Monday, April 28, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات (46)

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات (46)

 جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ- سعودی عرب


سوال: شادی کے بعد معلوم ہوا کہ لڑکا نمازو روزہ کچھ بھی نہیں کرتا نیز سائنسی اصول تخلیق پر یقین کرتا ہے یعنی وہ اللہ کے وجود کا انکاری ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کوئی پاور ہے۔ شروع میں نماز و روزہ دکھاوے کے لئے کرتا رہا۔ چار سال شادی کو ہوگئے ہیں اور اب ایک بچہ بھی ہے۔ کیا اس کے ساتھ رہنا درست ہے؟

جواب: وہ عورت جو کسی ایسے شخص کے نکاح میں ہو جو اللہ کے وجود کا انکار کرنے والا ہو وہ عورت اپنے اس معاملہ کو بہت زیادہ اہم سمجھے اور بلاتاخیر کتاب وسنت کے عالم سے اس معاملہ میں مدد حاصل کرے اور اس آدمی کے ساتھ بات کرائے۔ اگر یہ آدمی اپنے کفر سے توبہ کرکے اپنی اصلاح کرلیتا ہے اور نماز کی پابندی کرنے لگ جاتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ بیوی اس سے جدائی حاصل کرلے کیونکہ اللہ کا انکار کرنے والا ملحد و کافر ہے، ایک مسلمان عورت کا کافر کے ساتھ رہنا جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:

وَمَن يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا (النساء:136)

ترجمہ:جو شخص اللہ تعالیٰ سے اور اس کے فرشتوں سے اور اس کی کتابوں سے اور اس کے رسولوں

 سے اور قیامت کے دن سے کفر کرے وہ تو بہت بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑا۔

سوال: ایک خاتون کا سوال ہے کہ جب وہ نماز کے لئے وضو کرتی ہے تو اس وقت اس کا بچہ رونے لگتا ہے پھر وہ بچے کو دودھ پلانے لگتی ہے اور نماز بعد میں پڑھتی ہے۔ کیا یہ عمل اس حدیث کے زمرے میں آئے گا کہ اگر سامنے کھانا حاضر ہو تو پہلے کھانا کھانا ہے، یا ان کا یہ عمل درست نہیں ہے ، یہ گناہ کا باعث ہے؟

جواب: عورت کے لئے مسجد جانا یا جماعت سے نماز پڑھنا فرض نہیں ہے، وہ اپنی سہولت کے حساب سے نماز کو اول و آخر وقت کے درمیان کبھی بھی اپنے گھر ادا کرسکتی ہے تاہم اول وقت پر نماز ادا کرنا افضل ہے۔ جب عورت نماز کے لئے وضو کرے اور اس کا بچہ بھوک سے رونے لگے تو اس وقت ماں کو چاہئے کہ بچے کو دودھ پلائے کیونکہ بچے کو ماں کی ضرورت ہے۔ اس عمل میں کوئی حرج یا گناہ نہیں ہے یعنی وضو کرکے نماز پڑھنے کی بجائے بچے کو دودھ پلانا بالکل درست ہے۔ نماز کے وقت بچے کی ضرورت کا خیال کرنا جائز و درست ہے، نبی ﷺ مسجد کی جماعت کو بچے کے رونے کی وجہ سے ہلکی کردیتے تھے جیساکہ بخاری میں ہے، نبی ﷺ فرماتے ہیں:

إِنِّي لَأَقُومُ فِي الصَّلَاةِ أُرِيدُ أَنْ أُطَوِّلَ فِيهَا، فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلَاتِي كَرَاهِيَةَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمِّهِ(صحیح البخاری:707)

ترجمہ: میں نماز دیر تک پڑھنے کے ارادہ سے کھڑا ہوتا ہوں لیکن کسی بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز کو ہلکی کر دیتا ہوں کیونکہ اس کی ماں کو (جو نماز میں شریک ہوگی) تکلیف میں ڈالنا برا سمجھتا ہوں۔

اور سوال میں جس حدیث کا ذکر ہے، وہ بخاری میں اس طرح سے ہے، نبی ﷺ فرماتے ہیں: جب شام کا کھانا حاضر کیا جائے تو مغرب کی نماز سے پہلے کھانا کھالو اور کھانے میں بے مزہ بھی نہ ہونا چاہئے اور اپنا کھانا چھوڑ کر نماز میں جلدی مت کرو۔(صحیح البخاری:672)

یہ حدیث اس عورت پر صادق نہیں آتی ہے کیونکہ مذکورہ بالا صورتحال میں عورت کو کھانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ بچے کو خوراک کی ضرورت ہے اور عورت بچے کی ضرورت کا خیال کر رہی ہےجس میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال: ایک عورت کو چار بیٹے ہیں اور چاروں چھوٹے ہیں، اس کو پانچواں ابھی حمل ہوا ہے۔ چوتھا بیٹاچار ماہ کا ہے۔ وہ صحت کے اعتبار سے بہت زیادہ کمزور ہوگئی ہے اور اس وقت بھی حالت ایسی ہے کہ وزن بہت زیادہ گرتا جارہا ہے۔ ایسے میں اس کا کہنا ہے کہ میں چار کی پرورش صحیح سے نہیں کرپا رہی ہوں اور اس وجہ سے شوہر سے ناچاقی بہت رہتی ہے، لڑائی جھگڑے رہتے ہیں۔ ابھی پانچ ہفتے کا حمل ہے۔ وہ پوچھتی ہےکہ میں حمل ضائع کرسکتی ہوں کیونکہ میں صحت کے اعتبار سے بھی صحیح نہیں ہوں اور میں پرورش بھی صحیح سے نہیں کرپا رہی ہوں؟

جواب: سوال میں جو صورت مذکور ہے کہ ایک عورت کو چار چھوٹے بچے ہیں، ایک بچہ چار ماہ کا ہے ، عورت کمزور ہے، اچھی طرح پرورش نہیں کرپاتی ہے اور شوہر سے بھی ناچاقی رہتی ہے۔ یہ ساری باتیں ایک عورت کو حمل ٹھہرنے سے پہلے ذہن میں رکھنا چاہئے تھا اور جماع سے دوری اختیار کرنا تھا یا پھر مانع حمل تدبیر اختیار کرنا تھا۔ اس وقت حمل ٹھہر گیا ہے۔ حمل ایک نفس اور ایک جان ہے۔ اس کو ساقط کرنا بچے کا قتل کہلائے گا خواہ پانچ ہفتے کا حمل ہو یا زیادہ کا، اس سے فرق نہیں پڑتا ہے۔ حمل تو حمل ہے یعنی ایک نفس اور ایک جان ہے۔ اور سوال میں جو وجوہات بیان کئے گئے ہیں ان کی وجہ سے حمل ساقط نہیں کیا جائے گا۔ اس عورت کو اللہ سے ڈرنا چاہئے اور حمل ساقط کرنے سے بچنا چاہئے۔ وہ اپنے رب پر بھروسہ کرے، حمل کی حفاظت کرے اور اپنے تمام بچوں سمیت خود کے لئے اللہ سے صحت وسلامتی کے واسطےدعا کرتی رہے۔ وہی سب کا خالق ، مالک اور مربی ہے ، وہ  سب کا انتظام سنبھالنے والا ہے، اس کے فیصلے پر راضی ہونا تقدیر کا حصہ ہے۔ جس طرح اللہ تعالی  اس عورت کو، اس کے شوہر کو اور اس کے  چاروں بچوں کو روزی دے رہا ہے اسی طرح وہ پانچویں بچے کو بھی روزی دے گا، اس کی حفاظت کرے گا اور اس کی تربیت کا انتظام کرے گا۔

سوال: اگر کسی کی نماز سستی کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے جھوٹ گئی ہو تو کیا اس کی قضا ہوگی؟

جواب: کوئی آدمی نماز جان بوجھ کر چھوڑے یا عذر کی وجہ سے چھوٹ جائے، ان دونوں صورتوں میں اس کی قضا کرنا ضروری ہے۔ ساتھ ہی جان بوجھ کر وقت پر نماز نہ ادا کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی سے توبہ بھی کرے کیونکہ جانتے بوجھتے بغیر کسی عذر کے وقت پر نماز نہ ادا کرنا کفر و معصیت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

لا تتركِ الصَّلاةَ مُتعمِّدًا ، فإنَّهُ مَن تركَ الصَّلاةَ مُتعمِّدًا فقد برِئتْ منهُ ذِمَّةُ اللهِ ورسولِهِ(صحيح الترغيب.:573)

ترجمہ: جان بوجھ کر نماز مت چھوڑو کیونکہ جو جان بوجھ کر نماز چھوڑتاہے، اللہ اور اس کے رسول اس سے بری ہیں۔

سوال: ((ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ جو شخص پانچ راتوں میں عبادت کے لیے جاگے اس کے واسطے جنت واجب ہو جاوے گی۔ لیلۃ الترویہ( آٹھ ذی الحجہ کی رات)، لیلۃ العرفہ (نو ذی الحجہ کی رات)، لیلۃ النحر (دس ذی الحجہ کی رات) اور عید الفطر کی رات اور شب برات یعنی پندرہ شعبان کی رات۔ فقہاء نے بھی عیدین کی رات میں جاگنا مستحب لکھا ہے۔ ما ثبت بالسنہ میں امام شافعی صاحب سے نقل کیا ہے کہ پانچ راتیں دعا کی قبولیت کی ہیں۔ جمعہ کی رات، عیدین کی راتیں، غرہ رجب کی رات اور نصف شعبان کی رات۔)) یہ کسی نے ہمیں فضائل اعمال سے نقل کرکے بھیجا ہے، کیا اس کی کوئی حقیقت ہے۔؟

جواب:پانچ راتوں کی مخصوص عبادت سےیا پانچ راتوں میں دعا کی قبولیت سے  متعلق کوئی حدیث صحیح نہیں ہے۔ پانچ راتوں میں عبادت کی فضیلت متعلق  سوال میں جو حدیث بیان کی گئی ہے، وہ ضعیف و موضوع ہے ۔ اس حدیث کو منذری نے ترغیب وترھیب(2/98) میں اور ابن عساکر نے تاریخ دمشق(43/93) میں بیان کیا ہے۔ اور شیخ البانی نے ضعیف الترغیب میں اسے موضوع قرار دیا ہے۔ دیکھیں: من أحيا اللياليَ الخمسَ؛ وجبت له الجنَّةُ : ليلةَ التَّرويةِ، وليلةَ عرفةَ، وليلةَ النَّحرِ، وليلةَ الفِطرِ، وليلةَ النِّصفِ من شعبانَ(ضعيف الترغيب:667)

ترجمہ: جس نے پانچ راتوں میں شب بیداری کی اس کے لئے جنت واجب ہوگئی ، وہ پانچ راتیں، ترویہ کی رات، عرفہ کی رات، قربانی کی رات، عیدالفطر کی رات اور پندرہویں شعبان کی رات ہیں۔

 چونکہ یہ موضوع روایت ہے اس وجہ سے اس سے دلیل نہیں پکڑی جائے گی اور کسی کے لئے ایسی

بات کہنا جائز نہیں ہے کہ پانچ راتوں میں شب بیداری کرنے سے جنت واجب ہوجاتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم ان راتوں میں عبادت یا دعا  نہیں کرسکتے ہیں، آپ تمام راتوں میں عبادت کرسکتے ہیں لیکن عبادت ، دعا، ذکر وغیرہ کے لیے ان راتوں کو خاص کرنا اور فضیلت بیان کرنا غلط ہے۔

سوال: گھر میں داخل ہوتے وقت سورہ اخلاص پڑھنے سے روزی میں کشادگی ہوتی ہے کیا یہ بات صحیح ہے؟

جواب: کچھ احادیث میں گھر میں داخل ہونے کے وقت سورہ اخلاص پڑھنے اور زرق میں کشادگی کا ذکر ملتا ہے ۔ اس سے متعلق دو روایات ملتی ہیں۔

(1)عن سهل بن سعد الساعديّ قال: شكا رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الفقر وضيق المعيشة، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا دخلتَ البيت فسلِّمْ إن كان فيه أحد، وإن لم يكن فيه أحد فسلم عليّ، واقرأ: قُلْ هُوَ الله أَحَدٌ مرة واحدة ـ ففعل الرجل فأدرّ الله عليه الرزق، حتى أفاض على جيرانه ـ (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی 22/566)

ترجمہ : سہل بن سعد ساعدی سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سے فقر و فاقہ کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: جب گھر میں داخل ہو اور گھر میں کوئی ہو تو سلام کرو، اور اگر گھر میں کوئی نہ ہو تو مجھ پر سلام بھیجو اور ایک مرتبہ قل ھو اللہ احد پڑھو ، پس اس آدمی نے ایسا ہی کیا تو اللہ تعالی نے اس کے رزق میں زیادتی پیدا کردی یہاں تک کہ ان کے پڑوسی تک کو شامل کردیا۔

دوسری روایت میں "فسلم علی" کی جگہ "فسلم علی نفسک"( اپنے اوپر سلام کرو) آیا ہے ۔

٭ یہ حدیث دواوین السنہ سے خالی ہے ۔ البتہ یہی حدیث مندرجہ ذیل سند سے مروی ہے جس کو ثعلبی نے اپنی تفسیر الکشف والبیان میں ذکر کیا ہے ۔

وأخبرنا أبو عمر وأحمد بن أبي الفراتي، قال حدثنا عبد الله بن جامع الحلواني، قال حدثنا محمد بن العباس، قال حدثنا عمر بن سعد العطار الفلزمي، قال حدثنا ابن أبي ذئب، قال حدثنا محمد بن غيلان عن أبي حازم عن سهل بن سعد قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم۔

اس کے بعض رواۃ مجہول ہونے کے ساتھ ایک راوی عبداللہ بن محمد بن یعقوب احادیث گھڑنے میں مشہور ہے ۔

اس لئے یہ روایت اس سند سے سخت ضعیف ہے ۔

(2)عن جرير بن عبد الله قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قرأ: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ حين يدخل منزله، نفت الفقر عن أهل ذلك المنزل والجيران.(مجمع الزوائد)
ترجمہ : جریر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے گھر میں داخل ہوتے وقت قل ھواللہ احد پڑھا تو اس کے گھر والے اور اس کے پڑوسی کے یہاں سے فقر مٹ جاتا ہے ۔

٭ اس کی سند ضعیف ہے ۔(تفسیر القرآن 8/545)

٭ اس کی سند میں متروک راوی مروان بن سالم غفاری ہے ۔(مجمع الزوائد 10/131)

یہ روایت بھی ضعیف ہے اس سے بھی استدلال نہیں کیا جائے گا۔ گویا گھر میں داخل ہوتے وقت سورہ اخلاص پڑھنے کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔

سوال: ((بہترین ساتھی کی دعا:اللهم إني أعوذ بك من زوج ظالم أو شريك في الحياة الدنيا وأسألك خير الأزواج وخير الأصحاب في الحياة الدنيا والآخرة.ترجمہ: اے اللہ میں دنیا کی زندگی میں ظالم شوہر یا برے ساتھی سے تیری پناہ مانگتی ہوں اور میں تجھ سے دنیا و آخرت میں بہترین شوہر اور بہترین ساتھی کا سوال کرتی ہوں))۔کیا یہ دعا حدیث سے ثابت ہے؟

جواب:یہ حدیث کی دعا نہیں ہے، کسی کی بنائی ہوئی دعا ہے۔ اس طرح کی چیزوں کو دوسروں میں شیئر نہ کریں ، عام لوگ اسے حدیث سمجھنے لگیں گے اور حدیث سمجھ کر پڑھنا شروع کردیں گے۔

سوال: تین رکعت وتر کا طریقہ بتادیں اور تین رکعت وتر نماز میں تیسری رکعت کس طرح ادا کی جائے گی؟

 جواب: وتر کی تین رکعت نماز ادا کرنے کے دو طریقے ہیں ۔

پہلا طریقہ : تین رکعت ایک تشہد سے پڑھے ۔

اس کی دلیل، نبی ﷺ فرماتے ہیں :الوِترُ حقٌّ ، فمن أحبَّ أنْ يوترَ بخَمسِ ركعاتٍ ، فليفعلْ ، ومن أحبَّ أنْ يوترَ بثلاثٍ ، فليفعلْ ومن أحبَّ أنْ يوترَ بواحدةٍ ، فليفعلْ .(صحيح النسائي:1711)

ترجمہ: وتر ہر مسلمان پر حق ہے پس جسکی مرضی ہو پانچ وتر پڑھے اور جس کی مرضی ہو تین وتر پڑھے اور جس کی مرضی ہو ایک وتر پڑھے۔

مسلسل تین رکعت ادا کرے یعنی دو رکعت پہ تشہد کے لئے نہ بیٹھے ۔ دلیل : لا توتِروا بثلاثٍ ولا تُشبِّهوا الوِترَ بثلاثٍ(عون المعبود)

ترجمہ: تین رکعت وتر نہ پڑھو اوروترکو(مغرب کی) تین رکعت سے مشابہت نہ کرو ۔

اس حدیث کو صاحب عون المعبود نے شیخین کی شرط پہ بتلایا ہے ۔ (4/176 )

مغرب کی مشابہت سے دو طریقوں سے بچا جاسکتا ہے ، ایک یہ کہ تین رکعت اکٹھی پڑھی جائیں،بیچ میں تشہد نہ کیا جائے دوسرا طریقہ  یہ ہے کہ دو رکعت الگ پڑھ کر سلام پھیر دیا جائے ، پھر ایک رکعت الگ پڑھی جائے ۔ اس کی دلیل نیچے ذکر کی جارہی ہے ۔

تین وتر پڑھنے کا دوسرا طریقہ :دو رکعت ایک سلام سے پڑھ کر پھر ایک سلام سے ایک رکعت پڑھی جائے ۔ دلیل :

كان يُوتِرُ بركعةٍ ، و كان يتكلَّمُ بين الرَّكعتَيْن والرَّكعةِ(السلسلة الصحيحة:2962)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت وتر پڑھتے (آخری ) دو رکعتوں اور ایک رکعت کے درمیان (سلام پھیر کر ) بات چیت بھی کرتے۔( ماخوذ: رمضان المبارک کے فضائل و مسائل از مقبول احمد سلفی )

سوال:  اپنا میٹھا بیچنے کے لیے ہر دن ایک ہوٹل والے کو دیتی ہوں، ہر دن وہ میٹھا بکتا ہے، ہوٹل والا پیسے بھی دیتا ہے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ آٹھ دن ہو گیا میٹھا نہیں بکا، اب ہوٹل والا کہتا ہے کہ آپ کا میٹھا نہیں بکا ہے، خراب ہو گیا ہے پیسہ نہیں ملے گا۔ میں کہتی ہوں کہ ہوٹل والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیل کرے گا تو میٹھا دینے والا کا نقصان کیوں ہوگا، اس میں کیا صحیح ہے اورکیا اس طرح تجارت صحیح ہے؟

جواب: کوئی بھی تجارت اس بات پر مبنی ہوتی ہے کہ اس کے شروع میں کس بات پر اتفاق ہوا ہے۔ پوچھے گئے مسئلہ میں بھی تجارت شروع کرتے وقت طرفین میں جس بات پر اتفاق ہوا ہے اس کا اعتبار ہوگا۔ اس مسئلہ میں آپس میں تنازع ہورہا ہے تو دونوں طرف کے لوگ مل بیٹھ کر اس میں فیصل بلاکر ان کے ذریعہ معاملہ حل کریں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: المسلمون على شروطهم (ارواء العليل: 1303)یعنی مسلمان اپنی شرطوں اور اتفاق پر قائم رہتے ہیں۔

سوال: کیا دو کاموں کا ایک ساتھ استخارہ کرسکتے ہیں؟

جواب: ایک یا ایک سے زیادہ کاموں کے لیے ایک مرتبہ استخارہ کی نماز ادا کرسکتے ہیں۔ بنیادی طور پر اپنے معاملہ میں استخارہ اللہ سے مدد اور توفیق طلب کرنے کا نام ہے اس وجہ سے استخارہ کی نماز پڑھتے ہوئے متعدد کاموں میں اللہ سے مدد اور اس کی توفیق طلب کرسکتے ہیں، اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ استخارہ کی نماز ادا کرلیں اور اس کے بعد جتنے کاموں کے بارے میں اللہ سے مدد طلب کرنا چاہتے ہیں ان سارے کاموں کو اللہ کے سامنے بیان کرکے اس سے مدد مانگیں۔

سوال: اگر عورت میت کو نیل پالش لگی ہو یا ناخون بڑھے ہوئے ہوں تو کترنا چاہئے اور اگر بال بہت لمبے گھنے ہوں، چوٹی بنانے میں مشکل ہو تو کنگھی کرسکتے ہیں اور ناخون کا میل نکالنے کے لئے کوڑی کا استعمال صحیح ہے؟

جواب: میت کے ناخن بڑے ہوں تو بعض اہل علم اسے کاٹنے کے قائل ہیں جبکہ بعض کاٹنے سے

منع بھی کرتے ہیں۔ اگر ناخن کاٹ دیتے ہیں تو بھی کوئی حرج نہیں اور چھوڑ دیتے ہیں تب بھی کوئی حرج نہیں لیکن نیل پالش کو کھرچنا چاہیے کیونکہ میت کو وضو و غسل دیا جاتا ہے، جب نیل پالش لگی ہوگی تو پانی جلد تک نہیں پہنچے گا اس لئے پالش کھرچ دی جائے۔

اس کے علاوہ بالوں میں کنگھی کرنا یا ناخن سے میل نکالنا ان سب  باتوں کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سب تکلفات میں ہیں بلکہ اس طرح کا عمل شروع کیا گیا تو پھر لوگ بعد میں میت کو سجانے سنوارنے لگیں گے۔ تیل ، سرمہ اور میک اپ لگانے لگیں گے اس لیے تکلفات سے بچتے ہوئے میت عورت ہو تو بال کی تین لٹیں یعنی تین چوٹیاں بنا دی جائیں، بس اتنا کافی ہے۔

سوال: رائمہ نام کا کیا مطلب ہے اور کیا یہ عربی نام ہے؟

جواب: یہ عربی لفظ ہے اور اس کا معنی ہے اپنے بچے سے محبت کرنے والی اور قصد و ارادہ کرنے والی کے معنی میں بھی ہے۔

سوال: کیا سورہ فاتحہ کی تلاوت کے دوران بعض آیات کو ایک سے زیادہ مرتبہ دہرا سکتے ہیں، کسی رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا بھول گئے تو کیا حکم ہے، اگر غلطی سے پہلے ضمہ سورہ پڑھ لیں تو کیا اسکے بعد یاد آنے پر سورہ فاتحہ پڑھ سکتے ہیں اور کسی رکعت میں سورہ فاتحہ کے متعلق شک ہوگیا کہ پڑھے تھے یا نہیں تو کیا کریں؟

جواب: سورہ فاتحہ یا دوسری سورت کی تلاوت کے وقت کسی آیت کو نصیحت کے لئے ایک سے زائد مرتبہ دہرانے میں حرج نہیں ہے۔اگر کسی رکعت میں سورہ فاتحہ بھول گئے تو اس رکعت کو دہرانی ہوگی کیونکہ سورہ فاتحہ پڑھنا نماز کا رکن ہے۔اگر سورہ فاتحہ سے پہلے دوسری سورت پڑھ لیں تو یاد آنے پر پھر سے سورہ فاتحہ پڑھیں، اس کے بعد دوسری سورت پڑھیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور اگر کسی رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنے یا نہ پڑھنے میں نماز کے دوران ہی شک ہوجائے  تو اس کی جگہ ایک رکعت ادا کی جائے گی اور شک والی رکعت شمار نہیں کی  جائے گی ۔

سوال: سوشل میڈیا پر انسٹاگرام اور واٹس ایپ وغیرہ پر یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ دینی پوسٹ یا کسی تحریر میں کوئی بہن کسی بھائی کو مینشن کر دیتی ہے یا ٹیک کر دیتی ہے یا کوئی بھائی کسی بہن کو منشن کر دیتا ہے ، کیا ایسا کرنا صحیح طریقہ ہے؟

جواب: سوشل میڈیا کا استعمال خواتین کو احتیاط سے کرنا چاہیے یہاں پر فتنے بہت زیادہ ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ کوئی خاتون سوشل میڈیا پر ایرے غیرے لڑکوں کو فالو نہ کرے البتہ علمی استفادہ کے ارادے سے مستند علماء کو فالو کیا جا سکتا ہے پھر سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹ شیئر کرکے لڑکیوں کا لڑکوں کو مینشن کرنا یا ٹیگ کرنا قطعاً مناسب نہیں ہے، فقط اپنی پوسٹ وال پہ شیئر کرنا چاہیے۔ اسی طرح لڑکوں کے لیے بھی مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنی پوسٹ پر لڑکیوں کو مینشن کرے۔

سوال: شوہر اگر صاف لفظوں میں طلاق نہ بولے اور کوئی دوسرے لفظ بولے جیسے میرا اور تمہارا راستہ ختم، تو کیا یہ طلاق میں شمار ہوگا اور اگر شوہر کو اس کا علم نہ ہو کہ کس کس طرح سے طلاق ہوجاتی ہے اور ایسی بات لا علمی میں بولے تب بھی طلاق شمار ہوگی یا لا علمی کی وجہ سے طلاق نہیں ہوگی اور پھر وہ معافی مانگ لے اور رجوع کر لے تو وہ طلاق فاسد ہو جائیگی یا ہمیشہ کے لیے ایک طلاق شمار کی  جائیگی؟

جواب: اگر کوئی اپنی بیوی کو صریح لفظ کے ساتھ طلاق نہیں دیتا بلکہ اشارہ کنایہ والے الفاظ میں کچھ کہتا ہے جس سے جدائی کا معنی نکلتا ہو تو اس جگہ شوہر کی نیت دیکھی جائے گی۔ اگر اس نے طلاق کی نیت سے کہا تو طلاق واقع ہو جائے گی اور اگر طلاق کی نیت سے نہیں کہا ہے تو طلاق نہیں ہوگی۔

دوسری بات یہ ہے کہ صراحت کے ساتھ طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجائے گی اس میں شک و تردد کا کوئی معاملہ ہی نہیں ہے اور اس میں لاعلمی کا بھی کوئی معاملہ نہیں ہے۔ اور کچھ بھی کہہ دینے سے طلاق نہیں ہوتی بلکہ طلاق دینے سے طلاق ہوتی ہے۔

جب شوہر بیوی کو طلاق دے اور وہ پہلی یا دوسری طلاق ہو تو عدت میں اسے رجوع کا اختیار ہوتا ہے۔ جب شوہر ایک طلاق دے کر عدت میں رجوع کر لیتا ہے تو شوہر کے اختیار سے ایک طلاق ختم ہو جاتی ہے، اب اس کے پاس صرف دو طلاق کا اختیار رہتا ہے۔

سوال: جیساکہ آپ نے اپنے ایک جواب میں بتایا ہے کہ غیر محرم کو بغیر شہوت کے عورت دیکھ سکتی ہے۔ اس کی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث ہے جس میں حبشی لوگ ہتھیاروں سے کرتب کر رہے تھے تو انہیں عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ دیکھ رہی تھیں جبکہ دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت ام سلمہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیٹھی ہوئی تھیں کہ حضرت ام مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ تشریف لائے حالانکہ وہ نابینا تھے لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین کو ان سے پردہ کرنے کا حکم دیا، ان دونوں نے کہا کہ اللہ کے رسول وہ تو نابینا  ہیں ، اس پر اللہ کے رسول نے فرمایا تم تو نابینا نہیں ہو۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا کہ غیر محرم کو ارادتا نہیں دیکھنا، اگر غیرارادتا نظر پڑ جائے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، برائے مہربانی اس کی وضاحت فرمادیں؟

جواب:اس بارے میں صحیح مسئلہ یہی ہے کہ عورت ضرورت کے وقت مرد کو دیکھ سکتی ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے البتہ شہوت کی نظر سے دیکھنا ممنوع ہوگا اور اسی طرح بلاضرورت دیکھنے سے پرہیز کیا جائے گا۔ جس حدیث میں اندھے سے پردہ کرنے کو کہا گیا ہے وہ ضعیف حدیث ہے، شیخ ابن باز نے اسے ضعیف کہا ہے۔( حوالہ کے لئے دیکھیں، مجموع فتاوى ابن باز: 26/227 )۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے ایک صحابیہ کو اندھے کے یہاں عدت گذارنے کا حکم دیا کیونکہ وہ نہیں دیکھ سکے گا اور عورت وہاں پر اپنا کپڑا بھی اتارسکے گی چنانچہ عمران بن ابی انس نے ابوسلمہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کے مخزومی شوہرنے انہیں طلاق دے دی اور ان پر خرچ کرنے سے بھی انکار کردیاتو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ کو اس بات کی خبر دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے لیے خرچ نہیں ہے۔ (وہاں سے) منتقل ہو کر ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے ہاں چلی جاؤ اور وہیں رہو، وہ نابینا آدمی ہیں، تم وہاں اپنے (اوڑھنے کے) کپڑے بھی اتار سکو گی۔(صحیح مسلم:1480)

سوال: لوگ کہتے ہیں کہ ناخن پانی یا کسی کھانے کی چیز میں ڈوب جائے تو وہ پانی یا کھانا مکروہ ہوجاتا ہے، کیا یہ شریعت کے اعتبار سے صحیح ہے؟

جواب: شریعت میں ایسی کوئی دلیل موجود نہیں ہے جس کی بنیاد پر یہ بات کہی جائے گی کہ کھانے

یا پینے میں ناخن ڈوب جائے تو کھانا اور پانی مکروہ ہو جاتا ہے بلکہ صحیح حدیثوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کھانے یا پینے میں ہاتھ یا منہ لگنے پر اور جھوٹا ہوجانے بھی ماکولات و مشروبات پاک ہی رہتے ہیں۔ کوئی دوسرا بھی اس کھانے کو کھاسکتا ہے۔

سوال: کینڈامیں  سردیوں کا موسم بہت سخت ہو جاتا ہے اس لئے وہاں پر شدید برف باری ہو یا طوفان کی آمد ہو تو دو نمازوں کو ملاکر جماعت کی جاتی ہے کیونکہ راستہ بہت خطرناک ہو جاتا ہے۔ آج موسم کو دیکھتے ہوئےمسجد میں اعلان ہوا ہے کہ اگر ایسی صورتحال ہو تو عشاء کی جماعت کے تھوڑی دیر بعد رک کر جو فجر کی پابندی کرتے ہیں ان کی جماعت ہوسکتی ہے۔ کیا شرعی حیثیت سے یہ طریقہ درست ہے؟

جواب: فجر کی نماز کو عشاء کے ساتھ ملاکر نہیں پڑھ سکتے ہیں کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اسی طرح عشاء کی نماز پڑھنے کے کچھ دیر بعد بھی فجر پڑھنا جائز نہیں ہے۔عشاء کا وقت آدھی رات تک ہے اس لئے فجر کی نماز عشاء کے وقت میں پڑھنا ملاکر پڑھنا ہی کہتے ہیں۔ عشاء کے ساتھ فورا فجر پڑھے یا کچھ دیر بعد فجر پڑھے اسے جمع کرکے پڑھنا کہیں گے کیونکہ یہ عشاء کا وقت ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ صرف حالات دیکھ کر دو نمازوں کو جمع نہیں کیا جائے گا بلکہ بارش و طوفان آنے کے بعد دونمازوں کو جمع کیا جائے گا وہ بھی صرف ظہر و عصر اور مغرب و عشاء میں۔ فجر کا معاملہ الگ ہے یعنی اس نماز کو ہمیشہ علاحدہ ادا کیا جائے گا۔ مذکورہ صورت حال میں یہی حکم ہے کہ عشاء کے بعد فجر نہیں پڑھنا ہے، فجر کے وقت جیسے حالات ہوں گے اس پر عمل کیا جائے گا۔اگر فجر کے  وقت  مسجد آسکتے ہیں تو مسجد آکرجماعت سے نماز ادا کی جائے گی  اوراگر  طوفان کی وجہ سےلوگ مسجد نہ آسکیں توہرکوئی اپنے اپنے  گھر میں نماز ادا کرلے گا اس مسئلہ میں شریعت کا یہ معاملہ ہے۔

سوال: ایک بہن عمرے پر جا رہی ہے، اس کو حیض آگیا ہے، کیا میقات سے گزرتے ہوئے عمرے کی نیت کرنی ہوگی حیض کی حالت میں اور بحالت حیض مسجد میں کہاں بیٹھ سکتی ہے؟

جواب: جو عورت عمرہ کے ارادے سے سفر کرے اور وہ میقات پر حیض کی حالت میں ہو، وہ اسی حالت میں عمرہ کی نیت کرے گی اور مکہ میں احرام کی حالت میں باقی رہے گی۔ جب پاک ہوجائے تو اپنی رہائش سے غسل کرکے عمرہ کرنے سے جائے گی۔ حیض والی کے لئے مسجد کے گیٹ کے اندر ٹھہرنا جائز نہیں ہے، مسجد کے گیٹ سے باہر احاطہ اور صحن میں بیٹھ سکتی ہے۔

سوال: ایک خاتون موبائل سے اپنے حافظ قرآن بچے کا سبق سن رہی تھی، اتفاق سے بچہ غلطی کرتا ہے تو خاتون موبائل پھینک کر اپنے بچے کو مارتی ہے۔ کیا اس سے قرآن کی بے حرمتی ہوئی ہے؟

جواب: موبائل میں موجود قرآنی ایپلیکیشن اس مصحف کے حکم میں نہیں ہے جو ہمارے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ یہ محض ایک اپلیکیشن ہے جسے ضرورت کے وقت انسٹال کرتے ہیں اور کبھی ضرورت پڑتی ہے تو اس اپلیکشن کو ڈیلیٹ بھی کر دیتے ہیں، اس سے قرآن کی توہین نہیں ہوتی ہے۔ اس موبائل کو اپنے ساتھ حمام بھی لے کرجاتے ہیں اور اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ اس میں موجود قرآنی اپلیکیشن مصحف کے حکم میں نہیں ہے، اس بنا پر موبائل پھینک کر بچے کو مارنے میں قرآن کی توہین کا کوئی پہلو نہیں ہے۔

سوال: ایک شخص نے چھ مرلہ جگہ کافی سالوں سے مسجد کے لئے وقف کی ہے لیکن مسجد نہیں بن پا رہی ہے تو اب وہ شخص پوچھتا ہے کہ ایک یتیم بچے کو وہ جگہ دے دوں تاکہ وہ اپنا گھر بنالے اور اس کو چھت مل جائے۔ اس بات کا علم نہیں ہے کہ یہ جگہ کتنے سال پہلے وقف کی گئی ہے تو کیا ایسے کیا جاسکتا ہے؟

جواب: جس شخص نے زمین کا کوئی حصہ مسجد کے لئے وقف کر دیا وہ اسی دن اللہ کے لئے وقف ہوگئی۔ اب اس زمین پر وقف کرنے والے کا ذرہ برابر بھی اختیار نہیں ہے، نہ وہ زمین اس کی ملکیت ہے کہ وہ اسے دوسرے کو دیدے۔اس کے بارے میں سماج سے بات کی جائے اور اس کا مسجد کے لیے حل نکالا جائے۔کسی کا ضرورت مند ہونا یا محتاج و مسکین ہونا اپنی جگہ ہے لیکن وقف شدہ زمین کا معاملہ الگ ہے،نہ وہ  کسی سے نہ بیچی جائے گی اور نہ ہی کسی کو دی جائے گی، یہ مسجد کی زمین ہے تو مسجد کے لئے سماج والے فکر کریں۔

سوال:آجکل ملنے والی کون مہندی میں پرت اترتی ہیں ، کچھ دن بعد جب وہ اترنے کے قریب ہوتی۔ کیا ایسی مہندی پر وضو ہو جاتا ہے؟

جواب: آئیکون نامی مہندی میں مسئلہ نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جس مہندی کے لگانے سے ہاتھ پر برت جمتی ہے اس مہندی کو لگانے سے وضو اور غسل نہیں ہوگا لہذا یہ تجربہ کرکے آپ کو اس کا اندازہ لگانا ہے کہ وہ کون سی مہندی ہے جس سے پرت جمتی ہے۔ میرے خیال سے شاید کوئی ایک آدھ مہندی ہوگی، باقی مارکیٹ میں متعدد قسم کی مہندیاں ملتی ہیں جن سے کوئی برت نہیں جمتی ہے اور کیمیکل تو اکثر مہندی میں ہوتا ہے لیکن پرت ہر مہندی میں نہیں جمتی اس لیے مہندی کے لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے، صرف پرت بنانے والی مہندی لگانے سے بچنا چاہیے اور وہ بھی ایسی پرت بنانے والی مہندی جو پانی جذب نہ کرسکے۔

سوال: ایک عورت کے لیے کون سے سسرالی رشتے نا محرم ہیں ، دوسری بات یہ ہے کہ شادی پر لیڈیز کو دلہن کی تصویر اتارنے کی اجازت اس شرط پر دی جائے کہ تصویریں صرف عورتیں ہی دیکھیں گی لیکن وہ دلہن کی تصویریں نامحرم کو بھی دیکھا دیں تو کیا دلہا بھی گناہ گار ہوگا؟

 جواب: سسرالی رشتہ داروں میں عورت کے لئے شوہر کے اصول یعنی اس کا باپ ، دادا اور نانا۔ اور فروع میں شوہر کا بیٹا، پوتا اور نواسہ محرم ہیں جبکہ ان کے علاوہ شوہر کا چچا، مامو، پھوپھا اور خالو غیرمحرم ہیں۔

جاندار کی تصویر کا معاملہ بہت زیادہ نازک ہے، اس کا شمار حرام تصویروں میں ہوتا ہے اور ایسی تصویر کے استعمال پر بڑی وعیدیں آئی ہیں اس لیے شادی کے موقع پرلڑکی کو اپنی تصویر کسی کو دینی ہی نہیں چاہئے ، تصویر اسی لئے لی جاتی ہے کہ پورے خاندان والوں کو دیکھائی جائے خواہ مرد ہو یا عورت اور آج سوشل میڈیا کا زمانہ ہے تو کہیں سے کہیں تصویر وائرل ہوجاتی ہے اس لئے تصویر دینا بالکل درست نہیں ہے۔ جس عورت کو دیکھنا ہو وہ گھر آکر لڑکی دیکھے۔ یہاں پر تصویر کے معاملے میں گناہ ان لوگوں کو ہوگا جنہوں نے تصویر دی یا تصویر دینے پر ابھارا یا کسی کو تصویر دکھائی یا کسی کو تصویر بھیجا اور جس کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں ہے اس کو کوئی گناہ نہیں ہوگا۔

سوال: مساکین بوجھ نہیں بلکہ رزق کا ذریعہ ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ضعفاء اور کمزور لوگوں کو ڈھونڈنے میں میری مدد کرو کیونکہ کمزوروں اور ضعیفوں کی وجہ سے تمہیں رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔ (سنن ابی داؤد: 2594)، کیا یہ حدیث صحیح ہے؟

جواب: یہ حدیث صحیح ہے اس کو شیخ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔

سوال: بیٹی کے لئے جو زیور رکھے ہوتے ہیں، کیا اس کی بھی زکوۃ نکالنی ہوگی۔ اس کی زکوۃ الگ نکالنی ہوگی یا ماں کے زیور میں اس کو بھی جوڑ کر نکالنا ہوگا۔ بچی ابھی پہنتی نہیں ہے اس کے نام پہ بنوا کر رکھا گیا ہے؟

جواب: بچی کے زیور کو ماں یا کسی دوسرے کے زیور سے نہیں ملایا جائے گا، اس کا معاملہ علاحدہ رہے گا۔ اگر بچی کے زیور نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے تو اس میں زکوۃ دینی ہوگی خواہ زیور شادی کے لئے ہو اور خواہ بچی اس زیور کو پہنتی ہو یا رکھا ہوا ہو۔

سوال: ہمارے یہاں اکثر اوقات لوگ اللہ سبحانہ و تعالی کو اللہ میاں کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ کیا اس طرح اللہ میاں کہنا درست ہے؟

جواب: لفظ میاں کا اطلاق کئی معنی پر ہوتا ہے جن میں آقا، مالک، سردار، بزرگ ، والی وغیرہ ہیں ۔ اس کی جانکاری کے لئے اردو لغت دیکھ سکتے ہیں۔میاں کا استعمال جہاں بیوی کے مقابلے میں شوہر کے لئے ہوتا ہے، وہیں احترام کے طور پر بھی اس لفظ کا استعمال ہوتا ہے جیسے میاں جی، میاں صاحب، میاں بھائی۔ ان جگہوں پر احترام کے لیے میاں کا استعمال ہوتا ہے جیسے ہم احتراما کسی کے لئے حضرت جی یا محترم جناب کا استعمال کرتے ہیں بلکہ مخصوص طور پر نام کے ساتھ بھی میاں استعمال ہوتا ہے جیسے خالد میاں، فیصل میاں وغیرہ۔اسی طرح اللہ کے ساتھ میاں کا استعمال ادب و احترام کے لئے ہوتا ہے اس لیے اللہ میاں کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال: بخاری کتاب التعبیر میں پڑھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں حضرت عیسی علیہ

السلام کو کعبہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا اور پھر دجال کو طواف کرتے دیکھا جبکہ دجال تو مکہ اور مدینہ میں داخل نہ ہو سکے گا پھر ایسا کیسے ممکن ہے، انبیاء کا خواب تو سچا ہوتا ہے؟

جواب: اہل علم نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ یہ خواب کا معاملہ ہے اور خواب میں اس طرح دیکھنا کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دجال کے ظاہر ہونے سے پہلے کا یہ معاملہ ہے، جب وہ ظاہر ہوگا تو حرمین شریفین میں داخل نہیں ہو سکے گا۔

سوال: میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ کبھی کبھی ہم نماز میں کھڑے ہوتے ہیں تو ہمیں نبی کا نام سنائی دیتا ہے جیسے کوئی بچہ ہمارے نبی کے بارے میں بات کر رہا ہو یا کوئی بیان چل رہا ہو جس میں ہمارے نبی کا نام آجاتا ہے تو کیا ہم نماز میں درود پڑھ سکتے ہیں یا نماز کے بعد پڑھنا ضروری ہے، جتنی بار ہم نے نام سنا ہے؟

جواب: سب سے پہلی بات یہ ہے کہ خاتون کو نماز پڑھنے کے لئے سکون والی جگہ کا انتخاب کرنا چاہیے جہاں پر شور نہ ہو تاکہ وہ خشوع و خضوع سے عبادت کرسکے یہی وجہ ہے کہ عورتوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر کی اندرونی کوٹھری میں نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ اگر نماز پڑھنے کی جگہ پر باتیں کی جا رہی ہوں یا کوئی ریکارڈ وغیرہ چل رہا ہو تو ان سب کو خاموش کرکے اطمینان سے نماز پڑھنا چاہیے۔

دوسری بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر پر درود پڑھنے کو بعض علماء واجب قرار دیتے ہیں اور بعض علماء مستحب قرار دیتے ہیں تاہم اتنی بات ضرور ہے کہ جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر آئے ہمیں اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا چاہیے۔

تیسری بات یہ ہے کہ جس وقت نبی کا ذکر ہو اسی وقت فورا آپ پر درود پڑھنا ہے، جب فورا درود نہ پڑھا جائے اس میں تاخیر ہو جائے تو اس کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔

اگر کسی کو نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر سنائی دے تو نماز میں اس کا جواب نہیں دینا ہے کیونکہ نماز میں نماز کے علاوہ کسی دوسرے کا جواب نہیں دینا ہے۔ اور نماز کے بعد درود پڑھنے کا موقع و محل فوت ہوجاتا ہے کیونکہ اس میں تاخیر ہوگئی ہوتی ہے۔ نیز ایک نمازی کو اپنی توجہ نماز میں رکھنی چاہیے، نہ کہ اس بات پر توجہ ہوکہ کون کیا بول رہا ہے یا کیا پڑھ رہا ہے، نہ کوئی خارجی چیزنماز میں  شمار کرے اور نہ اس طرف دھیان دے۔

سوال: میرے دادا نے ڈاکومنٹ کے کام کے لیے اپنی ماں کے رشتہ دار کا سرٹیفیکیٹ استعمال کیا تھا اور ہمارا سرنیم کچھ اور تھا لیکن ڈاکومنٹ استعمال کرنے کی وجہ سے اسی کے نام پہ سرنیم ہو گیا، کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟

جواب: اگر کسی مجبوری کے تحت کاغذی کاروائی میں برادری تبدیل ہوگئی تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ آپ کی اصل برادری وہی کہلائی جائے گی جس میں پیدا ہوئے ہیں اور اسلام میں برادری کو کوئی فوقیت یا امتیاز حاصل نہیں ہے۔ یہ فقط تعارف اور پہچان کے لئے ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ بعض لوگ دنیاوی فائدہ حاصل کرنے کے لیے کبھی کبھار اپنی برادری تبدیل کرتے ہیں اس طرح کرنا ایک قسم کا دھوکہ اور فریب ہے خصوصاً حکومت کے ساتھ کیونکہ حکومت کے نظام کے تحت بہت ساری اسکیمیں مختلف قسم کی برادریوں کے لئے ہوتی ہیں مگر کسی  قسم کی کسی  دنیاوی منفعت حاصل کرنے کے لئے اپنی برادری تبدیل کرنا کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے۔

سوال:عورت کے لباس کے لئے  ایسا کون سا کپڑا ہونا چاہیے جو پردے کے تقاضوں کو مکمل طور پر پورا کرے جیسے جھارجٹ، لیلون، مخمل، سلک، سوتی  وغیرہ۔ ان میں سے کون سا کپڑا پردہ کے لحاظ سے زیادہ مناسب ہوگا اگر یہ موٹا اور غیر شفاف ہو؟

جواب: اسلام نے کسی بھی قسم کا کپڑا خاص نہیں کیا ہے اس لئے ایک عورت جو چاہے وہ کپڑا استعمال کرسکتی ہے۔ اسلام نے لباس کے اوصاف متعین کئے ہیں، ان اوصاف کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی بھی قسم کا کپڑا عورت پہن سکتی ہے۔اوصاف میں ایک یہ ہے کہ کپڑا ساتر ہو یعنی مکمل بدن کو ڈھکنے والا ہو اور دبیز قسم کا ہو یعنی ایسا باریک نہ ہو جس سے جسم کی جلد نظر آئے اور اسی طرح لباس تنگ نہ ہو جس سے جسمانی ساخت نمایاں ہو بلکہ ڈھیلا ڈھالا ہو۔ اس کے علاوہ اور بھی صفات ہیں جیسے بھڑکیلا اور جاذب نظر نہ ہو، شہرت والا نہ ہو، فاسق و فاجر کا لباس نہ ہو، مردوں والا نہ ہو۔

سوال: جب ہمیں امام کے ساتھ دو رکعت ملے تو سلام پھیرنے کے بعد کس طرح ادا کریں یعنی ایک رکعت بنا تشہد کے اور ایک رکعت تشہد سے پڑھیں گے یا دونوں رکعت تشہد کے ساتھ پڑھیں گے؟

جواب:سوال سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ چار رکعت والی نماز کا معاملہ ہے، اس کے لئے یہ قاعدہ سمجھ لیں کہ  آدمی جب نماز میں داخل ہوتا ہے اس وقت وہ اس کی پہلی رکعت ہوتی ہے۔ اسی اعتبار سے وہ اپنی نماز مکمل کرے گا یعنی امام کے ساتھ جو مل جائے اسے پڑھنے کے بعد جو کچھ چھوٹا ہے اس کی قضا کرے گا۔

مثال کے طور پہ کسی کو ظہر کی نماز میں امام کے ساتھ دو رکعت ملی تو وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑے ہو کر لگاتار دو رکعت پڑھے گا اور اس کے بعد تشہد پڑھ کر سلام پھیرے گا ۔ امام کے ساتھ جو دو رکعت ملی مقتدی کے لیے پہلی اور دوسری رکعت تھی پھر بعد میں جو پڑھے گا وہ اس کی تیسری اور چوتھی رکعت ہوگی۔

سوال: شعبان سے متعلق ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم شعبان کے روزوں کو رمضان سے ملا لیا کرتے تھے، کیا ہم بھی ایسا کرسکتے ہیں کہ قضا روزہ رکھتے ہوئے ہم سے  شعبان ختم ہو جائے اور رمضان شروع ہوجائے؟

جواب:بخاری (1914) اور مسلم (1082) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"رمضان سے پہلے ایک یا دو دن کے روزے مت رکھو، ہاں وہ شخص رکھ سکتا ہے، جو پہلے سے روزے رکھتا آرہا ہو"۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شعبان میں پہلے سے روزہ رکھتا آرہا ہے وہ آخر شعبان میں بھی روزہ رکھ سکتا ہے خواہ قضا کی نیت سے روزہ رکھ رہا تھا یا نفل کے طور پر۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ خاص کرکے صرف شعبان کے آخر کا روزہ رمضان کے استقبال میں رکھنا منع ہے مگر جس کے ذمہ قضا روزے ہوں وہ شعبان کے آخر میں بھی رکھ سکتا ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ شعبان کا روزہ رکھتے ہوئے رمضان آجائے۔

سوال: جب بچے کی پیدائش پر بال اتارے جاتے ہیں تو کیا اسے رکھنا چاہئے یا مٹی میں دبادینا چاہئے اور کیا بالوں کے عوض کچھ صدقہ بھی کرنا ہے؟

جواب: نومولود کے سر کے بال کا وہی حکم ہے جو عام لوگوں کے بال کا حکم ہے۔ عام لوگ بال کٹاکر کیا کرتے ہیں، کیا حفاظت سے گھر میں رکھتے ہیں۔ نہیں، پھینک دیتے ہیں اس کو بھی اس طرح پھینک دیں گے، دفن کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس میں کوئی خاصیت نہیں ہے تاہم بال کے وزن کے برابر صدقہ دینا چاہئے، یہ مسنون ہے۔

سوال: مدینہ میں بئرغرس کے نام سے ایک کنواں ہے، کہا جاتا ہے کہ نبی ﷺ نے اس سے وفات کے بعد غسل کروانے کی وصیت کی تھی اس وجہ سے لوگ وہاں جاتے ہیں، پانی پیتے ہیں اور ساتھ بھی لے جاتے ہیں ، اس کی کیا حقیقت ہے؟

جواب:بئرغرس کا کئی حدیث میں ذکر آیا ہے مگر مجھے اس کی فضیلت میں کوئی صحیح حدیث نہیں ملی، ابن ماجہ میں علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إذا أنَا مِتُّ، فاغسِلونِي بسَبْعِ قِرَبٍ، مِن بِئْرِي بِئْرِ غَرْسٍ(أخرجه ابن ماجه:1468)

ترجمہ: جب میں انتقال کر جاؤں تو مجھے میرے کنویں (بئر غرس) کے سات مشکیزوں سے غسل دینا۔

اس حدیث کو شیخ البانیؒ نے ضعیف کہا ہے۔ (دیکھیں،السلسلة الضعيفة:1237)

اسی طرح ابن سعد نے (الطبقات الكبرى:1543) میں ذکر کیا ہے:

نِعمَ البئرُ بئرُ غرسٍ، هيَ من عيونِ الجنَّةِ، وماؤُها أطيَبُ المياهِ۔

ترجمہ: سب سے اچھا کنواں، بئرغرس ہے، یہ جنت کے چشموں میں سے ہے اور اس کا پانی سب سے بہتر ہے۔

یہ موضوع روایت ہے، شیخ البانی نے اسے موضوع کہا ہے۔(السلسلة الضعيفة:2683)

بہرحال اس کنواں کی فضیلت میں کوئی حدیث ثابت نہیں ہے تاہم تاریخی اعتبار سے بئرغرس مدینہ کا ایک کنواں ہے جو مسجد قبا کے مشرقی جانب موجود ہے۔ مدینہ منورہ کی منسپلٹی نے بھی اپنی ویب سائٹ پہ بئرغرس  کی ایک تصویر کے ساتھ اس کی مختصر جانکاری دی ہے کہ "یہ بئرغرس جسے بئرقبا بھی کہتے ہیں، یہ مسجد کے مشرقی جانب موجود ہے۔ اور یہ ایک تاریخی چیز میں شمار ہوتی ہے جو سیرت نبوی سے مرتبط ہے"۔

تاریخی اعتبار سے کوئی اس کنواں کو دیکھنے کے لئے جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ یہ اعتقاد رکھنا ہے کہ اس کے پانی میں شفا ہے، اس نیت سے پانی پینا  اور وہاں سے پانی لے کر اپنے ساتھ جانا صحیح نہیں ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔