﷽
آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(44)
جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، سعودی عرب
سوال: کیا یہ بات درست ہے کہ جب نبی ﷺ پر درود پڑھا جاتا ہے تو ایک
فرشتہ درود لے کر نبی کے پاس جاتا ہے۔ جس نے درود بھیجا ہے اس کا نام اور اس کی
ولدیت ساتھ بتاکر درود پیش کرتا ہے؟
جواب:صحیح حدیث میں یہ مذکور ہے کہ جب ہم
درود پڑھتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا جاتا ہے مگر آپ تک درود
پہنچانے کی کیفیت کیا ہے، اس کے بارے میں ہم نہیں جانتے ،یہ غیب کا معاملہ ہے،
اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا:
لاتَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قُبُورًا، وَلَا
تَجْعَلُوا قَبْرِي عِيدًا، وَصَلُّوا عَلَيَّ، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ تَبْلُغُنِي
حَيْثُ كُنْتُمْ(ابوداؤد:2042،صححہ البانی)
ترجمہ: اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ ۱؎ اور میری قبر کو میلا نہ بناؤ (کہ سب لوگ
وہاں اکٹھا ہوں)، اور میرے اوپر درود بھیجا کرو کیونکہ تم جہاں بھی رہو گے تمہارا
درود مجھے پہنچایا جائے گا۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:
إنَّ للَّهِ ملائِكةً سيَّاحينَ في الأرضِ
، يُبلِّغوني من أُمَّتي السَّلامَ(صحيح النسائي:1281)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ کے زمین میں ایسے فرشتے
ہیں جو گشت کرتے رہتے ہیں اور میری امت کی طرف سے پیش کیا گیا سلام مجھ تک پہنچاتے
ہیں۔
اور جو یہ معاملہ ہے کہ نام و ولدیت کے
ساتھ رسول تک درود پہنچایا جاتا ہے اس طرح کی کوئی بھی حدیث صحیح نہیں ہے ۔ اس
بارے میں جو بھی اقوال یا احادیث ملتی ہیں وہ سب ضعیف ہیں، ان میں سے کوئی بھی
قابل حجت نہیں ہے۔
سوال:کیا ریکارڈ شدہ تلاوت کے وقت سجدہ کی آیات
کو سننے سے ہم پر سجدہ واجب ہوجاتا ہے اور حفظ کرنے کے لئے سجدہ کی آیات کو بار
بار دہرانے سے کتنی بار سجدہ تلاوت کرنا ہوگا؟
جواب:خواہ قرآن کی تلاوت خود سے کریں یا
قرآن کی تلاوت کسی اور سے سنیں حتی کہ ریکارڈ شدہ تلاوت سنیں ان تمام صورتوں میں
آیت سجدہ آنے پر سجدہ تلاوت کرنا مسنون و مستحب ہے۔قرآن حفظ کرتے وقت آیت سجدہ
پڑھنے پر پہلی دفعہ ایک مرتبہ سجدہ کرنا کافی ہے اور یہ سجدہ
تلاوت واجب نہیں ہے بلکہ مسنون ہے، ترک کر دینے پر بھی کوئی گناہ نہیں ہےتاہم سجدہ
تلاوت کا االتزام کرنا چاہئے۔
سوال:ایک بہن کا سوال ہے کہ
انکا بیٹا چودہ سال کا ہونے والا ہے، اب اس میں کوئی تبدیلی آرہی ہے جیسے وہ بغیر
کہے اور بے وقت نہانے گیا۔ جب یہ بات بیوی نے اپنے شوہر سے کہی کہ وہ معلوم کریں
کیا بات ہے تو انہوں نے بتایا کہ بڑا ہو رہا ہے اس وجہ سے لیکن جب خاتون نے کہا کہ
اس کو صحیح سے معلومات دے دیں تاکہ طہارت اور عبادات میں خلل نہ آئے تو وہ ناراص
ہوگئے اور کہنے لگے کہ ابھی سے اسکے پیچھے مت پڑو، بڑا ہوگا تو خود ہی سیکھ لے گا۔
وہ خاتون بہت فکر مند ہے اور کہتی ہے کہ ایسے میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
جواب: جب ایک بچہ بلوغت میں قدم رکھ دیتا
ہے تو اس پر دین کے سارے احکام مرتب ہو جاتے ہیں یعنی اب اسے دین پر واجبی طور پر
عمل کرنا ہوتا ہے۔ اور ایک آدمی دین پر اسی وقت صحیح سے عمل کر پائے گا جب اس کے
پاس دین کی صحیح سے معلومات ہوگی۔
سوال میں جو صورتحال ذکر کی گئی ہے اس سے
معلوم ہوتا ہے کہ والدین نے اولاد کو شرعی تعلیم دینے میں غفلت برتی ہے ورنہ آج اس
خاتون کو فکر لاحق نہیں ہوتی۔والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنی اولاد کو بچپن سے ہی
دین کی تعلیم دیں اور بلوغت تک پہنچنے پر تو اسے شریعت کے بنیادی احکام و مسائل کا
علم ہو جانا چاہیے تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سات سال پر ہی بچوں کو نماز
کا حکم دینے اور دس سال پر نماز ترک کرنے پر مارنے کا حکم دیا ہے۔
بہرکیف! اگر ابھی تک والدین نے اپنے اس
بیٹے کو شریعت کی بنیادی تعلیم سے محروم کر رکھا ہے تو اب بلاتاخیر اسے اچھے عالم
دین یا دینی ادارہ کے ذریعہ بنیادی تعلیم دلوائے کیونکہ بالغ ہونے کے بعد صرف پاکی
و ناپاکی کا ہی معاملہ نہیں ہے بلکہ پوری شریعت کا وہ مکلف ہو جاتا ہے اس لیے
طہارت کے مسائل کے علاوہ، عبادات، ایمان و عقائد اور دیگر احکام و مسائل کی
جانکاری حاصل کرنا اس پر لازم و ضروری ہے۔ ادارہ میں تعلیم دلانا مشکل ہو تو کم از
کم کسی عالم کے یہاں بھیج کر یا عالم کو اپنے یہاں بلاکر بنیادی تعلیم سے اپنے بچے
کو ضرور آراستہ کرے۔ اس بارے میں ترتیب وار بنیادی امور سے متعلق میرے بیانات
یوٹیوب پر موجود ہیں ان کے ذریعہ بھی توحید، وضو، غسل، تیمم، نماز، زکوۃ، روزہ، حج
اور اس سے متعلق بنیادی امور معلوم ہو جائیں گے۔ساتھ ہی توحید کے مسائل، طہارت کے
مسائل، ارکان اسلام اور ارکان ایمان سے متعلق کتابیں بھی پڑھنے کے لئے مہیا کرائی
جائیں۔
سوال: ایک عورت جس کے شوہر
فوج میں تھے ان میں سے ان کے دو بچے ہیں۔ ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔ ان کی شہادت کے
بعد ملنے والے پنشن کا حقدار کون ہو گا۔ اس وقت عورت کی عمر اسی سال کے قریب ہے
اور اس کی بیٹی اس وقت بیوہ ہے اور بیٹا ساٹھ سال کے قریب ہے۔ ماہانہ پنشن کی رقم
پندرہ ہزار ہے؟
جواب:یہ پنشن حکومت کی اسکیم کے تحت بیوہ
کا حق ہے لہذا اس پینس میں بیوہ کے علاوہ اور کسی کا حصہ نہیں ہے۔ اس کو بیوہ اپنی
مرضی سے جہاں چاہے خرچ کرے اور اگر اپنی مرضی سے کسی کو کچھ دینا چاہے تو اس میں
کوئی حرج کی بات نہیں تاہم یہ پنشن اسی بیوہ کاذاتی حق ہے ، اس پر کوئی دوسرا اپنا
حق نہیں جتا سکتا۔ اور جب بیوی کی وفات ہوجاتی ہے تو یہ پنشن بند ہوجاتا ہے کیونکہ
یہ پنشن بیوی کے لئے ہی جاری ہوتا ہے۔ بیوی کی وفات کے بعد اولاد میں سے کسی کے
نام سے پنشن نہیں جاری رہتا۔
سوال: التحیات کا پس منظر
بتایا جاتا ہے کہ یہ معراج کی رات محمد ﷺ کا اللہ سے گفتگو ہے، لوگوں میں وہ گفتگو
اس طرح مشہور ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم معراج کی رات جب آسمان پر اللہ کے
پاس پہنچے۔اس وقت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اَلتَّحِيَّاتُ
لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ الطَّيِّبَاتُ" کہا ۔اس پر اللہ رب العزت نے
فرمایا:" اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ
وَبَرَكَاتُهُ" پھر سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "
اَلسَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِيْنَ"اس پر سیدنا جبریل نے اور
کچھ کے مطابق مقرب فرشتوں نے کہا کہ: " أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا
اللَّهُ ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللَّهِ " کیا یہ صحیح ہے؟
جواب:یہ جھوٹا واقعہ ہے اس کی کوئی اصل
نہیں ہے اور اس واقعہ کی نسبت معراج کی طرف کی جاتی ہے جبکہ معراج میں صرف نماز
فرض ہوئی تھی۔ نماز کے اذکار اور دعائیں یہاں تک کہ التحیات کی تعلیم نبی صلی اللہ
علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو بعد میں دی ہے۔
درحقیقت یہ واقعہ اور معراج کا پس منظر
جھوٹ پر مبنی ہے اور اس جھوٹ کا انتساب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا
انتہائی جسارت کی بات ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لا تكذبوا علي، فإنه من كذب علي يلج في
النار(سنن الترمذی: 2660، صححہ البانی)
ترجمہ: مجھ پر جھوٹ نہ باندھو کیونکہ مجھ
پر جھوٹ باندھنے والا جہنم میں داخل ہو گا۔
سوال: اگر عمرہ کرنے سے پہلے
کچھ خارج ہونے کا احساس ہوتا ہو مگر وسوسہ سمجھ کر اس پر دھیان نہیں دیا اور عمرہ
کے بعد معلوم ہوا کہ پیشاب خارج ہوا تھا تو کیا عمرہ نہیں ہوا؟
جواب: شریعت کا ایک اصول ہے کہ عبادت انجام
دینے کے بعد اگر عبادت میں خلل کا وسوسہ آئے تو اس طرف دھیان نہیں دیا جائے گا،
عبادت صحیح مانی جائے گی اور پیشاب نکلنے سے آدمی مکمل ناپاک نہیں ہوتا ہے بلکہ
صرف وضو ٹوٹتا ہے۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ اگر پیشاب کے قطرے آنے کی بیماری رہی ہو تو
ایسی صورت میں عمرہ سے پہلے جو وضو کیا گیا وہی وضو کافی ہے عمرہ کے لیے
اور عمرہ اپنی جگہ درست ہے۔
اور اگر کوئی بیماری نہیں تھی بلکہ یونہی
اچانک پیشاب نکل گیا جس کا یقینی علم عمرہ کے بعد ہوا جبکہ عمرہ کے دوران صرف
احساس تھا تو ایسی صورت میں بھی ان شاءاللہ عمرہ درست کہا جائے گا یعنی عمرہ ہوگیا
اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ عمرہ کرتے ہوئے اس وقت محض گمان موجود تھا جس کی
طرف توجہ نہیں دی جائے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ بعض اہل علم طواف کے لئے وضو شرط
نہیں مانتے ہیں اور سعی کے لیے وضو ضروری نہیں ہے یعنی طواف کے بعد اگر احساس ہوا
ہو تو اور بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
بہرکیف! اس عمرہ کی صحت کے بارے میں کوئی
مسئلہ نہیں ہے، عمرہ اپنی جگہ درست اور صحیح ہے اس لئے ذہن میں عبادت کے تئیں خلل
اور وسوسہ پیدا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
سوال: یہاں ہندوستان اور
پاکستان کی اکثر مساجد حنفی مسلک کی پیروی کرتی ہیں ، ان میں اذان دیر سے ہوتی ہے جبکہ اہل حدیث مساجد بہت کم
ہیں اور ہمارے گھر سے بہت دور ہیں جہاں سے اذان کی آواز نہیں سنائی دیتی، کیا ان
مساجد کی اذان سے پہلے ہمارے لئے نماز پڑھنا صحیح ہوگا اور ان نمازوں کو پڑھنے کے
درست اوقات کون سے ہیں خصوصاً فجر اور عصر کی نماز کے لئے؟
جواب:شریعت کی روشنی میں عورتوں کے لیے نہ
اذان ہے نہ اقامت ہے۔ عورت بغیر اذان کے اور بغیر قیامت کے اپنی نماز وقت پر ادا کرے گی اور مسجد میں جو
اذان دی جاتی ہے، اصل میں ان لوگوں کے لئے ہے جو مسجد جاکر نماز ادا کرے۔
جیساکہ آپ نے ذکر کیا آپ کے یہاں اکثر
احناف کی مساجد ہیں جن میں تاخیر سے اذان ہوتی ہے
ایسی صورت میں آپ کو ان اذانوں کی پرواہ
نہیں کرنی ہے بلکہ پانچوں اوقات میں نماز کا جو اول وقت ہے اس وقت پر آپ اپنی نماز
ادا کریں گے کیونکہ اول وقت پر نماز پڑھنا افضل عمل ہے جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا ہے۔الحمدللہ زمانہ ترقی یافتہ ہے انٹرنیٹ اور موبائل ایپ کے ذریعہ
اپنے شہر کے اوقات الصلاۃ معلوم کرسکتے ہیں اور بہتر یہ ہے کہ اپنے محرم کے ذریعہ
اپنے قریب کے سلفی ادارے سے اوقات الصلاۃ منگا لیں۔
پانچوں نمازوں کے اوقات اس طرح ہیں۔
ظہر کا وقت: زوال کے بعد شروع ہوتا ہے اور
ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہونے تک رہتا ہے۔
عصر کا وقت: سایہ ایک مثل ہونے سے شروع
ہوتا ہے اور سورج ڈوبنے تک رہتا ہے۔
مغرب کا وقت: سورج ڈوبنے کے بعد شروع ہوتا
ہے اور شفق کے باقی رہنے تک رہتا ہے۔
عشاء کا وقت: شفق کے غائب ہونے سے شروع
ہوتا ہے اور آدھی رات تک رہتا ہے۔
فجر کا وقت: صبح صادق سے شروع ہوتا ہے اور
طلوع آفتاب تک رہتا ہے۔
سوال: ایک دوست کے ابو کا
دہلی میں اوپن ہرٹ سرجری ہونا ہے، مہینوں سے انتظار کررہے تھے۔ اب جاکر نمبر آیاہے
مگر مشکل یہ ہے کہ ڈاکٹر بول رہے ہیں کہ داڑھی مونڈنی پڑے گی کیونکہ دل کے پاس تک
داڑھی آتی ہے، اس صورت میں کیا کرنا چاہئے؟
جواب: اگر اضطراری صورت میں کوئی ناجائز
کام کرنا پڑے تو شریعت میں اس کی گنجائش ہے لہذا جس آدمی کے دل کا آپریشن ہونا ہے
اور اس کے لیے داڑھی مونڈنے کی ضرورت ہے تو وہ اپنی داڑھی ضرورت کی حد تک منڈوا
سکتا ہے، اس میں کوئی گناہ نہیں ہے کیونکہ یہ عمل مجبوری اور شرعی عذر کے تحت
ہے۔اللہ رب العالمین کا فرمان ہے:
وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ
عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ (الانعام:119)
ترجمہ: اللہ تعالٰی نے ان سب جانوروں کی
تفصیل بتا دی ہے جن کو تم پر حرام کیا ہے مگر وہ بھی جب تم کو سخت ضرورت پڑ جائے
تو حلال ہے۔
سوال:ایک عورت حاملہ ہے تو
کیا وہ روزہ کے بدلے فدیہ دے سکتی ہے کیونکہ بعد میں پھر سال مکمل ہونے پر مرضعہ
ہوجائے گی۔ اسی طرح ایک عورت کے چھوٹے ہوئے روزے ہیں دو رمضان کے یعنی ساٹھ روزے
اور ان کو نہیں معلوم تھا کہ روزوں کی قضا کرنی ہے اس لئےقضا نہیں کی ۔ اب جب ان
کے بچے بڑے ہوگئے ہیں تو کیا وہ بیس تیس سال بعد روزے قضا کرے گی اور کیا صورت
ہوگی قضا کی، کفارہ بھی دینا ہوگا؟
جواب: حاملہ کا حکم بیمار کے درجے میں ہے
وہ رمضان میں دیکھے کہ روزہ رکھ سکتی ہے یا نہیں۔ اگر روزہ رکھ سکتی ہے تو روزہ
رکھے اور اگر روزہ نہیں رکھ سکتی ہے تو روزہ چھوڑ دے، رمضان کے بعد جب سہولت ہو چھوٹے
روزوں کی قضا دے اور چونکہ حاملہ بیمار کے حکم میں ہے اس لئے اسے بعد میں روزوں کی
قضا دینی ہے، فدیہ نہیں دینا ہے۔ عورت بچے کو دودھ پلاتے ہوئے بھی روزہ رکھ سکتی
ہے اگر آسانی ہو۔ اس لئے فدیہ دینے میں جلد بازی نہ کرے، اللہ رب العالمین پر
بھروسہ کرے، وہ اس معاملے میں آسانی کے لیے اللہ سے دعا بھی مانگے، اور حسب سہولت
روزہ رکھا کرے۔
اور جس عورت نے بیس تیس سال قبل مسلسل دو
رمضان کا روزہ چھوڑا تھا اس کو پہلے ہی اپنا معاملہ درست کر لینا چاہیے تھا مگر اس
میں کافی تاخیر ہوگئی۔ وہ سب سے پہلے اللہ رب العالمین سے اس تاخیر کے لئے معافی
طلب کرے۔ اور اپنے چھوٹے ہوئے روزے حسب سہولت قضا کرتی رہے خواہ جتنا بھی وقت لگے۔
سوال: کیا شب معراج کے یہ
نوافل ثابت ہیں؟
شب معراج کے نوائل
(12رکعت دو دو کر کے)
ترکیب: ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد5 بار
قل ہواللہ۔ 12رکعت پڑھنے کے بعد 100بار کلمہ تمجید . 100بار استغفار۔100 بار درود
شریف۔ فضیلت : جو دعا کرے انشاء اللہ قبول ہوگی۔
(6رکعت دو دوکر کے)
ترکیب: ہررکعت میں الحمد شریف کے بعد 7بار قل ھواللہ پڑھے۔
6رکعت پڑھنے کے بعد 50بار درود شریف پڑھے۔ فضیلت : تمام دینی و دنیاوی حاجات پوری
ہوگی اور 70ہزار گناہ معاف ہوتے ہیں۔
(2رکعت)
ترکیب:
ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد 27 بارقل ہواللہ پڑھے اور قعدہ میں التحیات کے بعد 27بار
درود ابراہیم پڑھے ۔سلام کے بعد اس کا ہدیہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی
بارگاہ
میں گزارنے کی سعادت حاصل کرے۔
(2رکعت)
ترکیب:
پہلی رکعت میں سورہ الحمد شریف کے بعد ایک بارسورہ الم نشرح ،دوسری رکعت میں سورہ
الحمدشریف کے بعد سورہ لایلاف پڑھے۔ فضیلت : یہ نماز پڑھنے سے اولیاء کے ساتھ نماز
پڑھنے کا ثواب ملتا ہے۔
(10رکعت، دو دو کر کے)
ترکیب: ہررکعت میں الحمدشریف کے بعد
3بارسوره کافرون، 3بارقل ھواللہ ۔10 رکعت کے بعد ایک بار کلمہ توحید پڑھے، پھر یہ
دعا پڑھے: اللھم صل عَلَى سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَعَلَى الهِ الظَّاهِرِينَ وَلَا
حَولَ وَلَا قُوَّةَ الأَبِاللَّهِ الْعَلِي الْعَظِيمُ ۔فضیلت : اللہ تعالیٰ ہر
رکعت کے ہدلے 1000رکعت کا ثواب عطا کرے گا۔
غسل کے فضائل: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا:جو کوئی رجب کی پہلی، پندرہویں، اور ستائیسویں کو غسل کرے گا تو وہ
گناہوں سے ایسا پاک ہوجاتا ہے جیسا ابھی پیدا ہوا ہو۔
روزہ کی فضیلت : جو کوئی 27رجب کو روزہ
رکھے اس کو جنت کے ایک نہر سے پانی پلایا جائے گاجو شہد سے زیادہ میٹھا، برف سے
زیادہ ٹھنڈا اور دودھ سے زیادہ سفید ہوگااور اللہ تعالی اس کو دوزخ کی آگ سے بچالے
گا اور جنت سرفراز فرمائے گا۔
جواب:اس میں شب معراج کے تعلق سے جتنی
نمازیں بتائی گئی ہیں، یہ سب بدعتی نمازیں ہیں۔ ان میں سے کسی بھی نماز کا صحیح
حدیث سے کوئی ثبوت نہیں ہے اسی لئے لکھنے والے نے بھی اس میں کسی بات کا کوئی
حوالہ نہیں دیا ہے۔ یہ سراسر جھوٹی باتیں ہیں، ان باتوں کا دین اسلام سے ذرہ برابر
بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس
میں ستائیس رجب کا روزہ بھی لکھا ہوا ہے۔ یہ بھی جھوٹی بات ہے اس بات کے لئے کوئی
بھی صحیح حدیث نہیں ہے، اسی طرح رجب میں غسل کرنے کی جو فضیلت بیان کی گئی وہ بھی
جھوٹی بات ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسلام میں شب معراج کے تعلق
سے کسی قسم کی کوئی مخصوص نماز ، مخصوص روزہ اور مخصوص غسل ثابت نہیں ہے۔ اور
واقعہ معراج تو برحق ہے مگر معراج کس رات ہوئی اس بات کا ٹھوس ثبوت نہیں ہے۔ جو
لوگ 27 رجب کو شب معراج کہتے ہیں، ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ اگر تھوڑی دیر کے
لئے 27رجب کو معراج کی بات مان بھی لیں تو اس رات اس قسم کی بدعات و خرافات انجام
دینے کی قطعا اجازت نہیں ہے۔
اس جگہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک
فرمان سنانا چاہتا ہوں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹ منسوب کرنے والے کو
اللہ کا ڈر اور خوف ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لا تكذبوا علي، فإنه من كذب علي يلج في
النار(سنن الترمذی: 2660، صححہ البانی)
ترجمہ: مجھ پر جھوٹ نہ باندھو کیونکہ مجھ
پر جھوٹ باندھنے والا جہنم میں داخل ہو گا۔
مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتا ہے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور یہاں پر یہ
بات بھی آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ ہمارے لیے صرف قرآن اور حدیث ہی دلیل ہے، جو
نماز، روزہ اور دیگر عبادت قرآن و حدیث سے ثابت ہے اسی پر عمل کیا جائے گا اور جس
کا کوئی ثبوت نہیں ہے اس پر عمل نہیں کیا جائے گا کیونکہ دین میں ہر نئی ایجاد بدعت ہے اورہر بدعت گمراہی
ہے اورہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔
سوال: کسی نے کہا ہے کہ اگر
کوئی شخص اعلی کا لفظ انسانوں کے لئے استعمال کرے گا تو غیر مناسب اور شرعا غلط
ہوگا، کیا یہ بات درست ہے؟
جواب:اللہ رب العالمین کے متعدد ایسے صفاتی
نام ہیں جن میں سے بعض کا استعمال مخلوق کے لئے بھی ہوتا ہے۔ متعدد مثالیں قرآن
میں اور احادیث کے اندر موجود ہیں جیسے اللہ تعالی نے مصر کے بادشاہ کی بیوی کے
لیے امراۃ العزیز کہا جبکہ العزیز اللہ کے صفاتی نام میں سے ہے بلکہ سورہ توبہ میں
اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے عزیز، رؤف اور رحیم کا استعمال کیا
ہے۔ اسی لحاظ سے عظیم، کریم، اکرم اور اعلی بھی انسانوں کے لیے استعمال کئے جاتے
ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اس میں شرعی مسئلہ یہ ہے کہ مخلوق کبھی کسی
صفت میں اللہ کے برابر نہیں ہو سکتی ہے۔ مخلوق کے لیے کسی لفظ کا استعمال مخلوق کے
حساب سے ہے جبکہ اللہ کے صفاتی نام اللہ کی شان کے حساب سے ہیں۔
سوال: میرے بھائی اہلِ حدیث
علماء سے نفرت کرتے ہیں اور ان کو جاہل کہتے ہیں۔ ان کی نفرت دن بہ دن بڑھتی جا
رہی ہے جو میرے برداشت سے بالکل باہر جارہا ہے۔ میں ان سے صرف سلام تک بات کرنا
چاہتی ہوں، اس سے زیادہ نہیں، کیا یہ صحیح ہوگا الولاء والبراء کے اصول کے مطابق؟
جواب:برا سے برا سلوک کرنے والے انسان کے
ساتھ اپنا کردار بلند رکھنا چاہیے۔ اسی بلند کردار
سے سامنے والے کا دل جیتا جاتا ہے اور اس
کو ایک نہ ایک دن احساس ہوجاتا ہے۔آپ اپنے بھائی سے خونی اور ایمانی رشتہ ضرور
نبھائیں، صبر سے کام لیں اور آپ کا جو اپنا حق ہے اس کے لیے ادا کریں اور وہ جب
بدزبانی اور علماء کے بارے میں بدکلامی کرے اس وقت آپ نرمی اور شفقت سے دلیل کی روشنی میں بتا دیں
کہ کسی مسلمان کو گالی دینا کس قدر گناہ کا باعث ہے۔قرآن و حدیث سے چند دلائل آپ
کے لئے پیش کر رہا ہوں۔
(1)اللہ تعالی کا
فرمان ہے:
وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَلَا
تَنَابَزُوْابِالْاَلْقَابِ بِءْسَ الاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ.(12:49)
ترجمہ: اور اپنے لوگوں پر الزام نہ لگاؤ
اورنہ ایک دوسرے کو برے القاب دو ، ایمان کے بعد تو فسق کا نام ہی برا ہے۔
(2)حضرت عبد اللہ بن
مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
مسلمان کو گالی دینا فسق ہے، اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔(صحیح البخاری:6044)
(3)نبی اکرم ﷺ نے
گالی گلوچ کو منافق کی نشانی قرار دیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے
روایت کی، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چار عادتیں
ہیں جس میں وہ (چاروں) ہوں گی، وہ خالص منافق ہو گا اور جس کسی میں ان میں سے ایک
عادت ہو گی تو اس میں نفاق کی ایک عادت ہو گی یہاں تک کہ اس سے باز آجائے۔ (وہ چار
یہ ہیں:) جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور جب معاہدہ کرے تو توڑ ڈالے، جب وعدہ کرے تو
وعدہ خلافی کرے اور جب جھگڑا کرے تو گالی دے۔(صحیح مسلم:58)
(4)ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہوتا ہے؟
صحابہ نے جواب دیا: ہم میں سے مفلس وہ ہے جس کے پاس کوئی روپیہ پیسہ اور ساز و
سامان نہ ہو۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز،
روزہ اور زکوۃ جیسے اعمال لے کر آئے گا۔ تاہم اس نے کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر
تہمت دھری ہو گی، کسی کا مال (ناحق) کھایا ہو گا اور کسی کا خون بہایا ہو گا اور
کسی کو مارا ہو گا۔چنانچہ اس کی نیکیاں ان لوگوں کو دے دی جائیں گی اور اگر اس کی
نیکیاں ختم ہو گئیں اور اس پر واجب الاداء حقوق ابھی باقی رہے تو ان لوگوں کے گناہ
لے کر اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے اور پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے
گا۔(صحیح مسلم:2581)
سوال:کیا ہم نامحرم کے لئے
دعا کرسکتے ہیں جیسے اپنے بچپن کے دوست، ہم جماعت یا رشتہ دار بھائی کے لئے مثلاً
ان کی عافیت، ہدایت اور سلامتی کی دعا؟
جواب:دعا کا باب بہت وسیع ہے، کوئی بھی
مسلمان کسی کے لئے بھی دعا کرسکتا ہے اور عورت بھی کسی بھی مسلمان کے لئے دعا
کرسکتی ہے خواہ وہ محرم ہو یا غیرمحرم ہو۔ دعا کے مسئلہ میں کوئی حرج کی بات نہیں
ہے۔اپنے مسلمان بھائی کے لیے غائبانہ طور پر دعا کرنا بڑی فضیلت کی بات ہے اس پر
فرشتے آمین کہتے ہیں۔ام الدرادء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں مجھ سے میرے شوہر
ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کو فرماتے سنا: جب کوئی اپنے بھائی کے لیے غائبانہ میں دعا کرتا ہے تو فرشتے آمین
کہتے ہیں اور کہتے ہیں: تیرے لیے بھی اسی جیسا ہو۔(ابوداؤد:1534)
لہذا آپ اپنے تمام رشتہ دار ، غیر رشتہ دار
اور ملنے جلنے والے سبھی لوگوں کی عافیت، ہدایت اور سلامتی کے لیے دعا کرسکتے ہیں۔
سوال:اللہ کے رسول صلی اللہ
علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد آپ کی کتنی ازواج مطہرات باحیات تھیں اور کون سی
زوجہ محترمہ دین کی تبلیغ کے لیے باہر نکلیں اور اللہ کے دین کو پہنچانے کے لئے
شہروں اور ملکوں کے دورے کئے کیونکہ دین کی اصل تو ان کے پاس تھی،کیا ہمارے لئے
کوئی مثال ہے؟
جواب:جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی
وفات ہوئی اس وقت آپ کی نو بیویاں باحیات تھیں جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔
سودة بنت زمعة وعائشة بنت أبي بكر الصديق،
وحفصة بنت عمر بن الخطاب، وأم سلمة هند بنت أبي أمية، وزينب بنت جحش، وأم حبيبة
رملة بنت أبي سفسان وجويرية بنت الحارث، وصفية بنت حيي، وميمونة بنت الحارث رضي
الله عنهن۔
جہاں تک مسئلہ ہے ان سب کا تبلیغ کے لیے
گھروں سے نکلنا کا تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ تبلیغ کی ذمہ داری اللہ تعالی نے
مردوں کے کندھوں پر ڈالی ہے اسی لیے جتنے بھی نبی اور رسول آئے سب مردوں میں آئے۔
آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی مرد ہی تھے اور آپ مرد وعورت دونوں طبقوں
میں تبلیغ کرتے تھے۔ ایک مرتبہ عورتوں نے آپ سے شکایت کی کہ آپ مردوں کو تعلیم کے
لئے زیادہ وقت دیتے ہیں، ہم عورتوں کی تعلیم کے لئے بھی وقت دیں تو آپ نے عورتوں کی تعلیم کے لئے ایک دن متعین کر دی، اس دن آپ
نے عورتوں کو بھی نصیحت فرمائی۔
عورتوں کا اصل کام گھریلو ذمہ داری ہے اسی
لئے اللہ نے عورتوں کو اپنے گھروں کو لازم پکڑنے کے لیے حکم دیا ہے۔ نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بڑی عالمہ فاضلہ تھیں
مگر گھر سے نکل کر تبلیغ کرنے نہیں جاتیں، لوگ خود ہی چل کر آپ کے پاس آیا کرتے
اور پردہ کے پیچھے سے مسائل دریافت کرتے۔
اور یہ بات درست نہیں ہے کہ اصل دین نبی کی
بیویوں کے پاس تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوری امت کے رہبر بن کر آئے تھے اور دین
کی تبلیغ سب کے درمیان یکساں کرتے بلکہ اکثر تعلیم تو مردوں کو دی جاتی۔ مسجد نبوی
میں خصوصی طور پر مرد حضرات تعلیم حاصل کرتے جنہیں اصحاب صفہ کہا جاتا ہےاور وفود
کی شکل میں نبی ﷺ کےپاس عموما مرد حضرات آیا کرتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ
حدیث پانچ ہزار کے قریب ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے جو ایک مرد ہیں
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سب سے زیادہ حدیث سیدہ عائشہ سے مروی ہے،
حدیث کی تعداد 2210 ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورت دعوت و تبلیغ نہیں کرسکتی
ہے۔ وہ اپنے گھر میں اور قرب و جوار میں شرعی حدود میں رہ کر دعوت کا کام کرسکتی
ہے مگر اس کے لیے شہر در شہر تبلیغ کے لیے سفر کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ ذمہ
داری اللہ تعالی نے اس کے کندھے پر نہیں ڈالی ہے۔
سوال: ایک بھائی کا سوال ہے
کہ ویزا اور ٹکٹ بنانے کے لئے پیسے کی سخت ضرورت پڑنے پراس نے اپنے جاننے والے سے قرض کے طور پر 60000روپئے
لئے۔ اس بھائی کا کام نہیں ہوا تووہ واپس اپنے ملک آگئے۔ بعد میں اسے معلوم ہوا کہ
جس سے قرض لیا تھا وہ اکثر بینک سے لون لیکر بزنس کرتا ہے۔ کیا ان کا یہ پیسہ حرام
ہے، وہ بھائی بہت پریشان ہے، قرض لیکر رہنمائی فرمائیں؟
جواب: جس نے قرض لیا ہے اس کا مسئلہ نہیں
ہے، وہ اپنا قرض واپس کردے۔ جو بنک سے لون لیتا ہے وہ ایک طرح سے سودی قرض لیتا ہے
، یہ جائز نہیں ہے۔ ایسے بندے کو اس کام سے منع کیا جائے گااوراگر وہ اپنے اس سودی کام سے باز نہیں آتا ہے تو آئندہ اس سے اس طرح
کا معاملہ دوبارہ کرنے سے پرہیز کیا جائے۔
سوال: ایک آدمی نے طواف کیا،
پھر صفا و مروہ چھوڑ دیا اور بال کٹایا ہے
اور احرام نکال دیا ہے۔ اسے کیا کرنا ہے، وہ نیا آدمی تھا اسے معلوم نہیں تھا اسے
کیا کرنا ہے، واپس صفا ومروہ کرنا ہے یا سارا عمرہ کرنا ہے؟
جواب: اسےاسی وقت فورا احرام کا لباس لگالینا ہے اور حرم جاکر صرف
صفا و مروہ کی سعی کرنا ہے کیونکہ یہ عمرہ میں رکن ہے، اسے چھوڑ دینے سے عمرہ ہی
نہیں ہوگا۔ مکمل عمرہ نہیں کرنا ہے بس صفا و مروہ کی سعی کرنا ہے پھر مکمل سر سے
اپنا بال دوبارہ چھوٹا کرنا ہے، ایسا کر لینے سے اس کا عمرہ پورا جائے گا اور اس
کے اوپر کچھ دم وغیرہ نہیں ہوگا۔
سوال: ایک لڑکا طلاق شدہ
خاتون سے نیک ارداے سے نکاح کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے والدین رضامند نہیں ہیں
البتہ لڑکی کے والدین راضی ہیں کیا اس لڑکے کو نکاح کرنا چاہئے اور یہ جائز ہوگا؟
جواب: اس میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ نکاح
اپنی جگہ جائز و درست ہے ۔ لڑکی کے ولی کی رضامندی کے ساتھ یہ نکاح کرنا درست ہے ۔
نبی ﷺ کی زندگی میں اس طرح کی شادی کا نمونہ موجود ہے۔ کوشش کی جائے گی کہ لڑکے کے
والدین بھی راضی ہو جائیں تو بہتر ہے تاکہ سب کی خوشی کے ساتھ خوشگوار ماحول میں
شادی ہو۔ ویسے لڑکا اپنی شادی میں خود مختار ہوتا ہے اسے کسی کی رضامندی کی ضرورت
نہیں ہے۔
سوال: شوہر ایک سال سے سعودی
عرب میں رہتا ہے اور وہ اپنی بیوی کو تین/چار مہینوں کے لئے اپنے پاس بلا رہا ہے
لیکن بیوی ناراضگی اور ضد کی وجہ سے انکار کررہی ہے۔ شوہر تین/چار مہینوں سے سمجھا
رہا ہے لیکن وہ شوہر کی بات نہیں مان رہی ہے اور اس کے علاؤہ بھی شوہر کی اکثر
نافرمانیاں کرتی ہے تو کیا ایسی صورت میں بیوی اس حدیث کے مصداق بنے گی جس میں کہا
گیا کہ اگر شوہر اپنی ضرورت کے لئے رات میں بیوی کو بلائے اور وہ نہیں آتی ہو تو
صبح ہونے تک فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں اور وہ بھائی یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ
اگر بیوی کو ہرطرح سمجھانے کے باوجود بھی نہیں آتی ہو تو کیا میں دوسرا نکاح
کرلوں؟
جواب: سوال میں جس حدیث کی بات کی گئی ہے
وہ حدیث بیوی پر صادق نہیں آتی ہے، اس معاملہ میں بیوی خطاکار نہیں ہے بلکہ شوہر
خطاکار ہے۔ شوہر کو بیوی کی ضرورت ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ بیوی کے پاس اپنے ملک
جائے، بیوی تو اپنے گھر موجود ہے ، اس سے اس کا شوہر دور ہے۔ دیکھا جائے تو شوہر
بیوی کی اجازت کے بغیر وہ خود بھی سعودی
میں نہیں رہ سکتا ہے، شوہر کا فرض بیوی کے پاس رات گزارنا ہے الا یہ کہ وہ کہیں
جانے کی اجازت دیدے۔ لہذا اس معاملہ میں بیوی نہیں شوہر خطا پر۔وہ لڑکا اپنے ملک
جاکر پہلے وہاں آپس میں یہ طے کرے کہ میاں بیوی ایک ساتھ سعودی عرب میں رہیں گے تو
کوئی مسئلہ نہیں ہےاور پھربیوی کو سعودی عرب لے کر آنا شوہر کی ذمہ داری ہے کیونکہ
سفر میں عورت کا محرم چاہئے۔
دوسری شادی کا مسئلہ یہ ہے کہ ایک مرد
دوسری شادی کرسکتا ہے مگر دوسری شادی کے لئے اس میں واجبی شروط ہونے چاہئے۔وہ جنسی
طور پر دو عورتوں کی طاقت رکھتا ہو، دونوں کو کھلانے کی طاقت رکھتا ہو اور وہ
دونوں میں عدل و انصاف بھی کرسکے تو دوسری شادی کرسکتا ہے۔
سوال: جب ہم حنفی کو ایک سفر
میں بار بار عمرہ کرنے سے منع کرتے ہیں تو وہ حدیث سے دلیل مانگتے ہیں جب کہ وہ
سلفی علماء کے فتاوے نہیں مانتے، ایسے میں ہم انہیں کیا جواب دیں؟
جواب: اس سلسلے میں سب سے بڑی اور اہم دلیل
قرآن مجید کی یہ آیت ہے۔
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ
أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ
اللَّهَ كَثِيرًا (الاحزاب:21)
ترجمہ:یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں
عمدہ نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی قیامت کے دن کی توقع
رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے۔
قرآن کی اس آیت کی روشنی میں نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمارے لئے ہر موڑ پر نمونہ ہے، حج و عمرہ کے بارے میں بھی
لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح حج اور عمرہ کیا ہے ہمیں بھی اسی طرح حج
عمرہ کرنا چاہیے بلکہ خصوصیت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعلیم بھی دی
ہے کہ حج اور عمرے کی تعلیم مجھ سے سیکھوچنانچہ آپ ﷺ فرماتے ہیں:
يا أَيُّها الناسُ خُذُوا عَنِّي مناسكَكم،
فإني لا أَدْرِي لَعَلِّي لا أَحُجُّ بعد عامي هذا( صحيح الجامع:7882)
ترجمہ: اے لوگو! مجھ سے حج و عمرہ کا طریقہ
سیکھ لو کیونکہ مجھے نہیں معلوم شاید اپنے اس حج کے بعد دوبارہ حج نہ کرسکوں۔
نیز قرآن کی وہ ساری آیات بھی دلیل ہیں جن
میں ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ ساتھ ہی سلف صالحین یعنی صحابہ
کرام کی زندگی بھی ہمارے سامنے ہونا چاہیے کیونکہ ہم سنت رسول پر منہج سلف کے
مطابق عمل کرتے ہیں۔ جب ہم اس مسئلہ میں نبی ﷺ کے بعد اپنے اسلاف کی زندگی دیکھتے ہیں تومعلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بھی ایک سفر میں ایک عمرہ کیا، بار بار عمرہ نہیں کیا۔
سوال: نفلی طواف کے دوران
احرام باندھ سکتے ہیں یا نہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ اِحرام باندھ کر طواف کیا جائے
تو عمرہ واجب ہو جاتا ہے، کیا یہ بات درست ہے؟
جواب: ان دونوں حکومت نے بغیر عمرہ کے نیچے
مطاف میں طواف کرنے پر پابندی لگا رکھی ہے اس وجہ سے لوگ احرام کا لباس لگا کر
طواف کرتے ہیں۔ معلوم رہے کہ جو لوگ صرف طواف کے لئے احرام کا لباس لگاتے ہیں وہ
سعودی انتظامیہ کمیٹی کو دھوکہ دیتے ہیں اور اللہ کو بھی دھوکہ دیتے ہیں۔ حکومت نے
لوگوں کی حفاظت کے لئے ایسا نظام بنایا ہے لہذا ہمیں حکومت کے نظام کی پابندی کرنی
چاہیے اور دھوکہ دینے سے پرہیز کرناچاہے ۔ اور جس کسی کو بغیر عمرہ کے طواف کرنا
ہو وہ اوپر چھت پر طواف کرے،اس کی اجازت ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ احرام کا لباس لگانے کو
احرام باندھنا نہیں کہتے ہیں، اسے صرف لباس لگانا کہتے ہیں۔ احرام حج و عمرہ کی
نیت کا نام ہے اور فقط احرام کا لباس لگالینے سے عمرہ واجب نہیں ہوتا ہے۔
سوال: جیسا کہ ہم جانتے ہیں
کہ ابرو بنانا حرام ہے لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اسلامک ابرو بھی ہوتا
ہے جس میں پلکنگ کی وجہ سے
جو اضافی بال ہوتے ہیں، بس اس کو کاٹا جاتا ہے اور کوئی شکل نہیں بنائی جاتی۔ کیا
اسلام میں اسلامی ابرو کا کوئی نظریہ ہے؟
جواب: اسلام میں اسلامک ابرو کا کوئی نظریہ
نہیں ہے، یہ لوگوں میں پھیلاہوا غلط نظریہ
ہے۔ جب اسلام میں ابرو بنانے کی اجازت نہیں ہے تو پھر اسلامک ابرو کہنا جہالت کی
بات ہے۔ اگر ہزاروں لاکھوں میں کسی ایک لڑکی کے ابرو کے بال تکلیف دہ یا عیب کی حد
تک بڑھ جائیں تو عیب دور کرنے کی حد تک بال کاٹ لینے میں حرج نہیں ہے اور اس کو اسلامک
ابرو نہیں کہا جائے گا۔
سوال: پچھلے سال میں حاملہ
تھی اور میری طبیعت اچھی نہیں تھی جس کی وجہ سے ڈاکٹر نے روزہ رکھنے سے منع کر دیا
تھا۔ نومبر میں، میں نے بیٹی کو جنم دیا اور دسمبر کے آخر میں نماز پڑھنا شروع کیا
پھر دس پندرہ دن کے بعد حیض آگیا ۔اب کیا مجھے چھوٹے ہوئے چوبیس روزے قضا کرنا
ضروری ہے جبکہ روزہ رکھتے ہوئے رمضان بھی آجائے گا پھر رمضان کے بھی روزے رکھنے
پڑیں گے۔ میں نے بچی کو صرف ماں کے دودھ پر رکھا ہے اور ساتھ ہی جاب سے تین مہینے
کی چھٹی کے بعد اب وہ بھی شروع کرنے جا رہی ہوں۔ کیا سارے روزے ابھی ہی رکھنے
چاہیے یا تھوڑا تھوڑا کرکے رمضان بعد بھی رکھ سکتے ہیں کیونکہ شاید رمضان میں بھی
کچھ روزے چھوٹ جائیں؟
جواب: پچھلے رمضان کے جو روزے چھوٹے ہوئے
ہیں ان روزوں کی قضا کرنی ہے اور اپنی آسانی کے حساب سے قضا کرتے رہنا ہے۔ قضا
کرتے ہوئے جو روزے بچ جائیں وہ رمضان کے بعد قضا کر لے اور اس رمضان میں بھی جو
روزے عذر کی وجہ سے چھوٹ جائیں وہ بھی رمضان کے بعد ایک ساتھ ملاکر قضا کرلے۔
حاملہ اور مرضعہ بیمار کے مانند ہیں کہ جب
ان کو روزہ رکھنے میں پریشانی ہو روزہ چھوڑ دے اور جب آسانی ہو، چھوٹے ہوئے روزوں
کی قضا کرلے۔ قضا میں تاخیر ہونے پر کوئی مسئلہ نہیں ہے اور اس پر کوئی فدیہ نہیں
دینا ہے۔
سوال: دن میں دو مرتبہ ضدی
بچوں پر گیارہ مرتبہ پڑھ کر دم کر دیں۔
الله يجتبي اليه من يشاء. (الشوربة:13)ترجمہ: اللہ جس کو چاہتا ہے چن کر اپنی طرف
کھینچ لیتا ہے۔فائدہ: سب سے بڑا عمل اللہ تعالی سے مستقل دعائیں مانگتے رہنا ہے۔۔۔۔کیا
یہ ضدی بچوں کے لیے وظیفہ ہے؟
جواب: قرآن کی ایک آیت کو اپنی مرضی سے ضدی
بچے کا وظیفہ ٹھہرا لیا گیا ہے، قرآن یا حدیث میں کہیں پر بھی اسے ضدی بچے کا
وظیفہ نہیں بتایا گیا ہے۔ نہ ہی اس بات کی کوئی دلیل ہے کہ اسے گیارہ مرتبہ پڑھ کر بچے پر دم کیا جائے گا۔شریعت کا
اصول ہے کہ جو کام اللہ اور اس کے رسول نے نہیں بتایا ہے اگر کوئی ایسا کام کرتا
ہے تو وہ بدعت ہے۔ لہذا ضدی بچوں کے واسطے قرآن کی اس آیت کو 11 مرتبہ پڑھنے کا
عمل کرنا بدعتی عمل ہے۔
آپ
کو معلوم ہونا چاہیے کہ دیوبندی اور بریلوی دونوں بدعتی فرقے ہیں۔ یہ لوگ اپنی
مرضی سے دین میں نئی نئی باتیں ایجاد کرتے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کے یہاں وظیفہ کے
نام پر دکانداری چلتی ہے، وہاں ہر کام کا الگ الگ آپ کو وظیفہ مل جائے گا بلکہ اگر
کسی کام کا وظیفہ نہیں بھی موجود ہے تب بھی آپ جس کام کا وظیفہ کہیں گے بدعتی فورا
آپ کو اس کام کا وظیفہ بناکر دے دے گا۔ اس قسم کے مجرب وظیفہ کی شرعی حیثیت کو
تفصیل سے جاننے کے لیے میرے بلاگ پر "مجرب وظیفہ کی شرعی حیثیت" کا
مطالعہ کریں۔
سوال: میرے والد صاحب کا
انتقال ہوگیا ہے اور والدہ نے ابھی ذکر کیا کہ زندگی میں ایک مرتبہ نشہ کی حالت
میں انہوں نے تین مرتبہ طلاق دے دیا تھا اور اس بات کا گھرمیں کسی کوعلم نہیں ہے ۔ایک مفتی سے پوچھا گیا تھا تو انہوں نے
کہا تھا کہ طلاق نہیں ہوئی ہے اس بارے میں آپ رہنمائی کر دیں؟
جواب: سب سے پہلے اللہ رب العالمین سے ان
کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں، اللہ تعالی ان کی بشری لغزشوں کو معاف فرمائے اور جنت
الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جب والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے پھر اس مسئلے پر
فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے پھربھی اس بارے میں شرعی مسئلہ یہ ہے کہ نشے کی
حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے لیکن نشہ ایسا ہو کہ اس وقت انسان اپنے
ہوش و حواس میں نہ ہو تو ایسی صورت میں بیوی کو طلاق دینے سے واقع نہیں ہوتی ہے۔
سوال: اگر کوئی شخص سودی قرض
لیتا ہے، اور اس قرض سے کوئی حلال کاروبار
کرتا ہےتو کیا اس کاروبار سے حاصل ہونے والی کمائی حرام ہوگی جبکہ وہ شخص اب توبہ کرتا ہے اور پختہ ارادہ کرتا ہے
کہ دوبارہ وہ ان معاملات میں نہیں پڑے گا؟
جواب:اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سودی قرضہ
لینا سود پر تعاون اور سودی معاملہ ہے اس وجہ سے یہ ناجائز ہے۔ جس نے تجارت کے لئے
سودی قرض لیا وہ اللہ رب العالمین سے سچی توبہ کرے، اللہ توبہ قبول کرنے والا
ہے۔جہاں تک اس کے کاروبار کا مسئلہ ہے۔ اس کا کاروبار اگر حلال چیزوں پر مبنی ہے
اور حلال طریقے سےکاروبار کر رہا ہے تو اس
کی آمدنی جائز و حلال ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔