﷽
آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(4)
جواب از : شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ - سعودی عرب
سوال: کیا بیوہ عورت عیدگاہ جاسکتی ہے تاکہ نمازعید اور دعا میں
شامل ہوسکے؟
جواب: بیوہ عورت عدت میں ہوتی ہے اور عدت
گھر میں گزارنا ہے اس وجہ سے بیوہ ،عیدکی نماز کے لئے گھر سے نہیں نکلے گی، وہ
اپنے گھر میں ہی رہے گی ، وہیں پر نمازعید کی طرح نماز پڑھ لے کافی ہے ۔ بیوہ کو
محلے کی مسجد میں بھی نماز پڑھنے سے اور درس سننے سے اہل علم منع کرتے ہیں گویا
بیوہ کو بلاضرورت اپنے گھر سے نہیں نکلنا ہے۔
سوال:میں یہ پوچھنا چاہتی
ہوں کہ کیا قرآن کا ترجمہ و تفسیر کسی حافظہ سے سیکھ سکتی ہوں جو عالمہ نہ ہوں،
فقط حافظہ ہو؟
جواب: قرآن کی تفسیر کرنا، غیر عالم کا کام
نہیں ہے ، قرآن ایک عظیم کتاب ہے بلکہ دین اسلام کی یہ اساس ہے اور اللہ تعالی نے
اس کتاب کو مجمل انداز میں نازل کیا ہے اور اس کتاب کی شرح و بیان کے لئے خصوصیت
کے ساتھ ایک پیغمبر کو بھیجا ، اس پیغمبر نے یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن
کی تفسیر و تشریح صحابہ کرام سے بیان فرمائی جس کو حدیث کہا جاتا ہے۔
اب یہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ جہاں قرآن کا
حدیث سے تعلق بنتا ہے یعنی ایک شخص کو قرآن کا معنی مفہوم جاننے کے لیے احادیث
پربھی درک ہونا چاہیے، اسی طرح قرآن سے درجن بھر علوم جڑے ہوئے ہیں اس لئے قرآن کی
تفسیر بیان کرنے کے لئے ان علوم کا جاننا ضروری ہے تاکہ قرآن کا صحیح معنی ومفہوم
بیان کیا جا سکے۔
جو قرآنی علوم کا جانکار نہیں ہے یا کم از
کم وہ عالم بھی نہیں ہے ایسے آدمی کو قطعا حق نہیں ہے کہ وہ قرآن کی تفسیر بیان
کرے۔ قرآن کی تفسیرکوئی اردو کتاب نہیں ہے کہ ہجہ کر کے ہم بچوں کو پڑھا دیں گے،
ہرگز نہیں، یہ ایک عظیم کتاب ہے اور اس سے متعدد علوم جڑے ہوئے ہیں لہذا قرآن کی
تفسیر کے لیے ان علوم کا جانکار ہونا ضروری ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ
مدارس سے ہزاروں طلبہ پڑھ کر فارغ ہوتے ہیں لیکن سب میں قرآن کی تفسیر بیان کرنے
کی ہمت نہیں ہوتی ہے کیونکہ وہ اس کے اہل نہیں ہوتے۔
خلاصہ یہ ہوا کہ ایک ایسی عورت جو عالمہ
نہیں ہے اور قرآن کے جو علوم ہیں مثلا عربی زبان و قواعد، اصول تفسیر، اصول
فقہ،علم قرات، اسباب نزول، علم محکم و متشابہ، علم ناسخ و منسوخ اور علم اعجاز
قرآنی وغیرہ۔ ان علوم کو نہیں جانتی ہے وہ قرآن کی تفسیر بیان نہیں کر سکتی ہے،
محض اردو تفسیر سے اردو پڑھ لینا تفسیر بیان کرنے کے لیے کافی نہیں ہے اور عام طور
سے آج کل بہت ساری عورتیں اسی طرح سے تفسیر بیان کر رہی ہیں جو کہ حددرجہ غلط ہے۔
آپ ایسی کسی خاتون سے تفسیر کی تعلیم حاصل نہ کریں بلکہ جو تفسیر کے ماہر ہیں
انہیں سے تفسیر کا علم حاصل کریں ۔ الحمدللہ بہت سارے علماء قرآن کی تفسیر بیان
کرتے ہیں، آپ ان سے استفادہ کریں جیسے شیخ جلال الدین
قاسمی حفظہ اللہ۔
سوال: اگر حمل کے دوران خون
آنا شروع ہو جائے تو وضو کرکے نماز پڑھنا کافی ہوگا یا پھر غسل کرنا ہوگا نماز
پڑھنے سے پہلے؟
جواب: عام طور سے حمل کے دوران خون نہیں
آتا ہے لیکن کسی سبب، بسا اوقات حاملہ عورت سے بھی خون جاری ہو جاتا ہے اور چونکہ
یہ خون ،نہ حیض ہے اور نہ نفاس ہے اس لئے غسل کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ نماز سے
پہلے اس خاتون کو چاہیے کہ کپڑے اور خون آلود جگہ کی پہلے صفائی کرلے پھر وضو کر
کے نماز ادا کرے۔
سوال: آپ نے ایک سوال کے
جواب میں کہا ہے کہ ماں بیٹی بغیرمحرم کے عمرہ کرنے نہیں جاسکتی ہے، اس پر ایک
خاتون کا اعتراض یہ ہے کہ ایک حدیث میں کہا گیا ہے کہ تین دن کا سفر ہو تو عورت کو
محرم کی ضرورت ہے جبکہ آج کل ہم ایک یا دو دن میں مکہ پہنچ جاتے ہیں پھربھی عورت
کو محرم کی ضرورت ہے؟
جواب: عورت کےلئے بغیر محرم سفر کرنے کے
تعلق سے مختلف احادیث آتی ہیں۔ کسی حدیث میں ہے کہ عورت ایک رات کا سفر بھی بغیر
محرم کے نہ کرے ، کسی حدیث میں ہے کہ عورت دو دن کا سفر محرم کے بغیر نہ کرے، کسی
حدیث میں ہے کہ عورت تین دن کا سفر بغیر محرم کے نہ کرے، یہ ساری احادیث صحیح ہیں۔
اور ان احادیث کے علاوہ بعض ایسی بھی
روایات ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ عورت بغیر محرم کے سفر نہ کرے یعنی دن یا رات کی
کوئی قید نہیں ہے جیساکہ صحیح بخاری کی یہ حدیث دیکھیں۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لَا تُسَافِرِ
الْمَرْأَةُ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ، وَلَا يَدْخُلُ عَلَيْهَا رَجُلٌ إِلَّا
وَمَعَهَا مَحْرَمٌ"(صحیح البخاری:1862)
ترجمہ:کوئی عورت اپنے محرم رشتہ دار کے
بغیر سفر نہ کرے اور کوئی شخص کسی عورت کے پاس اس وقت تک نہ جائے جب تک وہاں ذی
محرم موجود نہ ہو۔
ان احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ جس کو سفر
بولا جاتا ہے، وہ سفر کوئی بھی عورت بغیر محرم کے نہیں طے کرے گی۔ بعض اہل علم نے
سفر کی مسافت 80 کلومیٹر بیان کی ہے یعنی کوئی بھی عورت 80 کلومیٹر یا اس سے زیادہ
کا سفر کرے تو لازما اس کے ساتھ محرم ہونا چاہیے۔ اب اگر کوئی اسی کلومیٹر یا اس
سے زیادہ کلومیٹر ایک گھنٹے میں طے کرلے، یا ایک دن میں طے کرے، یادو دن میں طے
کرے، اس سے کوئی غرض نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ عورت اسی کلومیٹر یا اس سے
زیادہ کا سفر کرے تو سفر میں لازمی طور پر محرم چاہیے ۔
سوال: کیا ہم کسی اور کے نام
کا نفلی طواف کر سکتے ہیں اور کیا ہم کسی دوسرے کے نام کا عمرہ کر سکتے ہیں خواہ
وہ زندہ ہو یا میت؟
جواب: کوئی آدمی، کسی دوسرے شخص کی طرف سے
طواف نہیں کر سکتا ہے خواہ وہ زندہ ہو یا میت ہو، ایک آدمی صرف اپنی ذات کی طرف سے
ہی طواف کرسکتا ہے کیونکہ احادیث میں کسی دوسرے کی طرف سے طواف کرنے کا کوئی ثبوت
نہیں ملتا ہے۔
جہاں تک دوسرے کی طرف سے عمرہ کرنے کا
مسئلہ ہے تو اس کے احکام مندرجہ ذیل ہیں۔
٭ اگر کوئی آدمی زندہ اور صحت مند ہو تو اس
کی طرف سے عمرہ نہیں کر سکتے ہیں، صحت مند آدمی اپنا عمرہ خود سے انجام دے گا۔
٭ ہاں اگر زندہ آدمی صحت مند نہ ہو بلکہ
جسمانی طور پر معذور ہو اور اس کے اوپر عمرہ فرض ہو گیا ہو تو ایسے آدمی کی طرف سے
دوسرا آدمی عمرہ کرسکتا ہے، اس شرط کے ساتھ کہ عمرہ بدل کرنے والا پہلے اپنا عمرہ
کر چکا ہو۔
٭ جہاں تک فوت شدہ آدمی کی طرف سے عمرہ
کرنے کا مسئلہ ہے تو جو قریبی رشتہ دار ہیں مثلا والد یا والدہ جو وفات پا گئے ہوں
تو اولاد اپنے وفات یافتہ والد یا وفات یافتہ والدہ کی طرف سے عمرہ کر سکتی ہے۔
سوال: گھر میں عورت اپنے
محرم کے ساتھ ہو تو کیا وہ خوشبو لگاسکتی ہے؟
جواب: عورت اپنے گھر میں خوشبو لگا سکتی ہے
اس میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ وہاں پر کوئی غیر محرم نہ ہو یعنی گھر میں شوہر،
بچے اور دوسرے محرم ہوں تو ان کی موجودگی میں ایک عورت خوشبو لگا سکتی ہے اس میں
کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال: کسی نے کہا ہے کہ یہ
کھانے کی دعا ہے ، (اللھم اطعمت، وسقیت، واغنیت، واقنیت، وھدیت، واحییت، فلک الحمد
علی مااعطیت) کیا یہ دعا میں پڑھ سکتی ہوں؟
جواب: یہ دعا حدیث سے ثابت ہے، جو مسند
احمد میں موجود ہے اور شیخ البانی نے صحیح الجامع اور سلسلہ صحیحہ میں درج فرمایا
ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کھانا شروع
کرتے تو بسم اللہ کہتے اور جب کھانے سے فارغ ہوتے تو یہ دعا فرماتے ہیں:
اللهم أطعمت وأسقيت وأقنيت وهديت وأحييت،
فلله الحمد على ما أعطيت۔
ترجمہ:اے اللہ! تو نے کھلایا، تو نے پلایا،
تو نے راضی و مطمئن کیا، تو نے ہدایت دی اور تو نے زندہ کیا، سو تیرے لیے ہی تعریف
ہے (ان نعمتوں پر) جو تو نے عطا کیں۔
(حوالہ: سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی:
71)
سوال:کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ
لڑکی کا رشتہ اس وجہ سے نہ ہورہا ہو کہ جنات یا شیطان اس کی شکل لڑکے والوں کو
بگاڑ کر دکھا دیتا ہو؟
جواب: آپ نے پوچھا ہے کہ کیا ایسا ہو سکتا
ہے کہ جنات و شیاطین لڑکی کا چہرہ لڑکے والوں پر بگاڑ کر پیش کرتے ہوں ۔
اس کا دو ٹوک جواب یہ ہے کہ ایسا نہیں ہو
سکتا ہے کیونکہ لڑکی کو لڑکے پر، لڑکی کے گھر والے پیش کرتے ہیں، اس جگہ لڑکی کے
گھر والے اور لڑکا سمیت بہت سارے لوگ موجود ہوتے ہیں، کیا کبھی آپ نے کسی لڑکی کا
چہرہ بگڑتے ہوئے دیکھا ہے؟ جب آپ نے ایسا نہیں دیکھا ہے تو پھر یہ سوال کہاں سے آپ
کے من میں پیدا ہوا؟
مجھے لگتا ہے سماج میں جھوٹے قسم کے عامل ہوتے ہیں وہ لوگوں کو جنات وشیاطین کے نام پر طرح طرح سے ڈراتے رہتے ہیں اور اپنی طرف متوجہ کراتے ہیں تاکہ مال کمائے، ممکن ہو یہ بات اس کی طرف سے پھیلائی گئی ہو۔
آج ہم کس درجہ گئے گزرے مسلمان ہوگئے کہ
اللہ سے توکل اٹھا کر اپنے اکثر معاملات کو جنات و شیطان سے جوڑدیتے ہیں۔ اس طرح
کی سوچ و فکر سے ہمیں توبہ کرنا چاہیے اور اللہ پر توکل کرنا چاہیے۔
ہم جانتے ہیں کہ لڑکیوں کی شادی آج کل بے
حد مشکل ہو گئی ہے اور مشکل کی وجہ سے گھر والے طرح طرح کی منفی باتیں سوچتے رہتے
ہیں یہاں تک کہ کوئی جھوٹی بات بھی بتادے تو اس پر بھی یقین کر لیتے ہیں۔
ہمیں اپنا ایمان مضبوط رکھنا چاہیے، اللہ
پر توکل مضبوط کرنا چاہیے اور اللہ ہی سے ڈرنا چاہیے۔ جنات و شیطان کے مکروفریب
ایمان اور نیک عمل کے سامنے ہیچ ہیں، آپ اللہ کی مدد حاصل کریں، اللہ کی پناہ طلب
کریں کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
سوال:اگر ہم اسکول میں
پڑھاتے ہوں اور ان میں کچھ بچے غریب فیملی سے ہوں تو کیا اسکول میں لی گئی فیس ان
غریب بچوں کو دے سکتے ہیں جبکہ معلوم رہے کہ اسکول سرکاری ہے ، وہاں پر بچوں سے
کبھی کبھار ٹیچر فائن وغیرہ لے لیتے ہیں تاکہ بچے چھٹی نہ کریں ۔ اگر وہ فائن کبھی
اپنی ذات پر خرچ ہوجائے تو اس میں گناہ تو نہیں ہے؟
جواب: آپ کے سوال کے جواب سے متعلق کئی
پہلو ہیں ان سب چیزوں کو مد نظر رکھیں۔
٭ اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ اگر سرکاری اسکول ہے اور سرکار نے تعلیم کے لئے یا چھٹی کرنے والوں کے لئے کوئی فیس نہیں لگائی ہے تو کسی ٹیچر کے لیے جائز نہیں ہے کہ اس طرح کی کوئی فیس بچوں سے لے جو سرکار نے نہیں لگائی ہے۔
٭ دوسری بات یہ ہے کہ شریعت کی روشنی میں
کسی سے مالی جرمانہ لینا جائز نہیں ہے یعنی مدرسوں اور اسکولوں میں چھٹی کرنے والے
بچوں سے جو مالی جرمانہ لیا جاتا ہے یہ شرعا جائز نہیں ہے۔
٭ اور تیسری بات یہ ہے کہ جہاں پر حکومت نے
جس کام کے لئے فیس لگائی ہے ٹیچر صرف وہی فیس لے سکتا ہے اور وہ فیس چونکہ سرکار
کی امانت ہے اس لیے اسے سرکاری خزانہ میں جمع کرنا ضروری ہے، اپنی ذات یا بچوں پر
خرچ نہیں کرنا ہے۔
خلاصہ یہ ہوا کہ اسکولی طلبہ سے مالی
جرمانہ لے کر یا اپنی طرف سے بچوں سے فیس لے کر غریب بچوں کو دینا جائز نہیں ہے۔
کوئی ٹیچر غریب بچے کی مدد کرنا چاہے تو اپنی جیب اور اپنے پیسے سے مدد کرے۔اور
کوئی ٹیچر اس قسم کا پیسہ اپنی ذات پر خرچ کرے تو وہ گنہگار ہے۔
سوال: اگر کسی بچی کی وفات
ڈاکٹروں کے غلط انجکشن یا غلط طریقہ علاج سے ہو اور گھر والے تحقیقات کے لئے پوسٹ
مارٹم کروانا چاہیں تو کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے اور پھر ثبوت سچ ثابت ہو تو کیا یہ
قتل کے زمرے میں آئے گا؟
جواب: اگر ڈاکٹری علاج میں ڈاکٹر سے
لاپرواہی ہوئی ہو تو تحقیقات کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے یعنی جو جدید طریقہ تحقیق
ہے ہم اس کا سہارا لے سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
جہاں تک بچے کے قتل کا معاملہ ہے تو ظاہر سی بات ہے یہ قتل عمد تو نہیں ہوگا یعنی ڈاکٹر نے عمدابچے کو قتل نہیں کیا ہوگا اس نے اپنی کم علمی یا ناتجربہ کاری کی بنیاد پر غلط دوا دی ہوگی جس سے نقصان ہو سکتا ہے۔ اگر ڈاکٹر کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے بچہ وفات پاجائے تو اسے قتل شبہ عمد یعنی قتل خطا کہتے ہیں ۔
اور ہم چونکہ جمہوری ملک میں رہتے ہیں وہاں
پر کسی سے غلطی ہوجائے تو عدالت اور محکمہ کا سہارا لیا جاتا ہے ایسی صورت میں
ڈاکٹر کے خلاف قانونی کاروائی کی جا سکتی ہے۔
سوال: میرے پاس ایک بیٹی ہے
اور دوسرا بچہ چاہ رہی ہوں لیکن دوسرا بچہ ٹھہرتا ہے اور دوبار ضائع ہوگیا ہے ،
ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ کوئی پرابلم نہیں ہے ایسے میں کوئی وظیفہ کرسکتی ہوں تاکہ بچہ
ٹھہرے اور اس کی حفاظت ہو، اگر وظیفہ کرسکتی ہوں تو براہ کرم بتائیں کہ کون سا
وظیفہ کرنا چاہئے؟
جواب: کسی پریشانی کے وقت انسان کو دو طرح
کا کام کرنا چاہیے۔
پہلا کام یہ ہے کہ اللہ رب العالمین سے مدد
طلب کرے اور مدد طلب کرنے کے مختلف طریقے ہیں، نماز کے ذریعہ مدد طلب کرے اور اپنی
زبان میں اور افضل اوقات میں دعا کر کے اللہ تعالی سے مدد طلب کرے۔
دوسراطریقہ یہ ہے کہ پریشانی کو دور کرنے
کے لیے دنیاوی جائز اسباب اپنائے اور چونکہ بچہ نہ ٹھہرنے کا معاملہ طبی مسئلہ ہے
لہذا اس پریشانی کو حل کرنے کے لیے ہم میڈیکل سائنس کا یعنی اطباء کا سہارا لیں
گے۔
جس ڈاکٹر نے کہا ہے کہ کوئی پرابلم نہیں ہے، ہو سکتا ہے اس ڈاکٹر کے پاس اتنا ہی علم ہو، آپ اس سے ماہر ڈاکٹر سے دکھائیں ، ہر کسی کا علم و تجربہ ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے دوسرے ڈاکٹر سے دکھانے پر فائدہ ہو جائے۔
لہذا آپ اپنی زبان میں اللہ رب العالمین سے
دعا بھی کرتے رہیں، ساتھ ساتھ اچھے سے اچھے ڈاکٹر سے دکھاتے بھی رہیں۔
کبھی کبھی اللہ تعالی کی طرف سے آزمائش بھی
ہوتی ہے، ایسے میں ہمیں صبر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے گویا ہم صبر کے ساتھ دعا کرنا
نہیں چھوڑیں گے اور جو دنیاوی اسباب ہیں انہیں بھی اپنانا نہیں چھوڑیں گے۔
باقی اس کام کے لیے کوئی مخصوص وظیفہ نہیں
ہے کہ آپ کوئی خاص وظیفہ پڑھتے رہیں گے تو آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا بلکہ ایمان
یہ بنائیں کہ پریشانی اللہ کی طرف سے ہے اور وہی دور کرنے والا بھی ہے نیز اوپر جو
دو باتیں بیان کی گئی ہیں ان کو عمل میں لائیں۔
سوال: ایک آنٹی میرے ساتھ
رہتی ہیں تو کسی دوسرے کی برائی کرتی ہیں اور کسی دوسرے کے پاس ہوتی ہیں تو میری
برائی کرتی ہیں، مطلب خود اچھا بنتی ہیں اور ایک دوسرے کے درمیان برائی کرکے نفرت
پیدا کرتی ہیں ، کیا یہ منافقت نہیں ہے؟
جواب: جو آنٹی آپ کے پاس دوسرے کی برائی
کرتی ہے اور آپ خاموشی سے اس برائی کو سنتے ہیں تو آپ بھی اس کے گناہ میں شریک ہو
رہے ہیں کیونکہ آپ اپنے کانوں سے کسی کی برائی سن رہے ہیں۔
ایسی صورت میں آپ کا فرض یہ بنتا ہے کہ برائی کرنے والی خاتون کی زبان پر لگام لگائیں اور اگر اس کی زبان پر لگام نہیں لگا سکتے تو کم از کم اپنے پاس کسی دوسرے کی برائی کرنے کی اسے اجازت نہ دیں اور اسے کسی کے پاس بھی دوسروں کی برائی کرنے سے باز رہنے کی نصیحت کریں۔
منافقت تو بہت بڑا گناہ ہے، اس سے پہلے
والا مرحلہ یہ ہے کہ اپنی زبان سے کسی کے بارے میں پیٹھ پیچھے ایسی بات کہنا جو اس
کو بری لگے غیبت میں داخل ہے اور یہ شرعا جائز نہیں ہے۔ اور جیسے ہمارے لئے کسی کی
غیبت کرنا جائز نہیں ہے اسی طرح ہمارے لئے یہ بھی جائز نہیں ہے کہ ہم کسی دوسرے کی
غیبت اپنے کانوں سے سنیں۔
کوئی عورت غیبت کیوں کرتی ہے؟ کیونکہ دوسری
عورت غیبت آرام سے سنتی ہے بلکہ بہت سی عورتوں کو غیبت سننے میں مزہ آتا ہے۔
جب ہم کسی کی غیبت نہیں سنیں گے تو کوئی
دوسری عورت ہمارے پاس آکر غیبت بھی نہیں کرے گی لہذا غیبت کرنے سے بھی بچیں اور
غیبت سننے سے بھی بچیں۔
اور جس عورت کو غیبت کرتے ہوئے دیکھیں اس کو
بھلی باتوں کی نصیحت کر دیں ، اگر اس کی قسمت میں ہدایت ہوگی تو سدھر جائے گی۔
سوال:مولانا اشرف علی تھانوی
کے قرآن کا ترجمہ پڑھنا کیسا ہے اور کیا ان کی دوسری کتب بھی پڑھی جاسکتی ہیں اور
کیا یہ ضروری ہے کہ ہم کسی نہ کسی امام کی تقلید ضرور کریں؟
جواب: مولانا اشرف علی تھانوی ایک دیوبندی عالم تھے اور ہر دیوبندی مقلد ہوتا ہے خواہ وہ عالم ہی کیوں نہ ہو یعنی مقلد کو عالم بننے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے، وہ امام کے اقوال کی پیروی کرتا ہے۔
اشرف علی تھانوی صاحب کے عقیدے میں خرابیاں
ہیں، آپ تصوف کے قائل اور فاعل تھے بلکہ انہوں نے تصوف پر کتاب بھی لکھی ہے اور آپ
کو معلوم ہونا چاہیے کہ تصوف نری جہالت اور بے دینی ہے۔
اشرف علی تھانوی صاحب کی محض ایک کتاب
بہشتی زیور اٹھالیں اور دیکھیں کہ اس کتاب میں کتنی نجاست، گندگی اور شریعت مخالف
باتیں لکھی ہوئی ہیں۔
آپ کے لئے نصیحت یہ ہے کہ اشرف علی تھانوی
صاحب کی تفسیر بیان القرآن اور ان کی دیگر کتب کا مطالعہ نہ کریں۔ زندگی کا ایک
ایک لمحہ قیمتی ہے، اسے صحیح علم کے حصول میں لگائیں۔ الحمدللہ سلفی منہج کی اس
قدر تفاسیر ہیں کہ آپ کی عمر تمام ہوجائے گی اور ان سب تفاسیر کا مطالعہ نہیں کر
سکیں گے پھر ہم غیر سلفی تفاسیر کی طرف کیوں رجوع کرکے اپنا وقت کیوں ضائع کریں جن
میں افکار و نظریات کے ساتھ غلط عقائد بھی پائے جاتے ہوں۔
آپ نے یہ بھی سوال کیا ہے کہ کیا کسی امام
کی تقلید کرنا ضروری ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ امام کی تقلید کا دین اسلام میں سوال
ہی پیدا نہیں ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم
پر نازل کیا، یہی قرآن ہمارا دین ہے جو آسمان سے نازل کیا گیا اور اسی قرآن کی
تبلیغ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔ یہی قرآن ہمارے لئے دستور حیات ہے
لہذا ہم کسی امام کی تقلید نہیں کریں گے بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اور
اتباع کریں گے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں بے شمار مقامات پر اطیعوا اللہ و اطیعوا
الرسول کا حکم دیا ہے یعنی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور کسی کی ذات کو
ہمارے لئے نمونہ ٹھہرایا ہے تو وہ صرف اور صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات
گرامی ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی بھی عالم ہمارے لیے اسوہ اور
نمونہ نہیں ہیں۔
سوال:کسی کے گھر میں وفات
ہوجاتی ہے تو اس کے گھر والوں پر تین دن تک سوگ ہوتا ہے، سوال یہ ہے کہ تین دن تک
کیا کیا عمل کرنا چاہئے، گھر میں بچے، بزرگ سبھی ہوتے ہیں ، ایسے میں کیا کیا جائے
تفصیل سے بتادیں کہ گھر والوں کو تین دن تک کیا کرنا چاہئے اور کیا عورت کھانا
بناسکتی ہے اور کام کاج وغیرہ؟
جواب: کسی کے گھر میں میت ہو جائے تو گھر
کی عورت کے لئے اپنے قریبی رشتہ دار یعنی باپ ، بھائی ، بیٹا وغیرہ کی وفات پر تین
دن تک سوگ کرنا جائز ہے ، یہاں یہ واضح رہے کہ سوگ کبھی بھی مردوں کے لیے نہیں ہے
یہ صرف عورتوں کے حق میں ہے۔
اب عورت سوگ میں ہے تو اس کو تین دنوں تک
شریعت نے کوئی خاص کام کرنے کے لئے حکم نہیں دیا ہے بلکہ جیسی زندگی وہ گزار رہی
تھی ویسے ہی وہ زندگی گزارے گی البتہ سوگ میں رونا دھونا نہیں ہے، چیخنا چلانا
نہیں ہے اور زینت کی چیز جیسے میک اپ ہے یا خوشبو وغیرہ کا استعمال نہیں کرے گی۔
باقی جس طرح سے وہ کھانا بناتی تھی، گھر میں کام کرتی تھی، چلتی پھرتی تھی وہ ساری
چیزیں اسی طریقہ سے کریں گی یعنی اسے تین دنوں تک کوئی خاص کام کرنے کی ضرورت نہیں
ہے کیونکہ شریعت نے اس کا کوئی حکم نہیں دیا ہے ۔
اور گھر کے دوسرے افراد یعنی مرد کے لئے
کوئی سوگ ہی نہیں ہے لہذا انہیں تین دن تک کوئی خاص عمل کرنے کی ویسے بھی ضرورت
نہیں ہے ۔
سوال: کمپنی کے شیئرز کیسے
معلوم کریں کہ یہ حلال ہے یا حرام جیسے کہ ٹاٹا اسٹیل ایک کمپنی ہے اس کے شیئرز
حلال ہیں یا حرام ؟
جواب: کمپنی کے شیئرز کو معلوم کرنے کے لیے
اسی کمپنی سے معلوم کرنا پڑے گا کہ اس کے پاس کس کس چیز کی تجارت ہے اور تجارت کے
کیا اصول ہیں۔
یعنی صرف یہی نہیں معلوم کرنا ہے کہ کس چیز
کی تجارت ہے بلکہ یہ بھی معلوم کرنا ہے کہ تجارت کے اصول اور ضوابط کیا ہیں۔ اگر
یہ نہ معلوم ہو کہ کس چیز کی تجارت ہے اور تجارت کے اصول کیا ہیں تو ایسی جگہ پر
شیئرز خریدنا جائز نہیں ہے۔
ٹاٹا کے سلسلے میں بھی ان دونوں باتوں کا
پہلے مکمل علم حاصل کریں پھر ان باتوں کی جانکاری کے ساتھ اہل علم سے شرعی مسئلہ
معلوم کریں ۔
سوال: ایک نوجوان مفلوج ہے،
اس کو اس کے گھر والے عمرہ پر لے جا رہے ہیں۔اگر اس کے احرام میں لاسٹک ڈال دیا
جائے تو کیا اس پر کوئی دم/فدیہ ہوگا؟
جواب: اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ مفلوج
نوجوان کے احرام والے لباس میں الاسٹک ڈال دیا جائے، یہ ضرورت کے تحت ہے اور اسلام
میں ضرورت کی گنجائش ہے یعنی اس صورت میں کوئی فدیہ نہیں ہے۔
سوال:اگر کسی کی لائٹ اور
بلب وغیرہ کی دکان ہو تو کیا وہ ایسی لائٹوں کو بیچ سکتا ہے جس کو ماہ ربیع الاول
میں لوگ بطورِ خاص جشن عید میلاد النبی میں سجاوٹ کے طور پر لگاتے ہیں؟
جواب: جس کے پاس بجلی کی دکان ہے یعنی اس
میں لائٹ اور بلب بیچتا ہے تو ربیع الاول میں اسے دکان بند کرنے کی ضرورت نہیں ہے،
وہ اس ماہ بھی اپنی دکان کی چیزیں بیچتا رہے گا لیکن اس کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ
بدعتی لوگ عید میلاد النبی کے موقع پر جن خصوصی لائٹوں کا استعمال کرتے ہیں، ان
خصوصی لائٹوں کو خرید کر دکان پر رکھے تاکہ بدعتی لوگ خرید کر لے جائیں۔ یہ عمل
جائز نہیں ہے کیونکہ یہ بدعت کے کام پر تعاون ہے اور اللہ نے ہمیں گناہ کے کام پر
تعاون کرنے سے منع کیا ہے۔ باقی وہ پہلے سے جن جائز چیزوں کی تجارت کر رہا ہے ان
چیزوں کو بیچتا رہے۔
سوال:کسی کی کہی ہوئی بات کو
کسی دوسرے سے کہنا یہ بھی غیبت میں شمار ہوگا جبکہ یہ نیت نہ ہو کہ دونوں میں
لڑائی اور دشمنی ہو، صرف ایسے ہی کہہ دیتے ہیں کہ فلاں یہ کہہ رہا تھا ؟
جواب: اگر کوئی کسی کی کہی ہوئی بات کسی دوسرے سے بیان کرتا ہے جبکہ وہ بات ایسی ہو کہ کہنے والا سنے تو اس کو برا معلوم ہو تو ایسی صورت میں یہ بھی غیبت ہے، بھلے دشمنی کی نیت سے نہ بیان کرے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔