﷽
آپ کے سوالات اور ان کے جوابات (5)
جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر ، السلامہ ، سعودی عرب
سوال: اگر کوئی آدمی کسی جگہ
پر آٹھ دن قیام کرتا ہے تو وہ مقیم کے حکم میں ہے جیساکہ آپ نے بتایا لیکن وہ جراب
پر کتنے دن تک مسح کرے گا؟
جواب: ایسا شخص پہلے دن سے ہی مقیم ہے اور اس کے لئے ان
تمام معاملات میں وہی حکم ہے جو مقیم کے لئے ہے یعنی وہ مکمل نماز پڑھے گا اور وہ
مقیم کی طرح ایک دن اور ایک رات جراب پر مسح کرے گا۔
سوال: قرآن پاک کے جو غلاف ہوتے ہیں
انہیں دھونے کے بعد جو پانی ہوتا ہے اسے کہا پھینکنا چاہیے؟
جواب:اس مسئلہ میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ قرآن پر
غلاف یعنی جزدان کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ قرآن کثرت سے پڑھی جانے والی کتاب ہے۔
اگر اس پر جزدان لگاکر رکھتے ہیں تو اسے کھولنے اور پڑھنے میں مشقت ہے۔ ہندو پاک
میں لوگ قرآن کو جزدان میں لپیٹ کر بہت اونچا رکھ دیتے تھے تاکہ اس میں گرد و غبار
نہ لگ جائے کیونکہ بہت کم اس کو نیچے اتارا جاتا اور کم ہی اس کی تلاوت کی جاتی۔
حقیقت یہ ہے کہ مصحف پر جزدان کی ضرورت نہیں ہے، آپ اس
کو ہٹالیں بہتر ہے اور مصحف دوگتوں کے درمیان بہترین طباعت کے ساتھ پہلے سے موجود
ہوتا ہے، اس پر یوں بھی جزدان کی ضرورت نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جزدان کو دھلنے کے بعد اس کا پانی
کہیں بھی بہا سکتے ہیں۔ عام طور پر آپ کے حمام کا پانی جہاں بہ رہا ہے یا کپڑے
دھلنے کا پانی جدھر جا رہا ہے ان ساری جگہ پر بہا سکتے ہیں۔ اس پانی کی کوئی
افضلیت نہیں یا وہ کوئی مقدس پانی نہیں جسے کسی مخصوص جگہ پر بہانا پڑے۔
سوال: کیا یہ بات صحیح ہے "جب بہن
بھائی بات کرتے ہیں تو فرشتے وقت کو روک دیتے ہیں کیونکہ اگلی زندگی میں بہن بھائی
ایک دوسرے سے نہیں ملیں گے اور نہ ہی ایک دوسرے کو جانتے ہوں گے"۔
جواب: آپ اپنے ذہن میں یہ رکھیں کہ آج کل لوگ اپنی پوسٹ
کو سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کے لیے کچھ بھی جذباتی جملہ لکھ کر پوسٹ کرتے رہتے
ہیں تاکہ لوگوں کو بڑی عجیب و غریب معلوم ہو اور زیادہ سے زیادہ شیئر کریں۔
یہ بات بھی کسی کی اپنی بناوٹی اور جذباتی ہے، اس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور آپ کے لیے نصیحت ہے کہ اس طرح بغیر حوالے کی پوسٹ یا بے دلیل جذباتی باتوں کو اہمیت دیں بلکہ اس کو اسکرول کردیا کریں۔ ایسی چیزوں کی تحقیق کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
جہاں پر دلیل سے بات کی گئی ہو یا کسی بڑے شخص کی طرف
کوئی بات منسوب ہو اور اس میں کہیں تردد معلوم ہو یا اشکال و وضاحت درکار ہو تو اس
قسم کی چیز کی تحقیق کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔
سوال:کیا بہن، بھائی کو صدقہ دے سکتی ہے
اور کیا بھائی کا صدقہ بہن کو لگ جاتا ہے؟
جواب: اگر بھائی غریب اور مسکین ہو یعنی صدقہ اور زکوۃ
کا مستحق ہو تو مالدار بہن غریب و مسکین بھائی کو زکوۃ دے سکتی ہے۔ اسی طرح کوئی
بہن غریب اور مسکین ہو یعنی زکوۃ کی مستحق ہو تو مالدار بھائی غریب و مسکین بہن کو
زکوۃ دے سکتا ہے۔
سوال: اگر کسی کو پیشاب کے قطروں کی
بیماری ہو تو وہ کس طرح وضو کرے گا اور کیسے نماز پڑھے گا؟
جواب: اگر کسی کو پیشاب کے قطروں کی بیماری ہے تو ہر
نماز سے پہلے اسے وضو کرنا ہے۔ اور وضو کرنے سے پہلے شرمگاہ اور نجاست لگی ہوئی
جگہ کی صفائی کرنی ہے پھر اس کے بعد وضو کرنا ہے۔ وضو کے بعد چاہے تو چڈی یا پیڈ
وغیرہ کا استعمال کر لے تاکہ پیشاب نیچے نہ گرے اور وضو کرنے کے بعد جو قطرہ نکلے
تو اس سے وضو پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اور وہ اسی وضو سے ایک وقت کی نماز ادا کر
سکتا ہے پھر دوسری نماز کے وقت نئے سرے سے وضو کرنا ہے یعنی پہلے نجاست کی صفائی
کرے پھر اس کے بعد وضو کرے اور نماز ادا کرے۔
سوال: کسی کے پاس کعبہ کا غلاف ہو تو اس
کا کیا کیا جائے، کسی نے ہدیہ دیا ہے، سوال یہ ہے کہ ہم اس سے کیا کیا کر سکتے ہیں
، ظاہر سی بات ہے کہ ہم اس کو پھیک تو نہیں سکتے تو کیا اس کا فریم بنا کر گھر کی
دیوار پر لگا سکتے ہیں؟
جواب:آج کل مسلمانوں میں ایمان و عمل پر توجہ کم اور
تبرکات و وظائف اور شارٹ کٹ طریقے سے دین پر عمل کرنے کا رواج بڑھ گیا ہے۔
گھر کی حفاظت کے لئے لوح قرآنی لگا لئے، جنات و شیطان
سے خود کی حفاظت کے لئے تعویذ پہن لئے اور مختلف کام بنانے کے لئے ایک سے ایک
بناوٹی وظیفے گھڑ لئے، لوگ اسی کو دین سمجھ رہے ہیں اور اسی میں اکثر لوگ مگن ہیں۔
یہاں پر آپ نے جو سوال مجھ سے پوچھا ہے کہ غلاف کعبہ سے
کیا کیا کام لینا چاہیے؟
یہ سوال تو آپ سے ہونا چاہیے کہ آپ نے غلاف کعبہ کو کیا
کیا کرنے کے لئے لیا ہے؟ سامان آپ لیں اور کام ہم سے پوچھیں یہ تو صحیح نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ لوگ تبرک کے طور پر غلاف کعبہ کا ٹکڑا
حاصل کرتے ہیں اور اس مقصد سے گھر میں رکھتے ہیں کہ اس کی وجہ سے گھر میں برکت
نازل ہوگی اور گھر والوں کی حفاظت ہوگی۔
اس جگہ آپ سب
کے لئے نصیحت ہے کہ آئندہ کبھی بھی غلاف کعبہ کے ٹکڑے کو حاصل کرنے کی کوشش نہ
کریں اور نہ ہی اسے تبرک کے طور پہ اپنے گھر میں سجائیں بلکہ اگر آپ کے پاس موجود
ہو تو اس کو گھر سے نکال کر جلا دیں، یہ ٹکڑا آپ کو یا آپ کے گھر کو کچھ بھی فائدہ
نہیں پہنچائے گا ، یہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ غلاف کعبہ کے نام پر دنیا بھر میں
کپڑے تقسیم کئے جاتے ہیں اور اکثر دوسرے کپڑے کاٹ کر تقسیم کئے جاتے ہیں اور یہ
کام عموما بدعتیوں اور قبر پرستوں میں زیادہ عام ہے لیکن مجھے افسوس ہے کہ کچھ
توحید والے گھرانوں میں بھی یہ چیز عام ہو رہی ہے لہذا اس کی اصلاح کی ضرورت ہے۔
سوال:تجوید کے لحاظ سے ہم کسرهٰ کو باریک
کر کے پڑھتے ہیں جیسے بی لام زیر بل تو جب ہم درود ابراہیمی پڑھتے ہیں اس میں
اللہم صلی ٹھیک ہے یا صلے۔ کتنے قاریوں کو سنا وہ صلے علی ہی پڑھ رہے۔اس میں صحیح
کیا ہے ؟
جواب: قرآن کو تجوید و قرات کے ساتھ پڑھنے کا حکم ہوا
ہے، یہ حکم حدیث، دعا اور اذکار کے لئے نہیں ہے یعنی کوئی آدمی درود کو قرات و
تجوید کے ساتھ نہیں پڑھے گا۔ کیا آپ نے کسی آدمی کو قرآن کی قرات کی طرح درود
پڑھتے ہوئے یا دعا اور اذکار کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ نہیں دیکھا ہوگا۔ اس کی وجہ یہ
ہے کہ تجوید کا تعلق صرف قرآن کی تلاوت سے ہے لہذا درود پڑھتے ہوئے معروف یا مجہول
پڑھتے ہیں اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
سوال: جب ہم نہاتے وقت وضو کرتے ہیں تو
کیا وضو کے بعد کی دعا باتھ روم میں پڑھنی چاہیے؟
جواب: حمام میں اللہ کا ذکر نہیں کرنا ہے لہذا حمام میں
وضو کرنے سے پہلے بھی بسم اللہ نہیں پڑھیں گے اور وضو کرنے کے بعد کی دعا بھی نہیں
پڑھیں گے۔
حمام میں وضو کرتے ہوئے آپ یہ صورت اپنائیں کہ وضو کرتے
وقت شروع میں دل میں ہی بسم اللہ کہہ لیں، زبان سے اس کا اظہار نہ کریں اور جب وضو
کرکے حمام سے باہر نکلیں تو وضو کے بعد کی دعا پڑھیں۔
سوال: کیا فرض اور نفل روزوں کے علاوہ
کوئی ایسے ہی روزے رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے؟
جواب:فرض روزوں کے علاوہ جتنے بھی روزے ہیں، وہ سب نفلی
ہیں اور بعض نفلی روزے تو متعین ہیں جیسے ایام بیض اور سوموار و جمعرات وغیرہ۔
تاہم ان کے علاوہ بھی آپ پورے سال جس قدر روزہ رکھنا چاہیں، رکھ سکتے ہیں اس کی
کوئی ممانعت نہیں ہے۔ بس اتنی ممانعت ہے کہ آدمی مسلسل یعنی ہر روز روزہ نہ رکھے
بلکہ ناغہ کرکے روزہ رکھا کرے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال: کیا اس دعا کو فرض نماز کے سجدے
میں یا پھر تشہد میں پڑھ سکتے ہیں؟
(اللهم اني اعوذ بك من جهد البلاء ودرك
الشقاء وسوء القضاء وشماتة الأعداء)
جواب: اس دعا کو فرض نماز کے سجدے میں یا آخری تشہد میں
سلام پھیرنے سے پہلے، پڑھ سکتے ہیں کوئی حرج نہیں ہے، یہ ایک بہترین دعا ہے۔ یہ
دعا صحیح بخاری اور صحیح مسلم وغیرہ میں موجود ہے ۔
سوال: امت محمدیہ سے پہلے جو امتیں گزری ہیں مثلا موسی علیہ السلام، عیسی علیہ السلام، داؤد علیہ السلام، ان پر جو کتابیں نازل ہوئیں تو کیا ان کی امت ان کی کتابوں کی تلاوت کیا کرتی تھیں اور ان کی عبادت کا طریقہ کیا ہوا کرتا تھا؟
جواب:اہل علم نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ جن سوالوں سے
ہم کو کوئی فائدہ نہیں ہے یعنی جو بلا مقصد سوال ہے ایسے سوالوں کا جواب تلاش کرنے
میں لگے رہنا غلط ہے، علماء نے اس کام سے منع فرمایا ہے۔
اللہ رب العالمین اور اس کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ
وسلم نے جو چیز ہمارے لیے ضروری سمجھا اسے ہم سے بیان فرما دیا اس لئے ہم ان چیزوں
کو جانیں گے جو ہمارے مطلب کی ہے اور جن پر ہمیں عمل کرنا ہے۔
پچھلی قوموں پر بھی کتاب نازل کی گئی اور ہر نبی کے
ماننے والے اپنی شریعت کی کتاب تلاوت کرتے ہوں گے اور تلاوت کا مطلب ہوتا ہے پڑھنا
اور ہمیں معلوم ہے کہ عمل کرنے کے لئے کتاب پڑھنے کی ضرورت ہے اور تمام انبیاء کے
یہاں عبادت موجود ہے کیونکہ انبیاء اللہ کی عبادت کی طرف بلانے کے لئے آئے لہذا وہ
خود بھی اللہ کی بندگی کرکے اپنی امت کو دکھاتے۔ جہاں تک عبادت کی تفصیل کا معاملہ
ہے تو اس کا علم اللہ رب العالمین کو ہے۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے انبیاء کی نماز
کے بارے میں سوال ہوا تو شیخ نے جواب دیا کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے، ہم نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم جو نماز لے کر آئے اس کے پابند ہیں لہذا ہمیں اس طرح سے نماز
پڑھنا چاہیے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ہے۔
سوال: ایک عورت کے والد بینک کا منافع
لیتے ہیں اور اسی سے مہینے کا خرچ چلتا ہے اور ان کے بچے یہ سب غلط سمجھتے ہیں مگر
انہیں کیا کرنا چاہیے، کیا وہ اپنے والد سے نان و نفقہ کا مطالبہ کر سکتے ہیں؟
جواب: اس میں ایک صورت یہ ہے کہ اگر گھر خرچ میں حرام
مال کے ساتھ کچھ حلال مال بھی ہو تو یہ معاملہ اس معاملے سے کچھ ہلکا ہے جس کمائی
میں مکمل حرام آمدنی ہو۔
بہرکیف! گھر کا سربراہ یا والد بینک کے منافع کے ذریعہ
گھر چلاتا ہے تو والد کی کمائی حرام ہے لیکن جو اس کے ماتحت لوگ ہیں وہ معذور ہیں
کیونکہ گناہگار وہ ہے جو حرام کما رہا ہے۔
اب گھر کے جو چھوٹے بچے ہیں ان کا تو کوئی مسئلہ ہی
نہیں ہے یعنی وہ معذور ہیں لیکن جو بڑے ہیں یعنی بڑا بیٹا یا بڑی بیٹی یا بیوی جو
سمجھدار ہیں انہیں چاہیے کہ مرد کو حرام کمائی سے روکنے کے لئے کوشش کریں۔ اور اگر
وہ نہ رکے تو اس کے خلاف جو تادیبی کاروائی ہو سکتی ہے یعنی اولاد کا ناراض ہونا
یا بیوی کا ناراض ہونا اس طرح کا رد عمل کرکے مرد کو احساس دلایا جائے حتی کہ اگر
حرام کمائی سے باز نہ آئے تو بیوی ایسے مرد سے جدائی بھی حاصل کر سکتی ہے تاہم حتی
الامکان اسے سمجھانے اور حرام کمائی سے بچانے کی کوشش ہو اور یاد رہے کہ حرام
کمائی کا گناہ ماتحتوں پر نہیں ہوگا بلکہ کمانے والے پر ہوگا۔
سوال: میرا سوال ہے کہ کیا ٹائی پہننا
جائز ہے کیونکہ سکول میں بچوں کے یونیفارم کے ساتھ لازما پہننے پر استاد مجبور
کرتے ہیں، ایسے میں کیا یہ جاںٔز ہے اور بچوں کو مارنے کے حوالے سے بھی رہنمائی
فرمائیں کہ کیا استادوں کو بچوں پہ ہاتھ اٹھانے کے حوالے سے اسلام میں کیا حکم ہے؟
جواب:ٹائی پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ یہ کسی
غیرقوم کا مذہبی شعار نہیں ہے بلکہ یہ پڑھے لکھے لوگوں میں اس کا استعمال پایا
جاتا ہے اور لباس میں آزادی ہے الا یہ کہ وہ کسی قوم کی مذہبی شناخت ہو۔ تاریخی
اعتبار سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ٹائی کو ایجاد کرنے والے مسلمان لوگ ہیں۔
اور استاد بچوں کے لئے باپ کی طرف ایک روحانی مربی ہے
اس لئے جیسے باپ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر مار سکتا ہے اسی طرح ایک استاد بھی
بچے کو ہلکی مار، مار سکتا ہے تاکہ وہ پڑھنے لکھنے میں نظم و نسق اور تعلیم و
تربیت کا خیال کرتا رہے مگر مارنے میں زیادتی کرنا یا سخت مار کے ذریعہ بچے کو خوفزدہ
کرنا درست نہیں ہے۔
سوال: نکاح کے بعد ولیمہ کی ذمہ داری
لڑکے والوں پرہے، اگر لڑکی والے نکاح بعد کوئی تقریب نہ رکھ کر اس رقم کو ولیمہ کے
خرچ میں شامل کردیں، اس طرح سے کہ دعوت لڑکے والے کریں اور شادی ہال کا خرچ لڑکی
والے کریں یعنی ولیمہ کی دعوت لڑکی اور لڑکے والے دونوں مل کر کرسکتے ہیں؟
جواب: ولیمہ کا تعلق لڑکی یا لڑکی کے گھر والوں سے
بالکل بھی نہیں ہے، اس لئے ولیمہ کی تقریب میں لڑکی والوں کا پیسہ لگانا جائز نہیں
ہے۔ اگر کہیں پر اس طرح سے کسی نے عمل کیا ہے تو یہ لڑکے والوں کا دباؤ ہو سکتا ہے
جیسے بارات کی دعوت جبری اور رواجی ہوتی ہے۔
اگر لڑکا کو ولیمہ کی دعوت کھلانے کی طاقت نہیں ہے تو ولیمہ نہ کھلائے، یہ کوئی واجبی دعوت نہیں ہے بلکہ سنت ہے اور اگر کم حیثیت والا ولیمہ کرنا چاہتا ہے تب بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے سفر میں صفیہ رضی اللہ تعالی عنہ سے نکاح کیا اور آپ نے ولیمہ اس طرح کیا کہ آپ کے پاس کھانے پینے کی جو چیز تھی اسے لے آئے اور صحابہ سے بھی کہا کہ جس کے پاس جو چیز ہے لے کر آؤ ، اس طرح آپ کا ولیمہ ہو گیا۔ گویا اپنی حیثیت کے مطابق آدمی کو ولیمہ کرنا چاہیے لیکن ولیمہ کے لئے لڑکی والوں سے پیسہ لینا جائز نہیں ہے۔
اگر اس جگہ لڑکی والے یہ کہیں کہ ہم خوشی سے ولیمہ کی
دعوت میں لڑکے والوں کو پیسہ دینا چاہتے ہیں تو یہ بات جھوٹ ہے۔ کیا یہی لڑکی والے
اتنے پیسے کسی غریب اور مسکین کو خوشی سے دے سکتے ہیں۔ اگر دے سکتے ہیں تو میں
انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ ولیمہ میں یہ پیسہ دینے سے کوئی ثواب تو نہیں ملے گا لیکن
غریب کو دینے سے ضرور ثواب ملے گا اس لئے جو پیسہ ولیمہ میں دینا چاہتے ہیں وہ کسی
غریب کو دے دیں، غریب ضرورت مند ہوتا ہے اس کی ضرورت پوری ہو جائے گی اور دینے
والے کو ثواب بھی مل جائے گا۔
سوال: ہم تین ،چار بہنیں ہیں جو الحمدللہ
جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں سے فارغ ہیں اور ہم تعلیم و اجتماع کا کام کرتے ہیں
تو کچھ عورتیں پوچھتی ہیں کہ آپ کون سے مسلک سے ہیں، کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم
اھل حدیث ہیں؟
جواب: اللہ تعالی آپ کے دعوتی کام میں برکت دے۔آپ کو بلا جھجھک اپنا منہج لوگوں پر واضح کرنا چاہیے اور بتانا چاہیے کہ ہم اہل حدیث ہیں اور نہ صرف لوگوں کو بتانا چاہیے بلکہ آپ کی دعوت بھی سلفی منہج والی ہونی چاہیے اور اپنی دعوت میں اس بات پر زور دیں کہ لوگ دین کو فہم سلف کے مطابق سمجھیں اور منہج سلف پر چلیں جو صراط مستقیم کا دوسرا نام ہے تاکہ دنیا و آخرت کی کامیابی ملے اور ایسے ہی لوگوں کو سلفی اور اہل الحدیث کہا جاتا ہے۔
آپ ذرہ برابر بھی اس بات کی پرواہ نہ کریں کہ خواتین آپ
کا ساتھ چھوڑ دیں گی یا آپ کی مجلس میں کم آئیں گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے توحید کی دعوت دینے میں لوگوں کی مخالفت کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں کی۔
سوال: جو لوگ میت کو غسل دیں گے ان کا
باوضو ہونا ضروری ہے، اس کی کیا دلیل ہے قرآن اور سنت میں ؟
جواب: میں اس سے قبل آپ کے ایک سوال کا دلائل کے ساتھ
جواب دے چکا ہوں کہ حائضہ عورت بھی میت کو غسل دے سکتی ہے۔ جب ایک حائضہ عورت میت
کو غسل دے سکتی ہے پھر میت کو غسل دینے کے لیے باوضو ہونا ضروری کیسے قرار پائے
گا؟
دوسری بات یہ ہے کہ اگر کوئی اس طرح کی بات کہے کہ میت
کو غسل دینے کے لئے باوضو ہونا ضروری ہے تو دلیل اس کے ذمہ ہے جو دعوی کرے اس لئے
یہ قاعدہ اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ دلیل کس سے مانگنی ہے اور کس سے نہیں مانگنی
ہے۔دلیل مانگنے کا قاعدہ یہ ہے کہ جو دعوی کرے، دلیل اس کے ذمہ ہے اور جو انکار
کرے اس پر دلیل نہیں ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ میت کو غسل دینے کے لئے وضو کی کوئی
ضرورت نہیں ہے۔
سوال: پنج وقتہ نمازوں یا نماز جمعہ کے
بعد کسی کی درخواست پر کسی خاص فرد کی شفایابی کے لئے اعلان کرنا اور اجتماعی دعا
کرنا کیسا ہے؟
جواب: جو سوال کیا گیا ہے کہ پنج وقتہ نمازوں یا نماز
جمعہ کے بعد کسی کے درخواست کرنے پر کسی خاص فرد کی شفایابی کے لئے اجتماعی دعا
کرنا کیسا ہے تو اس سلسلے میں جواب یہ ہے کہ سنت سے جس بات کا ثبوت ملتا ہے وہ یہ
ہے کہ کسی کو ہم دعا کے لئے کہہ سکتے ہیں اس کی دلیل ملتی ہے اور اسی طرح کوئی
مریض ہمیں پتہ چلے تو ہم اس کی عیادت کرسکتے ہیں اور اس کو دعا دے سکتے ہیں یعنی
مریض کی عبادت کرنا اور اس کو دعائیں دینا ثابت ہے اور یہ سب انفرادی معاملہ ہے
لیکن اجتماعی شکل میں کہ کوئی آدمی امام صاحب کو کہے اور امام صاحب مسجد میں دعا
کے لئے اعلان کرے اور اجتماعی دعا کرے تو یہ دونوں قرآن وحدیث سے ثابت نہیں ہیں
اور یہ دونوں غیر شرعی عمل ہیں یعنی اس کو شرعی عمل نہیں کہا جا سکتا ہے۔ جب فرض
نماز کے بعد اجتماعی دعا مسجد میں نہیں کر سکتے ہیں تو پھر کسی مریض کے لئے بھی
نہیں کر سکتے ہیں، اجتماعی دعا کے لئے باقاعدہ اس کا ثبوت ہونا ضروری ہے تاہم
انفرادی طور پر کوئی امام کو آکر کہے یا مسجد میں لوگوں کو کہہ دے اور لوگ اپنے
طور پر دعائیں کر رہے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں، یہ انفرادی معاملہ ہے یا امام
ہی کو پتہ تھا اور امام نے کچھ لوگوں کو بتا دیا فلاں بیمار ہے اس کو دعا میں یاد
رکھیں اور لوگوں نے دعائیں دی تو اس میں بھی کوئی حرج کی بات نہیں ہے لیکن باقاعدہ
مسجد سے اعلان ہونا یہ صحیح نہیں ہے اور اسی طرح اجتماعی شکل میں مسجد میں مریض کے
لئے دعا کرنا یہ بھی جائز نہیں ہے حتی کہ مریض کے گھر جاکر لوگ اجتماعی دعا کرتے
ہیں تو یہ بھی جائز نہیں۔ اس لئے مسجد میں ہو یا مسجد سے باہر ہو یا مریض کے پاس
ہو انفرادی طور پر دعا کریں گے اور اصل تو یہ ہے جو قرآن و سنت سے پتہ چلتا ہے کہ
اگر ہمیں کسی مریض کے بارے میں معلوم ہو تو ہمیں اس کی عیادت کرنی چاہیے جیسے کہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ پوچھا کہ آج تم میں سے کس نے بیمار کی عبادت
کی ہے تو ابوبکررضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے۔ معلوا ہوا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ
نے آپ ﷺ سے بیمار کے لئے اعلان کرنے یا اجتماعی دعا کرنے نہیں کہا بلکہ وہ خود
مریض کی عیادت کرنے گئے تھے جو مسلمان کے چھ حقوق میں سے ایک حق ہے ۔ گویا مسجد میں
بیمار کے لئے اعلان کرنے کا معاملہ اس حدیث کے خلاف معلوم ہوتا ہے۔
بہر کیف! مسجد میں اجتماعی طور پر دعا نہیں کی جا سکتی البتہ کوئی آدمی ذکر کرے کہ فلاں آدمی بیمار ہے اور لوگ الگ الگ طور پہ دعا کر دیتے ہیں یا امام صاحب بھی دعا کرتے ہیں اور اپنے طور پر مقتدی بھی دعا کرتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یا امام کو پہلے سے ہی معلوم تھا انہوں نے بعض لوگوں کو دعاکرنے کی خبر دیدی تو اس میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ دعا کے لئے کہنا اور کسی کو دعا دینا یہ ثابت ہے لیکن یہ انفرادی معاملہ ہے، اجتماعی شکل میں دعا دینا جائز نہیں ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔