﷽
آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(7)
جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، سعودی عرب
سوال: کسی نے سوال کیا ہے کہ اسلام مخالف
قوانین پر عمل کا کیا حکم ہے تو اس کا جواب دیا گیا ہے کہ وہ قوانین جو اسلام کے
خلاف ہیں ان پر عمل کرنا اس صورت میں کفر ہے جب اسے جائز سمجھا جائے اور اس کے
درست ہونے کا یقین ہو۔ سورہ مائدہ میں اللہ نے فرمایا کہ اور جو لوگ اللہ کے اتارے
ہوئے حکم کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ فاسق ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا پیشوائے اسلام کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ نہیں کریں گے اور اللہ کی اتاری
ہوئی شریعت کو اختیار نہیں کریں گے تو اللہ ان پر سخت پھوٹ ڈال دے گا۔
کیا مذکورہ بات صحیح ہے کہ وہ قوانین جو
اسلام کے خلاف ہوں ان پر عمل کرنا صرف اس صورت میں کفر ہے جب اسے جائز سمجھا جائے
اور اس کے درست ہونے کا یقین ہو؟
جواب: جواب میں لکھا گیا ہے کہ ایسا قانون جو اسلام
مخالف ہو اس پر عمل کرنا اس وقت کفر ہوگا جب ہم اس کو جائز سمجھیں گے۔میرے خیال سے
یہ جواب درست نہیں ہے کیونکہ نیچے ذکر کی گئی نہ دلیل میں ایسی بات ہے اور نہ ہی
دوسری دلیلوں سے اس طرح کا پہلو نکلتا ہے۔ قرآنی آیت میں ہے کہ جو اللہ کے حکم کے
مطابق فیصلہ نہیں کرتا وہ فاسق ہے گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کے حکم کے خلاف
فیصلہ کرنا خواہ فیصلے کو جائز سمجھ کر یا ناجائز سمجھ کر فیصلہ کیا جائے ان دونوں
صورتوں میں آدمی فاسق ہی کہلائے گااور یہی مفہوم پیش کردہ حدیث سے بھی نکلتا
ہےلہذا اگر کوئی شخص کفریہ کام یا کسی بھی قسم کے گناہ کا کام جائز سمجھ کر کرے یا
جائز سمجھ کر نہیں کرے ان دونوں صورتوں میں آدمی کو گناہ ملے گا۔
سوال: وتر میں کون سی دعا پڑھنا بہتر ہے: اللهم
انا نستعينك ونستغفرك ونؤمن بك ونتوكل عليك..یا پھر اللهم اهدني في من هديت وعافني
في من عافيت؟
جواب: دعائے قنوت کے طور پر مذکورہ دونوں دعائیں ثابت
ہیں اور جب کسی معاملہ میں ایک سے زیادہ دعائیں ہوں تو ان دعاؤں کے بارے میں افضل
صورت یہ ہے کہ کبھی ایک دعا پڑھ لیں، کبھی دوسری دعا پڑھ لیں جیساکہ استفتاح کی
ایک سے زائد دعائیں ثابت ہیں لہذا کوئی کبھی ایک دعا پڑھ لے، کبھی دوسری دعا پڑھ
لے اور کوئی صرف ایک ہی دعا برابر پڑھا کرے تو بھی کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
سوال: نمازی کے آگے اگر سترہ نہ ہو تو
کیا اسکی سجدہ گاہ کے آگے سے گزر سکتے ہیں؟
جواب: اگر کسی
نمازی کے آگے سترہ نہ ہو تو اس سلسلے میں بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اس کے آگے سے
نہیں گزر سکتے ہیں خواہ کتنا بھی آگے سے کیوں نہ ہو تاہم بعض اہل علم جیسے شیخ ابن
عثیمین یہ کہتے ہیں کہ سترہ نہ ہونے کی صورت میں سجدے کے بعد سے آدمی گزر سکتا ہے
کیونکہ نمازی کا حق قدم سے لے کر سجدے کے درمیان تک ہے ، یہ مناسب قول ہے ، بہر
کیف کوئی احتیاط کرتا ہے گزرنے میں تو یہ زیادہ بہتر ہے۔
سوال: مردوں کے ماتھوں پہ اکثر نشان ہوتے
ہیں جنہیں شاید محراب کہتے ہیں جو نماز پڑھنے کی وجہ سے بن جاتے ہیں۔اگر کسی عورت
کے بھی بنے تو یہ کیا اللہ کی طرف سے تحفہ ہوگا اور اگر ایک عورت قرآن و حدیث کے
مطابق زندگی گزار رہی ہو اسکے بنے تو ؟
جواب: پیشانی پہ سجدہ کرنے کی علامت بن جانا نہ مردوں کے لئے اللہ کی طرف سے تحفہ ہے اور نہ کسی عورت کے لئے اللہ کی طرف سے تحفہ ہے۔ یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ سجدہ کرتے کرتے اس جگہ نشان پڑ جاتا ہے جیسے آدمی کے ٹخنوں اور گھٹنوں میں بیٹھتے بیٹھتے نشان پڑ جاتا ہے، اس بارے میں اور کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے بلکہ سورہ فتح میں اللہ نے سجدوں کے نشان کے طور پر چہرے کا نور بتایا ہے یعنی جو لوگ رب کے لئے سجدہ ریز ہوتے ہیں ان کے چہرے پرنور اور روشن ہوتے ہیں ، اس کے لئے ضروری نہیں ہے کہ پیشانی پر نشان ہی ہو۔
باقی جو لوگ اخلاص اور سنت کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں،
وہ بندگی اللہ کے نزدیک مقبول ہے اور ایسے لوگوں کے اعضاء بھی قیامت میں وضو کے
اثر سے چمکیں گے خواہ دنیا میں ان لوگوں کی پیشانی پر کوئی نشان رہا ہو یا نہیں
رہا ہو اس سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ اس کے بر خلاف جن کی عبادت میں اخلاص یا سنت کی
موافقت نہ ہو ایسے لوگوں کی پیشانی پر جتنا بڑا نشان پڑا ہو قیامت میں ان کی عبادت
اور نشانی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
سوال : اسلامی بینکنگ حلال ہے یا حرام
اور اس میں جاب کرنا کیسا ہے؟
جواب: شرعی اصولوں کی روشنی میں اسلامی بینکنگ کی جا سکتی ہے جیسے
سعودی عرب میں بینکوں کا نظام شرعی اصولوں پر قائم ہے لہذا ایسے بینک قائم کرنا
جائز ہے اور ایسے بینکوں میں نوکری کرنا بھی جائز ہے۔
جہاں تک ہندو پاک کے بینکوں کا معاملہ ہے تو ان دو
ملکوں میں جن لوگوں نے بھی بینک قائم کرکے اس کا نام اسلامی بینک رکھا ہے وہ صحیح
نہیں ہے۔ خواہ ہندوستان ہو یا پاکستان ان ملکوں میں کوئی بھی اسلامی اصولوں پر
بینک قائم نہیں ہے لہذا ہندوستان یا پاکستان میں اسلامی بینک کہے جانے والے بینکوں
سے دھوکہ نہ کھائیں۔
سوال : مکہ کے شیر خوار بچوں کو دور دراز
علاقوں میں کیوں بھیجا جاتا تھا صرف انکی صحت وتندرستی کے لئے یا کوئی اور وجہ بھی
تھی حالانکہ ماں سے بہتر کوئی پرورش نہیں کر سکتا مگر مکہ میں یہ رواج تھا یا
ضرورت؟
جواب:زمانے جاہلیت میں بچوں کو دودھ پلانا ایک روزگار
اور عورتوں کا ایک پیشہ تھا یعنی غریب و مسکین عورتیں مالدار بچوں کو دودھ پلاکر
کمائی کرتی تھیں اور اپنا گھر بار چلاتی تھیں۔
گویا شیر خوار بچوں کو دور دراز علاقوں میں بھیجا نہیں
جاتا تھا بلکہ ان علاقوں سے خود ہی عورتیں روزگار کی تلاش میں آیا کرتی تھیں۔ یہ
اس زمانے کا رواج تھا اس رواج کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ماں کا اپنی
اولاد کو دودھ پلانا اور خود سے پرورش کرنا، ظاہر سی بات ہے کہ یہ سب سے بہتر اور
افضل ہے بلکہ اسلام نے دودھ پلانے کی مدت بھی متعین کر دی ہے اور وہ صرف دو سال
ہے۔
سوال: شوہر کے ظلم سے بچنے کی کیا دعا
ہے؟
جواب: شوہر کے ظلم سے بچنے کی اسلام میں کوئی مخصوص دعا
نہیں ہے۔ شوہر اگر ظالم ہے تو اس سلسلے میں اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔
پہلے مرحلے میں ظلم سے باز رہنے اور ظلم پر الہی مواخذہ
ہونے کا تذکرہ کر کے شوہر کو نصیحت کی جائے۔ خود سے اصلاح نہ ہو سکے تو کسی عالم
دین کے ذریعہ اچھی رہنمائی کی جائے۔اگر اس مرحلے میں رویہ تبدیل نہیں کرتا ہے تو
پنچایت بٹھائے تاکہ پنچایت والے ظالم شوہر کے خلاف قرار داد پاس کرے کہ اگر وہ
دوبارہ ظلم کرتا ہے تو اس کے خلاف تادیبی کاروائی کی جائے گی۔
اس جگہ عورت کو یہ بھی دیکھنا ہے کہ شوہر کا ظلم، کیا
بیوی کی غلطی کی وجہ سے ہے۔ اگر ظلم کی وجہ بیوی خود ہے تو بیوی اپنی اصلاح کرے۔
اور بیوی اپنی جگہ صحیح ہو لیکن بلاوجہ شوہر ظلم کرتا
ہو اور اصلاح کی کوشش کے باوجود وہ ٹھیک نہ ہو پاتا ہو تو صبر کرے اور صبر کا بدلہ
بہترین ہے۔ ساتھ ہی اللہ رب العالمین سے شوہر کی ہدایت کے لئے اپنی زبان میں
دعائیں کرتی رہے بطور خاص افضل اوقات میں دعائیں کرے۔
ہاں اگر ظلم اس قدر بڑھا ہوا ہو کہ صبر کرنا بھی ایک
صبر آزما مرحلہ ہو یعنی بے حد ظلم کرتا ہو تو ایسے ظالم سے طلاق یا خلع کے ذریعہ
الگ ہو جائے لیکن اگر صبر کی گنجائش ہو تو صبر کرنا ہی بہتر ہے۔
سوال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
مالدار لوگوں کو بکریاں اور محتاج لوگوں کو مرغیاں رکھنے کا حکم دیا اور فرمایا ہے
کہ جب مالدار مرغیاں پالنے لگتے ہیں تو اللہ تعالی اس بستی کو تباہ کرنے کا حکم
دیتا ہے۔(ابن ماجہ: 2307)کیا یہ صحیح ہے اور اس کی وضاحت بھی کر دیں؟
جواب: یہ حدیث گھڑی ہوئی ہے یعنی یہ جھوٹ ہے اس لئے اس
کو رسول اللہ کی طرف منسوب کرنا جائز نہیں ہے اس حدیث کی سند میں ایک راوی ہے جو
جھوٹی باتیں گھڑنے والا ہے اسی وجہ سے شیخ البانی نے ابن ماجہ کی تخریج میں اس کی
سند کو موضوع قرار دیا ہے۔
سوال: وضو کے شروع میں اگر بسم اللّٰہ
پڑھنا یاد نہ رہے، درمیان میں یاد آئے جیسے منہ دھوتے ہوئے تو کیا کرنا چاہیے ؟
جواب: وضو میں بسم اللہ پڑھنا مسنون ہے اس لئے اگر کوئی
وضو کرتے ہوئے بسم اللہ بھول جائے تو کوئی حرج نہیں ہے اس کا وضو اپنی جگہ پر درست
ہے۔اگر کوئی شروع وضو میں بسم اللہ بھول جائے اور درمیان میں کسی وقت یاد آجائے تو
اسی وقت بسم اللہ پڑھ لے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے جیسے ہم کھاتے ہوئے شروع میں
بسم اللہ بھول جاتے ہیں اور درمیان میں یاد پڑنے پر بسم اللہ کہہ لیتے ہیں۔
سوال:
اللهم صل وسلم على نبينا محمد عدد ما خلقت
اللهم صل وسلم على نبينا محمد ملء ماخلقت
اللهم صل وسلم على نبينا محمد عدد ما في الارض والسماء
اللهم صل وسلم على نبينا محمد ملء ما في الارض والسماء
اللهم صل وسلم على نبينا محمد عدد ما احصى كتابك
اللهم صل وسلم على نبينا محمد ملء ما احصى كتابك
اللهم صل وسلم على نبينا محمد عدد كل شيء
اللهم صل وسلم على نبينا محمد ملء كل شيء
کیا اس طرح کا درود پڑھا جا سکتا ہے؟
جواب: اس طرح کا درود کسی بھی حدیث میں وارد نہیں ہے ،
گوکہ اس میں معنوی کوئی خطا نہیں ہے اس لئے کبھی کبھار اس کے پڑھنے میں حرج نہیں
ہے بشرطیکہ ان کلمات کو سنت سمجھ کر نہ پڑھے جائیں اور اس کی کوئی خاص فضیلت کا
اعتقاد نہ رکھا جائے تاہم افضل وبہتر یہی ہے کہ درود کے جو صیغے ثابت و وارد ہیں
ان کو پڑھا جائے ۔
سوال: میں نے یہ سنا تھا کہ جب والدین اس
دنیا سے چلے جائیں تو اولاد جو بھی نیکی کا کام کرتی ہے اللہ سبحانہ و تعالی
والدین کے درجات بلند کرتے ہیں۔ والدین اللہ تعالی سے پوچھتے ہیں ہمارا یہ درجہ
کیسے بلند ہوا، تو اللہ تعالی فرماتا ہے کہ آپ کی فلاں فلاں اولاد نے یہ نیکی کی
ہے اس کے بدلے آپ کے درجات بلند ہوئے ہیں۔ والدین پھر اولاد کے حق میں دعا کرتے
ہیں۔کیا یہ صحیح بات ہے کہ والدین وفات پانے کے بعد جب اولاد نیک کام کرے تو اللہ
تعالی سے پوچھتے ہیں پھر اللہ سبحانہ و تعالی جب بتاتے ہیں تو والدین اولاد کے حق
میں دعا کرتے ہیں، کیا وفات کے بعد ایسا ہوسکتاہے؟
جواب: جس طرح آپ نے سنا اور بیان کیا ہے اس طرح سے حدیث میں نہیں ہے بلکہ حدیث میں اس طرح سے بیان ہوا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”آدمی کا
درجہ جنت میں بلند کیا جائے گا، پھر وہ کہتا ہے کہ میرا درجہ کیسے بلند ہو گیا
(حالانکہ ہمیں عمل کا کوئی موقع نہیں رہا) اس کو جواب دیا جائے گا: ”تیرے لیے تیری
اولاد کے دعا و استغفار کرنے کے سبب سے“۔(سنن ابن ماجہ: 3660)
گویا اولاد کی ہر نیکی کا ثواب والدین کو نہیں ملتا
بلکہ اولاد جب اپنے والدین کے لئے دعا کرتی ہے تو اس دعا سے والدین کا درجہ بلند
ہوتا ہے اور پھر حدیث سے یہ ثابت نہیں ہے کہ والدین مرنے کے بعد بھی اولاد کے لئے
دعا کرتے ہیں، یہ بات غلط اور غیر ثابت ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اولاد کی ان نیکیوں کا اجر بھی
والدین کو ملتا ہے جن نیکیوں کی تربیت خصوصی طور پہ والدین نے کی ہو گویا اولاد کی
ہر نیکی کا اجر والدین کو نہیں ملتا ہے بلکہ صرف انہی نیکیوں کا اجر ملتا ہے جن کی
تربیت و رہنمائی ماں یا باپ نے کی ہو۔
سوال: میں نماز پڑھتی ہوں تو نماز میں
دھیان اتنا بھٹک جاتا ہے کہ میں ساری نماز بھول جاتی ہوں، ایسی کوئی نماز نہیں ہے
جس میں مجھے سجدہ سہو نہ کرنا پڑے حتی کہ یہ بھی نہیں یاد رہتا کہ میں نے نماز میں
کون سی سورت پڑھی ہے، کتنے سجدے کئے ہیں، کتنے فرض پڑھے ہیں، رکوع کیا ہے یا نہیں؟
اس قدر نماز بھول جاتی ہوں۔ میں بہت کوشش کرتی ہوں کہ صحیح سے نماز ادا کروں مگر
نہیں ہوپاتا، میرا دھیان نماز میں نہیں رہتا، اس وجہ سے خوف سا رہتا ہے کہ شاید
میری نماز قبول نہیں ہو رہی ہو یا اللہ مجھ سے ناراض ہے؟ کبھی دل میں آتا ہے کہ
ایسی نماز پڑھنے سے کیا فائدہ جو قبول بھی نہ ہو اس لئےمزید وسوسے پیدا ہوتے اور
پریشان رہتی ہوں۔میری لائف میں بھی تھوڑے سے مسئلے چل رہے ہیں اس کی وجہ سے بھی
تھوڑی پریشانی ہے، اس صورت میں میرے لئے دعا کریں اور مجھے صحیح رہنمائی کریں؟
جواب: نماز میں ادھر ادھر دھیان بھٹکنے کے مختلف اسباب
ہوتے ہیں، ان میں بڑی وجہ خود اپنی زندگی
کے مسائل ہوتے ہیں اور دوسری وجہ نماز کو خشوع وخضوع کے بغیر ادا کرنا۔
اس لئے پہلے مرحلے میں آپ کے لئے ضروری ہے کہ اپنے
عائلی مسائل کو حل کریں اور ان مسائل کو اتنی اہمیت نہ دیں کہ اس کا تصور ہمارا
وقت ذہن میں رہےحتی کہ نماز بھی اس سے متاثرہوجائے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ نماز میں خشوع و خضوع پیدا کرنے
والے جو اسباب ہیں ان کو جانیں اور اس طرح سے نماز پڑھنے کی کوشش کریں، ان شاءاللہ
آپ کی نماز درست رہے گی۔
آپ جب دنیاوی کوئی کام کرتے ہیں مثلا گوشت بناتے ہیں تو
بہت دھیان سے بناتے ہوں گے۔ پکاتے وقت کب کیا ڈالنا ہے اور کتنی مقدار میں ڈالنا
ہے تاکہ ذائقہ اچھا رہے اس کا مکمل خیال کرتے ہوں گے اور میرا خیال ہے کہ کبھی آپ
کی سبزی ترکاری خراب نہیں ہوئی ہوگی ، جب دنیا کا معاملہ صحیح ہے تو پھر عبادت کا
معاملہ کیوں الگ ہے اس بارے میں سوچیں اور غلطی کی اصلاح کریں اللہ تعالی سے اپنی
اصلاح کے لیے دعا بھی مانگیں۔
نماز میں کسی چیز کا دھیان آجانا کوئی بڑی بات نہیں ہے
تاہم ہمیشہ نماز اس طرح پڑھیں کہ کچھ بھی شعور نہیں رہے یعنی ہم کیا پڑھ رہے ہیں،
ابھی کیا پڑھے ہیں، سجدہ و رکوع کیا یا نہیں کیا، اذکار پڑھے یا نہیں پڑھے، ایسے
میں تو نماز بھی نہیں ہوگی ، یہ بہت ہی اہم معاملہ ہے اور اس کی اصلاح کی اشد
ضرورت ہے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ تم اللہ کی اس طرح عبادت کروگویاتم اس کو دیکھ رہے
ہو اور اگر تم اس کو نہیں دیکھ سکتے تو تصورکرو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ اس طرح
نماز کی عظمت کو دل میں بٹھاکر ادا کریں ، ماحول وصحبت درست کریں، برے کاموں سے
دوری اور اچھے کاموں کی رغبت ڈالیں اور نماز کے اذکار ودعاؤں کے معانی ومفاہیم اور
اس کی اہمیت کو کتاب سے معلوم کریں ، بہتری پیدا ہوگی۔نیز نماز میں خشوع وخضوع سے
متعلق اہم علم نے مقالات ومضامین لکھے ہیں ان کو بھی پڑھیں جیسے شیخ محمد بن صالح
المنجد کی کتاب جس کا اردو ترجمہ کتاب
وسنت لائبریری پر موجود ہے۔
سوال: ربیع الاول کے آتے ہی کچھ خواتین
درود کی محافل منعقد کرتی ہیں اور جمع ہو کر درود پڑھا جاتا ہے تو ان کو کیسے منع
کیا جائے؟
جواب: ربیع الاول میں درود کی محفل قائم کرنا اور
اجتماعی شکل میں درود پڑھنا بدعت ہے بلکہ یہ سمجھیں کہ اس عمل میں دو قسم کی بدعت
پائی جاتی ہے۔پہلی بدعت یہ ہے کہ درود کے لئے ربیع الاول کا مہینہ یا اس کی کوئی
تاریخ اپنی جانب سے متعین کیا ہے۔دوسری بدعت یہ ہے کہ اس میں اجتماعی شکل میں درود
کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
شرعی لحاظ سے ہم درود پڑھنے کے لئے اپنی جانب سے کوئی
وقت یا کوئی تاریخ متعین نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ کسی کو اس بات کی اجازت حاصل
نہیں ہے۔ اسی طرح درود پڑھنے کے لئے اجتماعی شکل اختیار کرنا بھی جائز نہیں ہے
کیونکہ اس طرح درود پڑھنے کی سنت سے دلیل نہیں ملتی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: من عمل عملا ليس عليه امرنا فهو رد.
(مسلم:1718)
ترجمہ: یعنی کسی نے ایسا کوئی عمل کیا جو دین میں سے
نہیں ہے وہ عمل مردود اور باطل ہے۔
یہاں پر یہ بھی سمجھ لیں کہ نہ صرف درود سے متعلق بلکہ
دین کے کسی بھی معاملہ سے متعلق یہی قاعدہ ہے کہ اپنی طرف سے کسی عبادت کے لئے وقت
و تاریخ متعین کرنا یا کسی انفرادی عبادت کو اجتماعی شکل میں انجام دینا یہ دونوں
بدعت شمار ہوں گےلہذا کسی کو اس قسم کی بدعت کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھیں تو ان کو
حق بات کی دعوت دیدیں ، یہی آپ کا فریضہ ہے، ہدایت و توفیق اللہ کی طرف سے نصیب
ہوتی ہے۔
سوال: اگر کوئی نماز قضا ہو جائے تو
دوسرے وقت اس کی ادائیگی کرتے ہوئے کیا فرض نماز کے بعد اذکار بھی پڑھنے چاہیے؟
جواب: اگر کوئی نماز ہم سے قضا ہو جائے تو دوسرے وقت
میں اس نماز کو ادا کرتے ہوئے ٹھیک اسی طرح سے ادا کریں گے جیسے ہم اصل وقت پر ادا کرتے ہیں یعنی فرض نماز سے پہلے سنت
ہو تو سنت پڑھیں پھر فرض پڑھیں اور فرض کے بعد اذکار پڑھیں پھر اگر فرض کے بعد سنت
بھی ہو تو سنت ادا کریں یعنی ٹھیک ٹھیک اسی طرح ادا کریں گے جیسے اصل وقت پر ادا کرتے ہیں۔
سوال: چھ سات سال پہلے ایک لڑکی کا ایک
لڑکے سے دوستی تھی اور یہ دوستی صرف موبائل سے بات کرنے کی حد تک تھی وہ بھی پڑھنے
کے حوالے سے، ملنا وغیرہ نہیں تھا۔ پھر لڑکے کی شادی ہو گئی تو لڑکی نے اس سے رابطہ ختم کر لیا،
یہ کہہ کر کے تم کسی اور کے ہو۔لڑکا اپنی بیوی کو یہ کہہ کر دھکمانےلگا کہ میں اسی
لڑکی سے شادی کروں گا جب کہ اس لڑکی نے توبہ کر کے نامحرم سے بات کرنا چھوڑ دیا اوراپنے
دل میں اس لڑکے کا کوئی خیال نہیں رکھا۔اب صورتحال یہ ہے کہ لڑکی کو جاب اور شادی
کے سلسلے میں رکاوٹ ہے اس لئے وہ ٹینشن میں رہتی ہے اور سوچتی ہے کہ اس کی بیوی کی
بد دعا لگ گئی ہے جبکہ یہ لڑکی پرہیزگار بن گئی ہے اور اس کے دل میں لڑکے کے لئے
کچھ بھی نہیں ہے ایسی صورت میں لڑکی کو کیا کرنا چاہیے کیا اسے اس لڑکے کی بیوی سے
معافی مانگنا چاہیے جبکہ اس کی بیوی کو جانتی بھی نہیں ،اس سے رابطہ بھی نہیں مگر
دل میں خیال آتا ہے کہ کہیں اس لڑکی کا دل دکھا ہواور اس کو تکلیف پہنچی ہو؟
جواب: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ لڑکی نے لڑکے سے تعلق
رکھا اور بات چیت کی اور یہ بات چیت جس طرز کی بھی ہو، یہ تعلق اور بات چیت اللہ
کے نزدیک بے حیائی اور گناہ کا کام ہے۔ اور جب لڑکی اپنی زندگی میں اس معاملہ کولے
کر بیحد پریشان ہے، لڑکی کی یہ بے چینی اور پریشانی بتاتی ہے کہ اس کا غیر محرم کے
ساتھ تعلق و رابطہ تھا جو کہ اسلام کی نظر میں حرام ہے۔
لڑکی اس گناہ کے لئے اللہ رب العالمین سے سچے دل سے
توبہ کرے اور اس لڑکی کو لڑکے کی بیوی سے معافی مانگنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا
لہذا اسے اپنی غلطی پر اس قدر بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ لڑکی اس لڑکے
کی بیوی کا مجرم نہیں بلکہ اللہ کا مجرم ہےلہذا اللہ سے معافی طلب کرے اور جب بندہ
اللہ تعالی سے سچی توبہ کرے تو اللہ تعالی اس کے گناہ کو معاف کر دیتا ہے۔
رہا مسئلہ شادی یا جاب میں مشکل کا ہونا تو اس کے لئے
اللہ رب العالمین سے دعا کرے اور اپنے مسئلے کے حل کے لئے جائز طریقے سے کوشش بھی
کرے۔یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ کسی ایک کے ساتھ ہو بلکہ یہ مسئلہ سبھی کے ساتھ
ہے۔ساتھ ہی یہاں پر ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ عورت کو نوکری کے لئے پریشان ہونے
کی ضرورت نہیں ہے، اللہ تعالی نے عورت کی معاشی کفالت مرد کے ذمہ ڈالی ہے، یہ الگ
مسئلہ ہے کہ شرعی دائرہ میں رہ کر نوکری کرنا عورت کے لئے جائز ہےمگر اس کے لئے
اسے بے چین ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
سوال: اگر کسی عورت کے پاس کسی قسم کی
مالی کمائی نہ ہو اور وہ دوسروں پہ ڈیپینڈ ہو تو مالی طور پر آزاد ہونے کے لئے کیا
عورت گھر یا باہر جاکر نوکری کر سکتی ہے تاکہ وہ مالی طور پر انڈیپینڈنٹ ہو سکے،
اس میں کوئی گناہ کو نہیں ہے؟
جواب: یہاں اصل سوال یہ ہے کہ کیا عورت کا کفیل یعنی
شوہر یا والد یا گھر کا کوئی سرپرست موجود نہیں ہے کیونکہ بیٹی کی حیثیت سے باپ اس
کی کفالت کرے گا اور بیوی کی حیثیت سے شوہر کفالت کرے گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ جب عورت کا کوئی کفیل نہ ہو اور اسے اپنے گزر بسر کے لئے نوکری کی ضرورت پڑے تو شرعی حدود میں رہتے ہوئے عورت نوکری یا تجارت کر سکتی ہیں، یہ عذر اور مجبوری کی حالت کا مسئلہ ہے ورنہ عورت کو اپنے گھر ہی میں رہنا ہے یہاں تک کہ عورت کی نماز بھی گھر میں ادا کرنا افضل قرار دی گئی ہےاور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کے لئے عورت کو سب سے بڑا فتنہ قرار دیا ہے۔
المھم ایک عورت عذر کی وجہ سے گھر سے باہر نکل کر شرعی
طور پر حلال کمائی کر سکتی ہے ورنہ اسے گھر ہی میں رہنا ہے اور گھر رہتے ہوئے
کمائی کرنے کا موقع مل جائے مثلا سلائی کڑھائی وغیرہ کے ذریعہ تو یہ زیادہ بہتر
ہے۔
سوال: حیض کے دوران جس طرح قرآن کو چھونا
جائز نہیں ہے کیا اسی طرح پنج سورہ جس کتاب میں دلیل کے طور پر قرآن کی آیت بھی
ہوتی ہے اور اردو بھی لکھی ہوئی ہوتی ہے، یا عربی متن لکھا ہوا ہوتا ہے کیا وہ بھی
اسی حکم میں آئے گی یعنی ایسی کتاب کو حیض کی حالت میں نہیں چھونا چاہیے ؟
جواب: ایک عورت کو حیض کی حالت میں براہ راست مصحف
چھونا منع ہے تاہم دستانہ لگا کر مصحف اپنے ہاتھ میں لے سکتی ہے۔اور جو کتاب مصحف
نہیں ہے حیض کی حالت میں اسے چھونے اور اٹھانے میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے، چاہے
اس کتاب میں قرآنی آیات یا حدیث ہی کیوں نہ ہوں۔
جہاں تک پنج سورہ کی بات ہے تو اس طرح کی کتاب میں عام
طور پر بدعتی لوگ طرح طرح کی مشکلوں کو حل کرنے کے لئے قرآنی آیات اور حدیث کے
ذریعہ مصنوعی وظائف بیان کرتے ہیں اس لئے اس قسم کی کوئی کتاب مسلمان کو اپنے گھر
میں نہیں رکھنا چاہیے۔ آپ اپنے گھر میں قرآن رکھیں، قرآن کا سلفی ترجمہ رکھیں یا
قرآن کی سلفی تفسیر رکھیں اور ذکرودعا اور دین کی ایسی کتابیں رکھیں جو کتاب و سنت پر مبنی ہوں اور
مستند ہوں۔
سوال: میں اپنے ایک قریبی رشتہ دار کے
گھر عیادت کرنے کے لئے گئی جس کے شوہر نے میرے شوہر سے بتایا تھا کہ میرا بیٹا
کبھی کبھار بوقت ضرورت اوپر والی آمدنی یعنی رشوت بھی لے لیتا ہے اور اس کا جا ب
گھر بنانے والی کمپنی میں ہے۔اس وجہ سے میں کبھی اس کے گھر نہیں کھاتی اور آج اس
نے بہت ضد کیا تو میں نے کھانے سے منع کر دیا لیکن یہ بہانہ بنایا کہ جب تک آپ
میرے گھر نہیں آتے تب تک میں نہیں کھاؤں گی اور اصل میں مجھے اتنی ہمت نہیں ہے کہ
سچ بات بتا سکوں، اس بارے میں مجھے کچھ رہنمائی کریں؟
جواب: اس مسئلے میں پہلی بات یہ ہے کہ جس کے پاس حلال
کمائی ہو نیز کچھ حرام کمائی بھی اس کے پاس ہو تو اس کی دعوت کھا سکتے ہیں اور جس
کے پاس مکمل یعنی خالص حرام کی کمائی ہو اس کی دعوت نہیں کھا سکتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ کسی کے بارے میں ہمیں غلط کام کرنے
کا علم ہوتا ہے تو ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اس کو صحیح بات بتا سکیں لہذا خود
سے یا اپنے شوہر کے ذریعہ یا کسی تیسرے شخص کے ذریعہ اس تک حق بات پہنچا دیں اور
ویسے اس کو خود بھی معلوم ہوگا کہ اسلام میں رشوت حرام ہے لیکن بطور تذکیر و نصیحت
برائی پر تنبیہ کر دینا ہمارا ایمانی فریضہ ہے۔
سوال: لڑکی کی جب شادی ہوتی ہے تو اس کو
خاوند کے نام کا پاسپورٹ بنانا پڑتا ہے، اس میں کوئی گناہ تو نہیں ہے؟
جواب: جب لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو صرف پاسپورٹ ہی نہیں
سیکڑوں کاغذات بنانے کی زندگی میں ضرورت پڑتی ہے جو میاں بیوی سے متعلق ہوتے ہیں ،
اس میں کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ وہ کاغذات میاں بیوی کی حیثیت سے
ہوتے ہیں۔
اسلام نے ہمیں جس کام کا حکم دیا ہے وہ یہ ہے کہ اولاد
کی نسبت باپ کی طرف ہو اور پاسپورٹ میں شوہر کا ذکر شوہر کی حیثیت سے ہوتا ہے نہ
کہ باپ کی حیثیت سے۔
سوال: کیا کسی غیر مسلم کی دکان کا سامان
ہم خرید کر کھا سکتے ہیں اور کیا ہم غیر مسلم سے دودھ خرید کر استعمال کر سکتے
ہیں؟
جواب: غیر مسلم کی دکان سے حلال فوڈ خرید سکتے ہیں اور
بلاشبہ کھا سکتے ہیں اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے اور دودھ بھی خرید سکتے ہیں۔
غیر مسلم کی دکان سے صرف وہی چیز نہیں خرید سکتے جو
ہمارے لئے حلال نہیں ہے جیسے غیر مسلم کی دکان سے اس کا ذبح کیا ہوا گوشت نہیں لے
سکتے ہیں یا اس کے ہوٹل میں بنا ہوا گوشت نہیں کھا سکتے ہیں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔