﷽
آپ کے سوالات اوران کے جوابات(43)
جواب از : شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ - سعودی عرب
سوال:تقریبا چار تولے سونا
ہو اور بنک میں بھی ساڑھے چار لاکھ روپیہ پڑا ہو لیکن اس میں سے استعمال بھی ہوتا
ہو تو کیا ان پر ملا کر زکوۃ ہوگی؟
جواب:یہ بات تو طے ہے کہ جب سونے کا نصاب نہ پورا ہوتا
ہو اور نقدی بھی موجود ہوتو اس کو سونے کے ساتھ ملاکر دیکھاکر دیکھا جائے گا۔ اگر
دونوں ملاکرنصاب پورا ہوجائے اوردونوں پرسال بھی پورا ہوگیاہوتو اس کی زکوۃ ادا
کرنی ہوگی۔ یہاں پر دوسری بات یہ ہے کہ گھر میں عام طور سے سونا عورت کے پاس ہوتا
ہے اور بنک کا پیسہ مرد کا ہوگا۔ اگر صورت حال یہ ہے کہ سونا عورت کا ہے جو نصاب
سے کم ہے اور بنک کا پیسہ مرد کا ہے تو پھر ان دونوں کو ملاکر زکوۃ نہیں دی جائے
گی کیونکہ سونے کا مالک کوئی ہے اور نقدی کا مالک کوئی اور ہے۔ جب ایک ہی آدمی کی
ملکیت میں دونوں چیزیں ہوں تب ان دونوں کو ملاکر زکوۃ دینی ہے۔
سوال: ہم روز سورہ بقرہ پڑھ رہے ہیں، اگر
کسی مصروفیت کی بنا کسی دن نہیں پڑھ سکے تو اسے اگلے
دن وہیں سے شروع کرکے ختم کریں یا شروع
سے پوری پڑھیں، واضح کردوں کہ تلاوت میں دن کا تعین نہیں ہے؟
جواب:روزانہ صرف سورہ بقرہ پڑھنا اور دوسری سورتوں کو
نہیں پڑھنا غلط ہے، ایسی تعلیم نبی ﷺ نے نہیں دی ہے۔ آپ پورے قرآن سے تلاوت کریں۔
کبھی کبھار سورہ بقرہ پڑھ سکتے ہیں ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے اورکبھی سورہ بقرہ
پڑھتے ہوئے کچھ حصہ رہ جائے تو اگلے دن اس سے آگے تلاوت کریں جیسے تلاوت کا طریقہ
ہے۔
سوال: ایک حاملہ عورت ہے دو ماہ کا، اس
کے شوہر نے تین بار نام لے کر طلاق دی تو کیا اس سے طلاق واقع ہوگئی کیونکہ وہ
عورت مان نہیں رہی ہے جبکہ آدمی نے میرے سامنے طلاق دی ہے؟
جواب:حمل کی حالت میں طلاق واقع ہوجاتی ہے کیونکہ اللہ
تعالی نے قرآن میں حمل کی عدت بیان کی ہے، اس صورت میں شوہر نے جو تین بار اپنی
بیوی کو طلاق دیا ہے اس سے ایک طلاق واقع ہوجائے گی۔ اگر بیوی نہیں مان رہی ہے تو
اس صورت میں میاں بیوی دونوں کو ایک ساتھ عالم کی موجودگی میں حاضر کرکے اور
معاملہ کی تحقیق کرکے عالم سے فتوی لینا چاہئے۔نزاع اور اختلاف کی صورت میں معاملہ
کی تحقیق ضروری ہے۔
سوال: میری بہن اپنی فیملی کے ساتھ عمرہ
کرنے گئی ہوئی ہے۔ اس کے بچے چھوٹے چھوٹے بھی ہیں۔ وہ اپنا صابن لے کر گئی تھی
لیکن مسجد الحرام میں بچے کو حمام لے جانا پڑا تو جلدی میں وہاں جو انتظامیہ کی
طرف سے صابن رکھا ہوتا ہے وہی استعمال کرلیا اس میں خوشبو تھی، بھول سے ایسا ہوا
تو کیا دم لازم ہوگیا؟
جواب: بھول کر احرام کی حالت میں خوشبو استعمال کرنے سے
کوئی مسئلہ نہیں ہے، اس صورت میں اس پر کچھ بھی نہیں ہے اور کوئی دم اسے نہیں دینا
ہے۔
سوال: ایک عورت اپنے چھوٹے ہوئے روزے رکھ
رہی ہے،کیا وہ رجب میں بھی جاری رکھ سکتی ہے؟
جواب:ہاں ، بالکل۔ ایک عورت رجب میں بھی چھوٹے ہوئے فرض
روزے رکھ سکتی ہے کیونکہ رجب میں روزہ رکھنے کی کوئی ممانعت نہیں ہے ۔رمضان کا
چھوٹا ہوا روزہ اگلے رمضان سے پہلے تک کبھی بھی رکھ سکتے ہیں ۔
سوال: عورت كو كفنانے کے بعد خوشبو کے
استعمال کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب:میت خواہ مرد ہو یا عورت اس کو غسل کے وقت بھی
خوشبو لگانا چاہئے اور کفن پہناتے وقت بھی۔ غسل کے وقت غسل کے پانی میں آخری بار
کافور کا استعمال کیا جائے تاکہ میت کا بدن خوشبو دار ہوجائے اور غسل کے بعد بھی
میت کے جسم کو خوشبو لگائی جائے جیساکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے:إذا
أجْمرْتُمْ الميِّتَ، فأجْمِرُوهُ ثلاثًا(صحيح الجامع:278)
ترجمہ:جب تم ميت كو خوشبو كى دھونى دو تو اسے تين بار
دھونى دو۔
٭ یہ مسند احمد (14580)کی روایت ہے، اسے شیخ البانی نے
صحیح ہے، حوالہ سابق پر دیکھ سکتے ہیں۔
بیہقی (3/568) میں یہ الفاظ ہیں: جَمِّرُوا كَفَنَ
الْمَيِّتِ ثَلاثًا۔ یعنی ميت كے كفن كو تين بار دھونى دو۔
٭امام نووی نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔(
المجموع للنووي:5/196)
ان دونوں احادیث کی روشنی میں میت کو کفن پہناتے وقت
کفن کو دھونی دیدیں یا پھر میت کے جسم پر خوشبو لگا دیں خصوصا سجدہ کرنے والے
اعضاء پر یا عطر کا گالا بناکر میت کی رانوں، سرینوں ، سر، آنکھ ، ناک ، کان، منہ،
پیشانی، داڑھی، ہاتھ، پیر، گھنٹہ ، بغل اور ناف وغیرہ میں رکھ دئے جائیں۔
بہرکیف! میت عورت ہو یا مرد ، کفن پہناتے وقت اسے خوشبو
لگانا چاہئے۔
سوال: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح
بیدار ہونے کے بعد ناک جھاڑنے کا ہمیں حکم دیا ہے اس سے متعلق معلوم کرنا تھا کہ
جب عورت کو حیض کی حالت میں نماز نہیں پڑھنی ہو لیکن صبح جاگنا ہوتا ہے جیسے گھر
والوں کو نماز کے لئے جگانے کے واسطے تب ناک جھاڑیں گے؟
جواب:صحیح مسلم میں ایک روایت اس تعلق سے آتی ہے، عیسیٰ
بن طلحہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:
إِذَا اسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِن مَنَامِهِ
فَلْيَسْتَنْثِرْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ؛ فإنَّ الشَّيْطَانَ يَبِيتُ علَى
خَيَاشِيمِهِ(صحیح مسلم:238)
ترجمہ:جب تم میں سے کوئی نیند سے بیدار ہو تو تین ناک
جھاڑے، شیطان اس کی ناک کے بانسوں پر رات گزارتا ہے۔
اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آدمی جب صبح اٹھے
تو تین بار ناک جھاڑے مگر یہی روایت صحیح بخاری میں وضو سے متعلق وارد ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
إذا اسْتَيْقَظَ -أُراهُ- أحَدُكُمْ مِن مَنامِهِ
فَتَوَضَّأَ، فَلْيَسْتَنْثِرْ ثَلاثًا؛ فإنَّ الشَّيْطانَ يَبِيتُ علَى
خَيْشُومِهِ(صحيح البخاري:3295)
ترجمہ:جب کوئی شخص سو کر اٹھے اور پھر وضو کرے تو تین
مرتبہ ناک جھاڑے کیونکہ شیطان رات بھر اس کی ناک کے نتھنے پر بیٹھا رہتا ہے۔
ان دونوں حادیث کی روشنی میں اہل علم نے یہ کہا ہے کہ
چونکہ ناک جھاڑنے کی علت یہ ہے کہ اس سے شیطان کے اثرات زائل ہوتے ہیں لہذا صبح
اٹھنے پر ضرور ناک جھاڑنا چاہئے تاکہ شیطان کے اثرات زائل ہوجائیں لہذا جو نماز کے
کئے وضو کریں گے وہ لامحالہ ناک جھاڑیں گے لیکن جن کو وضو نہیں کرنا ہے جیسے حائضہ
اور نفساء تو وہ صبح اٹھنے پر ضرور ناک جھاڑ لیا کریں تاکہ جو حکمت بیان کی گئی ہے
وہ حاصل ہو۔
بہرکیف! اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ وضو میں ناک
جھاڑنا واجب ہے لیکن اہل علم میں اس بات میں اختلاف ہے کہ صبح اٹھنے پر بغیر وضو
کے ناک جھاڑنا واجب ہے یا مستحب تاہم اتنا ضرور ہے کہ ہر کسی کو صبح اٹھنے پرتین
مرتبہ ناک جھاڑنا چاہئے اس کی مشروعیت میں کوئی کلام نہیں ہے۔
سوال:پیلا یرقان ہو جائے تو اس کے لئے
نیم کے پتوں سے جھاڑا جاتا ہے اور دم کیا جاتا ہے۔ ایک لکڑی پر گانٹھیں لگا کر اس
پر دم کر کے اس ہار کو مریض کو پہنایا جاتا ہے، کیا ایسے دم کروانا شرعاً جائز ہے؟
جواب:اسلام میں دم کا ایک خاص طریقہ ہے اس سے ہٹ کر اگر
دم کیا جائے تو وہ دم نہیں ہے۔شرعی دم یہ ہے کہ قرآنی آیات اور مسنون اذکار پڑھ کر
مریض پر براہ راست پھونکا جائے، یہ دم ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ نفع پہنچانے کی غرض سے گلے میں کچھ
لٹکانا شرک کے قبیل سے ہے اس لئے مذکورہ سوال میں علاج کے طور پر مریض کو جو ہار
پہنایا جاتا ہے اس کا استعمال جائز نہیں ہے، یہ شرکیہ عمل ہے، ایسے علاج سے پرہیز
کیا جائے۔
سوال:ترمذی 1939 حدیث کی روشنی میں کیا
ایک آ دمی اپنی بیوی کو منانے کے لیے جھوٹ بول سکتا ہے اور لوگوں کی صلح کرانے کے
لیے جھوٹ کا سہارا لینا صحیح ہے جس میں مذکور ہے کہ "صرف تین جگہ پر جھوٹ
جائز اور حلال ہے، ایک یہ کہ آدمی اپنی بیوی سے بات کرے تاکہ اس کو راضی کر لے،
دوسرا جنگ میں جھوٹ بولنا اور تیسرا لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے جھوٹ
بولنا“۔؟
جواب: اس حدیث کی روشنی میں دو آدمیوں کے درمیان صلح کی
غرض سے جھوٹ بولا جاسکتا ہے اور میاں بیوی کے درمیان بھی ناچاقی اور ناراضگی کو
دور کرنے کے لئے جھوٹ بولا جاسکتا ہے حتی کہ ایک شوہر اپنی ناراض بیوی کو منانے کے
لئے جھوٹ بول سکتا ہے تاکہ میاں بیوی کی زندگی میں دراڑ پیدا نہ ہو۔
سوال: کیا طلاق یافتہ کوبھی عدت بالکل
بیوہ کی طرح گزارنی پڑتی ہے یعنی زیب و زینت اختیار نہیں کرسکتی اور طلاق یافتہ
عورت عدت میں کیا کیا کرسکتی ہے اور کیا کیا نہیں کرسکتی اور جس کے شوہر کا انتقال
ہوا ہو وہ عدت میں آنلائن کلاس لے سکتی ہے، اس میں کبھی کبھی مائک اوپن کر کے
بولنا بھی پڑتا ہے تو کیا ایسے کلاس لے سکتی ہے؟
جواب:مطلقہ کے لئے عدت میں زیب و زینت منع نہیں ہے
کیونکہ مطلقہ کے لئے سوگ نہیں ہے، سوگ صرف شوہر کی وفات پر بیوی کے لئے ہے۔سوگ
والی عورت عدت کے دوران گھر میں رہتے ہوئے آنلائن کلاس لینا چاہے تو اس میں کوئی
حرج نہیں ہے حتی کہ اس میں کچھ بولنا اور بات چیت کرنا پڑے تو اس میں بھی کوئی حرج
نہیں ہے۔
عدت میں عورت کے لئے گھر سے نہیں نکلنا ہے، عدت میں
نکاح بھی منع ہے، باقی اس کے لئے کوئی چیز منع نہیں ہے۔
سوال: ایک خاتون جس تاریخ کو عمرہ کے لئے
سفر کرنا چاہتی ہے وہ حیض کی تاریخ ہے تو کیا وہ دوا کھاسکتی ہے اور کب سے دوا
کھاسکتی ہے، سنےہیں کہ بہت سے علماء اس سے منع کرتے ہیں؟
جواب:عام طور سے دوا کا نظام حیض پر برا اثر پڑتا ہے اس
لئےعورت حیض روکنے والی دوا نہ استعمال کرے تو بہتر ہے تاہم ڈاکٹر کے مشورہ سے
مانع حیض گولی کھائی جاسکتی ہےاس میں حرج
نہیں ہے۔اور جب سے دوا کھانا چاہے ، وہ کھاسکتی ہے، اس
میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
سوال: لڑکی کنواری ہے اس کے لئے ایک رشتہ
آیا ہے ، لڑکے کی پہلی شادی ہوچکی ہے اس کی بیوی نے خلع لیا ہے۔ لڑکے کے گھر والے
لڑکی کے گھر والوں سے رشتہ مانگ رہے ہیں، لڑکی بھی دیندار ہے اور لڑکا بھی
دیندارہے لیکن لڑکی کے گھر والے یہ کہہ کر مسئلہ کھڑا کررہے ہیں کہ لڑکے کی پہلے
شادی ہوچکی ہے اسے کنواری لڑکی کیسے دی جائے۔ آپ سے درخواست ہے کہ اس بارے میں
اچھی نصیحت کے ساتھ مسئلہ بتادیں تاکہ لڑکی کو بھی اور اس کے گھر والوں کو بھی
سمجھ آجائے؟
جواب:ہم شرعی مسئلہ بیان کرسکتے ہیں کہ کنواری لڑکی
بلاشبہ شادی شدہ لڑکا سے نکاح کرسکتی ہے اس میں شریعت کی نظر سے کوئی مسئلہ نہیں
ہے۔ اور جیسے کنواری لڑکی شادی شدہ لڑکے سے شادی کرسکتی ہے اسی طرح کنوارا لڑکا
بھی مطلقہ یا بیوہ عورت سے شادی کرسکتا ہے، اللہ نے شریعت میں یہ آسانی رکھی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو کائنات کی سب سے عظیم ہستی ہیں، آپ کی زندگی میں
ان دونوں باتوں کی عمدہ مثال ملتی ہے یعنی آپ نے کنواری لڑکی سے بھی شادی کی اور
جن کی شادی پہلے ہوچکی تھی، ان سے بھی شادی کی۔
بہرکیف! یہ دو خاندان کی رضامندی کا معاملہ ہے، اگر
دونوں راضی ہوکر لڑکااور لڑکی کی شادی کر دیتے ہیں تو شریعت کی نگاہ میں کوئی
مسئلہ نہیں ہے اور اگر کسی کا دل راضی نہ ہو رہا ہو تو اس میں کوئی جبر و اکراہ
نہیں ہونا چاہیے۔ویسے میرا مشورہ ہے کہ اگر لڑکا اور لڑکی دونوں دیندار ہوں اور
اخلاقی کمزوری نہ ہو تو اس رشتے کو منظور کرلینا چاہیے۔
سوال: معاشرے میں یہ بات بہت مشہور ہے کہ
اگر کسی نئی جگہ پر جائیں تو سب سے پہلے وہاں کی پیاز کھانا چاہیے، اس سے وہاں پر
موجود وائرس اور بیماریاں نہیں لگتیں اور اس بات کو حدیث سے منسوب کیا جاتا ہے ،
کیا یہ درست ہے؟
جواب:لوگوں میں ایک حدیث گردش کر رہی ہے۔حدیث اس طرح ہے
۔
قال رسول الله ( صلّى الله عليه وآله ) : إذا دخلتم بلادا
فكلوا من بصلها ، يطرد عنكم وباءها.(تفضيل وسائل الشيعة)
ترجمہ: حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: جب تم کسی شہر میں پہنچو
تو سب سے پہلے وہاں کی پیاز کھالوتو اس شہر کی بیماریاں تم سے دور رہیں گی ۔
شیعہ کے یہاں پیاز کی بڑی اہمیت ہے اس لئے پیاز پہ بہت
زور دیتے ہیں ، ان کے یہاں پیاز کو متعدد بیماریوں کا علاج بتایا گیا ہے ۔ان ہی
علاج میں سے ایک یہ علاج بھی ہے۔
یہ روایت حدیث کی کسی کتاب میں موجود نہیں ہے ، شیعہ کی
کتاب میں یہ روایت موجود ہے اور میں نے اوپر شیعہ کی کتاب کا حوالہ بھی دیا ہے ،
یہ کتاب نٹ پہ موجود ہے دیکھی جاسکتی ہے۔یہ قول حکیموں کی طرف بھی منسوب کیا جاتا
ہے ۔
اسلام میں پیاز کی فضیلت کے متعلق ایسی کوئی روایت نہیں
ملتی بلکہ صحیح احادیث سے پیاز کھانے کی
کراہت معلوم ہوتی ہے ۔
صحیح مسلم شریف میں حدیث پاک ہے: عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ
قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ
الشَّجَرَةِ فَلاَ يَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا وَلاَ يُؤْذِيَنَّا بِرِيحِ الثُّومِ ».
ترجمہ :حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضرت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص اس درخت سے کھائے وہ ہرگز
ہماری مسجد کے قریب نہ آئے اور لہسن کی بو سے ہم کو تکلیف نہ پہنچائے ۔﴿ صحیح مسلم
شریف ج 1، باب نھی من اکل ثومااو بصلا اوکراثا اونحوھا ،ص 209، حدیث نمبر: 1279﴾
مسلم شریف کی ایک دوسری روایت میں پیاز اور جنگلی پیاز
کی صراحت ہے : عَنْ جَابِرٍ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم-
عَنْ أَكْلِ الْبَصَلِ وَالْكُرَّاثِ.
ترجمہ : حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے
فرمایا: حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیاز اور جنگلی پیاز کھانے سے منع
فرمایا۔ (صحیح مسلم ج 1، باب نھی من اکل ثومااو بصلا اوکراثا اونحوھا ،ص 209،حدیث
نمبر: 1280) ۔
پیاز کی بالکلیہ ممانعت نہیں ہے ، مگر اس میں کراہت ہے
کیونکہ اس کے کھانے سے بو پیدا ہوتی ہے ۔ پکاکر کھانے میں کوئی حرج نہیں ۔
سوال: خواتین حیض کے دنوں میں جو کپڑے
استعمال کرتی ہیں کیا ان کو دھو کر پھینکنا چاہئے یا بغیر دھلے پھینکنا چاہئے۔ بڑے
لوگ کہتے ہیں کہ دھلے بغیر انہیں پھینکے تو قیامت کے دن انہیں کپڑوں کو پیپ بناکر
پلایا جائے گا ، کیا یہ بات درست ہے؟
جواب:میں ہمیشہ یہ بات بتاتا ہوں کہ جب بھی کوئی آپ سے
کسی بات کا دعوی کرے تو آپ اس سے دلیل مانگیں اور اگر دلیل نہ دے سکے تو آپ اسے
اللہ کا یہ فرمان سنائیں کہ اللہ تعالی نے حکم دیا ہے جس بات کا تمہیں علم نہیں ہے
اسے بیان مت کرو۔
دوسری بات یہ ہے کہ حیض میں پہنا ہوا کپڑا کوئی ضروری
نہیں ہے کہ اسے پھینک دیا جائے بلکہ وہ پہننے کے قابل ہو تو دھل کر اسے پہن سکتے
ہیں اور اگر پھینکنے کے قابل ہو تو پھینک بھی سکتے ہیں اور پھر پھینکنے کے لیے اسے
دھلنے کی ضرورت ہی نہیں ہے اور قیامت سے متعلق جو بات کہی گئی ہے، یہ سراسر جھوٹ
ہے۔ جس نے بھی ایسا جھوٹ بولا ہے اس کو بہت گناہ ملے گا کیونکہ اس نے ایسی بات
بولی جو اسلام میں کہیں ہے ہی نہیں۔
سوال: کیا یہ دعا میت کے لئے ثابت ہے؟
میت کی مغفرت کی دعا:اَللهُمَّ أَنْتَ رَبِّهَا،
وَأَنتَ خَلَقتها، وَأَنْتَ هَدَيْتَهَا لِلْإِسْلَامِ، وَأَنْتَ قَبَضْتَ
رُوحَهَا، وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِسِرِّهَا وَعَلَانِيَتِهَا، جِئْنَاكَ شُفَعَاءَ
فَاغْفِرْ لَهُ(سنن إبی داؤد. باب الدعاء للميت)
اے اللہ ! آپ اس کے پروردگار ہیں اور آپ نے اسے پیدا
کیا ہے اور آپ نے اس کو اسلام کا راستہ دکھایا اور آپ نے اس کی روح قبض کی اور آپ
اس کے ظاہر و باطن کو خوب جانتے ہیں، ہم
اس کی سفارش کے
لئے حاضر ہوئے ہیں، آپ اسے بخشش دیں۔
جواب:شیخ البانی نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا
ہے۔(دیکھیں ضعیف ابی داؤد:3200)
سوال: ایک کولیگ کا سوال ہے کہ اس کی آفس
میں ایک خاتون آیۃ الکرسی ایک مخصوص ٹائم میں لگاتی ہے، دو گھنٹے کے لئے۔ پوچھنے
پہ بتایا کہ وہ وظیفہ کر رہی ہے۔ کولیگ پوچھنا چاہ رہی ہے کہ باقیوں پر اسکا کوئی
الٹا اثر تو نہیں ہوگا؟
جواب:پہلی بات یہ ہے کہ سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید
موبائل سے آیۃ الکرسی کی تلاوت لگائی جاتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کوئی بیمار آدمی
اپنے اوپر آیۃ الکرسی پڑھ کر دم کرنا چاہے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے لیکن
اس کے لئے زبان سے پڑھنا ہے اور اپنے اوپر پھونکنا ہے، دم کے لئے موبائل سے تلاوت
نہیں لگانی ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ جو کوئی آیۃ الکرسی کو مخصوص ضرورت
کے لیے مخصوص وقت میں اور مخصوص تعداد کے ساتھ زبان سے پڑھے یا موبائل سے لگائے تو
یہ عمل بدعت ہے اور اگر کوئی، کسی کو اس طرح سے بدعت کرتے ہوئے دیکھے تو اس کی ذمہ
داری ہے کہ اسے اس غلطی پر آگاہ کرے اور اس عمل سے منع کرے۔
آخری بات یہ ہے کہ اس کے اس عمل سے کسی دوسرے کے اوپر
کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے، آیۃ الکرسی پڑھ کے کوئی کسی کے اوپر کچھ الٹا اثر
نہیں کرسکتا ہے۔ قرآن جادو گری کے لئے نہیں ہے، قرآن کے اندر اللہ نے شفا رکھا ہے۔
مجرب وظیفہ کی شرعی حیثیت کے تعلق سے میں نے ایک مضمون
لکھا ہے، اسے بھی پڑھیں تاکہ جو لوگ وظیفہ کے باب میں بدعت کرتے ہیں اس کا صحیح سے
علم ہوسکے۔
سوال: ضرورت اور اسراف کے درمیان کتنا
فاصلہ ہے، کبھی کبھار ہم ضرورت سمجھ کر کوئی چیز خریدتے ہیں لیکن وہ اسراف میں
شمار ہوتا ہے؟
جواب:جتنی چیز یا جتنے پیسے سے آدمی کی اپنی ضرورت پوری
ہوجائے یا اس کا کام چل جائے وہ ضرورت ہے اور جس کا استعمال ضرورت سے زائد ہو وہ
اسراف میں داخل ہے جیسے کسی کا گھر دس ہزار روپے میں چلتا ہے تو دس ہزار روپے اس
کی ضرورت ہے اس سے زیادہ اگر خرچ کرتا ہے تو اسراف میں داخل ہے اور اسی طرح ضرورت
کے علاوہ جو غیر ضروری کاموں میں خرچ کرنا بھی اسراف میں داخل ہے۔
بہر کیف! اس معاملے میں آدمی اپنی ضرورت اور حیثیت کو
خود جانتا ہے اور ہر کسی کی حیثیت اور ضرورت الگ الگ ہو سکتی ہے۔ اللہ نے کسی کو
مال دیا ہے تو عمدہ کھانے پینے اور عمدہ پہننے اوڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم
اس کے اندر دکھاوا نہ ہو اور زیادتی نہ ہو۔
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كُلوا واشرَبوا وتَصدَّقوا والْبَسوا ما لم يخالِطْهُ
إسرافٌ أو مَخيَلةٌ(صحیح ابن ماجہ:2920)
ترجمہ: کھاؤ پیو، صدقہ و خیرات کرو، اور پہنو ہر وہ
لباس جس میں اسراف و تکبر (فضول خرچی اور گھمنڈ) کی ملاوٹ نہ ہو۔
سوال:کیا مسجد یا گھر میں یا باہر اس جگہ
نماز پڑھنا جائز ہے جس جگہ دھوپ اور چھاؤ ملتے
ہیں؟
جواب:اصل یہی ہے کہ جہاں پر دھوپ اور سایہ ہو اس جگہ
نہیں بیٹھنا چاہیے لیکن جہاں پر عذر ہو اس وقت کوئی حرج کی بات نہیں ہے جیسے مسجد
میں یا اس سے باہر نماز پڑھتے وقت اور دھوپ و سایہ والی ممانعت حرمت والی نہیں ہے
بلکہ کراہت والی ہے۔
سوال: مرد چاندی کی انگوٹھی میں ڈائمنڈ (Dimond) کا استعمال کرسکتا ہے؟
جواب: مرد اپنی انگوٹھی میں نگینہ کے طور پر ہیرے کا
استعمال کر سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں معلوم ہوتا ہے۔ نبی ﷺ کی انگوٹھی میں
بھی نگینہ لگاتھا جو حبشہ کا تھا۔(مسلم:2094)
سوال: ایک آدمی پارٹی میں فنکشن ہال
سجاتا ہے، اس میں شیٹ میں دیوی دیوتا کی تصویر بھی لگانی ہوتی ہے، کیا یہ جائز ہے؟
جواب: یہ عمل جائز نہیں ہے کیونکہ جو تصویر لگائی جائے
گی پھر بعد میں ہندو اس تصویر کی پوجا کرے گا، اس کے سامنے سر جھکائے گا۔ ایسی
صورت میں مورتی کی پوجا کرنے والے کو جو گناہ ملے گا اس کے گناہ میں تصویر لگانے
والا بھی شریک ہوگا۔ اللہ تعالی نے گناہ کے کاموں پر تعاون کرنے سے منع فرمایا ہے
اور یہ کام گناہوں میں بڑے گناہ شرک پر تعاون ہے۔
قابیل نے ایک قتل کیا تھا، اب اس وقت جو کوئی قتل کرتا
ہے، قابیل کو بھی گناہ ملتا ہے کیونکہ قتل ایجاد کرنے والا وہی ہے۔ نبی صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
جو شخص بھی ظلم کے ساتھ قتل کیا جائے گا اس کے (گناہ
کا) ایک حصہ آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے (قابیل) پر بھی پڑے گا۔(صحیح
البخاری:7321)
سوال: ہمارے محلے میں ایک مسجد ہے اور وہ
اتنی چھوٹی ہے کہ مصلیوں کے لئے نماز پڑھنے میں بہت دشواری ہو رہی ہے۔ کہیں سے بڑی
مسجد بنوانے کی طلب کی گئی ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ پرانی مسجد کسی ایک غریب کی زمین
میں واقع ہے، اس زمین میں گھر والوں کا گزر بشر مشکل سے ہورہا ہے تو محلے والوں نے
مشورہ کیا کہ کیوں نہ اس مسجد کی عمارت کو اسی غریب کے ہاتھوں فروخت کرکے اس کی
قیمت نئی مسجد کے کسی کام میں صرف کیا جائے تو کیا پرانی مسجد کو رہائش گاہ بنانا
صحیح ہے یا نہیں، اگر رہائش گاہ بنا دی جائے تو کیا اس مسجد کی بے حرمتی ہوگی؟
جواب:سوال میں مذکور ہے کہ مسجد کسی غریب کی زمین ہے،
یہ بات درست نہیں معلوم ہوتی ہے کیونکہ مسجد کے لئے زمین دینے کے بعد وہ اللہ کے
لئے وقف ہو جاتی ہے اس پر کسی کا مالکانہ حق نہیں ہوتا۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس صورت میں ہر ممکن کوشش یہ ہو کہ
مسجد وہیں رہے البتہ مسجد کے لیے وہاں پر دائیں بائیں سے زمین خرید کر کشادہ کی
جائے اور اس مسجد کو توڑ کر وہیں پر دوسری بڑی مسجد بنائی جائے۔
جب یہ صورت ممکن نہ ہو اور الگ سے بڑی مسجد بنانا ایک
شرعی مجبوری ہو تو اس زمین کو دوسرے کے ہاتھ بیچ کر اس کا پیسہ مسجد میں لگاسکتے
ہیں۔
مسجد کی زمین بیچنے کے سلسلے میں بعض اہل علم یہ کہتے
ہیں کہ کسی بھی صورت میں مسجد کی زمین نہیں بیچی جاسکتی ہے جبکہ بعض دیگر اہل علم
کا کہنا ہے کہ ضرورت و مصلحت کے وقت مسجد کی زمین بیچی جاسکتی ہے اور یہی دوسرا
قول مناسب معلوم ہوتا ہے۔ جب ضرورت کے وقت مسجد کی زمین دوسرے کے ہاتھوں بیچی
جاسکتی ہے تو اس زمین پر گھر بنانا اور اس میں رہائش اختیار کرنا بھی جائز ہے، اس
میں مسجد کی بے حرمتی نہیں ہے۔
سعودی عرب کی فتوی کمیٹی لجنہ دائمہ سے سوال کیا گیاکہ
ہمارے پاس چھوٹی مسجد ہے جسے مسلمانوں نے 20 سال پہلے بنایا تھا اور اس وقت وہ
نمازیوں کے لیے چھوٹی پڑ گئی ہے اور لوگ مسجد کو وسیع کرنا چاہتے ہیں مگر اس کا
امکان نہیں ہے اس لیے ایک بڑی زمین خرید کر اس پر مسجد اور مسلمان بچوں کے لئے
مدرسہ اور دیگر خدمت کے لئے چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس موجودہ مسجد کی زمین بیچ
کر اس کی قیمت سے نئی مسجد کی تعمیر میں فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے؟
اس پر لجنہ نے یہ جواب دیا کہ جو صورت سوال میں مذکور
ہے کہ موجودہ مسجد تنگ ہے اور اس میں توسیع کی گنجائش نہیں ہے اور ضرورت اس بات کا
تقاضہ کرتی ہے کہ ایک وسیع مسجد بنائی جائے جو مصلیوں کے لیے، مسلمان بچوں کی
تعلیم گاہ کے لیے اور خدمت گاروں کے لیے کافی ہو۔ ایسی صورت میں موجودہ مسجد کی
زمین کو بیچ کر اس کی قیمت مناسب جگہ وسیع عرض کی خریداری، مسجد مدرسہ اور ان
دونوں کی خدمت گاروں کے لیے تعمیرات پر خرچ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اس
میں مصلحت عامہ موجود ہے لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ اس کی ذمہ داری وہی اٹھائے
جس کے اندر شعور، امانت داری اور ثقاہت ہو۔ "فتاوى
اللجنة الدائمة" (16/38)۔
سوال: میرے ایک دوست ہیں جن کی دو بیویاں
ہیں، مسئلہ کچھ یوں ہے کہ گھریلو کام کاج کی غلطیوں پر، آئے دن اُن کے والدین ان
کی بیویوں کو ان ہی کی موجودگی میں اور کبھی غیر موجودگی میں ان کو طعنے وغیرہ
دیتے ہیں۔ ایسے میں بیویاں اپنے شوہر سے ان پر ہونے والی زیادتیوں کی شکایت کرتی
ہیں۔ شوہر انہیں سمجھا بجھاکر خاموش کر دیتا ہے، یہ سلسلہ یونہی چل رہا ہے، بیویوں
نے شکایت کی کہ آپ کو معلوم ہے کہ ہم پر زیادتی ہورہی ہے، آپ کا بیویوں پر حق ہے
اور آپ کو اللہ کے پاس جواب دینا ہے، شوہر پریشان ہے اور صرف اس وجہ سے خاموش ہے
کہ والدین اور اللہ ناراض ہو جائے گا، اگر وہ کچھ کہے گا تو اسکے والدین کو تکلیف
ہوگی اور والد کا مزاج سخت ہے تو کیا ایسے میں وہ اپنے والدین کی غلطی بتاکر انہیں
نصیحت کرسکتا ہے یعنی ایسا کرنا درست ہے اور کیا ایسا کرنے پر اگر وہ ناراض ہو
جائیں تب کیا وہ اللہ کی پکڑ میں ہے؟
جواب: ایک شادی شدہ عورت کا ذمہ دار اس کا شوہر ہے، جب
ضرورت پڑے شوہر اپنی بیوی کو نصیحت کرے گا، سسر کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی
بہو کو لوگوں کے سامنے یا پیٹھ پیچھے طعنہ دے۔ اگر بہو میں کچھ خامی اسے نظر آتی
ہے تو اپنے بیٹے سے کہے تاکہ اس کا بیٹا اپنی بیوی کی اصلاح کرے۔ جب بہوؤں پر
زیادتی ہورہی ہے اور وہ اپنے شوہر سے اس کی شکایت کررہی ہیں تو شوہر کا حق ہے کہ
اپنی بیوی کا دفاع کرے کیونکہ وہ اس کا ذمہ دار و کفیل ہے، نہ کہ اس کا باپ۔ شوہر
پر واجب و لازم ہے کہ اپنے باپ کو حکمت و بصیرت کے ساتھ نصیحت کرے کہ آئندہ اپنی
بہو کو طعنہ دینے سے باز آئے، اس سے اس کا باپ ناراض ہوتا ہے تو بیٹا اس کی پرواہ
نہ کرے، حق بولنے کی اللہ اجازت دیتا ہے بلکہ اس کا حکم دیتا ہے ، حق بولنے میں
اللہ کی ناراضگی نہیں ہے۔
اگر والد نصیحت کے باوجود اپنی عادت سے باز نہ آئے تو
شوہر کے ذمہ ہے کہ وہ اپنی بیویوں کو والد سے الگ دوسری جگہ مہیا کرے جہاں اس کے
لئے ایسی نوبت آئے یا کم ازکم جوائنٹ فیملی سسٹم کی بلا سے اپنی بیوی کو نجات دے
اور علاحدہ طور پر اس کا نظم و نسق بنائے جس میں سسر کا کوئی دخل نہ ہو کیونکہ سسر
بہو کا ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اس کا شوہر ذمہ دار ہے۔
سوال: ظہر اور عصرکی نماز میں پہلے دو
رکعت میں صرف سورہ فاتحہ پڑھیں گے یا سورہ بھی پڑھیں گے اور جماعت سے نماز پڑھتے
ہوئے مغرب، عشاء اور فجر کی ایک رکعت چھوٹ جائے تو تیسری رکعت میں ہم صرف سورہ
فاتحہ پڑھیں گے یا سورہ بھی پڑھیں گے؟
جواب: رباعی نماز کی شروع والی دو رکعت میں سورہ فاتحہ
اور دوسری کوئی سورت پڑھیں گے اور بعد والی دورکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ پڑھیں گے۔
اور جب مسبوق کی حیثیت سے کسی نماز کی ایک رکعت چھوٹ جائے تو بعد میں اس کی قضا
کرتے وقت اس رکعت میں صرف سورہ فاتحہ پڑھیں گے کیونکہ یہ رکعت مسبوق کے حق میں
آخری رکعت ہے لہذا اس رکعت کو ادا کرتے ہوئے آخری رکعت کی طرح ادا کی جائے گی۔
سوال: شوہر کچھ کماتا نہیں ہے اور اس کے
سر پر بہت قرض ہے، بیوی کے پاس زیورات ہیں جس کی زکوۃ ادا کرنا چاہتی ہے تو کیا اس
زکوۃ سے بچوں کے اسکول کی فیس، بس کا کرایہ ، گھر کی بجلی کا بل
ادا کرسکتی ہے اور شوہر کے قرض میں زکوۃ
دے سکتی ہے کیونکہ شوہر کماتا نہیں ہے؟
جواب: بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ایک مرد کو شادی کرنے کا
اس وقت حق پہنچتا ہے جب وہ اپنی بیوی اور اولاد کو کھلانے کی طاقت رکھتا ہو۔ جو
مرد نہیں کماتا ہے جبکہ اس کا جسم صحیح سالم ہے اور کماسکتا ہے تو اسے کمانا چاہئے
اور اپنے پیسوں سے بیوی بچوں کی کفالت کرنا چاہئے کیونکہ یہ اس کا شرعی فریضہ ہے۔
اور اگر وہ مرد جسمانی اعتبار سے معذور ہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
شوہر کے قرض کا معاملہ یہ ہے کہ اگر وہ خود سے قرض
اتارنے کی طاقت نہیں رکھتا ہے تو بیوی اپنی زکوۃ شوہر کا قرض اتارنے کے لئے دے
سکتی ہے اور گھر چلانے کے لئے بھی حتی کہ بجلی بل کے لئے بھی زکوۃ دے سکتی ہے اگر شوہر
کمانے سے معذور ہے لیکن اگر وہ کما سکتا ہے اور قرض بھی خود سے اتار سکتا ہے تو
پھر ایسی صورت میں اسے زکوۃ دینا صحیح نہیں ہے۔ اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے عورت
زکوۃ نہیں استعمال کرے گی۔ جب بچوں کو فیس والے اسکول میں پڑھانے کی طاقت نہیں ہے
تو وہاں نہیں پڑھانا چاہئے، دینی مدرسہ میں اپنے بچوں کو پڑھائیں، وہاں پر غریب
بچوں کو فری میں دینی تعلیم ملتی ہے اور دینی تعلیم حاصل کرنا فریضہ بھی ہے اور
والدین کی ذمہ داری بھی ہے کہ اپنے بچوں کو دینی تعلیم دلائے۔
سوال: کیا اسلام میں مشت زنی جائز ہے اور
کیا شوہر اپنی بیوی کا استعمال کرکے مشت زنی کرسکتا ہے، نیز کیا شوہر کسی عورت کو
سوچ کر اپنی بیوی سے ہمبستری کرسکتا ہے؟
جواب: اللہ تعالی نے شرمگاہ کی حفاظت کا حکم دیا ہے اور
مشت زنی اللہ کے اس حکم کی نافرمانی ہے۔
جو آدمی غیرشادی شدہ ہو اور شادی کی طاقت رکھتا ہو تو
اسے شادی کرنا چاہئے تاکہ جائز طریقہ پر جنسی خواہش کی تکمیل کرسکے۔ جہاں تک مسئلہ
ہے شادی شدہ مرد کا کہ اس کو بھی مشت زنی کی خواہش ہوتی ہے تو حیران کن معاملہ ہے۔
اس نے شادی اس لئے کی تاکہ وہ خود کو سکون پہنچائے پھر مشت زنی کرنا غلط صحبت اور
غلط ماحول کا اثر لگتا ہے۔ کسی مسلمان مرد کے لئے مشت زنی کرنا جائز نہیں ہے۔ نہ
خود سے اور نہ ہی اپنی بیوی کے ذریعہ، یہ فعل حرام ہے کیونکہ اس میں غیر فطری
طریقے سے جنسی خواہش پوری کی جاتی ہے اور اس میں صحت کا نقصان بھی ہے۔
دوسری عورت کا سوچ کر بیوی سے ہمبستری کرنا بھی غلط ہے،
ایسا آدمی شیطانی قوت کا آلہ کار بنا ہوا ہے، اسے اللہ سے سچی توبہ کرنا تاکہ وہ
کسی دوسری عورت کے بارے میں صحبت کا نہ سوچے، شادی کرنے کے بعد بھی کوئی دوسری
عورت کے بارے میں سوچتا ہے وہ بدترین انسان ہے۔
سوال: میری کمپنی میں ظہر کا وقت شروع
ہونے پر کوئی بھی شخص اذان دے کر ساتھ میں جماعت شروع کردیتا ہے، وہ لوگ سنت بھی
نہیں پڑھتے ہیں کہ کہیں ڈیوٹی کی بس نہ چھوٹ جائے۔ جب ہم مسجد میں داخل ہوتے ہیں
تو جماعت ہو رہی ہوتی ہے، ہمیں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا چاہئے یا پہلے ہم سنت ادا
کریں گے جبکہ ہمارے لئے بس چھوٹنے کا مسئلہ نہیں ہے۔ اس جماعت کے بعد اور بھی
جماعت ہوتی رہتی ہے۔ جب کبھی ہم جماعت میں شامل ہوکر نماز پڑھ لیتے ہیں تو بعد میں
چار اور دو رکعت سنت ادا کرتے ہیں ۔ ایسے میں سوال ہے کہ ہمارا اور ان لوگوں کا جو
اذان دے کر فورا جماعت شروع کردیتے ہیں، یہ عمل درست ہے؟
جواب:جو صورتحال ذکر کی گئی ہے اس کی روشنی میں یہ عرض
کرنا چاہتا ہوں کہ جیسے دیگر نمازوں کے لیے جماعت کا وقت متعین ہے اور جماعت کرائی
جاتی ہے اسی طرح ظہر کی نماز کی بھی ایک جماعت کی پابندی کی جائے۔
جب اکثر لوگوں کو کام پر جانا ہوتا ہے اور جلدی بازی
ہوتی ہیں تو اذان اور جماعت میں فاصلہ کم کرکے جو اکثر لوگوں کے لیے مناسب وقت ہو
اس وقت پر ایک جماعت کی جائے تاکہ جماعت کا نظم برقرار رہے اور افرا تفری کی حالت
نہ ہو جیساکہ بیان کی گئی ہے۔
اس میں مسئلہ یہ نہیں ہے کہ آپ جماعت کے وقت سنت پڑھیں
یا جماعت سے نماز پڑھیں بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے وہاں کا نظم درست کیا جائے اور دوسری
بات یہ ہے کہ جب مسجد میں جماعت ہو رہی ہو تو جماعت میں شامل ہوکر نماز پڑھنا
چاہیے تاکہ جماعت کا اجر ملے اور سنت چھوٹنے پر بعد میں اس کی قضا کریں۔
سوال: آج یوم جمہوریہ کی مناسبت سے اکثر
لوگ مبارکبادی کے اسٹیٹس لگاتے ہیں، ہم مسلمان اپنے ملک سے محبت تو کرتے ہیں مگر
اسلامی نظام سے متصادم اس جمہوری نظام کو پسند تو نہیں کرتے لہذا انفرادی طور پر
اس پر خوش ہونا اور مبارکبادی دینا درست ہے؟
جواب:ایک طرف جمہوریت اسلام کے مخالف ہے تو دوسری طرف
ہم ہندوستان میں جمہوریت کے لئے مجبور بھی ہیں اور حب الوطنی کا ثبوت پیش کرنے کے
لئے بعض غیر شرعی کام کرنا بھی ایک قسم کی مجبوری ہے، انہیں میں سے یوم آزادی اور
یوم جمہوریہ منانا ہے۔
آج سے چند سالوں پہلے ہندوستان کے بہت سارے سلفی اداروں
میں یوم آزادی اور یوم جمہوریہ نہیں منایا جاتا تھا مگر آج حکومت کی پالیسی سے
مجبور ہوکر جامعہ سلفیہ بنارس جیسے مرکزی ادارہ کو یہ دن منانا پڑ رہا ہے اس لئے
جہاں ہم اس طرح کے امور کی انجام دہی کے لئے مجبور محض ہیں اس وقت یہ عمل انجام
دینے میں حرج نہیں ہے لیکن جس کام کے لئے ہم مجبور نہیں ہیں اور وہ کام غیر شرعی ہو
تو اس کا انجام دینا جائز نہیں ہے۔
یوم جمہوریہ کے موقع پر سوشل میڈیا پر مبارکبادی کا
اسٹیٹس لگانے کے لئے ہم مجبور نہیں ہیں اس لئے ہم اس قسم کے اسٹیٹس سے پرہیز کریں
گے، ہاں جہاں کہیں ادارتی طور پر ایک دوسرے کو کہنا مجبوری ہو تو ایسی صورت میں اس
کی گنجائش ہے۔
سوال: کیا دو مختلف اقسام کے گوشت مثلا
بکرا اور مرغی وغیرہ کو ایک ہانڈی میں پکانے کی شریعت میں ممانعت ہے؟
جواب:شریعت میں ایسی کوئی ممانعت نہیں ہے کہ آدمی دو
الگ الگ قسم کے جانور کا گوشت ایک ساتھ نہیں پکا سکتا۔ اگر کوئی چاہے تو دو الگ
الگ قسم کے جانور کو ایک ساتھ ایک ہانڈی میں پکاکر کھا سکتا ہے اس میں شرعا کوئی
مسئلہ نہیں ہے بلکہ آج کل لوگ ایک دسترخوان پر کئی قسم کے گوشت اور پکوان کھاتے
ہیں جو ایک ساتھ ایک جگہ معدے میں جمع ہوتا ہے۔ اگر پیٹ میں ایک ساتھ یہ ساری
چیزیں جمع ہوسکتی ہیں تو ایک ساتھ ہانڈی میں پکانے میں کیا حرج ہے۔ یہ بات اپنی
مرضی پر منحصر ہے، جس کو جیسے پکاکر کھانا پسند ہو، وہ اپنی طبیعت کے اعتبار سے
پکاکر کھاسکتا ہے۔
صحیح مسلم میں ہے کہ حج کے موقع پر رسول اللہ ﷺ قربان
گاہ تشریف لے گئے، وہاں جاکر تریسٹھ اونٹ خود ذبح کئے اور باقی اونٹ حضرت علی ؓ نے
نحر کئے اور آپ نے انہیں اپنی قربانیوں میں شریک کیا۔ پھر ہر اونٹ سے ایک ایک بوٹی
لے کر ہنڈیا میں پکایا گیا۔ پھر آپ دونوں نے گوشت کھایا اور شوربا پیا۔ (صحیح
مسلم: 1218)
یہ حدیث خاص اس سوال کی دلیل کے طور پر نہیں ذکر کی گئی
ہے بلکہ یہ اس بات کی تائید کے لئے ہے کہ ایک جنس کے مختلف جانوروں سے گوشت لے کر
ایک ہانڈی میں پکانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال: ایک بہن نے اپنی بڑی بہن کو مکان
بنانے کے لئے قرض دیا اور کہا جب آسانی ہو، واپس کر دینا۔ مالی حالات اچھے نہیں
تھے اس لئے بڑی بہن قرض واپس نہیں کرسکی، بیس سال گزر گئے۔ اب وہ قرض واپس کر رہی
ہے۔چھوٹی بہن پوچھ رہی ہے کہ اب پیسے ملیں گے تو زکوۃ دوں گی، ان شااللہ مگر زکوۃ
کتنی دینی ہوگی؟
جواب:قرض میں زکوۃ کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔
پہلی صورت تو یہ ہے کہ اگر قرض لینے والے کے لیے قرض کی
ادائیگی آسان تھی تو قرض دینے والے کو ہر سال زکوۃ دینا پڑے گا۔اور دوسری صورت یہ
ہے کہ قرض لینے والے کے لئے قرض کی واپسی آسان نہ تھی یا قرض کی ادائیگی سے انکاری
تھا تو ایسی صورت میں جب قرض مل جائے اس وقت صرف ایک سال کی زکوۃ ادا کرنی ہے۔
ان دونوں صورتوں میں میرے حساب سے دوسری صورت لگ رہی
ہے، اس وجہ سے قرض ملنے پر بس ایک سال کی زکوۃ ادا کرنی ہوگی۔
سوال: میرے شوہر نے مجھے شادی کے دو سال
بعد ایک طلاق دے دی تھی اور پھر کچھ مہینے بعد دوسری دے دی پھر ہمارے دو بچے ہوئے۔
اب میری شادی کو چودہ سال ہوگئے۔ 9/ محرم 1446 کو انہوں نے مجھے دوبارہ جھگڑے میں
تیسری طلاق دیدی ہے مگر میں حالت حیض میں تھی ، انہوں نے کسی مفتی صاحب سے فتوی
لیا تھا کہ حیض میں طلاق واقع نہیں ہوتی۔ برائے کرم اس بارے میں شرعی حکم واضح
فرما دیں؟
جواب:مذکورہ صورتحال میں پہلی اور دوسری طلاق واضح ہے
جبکہ تیسری طلاق جو کہ حیض میں دی گئی ہے اس سے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے۔
بعض علماء کہتے ہیں کہ حیض کی حالت میں طلاق ہو جاتی ہے
اور بعض علماء کہتے ہیں کہ حیض کی حالت میں طلاق نہیں ہوتی۔ اس بارے میں، میں جس
بات پر مطمئن ہوں وہ یہ ہے کہ حیض کی حالت میں بھی طلاق ہو جاتی ہے کیونکہ اس
سلسلے میں ایک حدیث ملتی ہے۔ عبداللہ ابن عمر نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں
طلاق دیا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رجوع کرنے کا حکم دیا۔ اسی حدیث سے
مسئلہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر طلاق واقع نہیں ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
رجوع کرنے کا کیوں حکم دیتے بلکہ حدیث میں یہاں تک صراحت ہے کہ عبداللہ ابن عمر نے
حیض میں دی گئی طلاق کو شمار بھی کیا تھا۔
اس وجہ سے مذکورہ صورتحال میں شوہر اپنی بیوی کو تیسری
طلاق دے چکا ہے اور تیسری طلاق واقع ہوچکی ہے۔ تیسری طلاق میں شوہر کو رجوع کا
اختیار نہیں ہوتا اور تیسری طلاق دیتے ہی بیوی فورا شوہر سے جدا ہو جاتی ہے لیکن
اگر وہ کہیں دوسری جگہ شادی کرنا چاہے تو تین حیض عدت گزار کر دوسری جگہ شادی
کرسکتی ہے۔
سوال: بچے کو پیدائش پر شہد دیتے ہیں تو
بعض لوگ کہتے ہیں کہ عجوہ کھجور کا پانی دو کہ وہ سنت ہے، کیا یہ بات صحیح ہے؟
جواب:تحنیک کے لئے حدیث میں صرف کھجور کا ذکر ہے۔ نہ تو
عجوہ کا ذکر ہے اور نہ ہی کھجور کے پانی کا ذکر ہے، صحیح بخاری میں یہ حدیث ہے۔
عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:
«وُلِدَ لِي غُلاَمٌ، فَأَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
فَسَمَّاهُ إِبْرَاهِيمَ، فَحَنَّكَهُ بِتَمْرَةٍ، وَدَعَا لَهُ بِالْبَرَكَةِ،
وَدَفَعَهُ إِلَيَّ»، وَكَانَ أَكْبَرَ وَلَدِ أَبِي مُوسَى(صحيح البخاري:5510)
ترجمہ: سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے
کہا کہ میرے یہاں لڑکا پیدا ہوا تو میں اسے لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ
نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور کھجور کو چبا کر اس کی گھٹی دی نیز اس کے لیے خیر
وبرکت کی دعا فرمائی پھر وہ مجھے دے دیا یہ سیدنا ابو موسیٰ ؓ کے سب سے بڑے لڑکے
تھے۔
اس حدیث کی روشنی میں اگر کھجور ملے تو اس سے تحنیک
کریں اور اگر کھجور نہ ملے تو کوئی بھی میٹھی
چیز جیسے شہد
وغیرہ سے تحنیک کرسکتے ہیں حتی کہ کھجور بھگو کر اس کا پانی بھی پلا سکتے ہیں،
کوئی حرج نہیں ہے مگر عجوہ کھجور کے پانی کو سنت کہنا غلط ہے۔ تحنیک میں اصل کھجور
چباکر اور اسے نرم بناکر بچے کے حلق میں اتارنے کو کہتے ہیں۔
سوال: کیا بیوی ضرورت کے علاوہ کچھ زیادہ
رقم شوہر کی جیب سے چورا سکتی ہے، اس مقصد سے کہ اپنے بچوں کے لئے گولڈ بناسکے اور
ایک ساتھ بنانے میں شوہر کو بھی کوئی دقت نہ ہو جبکہ شوہر کو اس بات کی جانکاری
نہیں ہے؟
جواب:بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر اس کی جیب سے ایک
روپیہ بھی نہیں لے سکتی ہے کیونکہ بغیر اجازت کے اس کی جیب سے پیسہ لینا چوری میں
شمار ہوگا۔
بیوی کو پیسے کی ضرورت ہو تو اپنے شوہر سے مانگ کرلے،
چوری کرکے نہ لے اور اگر مانگنے پر شوہر بیوی کو ضرورت کے لیے پیسے نہ دے، تب وہ
اپنی ضرورت بھر پیسے بغیر بتائے لے سکتی ہے تاہم معلوم رہے کہ وہ ضرورت صحیح ہو نہ
کہ فضول خرچی کے لیے ہو۔
دوسری بات یہ ہے کہ بچیوں کے زیورات بنانے کے لئے چوری
کرکے پیسہ لینا قطعا جائز نہیں ہے۔ اس کام کے لئے شوہر کی اجازت ضروری ہے۔
سوال: جب کافر مر جائے تو مسلمان
"فی نار جہنم" کیوں کہتے ہیں؟
جواب:جب کوئی کافر آدمی مرے اور ہمیں اس کی موت کی خبر
ملے تو ہمیں "فی نار جہنم" کہنے کی
کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمیں اللہ اور اس کے رسول نے
کہیں پر ایسا کہنے کا حکم نہیں دیا ہے لیکن اگر کوئی مسلمان ایسا جملہ بول دیتا ہے
تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جو کافر ہے اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا
فرمان ہے: وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ
خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً(الجن:23)
ترجمۃ : اور جو اللہ ، اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کرتا
ہے اس کے لئے جہنم کی آگ ہے جس میں ہمیشہ ہمیش رہے گا۔
خلاصہ یہ ہے کہ کافر میت کو دیکھ کر "فی نار
جہنم" کہنا ہمارے لئے ضروری نہیں ہے لیکن اگر کوئی مسلمان کہہ دیتا ہے تو اس
میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ چڑھانے
کے لئے کافروں کو سناکر ایسا نہیں کہنا چاہئے، اسلام احترام انسانیت کی تعلیم دیتا
ہے۔ نبی ﷺ نے ایک کافر کا جنازہ جاتے ہوئے دیکھا تو آپ کھڑے ہوگئے مگر آپ نے فی
نار جہنم نہیں کہا، نہ صحابہ کو کہنے کا حکم دیا چنانچہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ
عنہما سے روایت ہے کہ ہمارے سامنے سے ایک جنازہ گزرا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کھڑے ہوگئے اور ہم بھی کھڑے ہو گئے۔ پھر ہم نے کہا کہ یا رسول اللہ! یہ تو
یہودی کا جنازہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم لوگ جنازہ دیکھو تو
کھڑے ہو جایا کرو۔(صحیح البخاری:1311)
سوال:کیا عورت جوائنٹ فیملی سسٹم میں
خوشبو لگا سکتی ہے اور اس بات کی بھی وضاحت فرما دیں کہ حدیث نبوی ہے عورت کی
خوشبو وہ ہے جس کا رنگ ظاہر ہو اور مرد کی وہ جس کی خوشبو ظاہر ہو؟
جواب:عورت گھر میں رہتے ہوئے خوشبو لگاسکتی ہے لیکن صرف
اپنے محرم کے درمیان۔ اگر عورت جوائنٹ فیملی سسٹم میں ہے اور اس کے اردگرد غیر
محرم بھی ہوں پھر ایسی صورت میں خوشبو کا استعمال نہیں کرنا ہے۔ خوشبو کا استعمال
بس محرم کے درمیان تک محدود ہو بلکہ ایسے ماحول میں عورت کے لئے خوشبو سے بچنا ہی
بہتر ہے، وہ رنگ کا استعمال کرے یعنی مہندی استعمال کرے اور اس زینت کو بھی غیر
محرم سے چھپائے۔ حدیث میں عورت کے لئے جس خوشبو والے رنگ کا ذکر ہے وہ مہندی اور
اس جیسی قسم کی چیز مراد ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جوائنٹ فیملی سسٹم میں ایک عورت کے
لئے صرف خوشبو کا ہی معاملہ نہیں ہے بلکہ بہت سارے مسائل ہیں جو ایک خاتون کو
سمجھنے ہیں اور برتنے ہیں جیسے پردہ کا خاص خیال کرنا ہے، غیر محرم سے خلوت سے بچنا
ہے، ان سے ہنسی مذاق اور بلاضرورت بات چیت سے بچنا ہے حتی کہ ایسے تمام امور سے
بچنا ہے جن سے شریعت نے ہمیں منع کیا ہے۔
سوال: زکوٰۃ کی رقم علیحدہ رکھ کر سال
بھر اس میں سے لوگوں کی مدد کرسکتے ہیں اور دوسری بات یہ کہ کسی کے پاس سونا تو
ساڑھے سات تولے سے کم ہے لیکن رقم بہت ہے، زکوٰۃ صرف مال کی ہی ادا کرنی ہوگی؟
جواب:زکوۃ کی رقم رکھ کر اس میں سے تھوڑا تھوڑا کرکے
سال بھر نہیں دے سکتے بلکہ جس وقت زکوۃ نکالنی ہو اسی وقت مکمل زکوۃ مستحقوں میں
تقسیم کر دینی ہے۔
اور جس کے پاس ساڑھے سات تولہ سے کم سونا ہو، اس کو سونا
میں زکوۃ نہیں دینی ہے کیونکہ وہ
نصاب بھر نہیں ہے لیکن جو پیسہ سونا یا چاندی کے نصاب
کے برابر ہو اس پیسے میں سال مکمل ہونے پر ڈھائی فیصد زکوۃ دینی ہے۔
سوال: رجب کے روزے کی اسلام میں کوئی
دلیل نہیں ہے، حدیث سے واضح کر دیں؟
جواب:میں اس گروپ کے ذریعہ آپ سب کو دو باتوں کی تعلیم
دیتا ہوں ان دونوں باتوں کو دھیان سے سمجھیں اور ان کا ہمیشہ خیال کریں۔
پہلی بات: جب کوئی آپ سے کسی بات کا دعوی کرے تو آپ
دعوی کرنے والے سے دلیل طلب کریں کہ آپ کے اس دعوی کی کیا دلیل ہے۔ آپ کو معلوم
ہونی چاہیے کہ دلیل اس کے ذمہ ہے جو دعوی کرے۔
دوسری بات: دلیل اس بات کی مانگی جاتی ہے جس میں دعوی
کیا گیا ہو جیسے کوئی کہے کہ رجب کا روزہ رکھنا چاہیے، یہ دعوی ہے ایسے آدمی سے
دلیل طلب کی جائے گی لیکن جو یہ کہے کہ رجب کا روزہ نہیں رکھنا چاہیے تو انکار پر
دلیل نہیں طلب کی جائے گی کیونکہ جو بات ثابت ہی نہ ہو ، ظاہر سی بات ہے کہ اسی سے
ثابت ہوتا ہے کہ اس بات کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے۔ تاہم شریعت کے عمومی دلائل پیش
کئے جاسکتے ہیں جیساکہ ایک مشہور حدیث ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں
جس نے کوئی ایسا کام کیا جو دین میں سے نہیں ہو وہ مردود ہے۔
یہاں پر آپ کے سوال کا تعلق دوسرے نمبر سے ہے اس کے
بارے میں مذکورہ بالا دونوں باتیں اپنے ذہن میں رکھیں۔
اس سلسلے میں حقیقت یہ ہے کہ رجب میں روزہ رکھنے کے
تعلق سے کوئی بھی حدیث صحیح نہیں ہے، اس بارے میں جو احادیث مروی ہیں وہ ساری کی
ساری ضعیف ہیں جیسے ابو داؤد (2428)میں ہے کہ حرمت والے مہینوں میں روزہ رکھو اور
نہ بھی رکھو۔ اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ
الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ خاص کر رجب کے روزے رکھنے سے متعلق
ساری حدیثیں ضعیف ہیں۔
سوال: اگر کوئی عورت حاملہ ہے تو کیا اسے
اپنے ہونے والے بچے کی طرف سے بھی زکوۃ الفطر ادا کرنا ہوگا؟
جواب:عیدالفطر کے موقع پر فطرانہ نکالتے وقت اگر بچہ
ماں کے پیٹ میں ہو تو اس کی طرف سے فطرانہ نکالنا ضروری نہیں ہے لیکن اگر کوئی
نکالنا چاہے تو ماں کے پیٹ میں موجود بچے کی طرف سے فطرانہ نکالنا جائز ہے یعنی
فطرانہ دینا ضروری تو نہیں ہے لیکن اگر کوئی دینا چاہے تو اس کی طرف سے بھی دیا
جاسکتا ہے۔
سوال: کسی کی بیٹی مریضہ ہے، وہ رمضان
میں گھر والوں کے ساتھ روزہ رکھ لیتی ہے لیکن حیض کی وجہ سے جو روزے اس سے چھوٹ
جاتے ہیں کیا والدہ اس کی بھی فدیہ ادا کرے گی، وہ لڑکی ذہنی طور پر کمزور ہے؟
جواب:مسئلہ صرف روزے کا نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے اہم
مسئلہ نماز کا ہے جس سے روزانہ دن میں پانچ مرتبہ سابقہ پڑتا ہے۔ اس وجہ سے اصل
سوال یہاں پر یہ ہے کہ کیا وہ بچی جو ذہنی مریضہ
ہے نماز کو سمجھتی ہے اور نماز کی پابندی کرتی ہے؟
اگر وہ احکام شریعت کو سمجھتی ہے اور نماز کی پابندی
کرتی ہے یہاں تک کہ وہ روزہ کا مسئلہ بھی سمجھتی ہے اور رمضان کے روزے رکھتی ہے
اور حیض کے دنوں میں روزہ نہیں رکھتی ہے، یہ سمجھ کر کہ شریعت نے ان دنوں میں روزہ
رکھنے سے منع کیا ہے۔ اگر اس قسم کی سمجھدار لڑکی ہے تو جو روزے اس کے حیض کے سبب
چھوٹے ہیں بعد میں ان روزوں کی قضا کرنی پڑے گی، اس کا فدیہ نہیں دینا ہے۔
اور اگر لڑکی ایسی ذہنی مریضہ ہے کہ وہ صحیح اور غلط
اور احکام شریعت سے بالکل نابلد ہے، بس دیکھا دیکھی وہ رمضان کے روزے رکھ لیتی ہے
اور نمازوں کی کوئی پابندی نہیں کرتی کیونکہ اسے اس کی سمجھ نہیں ہے تو ایسی صورت
میں اس پر روزہ فرض ہی نہیں ہے بلکہ وہ شریعت کا مکلف ہی نہیں ہے اس وجہ سے اس کے
چھوٹے ہوئے روزوں کی نہ کوئی قضا ہے اور نہ کوئی فدیہ ہے۔روزوں کا فدیہ تو اس کی
جانب سے ہے جو عاقل ہو مگر روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔