Monday, January 13, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(9)

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(9)

جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی

جدہ دعوہ سنٹر، السلامہ- سعودی عرب

سوال : میرے شوہر نے دانتوں پر کیپ لگایا ہے ، کیا اس کے لگے رہنے سے وضو ہوجائے گا؟

جواب:وضو میں کلی کرنے کا حکم آیا ہے لہذا اگر کسی دانت پر کور لگا ہو یا دانتوں پر تار لگا ہو یا مصنوعی دانت لگا ہوا ہو تو ان ساری صورتوں میں ان چیزوں کو اتارنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ کلی پانی لے کر چاروں طرف منہ میں گھمانے کو کہتے ہیں اس سے منہ کی صفائی ہو جاتی ہے لہذا وضو میں اسے اتارنے کی ضرورت نہیں ہے تاہم اگر اتارنے میں کوئی مشقت نہ ہو آسانی سے اتارا جا سکتا ہو تو کور اتار کر وضو کر لے اور اتارنے میں مشقت ہویعنی وہ دانت میں فکس ہوتوبغیراتارے وضو اپنی جگہ پر درست ہے۔

سوال: کیا میاں بیوی ویڈیو کال پہ بات کرسکتے ہیں ؟

جواب:شیخ صالح فوزان حفظہ اللہ سے اسی طرح کا سوال کیا گیا کہ ویڈیو کال پر بات کرنا کیسا ہے تو آپ نے جواب دیا کہ یہ صحیح نہیں ہے، آدمی کو چاہیے کہ آواز کے ذریعہ بات کرے اور یہی انسان کی ضرورت کے لئے کافی ہے۔

بعض اہل علم نے موبائل کی تصویر اور ویڈیو کو حرام تصویروں میں نہیں مانا ہے، ان کی نظر میں ویڈیو کال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

بہر کیف! آدمی اس معاملہ میں احتیاط سے کام لے اور ویڈیو کال سے بچتے ہوئے، آڈیو کال پہ ہی میاں بیوی سے بات چیت ہو تو یہ زیادہ بہتر اور احوط ہے۔

سوال: نبی ﷺ کے موئے مبارک یعنی بال مبارک کی زیارت کی کیا حقیقت ہے؟

جواب:صوفی اور بدعتی لوگوں کے یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کی زیارت کے نام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جھوٹی عقیدت و محبت کا پرچار کیا جاتا ہے۔آپ سبھی جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں صوفی طبقہ کے لوگ پائے جاتے ہیں، یہ سب لوگ دنیا کے مختلف شہروں اور علاقوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے بال رکھے ہوئے ہیں اور مخصوص ایام میں ان بالوں کی زیارت کروائی جاتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک دنیا میں کہیں پر موجود نہیں ہے، جو بھی اپنے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بال ہونے کا دعوی کرتا ہے وہ جھوٹا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کے نام پر فرضی اور جھوٹی چیز دکھاتا ہے۔

آپ یقین کریں کہ یہ عمل صرف بدعتیوں اور صوفیوں کے اندر ہی پایا جاتا ہے۔ الحمدللہ جو اہل توحید ہیں ان کے یہاں اس طرح کا جھوٹا دعوی نہیں پایا جاتا ہے حتی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جہاں پیدا ہوئے یعنی مکہ میں اور جہاں زندگی کے آخری ایام گزارے اور آپ کی قبر مبارک ہے یعنی مدینہ میں، یہاں کے رہنے والوں میں سے کوئی بھی اپنے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال ہونے کا دعوی نہیں کرتا ہے کیونکہ اہل توحید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں احتیاط سے کام لیتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:"مجھ پر جھوٹ نہ باندھو کیونکہ مجھ پر جھوٹ باندھنے والا جہنم میں داخل ہوگا۔(ترمذی: 2660)

سوال: کیا سلفی اپنی لڑکی کا رشتہ جماعت اسلامی والے لڑکے سے کر سکتے ہیں؟

جواب:جماعت اسلامی والے تحریکی اور انقلابی ہوتے ہیں یعنی یہ اخوانی اور خارجی لوگوں کی فکر سے وابستہ صرف خلافت کی بات کرتے ہیں۔ ان کے یہاں نہ صرف عقیدے میں خرابی اور حدیثوں کا انکار ہے بلکہ یہ لوگ شیعوں کی طرح متعدد صحابہ پر تنقید کرتے اور ان کی شان میں گستاخی کرتے ہیں لہذا ایسی جماعت میں رشتہ کرنا صحیح نہیں ہے۔جماعت اسلامی کی حقیقت کو جاننے کے لئے بہت ساری کتابیں ہیں، ان میں ایک کتاب "جماعت اسلامی کو پہچانئے" ہے ۔اس کے مصنف حکیم اجمل خان ہیں اور یہ کتاب ،کتاب وسنت لائبریری پر موجود ہے۔

سوال:بیوہ عورت کی عدت 4/ذوالقعدہ کے حساب سے 14/ربیع الاول کو ختم ہوگی تو اس دن عدت کیا جس ٹائم پر انتقال ہو اس وقت ہوگی یا کسی بھی ٹائم پر؟

جواب:عدت کی جو تاریخ بتائی گئی ہے اور تاریخ بالکل صحیح ہے اور عدت ختم کرنے کے لئے اس وقت کا خیال کیا جائے جس وقت شوہر کی وفات ہوئی ہے ۔

سوال: اگر کوئی شخص لون لے کر اپنی مارکیٹ بنا رہا ہے تو کیا یہ درست ہے جبکہ دین میں سود کا لین دین سراسر گناہ ہے؟

جواب:سودی بینک سے لون لینا حرام ہے اس لئے کہ یہ سودی معاملہ اور سود پر تعاون ہے جبکہ اللہ تعالی نے گناہ اور ظلم کے کاموں پر تعاون کرنے سے منع کیا ہے نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے، سود دینے اور سود پر کسی طرح کا تعاون کرنے سے منع فرمایا ہے۔

اس لئے جب لون لینا حرام ہے تو اس لون سے گھر بنانا، اس سے بزنس کرنا اور اس سے دنیاوی کام کاج کرنا بھی حرام ہے۔

سوال:کیا یہ حدیث صحیح ہے؟حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاگیا ہے کہ ہماری نشست وبرخاست کیسے لوگوں کے ساتھ ہونی چاہیے؟ آپ نے فرمایا: من ذکرکم باللہ رؤیتہ وزاد فی علمکم منطقہ وذکرکم بالآخرۃ عملہ ’’وہ شخص جس کو دیکھ کر تمھیں خدایاد آئے اور جس کی گفتگو سے تمہارا علم بڑھے اور جس کے عمل کودیکھ کر آخرت کی یاد تازہ ہو۔‘‘(رواہ البزار)

جواب: شیخ البانی نے اس کو ضعیف کہا ہے  اور سلسلہ ضعیفہ میں درج فرمایاہے، حدیث کے الفاظ اور حوالہ دیکھیں ۔

خيرُ جلسائِكم مَن ذكَّركم باللهِ رؤيتُه، وزاد في علمِكم منطقُه، وذكَّركم الآخرةَ عملُه( السلسلة الضعيفة:2830)

سوال: عید میلاد کے موقع پر اور خاص طور پر بہت سی جگہوں پر بلڈ ڈونیشن کیمپ لگایا جاتا ہے تو کیا

ایسے موقع پر بلڈ ڈونیٹ کر سکتے ہیں؟

جواب:12 /ربیع الاول کی مناسبت سے اگر بلڈ ڈونیشن کا کیمپ لگتا ہے تو بظاہر خون دینے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر خالص بدعتیوں کا کیمپ ہو اور خرافات وغیرہ بھی وہاں پر ہوں تو ایسے کیمپ سے دور رہنا چاہیے کیونکہ یہ بدعت پر تعاون کی ایک شکل ہوگی، آج وہ آپ سے خون لیں گے ، کل وہ آپ کا ایمان لیں گے اوردھیرے دھیرے وہ آپ کوبدعت میں داخل کریں گے۔اگر عمومی انداز میں کسی نے کیمپ لگایا ہے تو پھر کوئی حرج کی بات نہیں۔

سوال: میں نے ایک حدیث سنی کہ پیٹ کی بیماری میں فوت ہونے والا شہید ہوتاہے،کیا یہ حدیث صحیح ہے اور کیا گردوں کی بیماری اس میں شامل ہے؟

جواب:  یہ بات صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ پیٹ کی بیماری سے مرنے والا شہید کے حکم میں ہے ، نبی ﷺ فرماتے ہیں:

 الشُّهَداءُ خَمْسَةٌ: المَطْعُونُ، والمَبْطُونُ، والغَرِقُ، وصاحِبُ الهَدْمِ ، والشَّهِيدُ في سَبيلِ اللَّهِ(صحيح البخاري:2829)

ترجمہ:شہید پانچ قسم کے ہوتے ہیں۔ طاعون میں ہلاک ہونے والا ‘ پیٹ کی بیماری میں ہلاک ہونے والا ‘ ڈوب کر مرنے والا ‘ دب کر مر جانے والا اور اللہ کے راستے میں شہادت پانے والا۔

بعض اہل علم نے مبطون سے اسہال وحیضہ مراد لیا ہے اور بعض اہل علم اسے عام مانتے ہیں یعنی پیٹ کی جس بیماری سے بھی آدمی مرے وہ شہید کے حکم میں ہے ۔ پیٹ کی بیماری سے متعلق ایک اور فضیلت ہے۔ عبداللہ بن یسار کہتے ہیں کہ میں بیٹھا ہوا تھا اور (وہیں) سلیمان بن صرد اور خالد بن عرفطہٰ رضی اللہ عنہما (بھی) موجود تھے تو لوگوں نے ذکر کیا کہ ایک آدمی اپنے پیٹ کے عارضہ میں وفات پا گیا ہے، تو ان دونوں نے تمنا کی کہ وہ اس کے جنازے میں شریک ہوں، تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کہا ہے کہ ”جو پیٹ کے عارضہ میں مرے اسے قبر میں عذاب نہیں دیا جائے گا“، تو دوسرے نے کہا: کیوں نہیں، آپ نے ایسا فرمایا ہے۔(سنن النسائی : 2054، صححہ البانی)

جو شخص گردوں کی بیماری سے وفات پائے اس کے لئے بھی شہادت کے اجر کی امید کی جاسکتی ہے۔

سوال: جڑی بوٹی بطور علاج مریض کا اپنے جسم پر باندھنے کا حکم کیا ہے،ایک بیماری سوکنھڈوا ہے جس میں بچے بالکل سوکھ جاتے ہیں اس کے علاج کے لئے دیہی علاقوں میں ایک کھر بچے کے گلے میں یا ہاتھ یا کمر پر باندھنے سے چند ایام میں وہ بیماری ختم ہوجاتی ہے؟

جواب: کسی چیز کو لٹکا کر یہ عقیدہ رکھنا کہ اس سے بیماری دور ہوگی اور اس سے آدمی ٹھیک ہو جائے گا یہ تمیمہ میں داخل ہے کیونکہ اس میں وہی چیز پائی جاتی ہے جو تمیمہ میں پائی جاتی ہے اور جس سبب تمیمہ شرکیہ عمل ہے اسی سبب یہ عمل بھی شرکیہ قرار پائے گا لہذا اس طرح کی چیز سے بچنا چاہیے اور جو جائز علاج ہے اس کے ذریعہ مرض کو دور کرنا چاہیے۔

سوال:ہم عمرہ کیوں کرتے ہیں؟

جواب:حج اور عمرہ اللہ رب العالمین کی عبادت ہے اور یہ عبادت ہم اللہ رب العالمین کے حکم سےکرتے ہیں یعنی یہ عبادت ہم اس لیے کرتے ہیں کہ ہمیں اس کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں اس کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

وأتموا الحج والعمرة لله (البقرة: 196)

ترجمہ: حج اور عمرے کو اللہ کے لئے پورا کرو۔

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

العُمْرَةُ إلى العُمْرَةِ كَفَّارَةٌ لِما بيْنَهُمَا، والحَجُّ المَبْرُورُ ليسَ له جَزَاءٌ إلَّا الجَنَّةُ(صحيح البخاري:1773)

ترجمہ: ایک عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ دونوں کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کی جزا جنت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔

حج اور عمرہ دین کا اہم حصہ اوراسلام کے ارکان میں سے ہے، اس کی تعلیم دینے کے لیے جبرائیل علیہ السلام انسانی شکل میں تشریف لائے اور آپ نے اسلام، ایمان، احسان اور قیامت کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا اور آپ نے ان سوالوں کا جواب دیا۔ جبرائیل علیہ السلام جب چلے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے بتایا کہ یہ جبرائیل علیہ السلام تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے کے لیے آئے ہوئے تھے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں جو دین دیا ہے ہم اس بات کے پابند ہیں کہ اس دین پر عمل کریں اس میں ہمیں کیوں کا سوال نہیں کرنا ہے بلکہ اللہ کا حکم دیکھنا ہے اور اس پر عمل کرنا ہے۔ایک مرتبہ جب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی:

وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللَّهُ(البقرۃ:284)

ترجمہ: تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے اسے تم ظاہر کرو یا چھپاؤ اللہ تعالیٰ اس کا حساب تم سے لے گا ۔

اس سے صحابہ کے دلوں میں شدید خوف کی کیفیت در آئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَسَلَّمْنَا(صحیح مسلم:330)

یعنی کہو ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی او رہم نے تسلیم کیا۔

یہ ہمارا دین ہے یعنی جیسے اللہ کا کوئی حکم آئے اس کی بجا آوری کرنے لگ جائیں اور اس میں تردد نہ کریں ۔

سوال: آج میں قرآن کی تلاوت کررہی تھی ،میرے ہاتھ سے قرآن گرگیا ، اس کا کیا کفارہ ہوگا؟

جواب:مردوں میں تو نہیں البتہ عورتوں میں یہ بات کافی مشہور ہے کہ اگر غلطی سے بھی قرآن پاک گرجائے تو بہت بڑے گناہ کا سبب ہے ، اس وجہ سے اس غلطی کا تدارک کیسے کیا جائے بہت پریشان ہوجاتی ہیں ۔ ابھی رمضان کا مہینہ ہے ، قرآن کی تلاوت عام ہے جس کی وجہ سے یہ بات کافی جہتوں سے آرہی ہے ۔

اتنا جان لیں کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہے قرآن مجید کا احترام اور تعظیم فرض ہے اس کی بے ادبی و بے حرمتی ناجائز اور حرام ہے، بلکہ بسا اوقات اس کی توہین کفرتک پہنچا دیتی ہے۔اس لئے قرآن کریم لینے دینے ، اٹھانے ، رکھنے میں بہت احتیاط سے کام لینا چاہئے ۔

مگر پھر بھی غیر ارادی طور پر قرآن مجید ہاتھ سے چھوٹ کر گر جائے تو کوئی گناہ لازم نہیں آتا اور نہ ہی کوئی کفارہ ادا کرنا ہے۔

ایک دو احادیث سے اس مسئلہ کو سمجھیں ۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنَّ اللَّهَ وضَعَ عن أمَّتي الخطَأَ والنِّسيانَ وما استُكرِهوا عليهِ(صحيح ابن ماجه:1677)

ترجمہ : اللہ تعالی نے میری امت سے (انجانے میں ہونے والی ) غلطی ، بھول چوک اور زورزبردستی کے نتیجہ میں ہونے والے خلاف شرع کاموں کو معاف کردیاہے۔

اسی طرح سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی سورۂ بقرہ کی آخری دو آیات کی فضیلت کے متعلق حدیث میں ہے۔

رَبَّنَا لا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا سورة البقرة آية 286، قَالَ: قَدْ فَعَلْتُ(صحیح مسلم:126)

ترجمہ:اے ہمارے رب ہم سے مؤاخذہ نہ کر، اگر ہم بھول جائیں یا ہم غلطی کر جائیں‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’میں نے ایسا کر دیا‘‘ ۔

مذکورہ بالا دونوں حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ بندے سے اگر بھول چوک ہوجائے تو اللہ تعالی یوں ہی معاف فرمادیتا ہے ، اگر بھول سے قرآن کریم بھی گر جائے تو وہ اللہ کے نزدیک معاف ہے، نیزقرآن مجید کے گرنے پر کوئی کفارہ وغیرہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہؐ نے بیان نہیں فرمایا۔ اس لئے ہم یہ کہیں گے کہ اس کام پر عنداللہ کوئی مواخذہ نہیں ، اور نہ ہی گوئی کفارہ دینا ہے ، اگر استغفار کرلیتا ہے تو بہتر ہے ، اور دل کی تسلی کے لئے مسکینوں میں صدقہ کردے تو بھی بہتر ہے ۔

سوال:کیا ایسی نیت صحیح ہے جس میں عورتوں کو دنیاوی علم اس لئے دیا جائے یا وہ خود پڑھنا چاہے اور پروپر ڈگری حاصل کرے تاکہ اگر مستقبل میں کبھی انہیں کمائی کی ضرورت پڑی اور ان کے پاس ڈگری ہوگی تو رزق کے اسباب بنیں گے مثلا والدین اپنی بچیوں کو پڑھائیں اس نیت سے کہ کبھی ان کا خرچ اٹھانے والا کوئی نہ ہو تو یہ دنیاوی پڑھائی ان کے کام آئے یعنی وہ شرعی حدود میں رہ کر ہی کوئی کام کریں کیونکہ انہیں دینی علم سے کوئی کمائی نہیں کرنی، وہ کام خالص اللہ کے لیے ہو اور اگر فیس بھی طلبہ سے لے تو اسے دین کے کام میں استعمال کریں ،پرسنل استعمال نہ کریں؟

جواب: ہرمسلمان مرد وعورت  پر شرعی علم حاصل کرنا فرض ہے، اس فریضہ کی ادائیگی ہم میں سے کسی کو کرنا ہے اور رہا دنیاوی علم تو یہ اختیاری  معاملہ ہے اس علم کو لڑکا اور لڑکی دونوں حاصل کرسکتے ہیں اس کی ممانعت نہیں ہے۔ کوئی لڑکی بھی پروفیشنل کورس یا عصری تعلیم حاصل کرنا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے خواہ مستقبل میں اس سے کمانے کی نیت رکھے یا نہ رکھے ۔ اور کسی لڑکی کے پاس ڈگری ہے وہ اس سے کمائی کرنا چاہتی ہے تو شرعی حدود میں رہ کر کمائی کرسکتی ہے تاہم اگر لڑکی روزگار کے لئے مجبور نہ ہو تو نوکری سے پرہیز بہتر ہے کیونکہ زمانے میں فتنے اور شہوات بہت ہیں جبکہ عذر کا معاملہ الگ ہے ۔ اللہ تعالی نے بیان فرمایا ہے:

وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ(الانعام:119)

ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے ان سب جانوروں کی تفصیل بتا دی ہے جن کو تم پر حرام کیا ہے مگر وہ بھی جب تمہیں سخت ضرورت پڑجائے تو حلال ہے۔

سوال:بعض اہل علم کہتے ہیں کہ موبائل سے جو تصویر کھیچی جاتی ہے اس سے وہ تصویر مراد نہیں ہے جو حدیث میں ہے اور جسے المصور کہا گیا ہے ، کیا یہ وہی لوگ ہیں جو ہاتھ سے تصویرکشی کرتے ہیں ، اس بارے میں کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ کہتا ہے ہم کیسے فیصلہ کریں؟

جواب: بہت سارے مسائل میں آپ کو اختلاف ملے گا اس کی وجہ سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اختلافی مسائل میں مناسب موقف اختیار کرنا چاہئے جو دلیل سے قریب اور محتاط موقف ہو۔

کیمرے کی تصویر بھی تصویر ہی ہے ، ہم اس تصویر کو تصویر کا ہی نام دیتے ہیں اور اس تصویر سے تصویر کا ہی کام لیتے ہیں ۔ اگر کوئی زبان سے کوئی بات کہے اور وہی بات ویڈیو میں بیان کرے تو کیا ان دونوں باتوں میں فرق ہوگا؟ نہیں ، کچھ بھی فرق نہیں ہوگا۔ ویڈیو جو کہ تصویر ہی ہے مگر متحرک ہے ، اس ویڈیو اور تصویر میں یکسانیت پائی جاتی ہے یعنی دونوں کا معاملہ یکساں ہے۔

اللہ سے زیادہ تقوی اختیار کرنے والے اور اس سے خوف کھانے والے علماء کیمرے کی تصویر کو بھی حرام تصویروں میں داخل مانتے ہیں کیونکہ تصویروں کا معاملہ بہت سنگین ہے اور احتیاط کا تقاضہ بھی ہے کہ اس سے جس قدر بچ سکیں اور احتیاط کرسکیں بہتر وافضل ہے۔ یہاں پر ایک اہم حدیث کو مدنظر رکھیں تو بات زیادہ سمجھ میں آسکتی ہے۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں:

إنَّ الحَلالَ بَيِّنٌ، وإنَّ الحَرامَ بَيِّنٌ، وبيْنَهُما مُشْتَبِهاتٌ لا يَعْلَمُهُنَّ كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَى الشُّبُهاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ، وعِرْضِهِ، ومَن وقَعَ في الشُّبُهاتِ وقَعَ في الحَرامِ( صحيح مسلم:1599)

ترجمہ:حلال واضح ہے، اور حرام واضح ہے، اور ان کے درمیان کچھ شبہ والی چیزیں ہیں، جن کو بہت لوگ نہیں (یعنی ان کے حکم کو) جانتے (کہ حلال ہیں یا حرام) تو جو انسان مشتبہ یا شبہ والی چیزوں سے بچ گیا، اس نے دپنے دین اور اپنی عزت کو بچا لیا، اور جو شبہ والی چیزوں میں پڑ گیا، وہ حرام میں مبتلا ہو گا۔

مذکورہ حدیث کو دھیان میں رکھتے ہوئے، کیمرے کی تصویر جس کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں غوروفکر کریں، کیا اس سے بچنا افضل واولی نہیں ہے؟

سوال: دوران صلاۃ سجدہ تلاوت سے اٹھنے کے فوراً بعد رکوع میں جائیں گے یا کچھ آیتیں پڑھ کرجائیں گے؟

جواب: اس میں دونوں قسم کا اختیار ہے چاہے تو امام بغیر کچھ آیات کی تلاوت کئے رکوع میں چلا جائے یا امام چاہے تو کچھ آیات کی تلاوت کر لے پھر رکوع میں جائے، ان میں سے کوئی بھی صورت اپنائی جاسکتی ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملہ میں ہمیں کوئی خاص حکم نہیں فرمایا ہے۔

  

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔