﷽
آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(6)
جواب از : شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر ، حی السلامہ ، سعودی عرب
سوال: نمازی کے سامنے جو سترہ رکھا جاتا
ہے اس کی لمبائی کتنی ہونی چاہیے؟
جواب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کو سترہ کا
اہتمام کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ گوکہ سترے کا استعمال واجب نہیں ہے تاہم اس
کی بہت تاکید آئی ہے اس لئے کوئی اکیلے نماز پڑھ رہا ہو یا وہ امام ہو اسے اپنے
آگے سترہ رکھ لینا چاہیے۔
اور ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ دیوار، کرسی، ٹیبل،
کھمبا، لکڑی یا بیٹھے ہوئے آدمی کو سترہ بنا سکتے ہیں۔
ایک سوال ہے کہ اگر ہم کسی لکڑی کو سترہ کے لئے تراشنا
چاہیں اور اسے بطور سترہ استعمال کرنا چاہیں تو سترہ کی مقدار کیا ہونی چاہیے، اس
سلسلے میں صحیح مسلم کی روایت دیکھیں۔
عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَتْ:سُئِلَ رَسُولُ
اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ سُتْرَةِ الْمُصَلِّي؟ فَقَالَ:
مِثْلُ مُؤْخِرَةِ الرَّحْلِ.(صحيح مسلم:500)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے
کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازی کے سترے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ
نے فرمایا:پالان کی پچھلی لکڑی کے مثل ہو۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سترہ کی مقدار اونٹ کے
کجاوے کی لکڑی کے برابر ہونا چاہیے۔ یہاں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کجاوے کی لکڑی
کی مقدار کیا ہوتی ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ اہل علم نے اس کی مقدار ایک ہاتھ بیان
کی ہے۔ عطاء بن ابی رباح سے کجاوے کی مقدار کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے
کہا کہ ایک ذراع یا اس سے زیادہ ۔ اور ذراع ایک ہاتھ کو بولتے ہیں۔ گویا سترے کی
مقدار ایک ہاتھ کے برابر ہونا چاہیے۔
رہا یہ مسئلہ کہ سترہ موٹائی میں کیسا ہو تو اس سلسلے
میں کوئی حد متعین نہیں ہے۔ موٹی اور پتلی دونوں قسم کی چیز کو سترہ بنا سکتے ہیں
کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ تم میں سے ہر آدمی کو سترہ
بنانا چاہیے خواہ تیر ہی کیوں نہ ہو۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پتلی چیز بھی
سترہ بن سکتی ہے۔
یہاں ایک اور مسئلہ واضح ہو جائے کہ سترہ کتنی دوری پر
رکھنا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ جو سجدہ کی جگہ ہو اس سے معمولی سا ہٹا کر رکھنا ہے
تاکہ آسانی سے سجدہ کر سکیں۔
سوال: نبیوں کے قصوں پر بنائے گئے ڈرامے
دیکھنا کیسا ہے۔ اصل میں مجھے اس کا جواب اپنے سسر کو بھیجنا ہے تاکہ وہ یہ نہ
دیکھیں، وہ ارطغرل اور صلاح الدین ایوبی کے ڈرامے دیکھنے کے بعد اب ڈراموں کے فتنے
میں مبتلا ہوگئے ہیں؟
جواب: ڈرامے دیکھنا شریعت کی روشنی میں ناجائز اور حرام
ہے کیونکہ ڈراموں میں مختلف قسم کے ناجائز، فحش اور حرام پہلو ہوتے ہیں۔
بنیاوی طور پر یہ جان لیں کہ ذہن و دماغ میں کیف و سرور
پیدا کرنے کے لیے ڈرامے بنائے جاتے ہیں، ان ڈراموں کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں
ہوتا ہے بلکہ ایک حقیقت میں سو جھوٹ کی ملاوٹ کرکے ڈرامہ تیار کیا جاتا ہے۔ آپ
دیکھیں گے، ڈرامہ میں تاریخ کی بجائے جھوٹ در جھوٹ ہوتا ہے، اس میں موسیقی ہوتی
ہے، اس میں گاجے باجے ہوتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ جاندار کی تصویروں پر مبنی
ہوتا ہے۔ دین اسلام میں جھوٹ بولنا یا جھوٹی کہانی، جھوٹے قصے یا سیرت اور تاریخ
کے نام پہ جھوٹی باتوں کا سہارا لے کر ڈرامے تیار کرنا انتہائی خطرناک ہے۔ اسلام
میں ایک جھوٹ پر بڑی گرفت ہے جبکہ آپ کو ایک ڈرامے میں ہزاروں جھوٹ میں ملیں گے ،
نیز جاندار کی تصویر بنانا اور ایسے جاندار کی تصویر دیکھنا بھی اسلام میں حرام
ہے۔
جب انبیاء کے نام سے فلمیں بنتی ہیں تو ان فلموں میں
نبی کا سایہ و عکس بھی دکھایا جاتا ہے، یہ نبی کی بڑی توہین ہے۔ جب ایک کافر ہمارے
نبی کا کارٹون بنائے تو ہم مظاہرے کرتے ہیں اور جب نبی کے نام پر فلم بنائی جائے
تو ہم بڑے شوق سے دیکھتے ہیں کتنے گئے گزرے مسلمان ہیں۔
ارطغرل غازی کے ڈرامے کی بات کریں تو اس کے اندر خلافت
عثمانیہ کی سچی تاریخ آپ کو نہیں ملے گی، دو چند باتوں میں ہزاروں جھوٹ ملا کر ایک
سیریل ڈرامہ تیار کیا گیا ہے اور اس میں جھوٹ کے علاوہ موسیقی، آلات ساز، فحش
مناظر حتی کہ عورت سے عشق تک آپ کو اس میں نظر آئے گا۔
اس ڈرامے کو تیار کروانے والا طیب اردگان ہے ، وہ طیب
اردگان جو فلسطین میں یہودیوں کو خونی کھیل کھیلتے ہوئے دیکھتا رہا مگر ان کے خلاف
حملہ کرنے کی جرات نہیں ہوئی بلکہ پیٹھ پیچھے ان یہودیوں کو خوراک ، دوا، پٹرول
اور گیس فراہم کرتا رہا۔ یقین مانیں یہ ڈرامے آپ کو بھی طیب اردگان کی طرح بزدل،
بے ایمان اور بدقماش انسان بنادے گا ۔
آپ کو نبیوں کے قصے پڑھنا ہے تو قصص الانبیاء نامی کتاب
پڑھیں، آپ کو اسلامی تاریخ اور خلافت عثمانیہ پڑھنا ہے تو سچی تاریخی کتابیں پڑھیں
مگر خدارا کبھی بھی ڈراموں کے ذریعہ اپنی اسلامی تاریخ کو جاننے کی کوشش نہ کریں
کیونکہ اس میں تاریخ کم اور جھوٹ زیادہ ہوتا ہے۔
سوال: جب ہم سفر کرتے ہیں تو فرض نماز
چار کے بجائے دو پڑھتے ہیں اور مغرب کے تین ہیں وہ تین ہی ادا کریں گے۔کہیں جاکر
اور کچھ دن رہ کر اپنے گھر واپس آنا ہے تو کتنے دن رکیں کہ نماز ایسے ہی سفر والی
پڑھی جائے گی ایک دن، دو دن یا تین دن یا اس سے زیادہ دن، اور سفر کم از کم کتنے
کلو میٹر کا ہونا چاہیے ؟
جواب: انسان جب سفر میں ہوتا ہے تب نمازوں کو قصر سے
ادا کرتا ہے لیکن جب وہ لوٹ کر اپنے گھر آجاتا ہے تب وہ مسافر نہیں ہے، مقیم ہے
کیونکہ وہ اپنی رہائش پر واپس آچکا ہے اس لئے گھر آنے کے بعد پہلے دن سے ہی وہ
مکمل نماز ادا کرتا رہے گا۔
اور جب گھر سے کم از کم 80 کلومیٹر یا اس سے زیادہ کا سفر کرتے ہیں تو مسافر کے حکم میں ہوتے ہیں اور کہیں پر چار دن یا اس سے کم ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو مسافر کہلاتے ہیں لیکن اگر چار دن سےزیادہ ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو مقیم کہلاتے ہیں۔
سوال: اگر ہم کسی بچی کو اڈاپٹ کرتے ہیں،
لے پالک بچی ہے تو کیا اس کو اپنا نام دے سکتے ہیں، بچے کے بارے میں سننے میں آیا
ہے کہ اس کو نام نہیں دے سکتے لیکن کیا بچی اگر ہم گود لیتے ہیں تو اس کو اپنا نام
دیا جا سکتا ہے؟
جواب: آپ چاہے لڑکی کو لے پالک بنائیں یا لڑکے کو
لےپالک بنائیں، ان دونوں میں سے کسی کے لئے بھی والد اور والدہ کی حیثیت سے اپنا
نام ہرگز استعمال نہیں کر سکتے ہیں۔ ایسا کرنا اسلام کی نظر میں حرام ہے۔
بچے یا بچی کے جو اصل والد اور والدہ ہیں لے پالک کو
انہیں کی طرف منسوب کیا جائے گا۔
آپ لےپالک کو پال پوس رہے ہیں تو سرپرست کی حیثیت سے
اپنا نام لکھ سکتے ہیں اور بول سکتے ہیں مگر والد یا والدہ کی حیثیت سے نہ لکھ
سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں۔
سوال: جو لوگ فرقہ واریت میں پڑے ہوئے
ہیں، ان کو کیسے گائیڈ کیا جائے کہ وہ گروہ بندی میں پھر کبھی نہ پڑیں، بہت سے لوگ
ہیں جو فرقہ میں پڑے ہوئے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ پوری دنیا میں دین اسلام کا بول
بالا ہو سب قرآن اور سنت کو فالو کریں اور کبھی بھی گمراہی میں نہ پڑیں؟
جواب: ہماری دعوت وہی ہوگی جو انبیاء کی دعوت ہے اور
بطور خاص ہم جن کے امتی ہیں یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، انہوں نے امت کو
جس چیز کی دعوت و تبلیغ کی ہے ہمیں بھی ان باتوں کی تبلیغ لوگوں کو کرنا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تیرہ سال تک لوگوں
کو اللہ کی توحید کی طرف بلاتے رہے کیونکہ دین میں سب سے بنیادی اور اہم چیز یہی
توحید ہے۔
آج لوگوں میں فرقہ واریت، بے دینی، انتشار اور گروہ
بندی توحید کی دعوت اور اس پر عمل کرنے سے دوری کا نتیجہ ہے۔
ہم اپنی دعوت کا اصل مرکز توحید کو بنائیں اور کتاب و
سنت کی روشنی میں لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف اور اماموں کی تقلید سے نکال کر
امام کائنات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی دعوت دیتے ہیں تو اس سے لوگوں کی
اصلاح ہوگی اور لوگ اتحاد کی طرف آئیں گے۔
اللہ تعالی نے قرآن میں ارشاد فرمایا کہ تم سب لوگ مل
کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقہ بندی مت کرو۔
ایک دوسری جگہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ تم اللہ
اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اولو الامر کی اطاعت کرو اور اگر تم میں اختلاف
ہو جائے تو اپنے اختلاف کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف پلٹاؤ۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں
تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، جب تک تم ان دونوں چیزوں کو مضبوطی سے
تھامے رہوگے ہرگز ہرگز گمراہ نہیں ہوگے۔
یہ سارے دلائل ہم سے بیان کرتے ہیں کہ ہم اللہ اور اس
کے رسول کی اتباع کی طرف لوگوں کو دعوت دیں، اسی دعوت سے اتحاد بھی ممکن ہے اور
گروہ بندی بھی ختم ہوسکتی ہے۔
سوال: کالج میں میرے بہت سے کولیگ ہیں جو
شیعہ بھی ہیں اور عیسائی بھی ہیں، بریک ٹائم کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم ساتھ بیٹھ کے
کھانا کھا رہے ہوتے ہیں تو کیا ہم ایک دوسرے کے برتن سے کھانا کھا سکتے ہیں، اگر
ہم ان کے ساتھ نہ کھائیں تو وہ برا محسوس کرتے ہیں، اس کا جواب قرآن وحدیث کی
روشنی میں بتائیں ؟
جواب: اپنے کالج کے شیعہ اور عیسائی کولیگ کے ساتھ بیٹھ
کر کھانا کھانے یا ایک دوسرے کی پلیٹ سے کھانے میں شرعا حرج نہیں ہے۔ یہاں پر شرط
یہ ہے کہ کسی شیعہ یا عیسائی کی پلیٹ سے صرف وہی کھانا کھا سکتے ہیں جو اسلامی
اعتبار سے حلال ہے نیز ان لوگوں کی مذہبی رسومات کا اگر حلال کھانا بھی ہو تو اس
کا کھانا جائز نہیں ہے۔
ساتھ ہی یہاں پر یہ بھی واضح رہے کہ آپ کسی اچھے مسلمان
کو اپنا دوست بنائیں تاکہ مسلمان کے ساتھ ہی اٹھیں بیٹھیں اور اس کے ساتھ ہی
اسلامی آداب کے ساتھ کھائیں پییں اور دین کی باتیں کریں کیونکہ کافروں سے دوستی
کرنا جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر کافروں سے تعلقات دینی دعوت دینے اور اسلام کی طرف
مائل کرنے کی غرض سے ہو تو اچھی بات ہے۔
سوال: اگر کسی جگہ پر دیر سے اذان ہوتی
ہے اور نفلی روزہ میں سحری کھاتے ہوئے ٹائم ختم ہو جانے کے بعد پانی پئے تو اس کا
روزہ صحیح ہوگا جیسے 4:52 پر فجر کا ٹائم ہورہا ہے تب کوئی پانی پئے تو اس روزے کا
کیا حکم ہے، کیا نفلی روزہ میں ٹائم ہو جانے کے بعد کچھ بھی کھا پی نہیں سکتے ہیں؟
جواب: روزہ نفلی ہو یا فرضی ہو سحری کھانے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ فجر سے پہلے پہلے تک ہےاس لئے اگر کوئی آدمی عمدا فجر کی اذان کے بعد یا فجر کا وقت ختم ہونے کے بعد پانی پیتا ہے تو اس کاوہ روزہ نہیں مانا جائے گا۔
اور نفلی روزہ میں بھی سحر کا وقت ختم ہونے کے بعد کچھ
بھی نہیں کھا سکتے جیسے فرض روزہ میں فجر کے بعد نہیں کھا سکتے ہیں۔
سوال: ایک بہن کا سوال ہے کہ ان کو کئی
ماہ سے کھانسی پریشان کررہی ہے، علاج کروایا مگر کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ھوا۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہر تھوڑی دیر میں کھانسی ہوتی رہتی ہے جس کی وجہ سے پیشاب کے قطرے
نکلتے ہیں ۔ دوران وضو بار بار وضو کرنا پڑتا ہے، فجر کی نماز تک میں سنت اور فرض
کی ادائیگی بہت مشکل ہو جاتی ہے، بیچ نماز میں کھانسی آئے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے پھر
وضو کرتی ہیں، ایسی صورت میں ان کے لئے شریعت سے کیا حکم ہے؟
جواب: اگر کسی کو مسلسل کھانسی کی شکایت ہے اور اس کی
وجہ سے پیشاب کے قطرے آجاتے ہیں یہاں تک کہ نماز میں بھی کھانسی اور پیشاب کے قطرے
پر اختیار نہیں رہتا ہے تو ایسی عورت کا حکم استحاضہ والی عورت اور پیشاب کے قطرے
آنے والے مریض کا ہے یعنی وہ نماز کے وقت وضو کرے اور ایک وضو سے ایک وقت کی نماز
ادا کیا کرے اور نماز کے دوران کھانسی کی وجہ سے جو قطرے آجائیں تو اس کی وجہ سے
اس کی نماز پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ یہ مجبوری ہے اور یہ مجبوری معاف ہے۔
سوال: سترہ میں ایک ہاتھ کتنے انچ کا
ہوتا ہے؟
جواب: ہم میں سے ہر کسی کے پاس ہاتھ ہے اور ہر کوئی جان
سکتا ہے کہ ایک ہاتھ میں کتنا فٹ اور کتنا انچ ہو سکتا ہے۔ ہاتھ کی مسافت کہنی سے
لے کر انگلی کے آخری سرے تک ہے، یہ متوسط ہاتھ میں تقریبا ڈیڑھ فٹ بنتا ہے اس لئے
ہاتھ سے ناپ کر یا فٹ سے پیمائش کرکے سترہ بنا سکتے ہیں۔
سوال: اگر کسی نمازی کے آگے سترہ رکھا
ہوا ہو تو کیا اس کے آگے سے گزرا جا سکتا ہے؟
جواب: نمازی کے آگے سترہ اس لئے رکھا جاتا ہے تاکہ اس
کے آگے سے گزرا جا سکے لہذا جس نمازی کے آگے سترہ ہو تو سترہ کے بعد سے گزر سکتے
ہیں، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن نمازی اور سترہ کے درمیان سے نہیں گزر سکتے
ہیں۔
سوال: میری والدہ محترمہ فوت ہو چکی ہیں۔
میرے والد ضعیف اور مریض ہیں۔ بستر پر لیٹے رہنے سے اُنہیں ( بیٹھنے کی جگہ پر )
زخم ہوگئے ہیں، میرا بھائی پورا دن آفس میں ہوتا ہے۔ کیا میں اُن کے زخم صاف کر کے
دوائی لگا سکتی ہوں؟
جواب: اس مسئلہ میں اصل یہ ہے کہ بیمار مرد کی زخم زدہ
پچھلے حصے کی صفائی ستھرائی اور دوا لگانے کا کام مرد ہی کرے گا اور گھر میں کوئی
مرد نہ ہو یا مرد ہو مگر اس کو موقع نہ ملتا ہو تو باہری کسی دوسرے مرد کے ذریعہ
خدمت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
کوشش کے باوجود اگر کسی مرد کی خدمت حاصل نہ ہو سکے تو ایسی مجبوری میں بیمار والد کے زخم کی صفائی اور دوا لگانے کا کام بیٹی انجام دے سکتی ہے کیونکہ یہ عذر کا معاملہ ہے اور مجبوری میں اس طرح کاعمل انجام دینے میں حرج نہیں ہے تاہم صفائی اور دوا لگانے کے لئے ہاتھ پر دستانے کااستعمال کیا جائے۔
سوال: ایک بہن کا سوال ہے کہ ان کے بیٹے
کی عمر چھ سال ہے اور ان کو جماعت سے نماز پڑھانے کا بہت شوق ہے،کیا وہ نماز کی
امامت کروا سکتا ہے اور کیا اس کے پیچھے ہماری نماز ہو جائے گی؟
جواب: اگر بچہ نماز پڑھا سکتا ہے، اسے نماز کے اذکار
معلوم ہیں حتی کہ وہ صحیح ڈھنگ سے سنت کے مطابق نماز پڑھا سکتا ہے تو چھ سال کا
بیٹا کبھی کبھار گھر میں امامت کر سکتا ہے اور اس کے پیچھے اس کی والدہ نماز پڑھ
سکتی ہے اور اس کی نماز بھی درست ہوگی، ویسے وہ لڑکا ہے اس لئے عموما اسے مسجد میں
جاکر مردوں کے ساتھ نماز پڑھنا چاہیے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر وہ صحیح ڈھنگ سے سنت کے مطابق
نماز نہیں پڑھ سکتا ہے تو پھر اس کو امام بناکر اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھنا ہے
کیونکہ ایسی صورت میں بچے کی اپنی بھی نماز نہیں ہوگی اور والدہ کی بھی نماز نہیں
ہوگی ، ساتھ ہی اس بچے کو عالم دین کے ذریعہ نماز کی صحیح تعلیم دی جائے۔
سوال: کیا ٹک ٹاک پہ اسلامی ویڈیوز
دیکھنا جائز ہے، اگر کسی کو ٹک ٹاک دیکھنے سے منع کریں تو کہتی ہیں کہ ہم اسلامی
ویڈیوز دیکھنے کے لئے دیکھتے ہیں تو کیا یہ صحیح ہے؟
جواب: ویڈیوز خواہ ٹک ٹاک پر ہوں یا یوٹیوب پر ہوں یا
فیس بک اور انسٹاگرام وغیرہ پر ہوں، اگر ویڈیوز دینی اعتبار سے صحیح ہیں تو ان کا
دیکھنا صحیح ہے لیکن اگر وہ ویڈیوز فحاشیت، عریانیت، گانا بجانے، رقص و موسیقی،
فضول حرکات اور طنز و مزاح پر مبنی ہوں تو ان کا دیکھنا جائز نہیں ہے۔
آپ جس آدمی کی بات کر رہی ہیں اس کو ویڈیوز کے بارے میں
یہ شرعی حکم بیان کر دیں تاکہ آپ کے ذریعہ صحیح مسئلہ اس تک پہنچ جائے اور اگر وہ
آپ کی بات سن کر صحیح چیز دیکھتی اور سنتی ہے تو ٹھیک ہے لیکن پھر بھی غلط چیز
دیکھتی ہے تو اس کا وبال خود اس کے اوپر ہوگا۔
سوال: وقف بل کے بارے میں ہندوستانی
مسلمانوں کو کوئی پیغام دیں؟
جواب: وقف بل یہ ایک سیاسی اور قانونی معاملہ ہے اس
سلسلے میں عالم کے بجائے ملک کے ماہر مسلم وکلاء اور سینئر سیاسی رہنماء کے حساب
سے عمل کرنے کی ضرورت ہے اور الحمدللہ وکیلوں اور مسلم لیڈروں کے ذریعہ اس معاملہ
میں رہنمائی کی جا رہی ہے۔ بروقت اس بل کے خلاف پارلیامنٹ کو درخواست بھیجنے کی
اپیل کی گئی ہے لہذا مسلمانوں کو بڑھ چڑھ کر وقف بل کو مسترد کرنے کے لئے اس بل کے
خلاف ووٹ کرنا چاہیے۔
ساتھ ساتھ ہمیں مسلم پرسنل لاء بورڈ کا اس معاملے میں
پوری طرح ساتھ دینا چاہیے تاکہ وہ وقف بورڈ کی سلامتی و تحفظ میں کامیابی حاصل کر
سکے۔
سوال: میرے گھر جب کبھی کوئی بچہ بیمار
ہو جائے تو سارے ایک دوسرے کو کہنے لگتے ہیں کہ یہ تمہارے گناہ ہیں جو تمہارے بچے
پہ آگئے ہیں اس لئے تمہارا بچہ بیمار ہے اور تمہارے اوپر مشکل اور پریشانی آتی ہے۔
تم گناہ کرتی ہو، تم نماز ٹائم پر نہیں پڑھتی ہو، اس طرح کرتی ہو، اس طرح کرتی ہو
اس لئے بچے بیمار ہوتے ہیں، کیا یہ کہنا درست ہے ؟
جواب: لوگوں کی یہ بات غلط ہے کہ والدین کے گناہ بچوں پر آجاتے ہیں پھر بچے بیمار ہوتے ہیں، یہ بات سو فیصد جھوٹ اور غلط ہے ، اور آپ لوگوں کی اس قسم کی بیہودہ باتوں پر دھیان نہ دیں۔
بیماری و پریشانی اور سکھ و دکھ اللہ رب العالمین کی
طرف سے ہے لہذا بیماری اور پریشانی میں اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور جو جائز
اسباب ہیں انہیں اپناکر اپنی تکلیف دور کرنا چاہیے۔ اللہ رب العالمین نے قرآن میں
ابراہیم علیہ السلام کے تعلق سے ذکر کیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام بیان کرتے ہیں:
جب میں بیمار ہوتا ہوں تو میرا رب مجھے شفا دیتا ہے یعنی بیماری بھی اللہ دیتا ہے
اور شفایابی بھی اللہ ہی دینے والا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر ہمارے اندر عبادت کی انجام دہی
میں کوتاہی ہے تو اس کی اصلاح کرنی چاہیے کیونکہ ہم اللہ کی عبادت کے لئے پیدا کئے
گئے ہیں، اس میں غفلت اور سستی نہ کریں کیونکہ عبادت میں غفلت سے اللہ رب العالمین
کی پکڑ دنیا میں بھی ہوتی ہے اور آخرت میں بھی مواخذہ ہوگا۔
سوال: کیا قرآن کو نماز پڑھتے وقت بھی
تجوید کے ساتھ پڑھنا چاہیے؟
جواب: نماز کے دوران بھی قرآن کی تلاوت ترتیل و تجوید
کے ساتھ ہونی چاہیے یعنی جب بھی قرآن پڑھیں، قرآن کو تجوید کے ساتھ پڑھیں خواہ
نماز میں تلاوت کریں یا نماز سے باہر تلاوت کریں۔
سوال: گھر کے حمام میں وضو کرکے مسجد جانا بہتر ہے یا مسجد کے وضو خانے میں وضو کرنا افضل ہے جبکہ گھر کے حمام سے مسجد کا فاصلہ بھی ہے اور ہر قدم پہ نیکی بھی اور دوسری طرف کہا جاتا ہے کہوضو خانے میں وضو کرنا بہتر ہے ؟
جواب: گھر میں جو حمام ہے اس حمام میں غسل کیا جاتا ہے،
غسل کرنا بھی عبادت ہے اور وضو کرنا بھی عبادت ہے۔ جب اس حمام میں غسل کر سکتے ہیں
تو وضو کرکے مسجد جانے میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے، اس لئے اس میں افضل صورت یہی
ہے کہ گھر سے وضو بنا کر مسجد جایا جائے اور حمام میں وضو کرنے میں کوئی مسئلہ
نہیں جیسے اس میں غسل کرتے ہیں یعنی اس میں وضو کرنا جائز ہے، اس میں کسی طرح کا
کوئی مسئلہ نہیں ہے اس لئے گھر سے وضو کرکے مسجد جاتے ہیں تو یہ زیادہ ثواب کا
باعث ہے اور اگر مسجد میں جاکے وضو بناتے ہیں تو بھی کوئی حرج کی بات نہیں تاہم
گھر سے وضو بناکر مسجد جانے میں افضلیت ہے۔
سوال: میری ایک جاننے والی بہن ہے جو جدہ
میں ہوتی ہے اور اس کے زیادہ تر دوست و احباب مکہ میں ہوتے ہیں۔ جب کبھی مکہ والے
دعوت وغیرہ کے لئے بلاتے ہیں تو کیا اس کو مکہ آنے کے لئے پہلے عمرہ کرنا پڑے گا۔
اسی طرح دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی جدہ سے حرم شریف طواف کرنے اور نماز پڑھنے
جائے تب بھی عمرہ کرنا پڑے گا؟
جواب: جو خاتون جدہ میں رہتی ہو اور کسی کی دعوت پہ مکہ
جاتی ہو تو اسے لازما عمرہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، عمرہ اس کے لئے ہے جو عمرہ
کی نیت کرے اور جو عمرہ کی نیت نہ کرے یعنی وہ عمرہ نہ کرنا چاہے تو اس کے لئے
بغیر عمرہ کی نیت کئے مکہ جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ دن و رات مکہ جانے آنے والے
ہزاروں لوگ ہیں، بڑی گاڑی ڈرائیور ہیں، ٹیکسی ڈرائیور ہیں، سامان خریدنے والے تاجر
حضرات ہیں اور آمدورفت کرنے والے ضرورت مند حضرات ہیں جو دن و رات مکہ آتے جاتے
ہیں، ان میں سے ہر کوئی عمرہ نہیں کرتا ہے کیونکہ عمرہ اسی کے لئے ہے جو عمرہ کرنے
کا ارادہ کرے اور عمرہ کا ارادہ نہیں کرتے ہیں، صرف ضرورت کے تحت مکہ جاتے ہیں تو
اپنی ضرورت پوری کرکے بغیر عمرہ کئے مکہ سے واپس آسکتے ہیں۔
اور اسی طرح حرم شریف جا کر نماز پڑھ لیتے ہیں، طواف کر
لیتے ہیں تو بھی کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ گویا کوئی اس نیت سے بھی مکہ جائے کہ وہاں
بیت اللہ میں نماز پڑھ لیں گے اور طواف کر لیں گے تو اس میں بھی کوئی حرج کی بات
نہیں ہے اور دعوت کھانے مکہ جاتے ہیں تب بھی عمرہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ تین مساجد کی زیارت کرنا چاہیے، ان میں سے ایک
مسجد، مسجد حرام ہے یعنی یہ وہ مسجد ہے جس کی زیارت ہم کر سکتے ہیں عمرہ کرنا
ضروری نہیں ہے۔ زیارت کرنا بھی ثواب کا باعث ہے یعنی وہاں جاکر عبادت کرکے واپس
آجائیں ۔
سوال: میں سعودی میں ہوں اور میرے کچھ
جاننے والے عمرہ کی غرض سے جدہ آرہے ہیں، میں نے ان کے لیے مکہ میں ہوٹل بک کیا ہے،
میرا ارادہ ہے کہ وہ جدہ آجائیں اور مکہ ہوٹل میں شفٹ ہو جائیں، کچھ آرام کرلیں
پھر اس کے بعد ہم ان لوگوں کو طائف لے کر میقات سے احرام بدھوائیں گے اور پھر یہ
لوگ عمرہ کریں گے کیا یہ صورت جائز ہے؟
جواب: یہ صورت جائز نہیں ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے پوری دنیا سے آنے والوں کے لئے پانچ میقات متعین فرمائی ہے۔ جو لوگ
حج یا عمرہ کرنے کے ارادے سے مکہ آتے ہیں ان کو لازما ان پانچ میقات میں سے کسی سے
گزرنا ہے اور اپنی میقات پر احرام باندھ کر مکہ آنا ہے اس لئے آپ اپنے لوگوں سے
کہیں کہ فلائٹ پر بیٹھنے سے پہلے احرام کا لباس لگالیں اور جب ان کی فلائٹ طائف کی
میقات کے قریب آئے تو وہ عمرہ کے لئے نیت کر لیں، اسی نیت کو احرام باندھنا کہتے
ہیں اور راستہ بھر تلبیہ پکارتے ہوئے آئیں ۔ جب وہ جدہ پہنچ جائیں پھر ان کو مکہ
ہوٹل میں شفٹ کروالیں، وہاں کچھ ریسٹ کرانا چاہتے ہیں تو اس میں کوئی حرج کی بات
نہیں ہے لیکن وہ احرام میں باقی رہیں گے اور احرام کی ممنوعات بچتے رہیں گے۔ اور
جب عمرہ کرانے کا ارادہ ہو حرم شریف لےجا کر ان سب کو عمرہ کرا دیں۔
سوال : ایک آدمی کام کاج کے لئے آج ہی
جدہ پہنچا ہے اور وہ عمرہ کرنا چاہتا ہے تو اسے کہاں سے احرام باندھنا پڑے گا؟
جواب: اگر صورتحال ایسی ہی ہے جیسا کہ بیان کی گئی ہے
تو وہ آدمی اپنی رہائشی سے یعنی جدہ میں جہاں پر ٹھہرا ہوا ہے ، وہیں پر غسل کرکے
احرام کا لباس لگائے اور عمرہ کی نیت کرے اور حرم شریف جا کر اپنا عمرہ کرے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔