے ہیں۔ مائے مستعمل مطلقا طاہر نہیں ہے بلکہ وہ عام پانی کی طرح ہو اور اس میں نجاست کا پہلو نہ ہو تب اس کا استعمال کیا جائے گا لیکن اگر استعمال شدہ پانی میں نجاست نظر آئے  یا محسوس ہوتو اس کو وضو یا غسل کے لئے دوبارہ استعمال نہیں کیا جائے گا۔

سوال: اگر نماز میں کوئی غلطی ہوئی ہو اور نماز میں سجدہ سہو کرنا بھول جائے تو کیا کریں اور بس لگ رہا ہے کہ شاید سجدہ سہو نہیں کیا ہے اور کیا سجدہ سہو کے لیے وضو ضروری ہے؟

جواب: سجدہ سہو سے متعلق مسئلہ یہ ہے کہ اگر نماز کے بعد اسی جگہ یاد آئے کہ آدمی سجدہ سہو

بھول گیا ہے تو پھر سے سجدہ سہو کر لے اور سلام پھیرے۔اور سجدہ سہو بھولنے کے بارے میں بہت دیر کے بعد یاد آئے تو سجدہ سہو ساقط ہو جائے گا یعنی اب سجدہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔نیز سجدہ سہو کرنے یا نہ کرنے سے متعلق شک ہو رہا ہے تو پھر اس  شک کی طرف دھیان دینے کی ضرورت نہیں ہے یعنی مانا جائے گا کہ سجدہ سہو کرلیا گیا۔جیسے نماز وضو کی حالت میں پڑھتے ہیں اسی طرح سجدہ سہو کے لیے وضو ضروری ہے اور یہ وہ سجدہ نہیں کہ آپ بعد میں الگ سے کریں بلکہ یہ سجدہ نماز کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور نماز کے وقت ہی کرنا ہے۔

سوال: میرے پاس اذکار ریمائنڈر کا ایک چھوٹا سا چینل ہے جہاں ہم صبح و شام اور رات کے اذکار ریمائنڈ کراتے ہیں اور سنن و نوافل اور روزے ان سب کے لیے ریمائنڈر ڈالتے ہیں۔ ہمیں کسی نے مشورہ دیا ہے کہ ہم روز ننانوے اسمائے حسنیٰ پڑھنے کا بھی ریمائنڈر ڈالیں اور کہا کہ روزانہ ننانوے اسمائے حسنیٰ کو حفظ کرکے پڑھنے سے جنت میں جائیں گے، کیا یہ صحیح ہے؟

جواب:صحیح حدیث میں  اللہ کے ننانوے ناموں کو یاد کرنے کی فضیلت وارد ہے اور یاد کرنے کا مطلب ہے ان ناموں کا علم ہو، ان کے معنی معلوم ہوں اور ان کے تقاضے کو پورا کیا جائے۔اور جو بات آپ نے سوال میں لکھا ہے کہ روزانہ اس کو پڑھنے والا جنت میں جائے گا، یہ کسی حدیث میں نہیں ہے، یہ بات صحیح نہیں ہے۔ حدیث میں یاد کرنا بتایا گیا ہے، نہ کہ روزانہ پڑھنا۔

سوال: خواتین رمضان میں جماعت سے تراویح پڑھنے جاتی ہیں اور وہ روزانہ تراویح کے بعد بھی نوافل ادا کرنا چاہتی ہیں تو کیا جماعت سے پڑھائی گئی وتر روزانہ چھوڑ کر آخری پہر میں ادا کر سکتی ہیں؟

جواب: جو خواتین جماعت کے ساتھ تراویح پڑھے اور پھر دوبارہ رات میں قیام کرنا چاہے تو اس

میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن پہلی مرتبہ تراویح پڑھتے وقت وتر نہیں پڑھنا ہے یا وتر کو جفت بنا لینا ہے یعنی امام تین رکعت پڑھائے تو مزید ایک رکعت پڑھ کر جفت بنا لینا ہے اور پھر رات میں دوبارہ اٹھ کر آپ قیام کرسکتے ہیں، اس وقت آخر میں وتر پڑھنا ہے۔

سوال:حیض سے پاک ہونے کے بعد وائٹ ڈسچارج بھی ہوتا ہو تو غسل کرنے کے بعد ٹشو پیپر میں ایسا ڈسچارج لگے جو نہ ڈارک لال ہو اور نہ ایک دم سفید ہو بیچ کا کلر معلوم ہو۔ ایک دم ہلکا لال یا پنک کلر کی طرح محسوس ہو تو اس نماز اور روزے کا کیا حکم ہے؟

جواب: حیض کے بعد سفید پانی کا اخراج حیض سے پاکی کی علامت ہے لہذا جس عورت  کو حیض آنے کے بعد سفید پانی خارج ہو جائے اس کے کچھ دنوں کے بعد یا کچھ گھنٹوں کے بعد یا غسل کے بعد کسی کلر کا ہلکا پھلکا خون نکلے یا داغ دھبہ ظاہر ہو تو اس کو کچھ بھی شمار نہیں کرنا ہے اپنی نماز جاری رکھنی ہے۔

سوال: فوت شدگان کے لئے کلمہ طیبہ کا ورد کرکے ان کو ہدیہ دیتے ہیں، کیا یہ عمل قبول ہے اور اس کے لئے احادیث ملتی ہیں؟

جواب: میت کے لئے کلمہ پڑھ کر بخشنا یا میت کے لیے کلمہ پڑھنا جائز نہیں ہے یہ بدعتی عمل ہے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ بدعت پر عمل کرتا ہے اور ایسا کرنے سے میت کو کوئی ثواب نہیں ملے گا کیونکہ قرآن و حدیث میں اس بات کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے۔

سوال: ایک عورت عمرہ کر رہی تھی سعی کے دوران حیض آگیا تو حرم سے باہر آگئی ہے اسے کیا کرنا چاہیے؟

جواب: اسے فورا حرم لوٹ جانا چاہیے اور اگر سعی  چھوڑتے ہوئے تاخیر نہیں ہوئی ہے تو سعی  میں جتنا حصہ باقی ہے وہ مکمل کر لے اور پہلے والا شمار کرے لیکن اگر سعی  چھوڑ کرآئے ہوئے کافی تاخیر ہو گئی ہے تو ازسر نو مکمل سعی کرے اور سعی کے لیے پاکی ضروری نہیں ہے، حیض کی حالت میں بھی عورت سعی کر سکتی ہے پھر اس کے بعد بال کٹا کر حلال ہو جائے اس کا عمرہ مکمل ہو جائے گا۔

سوال: ایک لڑکی باہری ملک میں رہتی ہے اس نے اپنی ماں کو دو تین سونے کی چوڑیاں دی تھی ۔جب اس کی ماں  کا انتقال ہو گیا تو وہ لڑکی چوڑی لے کر چلی گئی، کیا اس کا ایسا کرنا صحیح ہے یا اس میں گھر کے سب لوگوں کا حصہ ہے؟

جواب: اس میں دو صورت ہو سکتی ہے ۔ایک صورت یہ ہے کہ اگر اس لڑکی نے اپنی ماں کو سونے کی چوڑیاں عاریتا پہننے کے لیے دیا تھا تو ظاہری سی بات ہےکہ زیور کی  ملکیت لڑکی ہی کی ہے اس لیے وہ اپنی ماں سے جب چاہے لے سکتی تھی لیکن اگر اس نے ماں کو ہدیہ اور تحفہ دے دیا تھا تو ایسی صورت میں والدہ کے انتقال کے بعد یہ چوڑی وراثت مانی جائے گی اور تمام ورثاء میں تقسیم کی جائے گی۔

سوال: سفر میں جو روزہ چھوٹ جاتا ہے تو بعد میں اس کا فدیہ دینا پڑتا ہے یا معاف ہو جاتا ہے؟

جواب: سفر کی حالت میں اگر کوئی آسانی پا کر روزہ رکھنا چاہے تو سفر میں بھی روزہ رکھنا جائز ہے لیکن اگر مشکل کی وجہ سے یا بغیر مشکل کے سفر کی وجہ سے روزہ چھوڑنا چاہے تو روزہ چھوڑنا جائز ہے اور سفر کی وجہ سے جتنا روزہ چھوٹے گا بعد میں اتنے روزوں کی قضا کرنا واجب ہے۔ روزوں کا

فدیہ نہیں دینا ہے، نہ ہی روزہ معاف ہوگا بلکہ ان روزوں کی قضا کرنا پڑے گا۔

سوال: کیانابالغ بچہ کسی اور فرد کی طرف سے عمرہ ادا کر سکتا ہے ؟

جواب: اگر نابالغ بچے کے اندر اس قدر شعور اور تعلیم ہے کہ وہ ٹھیک ٹھیک سنت کے مطابق عمرہ کی ادائیگی کر سکتا ہے اور اس نے اپنا عمرہ پہلے کرلیا ہے تو وہ دوسرے کی طرف سے عمرہ بدل کر سکتا ہے اس میں حرج نہیں معلوم ہوتا ہے لیکن اگر اس میں تمیزو شعور نہیں ہے ، ٹھیک ڈھنگ سے عمرہ نہیں کرسکتا ہے تو وہ دوسرے کی طرف سے عمرہ نہ کرے۔

سوال: جب ہمارے اپنے، زکاۃ کے حق دار ہوں جیسے بہن و بھائی یا قریبی اور ہمسائے مگر ان کے عقائد مکمل ٹھیک نہ ہوں تو کیا انہیں زکاۃ دے سکتے ہیں اور اگر کوئی نیاز وغیرہ بانٹتا نہیں پر کہیں سے آئے تو وہ کھا لیتے ہیں ان کا معاملہ بھی بتا دیں اور وہ جن کے عقائد بہت سخت خراب ہیں جیسے نیاز کرواتے ہیں ،ایسے لوگوں کو دینا درست ہے؟

جواب: جو لوگ بظاہر شرکیہ عمل کرتے ہیں لیکن وہ کلمہ پڑھنے والے ہیں اور مسلمانوں کی طرح عمل کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کو زکوۃ دے سکتے ہیں۔ایسے لوگوں کو زکوۃ دینے کے ساتھ دین کی حق بات بھی بتانا ضروری ہے۔آپ ان کو گھر بلاکر یا اکیلے اور تنہائی میں مگر صحیح وقت پر شرک و بدعت پر حکمت کے ساتھ تنبیہ کریں اور اس کے نقصانات سے خبردار کریں۔ ہو سکتا ہے کہ اسے فائدہ ہو۔

پوری کوشش اور سمجھانے کے باوجود بھی نصیحت حاصل نہ کرے تو آئندہ زکوۃ دینے کے لئے اچھے آدمی کا انتخاب کریں۔ بوقت ضرورت اس کو بھی زکوۃ دے سکتے ہیں لیکن دوسرا اس سے

 بہتر اور زیادہ ضرورت مند ملے تو اس کواپنی زکوۃ  دیں۔

سوال: ایک بزرگ خاتون ہے، وہ نماز کے لئے بیٹھتی ہے تو گھٹنوں میں بہت تکلیف ہوتی ہے تاہم سجدہ اور قیام کر لیتی ہے۔ کیا جلسہ اور قعدہ میں گھٹنوں پر کھڑی رہ کر التحیات پڑھ لیں تو نماز درست ہوگی؟

جواب: سوال میں جو صورتحال ذکر کی گئی ہے اس صورت میں اس خاتون کو قیام، رکوع اور سجدہ اپنی اصل صورت میں کرنا چاہیے کیونکہ اسے اس کی قدرت حاصل ہے۔ جہاں تک جلسہ اور قعدہ کے وقت  بیٹھنے میں دقت ہے تو جس طرح اس کے لئے بیٹھنا آسان ہو اس طرح نماز میں بیٹھا کرے جیسے گھٹنے کے بل کھڑی ہو کر جلسہ کرے اور تشہد پڑھا کرے جو اس کے لئے آسان ہے، اس عمل میں کوئی حرج نہیں ہےاور اس کی نماز بھی درست ہے ۔

سوال: دنیا میں ایسا کہیں بھی اور کوئی بھی بیوٹی پارلر نہیں جہاں پر غلط کام نہ ہوتا ہو اور کسی نے بیوٹی پارلر میں ہنر سیکھنے کے لئے فیس دے رکھی ہو اور اس کو وہ فیس واپس بھی نہیں مل سکتی ہے تو پھر وہ کیا کریں؟

جواب: آپ ذرا ٹھنڈے دماغ سے اس بات پر غور کریں کہ جب دنیا میں کہیں ایسا پارلر نہیں ہے جس میں صحیح سے کام ہوتا ہو اس کا مطلب ہے کہ یہ خاتون بھی پارلر کا کام سیکھ کر وہی کرے گی جو دنیا میں ہوتا ہے پھر ایسی تعلیم حاصل کرنے کا الٹا نقصان اور گناہ ہوگا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کل سبھی پارلر میں ناجائز اور حرام کام انجام دئے جاتے ہیں۔

بالوں کو فیشن کے طور پر چھوٹا کیا جاتا ہے، بالوں میں بال جوڑا جاتا ہے، ابرو کو تراش خراش کیا جاتا

ہے، برہنہ کرکے مساج کیا جاتا ہے، برہنہ کرکے ویکس کیا جاتا ہے حتی کہ غیر ضروری بالوں کی وہاں صفائی بھی کرائی جاتی ہے جس میں ایک عورت اپنی شرمگاہ، دوسری عورت کے سامنے کھولتی ہے جو کہ حرام کام ہے۔اور عموما جس عورت کا بھی میک اپ کیا جاتا ہے ان میں سے اکثر عورتیں غیروں کے لیے سجتی اور سنورتی ہیں جبکہ ایک عورت اپنے شوہر کے لیے زینت اختیار کرے گی۔

اس قسم کے بے شمار ناجائز کام پارلر میں انجام دئے جاتے ہیں، اس جگہ پارلر میں کام کرنے والی عورت کے لئے کسٹمر کے مقابلے میں دہرا گناہ ملتا ہے۔ ایک گناہ تو اسے حرام کام کرنے کا ہے اور دوسرا گناہ میک اپ والی عورت جب اپنے میک اپ سے غیر محرموں کو اپنی طرف مائل کرتی ہے یا غیر محرموں  پر میک اپ ظاہر کرکے گناہ کرتی ہے اس کا بھی گناہ ہوتا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ ایسی تعلیم سیکھ کر وہ عورت اپنی آخرت برباد کرے گی اس لئے جو پیسہ لگا چکی ہے اس کی فکر نہ کرے بلکہ آخرت کی فکر کرے۔

سوال: میری بیٹی کی شادی ہوئے تین ماہ ہوئے ہیں، میرے داماد کا غصہ بہت تیز ہے، اس نے ایک ماہ قبل غصے میں ایک طلاق دی پھر اس نے معافی مانگی اور رجوع کرلیا۔ اس کو خود پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیا بول رہا ہے۔ دوسرے مہینے پھر غصہ آیا اس نے دوسری طلاق دے دی۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا پہلی طلاق شمار کی جائے گی جبکہ اس وقت میری بیٹی حیض سے تھی اور دوسری طلاق کے بعد خود بخود تیسری طلاق کیسے ہوگی، اگر شوہر نے طلاق نہیں دی ہو اور اس نے رجوع بھی نہیں كيا ہو۔ کیا دو طلاق ہوگئی ہے اور اگر حیض آجائے تو تیسری طلاق ہو جائے گی اور تیسری طلاق ہوگئی تو دونوں دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں؟

جواب: مذکورہ صورت حال میں جب لڑکا پہلی مرتبہ طلاق دیتا ہے تو وہ طلاق واقع ہوگئی لیکن رجوع کرنے سے میاں بیوی کا رشتہ بحال ہوگیا۔ اسی طرح جب دوسری طلاق دی گئی تو یہ بھی واقع ہوگئی، اگر لڑکا عدت میں رجوع کرلے تو میاں بیوی کا رشتہ بحال ہو جائے گا کیونکہ پہلی اور دوسری طلاق رجعی ہوتی ہے اس میں شوہر کو رجوع کا اختیار ہوتا ہے۔

جہاں تک سوال میں یہ بات ہے کہ دوسری طلاق کے بعد حیض آنے سے تیسری طلاق خود بخود کیسے ہو جائے گی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے غلط فتوی اسے بتایا ہے، یہ بات جھوٹی ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ تیسری طلاق خود بخود نہیں ہوتی ہے، نہ حیض آنے سے تیسری طلاق ہوتی ہے۔ طلاق دینے سے طلاق ہوتی ہے، طلاق نہ دی جائے تو زندگی میں کبھی بھی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

خلاصہ یہ ہے کہ حیض کی حالت میں جو پہلی طلاق دی گئی وہ بھی شمار کی جائے گی اور جو دوسری طلاق دی گئی وہ بھی شمار کی جائے گی اور اگر دوسری طلاق کے بعد لڑکا رجوع کر لے تو میاں بیوی کا رشتہ بحال رہے گا تاہم اب اس لڑکے کو آئندہ احتیاط کرنا ہے کیونکہ اگر وہ اپنی بیوی کو تیسری طلاق دیتا ہے تو بیوی فورا جدا ہو جائے گی یعنی طلاق دیتے ہی  طلاق مغلظہ واقع ہوجاتی ، میاں بیوی کا رشتہ ختم ہوجاتا ہے اور تیسری طلاق میں شوہر کو رجوع کا اختیار نہیں ہوتا ہے۔اگر لڑکا دوسری طلاق کی عدت میں  رجوع کرلیتا ہے تو میاں بیوی کا رشتہ باقی رہے لیکن رجوع نہیں کرتا اورتین حیض کی  عدت ختم ہوجاتی ہے تو میاں بیوی میں جدائی ہوجائے گی پھر شرعی طورپر نکاح کرکے دونوں ایک ساتھ ہوسکتے ہیں ۔

سوال: جب ہم اسی کلومیٹر سے زیادہ کا سفر کرتے ہیں تو ہم سفر میں سفر والی نماز پڑھتے ہیں اور جب ہم سفر میں گھر سے دس پندرہ کلومیٹر دور ہیں اور کسی اسٹاپ پہ نماز پڑھنے کا موقع مل جائے تو کیا ہم پوری نماز پڑھیں گے یا سفر والی جبکہ گھر پہنچنے میں نماز قضا ہونے کا خدشہ ہو؟

جواب: سوال سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ ایک آدمی سفر پہ گیا اور اس کی سفر سے گھر واپسی ہو رہی ہے لیکن ابھی وہ اپنے گھر سے دس پندرہ کلومیٹر دور ہے تو ایسی صورت میں قصر سے نماز پڑھی جائے گی یا مکمل نماز پڑھی جائے گی؟

اگر سوال یہی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ سفر کرنے والا ابھی گھر نہیں پہنچا ہے، راستے ہی میں ہے اس لئے وہ راستہ بھر اپنی نمازیں قصر کے ساتھ ادا کرے گا اور جب وہ اپنے شہر سے دس پندرہ کلومیٹر دور ہو تب بھی وہ قصر سے ہی نماز پڑھے گا کیونکہ وہ ابھی تک مسافر ہی ہے۔ جب اپنے گھر اور اپنی بستی میں پہنچ جائے اس وقت مکمل نماز ادا کرنی ہے۔

سوال: میری ماں روز رات کو تہجد پڑھتی ہے۔ جب وہ عشاء کی نماز پڑھتی ہے تو وتر چھوڑ دیتی ہے اور جب تہجد پڑھتی ہے اس وقت وتر بھی پڑھ لیتی ہے۔ اگر کبھی کبھار تہجد کے وقت آنکھ نہیں کھلی اور فجر کی نماز کا وقت ہو جاتا ہے تو فجر سے پہلے وتر پڑھے یا فجر کے بعد وتر پڑھے اور وتر میں ایک رکعت پڑھے یا تین رکعت؟

جواب: وتر رات کی آخری نماز ہے اس لئے اگر کوئی تہجد پڑھنے والی خاتون ہو وہ عشاء کے بعد وتر نہ پڑھے جب وہ تہجد کی نماز پڑھے اس کے بعد وتر کی نماز ادا کرے۔اگر کبھی تہجد کے لیے نہ اٹھ سکے اور فجر کے وقت آنکھ کھلے تو اب وتر کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ اس جگہ وتر نہیں پڑھنا ہے بلکہ صرف فجر کی نماز ادا کرنی ہے تاہم اس وتر کی قضا کرنا چاہے تو دن میں سورج نکلنے کے بعد اس کی قضا کرسکتی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اگر وہ ایک رکعت وتر پڑھتی تھی تو دن میں دو رکعت قضا پڑھے اور اگر تین رکعت وتر پڑھتی تھی تو دن میں چار رکعت قضا کرے۔

سوال: میرے ابو کو انتقال ہوئے ایک سال ہونے والا ہے۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ایک سال جس دن انتقال ہوا اس دن نہیں ہوگا بلکہ جس دن تدفین ہوئی اس دن ایک سال پورا ہوگا ، دونوں میں سے سال کب پورا ہوگا؟

جواب: جس دن کسی کا انتقال ہوا ہے وہ میت کے لیے پہلا دن ہے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔اسی کے حساب سے اگلا شمار ہوگا  نہ کہ تدفین کے حساب سے مگر یہاں اہم بات یہ ہے کہ  ہم اس بات کے لئے کسی سے کیوں بحث کریں اور ہمیں اس کی کیا ضرورت ہے کہ میت کے لئے دن کا حساب لگاتے رہیں۔ کیا کوئی رسم یا برسی منانے کی ضرورت ہے؟ کبھی کسی طرح کی کوئی ضرورت ہو تو مہینے اور سال کا اندازہ کافی ہے۔

سوال: عموما لوگ اس طرح بولتے رہتے ہیں کہ فلاں انسان سے یا فلاں گھر سے ہم کو فائدہ ہوا یا برکت ملی تو ایسے میں سوال یہ ہے کہ ہم کس انسان کو یا کس گھر کو برکت والا کہیں گے؟

جواب: جو آدمی ایمان پر قائم ہو اور اعمال صالحہ انجام دے رہا ہو اس کی زندگی میں برکت ہوگی اور جس گھر میں نماز پڑھی جاتی ہو، ذکر کیا جاتا ہو، تلاوت کی جاتی ہو اس گھر میں برکت ہوگی لیکن جو انسان بے ایمان اور بد عمل ہو اس کی زندگی میں برکت نہیں ہوگی اور جس گھر میں بے حیائی و برائی کا کام ہوتا ہو، اس گھر میں بری چیزیں رکھی ہوئی ہوں ایسے گھر میں برکت نہیں ہوگی۔

سوال: سورہ  سجدہ میں سجدہ بھی آتا ہے۔ جب رات میں یہ سورت پڑھتے ہیں تو اس وقت میں ہم بستر پر ہوتے ہیں ایسے میں کیا بستر سے اٹھ کر سجدہ کرنا چاہیے یا پھر اگلے دن بھی کرسکتے ہیں یا پھر اس کو چھوڑ سکتے ہیں؟

جواب: سجدے تلاوت واجب نہیں ہے، بلکہ مسنون ہے۔ اگر کبھی چھوٹ جائے یا چھوڑنا چاہیں تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔

جب سوتے ہوئے تلاوت کریں اور سجدے تلاوت آئے تو اٹھ کر زمین پر سجدہ کیا جائے گا جیسے سجدہ کا طریقہ بتایا گیا ہے یعنی سات اعضاء پر اور سجدہ چھوڑ دیتے ہیں تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے لیکن اگلے دن سجدہ نہیں کرنا ہے، سجدہ اسی وقت ہے جب آیت سجدہ پڑھی جائے۔

سوال : اگر کسی لڑکی کو ایسے شخص کا رشتہ ملے جو شرک و بدعت سے دور ہو لیکن خود کو "اہل حدیث" نہ کہتا ہو اور اہل حدیث، دیوبندی، بریلوی، تمام مسالک کو فرقہ پرستی قرار دیتا ہو تو ایسے شخص سے نکاح کرنے کا شرعی حکم کیا ہوگا خاص طور پر جب اسے کوئی اہل حدیث رشتہ نہ مل رہا ہو۔ کیا ایسے شخص کا عقیدہ اور منہج درست سمجھا جا سکتا ہے اور کیا اس سے نکاح کرنا صحیح ہوگا یا کسی اہل حدیث رشتہ کا انتظار کرنا بہتر ہوگا؟

جواب: اگر کوئی اپنے آپ کو اہل حدیث نہیں کہتا لیکن اس کا عقیدہ درست ہے اور کتاب و سنت پر عمل کرنے والا ہے تو ایسے لڑکے سے نکاح کرنے میں حرج نہیں ہےمگر ایسے آدمی کے عقیدے کو صحیح طور پر جاننا بھی ضروری ہے اور اس کے عمل کرنے کا طریقہ بھی جاننا ضروری ہے ، صرف اس کے دعوی  پر اعتماد نہیں کیا جائے گاکیونکہ عام طور سے اس طرح کی بات کرنے والا عقیدہ اور عمل کے اعتبار سے گمراہ ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو صحیح عقیدے والا اور صحیح عمل والا ہوگا وہ کبھی اہل حدیث سے دشمنی نہیں کرے گا ، نہ اہل حدیث کو فرقہ پرست سمجھے گااور اہل حدیث کہلانے میں  بھی کبھی جھجھک محسوس نہیں کرے گا کیونکہ یہی ایک جماعت ہے جو تفرقہ سے دور منہج سلف پر گامزن ہے۔

اگرآپ  ایسے لڑکے کی حقیقت نہیں سمجھ پا رہے ہوں تو اس لڑکے کے جو اوصاف اور کیفیت ہیں وہ بیان کرکے کسی سلفی عالم سے اس لڑکے کی حقیقت معلوم کریں یا کسی قریبی سلفی عالم سے اس کی ملاقات کراکے اس لڑکے کا پتہ لگائیں۔

بہرکیف! کسی کے صرف دعوی پر اعتماد نہ کریں بلکہ جب تجربہ سے  متحقق ہو کہ یہ واقعی صحیح عقیدہ اور صحیح عمل والا ہے اسی وقت  اس سے نکاح کیا جائے، ورنہ اسے ترک کر کے دوسرا مناسب رشتہ تلاش  کیا جائے۔

سوال: دھوپ میں بیٹھنے کے نقصان: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دھوپ میں بیٹھنے سے بچو کیونکہ اس سے کپڑے خراب ہوتے ہیں ،(بدن سے) بوبو پھوٹنے لگتی ہے اور دبی ہوئی بیماریاں ابھر آتی ہیں۔(مستدرک: 8264، عن ابن عباس) کیا یہ حدیث صحیح ہے؟

 جواب: یہ حدیث مستدرک حاکم میں مذکورہ نمبر پر موجود ہے مگر یہ موضوع ہے یعنی یہ گھڑی ہوئی حدیث ہے، شیخ البانی ؒ نے اسے سلسلہ ضعیفہ میں موضوع کہا ہے۔ حدیث کے الفاظ اس طرح سے ہیں۔ إيَّاكُم والجلوسَ في الشَّمسِ، فإنَّها تُبلي الثَّوبَ، وتُنتِنُ الرِّيحَ، وتُظهِرُ الدَّاءَ الدَّفينَ(السلسلة الضعيفة:189)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔