﷽
آپ کے سوالات اور ان کے جوابات (8)
جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر ، سعودی عرب
سوال:جو عورت ٹیچر یا ڈاکٹر وغیرہ کی
حیثیت سے اداروں میں کام کرتی ہیں ، ان کے شوہر یا والد کفالت کرنے والے ہوتے ہیں
تو کیا ان کی اجازت سے نوکری کی جاسکتی ہے؟
جواب:ایک عورت شرعی حدود میں رہتے ہوئے جائز نوکری کر
سکتی ہے اگرچہ اس کی کفالت کرنے والا موجود ہو لیکن اگر نوکری شرعی حدود میں نہ ہو
مثلا مردوں کے ساتھ کام کرتی ہو یا اس کی عصمت کے لئے خطرہ ہو یا بے پردہ نوکری
کرنی ہو تو ان صورتوں میں نوکری جائز نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ عورتوں کی متعدد نوکریاں سماجی اور
دینی خدمت کے طور پر ہوتی ہیں ایسی نوکریاں کرنا ایک عورت کے لئے بہتر ہے تاکہ
دینی اعتبار سے اور سماجی اعتبار سے لوگوں کو فائدہ ہو اس شرط کے ساتھ کہ وہ شرعی
حدود میں نوکری کرے۔
سوال: مفتی اسماعیل مینک کے بیانات سننا
کیسا ہے؟
جواب:مفتی اسماعیل مینک اپنے بیانات میں کہیں پر بھی اپنے منہج کی وضاحت نہیں کرتے ہیں جس کی وجہ سے عام لوگوں کو شک ہوتا ہے کہ ان کا منہج و عقیدہ کیسا ہے بلکہ بعض لوگوں کو یہ بھی شبہ ہوتا ہے کہ یہ سلفی ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مدینہ منورہ سے پڑھنے کے باوجود بھی سلفیت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے اور تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حنفی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔
آپ کی پیدائش زمبابوے میں ہوئی، وہیں پر دارالعلوم
ہراری سے فراغت حاصل کی پھر مدینہ منورہ سے آپ نے تعلیم لی، اس کے بعد دارالعلوم
عربیہ اسلامیہ کنتھاریہ بھروچ گجرات سے افتاء کا کورس کیا اور اسی بنیاد پر وہ
مفتی کہے جاتے ہیں۔ دارالعلوم کنتھاریہ ایک حنفی ادارہ ہے ۔
مفتی اسماعیل مینک کے والد بھی مولانا ہیں , ان کا نام
مولانا موسی مینک ہے ، یہ سہارنپور کے دیوبندی ادارہ سے فارغ ہیں اور اردو بھی
جانتے ہیں۔
انٹرنیٹ پر مولانا موسی مینک کا اپنے بیٹے کے بارے میں
اردو میں ایک انٹریو (آڈیو) ہے جس میں اپنے بیٹے کا تعارف کراتے ہوئے کہتے ہیں کہ
اسماعیل مینک سلفی نہیں ہے بلکہ حنفی ہے اور زمبابوے میں حنفیوں کے مفتی ہیں اور
زمبابوے میں مسلمانوں کی دو ہی جماعت ہے، ایک حنفی، دوسری شافعی، یہاں پر سلفی نام
کی کوئی جماعت موجود نہیں ہے۔
چونکہ مفتی اسماعیل مینک ایک حنفی ہیں اور حنفی، عقائد
میں اشعری و ماتریدی ہوتے ہیں حتی کہ سلوک وتصوف میں کسی نہ کسی سلسلے سے بھی بیعت
ہوتے ہیں اس لئے ایسے آدمی سے علم حاصل کرنا اور ان کے بیانات سننا صحیح نہیں ہے۔
آپ یہ سمجھیں کہ مفتی اسماعیل مینک اپنا منہج چھپاکر رکھتے ہیں انہوں نے اپنے یوٹیوب چینل پروفائل میں یا اپنی ویب سائٹ پر حنفی ہونے یا گجرات کے حنفی ادارے سے افتاء کا کورس کرنے کا کہیں ذکر نہیں کیا ہے تاکہ لوگوں کو ان کے منہج و عقیدہ کا پتہ نہ چلے۔ آپ کے نام سے بنے وکی پیڈیا پر دارالعلوم کنتھاریہ کا ذکر ملتا ہے اور تحریک میں اشعری لکھا ہوا ہے۔
سوال:ایک عورت ہے جس کے شوہر کا انتقال
ہو گیا ہے اور وہ حمل سے ہے اور آخری ایام میں ہے ایسی صورت میں اس کی عدت کیا
ہوگی دلیل کے ساتھ رہنمائی فرمادیں؟
جواب:جس عورت کا شوہر وفات پاگیا ہے اور وہ عورت حمل سے
ہے تو اس عورت کی عدت وضع حمل ہے یعنی جب تک بچہ پیدا نہیں ہو جاتا تب تک وہ عدت
میں رہے گی اور جیسے بچہ پیدا ہو جاتا ہے اس کی عدت ختم ہو جائے گی اس کی دلیل
اللہ کا یہ فرمان ہے:
وَأُولاتُ الأحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ
حَمْلَهُنَّ(الطلاق:4)
ترجمہ:اورحمل والیوں کی عدت ان کا وضع حمل ہے ۔
سوال: ایک شخص کی بیوی ہے اور اس کے چار
بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں اس کی جائیداد کیسے تقسیم ہوگی ؟
جواب:اس صورت میں ماں کو آٹھواں حصہ ملے گا اور بیٹوں
کو بیٹیوں کے مقابلے میں دہرا حصہ ملے گا جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ
الأنثيين(النساء:11)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ تمہیں اولاد کے بارے میں حکم کرتا
ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔
سوال:ایک عالم سے سنی ہوں ، وہ کہہ رہے
ہیں کہ اگر چہرے پہ دانے ہیں یا کچھ بھی نشانے ہیں تو رات میں سونے سے پہلے یہ پڑھ
لیں۔ "اللہ نور السماوات والارض" یہ پڑھ کر اپنے دونوں ہاتھوں پہ دم کر
کے چہرے پہ پھیر لیں ان شاءاللہ صاف ہو جائے گا۔ یہ بات مجھے صحیح نہیں لگ رہی ہے،
آپ رہنمائی فرما دیجیے کیا یہ بات صحیح ہے؟
جواب:جس عالم نے بھی یہ بات بتائی ہے، ان کی خود کی بات
ہے، یہ دین اسلام کی بات نہیں ہے لہذا اس قسم کی بے دلیل باتوں پر عمل نہیں کیا
جائے گا اور ایسے علماء کی باتوں کو بھی نہ سنیں جو بےدلیل اور بناوٹی باتیں اپنی
طرف سے بیان کرکے لوگوں میں پھیلاتے رہتے ہیں۔ دراصل ایسے ہی لوگوں سے دین کا
نقصان ہوا ہے اور لوگوں میں بے دینی اور جہالت پھیلی ہے۔
سوال: کیا بیوی کے مرنے کے بعد خاوند اور
بیوی ایک دوسرے کے لئے غیرمحرم ہوجاتے ہیں اور شوہر بیوی کو آخری مرتبہ دیکھ بھی
نہیں سکتا، دلیل کے ساتھ رہنمائی فرمادیں؟
جواب:لوگوں میں یہ جھوٹ پھیلا ہوا ہے کہ شوہر یا بیوی
کے مرنے پر میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے غیرمحرم ہو جاتے ہیں اس بات کی کوئی حقیقت
نہیں ہے۔ یہ بے دلیل اور سراسر جھوٹی بات ہے جسے مقلدوں نے لوگوں میں پھیلایا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ شوہر یا بیوی کے مرنے سے میاں بیوی کا
رشتہ ختم نہیں ہوتا ہے ، وہ دونوں میاں بیوی ہی رہتے ہیں اور وفات کے وقت ایک
دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب شوہر مرتا
ہے تو اس کی جائیداد سے بیوی کا حصہ بیوی کی حیثیت سے نکلتا ہے اور جب بیوی مرتی
ہے تو اس کی جائیداد سے شوہر کو حصہ شوہر کی حیثیت سے ملتا ہے، یہاں تک کہ وفات کے
بعد جب میاں بیوی جنت میں جائیں گے تو دونوں ایک ساتھ ہوں گے کیونکہ ان کا رشتہ
آپس میں قائم ہی رہتا ہے۔
سوال:میں نے آپ کا ایک مکالمہ پڑھا اس
میں بریلوی نے اللہ کے سایہ کی بات کی ہے، اس کی کیا حقیقت ہے؟
جواب:ایک مشہور حدیث ہے جس میں سات لوگوں کو سایہ نصیب
ہوگا اسی حدیث کی طرف اشارہ ہے اور اس حدیث میں مذکور ہے کہ وہ سایہ عرش الہی کا
سایہ ہوگا یعنی وہ اللہ کی ذات کا سایہ نہیں بلکہ وہ اللہ کے عرش کا سایہ ہے۔
سوال:کیا میلاد میں بانٹا جانے والا
کھانا کھایا جاسکتا ہے اور ایسا کھانا گھر میں آجائے تو اس کا کیا کیا جائے؟
جواب:چونکہ میلاد منانا بدعتی عمل ہے بلکہ نصرانیوں کی
مشابہت ہے لہذا کسی مسلمان کو اس قسم کے بدعتی عمل میں نہ تو شرکت کرنا چاہیے اور
نہ ہی کسی بھی طرح کا تعاون کرنا چاہیے۔ میلاد منانے والا اگر اس نسبت کا کھانا
کھلائے یا مٹھائی تقسیم کرے تو ان چیزوں سے خود کو باز رکھنا چاہئے بلکہ ہونا تو
یہ چاہیے کہ ایسے لوگوں کو تنبیہ کی جائے تاکہ وہ میلاد منانے سے باز آئے۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے: تم میں سے جوشخص منکر (غلط کام )
دیکھے، وہ اسے اپنے ہاتھ (قوت) سے بدل دے۔ اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنی
زبان سے اس کی نکیر کرے۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل میں (اسے برا
جانے اور اسے بدلنے کی مثبت تدبیر سوچے) اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ
ہے۔(صحیح مسلم)
یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ ہم بدعت کرنے والوں کو بدعت
سے روکیں گے مگر یہاں مسلمانوں کو میلاد کا کھانا کھانے کی فکر ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ کسی کے گھر میں میلاد کا کھانا آپ
خود چل کر نہیں آجاتا بلکہ کوئی لانے والا ہوتا ہے اور کوئی اپنے ہاتھوں سے لینے
والا ہوتا ہے اس لئے آپ کو ایسا کھانا قبول نہیں کرنا چاہیے اورمیلادی کو صاف صاف
بنادینا چاہیے کہ ہم اس قسم کی میلاد اور اس میلاد کی نسبت سے پکنے والے کھانے سے
بیزار ہیں۔
سوال:حیض کی عادت چھ دن کی ہو اور کبھی
کبھی اگر خون پانچ دن میں ہی بند ہو جائے اور ہم غسل اس شک میں نہ کریں کہ ہو سکتا
ہے بلڈ ابھی اور آ جائے، اس شک میں ہم پورے ایک دن غسل نہ کریں اور پھر چھ دن مکمل
ہونے کے بعد غسل کریں تو پانچویں دن کی ہماری پورے دن کی جو نماز قضا ہوئی ہے ان
ساری نمازوں کی قضاء کرنے ہوگی اور کیا ان نمازوں کے چھوٹنے کا گناہ ہوگا؟
جواب: اگر کسی عورت کے حیض کی عادت چھ دن کی ہو لیکن
پانچویں دن خون بند ہو جائے تو اس عورت کو انتظار نہیں کرنا ہے بلکہ اسی وقت
اطمینان کرلینا ہے کہ اگر مکمل طور پر خشکی حاصل ہو گئی ہے تو یہ حیض سے پاکی کی
علامت ہے لہذا وہ غسل کر کے نماز پڑھے گی۔
اور جو نمازیں خشکی کی وجہ سے اس نے چھوڑ رکھی تھی اسے ادا کرنا ہے، اگر عورت چھوٹی ہوئی نمازادا کر لیتی ہے تو گنہگار نہیں ہوگی لیکن نماز چھوڑے رکھتی ہے تو گناہ ملے گا۔ اور آئندہ اسے اس طرح سے نماز چھوڑے رکھنا نہیں ہے بلکہ حیض سے پاکی حاصل ہونے پر نماز کی ادائیگی کرنی ہے۔
سوال:مرحومہ کے روزے، نماز اور حج بیماری
کی وجہ سے ان کے ذمہ تھے، اب وارثوں کے لئے اس کی ادائیگی کا کیا طریقہ ہوگا؟
جواب:میت کی چھوٹی ہوئی نماز کی کوئی قضا نہیں ہے بلکہ
جب وہ بیمار تھی اس وقت جس طرح سے بھی نماز پڑھنے کی سہولت تھی اسے نماز ادا کرنی
تھی نہ کہ اسے چھوڑنی تھی۔
باقی اس کے اوپر اگر حج فرض ہوگیا تھا اور اس نے حج
نہیں کیا تو اس کے وارث میں سے ایسا آدمی جس نے پہلے حج کر لیا ہو وہ میت کی طرف
سے اس کے مال سے حج کر لے۔ جہاں تک روزہ کا مسئلہ ہے تو اس میں تفصیل ہے اس کو
جاننے کے لئے میرے مضمون " میت کی طرف سے رمضان کے چھوٹےہوئے روزوں کی
قضا" کا مطالعہ کریں تاکہ آپ اپنے میت کے روزوں کا صحیح حکم جان سکیں ۔
سوال: جو انسان پندرہ جُز حفظ کر لے وہ
حافظ قرآن کہلاتا ہے ، کیا یہ بات صحیح ہے؟
جواب:کسی کو پندرہ سپارے یاد ہوں تو اس کو حافظ قرآن
نہیں کہا جائے گا، حافظ قرآن اس کو کہتے ہیں جسے مکمل قرآن یاد ہو۔ اور پھر کسی کو
مکمل قرآن یاد بھی ہو اسے حافظ قرآن کہنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ قرآن یاد کرنا ایک
مبارک عمل ہے، اس کے یاد کرنے میں برکت ہے مگر حافظ کہلانا کوئی ضروری نہیں ہے ۔
نبی ﷺ سے بڑھ کر یا صحابہ کرام سے بڑھ کر کوئی حافظ نہیں ہوسکتا ہے مگر حافظ رسول
اللہ یا حافظ ابوبکر وغیرہ نہیں بولتے ہیں اس لئے حفظ کرنا کافی ہے اور حافظ
کہلانا ضروری نہیں ہے ۔
سوال:ایک گھر ہے جو میاں بیوی کی مشترکہ
ملکیت ہے۔اگر ان میں سے کسی ایک کا بھی انتقال ہو جائے تو کیا اس صورت میں آدھے
گھر کا حصہ بچوں میں تقسیم کیا جائے گا یا دونوں کے مرنے کے بعد جائیداد تقسیم
ہوگی یعنی ایک کے مرنے کے بعد دوسرے کے پاس جائیداد منتقل ہوجائے گی اور اسکے بھی
مرنے کے بعد تقسیم ہوگی؟
جواب:جب میاں بیوی میں سے کسی ایک کا انتقال ہوجائے تو
آدھا گھر میت کی جائیداد اور ترکہ یعنی مال وراثت ہے اور اس جائیداد کو میت کے
وارثوں میں تقسیم کیا جائے گا لہذا اس گھر کی قیمت کا اندازہ لگاکر آدھی قیمت
وارثوں میں تقسیم کی جائے اور یہ تقسیم جس طرح ممکن ہو انجام دی جائے خواہ پورا
گھر بیچ کر ہو یا وارثوں میں کوئی ایک خرید کر ہو ۔
سوال: ایک شخص کے ظہر کی نماز فوت ہوگئی
اور اسے اس وقت یاد آیا جب نماز عصر کے لئے اقامت ہوچکی ہو تو کیا وہ عصر کی نیت
سے جماعت میں شامل ہو یا ظہر کی نیت سے یا پھر پہلے تنہا ظہر پڑھے پھر عصر پڑھے؟
جواب: وہ آدمی
تو ہرحال میں جماعت میں ہی شریک ہوکر نماز ادا کرے گا، الگ سے نماز نہیں پڑھے اور
چونکہ اس کے ظہر کی نماز چھوٹی ہوئی ہے جو ترتیب کے لحاظ سے پہلے ہے اس لئے پہلے
امام کے ساتھ ظہر کی نماز ادا کرلے پھر الگ سے عصر کی نماز ادا کرے یعنی ترتیب کا
خیال کرکے نماز پڑھے تو افضل ہے تاہم اگر وہ پہلے امام کے ساتھ عصر کی نماز ادا
کرتا ہے اور پھر بعد میں ظہر کی نماز ادا کرتا ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے
۔
سوال:ایک آدمی کا جسم کسی حادثہ میں بری طرح
متاثر ہوا ہے اور اس کے جسم سے خون بہتا ہے، اگر وہ اسی حالت میں فوت ہو جائے تو
کیا اسے غسل دینا ضروری ہے یا صرف تیمم ہی کروا دیا جائے اور اگر جسم ٹکڑے ٹکڑے
ہوگیا ہو تو پھر غسل کی کیا صورت ہو گی؟
جواب: جو آدمی
کسی حادثہ کا شکار ہوکر وفات پایا ہے اس حال میں کہ اس سے خون ٹپکتا ہے تو اسے غسل
دیا جائے گا ، تیمم نہیں کرایا جائے گا، اور خون ٹپکتا ہو تو اسے بند کرنے کے لئے
اس جگہ پر پٹی لگادے جہاں سے خون بہتا ہو اور اگر اعضاء کٹے ہوئے ہوں تو اس صورت
میں بھی سب کو جمع کرکے اسے غسل دیا جائے گا۔
سوال:کیا مغرب اور عشا کے درمیان سونا
منع ہے؟
جواب: نبی ﷺ نے
عشاء سے پہلے سونے اور عشاء کے بعد بات کرنے سے منع فرمایا ہے یعنی اسے ناپسند
فرمایا ہے لیکن اگر کسی کو مغرب وعشاء کے درمیان سونے کی حاجت ہو تو وہ سو سکتا ہے
بس اس بات کا خیال رکھے کہ عشاء کی نماز نہ فوت ہو، الارم لگالے یا کسی کو نماز کے
وقت جگانے کے لئے کہہ دے ۔ گویا ضرورت کے وقت عشاء سے پہلے سو سکتے ہیں جیسے ضرورت
کے وقت عشاء کے بعد بات بھی کرسکتے ہیں ۔
سوال: صدقے کے حوالے سے ایک سوال ہے کہ
ہمارے یہاں صدقہ کا کچھ اس طرح ٹرینڈ چلا ہے کہ مرغا وغیرہ سر سے وار کر مطلب سر
سے گھماکر اس کا گوشت باہر یا سڑک پر یا فصلوں میں پھینک دیتے ہیں یا کبھی بکرے کا
گوشت وغیرہ سر سے سات چکر گھماکر کسی غریب کو دیدیتے ہیں یا کہیں پھینک دیتے ہیں ،
آپ بتائیں کہ صدقہ کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
جواب:صدقہ فقیر اور مسکین کا حق ہے لہذا جو بھی ضرورت
کی چیز ہو خواہ پیسہ ہو یا کھانے پینے والی چیز ہو اس چیز کو براہ راست غریب کے
گھر جا کر اس کے ہاتھ میں دینا چاہیے تاکہ وہ اس سے اپنی ضرورت پوری کرے۔
صدقہ کی چیز کو سڑک پر یا کھیتوں میں پھینکنا یہ نعمت
کی ناقدری ہے اور یہ صدقہ نہیں ہے یہ تو گناہ کا کام ہے اس پر اللہ رب العالمین
گناہ لکھے گا اور انسان کی پکڑ کرے گا۔اور پھر صدقے کی چیز کو وارنا بھی مسنون عمل
نہیں ہےاس سے بھی بچا جائے گا۔
سوال: قرآن شریف پڑھ کر رسول اللہ کے نام
سے بخش سکتے ہیں اور بخش سکتے ہیں تو کیا بول کر اور کیسے بخشنا چاہئے؟
جواب: نبی ﷺ میت ہیں یعنی آپ وفات پاچکے ہیں اور قرآن
کی تلاوت کرکے کسی میت کو نہیں بخشیں گے، نہ رسول اللہ ﷺ کو بخشیں گے اور نہ ہی
کسی دوسرے میت کو بخشیں گے کیونکہ قرآن وحدیث میں میت کو قرآن بخشنے کا کہیں پر
حکم نہیں دیا گیا ہے ۔
سوال: میری عمر چوبیس سال ہے جبکہ میری بڑی بہن کی عمر تیس سال ہوگئی اور شادی نہیں ہوئی کیونکہ ان کو کوئی پسند نہیں آتا، بڑی بڑی ڈیمانڈ ہیں ، ایسے میں میری شادی کا کیا حکم ہے، والدین اس بات سے راضی نہیں ہیں؟
جواب:آج کل کے حالات میں لڑکیوں کی شادی اکثر جگہ مشکل
ہوگئی ہے ، ایسے میں کوئی لڑکی اپنی شادی کے لئے بڑی بڑی ڈیمانڈ رکھے تو اس کی
شادی میں مزید تاخیر ہوگی اور شادی کی اصل عمر گزرتی چلی جائے گی جس عمر میں میاں
بیوی کے درمیان اچھے پل گزرتے ہیں۔
مذکورہ مسئلہ
میں آپ کی بڑی بہن کی شادی میں تاخیر کا سبب وہ خود ہے ، اللہ اس بہن کو ہدایت دے
۔ اگر صورت حال ایسی ہو تو چھوٹی بہن اپنے رشتے کے لئے والدین سے کہہ سکتی ہے کیونکہ
ہر کوئی اپنے حال کو بہتر جانتا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرماتے ہیں اے نوجوانوں کی جماعت!
جو تم میں سے نکاح کرنے کی طاقت رکھتا ہو وہ نکاح کر لے کیونکہ نظر کو نیچی رکھنے
اور شرمگاہ کو (برائی سے) محفوظ رکھنے کا یہ ذریعہ ہے۔(بخاری ومسلم)
شادی سنت ، ایک ضرورت اور عفت وعصت کی حفاظت کا ذریعہ
ہے اور آج کا ماحول بہت پرفتن ہے ، اس ماحول میں شادی کی عمر ہوتے ہی لڑکے اور
لڑکی کی شادی کردینی چاہئے ۔ گوکہ سماج اس بات کو معیوب سمجھتا ہے کہ بڑی بیٹی کے
رہتے ہوئے چھوٹی بیٹی کی شادی کردی جائے مگر ضرورت کے پیش نظر پہلے چھوٹی بیٹی کی
شادی کی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے جیساکہ مذکورہ صورت حال ہے اور اس صورت
میں جب چھوٹی بیٹی باپ یا ماں سے خود اپنی شادی کے لئے کہے تو والدین کو سمجھنا
چاہئے اب میری بیٹی کی شادی ایک ضرورت بن گئی ہے لہذا فورا اچھا رشتہ دیکھ کر شادی
کردی جائے ۔
سوال: ایک آدمی عمرہ کرکے آیا ہے اور جدہ
میں بال کٹایا ہے، وہ احرام کی حالت میں تھا ، کیا اس پر کچھ دم وغیرہ ہے؟
جواب: عمرہ کرکے بال کہیں بھی کٹاسکتے ہیں، مکہ میں ہی
بال کٹانا ضروری نہیں ہے شرط یہی ہے کہ آدمی احرام کی حالت میں رہے یعنی وہ احرام
کی پابندی کرتا رہے ۔ جو آدمی جدہ آکر اپنا بال کٹایا ہے اس کے اوپر کچھ بھی نہیں
ہے کیونکہ اس نے کوئی غلطی نہیں کی ہے ۔
سوال: کوئی اپنی بیوی سے حیض کی حالت میں
جماع کرلے یا حیض سے پاک ہونے کے بعد غسل سے پہلے جماع کرلے اور اسی طرح کوئی اپنی
بیوی کے دبر میں جماع کرلے، ان سب صورتوں میں کیا کفارہ ہے؟
جواب: اگر کوئی آدمی اپنی بیوی سے حیض کی حالت میں جماع
کر لے یا حیض سے پاکی حاصل ہونے پر غسل سے پہلے جماع کرلے تو ان دونوں صورتوں میں
کفارہ ہے اور کفارہ کے طور پر ایک دینار یا آدھا دینار صدقہ دینا ہے۔
اور اگر کوئی بیوی کے پچھلے حصے میں مباشرت کرلے تو اس
میں کوئی کفارہ قرآن و حدیث میں مذکور نہیں ہے، ایسا آدمی اللہ رب العالمین سے
توبہ سچی کرے کیونکہ یہ لعنت والا عمل اور گناہ کبیرہ ہے۔
سوال: کیا کسی خاتون کے لئے جائز ہے کہ وہ کسی دوسرے شہر ٹرین سے کچھ رشتہ داروں کے ساتھ جائے اور ان کا محرم کار سے جائے جبکہ جگہ وہی ہو اور وقت بھی وہی ہو لیکن دونوں کا روٹ الگ الگ ہو تو کیا ایک قافلہ آگے اور ایک قافلہ پیچھے ہونے سے کوئی مسئلہ تو نہیں ہے؟
جواب: اگر خاتون کم از کم اسی کلومیٹر کا سفر کر رہی ہے
اور وہ ٹرین میں ہے جبکہ اس کا محرم گاڑی سے آرہا ہے تو اس طرح سے عورت کے لئے سفر
کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ محرم کا ساتھ میں ہونا ضروری ہے یعنی وہ عورت جس چیز سے
سفر کر رہی ہے اور جیسے سفر کر رہی ہے اس سفر میں اس کے ساتھ اس کا محرم کا ہونا
ضروری ہے لیکن جو صورتحال ذکر کی گئی ہے یہ محرم کا ساتھ ہونا نہیں ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔