﷽
آپ کے سوالات اور ان کے جوابات (10)
جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر ، السلامہ- سعودی عرب
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سوال: مولانا اقبال سلفی جو راقی ہیں ان
کے بیان سن سکتے ہیں ؟
جواب: مولانا اقبال سلفی
اہل حدیث عالم ہیں اور ان کے بیانات اچھے ہوتے ہیں، بالکل ان کی بیانات سننا
چاہیے۔وہ ایک عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک راقی بھی ہیں اس لئے لوگ ان سے سحر و
آسیب سے متعلق سوالات کرتے رہتے ہیں اور علاج بتاتے ہوئے عام طور پر اسی قسم کی
غلطی کرتے ہیں جو غلطی دیوبندی حضرات کرتے ہیں یعنی یہ اپنی طرف سے بعض بیماریوں
کی مخصوص آیت یا مخصوص دعا بتاتے ہیں حتی کہ بعض دعاؤں کو اپنی طرف سے تعداد متعین
کرکے پڑھنے کے لئے بھی بتاتے ہیں لہذا ان کی طرف سے پیش کردہ اس قسم کی چیزیں ملے
تو پہلے اس کی تحقیق کریں اور ذکر و اذکار اور وظائف کے سلسلے میں کبھی بھی راقی
کی باتوں پر اعتماد نہ کریں اس بارے میں صحیح اہل علم سے رہنمائی حاصل کریں۔
سوال: ایک آدمی عمرہ پہ جانا چاہتا ہے تو
زکوۃ سے اس کی مدد کی جاسکتی ہے ، فل پیمنٹ نہیں کرنا بلکہ کچھ مدد کرنی ہے؟
جواب:جو شخص عمرہ پہ جا رہا ہے اور اسے کچھ تعاون درکار
ہے ایسے شخص کو صدقہ سے یا عام پیسوں سے مدد کر سکتے ہیں لیکن زکوۃ نہیں دیں گے۔
زکوۃ کے جو مصارف ہیں، صرف ان ہی مصارف میں زکوۃ کو خرچ کیا جائے گا۔
سوال: کیا یہ دعا صحیح ہے اور ہم پڑھ
سکتے ہیں ؟
اللھم انی اصحبت اشھد حملۃ عرشک وملائکتک
وجمیع خلقک ، انک انت اللہ لا الہ الا انت ، وحدک لاشریک لک، وان محمدا عبدک
ورسولک ۔(اے اللہ! میں نے صبح کی، میں گواہ کرتا ہوں تجھ کو اور تیرے عرش اٹھانے
والوں کو اور تیرے فرشتوں کو اور تیری تمام خلق کو کہ توہی اللہ ہے۔ تیرے سوا کوئی
معبود نہیں ، تواکیلا ہے تیرا کوئی شریک نہیں ، اور بے شک محمد ﷺ تیرے بندے اور
رسول ہیں)۔
جواب:یہ دعا کسی حدیث میں صبح پڑھنے کے لئے، کسی میں
صبح یا شام پڑھنے کے لئے مذکور ہے مگر یہ ضعیف ہے۔ شیخ البانی نے ترمذی، ابوداؤد،
الجامع الصغیر اور الترغیب والترہیب وغیرہ کی تخریج میں اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
ضعیف حدیث کا مطلب ہوتا ہے، ہمیں اس پر عمل نہیں کرنا
ہے اور صبح و شام کے اذکار کے طور پر بہت ساری صحیح دعائیں اور اذکارموجود ہیں آپ
ان کا اہتمام کریں۔
سوال: کیا ہم اپنے بہن بھائی، قریبی رشتہ
داروں کو ایسا کہہ سکتے ہیں کہ تم نے اگر بدعت کرنا، میلاد منانا، قرآن خوانی
کرنا، ختم اور گیارہویں وغیرہ کرنا نہیں چھوڑا تو ہم تم سے رشتہ ختم کرلیں گے ؟
جواب:ہم ان چیزوں کی بنیاد پر رشتہ توڑنے کی بات نہیں
کرنا چاہئے البتہ ان چیزوں سے ہم اپنے آپ کو الگ رکھ سکتے ہیں یعنی ہم نہ اس میں
شرکت کریں گے، نہ ہی بدعتی کاموں میں کسی طرح کا تعاون پیش کریں گے۔ باقی رشتہ
اپنی جگہ پر قائم رہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رشتہ توڑنے پر بڑی
وعید بیان فرمائی ہے بلکہ آپ نے تو ٹوٹے رشتہ کو جوڑنے کا نام رشتہ نبھانا بتایا
ہے۔(بخاری: 5991)
عہد رسول میں کتنے ایسے صحابی تھے جن میں سے کسی کے
والد یا کسی کی والدہ یا کسی کا بھائی یا ان کا کوئی رشتہ دار غیر مسلم اور مشرک
تھا لیکن اس سے صحابی کا رشتہ اپنی جگہ قائم تھا اورحسن سلوک کا معاملہ موجود تھا۔
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں آتا ہے ان کی والدہ مشرکہ تھیں اور بیٹے
کے ساتھ تھیں۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہدایت
کی دعا کروائی اور ان کی والدہ ایمان میں داخل ہوگئیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں اپنا رشتہ بھی بچانا ہے اور گناہ
میں بھی کسی طرح سے شریک نہیں ہونا ہے اور اس قدر گھل مل کے بھی ایسے لوگوں کے
ساتھ نہیں رہنا ہے تاکہ بدعت و خرافات کا اثر اپنے اوپر نہ آئے نیز جب بھی ہمیں
موقع ملے ہم انہیں بدعت و خرافات پہ نصیحت کرتے رہیں اور ان کے حق میں اللہ تعالی
سے ہدایت کی دعا بھی کرتے رہیں۔
سوال: میں اپنے گھر میں اکیلی رہتی ہوں
اور نماز میں قرآن شریف بلند آواز سے پڑھتی ہوں ، اس سے نماز میں وسوسے نہیں آتے
اور نماز میں ہم نے کیا پڑھا ہے وہ پتہ رہتا ہے ، کیا ہم ایسے کرسکتے ہیں؟
جواب: عورت ہو یا مرد سبھی کے لئے سری
نماز آہستہ پڑھنے اور جہری نماز بلند آواز سے پڑھنے کا حکم ہے اس لئے کوئی عورت
اپنے گھر میں نماز پڑھتے ہوئے سری نماز کو آہستہ قرات کے ساتھ ادا کرے گی اور جہری
نماز کو بلند آواز سے ادا کرے گی لہذا آپ اپنی نمازوں کو اسی طرح سے ادا کریں یعنی
سری نماز کو آہستہ قرات کے ساتھ اور جہری نماز کو بلند قرات کے ساتھ ادا کریں ۔
سوال:کیا اس طرح کا اسٹیٹس لگاسکتے ہیں؟
(السلام عليك يا رسول الله ،السلام عليك
يا نبي الله، السلام عليك يا خير خلق الله، السلام عليك يا حبيب الله، السلام عليك
يا سيد المرسلين والسلام عليك يا خاتم النبيين)
جواب:اپنے سماج میں بریلوی حضرات السلام علیک یا رسول
اللہ اس عقیدے سے پڑھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرح زندہ ہیں،
وہ سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ یا رسول اللہ کہہ کر آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کو مدد کے لئے پکارا جاتا ہے۔
دراصل ایسی پکار شرک ہے کیونکہ غیر اللہ کو مدد کے لئے
پکارنا شرک ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے
ہیں، نہ وہ ہماری بات سنتے ہیں اور نہ ہماری کسی بات کا جواب دیتے ہیں۔اس بنیاد پر
اس قسم کا اسٹیٹس لگانے سے پرہیز کریں تاکہ کوئی آپ کے اسٹیٹس سے غلط فہمی کا شکار نہ
ہو۔ آپ درود ابراہیمی کا اسٹیٹس لگائیں ، اس میں ثواب بھی ملے گا اور جو کوئی اس
کو دیکھ کر درود پڑھے گا اس کا اجر ملے گا۔
سوال:اسکول کی ایک بچی ہے جس کو کتاب، کاپی، جوتے اور کپڑے کی دقت رہتی ہے ، کیا زکوۃکے پیسوں سے ہم اس کی چیزیں خرید کر دے سکتے ہیں ، وہ گیارہ بہن بھائی ہیں اور باپ پھل بیچتا ہے جس سے کھانے پینے کا ہی خرچ نکل سکتا ہے؟
جواب:جب ہم پیسوں کی زکوۃ نکالتے ہیں تو پیسوں کی زکوۃ
پیسوں کی شکل میں ہی مستحقین کو دینا ہے کیونکہ زکوۃ مستحقین کا حق ہے اور اس حق
میں تبدیلی کرنا ہمارے لئے جائز نہیں ہے یعنی اگر کوئی زکوۃ کے پیسے سے کوئی چیز
خرید کر دیتا ہے تو مستحق کے مال میں تصرف کرنا ہوگا اور یہ جائز نہیں ہے۔
لہذا ہم پیسوں کی زکوۃ کو پیسوں کی شکل میں ہی مستحق کو
دے دیں۔ اگر کسی کے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور وہ کتاب وغیرہ کے لئے محتاج ہیں
تو ہم ان کے والدین کو زکوۃ کا پیسہ دے سکتے ہیں کہ آپ ضرورت مند ہیں، یہ زکوۃ کے
پیسے ہیں اپنی ضرورت اور بچوں کی درسی ضرورت پوری کر سکتے ہیں یعنی اگر کہہ کر بھی
دیتے ہیں تو ان شاءاللہ کوئی حرج نہیں لیکن جب پیسے سے کوئی چیز خرید کر دیتے ہیں
تو مال زکوۃ میں ایک قسم کا تصرف پایا ہے جس کو علماء نے جائز قرار نہیں دیا ہے
بلکہ بعض یہاں تک کہتے ہیں کہ اس صورت میں زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔
زکوۃ کے علاوہ نفلی صدقات اور تعاون ہو تو ایسے پیسوں
سے ضرورت کی چیزیں خرید کر ضرورت مند بچوں کو دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال: میری ایک بہن بیمار ہیں وہ بکروں کا
صدقہ کرنا چاہتی ہیں، سوال یہ ہے کہ صدقہ کے لئے بکرے کا سائز کم از کم کتنا ہونا
چاہیے اور اسے ذبح کر کے درسوں میں پہچانا صحیح ہے؟
جواب:پہلی بات یہ ہے کہ صدقہ کے طور پر بکرا ہی دینا
کوئی ضروری نہیں ہے بلکہ محتاجوں کو مختلف قسم کی ضرورتوں کا سامنا ہوتا ہے اس لئے
پیسے سے صدقہ کرتے ہیں تو محتاجوں کا اس میں زیادہ فائدہ ہے اور اس میں بھی کوئی
حرج نہیں ہے کہ بکرا ذبح کر کے فقراء و مساکین کو کھلائیں۔
جب بکرا ذبح کرتے ہیں تو اس کی کوئی شرط نہیں ہے، یہ آپ
کی مرضی ہے جس عمر کا بکرا ذبح کریں بلکہ صدقہ میں مرغی کھلائیں، اس کا انڈا
کھلائیں، اس کے بچے کھلائیں، یہ ساری چیزیں اپنی مرضی پر منحصر ہیں یعنی بکرا صدقہ
کرنے پر جس عمر کا بھی بکرا صدقہ کرنا چاہیں کرسکتے ہیں، اس کی ممانعت نہیں ہے۔اور
صدقہ و خیرات فقیر ومسکین کا حق ہے لہذا فقرا و مساکین کو صدقہ و خیرات دینا چاہیے
نہ کہ درس میں دینا چاہیے۔
سوال: ایک خاتون کی چالیس سال عمر ہے ،
وہ اپنی امی کو حج پہ لے جانا چاہتی ہیں ، کیا وہ جاسکتی ہیں کیونکہ سعودی حکومت
نے چالیس سال کے بعد بغیر محرم کے اجازت دیدی ہے تو کیا محرم کے بغیر جاسکتی ہیں؟
جواب:محرم کا معاملہ یہ شرعی معاملہ ہے، اس میں سعودی
نظام یا انسان کی اپنی مرضی نہیں چلے گی۔ شریعت نے عورت کے لئے عمر کے کسی بھی
مرحلے میں بغیر محرم کے سفر کرنا جائز قرار نہیں دیا ہے لہذا چالیس سال سے پہلے کی
عورت ہو یا چالیس سال کے بعد کی عورت ہو ،وہ جب بھی کہیں سفر کرے گی لازمی طور پر اس کے ساتھ
محرم کا ہونا ضروری ہے اور اگر بغیر محرم کے سفر کرتی ہے خواہ حج یا عمرہ کے لئے
ہو تو اس کو گناہ ملے گا۔
سوال:کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی
اپنی کسی زوجہ کو طلاق دی تھی اگر دی تھی تو کس وجہ سے دی تھی؟
جواب:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ رضی اللہ
تعالی عنہا کو طلاق دی تھی پھر آپ نے ان سے رجوع کر لیا تھا۔ یہ حدیث ابو داؤد
(2283)ابن ماجہ (2016) اور نسائی (3560) وغیرہ میں موجود ہے جسے شیخ البانی نے
صحیح قرار دیا ہے۔
دوسری روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ جبریل علیہ السلام آئے
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حفصہ سے رجوع فرمانے کا حکم دیا اور بتایا کہ یہ بہت
روزہ رکھنے والی اور بہت قیام کرنے والی اور جنت میں آپ کی بیوی ہے۔(ارواء
الغلیل:2077)
جہاں تک طلاق دینے کے سبب کا معاملہ ہے تو اس سلسلے میں
صراحت نہیں ملتی ہے البتہ بعض اہل علم نے یہ بات ذکر کی ہے کہ سورہ تحریم میں
مذکور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض بیوی سے خفیہ بات کی تھی اور وہ بیوی
حفصہ رضی اللہ عنہا ہیں پھر انہوں نے اس خفیہ بات کو عائشہ رضی اللہ عنہا سے بتاکر
رسول اللہ کا راز ظاہر کردیا ۔ بہر کیف! یہ بات صراحتاً مذکور نہیں ہے تاہم یہ بات
بیان کی جاتی ہے۔
سوال: کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم گائے کا گوشت نہیں کھاتے تھے؟
جواب: گائے کا گوشت
ہمارے لئے حلال ہے اس لئے گائے کا گوشت کھانے میں ہمارے کوئی مسئلہ نہیں ہے اور یہ
بات صحیح نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گائے کا گوشت نہیں کھاتے تھے
بلکہ صحیح حدیث سے معلوم ہوتا ہے نبی ﷺ نے گائے کا گاشت کھایا ہے۔ صحیح مسلم سے دو
احادیث ملاحظہ فرمائیں۔
(1)عَنْ
عَائِشَةَ وَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمِ
بَقَرٍ، فَقِيلَ: هَذَا مَا تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، فَقَالَ: هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ وَلَنَا هَدِيَّةٌ (صحيح
مسلم:1075)
ترجمہ:اسود نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گائے کا گو شت پیش کیا گیا اور بتا یا گیا کہ یہ
بریرہ رضی اللہ عنہا کو بطور صدقہ دیا گیا تھا تو آپ نے فرمایا: وہ اس کے لیے صدقہ
اورہما رے لیے ہدیہ ہے۔
(2)حضرت
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے ورایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں:
اشْتَرَى مِنِّي رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه
وسلَّمَ بَعِيرًا بوُقِيَّتَيْنِ، وَدِرْهَمٍ، أَوْ دِرْهَمَيْنِ، قالَ: فَلَمَّا
قَدِمَ صِرَارًا أَمَرَ ببَقَرَةٍ، فَذُبِحَتْ فأكَلُوا منها، فَلَمَّا قَدِمَ
المَدِينَةَ أَمَرَنِي أَنْ آتِيَ المَسْجِدَ، فَأُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ، وَوَزَنَ
لي ثَمَنَ البَعِيرِ، فأرْجَحَ لِي.(صحيح مسلم:715)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دو
اوقیہ اور ایک یا دو درہموں میں اونٹ خریدا۔ جب آپ صرار (کے مقام پر) آئے تو آپ نے
گائے (ذبح کرنے) کا حکم دیا، وہ ذبح کی گئی، لوگوں نے اسے کھایا، جب آپ مدینہ
تشریف لائے تو آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں مسجد آؤں اور دو رکعتیں پڑھوں۔ آپ نے
میرے لیے اونٹ کی قیمت (کے برابر سونے یا چاندی) کا وزن کیا اور میرے لیے پلڑا
جھکا دیا۔
سوال: کیا صلاۃ التوبہ روزہ پڑھ سکتے ہیں
؟
جواب:توبہ کے لئے نماز پڑھنا ہی شرط نہیں ہے بلکہ توبہ
یہ ہے کہ آدمی اپنے گناہ پر شرمندہ ہو جائے اور ہمیشہ کے لئے اسے چھوڑ کر اللہ
تعالی سے نہ کرنے کا عزم مصمم کر لے۔ تاہم توبہ کے لئے کوئی دو رکعت نماز ادا کرنا
چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے یعنی توبہ سے پہلے نماز کی ادائیگی مشروع و جائز
ہے جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی آدمی جب گناہ کرتا ہے، پھر
وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھتا ہے اور اللہ سے استغفار کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے
معاف فرما دیتا ہے۔(ابوداؤد:1521)
جہاں تک سوال ہے روزانہ توبہ کی نماز پڑھنے کا تو اس کی
کوئی دلیل اور ثبوت نہیں ہے اسی لئے ہمیں روزانہ صلاۃ التوبہ نہیں پڑھنا چاہیے
بلکہ دین کے تمام معاملات میں حضرت محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے اسوہ
اور نمونہ ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل یہ ہے کہ آپ روزانہ سو دفعہ
استغفار کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: میں ایک دن میں اللہ
تعالی سے سو سو دفعہ استغفار کرتا ہوں۔(مسلم:2702)
لہذا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت پر عمل
کریں یعنی روزانہ سو دفعہ اللہ تعالی سے استغفار کیا کریں اور جب ہم سے کبھی گناہ
کبیرہ سرزد ہو جائے تو اللہ رب العالمین سے سچی توبہ کریں اور اس توبہ سے پہلے
نماز ادا کرنا چاہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال: حکومت کی طرف سے ملنے والی سبسڈی کا کیا حکم ہے جیسے ہم ایک لاکھ کا لون لیتے ہیں اس میں ساٹھ ہزار ہمیں جمع کرنے ہیں اور اس کے ساتھ سود بھی دینا ہے اور چالیس ہزار حکومت جمع کرے گی، اس سبسڈی کا کیا حکم ہے؟
جواب:سبسڈی کی متعدد قسمیں ہوتی ہیں ان سب کا حکم
کیفیات کے اعتبار سے ہوگا۔ عام طور پر سبسدی حکومتی تعاون ہے اس کے لینے میں مسئلہ
نہیں ہے جیسے گیس لینے پر اس میں کچھ سبسڈی ملتی ہے یا حاجیوں کو سبسڈی ملتی ہے ۔
جہاں تک آپ نے جس سبسڈی کا ذکر کیا ہے یہ سبسڈی لون ہے ، یہ صورت جائز نہیں ہے ۔
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ سودی بنکوں سے لون لینا سود پر
تعاون ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ سبسڈی لون میں بھی سود دینا پڑتا ہے لہذا ایسا
لون لینا جائز نہیں ہے۔
سوال: اگر ہم رات میں پیر میں تیل مالش
کرکے سوتے ہیں تو فجر کے وقت اس پہ وضو ہوجائے گا؟
جواب: ہاتھ وپیر میں تیل لگے رہنے پر وضو کرتے وقت وضو
کرنے سے وضو ہوجائے گا، اس میں مسئلہ نہیں ہے کیونکہ تیل لگے رہنے سے پانی جلد تک
پہنچتا ہے تاہم وضو کرتے وقت عضو کو رگڑ کر دھلیں تاکہ اچھی طرح جلد تک پہنچ جائے۔
سوال: میری امی کا انتقال ہوگیا ہے ،
مجھے کچھ دعائیں بتائیں تاکہ تشہد اور سجدے میں امی کے لئے دعائیں کروں ؟
جواب: دعا کے باب میں وسعت ہے ، آپ اپنی زبان میں اپنی
والدہ کو دعا دے سکتے ہیں، دعا کا عربی زبان میں ہونا ضروری نہیں ہے اور یہ بھی
ضروری نہیں ہے کہ آپ اپنی والدہ کو صرف تشہد یا سجدے میں دعا دیں بلکہ آپ اکثر و
بیشتر حالات میں والدہ کے لئے بلندی درجات، بشری لغزشوں کی مغفرت اور جنت میں
داخلہ کی دعا کرتے رہنا چاہئے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
إِنَّ الرَّجُلَ لَتُرْفَعُ دَرَجَتُهُ فِي الْجَنَّةِ
, فَيَقُولُ: أَنَّى هَذَا , فَيُقَالُ: بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِكَ لَكَ(سنن ابن
ماجة:3660)
ترجمہ:آدمی کا درجہ جنت میں بلند کیا جائے گا، پھر وہ
کہتا ہے کہ میرا درجہ کیسے بلند ہو گیا (حالانکہ ہمیں عمل کا کوئی موقع نہیں رہا)
اس کو جواب دیا جائے گا:تیرے لیے تیری اولاد کے دعا و استغفار کرنے کے سبب سے۔
ایک بہترین دعا جو میت کے لئے کرسکتے ہیں ، یہ دعا کریں
۔
اللهم أغفر لها وأرحمها وعافها وأعف عنها وأكرم نزلها
ووسع مدخلها وأغسلها بالماء والثلج والبرد ونقها من الخطايا كما ينقى الثوب الأبيض
من الدنس. اللهم أبدلها دارا خيرا من دارها وأهلا خيرا من أهلها وزوجا خيرا من
زوجها وأعذها من عذاب القبر و عذاب النار(صحيح مسلم:963)
ترجمہ: اے اللہ!اسے بخش دے اس پر رحم فرما اور اسے
عافیت دے، اسے معاف فرما اور اس کی باعزت ضیافت فرما اور اس کے داخل ہونے کی جگہ
(قبر) کو وسیع فرما اور اس (کےگناہوں) کو پانی، برف اور اولوں سے دھو دے، اسے
گناہوں سے اس طرح صاف کردے جس طرح تو نے سفید کپڑے کو میل کچیل سے صاف کیا اور اسے
اس گھر کے بدلے میں بہتر گھر، اس کے گھر والوں کے بدلے میں بہتر گھر والے اور اس
کے جوڑے کے بدلے میں بہتر جوڑا عطا فرما اور اس کو جنت میں داخل فرما اور قبر کے
عذاب سے اور آگ کے عذاب سے اپنی پناہ عطا فرما۔
اسی طرح قرآن
کی ایک بہترین دعا کرسکتے ہیں ۔
رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ
يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ (ابراهيم:41)
ترجمہ:اے میرے پروردگار! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ
کو بھی بخش اور دیگر مومنوں کو بھی جس دن حساب ہونے لگے۔
سوال: ایک خاص قسم کی تسبیح کا دانہ ملتا ہے جس کے جوڑ یعنی سر کے پاس
لوہے کی زنجیر بنی ہوتی ہے جیسے کوئی تعویذ ہواس قسم کی تسبیح کا کیا حکم ہے؟
جواب: تسبیح کے سلسلے میں افضل یہ ہے کہ آدمی اپنے ہاتھ
کی انگلیوں پر تسبیح گنا کرے کیونکہ انگلیاں قیامت میں گواہی دیں گی تا ہم تسبیح
کے دانوں پر تسبیح پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
جہاں تک اس مخصوص تسبیح کا معاملہ ہے جس کے سرے پر لوہے
کی زنجیر بنی ہوتی ہے، اگر اس سے تعویذ کی نیت ہو تو پھر ایسی تسبیح کا استعمال
جائز نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں پھر یہ تمیمہ میں شمار ہوگی جس سے نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے یعنی تعویذ کی حیثیت سے کسی چیز کا استعمال کرنا
جائز نہیں ہے۔اور اگر اس تسبیح میں تعویذ والی کوئی بات نہ ہو تو پھر اس کے
استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال: کیا نماز میں ٹخنے ننگے رکھنا لازمی ہے ، اس سے نماز میں پر فرق پڑتا ہے، عموماً دیکھا یہ جاتاہے کہ صرف نماز کے لئے ٹخنے ننگے کئے جاتے ہیں اور پائچے فولڈ کرنا کیسا ہے خصوصاً پینٹ کے۔ اکثر سعودی عرب میں ثوب پہننے والے لوگوں کے ٹخنے ننگے نہیں ہوتے اور کہا جاتا ہے کہ شلوار اوپر ہونی چاہیے؟
جواب: ٹخنہ کا معاملہ کافی اہم ہے ایک مسلمان کو نہ
نماز کے اندر اور نہ ہی نماز کے باہر کبھی بھی ٹخنہ ڈھک کر نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کا فرمان ہے: جس شخص نے اپنی
ازار(تہ بند) گھسیٹی اس سے اس کا ارادہ تکبر کے سوا اور نہ تھا تو قیامت کے دن
اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظر تک نہیں فرمائے گا۔(صحیح مسلم:2085)
گویا عام حالت میں بھی ٹخنہ سے نیچے کپڑا لٹکانا تکبر
کی علامت اور اللہ کی رحمت سے دوری کا سبب ہے جبکہ نماز میں ٹخنہ سے نیچے کپڑا
لٹکانا اور بھی شدید ہے کیونکہ ایک حدیث میں مذکور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم
نے ایک شخص کو ٹخنہ سے نیچے ازار ہونے کی وجہ سے واپس وضو کرنے کا حکم دیا۔ اس
حدیث کی صحت وضعف کے بارے میں اختلاف ہے تاہم یہ ضرور ہے کہ نماز میں ٹخنے سے نیچے
کپڑا ہونا انتہائی سنگین معاملہ ہے۔
جس کے پاس ٹخنے سے نیچے کپڑا ہو اسے چاہیے کہ کاٹ کر
اسے ٹخنے سے اوپر کر لے تاکہ ہمیشہ کپڑا ٹخنے سے اوپر رہے حتی کہ نماز میں بھی۔
اور کسی نے نماز سے پہلے پینٹ کو فولڈ کیا ہے تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے اصل
میں نماز پڑھتے ہوئے کپڑے کو فولڈ کرنا منع ہے یعنی دوران نماز، یہ عمل ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
اور آخری مسئلہ یہ ہے کہ قمیص ہو یا شلوار ہو ان میں سے
کوئی بھی ٹخنے سے نیچے نہیں ہونا چاہیے لہذا عربی ڈریس جسے ثوب کہتے ہیں اسے بھی
ٹخنے سے اوپر ہی پہننا ہے۔
سوال: آن لائن جو لوگ دو تین سال عالم
کورس کرواتے ہیں اور یہ مختصر کورس کرکے لوگ اپنے نام کے آگے عالم فاضل لگا رہے
ہیں ، اس مسئلہ میں مختصر رہنمائی کریں ؟
جواب: الحمدللہ آن لائن درس کی وجہ سے بہت سارے لوگ
فائدہ اٹھاتے ہیں اور آن لائن کی سہولت نے بہت سارے لوگوں کو دین سے مستفید کیا
لیکن جہاں تک مسئلہ ہے کہ بعض شرعی علوم
کو مختصر کر کے دو تین سال میں کورس کروا کر کسی کو عالم بنوانا یا عالم کہلوانا
یہ قطعا درست نہیں ہے۔ علم تو اصل بالمشافحہ حاصل کرنے والی چیز ہے، یعنی استاد کے
پاس بیٹھ کر علم حاصل کیا جاتا ہے اور باقاعدہ علمی کورس کرنے کے بعد ہی مدرسے سے
فراغت ہوتی ہے۔ کوئی آدمی مدرسہ میں داخلہ لے لے اور ایک دو سال کے بعد مدرسہ چھوڑ
دے تو ظاہر سی بات ہے وہ عالم نہیں ہوتا ہے اسی طرح سے کوئی شرعی علوم کو پروپر
طریقہ سے نہیں حاصل کیا ہو بلکہ بعض چیزوں کو اور بعض کورس کو آن لائن طرز پر دو
تین سال میں حاصل کرلے اور وہ خود کو عالم کہے ایسا درست نہیں ہے ۔ ہم کہہ سکتے
ہیں کہ انہوں نے کچھ چیزوں کو حاصل کیا ، سیکھا اور فائدہ اٹھایا لیکن عالم دین تو
نہیں کہہ سکتے ہیں کیونکہ شرعی علوم کے متعدد سبجیکٹ ہیں جنہیں دو تین سال میں شاٹ
کورس کی شکل میں مکمل طور پر نہیں پڑھا سکتے ہیں۔ پھر آن لائن کورس میں آدمی مکمل
ٹائم نہیں دیتا ہے، بس اس سے جڑا ہوا رہتا ہے، درس سنا، نہیں سنا اور سرٹیفکٹ دے
دی جاتی ہے، آج کل دو تین سال تک آن لائن کورس سے کون لگا رہتا ہے اور آن لائن درس
کو کتنا دھیان سے سنتا ہوگا۔ تھوڑی بہت شرکت کرلی، کبھی سنا اور کبھی نہیں ، اس
میں اصل فیس دینا اہم ہے ، فیس جمع کردئے ، سرٹیفیکیٹ حاصل ہوجاتی ہے ۔
بعض مستند ادارے مکمل آن لائن تعلیم دیتے ہیں ان مستند
اداروں سے جڑ کر علم حاصل کرنا زیادہ مفید ہے اور کم عمر یا کم پڑھے لکھے لوگ آن
لائن کے نام پر صرف پیسہ کماتے ہیں اس لیے ہما شما سے تعلیم نہیں لینی چاہیے۔
سوال:مسجد میں نماز کے لئے کوئی جگہ خاص
کر نا شرعا صحیح ہے یا نہیں، شریعت کی روشنی میں وضاحت مطلوب ہے؟
جواب: پوری مسجد اللہ کے لئے وقف ہوتی ہے، کوئی بھی
مسجد میں کہیں بھی نماز پڑھ سکتا ہے اور اپنے لئے کوئی آدمی کسی ایک جگہ کونماز کے
واسطے ہمیشہ کے طورپر متعین نہیں کرسکتا ہے کیونکہ یہ اللہ کا گھر ہے ، یہ کسی کی
ذاتی جگہ نہیں ہے بلکہ نبی ﷺ نے نماز کے لئے ایک جگہ کو متعین کرنے سے منع بھی
فرمایا ہے ۔ عبدالرحمٰن بن شبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
نهى رسولُ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ عن نقرةِ
الغُرابِ وافتراشِ السَّبعِ وأن يوطِّنَ الرَّجلُ المكانَ في المسجدِ كما يُوطِّنُ
البعيرُ(صحيح أبي داود:862)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوے کی طرح
چونچ مارنے، درندے کی طرح بازو بچھانے، اور اونٹ کے مانند آدمی کے مسجد میں اپنے
لیے ایک جگہ متعین کر لینے سے (جیسے اونٹ متعین کر لیتا ہے) منع فرمایا ہے۔
لہذا کسی کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ نماز کے لئے کسی جگہ کو اپنے لئے مختص کرے ۔ آپ اپنے گھر میں کسی جگہ کو نماز کے لئے مختص کرتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ یہ آپ کا ذاتی گھر ہے مگر مسجد میں ایسا کرنا مناسب نہیں ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔