Tuesday, January 21, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات (41)

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات (41)

جواب از:شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

جدہ دعوہ سنٹر حی السلامہ -سعودی عرب


سوال: چار رکعت والی نماز کےپہلے تشہد میں اگر بھول کر التحیات اور درود کے بعد دوسری دعائیں بھی پڑھ لیں اور پھر یاد آئے کہ یہ پہلا تشہد ہے تو کیا اس کے لئے سجدہ سہو کرنا ہے اور کب کرنا ہے؟

جواب:جو رباعی نماز کے پہلے قعدہ میں التحیات کے علاوہ درود اور دعائیں بھی پڑھ لے اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے، اس سے نماز پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور سجدہ سہو کرنا بھی ضروری نہیں ہے۔یاد آنے پر تیسری رکعت کے لئے اٹھ جائے اور اپنی نماز مکمل کرے اور اگر سجدہ سہو کرنا چاہے تو سلام کے بعد سجدہ سہو کرسکتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

 لِكُلِّ سَهْوٍ سَجْدَتَانِ بَعْدَ مَا يُسَلِّمُ(ابوداؤد:1038)

ترجمہ: ہر بھول کے لئے سلام کے بعد دوسجدے ہیں۔

شیخ ابن باز سے کسی نے اس تعلق سے سوال کیا کہ میں چار رکعت والی نماز کے پہلے تشہد میں ساری چیزیں پڑھ لیتا تھا جس پر شیخ نے جواب دیا کہ "اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ سنت کی مخالفت ہے۔ سنت یہ ہے کہ پہلے تشہد میں درود تک پڑھا جائے اور دعائیں آخری قعدہ میں پڑھی جائیں"۔

پہلے قعدہ میں درود پڑھنا چاہیں تو پڑھ سکتے ہیں تاہم صرف التحیات پر اکتفاء کرنا بھی کافی ہے۔

سوال: ایک خاتون کے شوہر نے بغیر ان کی اجازت کے چپکے سے دوسرا نکاح کرلیا، اس نکاح میں مرد کی طرف سے اس کے گھر والے کوئی گواہ نہیں تھے اور عورت کی طرف سے بھی گھر والوں میں سے کوئی ولی نہیں تھا۔ لڑکی کے بہنوئی ولی بنے تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا لڑکی کا بہنوئی ولی بن سکتا ہے جبکہ وہ غیر محرم ہوتا ہے۔ یہ نکاح لوگوں کے سامنے نہیں ہوا، بس دو لوگوں کی موجودگی میں نکاح ہوا اور اس نکاح کو چھپاکر رکھا گیا پھر دو تین مہینے کے بعد پتہ چلا تو کیا ایسا نکاح جائز ہے، کیا یہ نکاح زنا میں شمار تو نہیں ہوگا۔ اس شخص نے لوگوں میں یہ بات پھیلائی ہے کہ بیوی کی اجازت سے نکاح ہوا ہے جبکہ بیوی اس بات سے بالکل بے خبر ہے اور وہ اس رشتے کو نہیں مانتی ہے۔ اس سلسلے میں شریعت کا کیا حکم ہے اور کیا دوبارہ نکاح کرنا ہوگا؟

جواب: پہلی بات یہ ہے کہ شادی کے لئے مرد کو پہلی بیوی سے اجازت لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی پہلی بیوی کے نہ ماننے سے شادی نہیں ہوتی ہے۔ شادی کا تعلق شریعت کے مسائل سے ہے، اس میں پہلی بیوی کا کوئی دخل نہیں ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ شادی میں لڑکا خود مختار ہوتا ہے اس کے گھر کا کوئی مرد شامل ہو یا نہ ہو اس سے شادی پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ شادی میں کم از کم چار لوگوں کی ضرورت ہے، ایک ولی، دوسرا لڑکا اور دو

عادل گواہ تاہم اس نکاح کے اعلان کرنے کا بھی حکم ہوا ہے۔

چوتھی بات یہ ہے کہ لڑکی کے باپ کی موجودگی میں کوئی دوسرا ولی نہیں بنے گا اور اگر باپ کے ہوتے ہوئے بہنوئی ولی بن کر نکاح کرائے تو یہ نکاح باطل ہے، اس نکاح کی کوئی حیثیت اور حقیقت نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

أيُّما امرأةٍ نَكَحَت بغيرِ إذنِ مَواليها ، فنِكاحُها باطلٌ ، ثلاثَ مرَّاتٍ۔ (صحیح ابوداؤد للالبانی:رقم:2083)

ترجمہ:جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے. یہ بات تین مرتبہ بیان فرمائی۔

سوال میں جو صورتحال ذکر کی گئی ہے، اگر یہ بات صحیح ہے اور اسی طرح نکاح کیا گیا ہے تو یہ نکاح باطل ہے یعنی یہ نکاح ہوا ہی نہیں۔شرعی طور پر نکاح کیا جائے تبھی لڑکا لڑکی میاں بیوی کی طرح رہ سکتے ہیں، ورنہ اس طرح رہنے پر زنا شمار ہوگا۔

سوال: عورت اگر عدت میں ہو تو کیا وہ گھر کے کام کاج کرسکتی ہے یا صرف چار مہینے دس دن تک اسے عبادت میں ہی وقت گزارنا ہوگا؟

جواب: جو عورت اپنے شوہر کی وفات کی وجہ سے گھر میں عدت گزار رہی ہے، وہ گھر کے سارے کام کاج کرسکتی ہے اس کے لئے گھر میں رہتے ہوئے کوئی بھی کام کرنا منع نہیں ہے۔ اس کے لیے فقط زیب و زینت کرنا اور بلاضرورت گھر سے نکلنا منع ہے۔

سوال: کیا لڑکی اپنے کزن بھائی کو کسی خوشی کے موقع پر تحفہ پیش کرسکتی ہے؟

جواب: اسلامی اعتبار سے ایک لڑکی کا غیرمحرم  رشتے دارسے ایسا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے جس سے کسی فتنے کا اندیشہ ہو۔ تحفہ دینا ایک طرح کی محبت کا اظہار کرنا ہے جس میں فتنہ کا اندیشہ ہے کیونکہ جسے تحفہ دیا جا رہا ہے وہ لڑکی کے حق میں غیر محرم ہے لہذا کوئی جوان لڑکی اپنے کزن وغیرہ کو براہ راست ہدیہ نہ پیش کرے۔کسی طرح کی خوشی اور میل جول کے موقع پر ایک گھر کے ذمہ دار کو دوسرے گھر کے ذمہ دار کے لئے تحائف پیش کرنا چاہیے۔

سوال: کیا مکڑی کو مارا جاسکتا ہے جبکہ گھر میں جالے اتارنے کی صورت میں مکڑی اکثر اوقات مرجاتی ہے؟

جواب: اپنے گھروں سے مکڑی کے جالے صاف کرسکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس کی وجہ سے اگر مکڑی مرجاتی ہے تو بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اصل مقصد مکڑی کو مارنا نہیں بلکہ گھر کی صفائی ہو تو اس میں حرج  کی کوئی بات نہیں ہے۔

سوال: کیا ایسی جرابوں پر بھی مسح کیا جاسکتا ہے جو ٹخنوں سے نیچے ہوں یعنی ٹخنے ننگے ہوں، کہا جاتا ہے کہ جس کو آپ جراب سمجھتے ہیں، اس پر مسح کیا جاسکتا ہے کوئی قید نہیں بتائی گئی کہ ٹخنوں سے اوپر ہو یا نیچے ہواور کیا ننگے پاؤں پر بھی مسح کیا جاسکتا ہے؟

جواب: جراب پر مسح کی شرطوں میں سے یہ ہے کہ اسے وضو کی حالت میں پہنا گیا ہو اور وہ دونوں ٹخنوں کو ڈھکنے والا ہو۔ٹخنوں کو ڈھکنا اس لئے شرط ہے کہ وضو میں اسے دھونا واجب ہے اور جس حصے کو دھلنا واجب ہے وہ کھلا ہوا ہو تو ایسی صورت میں مسح کرنا جائز نہیں ہے اور کوئی مسح کرلے تو وہ وضو ہی نہیں ہوگا۔مسح ننگے پاؤں پر نہیں ہوتا، ننگے پاؤں کو ہر حال میں دھلنا پڑے گا۔

سوال: فکرمندی اور غم سے نجات کی دعا میں (اللھم انی عبدک وابن عبدک وابن امتک)میں یہ مذکر کےلئے ہے یا مذکر و مؤنث دونوں کے لئے ہے، رہنمائی فرمائیں؟

جواب:اللہ کے رسول کی ساری دعائیں مذکر و مؤنث سب کے لئے ہوتی ہیں، اور گرچہ بہت ساری دعاؤں میں مذکر لفظ کا ذکر ہوتا ہے مگر انہیں الفاظ کے ساتھ سب کو دعائیں کرنی ہوتی ہیں تاہم جہاں حسب حال صیغہ اور ضمیربدلنے کی شرعی گنجائش  ہوتووہاں  بدل سکتے ہیں۔ سب سے اہم اور زیادہ بول چال میں استعمال ہونے والے الفاظ سلام ہیں، یہ سبھی مذکر و مؤنث کے لئے ایسے ہی الفاظ میں کہنا چاہئےگوکہ اس میں ضمیر مذکر کے حساب سے ہے۔ مذکورہ بالا دعا میں مذکر و مؤنث دونوں کے لئے صیغے ہیں اور یہ ایک بہترین دعا ہے جس کا ہمیں سدا التزام کرنا چاہئے۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بھی کسی کو کوئی فکر و غم اور رنج و ملال لاحق ہو اور وہ یہ دعا پڑھے:

اللهم إني عبدك وابن عبدك وابن أمتك ناصيتي بيدك ماض في حكمك عدل في قضاؤك، أسألك بكل اسم هو لك سميت به نفسك، أو علمته أحدا من خلقك، أو أنزلته في كتابك، أو استأثرت به في علم الغيب عندك أن تجعل القرآن ربيع قلبي ونور صدري وجلاء حزني وذهاب همي.(اے اللہ! میں تیرا بندہ ہوں، تیرے بندے کا بیٹا ہوں اور تیری بندی کا بیٹا ہوں، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے، میرے بارے میں تیرا حکم جاری ہے اور میرے بارے میں تیرا فیصلہ عدل والا ہے، میں تجھ سے تیرے ہر اس خاص نام کے ساتھ سوال کرتا ہوں جو تو نے خود اپنا نام رکھا ہے یا اسے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھلایا ہے یا علم الغیب میں اسے اپنے پاس رکھنے کو ترجیح دی ہے کہ تو قرآن کو میرے دل کی بہار اور میرے سینے کا نور اور میرے غم کو دور کرنے والا اور میرے فکر کو لے جانے والا بنا دے)۔

تو اللہ تعالیٰ اس کے فکر و غم اور رنج و ملال کو دور کر کے اس کے بدلے وسعت اور کشادگی عطا کرے گا۔ کہا گیا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم یہ کلمات سیکھ نہ لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں، ہر سننے والے کو یاد کر لینے چاہئیں۔

سوال: وتر کی نماز میں تیسری رکعت کے لئے اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا چاہیے یا نہیں، حدیث میں اس کے متعلق کیا آیا ہے؟

جواب: وتر کی نماز میں تیسری رکعت پہ اٹھتے وقت رفع الیدین نہیں ہے اور رفع الیدین کے بارے میں کوئی مرفوع حدیث نہیں ہےیعنی ایسی کوئی حدیث نہیں ہے جس میں مذکور ہو کہ اللہ کے رسول ﷺ نے وتر کی تیسری رکعت میں رفع یدین کیا ہو۔

نبی ﷺ کے وتر کی تین رکعت نماز کی کیفیت دیکھیں۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر تین رکعت پڑھتے تھے، پہلی رکعت میں «سبح اسم ربك الأعلى‏» دوسری رکعت میں «قل يا أيها الكافرون» اور تیسری میں «قل هو اللہ أحد» پڑھتے، اور دعائے قنوت رکوع سے پہلے پڑھتے، پھر جب (وتر سے) فارغ ہو جاتے تو فراغت کے وقت تین بار: «سبحان الملك القدوس» کہتے، اور ان کے آخر میں کھینچتے۔(سنن نسائی:1700، صححہ البانی)

بعض اہل علم یہ کہتے ہیں کہ ہر دو رکعت سے اٹھنے پر رفع یدین ہے اس لئے وتر کی تیسری رکعت پر بھی رفع یدین کرنا چاہئے اور وہ اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں: نافع سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب نماز میں داخل ہوتے تو پہلے تکبیر تحریمہ کہتے اور ساتھ ہی رفع یدین کرتے۔ اسی طرح جب وہ رکوع کرتے تب اور جب «سمع الله لمن حمده» کہتے تب بھی (رفع یدین کرتے) دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے اور جب قعدہ اولیٰ سے اٹھتے تب بھی رفع یدین کرتے۔ آپ نے اس فعل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھا کرتے تھے۔( صحیح البخاری:739)

اولا اس حدیث میں اس بات کی صراحت نہیں ہے کہ وتر کی تیسری رکعت میں رفع یدین کرنا ہے بلکہ یہ وتر سے متعلق حدیث بھی نہیں ہے، دوسری بات یہ ہے کہ یہاں اصل یہ ہے کہ جب دو رکعت پر بیٹھ کر اٹھتے تو رفع یدین کرتے مگر وتر میں تو بیٹھتے ہی نہیں اور آپ کے سامنے تین رکعت وتر کی نماز کی کیفیت جو رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے وہ پیش کردیا ہوں اس میں رفع یدین کا کوئی ذکر نہیں ہے اور عبادت معاملہ بہت اہم ہے، اس میں جس بات کے لئے جتنی دلیل ملے بس اسی پر عمل کرنا ہے لہذا وتر کی تیسری رکعت میں رفع یدین نہیں کیا جائے۔

سوال: ایک بہن کا سوال ہے کہ وہ جاب کرنا چاہ رہی ہے، اس نے جہاں بھی جاب کے لئے انٹرویو دی ہے اسے بینک کی طرف سے ہی درخواست آرہی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ وہ بینک میں جاب نہ کرے لیکن بینک کے ڈپارٹمنٹ کے کچھ افراد انہیں بتا رہیں کہ صرف آپ ایڈمن بن جائیں۔ کیا ایڈمن کی طور پر بینک میں جاب کرسکتی ہے؟

جواب: یونہی کسی کو بنک اپنے یہاں کام کے لئے بلاتا نہیں ہے جب تک کہ کوئی بنک میں روزگار تلاش نہ کرے، وہاں انٹرویو نہ دے یا نوکری کے لیے اپلائی نہ کرےاور جب وہ بنک میں نوکری نہیں کرنا چاہتی ہے تو بنک میں انٹرویوکیوں دیتی ہے؟۔دوسری بات یہ ہے کہ بنک سے مربوط ہوکر کسی طرح کا کوئی کام کرنا حتی کہ اڈمن بننا بھی جائز نہیں ہے کیونکہ یہ سودی کام پر تعاون ہے اور اللہ تعالیٰ نے گناہ اور ظلم کے کاموں پر تعاون کرنے سے منع فرمایا ہے۔

اللہ تعالی نے عورتوں کو سہولت دی ہے اسے کمانے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ مرد اس کا کفیل ہوتا ہے اس لیے اس خاتون کو روزگار کے لیے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آسانی سے حلال روزگار ملے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے تاہم روزگار کے لیے شرعی حدود میں رہنا ضروری ہے یعنی وہ  روزگار حلال ہو،وہ فتنے کی جگہ نہ ہو، عورت و مرد کا اختلاط نہ ہو، وہاں پر بے پردگی نہ ہو اور پردہ میں کام کرنے کی اجازت ہو۔

سوال: جانور کی شکل کے بنے برتنوں کے استعمال کا حکم بتا دیجیے؟

جواب: اگر برتن کی شکل جاندار کی شکل میں بنائی گئی ہو تو ایسے برتن کا استعمال جائز نہیں ہے کیونکہ وہ جاندار کی تصویر میں داخل ہے۔ جاندار کی تصویر کسی چیز پر بنائی گئی ہو یا کسی چیز کی شکل جاندار کی طرح بنائی گئی ہو یہ دونوں قسم کی تصاویر حرام تصاویر میں داخل ہیں۔

سوال: قرآن میں یہ کہا جاتا ہے الله کو ہی پکاریں، اسی سے مانگیں۔ جب ہم الله سے دعا کریں تو پورے یقین کے ساتھ کریں مگر کچھ لوگ کہتے کہ اصرار نہیں کرنا چاہیے، جو چیز ہم الله سے ضد کرکے مانگتے ہیں اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا جیسے ایک بہن ہے، اس کے بھائی کا دماغ ٹھیک نہیں۔ وہ کہتی ہے کہ اس کی والدہ نے الله سے ضد کرکے کہ بیٹا مانگا تھا اس لئے وہ ایسا ہے، کیا اس چیز کی کوئی حقیقت ہے کہ دعا میں اصرار نہیں کرنا چاہیے؟

جواب:کثرت سے دعا کرنا مستحسن اور مطلوب ہے ، اس کو ضد کرنا یا اس عمل کو غلط کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ ترک دعا کردینا یہ غلط ہے۔ سماج کے لوگوں کو شرعی مسائل کی خبر نہیں ہوتی وہ اپنے دماغ سے سوچ کر ایسی باتیں کرتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں اس قسم کی باتیں نہیں ملتی ہیں۔ بار بار کسی چیز کو اللہ سے مانگنے میں کوئی حرج نہیں ہے، دعا سے مایوس ہوجانا، دعا میں جلدبازی کرنا اور دعا ترک کردینا یہ شرعا غلط ہے۔ اور جو بات کہی گئی ہے کہ اللہ سے ضد کرنے سے لڑکے کا دماغ ٹھیک نہیں ہے ۔ یہ جہالت کی بات ہے۔ کثرت دعا سے متعلق صحیح مسلم کی ایک حدیث دیکھیں۔ ابوادریس خولانی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: "جب تک کوئی بندہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے اور قبولیت کے معاملے میں جلد بازی نہ کرے، اس کی دعا قبول ہوتی رہتی ہے۔ عرض کی گئی: اللہ کے رسول! جلد بازی کرنا کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کہے: میں نے دعا کی اور میں نے دعا کی اور مجھے نظر نہیں آتا کہ وہ میرے حق میں قبول کرے گا، پھر اس مرحلے میں (مایوس ہو کر) تھک جائے اور دعا کرنا چھوڑ دے۔(صحیح مسلم:2735)

سوال: ایک مسافر آدمی مقیم آدمی کے پیچھے نماز ادا کی، امام نے عشاء کی چار رکعت نماز پڑھائی اور مسافر مغرب کی تین رکعت پڑھ کر الگ ہوگیا، اس کا کیا حکم ہے؟

جواب:پہلی بات یہ ہے کہ مسافر کے لئے مغرب کی نماز میں قصر نہیں ہے اور مسافر مقیم کے پیچھے

 مکمل نماز ادا کرے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ مغرب کی نیت سے عشاء کی نماز میں آدمی شامل ہوسکتا ہے مگر اسے تین ہی رکعت پڑھنا ہے۔ اب اس میں اختلاف ہے کہ وہ چوتھی رکعت کے وقت بیٹھا رہے اور امام کے ساتھ سلام پھیرے یا پھر تیسری رکعت کے بعد منفرد ہوجائے اور اپنا سلام پھیرلے۔ شیخ ابن باز کہتے ہیں کہ تیسری رکعت کے بعد بیٹھا رہے پھر امام کے ساتھ سلام پھیرے جبکہ شیخ ابن عثیمین تیسری رکعت کے بعد منفرد ہوکر سلام پھیر لینے کے قائل ہیں۔ دونوں جگہ اپنی اپنی دلیل موجود ہے۔ میں اس میں امام کے ساتھ سلام پھیرنے والے موقف کو قوی سمجھتا ہوں تاکہ امام کی مخالفت نہ ہو۔

سوال: استحاضہ کی حالت میں شوہر اپنی بیوی سے تعلق قائم کرسکتا ہے جبکہ استحاضہ ایک بیماری ہے؟

جواب: ہاں ، شوہر اپنی بیوی سے استحاضہ کی حالت میں جنسی تعلق قائم کرسکتا ہے کیونکہ استحاضہ نہ حیض ہے اور نہ ہی نفاس ہے اور استحاضہ میں جماع کی ممانعت وارد نہیں ہے بلکہ مستحاضہ نماز جیسی عظیم عبادت ادا کرسکتی ہے تو بلاشبہ جماع بھی کرسکتی ہے۔ بیماری کی وجہ سے استحاضہ کا خون نکلتا ہے مگر اس وجہ سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بیماری کی وجہ سے جسم میں اور بھی مختلف حالات ہوتے ہیں اس وجہ سے جماع میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہاں کبھی میاں یا بیوی کو کوئی صحت کا مسئلہ درپیش ہو تو اس بارے میں طبیب سے رجوع کرنا چاہئے۔

سوال: ایک حدیث ہے کہ دھوپ اور سایہ میں نہیں بیٹھنا چاہئے کیونکہ اس طرف شیطان بیٹھتا ہے مگر جب ہم چھتری استعمال کرتے ہیں یا کیپ لگاتے ہیں تو جسم پر تھوڑا سایہ اور تھوڑی دھوپ

 ہوتی ہے ایسے میں کیا حکم ہے؟

جواب:یہ بات صحیح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوپ اور سایہ کے درمیان بیٹھنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ حدیث میں ہے کہ وہ شیطان کی جگہ ہے اس لئے آدمی کی اپنی کوشش ہوکہ دھوپ اور سایہ والی جگہ جہاں بیٹھنے یا کھڑے ہونے سے دونوں چیز جسم پہ ایک ساتھ پڑے تو اس سے پرہیز کرے لیکن جو ہماری استطاعت سے باہر کی چیز ہے وہاں کوئی حرج کی بات نہیں کیونکہ دھوپ اور سایہ کے درمیان بیٹھنے کی ممانعت حرمت والا مسئلہ نہیں۔ اہل علم نے اس کو کراہت پر محمول کیا ہے یعنی یہ مکروہ ہے اس سے بچنا چاہیے لیکن جہاں پر ہم اس کا خیال نہیں کرسکتے ہیں، ہماری استطاعت سے باہر ہو تو اس کا کوئی مسئلہ نہیں ہے جیسے چھتری اور ٹوپی کا معاملہ۔

سوال: رمضان آنے والا ہے اور جس کی تجارت فوڈ سے متعلق ہو جیسے ڈسپوزل آئٹم وغیرہ ۔ میں نے سنا ہے کہ رمضان میں یہ بیچنا جائز نہیں ہے، افطار کے بعد بیچ سکتے ہیں۔ بی ٹو بی بزنس میں ہول سیلر کو سپلائی کرتے ہیں تو بلک(تھوک) میں سپلائی کرتے ہیں جسے وہ رمضان میں بھی استعمال کرتا ہے اور غیر رمضان میں بھی استعمال کرتا ہے، کیا اس صورت میں ایک مہینہ پہلے ہی مال بیچنا چاہئے یا اسے رمضان سے پہلے تک کا اسٹاک دینا چاہئے یا رمضان میں بند کر دینا چاہئے؟

جواب: مسلمان کے لئے رمضان میں دن کے وقت کھانے پینے کی چیز بیچنے میں حرج نہیں ہے خصوصا وہ چیزیں جو کھائی جانے والی نہیں ہو جیسے ڈسپوزل آئٹم مثلا کلاس اور پلیٹ و کٹورے وغیرہ۔ یہ پیٹ بھرنے والی چیز نہیں ہے ، یہ سامان ہے۔ آپ بلاشبہ اس تجارت کو رمضان اور غیر رمضان میں تھوک کے حساب سے بیچ سکتے ہیں، دن میں بھی اور رات میں بھی۔ ہاں کھانے پینے کی وہ چیز جو کسی کے روزہ توڑنے کا سبب بنے جیسے ہوٹل جو ایسی جگہ ہو جہاں مسلم رہتے ہوں یا مسلم کسٹمر والا علاقہ ہو تو دن کے وقت ایسی دوکان نہیں کھولنا چاہئے اور رمضان میں دن کے وقت عام چیزوں کی دوکان کھولنے میں  یا تجارت کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوال: کیا مسجد میں کاروباری لین دین کیا جاسکتا ہے مثلا لوگ نماز ختم ہوتے ہی اپنا واٹس ایپ کھول کر کاروباری باتیں یا فوٹو شیئر کرنے لگ جاتے ہیں کیا اس کی اجازت ہے؟

جواب: تجارت سے متعلق کوئی ضروری میسج کسی کو دینا ہو جو نماز کےفورا بعد یاد آجائے تو اس کو پیغام دینے میں حرج نہیں ہے۔ اس کے لئے معمولی واٹس ایپ کرنے میں حرج نہیں معلوم ہوتا ہے لیکن کوئی باقاعدہ مسجد میں بیٹھ کر تجارت کی باتیں کیا کرے، یہ اس کا معمول ہو تو یہ عمل جائز نہیں ہے کیونکہ مسجد اللہ کا گھر ہے اس میں عبادت کے مقصد سے آنا چاہئے اور یہاں کسی قسم کی تجارتی باتیں کرنے اور تجارتی مشغلہ سے پرہیز کرنا چاہئے۔ جس کو تجارت کا مسئلہ ہو وہ اپنے گھر جاکر یا مسجد سے باہر ہوکر یہ عمل انجام دے۔

سوال: مائرہ اور لائبہ نام رکھنا کیسا ہے؟

جواب: مائرہ کے کئی معانی ہیں ایک معنی کم عقل بھی ہے اور لائبہ کا معنی پیاسی لڑکی ہے، یہ لفظ نام رکھنے کے اعتبار سے درست نہیں ہے ۔ آپ سلف کے ناموں کے مطابق نام رکھیں، اس کے لئے سیرت کی کتاب دیکھیں۔

سوال: میں سعودی عرب سے اپنے ملک ایگزٹ جانے والا ہوں، میرا کفیل ابھی تک حساب و کتاب نہیں کیا ہے، میں نے اپنے کفیل کو بولا بھی تھا اور اس کے پاس میرا پیسہ باقی ہے۔ کیا جھوٹ بول کر اس سے پیسہ مانگ سکتے ہیں، میرا ایک مدیر ہے اس نے مجھ سے کہا کہ ایسے ایسے جھوٹ بول تو کفیل پیسہ دے دے گا؟

جواب: ایک مسئلہ یہ ہے کہ اگر عقد کے حساب سے ایکزٹ جانے کا حق بنتا ہے یا طرفین میں ایکزٹ پہ رضامندی ہوگئی ہے تو ایکزٹ جاسکتے ہیں اور کفیل آپ کو آپ کا حق نہیں دے رہا ہے جو اس کے ذمہ ہے تو کوئی عذر پیش کرکے اپنا حق لے سکتے ہیں۔

سوال: کیا خواتین علمی مجلس میں جہاں غیر مرد اور عورتیں موجود ہوں قرآن کی قرات کرسکتی ہے؟

جواب:پہلی بات یہ ہے کہ عورت کو ایسی جگہ علمی مجلس نہیں کرنی چاہیے جہاں غیر محرم موجود ہو لیکن عورت پردہ کے پیچھے سے مردوں کی علمی مجلس میں شریک ہو سکتی ہے۔اور مردوں والی جگہ  یعنی جس اسٹیج  پریا مجلس میں مرد بھی شریک ہوں وہاں پر عورت نہ تلاوت کرسکتی ہے اور نہ ہی وعظ و نصیحت کرسکتی ہے۔

سوال: کیا گھر میں رہتے ہوئے بہن بھائی اور باپ وغیرہ سے پردہ ہے، دیکھا جاتا ہے کہ شادی کے موقع پر رخصتی کے وقت لڑکی اپنے باپ سے گلے ملتی ہے، یہ جائز ہے؟

جواب: ایک عورت اپنے گھر میں رہتے ہوئے اپنا چہرہ ، ہاتھ، سر ، بال اور پیر اپنے محرم پر ظاہر کرسکتی ہے، جسم کے باقی حصوں کو مکمل پردہ میں رکھنا ہے اور باپ اپنی بیٹی کے سر یا ہاتھ کا بوسہ لے سکتا ہے، فتنہ کا اندیشہ نہ ہو تو معانقہ بھی کرنے میں حرج نہیں ہے مگر ہمارے یہاں کے حالات پرفتن ہیں۔ شادی کے موقع پر مرد و عورت کا ہجوم ہوتا ہے پھر آج موبائل کا زمانہ ہے، چاروں طرف سے تصاویر اور ویڈیوز بن رہی ہوتی ہیں ایسی جگہ باپ، بھائی اور گھر کے افراد زبانی طو پر رخصت کریں۔

سوال: کیا سود کے پیسوں سے کسی کو روزگار کرایا جاسکتا ہے یا کسی کینسر پیشنٹ کا علاج کرایا جا سکتا ہے؟

جواب: سودی پیسہ حرام پیسہ ہوتا ہے اس کو مشترکہ سماجی کام میں خرچ کرنا چاہیے جیسے سڑک، نالہ، کنواں اور درخت وغیرہ میں۔ کسی کی جان بچانے کے لئے بھی سود کا پیسہ استعمال کر سکتے ہیں اس لحاظ سے کینسر ایک مہلک مرض ہے اس کے لیے سودی پیسہ استعمال کر سکتے ہیں لیکن کسی کےواسطے  کاروبار کے لئے سودی پیسہ استعمال نہیں کیا جائے۔

سوال: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سوتے وقت معوذات پڑھ کر اپنے جسم پر دم کیا کرتے تھے تو کیا یہ عمل مخصوص ہے صرف سوتے وقت کیلئے یا یہ عمل ہم اسوقت بھی کرسکتے ہیں جب ہم معوذات پڑھیں جیسے پانچوں فرض نماز کے بعد؟

جواب: نماز کے بعد کے اذکار پڑھ کر اپنے بدن پر پھونک مارنا یا ہاتھوں سے مسح کرنا حدیث سے ثابت نہیں ہے اس لئے نماز کے بعد ایسا عمل نہیں کیا جائے گا۔ جب کبھی شفا طلب کرنے اور دم کرنے کی نیت سے اذکار کریں اس وقت بلاشبہ اپنے اوپر شرعی اذکار پڑھ کر پھونک مار سکتے ہیں اور ہاتھوں سے مسح کر سکتے ہیں۔

سوال: کیا شرابی کے گھر کھانا کھانا جائز ہے جبکہ کمائی حلال ہے اور کیا پان شوپ والے کی کمائی حلال ہے جبکہ گٹکھا حرام ہے؟

جواب: شرابی ایک گنہگار آدمی ہے تاہم اگر اس کی کمائی حلال ہے تو دعوت کھائی جاسکتی ہے نیز ہمارے ذمہ اسے اس کی برائی پر تنبیہ بھی کرنا ہے اور پان دکان کی کمائی حلال نہیں ہے کیونکہ پان میں عام طور سے نشے کی چیزیں استعمال کی جاتی ہیں  حتی کہ پان دوکان میں سگریٹ اور گٹکھا جیسے متعدد قسم کی  نشہ آوز اشیاء بھی بیچی جاتی ہیں اور اسلام میں نشہ حرام ہے اس لئے حرام چیزوں کی تجارت جائز نہیں  ہےاور اس کی کمائی بھی جائز نہیں ہے۔

سوال: ایک آدمی کی شادی طے ہے اور وہ سعودی میں رہتا ہے، شادی کے لئے گھر جانا چاہتا ہے جبکہ اس دوران اس کے ہونے والے سسر کا انتقال ہوگیا ہے اور اس کی بیوی عدت میں رہے گی ایسی صورت میں کیا شادی کی جاسکتی ہے؟

جواب: ایسی صورت میں شادی کرنے میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے کیونکہ شادی جس لڑکی سے ہونی ہے اس کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے اس لئے شادی کرنا جائز ہے۔ رہا مسئلہ اس لڑکی کی والدہ کا تو وہ اپنی عدت میں رہے گی اور عدت میں رہتے ہوئے زینت کی چیزوں سے بچنا ہے اور بلاضرورت گھر سے نہیں نکلنا ہے تاہم شادی میں وہ ضرور شریک ہوسکتی ہے۔

سوال: ہم دو دوست بذریعہ فلائٹ ریاض سے عمرہ کے لیے آرہے ہیں۔ ارادہ ہے کہ جدہ میں ٹھہر کر اور آرام کرکے پھر طائف کی میقات پر جائیں اور وہاں سے احرام باندھ کر عمرہ کریں ایسے میں کیا حکم ہے؟

جواب: یہ طریقہ درست نہیں ہے کیونکہ جو لوگ میقات سے باہر ہیں اور عمرہ کے ارادہ سے مکہ آرہے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی میقات سے احرام باندھ کر عمرہ کے لئے آئیں۔ آپ کے اوپر ضروری ہے کہ آپ بھی اپنی میقات جو کہ طائف ہوگی وہاں سے احرام باندھ کر آئیں۔ چونکہ فلائٹ میں احرام کا لباس پہننا مشکل ہے اس لئے گھر سے نکلتے وقت غسل کرکے احرام کا لباس لگا لیں اور جب طائف کی میقات کے قریب آئیں اس وقت فلائٹ ہی میں عمرہ کی نیت کرلیں اور جدہ اترنے کے بعد اسی احرام میں مکہ جائیں اور اپنا عمرہ مکمل کریں۔

سوال: اس وقت میرے دیور کے پاس کام نہیں ہے اور اس کی بیوی یہ بہانہ کرکے کہ یہ کوئی کام نہیں کرتا،اس کے  ساتھ نہیں رہنا چاہتی، میکے چلی گئی اور اس کے تین بھی بچے ہیں۔ اس کے گھر والے طلاق دینے کے لیے بھی کہتے ہیں مگر میرا دیور طلاق نہیں دینا چاہتا۔ اب دیور کے ساس و سسر دوسرے لوگوں کے ذریعہ میرے سسر پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ تینوں بچیوں کو پانچ پانچ لاکھ روپے اور سسر کا ایک ذاتی مکان ہے اس میں ایک فلیٹ اس کے شوہر کے نام کیا جائے۔ میرے دیور کے پاس کچھ بھی نہیں ہے اور مکان بھی میرے سسر کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بہو اپنے سسر سے بچے تینوں بچیوں کے لیے  پیسے اور فلائٹ نام کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکتی ہے ، اس کا یہ مطالبہ شرعا درست ہے؟

جواب: بہو کا اپنے سسر سے پیسے اور فلیٹ کے لئے مطالبہ کرنا شرعا جائز نہیں ہے اور بہو کا اپنے سسر کی جائیداد میں ذرہ برابر بھی کوئی حق نہیں بنتا ہے لہذا وہ کسی طرح کا کوئی مطالبہ اپنے سسر سے نہیں کرسکتی ہے۔ ایک بیوی اور اس کی اولاد کے لیے اپنے شوہر کی جائیداد میں حصہ ہوتا ہے جب شوہر جائیداد چھوڑ کر وفات پا جائے مگر اپنے سسر کی جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ہوتا خواہ سسر زندہ ہو یا اپنی جائیداد چھوڑ کر وفات پاجائے۔

جب شوہر اپنی بیوی کو طلاق نہیں دینا چاہتا اور اسے ساتھ رکھنا چاہتا ہے تو بیوی کو صبر سے کام لینا چاہیے اور حالات کی بہتری کا انتظار کرنا چاہیے بطور خاص جب شوہر بیوی کی ضرورت پوری کر رہا ہو تو اسے ہنگامہ کھڑا کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ہاں جب شوہر نان و نفقہ کی ذمہ داری نہ ادا کر سکے تو اس سے الگ ہوسکتی ہے لیکن اس کی طرف سے جو مطالبہ ہے، وہ مطالبہ صحیح نہیں ہے۔

 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔