Monday, April 28, 2025

آپ کے سوالات اوران کے جوابات(45)

آپ کے سوالات اوران کے جوابات(45)

جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ – سعودی عرب


سوال:جب شوہر کام سے باہرگئے ہوتے ہیں تو بیوی کا دل اچھا ہوتا ہے، شوہر پر محبت بھی آتی ہے ،دل بھی کرتا کہ گھر جلدی آ جائے ، سب ٹھیک لگتا ہے مگر جب شام کو شوہر گھر واپس آتے ہیں تو اکثر بیوی کا دل خراب ہو جاتاہے، بات کرنے کو دل نہیں کرتا ، دل نہیں چاہتا کہ شوہر پاس آئے ،اہمیت دے تو برا لگتا ہےاور غصہ بھی آتا ہے۔ ایسے میں کیا کرنا چاہئے؟

جواب:شوہر اور بیوی کے مابین ایک دوسرے کے اوپر کچھ حقوق ہیں ان حقوق کی ادائیگی میں جن سے کوتاہی ہوگی وہ اللہ کے یہاں جواب دہ ہوگا۔خاص طور پر بیوی کو اپنے شوہر کی خوشی، رضامندی اور اطاعت کا زیادہ خیال کرنا ہےکیونکہ شوہر کی نافرمانی کی وجہ سے کثرت سے عورتیں جہنم میں جائیں گی ۔ اس سلسلے میں متعدد احادیث ہیں، دوچنداحادیث بطور نصیحت ذکر تا ہوں۔

حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

أُريتُ النارَ فإذا أكثرُ أهلِها النساءُ ، يَكْفُرن. قيل: أيَكْفُرن باللهِ ؟ قال: يَكْفُرن العشيرَ، ويَكْفُرن الإحسانَ، لو أحسنتَ إلى إحداهُن الدهرَ، ثم رأتْ منك شيئًا ، قالت: ما رأيتُ منك خيراً قطُّ.(صحيح البخاري:29)

ترجمہ: میں نے دوزخ دیکھی تو وہاں اکثر عورتیں تھیں کیونکہ وہ کفر کرتی ہیں۔لوگوں نے کہا: کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:نہیں بلکہ وہ اپنے خاوند کا کفر کرتی ہیں، یعنی ناشکری کرتی ہیں اور احسان فراموش ہیں۔ وہ یوں کہ اگر تو ساری عمر عورت سے اچھا سلوک کرے پھر وہ معمولی سی (ناگوار) بات تجھ میں دیکھے تو کہنے لگتی ہے کہ مجھے تجھ سے کبھی آرام نہیں ملا۔

نبی ﷺ نے فرمایا:

إذا صلَّتِ المرأةُ خَمْسَها، و صامَت شهرَها، و حَفِظَت فرْجَها، وأطاعَت زَوجَها، دخَلتِ الجنَّةَ(صحيح الجامع:661)

ترجمہ: جب ایک عورت پانچوں نمازیں ادا کرے ، ماہِ رمضان کے روزے رکھے ، اپنی عزت کی حفاظت کرے اور اپنے خاوند کی اطاعت کرے تو اسے کہا جائے گا : تم جنت کے جس دروازے سے چاہو جنت میں داخل ہو جاؤ۔

حضرت حصین بن محصن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی پھوپھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور جب وہ اپنی حاجت سے فارغ ہوگئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا:کیا تمھارا خاوند موجود ہے؟ اس نے کہا : جی ہاں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : تم اس سے کیسا سلوک کرتی ہو؟ اس نے کہا:میں ہر طرح سے اس کی خدمت کرتی ہوں سوائے اس کے کہ میں عاجز آجاؤں۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

فانظُري أين أنتِ منه؛ فإنه جنَّتُكِ ونارُكِ( صحيح الترغيب:1933)

ترجمہ:تم اس سے کیسا سلوک کرتی ہو ذرا اس بات کا اچھی طرح سے جائزہ لے لینا ( اور یاد رکھنا ) وہی تمھاری جنت اور وہی تمھاری جہنم ہے ۔

اس معنی کی متعدد روایات ہیں جن سے ایک بیوی نصیحت حاصل کر سکتی ہے کہ اس کی زندگی میں شوہر کی اطاعت اور رضامندی کس قدر اہم وضروری  ہے۔

سوال میں جو صورتحال ذکر کی گئی ہے کہ شوہر کے گھر آنے سے بیوی کو برا لگتا ہے تو ایسی صورت میں ایسی بیوی کو اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے اور اسےاپنے حال پہ غور کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ آخر شوہر میں ایسی کیا برائی ہے جس کی وجہ سے وہ ایسا محسوس کرتی ہے۔جب شوہر میں شرعی خامیاں ہوں تو اس کی اصلاح کرے تاکہ آپس میں محبت پیدا ہو اور اگر شرعی خامیاں نہ ہوں، بلاسبب اس طرح شیطانی وسوسہ آتا ہو تو اللہ رب العالمین سے توبہ کرکے شوہر کا حق بہتر طور پر ادا کرنے کی کوشش کرے، ورنہ اس کا یہ طرز عمل آخرت میں انجام کے اعتبار سے بہت برا ہوسکتا ہے۔

جب شوہر میں ایسی کوئی شرعی  خرابی ہو جس سے وہ شوہر سے علاحدگی اختیار کر سکتی ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے لیکن بغیر کسی خرابی کے شوہر کے بارے میں برا سوچنا اور اس طرح کا طرز عمل اپنانا ایک بیوی کے لئے جائز نہیں ہے۔اس طرح کا وسوسہ نماز ،تلاوت اور ذکر سے دوری کا سبب بھی ہو سکتا ہے لہذا وہ عورت پانچ وقت کی نماز، صبح و شام کے اذکار اور قرآن کی تلاوت کی پابندی کرے اور اللہ سے اپنے معاملے میں آسانی کے لئے دعا مانگے خصوصا افضل اوقات میں یعنی نماز کے سجدے میں،جمعہ کے دن  قبولیت کی ساعت میں اور رات کے آخر پہر میں جب اللہ تعالی آسمان دنیا پر نازل فرماتا ہے۔

سوال: آجکل رمضان کی تیاری کے لئے بہترین نماز پڑھنے کی تعلیم دی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں ایک استانی نے کہا کہ سلام کے بعد(اللہ اکبر، استغفراللہ تین مرتبہ پھر اللھم انت السلام-- اللہ اعنی علی ذکرک --کے فورا بعد آیت الکرسی پڑھنا ہے کیونکہ اس کو پڑھنے سے انسان اور جنت کے درمیان موت ہی ہے، انسان مرنے کے فورا بعد سیدھا جنت میں جائے گا اس لئے اسکو اسی ترتیب سے پڑھنا ہے۔ یہ بات کہاں تک درست ہے؟

جواب:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرنے کے بعد فورا قبلہ رخ رہتے ہوئے یہ کلمات کہتے جس کا ذکر صحیح مسلم کی مندرجہ ذیل روایت میں ہے۔حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

كانَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ، إذَا انْصَرَفَ مِن صَلَاتِهِ اسْتَغْفَرَ ثَلَاثًا وَقالَ: اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ ذَا الجَلَالِ وَالإِكْرَامِ. قالَ الوَلِيدُ: فَقُلتُ لِلأَوْزَاعِيِّ: كيفَ الاسْتِغْفَارُ؟ قالَ: تَقُولُ: أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ، أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ(صحيح مسلم:591)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی نماز سے فارغ ہوتے تو تین دفعہ استغفار کرتےاور اس کے بعد کہتے: اللہم انت السلام و منک السلام، تبارکت ذاالجلال والاکرام ” اے اللہ! تو ہی سلام ہے اور سلامتی تیری ہی طرف سے ہے، تو صاحب رفعت و برکت ہے، اے جلال والے اور عزت بخشنے والے!“ ولید نے کہا: میں نے اوزاعی سے پوچھا: استغفار کیسے کیا جائے؟ انھوں نے کہا: استغفر اللہ، استغفر اللہ کہے۔

مذکورہ الفاظ کہنے کے بعد آپ ﷺ اپنا چہرہ مقتدیوں کی طرف پھیرتے، اس لئے سلام پھیر کر

فورا یہی الفاظ اسی ترتیب سے کہے جائیں گے۔ باقی ان اذکار کے بعد جو بھی اذکار وارد ہیں ان میں ترتیب کا کوئی مسئلہ نہیں ہے جیسے آپ چاہیں پڑھ سکتے ہیں۔نماز کے بعد کے اذکار میں اللھمم اعنی علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک بھی ہےاور آیۃ الکرسی بھی ہے اور دیگر اذکار بھی ہیں۔ اس کے بارے میں تفصیل جاننے کے لئے میرا مضمون"نماز کے بعد کے اذکار اور ان کی فضیلت" میرے بلاگ پر دیکھیں۔

سوال: اجتماعی شادی میں نکاح بھی اجتماعی طورپر پڑھاجاتا ہے، کیا یہ صحیح ہے؟

جواب:اجتماعی طور پر متعدد نکاح ایک ساتھ کرنے میں حرج نہیں ہے اس سے خرچ میں آسانی ہوتی ہے مگر بعض مقامات پر اس قسم کے نکاح میں منکرات دیکھنے کو ملتے ہیں جس کی روک تھام ہونا ضروری ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ نکاح کے لیے خطبہ پڑھنا کوئی ضروری نہیں ہے نکاح میں اصل، نکاح کے شروط و واجبات کے ساتھ ایجاب و قبول ہے۔

اس کی صورت یہ ہوگی کہ ہر ایک لڑکا سے الگ الگ طور پر ایجاب و قبول ہونا ضروری ہے۔ اجتماعی صورت میں یعنی ایک ساتھ ایجاب و قبول میں شک و شبہ پایا جاتا ہے کہ کس نے قبول کیا اور کس نے نہیں لہذا اکٹھے کئی لڑکوں سے ایجاب وقبول کرانا درست نہیں ہے۔ نکاح خواں خطبہ نکاح ایک مرتبہ پڑھ لے لیکن ایجاب وقبول ہر لڑکا سے فردا فردا ہونا چاہئے کیونکہ سب کے نام وولدیت الگ ہوتے ہیں، دلہن جدا جدا ہوتی ہے ، تمام نکاح میں ولی ، گواہان اور مہر سب کچھ الگ الگ ہوتے ہیں۔

سوال: جمعہ کے دن اذان سے پہلے بات کرنے کی ضرورت پیش آجائے توکیا بات کی جاسکتی ہے؟

جواب:جمعہ کے دن اذان سے پہلے مسجد میں ضرورت کے وقت بات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن بلاضرورت بات کرنا یا بحث و مباحثہ کرنا لغو ہے کیونکہ جمعہ بڑی فضیلت والادن ہے ، اس دن پہلے مسجد آکر آدمی کو نماز، تلاوت، دعا اور ذکر میں مشغول رہنا چاہیےاور جب امام خطبہ کے لئے ممبر پر چڑھ جائے اس وقت بالکل خاموشی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ خطبہ اور نماز ختم ہو جائے۔

سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

مَنِ اغْتَسَلَ يَومَ الجُمُعَةِ، وتَطَهَّرَ بما اسْتَطَاعَ مِن طُهْرٍ، ثُمَّ ادَّهَنَ أوْ مَسَّ مِن طِيبٍ، ثُمَّ رَاحَ فَلَمْ يُفَرِّقْ بيْنَ اثْنَيْنِ، فَصَلَّى ما كُتِبَ له، ثُمَّ إذَا خَرَجَ الإمَامُ أنْصَتَ، غُفِرَ له ما بيْنَهُ وبيْنَ الجُمُعَةِ الأُخْرَى(صحيح البخاري:910)

ترجمہ:جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور خوب پاکی حاصل کی اور تیل یا خوشبو استعمال کی، پھر جمعہ کے لیے چلا اور دو آدمیوں کے بیچ میں نہ گھسا اور جتنی اس کی قسمت میں تھی، نماز پڑھی، پھر جب امام باہر آیا اور خطبہ شروع کیا تو خاموش ہو گیا، اس کے اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے۔

سوال: کیاقضا روزے پندرہ شعبان کے بعد رکھے جاسکتے ہیں، پورا مہینہ قضا روزہ رکھنے کا ارادہ ہے تو کیا شعبان کا پورا مہینہ قضا روزہ رکھ سکتے ہیں یعنی پندرہ شعبان کے بعد بھی ؟

جواب:بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺنے نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے، ان روایات کی صحت وضعف میں اہل علم کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے پھربھی  بہتر یہی ہے کہ پندرہ شعبان کے بعد کوئی نفلی روزہ نہ رکھے خصوصا جسے کمزوری لاحق ہونے کا خدشہ ہو تاکہ وہ خود کو رمضان کے لئے نشیط رکھے لیکن اگر کسی کے ذمہ فرض روزے باقی ہوں تو وہ پندرہ شعبان کے بعد بھی قضا کرسکتا ہے ۔اگرکوئی شعبان میں پورا مہینہ قضا کے روزے رکھتا ہے تو بھی کوئی حرج کی بات نہیں کیونکہ قضا کی ادائیگی ضروری ہے اور آدمی کی زندگی کا بھروسہ نہیں ہے۔ نبی ﷺ شعبان کے مہینے کا اکثر روزہ رکھتے تھے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :

لم يكنِ النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يصومُ شهرًا أكثرَ من شَعبانَ، فإنه كان يصومُ شعبانَ كلَّه(صحيح البخاري:1970)

ترجمہ: نبی ﷺ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ نہیں رکھا کرتے تھے ، آپ ﷺ شعبان کے مہینے کا تقریبا پورا روزہ رکھا کرتے تھے ۔

سوال: اگر کسی کے رمضان کے روزے رہ گئے ہوں اور اس نے کہیں لکھ کر محفوظ کر لیا ہولیکن بعد میں وہ نوٹ نہ ملے یا یاد نہ آئے کہ کہاں لکھا تھا اور تلاش کے باوجود بھی نہ ملے تو ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے، کیا وہ اپنی یادداشت کے مطابق جتنے روزے یاد آ رہے ہوں، اتنے قضا کر سکتی ہے؟

جواب:اگر کسی کے رمضان کے روزے باقی ہوں اور اسے اپنا روزہ لکھا ہوا مل نہیں رہا ہویا یاد نہیں آرہا ہو تو وہ ایسی صورت میں اندازہ لگا کر روزوں کی قضا کر سکتا ہے مثلا حیض والی عورت کا روزہ چھوٹا ہے تووہ یہ دیکھےکہ  اسے عادت کے طور پر کتنے دن تک اکثر و بیشتر حیض آتا ہے ، اس

لحاظ سے اکثر تعداد کے مطابق روزوں کی قضا کرلے۔

سوال: اگر کسی کے پاس زکوۃ کی مقدار کے برابر مال ہے مگر اس کے پاس زکوۃ ادا کرنے کے لئے پیسے نہیں ہیں تو کیا ایسا انسان جس کو قرض دیا ہوا ہے مگر وہ قرض تھوڑا تھوڑا واپس آئے اور یقینا آئے گا کیونکہ قرض لینے والا ایماندار ہے، ابھی اس کے پاس پیسے نہیں ہیں اس لئے کچھ وقت لگے گا۔ چند ماہ بعد ہرماہ تھوڑا تھوڑا کرکے واپس کرے گا تو کیا زکوۃ کی رقم اس کا قرض معاف کرکے ادا کرسکتے ہیں؟

جواب:کسی کے اوپر قرض ہو تو قرض میں زکوۃ کو معاف نہیں کرسکتے ہیں۔ زکوۃ ایک معلوم و متعین چیز ہے اس چیز کو مستحق کے ہاتھ میں دے کر اس کا مالک بنانا پڑے گا اس لئے زکوۃ کرائے میں یا قرض میں یا اجرت وغیرہ میں دے کر تلافی نہیں کی جاسکتی ہے۔

سوال: مئی میں بیٹا پیدا ہوا ہے ، تب سے لے کر ابھی تک یہ فروری آگئی پیریڈ کا سرکل رک نہیں رہا ہے۔ ڈاکٹر سے رابطہ کیا تو انہوں نے وقفہ والی دوا دی ہے، وہ جب تک کھاتی ہوں ، بند رہتا ہے اور جب چھوڑ دیتی ہوں پھر سے شروع ہوجاتا ہے پھر دوا لینے سے ہی مسئلہ ختم ہوتا ہے۔ کبھی خون کالا بھی آتا ہے اور کبھی لال بھی ، ایسے میں نماز و قرآن کا کیا مسئلہ ہے؟

جواب:جو صورت بیان کی گئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عورت کو استحاضہ کی شکایت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو جسے اکثر استحاضہ آتا تھا آپ نے یہ طریقہ بتایا کہ اسے جب کالے رنگ کا خون آئے تو ان دنوں نماز سے رک جائے اور جب کالے رنگ کا خون گزر جائے تو دوسرے دنوں میں نماز ادا کرے۔

مذکورہ خاتون کو یہ معلوم ہوگا کہ مہینے میں کب اسے حیض آیا کرتا تھا اس کے اعتبار سے جب کالے رنگ کا خون آئے تو اسے حیض سمجھے اور جب کالا رنگ ختم ہو جائے تو غسل  حیض کرکے نماز کی پابندی کرے۔ مزید براں یہ بھی ذہن میں رکھے کہ حیض کا خون رنگ میں کالا ہوتا ہے اور اس میں بدبو ہوتی ہے اور وہ گاڑھا بھی ہوتا ہے۔ ان تین حیثیتوں سے حیض کا خون دوسرے خون سے ممتاز ہوتا ہے لہذا ان باتوں کو بھی مد نظر رکھے۔

سوال: ایک کمپنی پینے کا پانی فروخت کرتی ہے اور لوگوں کے لئے سرمایہ کاری کے لئے آفس کھول رکھی ہے۔ اس میں ایک لاکھ پر 4800، کبھی 4500 ، کبھی 4400 ماہانہ منافع دیتی ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ پانی کی بھی تجارت کرتی ہے، کیا اس میں سرمایہ کاری کرنا جائز ہے؟

جواب:جس پانی کو تیار کرنے میں خرچ لگتا  ہو اس پانی کو بیچنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن جس کمپنی میں سرمایہ کاری کی بات کی گئی ہے اس کمپنی کی پوری تفصیلی معلومات حاصل کریں کہ اس کی تجارت کے اصول کیا ہیں اور کن کن چیزوں کی تجارت کی جاتی ہے پھر نفع دینے کا اصول کیا ہے؟

مختصر یہ ہے کہ اگر کمپنی منافع متعین روپیہ کی شکل میں دے تو یہ سود میں داخل ہے ایسے کاروبار میں سرمایہ کاری کرنا جائز نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ اسلامی شریعت کی نگاہ سے سرمایہ کاری میں نفع اور نقصان دونوں میں شریک ہونا ضروری ہے، صرف منافع میں شریک ہوکر سرمایہ کاری کرنا جائز نہیں ہے۔

سوال:کیا یہ صحیح ہے، ((سورہ یسین کی دس برکات: سید الانبیاء صلی اللہ وسلم نے فرمایا اے علی رضی اللہ عنہ سورہ یسین پڑھو اس میں دس برکات ہیں۔(1)بھوکا پڑھے تو سیر ہو جاتا ہے۔(2)پیاسا پڑھے تو سیراب کر دیا جاتا ہے۔(3)ننگا (لباس سے محروم) پڑھے تو اسے لباس پہنا دیا جاتا ہے۔(4)کنوارا پڑھے تو شادی ہو جائے۔(5)خوف زدہ پڑھے تو امن پائے۔(6)قیدی پڑھے تو رہائی پائے۔(7)مسافر پڑھے تو سفر میں اس کی مدد کی جائے۔(8)جس کا سامان گم ہو ( وہ پڑھے ) تو اپنا سامان پائے۔(9)مریض پڑھے تو شفاء یاب ہو(10)میت کے پاس پڑھی جائے تو اس سے عذاب میں تخفیف کی جائے۔ (مسند الحارث:1/526)

جواب: یہ حدیث مسند الحارث میں موجود ہے مگر سند کے اعتبار سے موضوع اور گھڑی ہوئی ہے، اسے متعدد اہل علم نے موضوعات میں شمار کیا ہے۔

سوال: ایک خاتون ہے جس کو روزہ قضا کے بارے میں ابھی معلوم ہوا ہے، وہ اب اپنے اور اپنی ساس کے روزہ کا فدیہ دینا چاہتی ہے۔ دونوں کناڈا کے رہائشی ہیں اور ان کی والدہ مرحومہ پاکستان کی رہنے والی تھی تو کیا پاکستانی کرنسی میں روزے کا فدیہ دے سکتی ہیں اور کیا ایک ساتھ فدیہ دینا ہوگا یا تھوڑا تھوڑا کرکے بھی فدیہ دے سکتی ہیں؟

جواب: جن دو خاتون کے ذمہ فرض روزہ قضا کرنا باقی ہے اور وہ روزوں کی قضا کرنے کی استطاعت رکھتی ہیں تو ان دونوں کو روزہ قضا کرنا پڑے گا ایسی صورت میں فدیہ ادا کرنا صحیح نہیں ہے۔ فدیہ تو اس وقت دیا جاتا ہے جب روزہ رکھنے کی استطاعت نہ ہو جیسے ضعیف و بوڑھے لوگ۔
دوسری بات یہ ہے کہ روزہ کا فدیہ پیسہ نہیں ہے بلکہ اناج و غلہ ہے اور ایک روزہ کا فدیہ تقریبا ڈیڑھ کلو اناج ہے۔ یہ فدیہ دنیا کے تمام مسلمانوں کے لئے ہے خواہ وہ پاکستان میں ہو یا کناڈا میں ہو یا کہیں اور رہتا ہو۔اور فدیہ ایک ساتھ بھی دے سکتے ہیں اور آسانی کے حساب سے تھوڑا تھوڑا کرکے بھی دے سکتے ہیں۔ نیز روزہ کی قضا میں اب تک جو تاخیر ہوئی ہے اس کے لئے اللہ تعالی سے معافی طلب کرے۔

سوال:ایک خاتون اپنے شوہر اور دیگر گھر والوں کے ساتھ عمرہ کے لئے انڈیا سے آرہی ہے اور نکلنے سے ایک دن پہلے اسکے حیض کے ایام شروع ہونے والے ہیں اور وہ مانع حیض دوائی بھی نہیں لے سکتی تو کیا اسکے لئے جائز ہے کہ وہ بغیر عمرہ کی نیت کرے مکہ میں داخل ہو اور پھر طہارت حاصل کرنے کے بعد میقات جاکر نیت کرکے آئے اور عمرہ ادا کرے؟

جواب:جو خاتون انڈیا سے عمرہ کے لیے مکہ تشریف لا رہی ہیں اس خاتون کو ہرحال میں میقات پر اپنے عمرہ کا احرام باندھنا ہے خواہ وہ حیض کی حالت میں ہو یا پاکی کی حالت میں ہو۔اور جو صورت سوال میں ذکر کی گئی ہے کہ عورت مکہ پہنچ کر پاک ہونے کے بعد پھر میقات پر جاکر احرام باندھے گی، یہ طریقہ صحیح نہیں ہے۔ شریعت میں اپنی مرضی کا دخل نہیں ہے بلکہ جیسے عمرہ کا طریقہ بتایا گیا ہے اس پر عمل کرنا پڑے گا۔ وہ خاتون مکہ سفر کرتے وقت اپنی  میقات سے ہی احرام باندھے گی اور اگر وہ احرام باندھتے وقت حیض کی حالت میں ہو تو مکہ میں پاک ہونے تک احرام ہی میں باقی رہے گی اور جب پاک ہو جائے تو غسل کرکے اپنی رہائش ہی سے عمرہ کرنے کے لئے حرم جائے گی اور اپنا عمرہ مکمل کرے گی۔

سوال: یہ دعا کسی نے ہم کو بھیجا ہے، کیا ہر نئے  مہینہ کے چاند کی الگ الگ دعائیں ہیں؟

شعبان نیا مہینہ شروع ہو تو پڑھنے کی دعائیں۔

اللَّهُمَّ أَهِلَّهُ عَلَيْنَا بِالْيُمْنِ وَالْإِيْمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ رَبِّي وَرَبُّكَ اللهُ(الدعاء للطبرانی)

اللَّهُمَّ أَهِلَّهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيْمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ وَالسَّكِينَةِ وَالْعَافِيَةِ وَالرِّزْقِ الْحَسَنِ(فیض القدیر)

هِلَالُ خَيْرٍ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي ذَهَبَ بِشَهْرٍ رَجَبَ وَجَاءَ بِشَهْرِ شَعْبَانَ اسْتَلْكَ مِنْ خَيْرِ هَذَا الشَّهْرِ وَنُوْرِهِ وَبَرَكَتِهِ وَهُدَاهُ وَظُهُورِهِ وَمُعَافَاتِهِ(ابن السنی)

رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ آمَنْتُ بِالَّذِي أَبْدَاكَ ثُمَّ يُعِيدُكَ(ابن السنی)

اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هِلَالَ يُمْنٍ وَبَرَكَةٍ هِلَالُ خَيْرٍ وَرُشُدٍ (الدعاء)

تین بار یہ دعا پڑھیں۔اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ هُذَا الشَّهْرِ وَخَيْرِ الْقَدَرِ وَأَعُوْذُبِكَ مِنْ شَرِّهِ(مجمع الزوائد)

هِلَالُ خَيْرٍ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي ذَهَبَ بِشَهْرٍ رَجَبَ وَجَاءَ بِشَهْرِ شَعْبَانَ اسْتَلْكَ مِنْ خَيْرِ هَذَا الشَّهْرِ وَنُوْرِهِ وَبَرَكَتِهِ وَهُدَاهُ وَظُهُورِهِ وَمُعَافَاتِهِ

اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّ هَذَا الْغاسِقِ إِذَا وَقَبَ(جامع الترمذی)

اللَّهُمَّ ادْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيْمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ وَجِوَارٍ مِنَ الشَّيْطَانِ(مجمع الزوائد)
جواب:ہر نئے مہینے کی الگ الگ دعائیں نہیں ہیں بلکہ یہ یہی دعا ہر مہینہ نیا چاند دیکھنے پر پڑھنا چاہئے۔ ان مختلف دعاؤں میں چند دعائیں صحیح اور چند دعائیں ضعیف ہیں یعنی ان  میں تین احادیث صحیح ہیں ، بقیہ ضعیف ہیں۔

صحیح احادیث:

(1)أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ كانَ إذا رَأى الهلالَ قالَ اللَّهمَّ أهلِلهُ علَينا باليُمنِ والإيمانِ والسَّلامَةِ والإسلامِ ربِّي وربُّكَ اللَّهُ

الراوي : طلحة بن عبيدالله | المحدث : الألباني | المصدر : صحيح الترمذي

الصفحة أو الرقم : 3451 | خلاصة حكم المحدث : صحيح

(2)أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ نظرَ إلى القَمَرِ، فقالَ : يا عائشةُ استَعيذي باللَّهِ مِن شرِّ هذا، فإنَّ هذا هوَ الغاسِقُ إذا وقبَ

الراوي : عائشة أم المؤمنين | المحدث : الألباني | المصدر : صحيح الترمذي

الصفحة أو الرقم : 3366 | خلاصة حكم المحدث : حسن صحيح

(3)كان أصحابُ النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وآلِهِ وسلَّمَ يَتعلَّمونَ الدُّعاءَ كمَا يتعلَّمونَ القُرْآنَ إذا دخل الشَّهرُ أوِ السَّنةُ : اللَّهُمَّ أدْخِلْهُ علينا بالأمْنِ والإيمَانِ والسَّلامَةِ والإسْلامِ وجِوارٍ منَ الشَّيطَانِ ورِضْوانٍ مَنَ الرَّحمَنِ

الراوي : عبدالله بن هشام | المحدث : ابن حجر العسقلاني | المصدر : الإصابة في تمييز الصحابة

الصفحة أو الرقم : 2/378 | خلاصة حكم المحدث : موقوف على شرط الصحيح

ضعیف احادیث:

(1)كان إذا رأى الهلالَ قال : اللهمَّ ! أهلَّهُ علينا بالأمنِ والإيمانِ، والسلامةِ والإسلامِ والسكينةِ والعافيةِ والرزقِ الحسنِ

الراوي : أبو فوزة حدير السلمي | المحدث : الألباني | المصدر : السلسلة الضعيفة

الصفحة أو الرقم : 3504 | خلاصة حكم المحدث : إسناده ضعيف

(2)كان إذا رأى الهلالَ قال : هلالُ خيرٍ، الحمدُ لله الذي ذهب بشهرِ كذا، وجاء بشهرِ كذا، أسألك من خيرِ هذا الشهرِ، ونُورِه، وبركتِه، وهداه، وطهورِه، ومعافاتِه

الراوي : عبدالله بن مطرف بن عبدالله بن الشخير | المحدث : الألباني | المصدر : ضعيف الجامع

الصفحة أو الرقم : 4406 | خلاصة حكم المحدث : ضعيف

(3)كان إذا رأى الهلالَ قال : ربي وربُّكَ اللهُ، آمنتُ بالذي أبداكَ ثم يعيدكَ

الراوي : عائشة أم المؤمنين | المحدث : الألباني | المصدر : السلسلة الضعيفة

الصفحة أو الرقم : 3505 | خلاصة حكم المحدث : إسناده ضعيف جداً

(4)كان إذا رأى الهلالَ قال : اللهمَّ ! اجعلْهُ هلالَ يُمنٍ وبركةٍ

الراوي : عبدالله بن عمر | المحدث : الألباني | المصدر : السلسلة الضعيفة

الصفحة أو الرقم : 3503 | خلاصة حكم المحدث : إسناده ضعيف

(5)كان إذا رأى الهلالَ قال : " هلالُ خيرٍ و رُشدٍ، آمنتُ بالذي خلقك ( ثلاثًا )، ثم يقول، الحمدُ لله

الذي ذهب بشهرِ كذا و جاء بشهرِ كذا "

الراوي : أبو سعيد الخدري | المحدث : الألباني | المصدر : ضعيف الجامع

الصفحة أو الرقم : 4407 | خلاصة حكم المحدث : ضعيف

(6)كان إذا رأى الهلالَ قال : هلالُ خيرٍ ورشدٍ، ثم قال : اللهمَّ ! إني أسألُكَ منْ خيرِ هذا الشهرِ وخيرِ القدرِ، وأعوذُ بك من شرِّهِ – ثلاثَ مراتٍ

الراوي : رافع بن خديج | المحدث : الألباني | المصدر : السلسلة الضعيفة

الصفحة أو الرقم : 3507 | خلاصة حكم المحدث : إسناده ضعيف

سوال: نماز پڑھتے وقت دل میں دوسرے خیال آجاتے ہیں تو کیا ایسی نمازیں اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرے گا اور قیامت کے دن وہ نمازیں منہ پر ماری جائیں گی؟

جواب:نماز میں آدمی کا دھیان ادھر ادھر ہوسکتا ہے اور نماز پڑھتے ہوئے آدمی کے دل میں مختلف قسم کے خیال آسکتے ہیں اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے اور اس وجہ سے نہ نماز ضائع ہوگی، نہ قیامت کے دن یہ نماز منہ پر ماری جائے گی۔ جس کسی نے آپ سے ایسا کہا ہے اس نے بلا دلیل بات کی ہے اس کو اس بات پر ضرور تنبیہ کریں۔

نماز میں جان بوجھ کر کوئی خیال لانا یا کوئی خیال آجائے تو اس خیال میں گم ہو جانا یا اس خیال کے ساتھ دوسرے خیالات کو لانا یہ ممنوع ہے یعنی جان بوجھ کر دنیاوی خیالات پیدا کرنا منع ہے لیکن نماز میں آپ خود کوئی خیال آجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

سوال: اس میں جو فضیلت بیان کی گئی ہے کیا وہ درست ہے؟

((سبحان اللہ العظیم و بحمدہ(اے اللہ تو پاک ہے، عظمتوں والا ہے ، تیری ہی تعریف ہے) ۔

اللھم انی اسالک مما عندک وافض علی من فضلک وانشر علی رحمتک وانزل علی من برکاتک۔(مسند احمد)

ترجمہ: اے اللہ تیرے پاس جو رحمتیں ہیں میں اس کا سوال کرتا ہوں مجھ پہ اپنا فضل انڈیل دے، اپنی رحمتوں کو مجھ پہ نازل فرما دے اور اپنی برکتوں کا نزول میرے اوپر کردے۔ آمین۔

فضیلت: صبح فجر کی نماز کے بعد یہ کلمات کہتے ہیں ، اللہ اندھا نہیں کرے گا ، خطرناک بیماری نہیں لگائے گا، اور جسم فالج جیسی بیماری سے محفوظ رکھے گا۔))

جواب: امام احمد اور امام طبرانی وغیرہ نے یہ حدیث روایت کی ہے اور اس میں مذکورہ فضیلت بیان کی گئی ہے مگر یہ حدیث سندا صحیح نہیں ہے، شیخ البانی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ حوالہ کے لیے دیکھیں۔

يا قَبيصةُ ! ما جاءَ بكَ ؟ قُلتُ : كبِرَتْ سنِّي، ورقَّ عظمِي، فأتيْتُك لِتُعلِّمَني ما ينفعُني اللهُ تعالى بهِ فقالَ : يا قبيصةُ ! ما مررتَ بحجرٍ ولا شجرٍ ولا مدَرٍ، إلَّا استَغفرَ لكَ. يا قَبيصةُ ! إذا صلَّيتَ الصُّبحَ فقلْ ثلاثًا : سُبحانَ اللهِ العَظيمِ وبحمدِه؛ تُعافَ مِن العمى، والجُذامِ، والفالِجِ. يا قَبيصةُ ! قل : اللَّهمَّ إنِّي أسألُك مِمَّا عندَك، وأفِضْ عليَّ مِن فضلِك، وانشُرْ عليَّ من رحمتِك، وأنزلْ عليَّ من بركاتِك

الراوي : قبيصة بن مخارق | المحدث : الألباني | المصدر : ضعيف الترغيب

الصفحة أو الرقم : 71 | خلاصة حكم المحدث : ضعيف | أحاديث مشابهة

التخريج : أخرجه الطبراني (18/ 368) (940) بلفظه، وأحمد (20602) وابن بشران في ((الأمالي)) (1133) مطولا.

سوال:کیا سعی کو ایمرجنسی کی وجہ سے اگلے دن کیا جاسکتا ہے؟

جواب:افضل تو یہی ہے کہ طواف کے بعد فی الفور سعی کی جائے لیکن اگر کوئی عذر ہو تو طواف کے بعد ایک دو دن تاخیر سے سعی کرنے میں حرج نہیں ہے یعنی کوئی آج طواف کرے اور کل جاکر سعی کرے تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے مگر بغیر عذر کے یا سستی کی وجہ سے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب تک عمرہ مکمل نہیں ہو جاتا آدمی کو حالت احرام میں باقی رہنا ہے اور جب مکمل عمرہ کرلے، بال کٹالے پھر احرام کھولے۔

سوال:ایک بہن کا سوال ہے کہ ان کے شوہر نے دو سال پہلے رمضان کے روزے چھوڑے تھے اس کے بعد وہ بیمار ہوگئے تھے، روزے نہیں رکھ سکے۔ اس سال بھی بیمار ہیں وہ بہن پوچھ رہی ہیں کہ کیا وہ اپنے شوہر کے حصے کے روزے رکھ سکتی ہیں؟

جواب:بیمار کی دو قسمیں ہیں ایک بیمار وہ ہے جس کو ٹھیک ہونے کی امید ہے اور ایک بیمار وہ ہے جس کو ٹھیک ہونے کی امید نہیں ہے ان دونوں کے روزہ کا الگ الگ حکم ہے۔

وہ بیمار جس کے ٹھیک ہونے کی امید ہے وہ اپنے چھوٹے ہوئے روزے اس وقت قضا کرے گا جب وہ ٹھیک ہوجائے گااور وہ بیمار جس کے ٹھیک ہونے کی امید نہیں ہے اس کے چھوٹے ہوئے روزوں کا فدیہ ادا کر دینا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ کسی زندہ آدمی کی طرف سے کوئی دوسرا آدمی قضا کا روزہ نہیں رکھے گا اور نہ بیوی اپنے شوہر کے اس رمضان کا روزہ رکھے گی۔ اگر شوہر رمضان کا روزہ رکھ سکےتو وہ  خود روزہ رکھے گا اور بیماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے تو رمضان کے بعد خود سے قضا کرے گا نیز بیمار سے متعلق  اوپرجو دو قسم کے احکام بیان کئے گئے ہیں اس کو بھی نظر میں رکھیں گے۔

سوال: حالت حیض میں شوہر مباشرت کرنے یا مشت زنی کرنے پر مجبور کرے تو اس بارے میں اسلام ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے؟

جواب: اللہ تعالی نے مردوں کو حیض کی حالت میں مباشرت کرنے سے منع فرمایا ہے اور اسی طرح اہل علم کے فتاوی کی روشنی میں مشت زنی کرنا حرام ہے۔ عورت حیض کی حالت میں ہو یا کسی دوسری حالت میں ہو مرد کے لیے ازخود یا بذریعہ بیوی مشت زنی کرنا ناجائز و حرام ہے اس وجہ سے ایک مرد کو حیض کی حالت میں بیوی سے ہمبستری کرنے سے پرہیز کرنا ہے اور کسی بھی صورت میں مشت زنی کرنے سے بھی پرہیز کرنا ہے۔جہاں تک بیوی کا معاملہ ہے کہ شوہر حیض میں ہمبستری کے لئے مجبور کرے یا مشت زنی کےلئے مجبور کرے تو اس حالت میں شوہر کی اطاعت نہ کرے کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ اللہ کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت نہیں کی جائےگی  ۔اس وجہ سے   بیوی کے لئے شوہر کی وہی بات ماننا ضروری ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق ہو اور جو اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مخالف ہو اس میں شوہر کی اطاعت نہیں کرے گی ۔

سوال:بچوں کی پیشانی اوررخسار پہ زینب کے لیے ٹیکہ وغیرہ لگانا کیسا ہے؟

جواب:بچوں کی پیشانی  یارخسار پہ زینت کے لئے اگر کالا ٹیکہ لگایا جائے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے لیکن حقیقت میں اس کالے ٹیکے کی ایجاد نظربد سے بچنے کے لیے ہوئی ہے اور عموما اسی نیت سے لوگ اپنے بچے کو کالا ٹیکہ لگاتے ہیں اور اس نیت سے کالا ٹیکہ لگانا شرکیہ عمل ہے۔ اگر کوئی خوبصورتی اور زینت کے لئے بچے کو ٹیکہ لگانا چاہے تو بظاہر حرج نہیں ہے لیکن مشابہت سے بچنے کے لئے کالا ٹیکہ لگانے سے بچنا ہی بہتر ہے۔

سوال: ایک شخص نے دوسرے کی طرف سے عمرہ کیا اور بال جگہ جگہ سے کاٹ لیا، پورے سر سے بال نہیں کاٹا تو کیا اس کا عمرہ صحیح ہے؟

جواب: عمرہ میں سر کے بال کو یا تو مونڈنا ہے یا پورے سر سے بال چھوٹا کرنا ہے۔ جو آدمی کہیں کہیں سے چند بال کاٹ لیتا ہے اس سے واجب ادا نہیں ہوتا ہے۔ ایسے شخص پر ضروری ہے کہ پورے سر سے بال چھوٹا کروائے، اگر وہ ایسا نہیں کرتا ہے تو اس سے ترک واجب لازم آئے گا جو دم دینے سے پورا ہوتا ہے۔شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ بعض اہل علم کے نزدیک یہ کفایت کر جائے گا اس لئے دم دینے کی ضرورت نہیں ہے تاہم آئندہ سے پورے سر سے بال چھوٹا کرنا ہے یا حلق کروانا ہے۔

بہر کیف! یہ معاملہ کافی اہم ہے اس لئے پہلے جو کچھ کرلیا سوکرلیا، آئندہ عمرہ کرتے وقت مکمل سر سے بال چھوٹا کرنا چاہیے۔

سوال: ((حضرت موسی علیہ السلام کلیم اللہ تھے، روزانہ اپنے رب سے ہمکلام ہوتے تھے۔ ایک دن حکم ہوا کہ موسی جاؤ اور اپنے سے کمتر کو تلاش کرکے لاؤ۔ موسی علیہ السلام نے حکم خدا سے ساری کائنات چھان ماری مگر اپنے سے کم کسی کو نہ پایا۔ شام کو خالی ہاتھ لوٹے، اللہ پاک نے فرمایا: اے موسی اگر آپ ایک بکری کے بچے کو ہی لے آتے تو ہم آپ کو نبوت سے محروم کر دیتے))۔ کسی کو اپنے سے حقیر نہ سمجھو کیونکہ اللہ نے ہر کسی میں کوئی نہ کوئی خوبی ضرور رکھی ہے۔ کیا اس بات میں کوئی سچائی ہے، لوگ اسے بلاسند بہت زیادہ نشر کر رہے ہیں؟

جواب: انٹرنیٹ پر یہ واقعہ بہت وائرل ہے لیکن اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یہ بے اصل، بے بنیاد اور جھوٹا واقعہ ہے۔

سوال: بہت سے علمائے کرام چندہ کرنے آتے ہیں اور خطبہ ثانی مکمل کئے بغیر چندہ کا اعلان کر دیتے ہیں تو کیا اس سے خطبہ فوت ہوجاتا ہے اور اعلان کرنے کے بعد خطبہ ثانی مکمل کرتے ہیں؟

جواب: مسجد میں صدقہ و خیرات جمع کرنے میں حرج نہیں ہے لیکن خطبہ میں اس کا اعلان کرنا مناسب نہیں ہے۔ دونوں خطبہ میں فقط وعظ و نصیحت پر اکتفا کرنا چاہیے۔ اگر کسی نے خطبہ ثانی کے دوران چندہ کا اعلان کردیا تو اس سے خطبہ فوت نہیں ہوگا البتہ یہ عمل مناسب نہیں ہے اس عمل سے خطیب کو آئندہ کے لئے روکا جائے گا۔

سوال: بریلوی کی جن مساجد میں یہ تحریر دیواروں پر کندہ ہو۔ ایسی مسجد یا ایسا عقیدہ رکھنے والے امام کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں۔ یا رسول اللہ انظر حالنا-یاحبیب اللہِ اسمع قالنا؟

جواب: جس کسی مسجد میں اس قسم کا جملہ لکھا ہو اس میں کسی نے نماز پڑھ لی تو اس کی نماز اپنی جگہ درست ہے لیکن اگر امام اسی عقیدے کا ہو جو لکھا ہوا ہے تو ایسی صورت میں ایسے امام کے پیچھے نمازپڑھنا جائز نہیں ہےکیونکہ اس میں رسول اللہ ﷺ سے فریاد رسی ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔