Monday, April 28, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(42)

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(42)

جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ - سعودی عرب


سوال: میں پچھلے ایک سال سے کافی بیمار ہوں اور اب اور بھی زیادہ کمزوری بڑھ چکی ہے، کبھی کبھی بنا سہارے کے چل بھی نہیں پاتی ہوں، سرویکل پین ، بیک پین اور چہرے پر مار لگ گئی ہے، جو سیدھا دماغ کی رگوں پر اثر ڈال رہا ہے۔ اٹھا نہیں جاتا تو ایسی حالت میں وضو کی جگہ تیمّم کر سکتی ہوں اور ایسی حالت میں روزے کا کیا حکم ہے؟

جواب: تیمم وضو کا بدل ہے، تیمم اس وقت کرنا ہے جب وضو کے لئے پانی نہ ملے یا پانی استعمال کرنا مضر ہو یا آدمی اس قدر ضعیف ہو کہ وضو کرنے پر قادر نہ ہو۔ ان میں صورتوں میں سے کوئی صورت درپیش ہو تو اس وقت تیمم کرکے نماز پڑھ سکتے ہیں۔ روزہ رکھنے کی طاقت ہو تو روزہ رکھے اور روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو تو ہر روزہ کے بدلےمسکین کو فدیہ ادا کرے۔

سوال:کیا سنت مؤکدہ نماز کی قضا ہے؟

جواب: سنت مؤکدہ کی بھی قضا ہے، نبی ﷺ نے ایک مرتبہ ظہر کے بعد کی سنت عصر کی نماز کے بعد قضا فرمائی ۔ جب آپ سے اس نماز کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے جواب دیا: اے ابوامیہ کی بیٹی! عصر کے بعد کی دو رکعتوں کے متعلق تم نے سوال کیا ہے، وجہ یہ ہوئی تھی کہ قبیلہ عبدالقیس کے کچھ لوگ میرے یہاں اپنی قوم کا اسلام لے کر آئے تھے اور ان کی وجہ سے ظہر کے بعد کی دو رکعتیں میں نہیں پڑھ سکا تھا یہ وہی دو رکعتیں ہیں۔(بخاری:4370)

سوال:اگر کسی لڑکی کو اپنے شہر میں صحیح عقیدہ و منہج والا رشتہ نہ ملے اور قریبی دوسرے شہر میں ایسا رشتہ مل رہا ہو تو کیا اس ڈر سے انکار کرنا صحیح ہے کہ سفر میں پردہ اور نماز کے مسائل ہو سکتے ہیں اور کیا واقعی سفر كے دوران ایسی مشکلات پيش آتی ہیں، اگر سفر چار يا پانچ گھنٹے کا ہی ہو يا پھر اسے اپنے ہی شہر میں ایسے شخص سے نکاح کر لینا چاہیے جس کا عقیدہ صحیح نہ ہو جیسے تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والا ہو؟

جواب:سوال میں جو صورت ذکر کی گئی ہے، اس صورت میں قریبی شہر میں جو صحیح العقیدہ لڑکا ہے اس سے نکاح کیا جائے اور انکار کرنے کی جو وجہ بیان کی گئی کہ سفر میں پردہ اور نماز کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، یہ وجہ درست نہیں ہے۔ سفر میں اللہ کی طرف سے نماز کے واسطے ہمارے لئے آسانیاں ہیں اور مصروفیت و مشغولیت یا مشکل کے وقت بھی اسلام آسانی دیتا ہے۔ چار پانچ گھنٹے کے سفر میں نماز کا کوئی مسئلہ نہیں ہے  ، کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر جیسے آسانی ہو سفر میں قصر سے نماز ادا کرے اور اگر کوئی سفر میں دشواری کے سبب نماز نہ پڑھ سکے تو رہائش پر پہنچ کر نماز ادا کرے، یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ پھر شادی کرنے کے بعد آدمی ہمیشہ سفر میں نہیں ہوتا بلکہ اپنے گھر میں ہوتا ہے۔ سفر تو کبھی کبھار کئی ماہ بعد یا سال بھر میں آدمی کرتا ہے، اس کی ضرورت ہمیشہ نہیں پڑتی ہے۔

دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ نکاح کی بنیاد دین پر ہے یعنی لڑکا اور لڑکی دونوں صحیح دین اور صحیح عقیدے پر ہوں تب ہی نکاح درست ہے، ورنہ کسی کا عقیدہ فاسد ہو تو اس سے نکاح درست نہیں ہوگا۔ اس بنیاد پر ایسا لڑکا خواہ اپنے شہر میں ملے یا دوسرے شہر میں ملے اسی سے نکاح کرنا چاہیے۔

سوال:بخاری (6979) کی روشنی میں ایک صحابی کو رسول نے صدقہ پر متعین کیا تھا، جب انہوں نے جمع شدہ صدقہ رسول کی خدمت میں پیش کیا تو کچھ مال اپنا تحفہ بتایا جس پہ رسول نے کہا کہ میں تم میں سے کسی ایک کو اس کام پر عامل بنا تا ہوں جس کا اللہ نے مجھے والی بنا یا ہے پھر وہ شخص آتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ تمہارا مال اور یہ تحفہ ہے جو مجھے دیا گیا تھا۔ اسے اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھا رہنا چاہئیے تھا تا کہ اس کا تحفہ وہیں پہنچ جاتا۔ الخ۔ اس حدیث کی روشنی میں سوال ہےکہ  قرآن کے استاد کو طلبہ کی طرف سے تحائف دئے جائیں تو کیا اسے قبول کرنا چاہئے، اگر استاد کو ادارے کے توسط سے بلایا جائے یا بلا توسط، دونوں صورتوں میں کیا کیا جانا چاہیے؟

جواب:ایک دوسرے کا تحائف لینے اور دینے میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے خواہ طلبہ ہوں، اساتذہ ہوں ، عام آدمی ہوں یا کوئی اور ہو۔ تحائف دینا ایک دوسرے سے الفت و محبت کا سبب ہے لہذا اس عمل میں کوئی حرج کی بات نہیں۔

حدیث میں جس بات کا ذکر ہے وہ صورت ایک الگ صورت ہے، وہاں پر ایک شخص کو زکوۃ وصول کرنے کے لیے متعین کیا گیا ہے اور زکوۃ وصول کرنے والے کے لیے پہلے سے ان کا معاوضہ متعین ہوتا ہے اس وجہ سے زکوۃ وصول کرنے کے سبب وہ اپنے لیے تحفہ نہیں لے سکتا ہے لیکن مال وصول کرنے کے علاوہ عام حالات میں  جو تحائف لئے دئے جاتے ہیں ان کا معاملہ

 الگ ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال:کیا ظہر، مغرب اور عشاء کی نفل نماز ترک کر سکتےہیں یا یہ نفل، سنت مؤکدہ کی طرح ضرور پڑھنی ہے؟

جواب:نوافل اپنی چاہت اور مرضی پر منحصر ہے، یہ ضروری نماز نہیں ہے بلکہ اضافی نماز ہے۔ کوئی پڑھے تو اسے ثواب ملے گا اور کوئی نہ پڑھے تو اس میں کوئی گناہ نہیں۔نوافل، سنت مؤکدہ کے درجے میں نہیں ہے جبکہ سنت مؤکدہ وہ سنت ہے جس کی  تاکید آئی ہوئی ہے، اس  کی ادائیگی سے نہ صرف درجات کی بلندی ہوتی ہے بلکہ فرائض میں جو کوتاہی ہوئی ہو اس کی تلافی بھی ہوجاتی ہے۔

سوال: عورت کو نقاب میں نماز پڑھنا منع ہوتا ہے اور جب ہم کالج کی لائبریری میں نقاب میں ہوتے ہیں تو وہاں کیسے نماز ادا کریں جبکہ وہاں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوتے ہیں؟

جواب: ایک حدیث اس طرح آتی ہے کہ آدمی  کو منہ ڈھک کر نماز نہیں ادا کرنا چاہئے، اس حدیث کی روشنی میں عورت و مرد کو اپنا منہ کھول کر نماز ادا کرنا چاہئے لیکن عورت کا معاملہ مردوں کے مقابلہ میں پردہ کی حیثیت سے مختلف ہے۔ اگر عورت ایسی جگہ ہو جہاں غیرمحرم موجود ہو یا کیمرے لگے ہوں تو وہاں اپنا چہرہ ڈھک کر نماز ادا کرے کیونکہ عورت کو اجنبی مردوں سے ہرحال میں پردہ کرنا ہے حتی کہ نماز میں بھی پردہ کرنا ہے۔ سوال میں جو صورت مذکور ہے اس صورت میں  کیمرے والی جگہ میں بھی عورت چہرہ ڈھک کر نماز ادا کرے تاکہ کوئی دوسرا آدمی اس کیمرے کی تصویر کو بلاپردہ نہ دیکھ سکے۔

سوال:میری سسٹر ابھی تقریبا ایک ہفتہ پہلے بیوہ ہوئی ہے، اس کا معاملہ یہ تھا کہ اس کے شوہر کراچی میں ہوتے تھے اور وہ پنڈی میں رہتی تھی اور ان کے آپس میں تعلقات بھی نہیں تھے کیونکہ وہ پنڈی نہیں آتے تھے، پکا کراچی میں ہی رہتے تھے۔ اگر کبھی آتے بھی تھے تو میاں بیوی والے ان کے آپس میں تعلقات نہیں تھے اور اپنے رشتے دار مثلا کزن اور بھتیجے وغیرہ کے یہاں رہ کر چلے جاتے تھے، اب ان کا انتقال ہوگیا ہے ایسے میں کیا میری سسٹر کو عدت گزارنی ہوگی جبکہ اس کی عمر اس وقت پچپن کے قریب ہے؟

جواب:اگرچہ میاں بیوی ایک دوسرے سے الگ رہ رہے تھے اور آپس میں روابط اور تعلقات نہیں تھے لیکن شرعی حکم کے تحت وہ دونوں آپس میں میاں بیوی ہی تھے اس وجہ سے شوہر کی وفات پر اس کی بیوی عدت گزارے گی اور وہ چار ماہ دس دن ہیں۔اس عدت میں نہ گھر سے بلاضرورت باہر نکلنا ہے اور نہ ہی زینت کی چیزیں استعمال کرنی ہیں۔

چونکہ میاں بیوی میں روابط نہیں تھے، دونوں آپس میں ایک دوسرے سے دور تھے جبکہ آپس میں میاں بیوی کا رشتہ تھا۔ میاں بیوی ہو کر اس طرح سے ایک دوسرے سے دوری بنائے رکھنا  اور ایک دوسرے کے حقوق ادا نہ کرنا شرعی طور پر جائز نہیں تھا اس کے باوجود وہ دونوں ایک دوسرے سے دور تھے۔ ایسی صورت میں بیوی کو چاہیے کہ اپنی تقصیر کے لیے اللہ رب العالمین سے معافی کی دعا کرے ساتھ ہی میت کے حق میں بھی استغفار کرے کہ اللہ تعالی اس بارے میں ان کی تقصیر بھی معاف فرمائے ۔

سوال: اگر وضو کرکے میک اپ کیا جائے تو میک اپ کی حالت میں نماز و دیگر اذکار کرسکتے ہیں

کیونکہ ہمیں نہیں معلوم ہوتا ہے کہ میک اپ کس چیز سے بنے ہوتے ہیں؟

جواب: اس سوال سے متعلق پہلا مسئلہ یہ ہے کہ بعض میک اپ میں حرام چیزوں کی آمیزش ہوتی ہے لہذا ایسے میک اپ کا استعمال جائز نہیں ہے لیکن وہ میک اپ جس میں حرام چیز کی آمیزش نہ ہو اس کا استعمال کرنا جائز ہے۔ اور ہر ایک چیز کے ڈبے پر اس کے مرکبات کا ذکر ہوتا ہے کہ اس میں کس کس چیز کی ملاوٹ ہے خصوصاً آج کے ترقی یافتہ زمانے میں انٹرنیٹ اور ماہرین سے روابط قائم کرکے کسی چیز کی حقیقت جاننا اور بھی آسان ہوگیا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ میک اپ کی حالت میں ذکر کرنے میں  کوئی مسئلہ نہیں ہے، بلاشبہ ذکر کرسکتے ہیں لیکن نماز کے سلسلے میں دو اوامر کا لحاظ ہونا چاہیے۔

پہلا امر یہ ہے کہ اگر عام اور سادہ میک اپ ہے جس کی وجہ سے خاتون کی توجہ میک اپ کی طرف نہ ہو تو میک اپ کی حالت میں خاتون نماز پڑھ سکتی ہے۔

دوسرا امر یہ ہے کہ ایسا گاڑھا اور غیر معمولی میک اپ کیا گیا ہو کہ خاتون کی توجہ اپنے میک اپ کی طرف ہو یعنی اسے سنبھالنے اور اسے بچانے کی طرف ہو تو اس طرح سے نماز پڑھنا درست نہیں ہے کیونکہ ایسی صورت میں اس کی توجہ نماز کی طرف نہیں میک اپ کی طرف ہوگی اور نماز میں خشوع و خضوع  برقرارنہیں رہے گا۔

اور میک اپ سے متعلق آخری مسئلہ یہ ہے کہ پہلے وضو کیا گیا ہو پھر اس کے بعد میک اپ لگایا گیا ہو تو عام اور سادہ میک اپ میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔اور ذکر کرنے میں  تو اور بھی کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔

سوال: خلاصہ قرآن کے نام سے رمضان بھر دورہ قرآن برائے تفسیر کی کیا حیثیت ہے اور اس کی شروعات کیسے ہوئی؟

جواب: جہاں پر قرآن نازل ہوا وہاں پر عمومارمضان میں ایسا دورہ کہیں پر نہیں کرایا جاتا ہے، نہ ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسا کبھی کچھ ہوا۔ پندرہ سالوں سے میں سعودی عرب میں ہوں اور تعلیم دینا ہی اصل میرا مشن ہے مگر میں نے بھی کبھی کسی رمضان میں کوئی ایسا دورہ نہیں کروایا۔یہ بعد کے لوگوں کی ایجاد ہے تاہم اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ قرآن کی تعلیم رمضان اور غیر رمضان کبھی بھی دے سکتے ہیں، اس کی ممانعت نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو قرآن سیکھے اور سکھائے وہ سب سے بہتر آدمی ہے۔

رمضان عمل اور عبادت کا مہینہ ہے، اس مہینے میں آدمی متفرغ ہوکر کثرت سے عبادت کا کام کرے۔ اس وجہ سے رمضان سے متعلق احکام و مسائل اور تعلیمی کورس، رمضان سے ماقبل ہونا چاہیے اور رمضان میں خود کو متفرغ کرکے عبادات پر توجہ دینا چاہیے، یہ بہتر اور افضل ہے تاہم رمضان میں بھی علمی دورہ کرانے میں حرج نہیں ہے۔

سوال: ایک خاتون ہے اس کو یہ یاد نہیں آرہا ہے کہ رمضان میں کتنے روزے چھوٹے ہیں البتہ یہ یاد ہے کہ حیض کے ایام کے علاوہ کوئی روزہ نہیں چھوٹا مگر اس کے حیض کے ایام کبھی سات دن ہوتے ہیں کبھی آٹھ یا کبھی دس۔ ایسا حمل کے بعد سے ہوا ہے ۔ اس نے یاد کرنے کی کوشش کی مگر یاد نہیں آرہا ہے، زیادہ احتمال دس روزے کا لگ رہا ہے ، کیا وہ سات روزہ رکھنے کے بعد فرض روزہ کی نیت سے تین روزے رکھ لے تو وہ روزے ادا ہوجائیں گے؟

جواب: رمضان کا روزہ ایک فریضہ ہے اس فریضے کے چھوٹنے کا ہمیں یقینی علم ہونا چاہیے بلکہ صاحب ایمان کو فریضہ چھوٹنے پر افسوس ہوتا ہے مگر یہاں معلوم ہوتا ہے کہ عورت نے فریضے سے متعلق غفلت برتی ہے جس کی وجہ سے اسے تعداد تک معلوم نہیں ہیں۔ ہم لوگ اللہ کے معاملے میں کس قدر مغفل ثابت ہوتے ہیں۔ یہی جب کسی کے مالی قرض کا معاملہ ہوتا تو ہمیں یقین سے معلوم ہوتا کہ ہم نے کسی کو کتنا پیسہ دیا ہے یا کسی سے کتنا پیسہ لیا ہے؟

بہرکیف! مذکورہ صورتحال میں حیض کی جو اس کی اکثر مدت دس دن رہی ہے، وہ اس کا اعتبار کر کے دس روزوں کی قضا کرے۔

اور عورتوں کے علم میں یہ بات رہنی چاہیے کہ ہر عورت کو رمضان میں اس بات کو لکھ لینی چاہیے کہ اسے پہلی مرتبہ حیض کب آیا اور اس کا حیض کب ختم ہوا اور حیض کی وجہ سے اس کے کتنے روزے چھوٹے حتی کہ جو نفاس کی حالت میں ہو یا چند دن بھی بیمار پڑگیا ہو، ان سب کو رمضان کے بارے میں اپنے عذر کو اور روزہ چھوٹنے کو ڈائری پر نوٹ کر لینا چاہیے کیونکہ روزہ ایک فریضہ ہے، جو چھوٹ جاتا ہے وہ ہمارے سر پہ قرض کی صورت میں باقی رہتا ہے۔ اس قرض کی صحیح سے ادائیگی ہماری ذمہ داری ہے۔

سوال: جن دنوں عورتوں کو نماز نہیں پڑھنا ہوتا ان دنوں جب فجر میں اٹھتے ہیں تب بھی ناک جھاڑنا چاہئے؟

جواب: وضو کے وقت ناک میں پانی ڈالنا اور ناک صاف کرنا یہ وضو کے عمل میں سے ہے۔وضو کے علاوہ عام حالات میں ناک کی صفائی آدمی کی اپنی ضرورت پر منحصر ہے۔ ایک آدمی کو ہوسکتا ہے ہر روز صبح میں ناک صاف کرنا پڑے اور کسی کو دن میں کئی بار صاف کرنے کی ضرورت پڑے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی کو ناک کی صفائی کی ضرورت نہ پڑے تو اس میں اپنی ضرورت کا لحاظ کرنا ہے۔

سوال: کیا بھیک مانگنے والوں کو پیسے دینے چاہیے، اکثر مساجد کے باہر، ہوٹل کے باہر اور عید گاہ کے پاس، سگنل پر بہت سارے فقیر موجود ہوتے ہیں۔ ایک کو دو تو سب ٹوٹ پڑتے ہیں، ایسے میں بہت مشکل ہوجاتی ہے اور مسجد کے باہر ہر نماز کے بعد یہ فقیر موجود ہوتے ہیں، ایسے میں ہم کیا کریں اگر وہ مانگے تو ہر نماز کے بعد دینا ہوگا؟

جواب: مانگنے والے کو اپنی استطاعت کے مطابق دینا چاہیے مگر مانگنے والوں میں بھی بہت سے لوگ پیشہ ور ہوتے ہیں، ان میں کچھ ضرورت مند بھی ہوتے ہیں۔ ان لوگوں میں امتیاز کرنا تو بہت مشکل ہوتا ہے کہ کون پیشہ ور ہے اور کون ضرورت مند ہے، ایسے میں اپنی استطاعت کے مطابق کسی کو کچھ دینا چاہیں بطور خاص جس کو معذور پائیں یا جسمانی اعتبار سے ضرورت مند دیکھیں تو اسے کچھ دے دیا کریں۔

بہرکیف! اس معاملہ میں اپنی استطاعت اور لوگوں کے حالات دیکھ کر عمل کریں۔ اللہ کا فرمان ہے سائل کو مت جھڑکو۔ اسے دینے کے لئے کچھ ہو تو دے دیں، دینے کے لئے نہ ہو تو معذرت کرلیں۔

سوال: نماز میں قرآن کا حفظ بھول جاتی ہوں جیسے سورہ ملک کی آدھے صفحہ کی قرات کی پھر اس کے بعد بھول گئی۔ آگے سے جلدی یاد نہیں آتا ہے تو یاد کرنے کی کوشش کرتی ہوں لیکن وقت لگ جاتا ہے، ایسے میں قرآن کے دوسرے صفحہ سے قرات کرتی ہوں، کیا یہ صحیح ہے اور ایک ہی رکعت میں ایک سورت کے بعد اور کوئی دوسری سورت پڑھ سکتے ہیں؟

جواب: نماز میں قرآن کی وہی سورت اور آیات پڑھیں جو مکمل ازبر ہوں اور ایسی کوئی سورت یا آیات نہ پڑھیں جو آپ کو ازبر نہ ہوں۔ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے کہ تمہارے لیے قرآن سے جو پڑھنا میسر ہو اس کی تلاوت کرو۔

آپ نے جو صورت ذکر کی ہے کہ اگر کوئی سورت پڑھتے ہیں اور اس میں چند آیات پڑھنے کے بعد بھول ہو جاتی ہے تو ایسی صورت میں اگر جلدی سے اگلی آیات یاد آجائیں تو اگلی آیات کی تلاوت کریں اور آیات یاد نہ آئین تو رکوع میں چلے جائیں مگر درمیان میں چند آیات چھوڑ کر آگے سے تلاوت نہ کریں کیونکہ تلاوت تسلسل کے ساتھ کرنی ہے اور نماز میں چند آیات کی تلاوت کرنا بھی کافی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ایک ہی رکعت میں ایک سورت پڑھنے کے بعد دوسری سورت بھی پڑھ سکتے ہیں تیسری بھی پڑھ سکتے ہیں ،حسب استطاعت جتنی سورتیں پڑھنا چاہیں پڑھ سکتے ہیں لیکن ترتیب سے پڑھنا چاہیےیعنی ایک سورت پڑھنے کے بعد اس کے بعد والی سورت پھر اس کے بعد والی سورت۔ ایسا نہیں کہ پہلے بعد والی سورت پڑھیں پھر اس کے بعد اس سے پہلے والی سورت پڑھیں۔

سوال: کیا نماز میں کندھا ڈھکنا ضروری ہے۔ میرے شوہر کل ہاف ٹی شرٹ پہن کر مسجد گئے تو ایک تبلیغی بھائی نے ان پر اعتراض کیا اور کہا کہ اس طرح سے نماز نہیں ہوتی کیا یہ بات درست ہے؟

جواب: نماز میں کندھا ڈھکنا ضروری ہے، بغیر کندھا ڈھکے نماز نہیں ہوتی ہے لیکن ہاف ٹی شرٹ میں بلاشبہ نماز ہوجائے گی کیونکہ اس میں کندھا ڈھک جاتا ہے اور جس نے کہا کہ اس میں نماز نہیں ہوتی ہے اس کو اس بارے میں شرعی حکم معلوم نہیں ہے۔

سوال: قرآن مجید میں سات نمبر تک منزل لکھا ہوتا ہے، ایک خاتون جمعرات سے لے کر بدھ تک پورا قرآن ختم کرتی ہے، کیا ایسے قرآن پڑھ سکتے ہیں؟

جواب:قرآن میں سات منزل متعین کئے گئے ہیں، یہ بعد کے لوگوں نے قرآن کی تلاوت میں آسانی کے لئے متعین کئے ہیں۔جو کوئی قرآن کو سات دنوں میں پڑھنا چاہے وہ ایک ایک منزل کی تلاوت کرکے سات دنوں میں قرآن مکمل ختم کرسکتا ہے۔ اس میں حرج کی کوئی بات نہیں ہے۔یہ منزل تو تلاوت میں آسانی کی غرض سے ہی متعین کی گئی ہیں۔

سوال:اگر کسی عورت کی عدت پوری ہونے میں چار یا پانچ دن باقی ہو تو کیا وہ شادی میں شریک ہو سکتی ہے عدت پوری ہونے سے پہلے؟ سنے ہیں کہ معتدہ کیلئے ان دنوں میں غم منانے کا حکم ہے تو کیا وہ شادی کی دعوتوں میں شریک ہو سکتی ہے جبکہ  اس میں شریک ہونا ضروری نہیں ہو،کہتےہیں کہ اگر کوئی قریبی رشتے دار کا انتقال ہوجائے تو بھی وہاں بہت زیادہ دیر تک بیٹھنا نہیں ہے، صرف تھوڑی دیر کیلئے جاکر واپس آجائے، اسکے بارے میں رہنمائی فرمائیں؟

جواب:جو عورت عدت میں ہو اور ابھی اس کی عدت مکمل نہیں ہوئی ہو وہ اپنے گھر سے باہر نکل کر کسی فنکشن اور پارٹی میں شریک نہیں ہوسکتی ہے۔ اپنے گھرمیں رہتے ہوئے اپنے گھر کی شادی  میں شریک ہو سکتی ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ معتدہ کے لئے شادی میں شریک ہونا منع نہیں ہے، اصل بلاضرورت گھر سے باہر نکلنا منع ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ وفات کی عدت میں غم منانے کا حکم نہیں ہے بلکہ ترک زینت کا حکم ہے تاہم  دنیاوی معاملات کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔کسی دوسرے کی شادی میں شرکت کے لئے یا غیرضروری دعوت میں حاضری کے لئے گھر سے نہ نکلے یہاں تک کہ کسی کی وفات پر بھی اس کی زیارت کے لئے نہ جائے تاہم اپنے کوئی قرینی ہو تو اس کی زیارت کرکے گھر واپس آجائے۔

سوال: ایک لڑکا دوکان میں کام کرنے کی حیثیت سے تھا اس نے تیس ہزارروپئے اڈوانس لیا تھا مگر اب وہ واپس دینے سے انکار کررہا ہے ۔ کیا وہ پیسے زکوۃ میں شامل کرسکتے ہیں ، اس سے پیسے مانگنے پر وہ کہہ رہا ہے کہ ان پیسوں کو زکوۃ میں شامل کرلو؟

جواب:ایڈوانس لیا ہوا پیسہ قرض کی حیثیت سے ہے اور اس قرض کو زکوۃ مان کر نہیں چھوڑسکتے ہیں۔قرض معاف کر دیا جائے ، یہ چل جائے گا لیکن قرض کو زکوۃ مانگ لیں یہ جائز نہیں ہے۔

سوال: شادی کے موقع پر جب ہمیں لوگ مبارکباد دیتے ہیں تو جواب میں ہمیں کیا کہنا چاہئے؟

جواب:حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ جس کی شادی ہو اس کو ان الفاظ میں دعا دی جائے۔"بارَكَ اللّٰهُ لَكَ وَبَارَكَ عَلَيْكُمَا وَجَمَعَ بَيْنَكُمَا فِي خَيْرٍ"لیکن اس بات کی صراحت نہیں ہے کہ جس کو یہ دعا دی جائے وہ لوگوں کو کن الفاظ میں جواب دے۔صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے جسم پر شادی کے آثار دیکھے تو آپ نے انہیں ان الفاظ میں دعا دی۔

"بارك الله لك" (بخاری:5155)مگر اس حدیث میں صحابی کا جواب دینا منقول نہیں ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ شادی کی موقع پر اصل یہی ہے کہ جس کی شادی ہو رہی ہے اس کو دعا دی جائے۔ جواب میں وہ آمین کہہ سکتا ہے یا اسی کے مثل برکت کی دعا دے سکتا ہے یعنی بارک اللہ فیک کہہ سکتا ہے۔

سوال: سودی کاروبار والے کے گھر سے دیا ہوا کچھ کھاسکتے ہیں؟

جواب: جس کی آمدنی سودی کاروبار کی ہو اور کوئی حلال آمدنی نہ ہو تو اس کی دعوت کھانا جائز نہیں ہے یا اس کی طرف سے پیش کیا ہوا کچھ بھی قبول کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ وہ جو کچھ پیش کرے گا وہ خالص حرام مال کا ہوگا۔

سوال: کیا فجر کے بعد سونا رزق کی کمی کا باعث ہے؟

جواب:فجر بعد سونے کی ممانعت کے ثبوت میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے ، بعض ضعیف روایت میں ذکر ہے کہ فجر کے بعد سونے سے رزق سے محرومی ہوتی ہے مگر صحیح حدیث میں ممنوع نہ ہونے کے سبب فجر کے بعد سونے میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ دو باتوں کا خیال کیا جائے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ضرورت کے وقت فجر کی نماز پڑھ کر سویا جائے اور دوسری بات یہ ہے کہ رات میں نیند پوری ہوگئی ہوتو بلاضرورت فجر کے بعد نہ سویا جائے ۔ زیادہ سونے سےسستی پیدا ہوتی ہے اور صبح کے وقت میں برکت ہے اس سے مستفید ہوا جائے ۔ کوئی یہ نہ سوچے کہ اس وقت میرے پاس کوئی کام نہیں ہے تو سوناہی افضل ہے ۔ نہیں، بہت سارے کام ہیں، تدبر کےساتھ قرآن کی تلاوت، حفظ قرآن وحدیث ، حفظ ادعیہ، ذکرواذکار، دینی کتابوں کامطالعہ، مسجد، مدرسہ، ادارہ یا گھر میں لوگوں کے درمیان وعظ ونصیحت یا مستنداہل علم کے بیانات سننا وغیرہ۔ کتنی عجیب بات ہے کہ دنیاکے کاموں کے لئے ہمارے پاس کافی وقت  ہوتاہے مگر دین  سیکھنے یا سکھانے کے لئے  ہم کوئی وقت نہیں دیتے۔ کم ازکم اس وقت کو تو دین کے لئے نکال لیں ہوسکتا ہے، اس کی برکت سے ہمیں دین ودنیا دونوں  جگہوں    کی بھلائی نصیب ہوگی ۔

سوال:کیا قبلہ رخ ہوکر ہی قرآن کی تلاوت کرنی ہوگی یا ٹیک لگا کر قبلہ کی مخالف سمت میں بھی تلاوت کرسکتے ہیں ؟

جواب: کسی بھی رخ تلاوت کرسکتے ہیں، تلاوت کے لئے قبلہ رخ ہونا کوئی ضروری نہیں ہے ۔ جس سمت ہوکر تلاوت کرنا چاہیں اور بیٹھنے میں جیسے آسانی ہو اس طرح تلاوت کرسکتے ہیں،  کوئی حرج نہیں ہے حتی کہ لیٹ کر یا چلتے ہوئے  یاجہاز میں اڑتے ہوئے جیسے تلاوت کرنا چاہیں اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔