Sunday, March 2, 2025

قسطوں کے کاروبار کا حکم

 قسطوں کے کاروبار کا حکم

تحریر: مقبول احمد سلفی

جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ - سعودی عرب


آج کل زمانہ کافی ترقی کرگیا ہے، یہ ترقی ہرشعبہ میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ تجارتی معاملات میں بھی زمانے کے مطابق کافی بدلاؤ نظر آتا ہے اور آئے روز نئے نئے روزگار کے طریقے اور تجارت کی نت نئی اسکیمیں وجود میں آرہی ہیں۔ مروجہ تجارت کے مختلف طریقوں میں ایک طریقہ قسطوں کا کاروبار ہے۔ قسطوں کے کاروبار میں ایک چیز کی دو الگ الگ قیمت ہوتی ہے ۔ کوئی چیز نقد لینے پر الگ قیمت ہوتی ہے اور وہی چیز اھار اور قسطوں پر لینے میں زیادہ قیمت دینی پڑتی ہے۔ ایسی تجارت کے بارے میں اہل علم کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے یعنی بعض علماء قسطوں کے کاروبار کو جائز کہتے ہیں اور بعض علماء ناجائز کہتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ قسطوں کا کاروبار ناجائز ہے کیونکہ اس کاروبار میں متعدد قسم کی شرعی خامیاں پائی جاتی ہیں اور اس میں آدمی کے لئے نقصان وخطرہ بھی ہے۔ اور جب کسی تجارت میں کوئی شرعی خامی پائی جائے تو وہ شرعی نقطہ نظر سے ناجائز ہوتی ہے ۔ اس سلسلے میں ایک بہت ہی مشہور حدیث ہے جو مختلف الفاظ کے ساتھ کتب حدیث میں موجود ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ (سنن الترمذی:1231)

ترجمہ:ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیع کرنے سے منع فرمایا۔

اس حدیث کو شیخ البانی نے صحیح قراردیا ہے۔

اس حدیث میں نبی ﷺ نے ایک بیع میں دو بیع کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ بیع سے متعلق یہ ایک عام حدیث ہے یعنی ایک بیع میں دو قسم کی بیع کی جو جو صورت پائی جاتی ہے وہ سب صورتیں ناجائز کہلائی گی کیونکہ نبی ﷺ نے عام حکم دیا ہے، اس کو خاص کرنے والا کوئی نص نہیں ہے لہذا اس ممانعت میں سلف سے وارد بیعتین فی بیعۃ کی ساری تفاسیر داخل مانی جائیں گی۔ چنانچہ امام ترمذی نے اس کی دو تفاسیر بیان فرمائی ہےجو پہلے اور دوسرے نمبر پرہے۔

(1)ایک بیع میں دو بیع کی ایک تفسیر یہ ہے کہ مثلاً کہے: میں تمہیں یہ کپڑا نقد دس روپے میں اور ادھار بیس روپے میں بیچتا ہوں اور مشتری دونوں بیعوں میں سے کسی ایک پر جدا نہ ہو۔ اگر کسی ایک بات پر جدا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ ان دونوں میں سے کسی ایک پر بیع منعقد ہو گئی ہو۔

(2)دوسری تفسیر، امام شافعیؒ کی بات ہے، جیسے کوئی کہے کہ: میں اپنا یہ گھر اتنے روپے میں اس شرط پر بیچ رہا ہوں کہ تم اپنا غلام مجھ سے اتنے روپے میں بیچ دو۔ جب تیرا غلام میرے لیے واجب و ثابت ہو جائے گا تو میرا گھر تیرے لیے واجب و ثابت ہو جائے گا، یہ بیع بغیر ثمن معلوم کے واقع ہوئی ہے اور بائع اور مشتری میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس کا سودا کس چیز پر واقع ہوا ہے۔

(3)ایک تیسری تفسیر ابن القیم ؒ سے مروی ہے کہ بیچنے والا خریدنے والے کے ہاتھ کوئی سامان سو روپے ادھار پر بیچے، پھر خریدار سے اسی سامان کو اسی روپے نقد پر خرید لے۔

(4)ایک تفسیر امام احمد ؒ سے منقول ہے کہ بیچنے والا کہے میں یہ کپڑا تیرے ہاتھ بیچ رہا ہوں اس شرط پر کہ اس کی سلائی اور دھلائی میرے ذمہ ہو گی۔ چنانچہ اس معنی کی ایک حدیث بھی دیکھیں۔ عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَا يَحِلُّ سَلَفٌ، وَبَيْعٌ وَلَا شَرْطَانِ فِي بَيْعٍ، وَلَا رِبْحُ مَا لَمْ يُضْمَنْ، وَلَا بَيْعُ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ (سنن الترمذي:1234،قال الشيخ الألباني: حسن صحيح)

ترجمہ:بیع کے ساتھ قرض جائز نہیں ہے، اور نہ ایک بیع میں دو شرطیں جائز ہیں اور نہ ایسی چیز سے فائدہ اٹھانا جائز ہے جس کا وہ ضامن نہ ہو اور نہ ایسی چیز کی بیع جائز ہے جو تمہارے پاس نہ ہو۔

یہاں پر ایک بیع میں دو شرط کا مطلب وہی ہے جو ایک بیع میں دو بیع کا مطلب ہے۔

(5)ابن قتیبہ سے ایک قول یہ مروی ہے کہ ایک بیع میں دو شرط جن سے منع کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ آدمی دومہینہ کے لئے دودینار پر خریدے اور تین مہینے کے لئے تین دینار پر خریدے اور یہی معنی ہے ایک بیع میں دو بیع کا۔

(6)اس حدیث کی تفسیر سے متعلق ایک قول یہ بھی دیکھیں جواسی معنی کی حدیث کے تحت راو ی سے منقول ہے۔

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ صَفْقَتَيْنِ فِي صَفْقَةٍ وَاحِدَةٍ" قَالَ أَسْوَدُ قَالَ شَرِيكٌ: قَالَ سِمَاكٌ: الرَّجُلُ يَبِيعُ الْبَيْعَ، فَيَقُولُ هُوَ بِنَسَاءٍ بِكَذَا وَكَذَا، وَهُوَ بِنَقْدٍ بِكَذَا وَكَذَا.(مسند احمد:3783)

ترجمہ:سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک معاملے میں دو معاملوں کو جمع کرنے سے منع فرمایا ہے، راوی اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ کوئی شخص یوں کہے کہ یہ چیز ادھار میں اتنے کی ہے اور نقد ادائیگی کی صورت میں اتنے کی۔

امام ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اس کے رجال کو ثقات کہا ہے، مسند احمد کی تحقیق میں احمد شاکر نے صحیح اور شعیب ارناؤوط نے صحیح لغیرہ کہا ہے ، شیخ البانی نےارواء الغلیل میں ایک راوی شریک کے بارے میں کہاکہ وہ سیءالحفظ ہیں اس لئے ان سے حجت نہیں پکڑی جائے گی تاہم یہ حدیث معنوی اعتبار سے درست ہے کیونکہ اس معنی کی متعدد روایات ہیں جیساکہ اس سے پہلی حدیث بھی اسی معنی کی ہے۔ اس حدیث میں ایک بیع میں دوبیع سے متعلق راوی حدیث کی ایک تفسیربھی ہے وہ یہ ہے کہ ادھارکی صورت میں الگ قیمت ہے اور نقد کی صورت میں الگ قیمت ہے۔دراصل یہ تفسیر، ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے۔ ابن ابی شیبہ میں ہے ، ابن مسعود فرماتے ہیں:

صفقتان في صفقة ربا أن يقول الرجل : إن كان بنقد فبكذا، وإن كان بنسيئة فبكذا(مصنف ابن أبي شيبة :5/54)

ترجمہ: ایک معاملہ میں دو معاملے سود ہے، اس کی صورت یہ ہے کہ آدمی کہے اگر نقد ہو تو اتنے اور ادھار ہو تو اتنے کی ۔

یہ اثر ابن ابی شیبہ میں دو سندوں سے مروی ہے، پہلی سند کو شیخ البانی نے ضعیف اور دوسری سند کو شیخ نے صحیح کہا ہےجو سفیان ؒسے روایت ہے۔
جب آپ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول پر غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے یہ بات اپنی طرف سے نہیں کہی ہے بلکہ اس کی وجہ حدیث رسول ہے چنانچہ ابوداؤد کی ایک حدیث دیکھیں۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ بَاعَ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ فَلَهُ أَوْكَسُهُمَا أَوِ الرِّبَا(سنن ابی داؤد:3461،صححہ البانی)

ترجمہ:ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایک معاملہ میں دو طرح کی بیع کی تو جو کم والی ہو گی وہی لاگو ہو گی (اور دوسری ٹھکرا دی جائے گی) کیونکہ وہ سود ہو جائے گی۔

مضمون کے شروع میں ترمذی کی حدیث گزری ، مذکورہ بالا حدیث بھی وہی ہے کہ ایک بیع میں دو بیع جائز نہیں ہے ، ساتھ ہی یہاں پر یہ اضافہ بھی ہے کہ ایک بیع میں دو بیع کی جائے تو زیادتی والا معاملہ سودہے۔ میرے خیال سے اب پوری طرح بات واضح ہورہی ہے کہ ایک بیع میں دو بیع کرنا کسی صورت جائز نہیں ہے، ورنہ زیادتی والی بیع سود کہلائے گی اور وہ حرام ہوگی۔

جواز سے متعلق شبہات  کا ازالہ :

٭ایک بیع میں دو بیع کی ممانعت والی صورت میں عام طور پر یہ بات ذکر کی جاتی ہے جسے امام ترمذی نے نقل کیا ہے کہ بائع مشتری پر نقد اور ادھار دونوں قیمت پیش کرے یعنی وہ کہے میں تمہیں یہ چیز نقد میں اتنا اور ادھار میں اتنا میں بیچ رہا ہوں اور سودا ہوجائے مگر ادھار یا نقد طے نہ ہو تو جہالت کی وجہ سے اس بیع کی ممانعت ہے لیکن اگر مشتری ادھار یا نقد کسی ایک قیمت پر اتفاق کرلے تو بیع درست ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ عموما اس طرح کوئی تجارتی معاملہ نہیں ہوتا۔ جب بائع اور مشتری معاملہ کرتے ہیں اور دونوں کے درمیان ادھار یا نقد پر بیع کے لئے معاملہ ہوتا ہے تو ضرور کسی نہ کسی بات پر بیع ہوتی ہے کہ میں ادھار لوں گا یا نقد لوں گا، بغیر اس کے تعین کے بیع نہیں ہوتی ہے۔ اس وجہ سے امام ترمذی کا یہ قول جو بعض اہل علم کی طرف منسوب ہے، درست معلوم نہیں ہوتا ہے اور یہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے قول کے خلاف بھی ہے  لہذا اس معاملہ میں قول صحابی فوقیت رکھتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ایک بیع میں دوبیع کی تفسیر سے متعلق کئی اقوال ملتے ہیں۔ ان میں ایک قول یہ ہے کہ ایک چیز کی قیمت ادھار میں کچھ اور نقد میں کچھ جیساکہ اس سلسلے میں اوپر بعض اقوال گزرے ہیں جن میں ابن مسعودرضی اللہ عنہ کا قول بھی ہے بلکہ اور بھی متعدد اہل علم سے یہ تفسیر منقول ہےجیسے عبدالوہاب بن عطاء کہتے ہیں کہ اس کا معنی ہے یہ نقد میں دس کا ہے اور ادھار میں بیس کا ہے۔پھر سوال یہ ہے کہ اس قول کو کیوں چھوڑا جائے گا؟

حقیقت یہ ہے کہ ایک بیع میں دوبیع کی تفسیرمیں یہ قول بھی شامل ہے اور یہ کاروبار بھی ممنوعہ بیع میں شامل ہے یعنی اسلام کی نظر میں کسی بیع میں دوبیع شامل ہواس کی ممانعت ہے ۔اس لئے ہم صراحت کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ ایک بیع میں دو بیع کے جتنے معاملات ہوسکتے ہیں وہ سب ناجائز ہیں کیونکہ نص عام ہے اور اس کی متعدد تفاسیر سلف سے منقول ہیں لہذا ساری تفاسیر اس بیع میں داخل مانی جائے گی اور ہر وہ تجارتی معاملہ جو ایک بیع میں دو بیع سے متعلق ہو،جائز نہیں ہوگا۔

٭ قسطوں والی بیع کے جواز میں عموما قرآن کی یہ آیت پیش کی جاتی ہے: "وَأَحَل اللہُ البیعَ" کہ اللہ نے بیع کو حلال قرار دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بیع حلال ہے اور بیع کی اصل حلت ہی ہے مگر جس بیع کی ممانعت کسی نص سے ہوجاتی ہو وہ بیع جائز نہیں ہے۔ قسطوں کی بیع ، ایک بیع میں دوبیع ہے اس لئے یہ جائز نہیں ہے، یہ سود پر مبنی ہے۔

٭ اسی طرح قسطوں کی بیع کے جواز میں ایک حدیث پیش کی جاتی ہے۔عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک لشکر تیار کرنے کا حکم دیا، تو اونٹ کم پڑ گئے تو آپ نے صدقہ کے جوان اونٹ کے بدلے اونٹ (ادھار) لینے کا حکم دیا تو وہ صدقہ کے اونٹ آنے تک کی شرط پر دو اونٹ کے بدلے ایک اونٹ لیتے تھے۔(ابوداؤد:3357)

اسے شیخ البانی اور شیخ زبیر علی زئی نے ضعیف کہا ہے۔ اسکے بالمقابل ایک دوسری صحیح حدیث اس سے خلاف ہے۔

عن سمرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم" نهى عن بيع الحيوان بالحيوان نسيئة (أخرجه أبو داود:3356 والترمذي:1237 والنسائي:4620 وابن ماجه:2270 وأحمد:20215)

ترجمہ: سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور کے بدلے جانور ادھار بیچنے سے منع فرمایا ہے۔

اس حدیث کو شیخ البانی اور شیخ زبیر علی زئی نے صحیح کہا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ قسطوں کی بیع کے جواز میں کوئی صحیح دلیل نہیں ہے جبکہ قسطوں کی بیع کے ناجائز ہونے کی صحیح دلیل موجود ہے اس لئے شرعی حیثیت سے اس تجارت کی اجازت نہیں ہے۔

قسطوں کی تجارت سود پرہے  جبکہ ادھارکی بنیاد احسان پر ہوناچاہئے

دلائل کی روشنی میں سطور بالا سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ایک چیز کی دو الگ الگ قیمت متعین کرناجائز نہیں ہے کیونکہ زیادتی والا معاملہ سود میں داخل ہے۔اس بات کو مدنظررکھتے ہوئے آج جو لوگ قسطوں کا کاروبار کررہے ہیں اس پہ غورکریں تو معلوم ہوگا کہ واقعتا مروجہ قسطوں کے کاروبار کی عمارت سود پر قائم ہے۔ اگراس کاروبار سے سود نکال دیا جائے تو اس کاروبار کی عمارت منہدم ہوجائے گی ۔

قسطوں کے کاروبار میں ہوتا کیا ہے ، نقد کے مقابلہ میں قسط کی سہولت دے کرمہلت کے بدلے بائع ، مشتری سے زیادہ پیسہ لیتا ہے اور اس کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتا ہے۔اسلام عدل وانصاف اور وسطیت پر مبنی ہےاس لئے زندگی کے تمام مراحل میں اسی منہج کی تعلیمات دیتا ہےحتی کہ تجارت کے باب میں بھی اسلام کا اعتدال دیکھنے کو ملتا ہے چنانچہ عہد رسول کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جس کے پاس سامان خریدنے کی طاقت نہیں تھی اس کی عام طور پردو صورت نظر آتی ہے۔

پہلی صورت:بائع کا مشتری کوایک مدت کے لئے مکمل ادھار سامان دینا جیسے نبی ﷺ نے یہودی سےایک مدت کے لئے ادھار سامان لیا تھا،چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقررہ مدت کے قرض پر ایک یہودی سے غلہ خریدا اور اپنی زرہ اس کے یہاں گروی رکھی تھی۔ (صحيح البخاري:2200)

دوسری صورت: کسی چیز کے لئے جو قیمت طے ہوئی ہے اسے متعین مدت میں قسطوں کی شکل میں لینا یعنی ایک چیز کی جو اصل قیمت ہے اس میں اضافہ کے بغیر وہی قیمت قسطوں میں ادا کرنا جائز ہے۔ چنانچہ عروہ کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : بریرہ رضی اللہ عنہا ان کے پاس اپنی مکاتبت میں مدد کے سلسلے میں حاضر ہوئی اس کے ذمہ پانچ اوقیہ چاندی تھی جو اس نے پانچ سالانہ اقساط میں ادا کرنا تھی یعنی ہرسال ایک اوقیہ چاندی۔(صحيح البخاري:2560)

ادھار کی یہ دونوں صورتیں اسلام میں جائز ہیں اور ادھار کے یہ دونوں معاملات احسان پر مبنی ہیں اور دراصل ادھار میں کوئی بائع مشتری پر احسان کرے گا تبھی اسلام کے مطابق تجارت کرسکے گا ورنہ ادھار کے وقت قیمت بڑھاکر زیادتی والا معاملہ سود میں داخل ہوجائے گا۔اس سودی معاملہ سے متعلق رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث بھی ملاحظہ فرمائیں ۔

لا تَصلحُ سَفقتانِ في سفقةٍ ولفظ ابنِ حِبَّانَ لا يحلُّ صَفقتانِ في صفقةٍ وإنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ قال لعن اللهُ آكلَ الرِّبا وموكلَه وشاهدَه وكاتبَه(السلسلة الصحيحة:5/420)

ترجمہ: ایک معاملہ میں دو معاملے جائز نہیں ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی کی گواہی دینے والے اور سود کو لکھنے والے پر اللہ کی لعنت ہے ۔

یہ حدیث خاص اسی سودی معاملہ سے متعلق ہے جوایک بیع میں دو بیع سے متعلق ہو۔

قسطوں کے مروجہ کاروبار میں مالی جرمانہ:

عموما قسطوں کے کاروبار میں کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیرہوجائے تو مالی جرمانہ بھی لگایا جاتا ہے ، یہ امر عقد میں مذکور ہوتا ہے ۔یہ بھی ایک قسم کا مزید اضافی سودی معاملہ ہے اور یہ وہ معاملہ ہے جس پر سبھی اہل علم متفق ہیں کہ اس شرط کے ساتھ قسطوں والی بیع جائز نہیں ہے۔ جب آپ برصغیرہندوپاک میں رائج قسطوں کے کاروبار کا پتہ لگائیں تو معلوم ہوگا کہ ان سب جگہوں پرعموما یہ شرط موجود ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر قسطوں والی بیع میں یہ شرط لگی ہو کہ تاخیر پر جرمانہ دینا پڑےگا تو ایسی صورت میں یہ بیع متفقہ طور پر جائز نہیں ہے خواہ کسی کو جرمانہ دینا پڑے یا نہ دینا پڑے ، بیع میں اس شرط کا مذکورہونا ہی اس بیع کے ناجائز ہونے کےلئے  کافی ہے۔

سودی بنکوں کے ذریعہ قسطوں پر خریداری:

بہت ساری چیزیں بنکوں کے ذریعہ قسط پر خریدی جاتی ہیں ، یہ بیع بھی جائز نہیں ہے ، اس کے مندرجہ ذیل وجوہات ہیں۔

٭ یہ سودی کام پر تعاون ہے۔

٭ایک بیع میں دوبیع شامل ہےجوکہ ممنوع ہے۔

٭قسط کی ادائیگی میں تاخیر پر مالی جرمانہ لیا جاتا ہے ۔

٭نقصان کا اندیشہ بھی ہے جس کا ذکر آگے آنے والا ہے۔

ان وجوہات کے سبب بنکوں کے ذریعہ قسط پر سامان خریدنا جائز نہیں ہے ، نیز اسی طرح ہر اس ادارے سے فائننس پر سامان لینا جائز نہیں ہے جو بنکوں کے توسط سے بیع کرتے ہیں بلکہ کسی بھی شکل میں ادھارونقد کے فرق کے ساتھ قسطوں کی بیع جائز نہیں ہےکیونکہ یہ سودی معاملہ ہے۔

قسطوں کی بیع ،منفعت ونقصان کے درمیان:

قسطوں کے کاروبار نے ہرقسم کے آدمی کے اندر یہ چاہت پیدا کر دی ہے کہ وہ بھی بڑی سے بڑی قیمت کی چیز خرید سکتا ہے خواہ بروقت مالی اعتبار سےوہ کتناہی  مسکین کیوں نہ ہوچنانچہ ایک آدمی مستقبل سے امید لگاکر مہنگی چیز قسط پر لے لیتا ہے اور کبھی کوئی اس چیز کو خریدنے میں کامیاب ہوجاتا ہے ، اس کی ساری قسطیں بھردیتا ہے مگر کبھی کوئی اس کی قسط بھرنے سے پیچھے رہ جاتا ہے اور اس آدمی کو بہت خسارہ اٹھانا پڑتا ہےیہاں تک کہ کبھی وہ خسارہ اس کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے کیونکہ اس بندے کے پاس پیسہ نہیں تھا، نہ آمدنی کا مستقل ذریعہ تھابس کمانے کی امید تھی جو پوری نہیں ہوئی اور قسطوں کی بیع کرکے نقصان اٹھانا پڑا۔ آئیے اس بات کو ایک فورویلر کی مثا ل سے سمجھتےہیں۔

جس آدمی کے پاس فورویلرخریدنے کی طاقت ہے اوراس کے پاس  پیسہ بھی  موجود ہے وہ قسطوں میں زیادہ پیسہ دے کر کیوں خریدے گا، قسطوں میں وہی خریدتا ہے جو مجبور ہوتا ہے اور اس کی  مجبوری کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔جس کے پاس فورویلر خریدنے کے لئے مکمل پیسے نہیں ہیں اس آدمی کی بات مثال سے کچھ اس طرح سمجھیں۔

٭ایک آدمی سرکاری نوکری کرتا ہے اور ہرماہ آمدنی  آتی ہے وہ اس آمدنی کی بنیاد و بھروسہ پر فورویلر قسط پر لیتا ہے ۔

٭ایک آدمی غیرسرکاری ادارہ میں پرائیویٹ نوکری کرتا ہے اس آمدنی کے بھروسے گاڑی قسط پر لیتا ہے۔

٭ ایک آدمی روزانہ کا مزدور ہے جسے کبھی کام ملا، کبھی نہیں پھربھی   وہ قسط پر گاڑی لیتا ہے۔

٭ایک آدمی کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی اس کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ ہے ، وہ  اس امید میں گاڑی قسط پر لیتا ہے کہ اس گاڑی سے کماکر قسط بھرا کرے گا، پہلی قسط اس نے جیسے تیسے اور ادھر ادھر سے قرض لے کر یا بنک سے لون لے کر بھردیا ، آئندہ اسے کماکر قسط دینا ہے۔
ان تمام صورتوں کو ذہن میں رکھیں اور غورکریں کہ ممکن ہے ان طبقات میں سے کئی طبقات والے مکمل قسط جمع کرسکیں خصوصا جن کی مستقل ماہانہ آمدنی ہے اس کے باوجود صحت، کام اور آمدنی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے ۔ آدمی کی نوکری ختم ہوسکتی ہے،وہ بیمار ہوسکتا ہے یا اس کی آمدنی کسی وجہ سے بند ہوسکتی ہے اور جس نے مستقبل میں کماکردینے کا سوچا اس کے لئے زیادہ نقصان کا اندیشہ لگارہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب سماج پر نظر ڈالتے ہیں تو قسطوں سے کماکرمالداربننےوالے  لوگ بھی نظر آتے ہیں اور قسطوں سے نقصان اٹھانے والے افراد بھی نظر آتے ہیں بلکہ بسااوقات قسطوں کی وجہ سے آدمی کی زمین یا گھر نیلام ہوجاتا ہےاور آدمی تباہی کے دہانے پر آجاتا ہے ۔ اگر کچھ لوگ قسطوں سے نفع کمالیں اور کچھ کو اس سے نقصان ہو تو اس بیع سے لوگوں کو روکا جائے گا۔اس جگہ یہ کہنادرست نہیں ہے کہ تجارت میں نفع و نقصان ہوتا رہتا ہے ۔ جو تجارت کرے گا اس کے ساتھ نفع و نقصان کا معاملہ ہوسکتا ہے مگر جو استعمال کے لئے سامان خریدکرگھر لارہا ہے ، اس خریدار کو کیوں نقصان اٹھانا ہے؟

اگر کوئی یہ کہے کہ ایک چیز کی ادھار اور نقد دونوں طرح  ایک ہی قیمت  ہو تو مہنگی چیز قسطوں میں خریدنا تب بھی بعض لوگوں کے لئے  پرخطر ہوسکتی ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ادھار کی زیادتی نکال دی جائے تو پھر مروجہ قسطوں والی تجارت ہی بندہوجائے گی کیونکہ یہ تجارت اسی زیادتی(سود) پر چل رہی ہے۔

احیتاطی پہلو اور ایک مشورہ :

جو علماء قسطوں کی بیع کوجائز قرار دیتے ہیں وہ ایک بیع میں دو بیع کی ایک تفسیر مانتے جو جواز سے متعلق ہے مگر عدم جواز سے متعلق دوسری تفسیر ہے اسے چھوڑ دیتے ہیں جبکہ اس تفسیر کو چھوڑنے کی کوئی وجہ نہیں ہے بلکہ وہی اہم ہے  اس وجہ سے دلیل کی روشنی میں بھی قسطوں کا کاروبار جائز نہیں ہے اور احتیاط کا بھی پہلو یہی ہے کہ اس سے بچا جائے کیونکہ اس میں سودی پہلو نمایاں ہے جس پر قسطوں والی بیع کی عمارت کھڑی ہے۔

دوسری بات میں اس جگہ ایک مشورہ بھی  دینا چاہتاہوں کہ جس آدمی کو ابھی کوئی مہنگی چیز خریدنے کی استطاعت نہیں ہے اس کے لئےدانائی یہی ہے کہ وہ  ابھی مہنگی چیز کالالچ نہ کرے، ہاں محنت کرکےپہلے  قیمت   جمع کرلے پھر اس وقت اپنی مطلوبہ چیز نقد خریدے۔اسی طرح جو ماہانہ تنخواہ والے ہیں وہ پہلے کماکرسامان کی قیمت جمع کرلیں پھر مطلوبہ سامان خریدیں ۔ اس میں تحفظ بھی ہے اور شریعت کی پاسداری کے ساتھ بیع بھی ہے لیکن جب آپ قسطوں کی بیع کرتے ہیں تو کہیں نہ کہیں سود پر تعاون کرتے ہیں ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔