Monday, April 28, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(47)

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(47)

جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ - سعودی عرب


سوال: ایک آدمی کا بچہ گرم تیل میں گر گیاہے، اس کی مالی حالت صحیح نہیں ہے ، اسے پیسوں کی سخت ضرورت ہے تو کیا ہم فدیہ کا پیسہ اسے دے سکتے ہیں؟

جواب:روزے کا فدیہ پیسے کی شکل میں نہیں دیا جائے گا بلکہ اناج اور غلے کی شکل میں دیا جائے گا۔ اسی طرح فطرانہ بھی اناج کی صورت میں دیا جائے گالیکن سوال میں جو صورت مذکور ہے کہ ایک شخص کو پیسے کی سخت ضرورت ہے جس کا بچہ تیل میں گر گیا تھا تو ایسے ضرورت مند کو فدیہ یا فطرانہ کا پیسہ دیا جا سکتا ہے بشرطیکہ دینے والے کے پاس تعاون کے لئےاس کے علاوہ پیسہ نہ ہو۔اگر دینے والے کی مالی حالت اچھی ہے اور فدیہ کے علاوہ دوسرے مال سے مدد کرسکتا ہے تو وہ صدقہ و خیرات کے ذریعہ ضرورت مند کی مدد کرے اور فدیہ اناج کی صورت میں ادا کرے۔

سوال: جوان لڑکوں کو دین کی دعوت کیسے دی جائے گی، میں کسی کو دعوت دینا چاہتی ہوں ، اس کا اخلاق ٹھیک ہے یعنی وہ اچھا انسان ہے مگر دین سے دوری بہت ہے ، غفلت والی زندگی ہے اس کی اصلاح کیسے کی جائے ، کچھ نصیحت کریں؟

جواب:ایک لڑکی کو سماج کے جوان لڑکوں کی اصلاح کے لئے فکر نہیں کرنا ہے، ان کے لئے بہت سارے مرد علماء موجود ہیں، ان کے ذمہ مردوں کی اصلاح ہے۔ لڑکی کی حیثیت سے آپ کو لڑکیوں اور عورتوں کی اصلاح کے لئےکام کرناچاہئے۔

اگر اپنے گھر کے لڑکے کی بات ہے کہ تو سرپرست وذمہ دار کی حیثیت سے ان کی تعلیم و تربیت آپ کے ذمہ ہے اور تعلیم و تربیت کا طریقہ یہ ہے کہ ان بچوں کو دینی مدارس میں تعلیم دلائیں، اسی طرح ان کو جیدعلماء سے مربوط کریں، ان کے درس و پروگرام اور دینی اجتماعات میں شریک ہونے کے لئے کہیں یہاں تک کہ گھر میں بھی بیانات سننے اور عقیدہ و عبادت سے متعلق بنیادی کتب کا مطالعہ کرنے کہیں۔ ساتھ ہی آج کے زمانے میں بچوں کو بہتر ماحول میں رکھیں اور بری صحبت سے بچائیں۔

سوال:ایک بہن کی دوسالہ بھتیجی چھت سے گر گئی ہےجوابھی آئی سی یو میں ہے ۔وہ چاہتی ہے کہ آپ اسے کچھ مخصوص دعائیں بتا دیں جنہیں گھر کے سب لوگ پڑھیں تاکہ اللہ تعالی اس کی بھتیجی کو جلد صحت یاب کر دے؟

جواب:ایک آدمی کو تکلیف کے وقت اول مرحلہ میں صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو کچھ بھی ہوتا ہے اللہ کی طرف سے ہوتا ہے، یہ تقدیر کا حصہ ہے اس لیے اللہ پر مضبوط توکل ہو اور تکلیف میں صبر وشکر کرتے ہوئے اپنی زبان میں اللہ رب العالمین سے دعا کریں، دعا کا باب بہت وسیع ہے۔اللہ ہرزبان میں ہرکسی کی دعا سنتا ہے ۔

ساتھ ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تکلیف کے وقت دم کرنے کا طریقہ سکھایا ہے۔ اگر اس بچے کے پاس آئی سی یو میں رہتے ہوئے ملنے جانے دیا جاسکتا ہے تو گھر کا ایک آدمی تین سورتیں(سورہ اخلاص ، سورہ فلق اور سورہ ناس) پڑھ کر دن میں دو تین دفعہ بچے پر دم کر دیا کرے ۔

سوال:گھرمیں عورتیں کام کرتے وقت مصروفیت میں کیسے اپنے بچوں (ڈیڑھ سال سے چار سال تک)کو مصروف رکھیں تاکہ وہ ٹی وی ، کارٹون اور موسیقی وغیرہ سےمحفوظ رہیں؟

جواب:دو تین سال کے بعد بچے پڑھنے لگ جاتے ہیں ، اس سے پہلے ایک بچے کو چوبیس گھنٹے ماں کی ضرورت رہتی ہے کیونکہ اس کے کھانے پینے، سونے جاگنے اور صفائی ستھرائی کرانے کی کوئی حد متعین نہیں رہتی ۔ جب بچہ باشعور ہوجائے اور باتیں سمجھنے لگے تو اس میں کتاب سے انسیت پیدا کرائیں۔ آج کل بچوں کی دلچسپی کے حساب سے مختلف قسم کی کتابیں ، کاپیاں ، کلراور ڈیجیٹل سلیٹ وغیرہ آنے لگے ہیں۔ مناسب عمر کے بچوں کے لئے اسٹیشنری خریددیں وہ ان چیزوں سے کھیلا بھی کرے اور پڑھا بھی کرےاور بچوں کے کھیلنے کے لئے کھلونے بھی رکھ لیں۔ساتھ ہی ایک ضروری کام یہ ہے کہ جیسے ہی بچہ پڑھنے اور لکھنے کے قابل ہوجائے اس کے لئے روزانہ کی بنیاد پر باقاعدہ پڑھانے کا نظم بنالیں۔ اور ان بچوں کو موبائل ، ٹی وی اور الکٹرانک ویوائس سے ہرممکن طور پر دور رکھیں۔ عموما دیکھا جاتا ہے کہ ماں یا باپ بچوں سے جان چھڑانے کے لئے ہاتھ میں موبائل تھمادیتے ہیں پھر بچے کو موبائل کا چسکا لگ جاتا ہے جو اس کی تعلیم و تربیت میں مخل ہے۔ بچوں کےلئے کھیلنے والے مناسب کھلونے دیں مگر موبائل سے دور رکھیں۔ساتھ ہی نگرانی کرتے رہیں،اس طرح کبھی آزاد نہ چھوڑیں کہ کئی گھنٹے گزرجائیں اور وہ اکیلے ہے یا نگرانی سے باہرہے، وقفہ وقفہ سے نگرانی کرتے رہیں۔یاد رکھیں کہ بچوں کی تعلیم، تربیت اور نگرانی میں کمی سے ان کو آگے نقصان ہوتا ہے۔

سوال: ایک استانی نے بتایا کہ اگرکسی کودوپہرایک بجے سفر کرنا ہو تو اسے روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں، وہ روزہ رکھے اور سفر کے دوران روزہ کھول سکتے ہیں۔کیا یہ بات صحیح ہے جبکہ صحابہ نے سفر میں روزہ رکھا بھی اور چھوڑا بھی ہے؟

جواب:سفر میں روزہ رکھنے سے متعلق حکم یہ ہے کہ اگر حالت سفر میں روزہ رکھنا آسان ہواور مسافر روزہ رکھنا چاہے تو بلاشبہ سفر میں بھی روزہ رکھ سکتا ہے اور اگر کوئی روزہ چھوڑنا چاہے تو سفر کی وجہ سے روزہ چھوڑسکتا ہےتاہم سفر میں جتنا روزہ چھوڑے گا، بعد میں اس کی قضا کرے گا۔

جہاں تک مذکورہ بالا صورت کا معاملہ ہے۔ اس بارے روزہ رکھنے میں دوپہر سے پہلے سفر کرنا یا بعد میں سفر کرنے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک آدمی پر جب مسافر کا اطلاق ہوگا اس وقت اس کے لئے روزہ چھوڑنا جائز ہے اور اس وقت سے اس کے لئے نماز قصر کرنا بھی جائز ہے۔اور ایک آدمی مسافر کب ہوتا ہے، جب وہ سفر کے ارادے سے گھر سے نکل جاتا ہے اور اپنی بستی پیچھے چھوڑ دیتا ہے تب وہ مسافر کہلاتا ہے اس وقت اس کے لئے روزہ چھوڑنا جائز ہے اور اس وقت اس کے لئے نماز قصر کرنا جائز ہے۔

اس بنا پر جو آدمی ابھی صرف سفر کا ارادہ کیا ہے لیکن سفر پہ نکلا نہیں ہے، وہ اپنے گھر میں موجود ہے تو وہ اس وقت روزہ نہیں چھوڑے گا کیونکہ وہ اس وقت مسافر کے حکم میں نہیں ہے، وہ اپنے گھر میں موجود ہے۔

سوال: اپنے یہاں دس پندرہ سالوں سے یہ معاملہ دیکھتی آرہی ہوں کہ جب شوال کے مہینے میں لڑکی کی شادی کی تاریخ فکس رہتی ہے تولڑکی کے گھر والے لڑکی کو کمزوری آجائیگی کرکے رمضان میں روزہ رکھنے سے منع کردیتےہیں ۔اسی طرح اسکول وکالجز پڑھنے والی لڑکیوں کو امتحان کے وقت لڑکیوں کے والدین روزہ رکھنےسےمنع کردیتے ہیں، کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟

جواب:رمضان کا روزہ ہر ایک عاقل و بالغ مرد اور عورت پر فرض ہے جو صحت منداور مقیم ہو۔ رمضان کا روزہ کوئی اختیاری معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک فریضہ ہے اس لئے گھر کے ذمہ داروں کا اپنی لڑکی کو، جس کی شادی ہونے والی ہو یا امتحان دینے والی ہو، روزہ رکھنے سے منع کرنا جائز نہیں ہے۔ ایسا کرنے سے گھر والے کو روزہ چھڑوانے کا سخت گناہ ملے گا۔ روزہ چھوڑنا بہت بھاری گناہ ہے، جتنا گناہ روزہ چھوڑنے میں ہے اتنا ہی گناہ روزہ چھڑوانے میں بھی ہے۔اور یہاں پر صرف گھر والوں کو ہی گناہ نہیں ملے گا بلکہ اس لڑکی کو بھی گناہ ملے گا جو روزہ چھوڑ رہی ہے۔ اس جگہ پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی دھیان میں رہے۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں :

لا طاعةَ لِمخلُوقٍ في معصيةِ الخالِقِ(صحيح الجامع:7520)

ترجمہ: اللہ کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی بات نہیں مانی جائے گی۔

اس وجہ سے لڑکی کی ذمہ داری یہ ہے کہ اگر ماں باپ ایسے موقع سے روزہ چھوڑنے کے لیے کہیں تو ماں باپ کی بات ٹھکرا دے اور اللہ کے حکم پر عمل کرے ورنہ روزہ چھوڑنے کے سخت گناہ میں وہ بھی مبتلا ہوگی اور اللہ کے یہاں اس کا حساب دینا پڑے گا۔ اس وقت گھر والے کام نہیں آئیں گے۔

سوال:کیا نماز میں سلام کا جواب دے سکتے ہیں اور جواب دینے کا کیا طریقہ ہے؟

جواب:اگر کوئی آدمی نماز ی سے سلام کرے تونماز کی حالت میں نمازی سلام کا جواب دے سکتا ہے مگر الفاظ کے ذریعہ نہیں بلکہ ہاتھ کے اشارے سے ۔سنن ابي داود میں ہے، صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا اس حال میں آپ نماز پڑھ رہے تھے، میں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے اشارہ سے سلام کا جواب دیا۔ نابل کہتے ہیں: مجھے یہی معلوم ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے «إشارة بأصبعه» کا لفظ کہا ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کے اشارہ سے سلام کا جواب دیا۔(سنن ابي داود:925، اسے البانی نے صحیح کہا ہے)۔

سوال: ہمارے گھرمیں دروازے کے اوپر آیۃ الکرسی کی ماربل پلیٹ لگی ہوئی ہے ، اب پلستر ہورہا ہے اور ہم وہ پلیٹ نکالنا چاہ رہے ہیں ، کیا ایسا کرنا صحیح ہے اور نکالنے کے بعد اس کو ضائع کیسے کریں؟

جواب:آپ اپنے گھر سے آیۃ الکرسی کا ماربل نکال کر ہٹا دیں کیونکہ قرآنی آیات کو گھروں میں

 لٹکانا درست نہیں ہے۔ اس ماربل کو نکالنے کے بعد اسے توڑ دیں تاکہ قرآنی الفاظ ختم ہوجائیں اور اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوال: تسبیح کے دانوں پہ اذکار کرنا کیسا ہے، کیا یہ بدعت میں شمار ہوتا ہے۔مجھے ہاتھوں پہ لمبی یعنی سو مرتبہ والی تسبیح کرتے ہوئے بھول ہو جاتی ہے کہ کتنی تسبیح پڑھی تو میں موتیوں کی تسبیح پہ پڑھتی ہوں، کیا یہ درست عمل ہے یا بدعت ہے؟

جواب:انگلی پہ تسبیح گننا افضل ہے کیونکہ قیامت میں انگلیاں ہمارے حق میں گواہی دیں گی اس لیے کوشش تو یہی ہو کہ انگلیوں پر تسبیح کریں لیکن جہاں ضرورت پڑے جیساکہ سو دفعہ والی تسبیح پڑھتے وقت انگلی پر تسبیح کرنے میں بھولنے کی دقت ہو تو تسبیح کے دانوں کا استعمال کرسکتے ہیں، یہ جائز ہے اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے تاہم افضل عمل انگلیوں پر تسبیح کرنا ہے جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انگلیوں پر تسبیح کیا کرتے تھے۔خلاصہ یہ ہے کہ جب تسبیح کے دانوں کی ضرورت پڑے اس وقت تسبیح کے دانوں پر ذکر کرلیں اور جب اس کی ضرورت نہ ہو اس وقت انگلیوں پر تسبیح کیا کریں۔

سوال: نوجوانی کے عالم میں ایک خاتون سے سستی کی وجہ سے کافی نمازیں ضائع ہوگئیں، اب اسے غلطی کا احساس ہوگیا ہے اور نادم بھی ہے ایسے میں قضا پڑھنے کا کیا طریقہ ہے۔ کیا کثرت سے نوافل پڑھے، یا تہجد کی نمازوں میں نیت کرے۔ کسی نے کہا ہے کہ ہر نماز کے بعد ایک نماز کی نیت کرکے قضا کرے جیسے فجر کے بعد فجر کی قضا، کیا اس طرح کر سکتی ہے؟

جواب: جب زندگی میں کئی سالوں کی نمازیں چھوٹی ہوئی ہیں تو ایسی نمازوں کے لیے سچے دل سے توبہ کرنا کافی ہے۔ جان بوجھ کر اتنے سالوں کی چھوڑی ہوئی نماز کی قضا کرنا صحیح نہیں ہے اور نہ ہی ان نمازوں کا فدیہ ہےاس کے لئے سچے دل سے اللہ رب العالمین سے توبہ کرے یہی کافی ہے۔باقی وہ آئندہ کے لئے پختہ ارادہ کرلے اور پابندی سے پنچ وقتہ نمازیں ادا کیا کرے، جس قدر نوافل پڑھ سکے نوافل پڑھے اور تہجد کا اہتمام کرے ۔ نوافل اپنی سہولت سے ادا کیا کرے، اس میں قضا نماز کی نیت نہیں کرنی ہے۔

سوال:آپ نے ایک بارموزوں پر مسح کے بارے میں بتایا تھا کہ مسح کر سکتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اگر پانی بھی میسر ہو یا ہم ڈیوٹی پر ہوں اور جلدی ہو تو کیا اس وقت بھی جرابوں یا شوز پر مسح کر سکتے ہیں؟

جواب:یہ اللہ رب العالمین کی طرف سے اس کے بندوں پر آسانی ہے کہ اگر وضو کرکے موزہ یا جراب پہنے ہیں تو اس پر بلاشبہ مسح کر سکتے ہیں چاہے آپ کو جلدی ہو یا جلدی نہ ہو یا ڈیوٹی پر ہوں یا گھر پہ ہوں اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔یاد رہے کہ ایسے موزہ پر مسح ہوگا جو ٹخنوں کو ڈھکنے والا ہو اور دبیز ہو یعنی شفاف نہ ہو جس کی وجہ سے پیر کی جلد نظر آتی ہو اور جوتے پر مسح نہیں کیا جائے گا۔ہاں اگر بڑی جوتی ہو جودونوں ٹخنوں کو پوری طرح ڈھکنے والی ہو اور اسے وضو کی حالت میں پہنی گئی ہو تو پھر ایسی جوتی پر مسح کر سکتے ہیں۔

سوال:کیا جوتا پہن کہ نماز پڑھی جاسکتی ہے، دلیل کے ساتھ جواب درکار ہے؟

جواب: جوتا اگر صاف ستھرا ہو تو اس میں نماز پڑھنا جائز ہے۔ یہ مسئلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول اور فعل دونوں طرح سے ثابت ہے۔

قولی دلیل: شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

خالِفوا اليَهودَ فإنَّهم لا يصلُّونَ في نعالِهِم ولا خفافِهِم(صحيح أبي داود:652)

ترجمہ:یہود کی مخالفت کرو کیونکہ نہ وہ اپنے جوتوں میں نماز پڑھتے ہیں اور نہ اپنے موزوں میں۔

عملی حدیث : عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:

رأيتُ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ يصلِّي حافيًا ومَنتعِلًا( صحيح أبي داود:653)

ترجمہ:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ ننگے پاؤں نماز پڑھتے اور جوتے پہن کر بھی۔

دونوں احادیث سے مسئلہ واضح ہے کہ جوتے میں بھی نماز پڑھ سکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال: کیا ہر نماز کے بعد ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا بدعت ہے، اصل میں جب سے میں نے سنا ہے کہ دعا نہ مانگنے پر اللہ تعالی ناراض ہوتا ہے تب سے میں نے یہ عادت بنالی ہے کہ ہرنماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتی ہوں۔ آپ اس بارے میں ہماری رہنمائی کریں؟

جواب:ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:مَن لم

يسألِ اللهَ يغضبْ علَيهِ(صحيح الترمذی:3373)

ترجمہ: جو شخص اللہ سے سوال نہیں کرتا تو وہ اس پر ناراض ہوتا ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اپنے بندے سے دعا کرنے کو پسند کرتا ہے اور چونکہ دعا عبادت ہے اور دعاؤں کا ترک کرنا مایوسی اور تکبر کا سبب ہے لہذا بندے کو اپنے رب سے دعائیں مانگتے رہنا چاہیے۔جہاں تک آپ کا سوال ہے کہ کیا ہر نماز کے بعد ہاتھ اٹھاکر دعا مانگنا بدعت ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر آپ اکیلے یعنی انفرادی طور پر ہر فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے ہیں تو اسے بدعت نہیں کہیں گے تاہم یہ خیال رہے کہ نماز کے بعد دعا کرنا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی یہ نماز کا حصہ ہے۔ دعا مانگنا اس مقصد سے ہو کہ آدمی اللہ کا محتاج ہے اور وہ دعا کرنے کو پسند کرتا ہے اس لئے وہ اللہ سے مانگتا رہے اور اس کے سامنے اپنی ضرورتیں بیان کرتا رہے۔

اس جگہ دو باتوں کوبھی دھیان میں رکھیں کہ ہر نماز کے بعد دعا مانگنے کو اپنی عادت نہ بنائیں البتہ فرض نماز کے بعد اکثر و بیشتر دعا کرنا چاہیں تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن فرض میں بھی اس کو عادت کے طور پر نہ اپنائیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ چونکہ آپ دعاؤں کا التزام کرتے ہیں اس لئے کبھی کبھار فرض نماز کے بعد دعا چھوڑ دینے کو آپ گناہ تصور نہ کریں اور دل میں یہ نہ خیال کریں کہ اللہ تعالی اس سے ناراض ہو جائے گا۔ اللہ کی ناراضگی کاسبب یہ ہے کہ آپ اللہ کے فرائض میں کوتاہی کریں یا اس کے محرمات کا ارتکاب کریں اور ہر نماز کے بعد دعا کرنا اللہ تعالی نے ہمارے اوپر فرض قرار نہیں

دیا ہے، نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد دعا مانگا کرتے تھے۔

سوال:حدیث میں ہے کہ جو شخص درخت لگائے اور اسمیں سے جو بھی چرند و پرند یا انسان کھائے گا وہ اس کے لئے صدقہ جاریہ بن جائیگا تو کیا اس کے لئے ضروری (شرط) ہے کہ درخت خود اپنے ہاتھ سے لگائے اور اس کی دیکھ بھال کرے تو صدقہ جاریہ بنے گا۔ اگر کوئی صرف پیسے دئے اور کسی سے کہے کہ تم درخت خرید کر لگانا اور اسکی دیکھ بھال بھی وہی کرے تو کیا صرف پیسے دینے والا کے لئے یہ اجر ملے گا؟

جواب:فصل کی دیکھ ریکھ کوئی بھی کرے، یہ اہم نہیں ہے بلکہ فصل جس کی ہے یعنی جو فصل کا مالک ہے اس کا اعتبار ہوگا اور اسی کی طرف سے صدقہ ہوگا، اگر چرند و پرند کھاجائیں۔جو فصل کا مالک نہیں ہے ، اسے کسی نے مزدوری پر دیکھ ریکھ کے لئے رکھا ہے اس کی طرف سے صدقہ نہیں ہوگا، اسے مزدوری مل جائے وہ اپنا حق اور نصیب پالیا۔فصل کھالینے سے نقصان مالک ہوتاہےاس لئے صدقہ کا اجربھی اسی کو ملے گا۔

سوال: کیا یہ بات صحیح ہے کہ حاملہ عورت کی ہر دعا قبول ہوتی ہے اور اسی طرح زچگی (ڈیلیوری) کے وقت بھی جو دعا مانگے وہ ضرور قبول ہوتی ہے؟

جواب:ایسی کوئی خاص دلیل نہیں ہے کہ عورت حمل میں ہو یا وضع حمل کا وقت ہو تو اس کی ہر دعا قبول ہوتی ہے۔ اللہ تعالی اپنے ہر بندے کی ہمیشہ دعا سنتا ہے البتہ یہ بات ضرور ہے کہ جب بندہ تکلیف میں ہو اور وہ اپنے رب کو پکارے تو اللہ اس کی پکار کو سنتا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:أَمَّنْ يُجِيبُ

الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ (النمل:62)

ترجمہ:بے کس کی پکار کو جبکہ وہ پکارے، کون قبول کرکے سختی کو دور کر دیتا ہے۔

مختصر یہ کہ قرآن وسنت میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ حاملہ کی ہر دعا قبول ہوتی ہے یا زچگی کے وقت جو دعا مانگی جائے ضرور قبول ہوتی ہے۔ یہ عوام میں پھیلی ہوئی غلط فہمی ہے۔ ہمیں یہ بات کہنی چاہئے کہ اللہ ہمیشہ ہرکسی کی پکار سنتا ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب بندہ تکلیف میں اللہ کو پکارتا ہے تو اس کی پکار سنتا ہے۔

سوال:مفتی سید ھشام مغربی صاحب عصر انسٹیٹیوٹ کے نام سے ایک ادارہ چلا رہے ہیں جو قرآن و حدیث کے مختلف کورس کرواتے ہیں۔ ان کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے بارے میں آپ کی راہنمائی درکار ہے۔ ان کی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ مفتی تقی عثمانی صاحب ان کے اساتذہ میں سے ہیں؟

جواب:میرے علم کے مطابق یہ ایک حنفی عالم ہیں اور بروقت ایک حنفی ادارہ کے استاد حدیث بھی ہیں۔ حنفی عالم سے آپ کیا قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کریں گے اور جن کے یہاں اتباع کی بجائے تقلید پائی جاتی ہے ان سے قرآن و حدیث کی تعلیم لینا بالکل غلط ہے کیونکہ ان کے پاس صحیح علم نہیں ہے۔ اگر انہیں قرآن و حدیث کی صحیح معرفت ہوتی تو وہ حنفی نہیں ہوتے بلکہ کتاب و سنت پر عمل کرنے والے ہوتے۔

اور پھر کیا علمائے کتاب و سنت یعنی سلفی علماء کی کمی ہے جو ان سے تعلیم لیں گے۔ الحمدللہ بے شمار

سلفی علماء موجود ہیں یہاں تک کہ عصری تقاضوں کے تحت بہت سارے سلفی اداروں میں آنلائن تعلیم بھی دی جاتی ہے اس لئے دوسری طرف التفات کی ضرورت نہیں ہے۔

سوال: سب سے بہترین اور افضل نماز جمعہ کی فجر جماعت کے ساتھ پڑھنا ہے ، یہ تو مردوں کے لئے ہے ، کیا عورتوں کے لئے فضیلت نہیں ہے؟

جواب:یہ بات صحیح ہے کہ جمعہ کے دن فجر نماز کی جماعت افضل ہے جیساکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے: اللہ تعالیٰ کے یہاں سب سے افضل نماز جمعہ کے دن کی نماز فجر ہے جسے باجماعت ادا کیا جائے۔(سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 1566)

یہ حدیث مرد اور عورت دونوں کے حق میں ہے۔ عورتوں کے لئے مسجد میں جماعت سے نماز پڑھنا منع نہیں ہے اور دنیا میں بہت ساری جگہوں پر عورتیں بھی مسجد میں نماز ادا کرتی ہیں جیسے حرمین شریفین کی مسجد میں۔ اس کے باوجود عورت کی افضل نماز اس کے گھر میں ہے ۔ اللہ نے گھر ہی میں عورتوں کے لئے بہترین نماز کا اجر رکھ دیا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ بعض معاملات میں مرد کے لئے خصوصیت ظاہر ہوتی ہے تو بعض معاملات میں عورت کے لئے بھی خصوصیت موجود ہے جیسے ماں کا درجہ باپ سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ ایسے میں کوئی مرد یہ اعتراض کرے کہ میرا درجہ کیوں کم ہوگیا تو اعتراض درست نہیں ہے۔

سوال: میں اپنے شوہر سے الگ ہوکر اپنے میکے آگئی ہوں مگر ابھی تک طلاق نہیں ہوئی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا میں اپنے زیور کی زکوٰۃ اپنے بھائی کو دے سکتی ہوں، میرے بھائی کی ملازمت ہے، وہ کرایہ کے مکان میں اپنے دوستوں کے ساتھ گھر شیئر کرکے رہتا ہے اور اس کی تنخواہ 20,000 سے اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے(کام کے دنوں کے حساب سے)۔میرے ابو کا انتقال ہو چکا ہے، میری امی اور میں اپنے گاؤں میں رہتی ہوں۔ امی کو کچھ پینشن ملتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھائی بھی اپنی کمائی سے امی کو کچھ خرچہ دیتا ہے اور بھائی پر کچھ قرضہ بھی ہے جسے وہ ہر مہینے ادا کرتا ہے۔ اب میرا بوجھ بھی امی اور بھائی پر پڑگیا ہے تو کیا ایسی صورت میں، میں اپنے بھائی کو زکوٰۃ دے سکتی ہوں، کیا یہ امی کو زکوٰۃ دینے کے برابر ہے کیونکہ میری امی، بھائی کی ذمہ داری میں ہے یا پھر میرا بھائی زکوٰۃ لینے کا مستحق نہیں ہے؟

جواب:والدین کی کفالت اولاد کی ذمہ داری ہے، اس لحاظ سے بیٹا اور بیٹی دونوں اپنی والدہ کے لئے کفالت کا ذمہ دار ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ بہن اپنے غریب بھائی کو زکوۃ دے سکتی ہے مگر سروس والا بھائی، نہ غریب کہلائے گا اور نہ یہ زکوۃ کا مستحق ہے۔ وہ خود سے اپنا قرض ادا کرے گا، اپنی کمائی سے گھر چلائے گا اور آمدنی کم ہے تو مزید محنت کرے گا۔ نبی ﷺ نے فرمایا ہے:

لا حظَّ فيها لغنيٍّ ولا لقويٍّ مُكتسِبٍ( صحيح أبي داود:1633)

ترجمہ: اس (زکوۃ) میں مالدار کا کوئی حصہ نہیں اور نہ طاقتور کا جو مزدوری کرکے کما سکتا ہو۔

ایسی صورت میں آپ اپنی زکوۃ دوسرے مستحق کو دیا کریں لیکن جب کبھی بھائی کو فقر کی حاجت درپیش ہوجائے تو اس وقت زکوۃ دے سکتے ہیں۔

سوال: کیا والدین اپنے نابالغ اور زیر کفالت بچوں کو ملنے والے تحائف اپنی ضروریات پر استعمال کرسکتے ہیں؟

جواب: حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد کا کمایا ہوا مال بھی باپ کا ہے اس لئے بیٹے کے مال سے ضرورت کے مطابق باپ مال لے سکتا ہے پھر بچوں کو ملا ہوا معمولی تحفہ کیا معنی رکھتا ہے، اس کے استعمال میں بظاہرکوئی حرج نہیں ہے۔ اس میں ایک بات کی ضرورت یہ ہے کہ بچے کو مایوس کرکے یا رلا کر یا اس سے زبردستی مانگ کر اس کی چیز اپنے استعمال میں نہ لائے بلکہ بچے کی خوشی کے ساتھ اس کی چیز استعمال کرے۔

سوال:جس طرح بالوں میں بال جوڑنا منع ہے، کیا اسی طرح پلکوں میں بھی جوڑنا منع ہے۔ میک اپ کے وقت نقلی پلکیں کچھ دیر کے لئے گلو سے لگائی جاتی ہیں تو کیا لگانےوالی اور لگوانے والی دونوں گناہگار ہوں گی؟

جواب: جس طرح سر کے بالوں میں بال جوڑنا منع ہے اسی طرح پلک میں مصنوعی بال لگانا منع ہے خواہ کچھ دیر کے ہی کیوں نہ ہو۔ کیا کچھ دیر کے لئے اسلام میں گناہ کرنے کی اجازت ہے؟ ہرگز نہیں۔ اور چونکہ مصنوعی بال سر میں یا پلکوں میں لگانا منع ہے اس لئے ایسا کرنے والی اور دوسرے کے لئے ایسا عمل کروانے والی دونوں عورتوں کو گناہ ہوگا۔

سوال:ایک بہن کے شوہر نے چھپ کر دوسرا نکاح کرلیا ہے اور عورت کی طرف سے اس کا بہنوئی ولی بنا تھا۔ شریعت کی رو سے یہ دونوں چیز غلط ہے جس کی وجہ سے نکاح قابل قبول نہیں ہے

تو کیا وہ بھائی پھر سے اسی عورت سے نکاح کرسکتا ہے یا دونوں میں جدائی ضروری ہے؟

جواب:نکاح میں بہنوئی ولی نہیں ہوسکتا ہے، لڑکی کا باپ ولی بنے گا پھر اس میں دو عادل گواہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے اس وجہ سے یہ نکاح باطل ہے اور لڑکا اور لڑکی کا ایک جگہ جمع ہونا حرام ہے، ان دونوں میں فورا تفریق کردی جائے ۔ اگر دونوں سابقہ گناہ سے سچی توبہ کریں تو شرعی طور پر دونوں کا نکاح کیا جاسکتا ہے۔

سوال: ((حدیث: عورت مرد کو کیسے تھکادے گی - ترجمہ: تم کو سختی، قحط و جانی ومالی نقصان میں ڈال کر آزمایا گیا مگر میں تم پر آسودگی کی آزمائش سے اندیشہ کرتا ہوں اور (خوشحالی کافتنہ) وہ عورتیں ہیں جب وہ سونے سے آراستہ ہوں گی اور ملک شام کی چادریں اور یمن کا عمامہ پہنیں گی تو امیر آدمی کو (ان چیزوں کے حصول میں) تھکا دیں گی اور فقیر آدمی کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف کردیں گی۔خرجہ فی المسند 2/66، ومسلم فی الصحیح1/61، وابوداؤد فی السنن(4679)، ابن ماجہ فی السنن (4003)۔))کیا یہ حدیث صحیح ہے؟

جواب:یہ روایت انتہائی کمزور ہے، شیخ البانی نے اسے بہت ہی ضعیف کہا ہے، سلسلہ ضعیفہ میں اس طرح روایت آئی ہے۔

أصابتكُمْ فتنةُ الضراءِ فصبرتُمْ، وإنَّ أخوفَ ما أخاف عليكُمْ فتنةَ السراءِ مِنْ قِبَلِ النساءِ، إذا تسوَّرْنَ بالذهبِ، ولبسنَ ريْطَ الشامِ وعصْبَ اليمنِ، وأتعبْنَ الغنىَّ، وكلفْنَ الفقيرَ ما لا يجدُ(السلسلة الضعيفة.2788)

سوال: ایک خاتون جن کی عمر چالیس ہے، دو سال قبل ڈاکٹر کی رپورٹ کے مطابق مینو پاز ہوگیا تھا۔ اب دو سال بعد تقریباً دو مہینے ہلکا ہلکا بلڈ جا رہا ہے جس کا رنگ کتھی جیسا ہے تو یہ حیض ہوگا یا استحاضہ ، اگر استحاضہ شمار کریں تو کیا چھوٹی نمازوں کی قضا کرنی ہوگی؟

جواب:جس عورت کا میڈیکلی طور پر انقطاع حیض ہوگیا تھا اور اس کے دو سال کے بعد ہلکا ہلکا کتھی کلر کا خون دو ماہ سے آتا ہو تو بظاہر حیض نہیں معلوم ہوتا ہے۔ پھر بھی اس میں حیض کے صفات پر غور کیا جائے۔ کیا وہ گاڑھے خون کی طرح ہے اور اس کے اندر بدبو پائی جاتی ہے جیسے حیض کی صفت ہے۔ اگر ایسی صفت ہے تو حیض شمار کرے اور اگر ایسی صفت نہیں ہے اور بظاہر ایسا ہی معلوم ہوتا ہے تو اسے استحاضہ شمار کرنا ہے اور اس میں نماز جاری رکھنا ہے۔ جو نمازیں چھوٹ گئی ہیں ان کی قضا کرنا ہے۔

سوال:انڈین گورنمنٹ کاروبار کے لئے ایک اسکیم چلارہی ہے جس میں پانچ لاکھ روپے لون دے رہی ہے جس کو چار سال میں ادا کرنا ہے پانچ ہی لاکھ۔ آپ کو زیادہ کچھ بھی نہیں دینا ہے اور ساتھ میں پچاس ہزار روپے کی سبسڈی بھی دے رہی ہے تو کیا اس اسکیم سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟

جواب:اگر کوئی سرکار حتی کہ عام آدمی کسی کو قرض دے اور واپسی میں کم پیسہ لے یعنی اس میں مزید سبسڈی بھی دے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔حرج اس وقت ہے جب یہ لون سودی بینک کے ذریعہ ہو اور بینک کو سود دینا بھی پڑے۔

اس اسکیم بارے میں صحیح سے آپ پتہ لگائیں۔ گو کہ سرکار لون مہیا کر کےسبسڈی دے کر کچھ کم

پیسہ لیتی ہے لیکن بنک اپنا سود نہیں چھوڑتا یعنی اس لون میں بنک کو سود دینا پڑتا ہے اور یہ معاملہ سودی بینک کے ذریعہ ہوتا ہے اس وجہ سے ایسا لون لینا جائز نہیں ہے۔

سوال: ڈیڈ باڈی ریفریگریٹر (death body refrigerator) کوئی ڈونیٹ کرنا چاہتا ہے، اسی کا سوال ہے کہ باڈی کو زیادہ دیر تک رکھنا پڑتا ہے تو کیا اس کا استعمال کر سکتے ہیں؟

جواب: ویسے شرعی طور پر کسی کی وفات کے بعد جتنی جلدی ہو اسے دفن کر دینا چاہیے لیکن کبھی قانونی اعتبار سے ایسا موقع آتا ہے کہ میت کو کچھ دنوں کے لئے اسٹور کرکے رکھنا پڑتا ہے۔ اور ضرورت کے تحت میت کو فریجر میں رکھنے میں حرج نہیں ہے، اس مقصد کے تحت سرد باکس یا میت فریجر باکس رکھنا جائز ہے تا ہم یہاں پر اس بات کا خیال رہے کہ اس باکس کا غلط استعمال نہیں ہونا چاہیے یعنی بلا ضرورت میت کو فریج میں رکھنا جائز نہیں ہے۔

سوال: کیا مرنے والے کے نام پر اگر گھر والے کسی کو پڑھنے کے لئے قرآن خرید کر دیں تو میت کو اس کا ثواب پہنچے گا؟

جواب: میت کی طرف سے مالی صدقہ کرنا جائز ہے اس وجہ سے میت کے نام پر اگر قرآن مجید خرید کر کسی کو پڑھنے کے لئے دیا جائے تو اس کا ثواب بلا شبہ میت کو پہنچے گا۔

سوال: کیا عصر کے بعد سورہ نبا پڑھنا سنت ہے اور کیا یہ بات حدیث سے ثابت ہے؟

جواب: عصر کے بعد سورہ نبا پڑھنے سے متعلق کوئی حدیث میرے میں نہیں ہے۔ ایک صوفی

بزرگ آدمی کا قول بیان کیا جاتا ہے۔ نظام الدین اولیاء کے ملفوظات پر مبنی فوائد الفواد نامی ایک کتاب ہے جس میں یہ قول مذکور ہے کہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء نے فرمایا ہے کہ جو شخص عصر کے بعد سورہ نبا کو پانچ مرتبہ پڑھے گا اس کے دل میں اللہ پاک کی بہت زیادہ محبت پیدا ہوجائے گی۔ (فوائد الفواد مع ہشت بہشت ج3، ص101 ملخصا)

یہ محض ایک قول ہے اور اس قول کی قرآن و حدیث میں کوئی دلیل نہیں ہے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ بغیر دلیل کے دین میں کسی بزرگ کا قول تسلیم نہیں کیا جائے گا اس لئے اس بات کو بیان کرنا اور عمل میں لانا ہرگز درست نہیں ہے ۔

سوال: عشاء کی نماز میں تاخیر بہتر ہے اس وجہ سے آٹھ بجے اذان ہونے پر نو دس بجے کے بیچ نماز ادا کرتی ہوں، کیا یہ عمل درست ہے اور ساڑھے نو بجے جب عشاء کی نماز کے لئے اٹھی تو حیض آگیا تو کیا اس عشاء کی نماز کی قضاء کرنی ہوگی پاک ہونے کے بعد؟

جواب: یہ بات صحیح ہے کہ عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھنا افضل ہے مگر مردوں کے لئے جماعت سے مسجد میں نماز ادا کرنا واجب ہے۔ عورت گھر میں تاخیر سے عشاء پڑھے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے مگر اس میں بھی ایک بات یہ ذہن نشین رہے کہ اگر تاخیر سے نماز پڑھنے پر سستی لاحق ہو اور نماز چھوٹنے کا خدشہ رہے تو اول وقت میں ہی عشاء ادا کرلیا کریں تاکہ نشیط ہوکر ہمیشہ فریضہ ادا کیا کریں اور کبھی کوئی نماز نہ ضائع ہو۔

اور جہاں تک عشاء کا وقت داخل ہونے کے بعد حیض آنے کا مسئلہ ہے تو اس نماز کو حیض سے پاکی

 پر ادا کرنا ہے کیونکہ نماز کا وقت داخل ہوگیا تھا اور آپ نے نماز کا وقت پالیا تھا۔

سوال: پڑوس میں ایسے لوگ رہتے ہیں جن کے بچوں کے پیر میں کالا دھاگہ بندھا رہتا ہے تو کیا اگر وہ ہمیں کچھ دیں تو کھا سکتے ہیں یا ہم انہیں کچھ دے سکتے ہیں کھانے کے لیے؟

جواب: پیروں میں شفا کی نیت سے دھاگہ باندھنا شرکیہ عمل ہے اور یہ شرک اصغر ہے۔ اگر اس عمل کو بذات خود نفع بخش مانے پھر یہ شرک اکبر کہلائے گا۔

اس جگہ آپ کا دینی فریضہ ہے کہ بچے کے ذمہ داروں کو اس بارے میں بتائیں اور اس شرکیہ عمل سے روکیں۔ وہ لوگ آپ کی بات مانیں یا نہ مانیں لیکن اپنا فریضہ ضرور ادا کریں تاکہ آپ عند اللہ بری الذمہ ہوجائیں۔

باقی عام کھانے پینے کی اشیاء لینے اور دینے میں حرج نہیں ہے بلکہ ایک غیر مسلم پڑوسی کو بھی دے سکتے ہیں اور اس کا حلال کھانا قبول کرسکتے ہیں۔ ایک بات ذہن میں رہے کہ کسی بدعتی اور کفریہ نسبت کا کھانا ہرگز قبول نہ کریں جیسے عرس و فاتحہ اور غیر اللہ کی نذر ونیاز وغیرہ۔

سوال: کیا کوئی فریزنگ جہنم بھی ہے اور کن الفاظ سے اس جہنم سے پناہ مانگیں گے؟

جواب: فریزنگ نامی کوئی جہنم نہیں ہے، کہیں اس سے اشارہ اس طرف تو نہیں کہ کفار و ملحدین میت کو ایک مخصوص فریجر باکس میں کچھ سالوں کے لئے رکھ کر اسے دوبارہ زندہ کرنے کا خیالی تجربہ کر رہے ہیں۔ یہ ایک خیالی پلاؤ ہے جو کبھی پکنے والا نہیں ہے۔

دوسری بات یہ ہےکہ یہ بات صحیح ہے کہ  جہنم میں بھی  انتہائی شدید ٹھنڈا طبقہ موجود ہےجس کے ذریعہ جہنمیوں کو ٹھنڈی کا عذاب دیا جائے گا ۔ صحیحین سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں انتہائی گرمی اور انتہائی سردی جہنم کے سانس لینے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں:

فَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الْحَرِّ، وَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الزَّمْهَرِيرِ(صحیح بخاری:3260، صحیح مسلم :617)یعنی تم (دنیا میں) انتہائی گرمی اور انتہائی سردی جو ان موسموں میں دیکھتے ہو، اس کا یہی سبب ہے یعنی جہنم کے سانس لینے کے سبب۔

یہاں زمھریر سے مراد انتہائی سخت سردی ہے جو جہنم میں موجود ہے اسی وجہ سے جہنم کے اس طبقہ کو "طبقہ زمھریریہ" کہا جاتا ہے۔ اس سے اللہ کی عظیم قدرت کا اندازہ ہوتا ہے کہ ایک ہی جگہ جہنمیوں کے لئے گرمی کا بھی عذاب ہے اور سخت سردی کا عذاب بھی ہے۔ اللہ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔

جہنم کے اس سرد طبقہ سے پناہ مانگنے سے متعلق ابن السنی نے عمل الیوم واللیلۃمیں ایک دعا نقل کی ۔" اللَّهمَّ أجرني من زمهريرِ جَهنَّمَ" (اے اللہ مجھے جہنم کے زمھریر سے حفاظت فرما) مگر اس دعا کو شیخ البانی نے منکر کہا ہے۔(سلسلہ ضعیفہ:6428) تاہم معنی درست ہے تو یہ دعا بھی کرسکتے ہیں۔

یہاں اہم سوال یہ نہیں ہے کہ ہم جہنم کے سرد طبقہ سے کیسے پناہ مانگیں بلکہ اہم یہ ہے کہ ہم مکمل جہنم سے اللہ کی پناہ طلب کریں اور اس میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ایک مومن کو عمر بھرایمان اور عمل صالح کے راستے پر چلتے رہنا چاہیے کیونکہ یہی دونوں چیزیں اصل میں جہنم سے بچانے والی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں جہنم سے پناہ مانگنے والی متعدد دعائیں موجود ہیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔

(1)رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ(آل عمران:16)

ترجمہ: اے ہمارے رب! ہم یقینا ایمان لے آئے ہیں سو ہمارے گناہ معاف فرما دے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے.

(2)رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ ۖ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا (الفرقان:65)

ترجمہ: اے ہمارے رب! تو ہم سے دوزخ کا عذاب ہٹالے، بیشک اس کا عذاب بڑا مہلک (اور دائمی) ہے.

(3)اللَّهُمَّ إنِّي أعُوذُ بكَ مِن فِتْنَةِ النَّارِ ومِنْ عَذَابِ النَّارِ، وأَعُوذُ بكَ مِن فِتْنَةِ القَبْرِ، وأَعُوذُ بكَ مِن عَذَابِ القَبْرِ، وأَعُوذُ بكَ مِن فِتْنَةِ الغِنَى، وأَعُوذُ بكَ مِن فِتْنَةِ الفَقْرِ، وأَعُوذُ بكَ مِن فِتْنَةِ المَسِيحِ الدَّجَّالِ (صحيح البخاري:6376)

ترجمہ: اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں دوزخ کی آزمائش سے، دوزخ کے عذاب سے اور تیری

پناہ مانگتا ہوں قبر کی آزمائش سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں مالداری کی آزمائش سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں مسیح دجال کی آزمائش سے۔

(4)انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو اللہ تعالیٰ سے تین بار جنت مانگتا ہے تو جنت کہتی ہے: اے اللہ! اسے جنت میں داخل کر دے، اور جو تین مرتبہ جہنم سے پناہ مانگتا ہے تو جہنم کہتی ہے: اے اللہ اس کو جہنم سے نجات دے۔(سنن الترمذی:2572)
اس حدیث کی روشنی میں آدمی اس طرح اللہ سے دعا کر سکتا ہے۔(اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَأَسْتَجِيْرُ بِكَ مِنَ النَّارِ)

(5)ایک صحابی سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے پوچھا:تم نماز میں کون سی دعا پڑھتے ہو؟ اس نے کہا: میں تشہد پڑھتا ہوں اور کہتا ہوں:

اللهم إني أسألك الجنة وأعوذ بك من النار(ابوداؤد:792)

ترجمہ: اے اللہ! میں تجھ سے جنت کا طالب ہوں اور جہنم سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔