﷽
آپ کے سوالات اور ان
کے جوابات (3)
جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ – سعودی عرب
سوال: آپ نے کہا کہ قبلہ کی طرف پیر کرنے
میں کوئی گناہ نہیں ہے لیکن کیا قبلہ کا ادب کرتے ہوئے اس طرف پیر نہیں کرنا
چاہیے؟
جواب: قبلہ کی طرف پیر کرنا بے ادبی نہیں ہے اور کسی چیز
کو بے ادبی کہنے کے لیے دلیل چاہیے، اپنی مرضی سے کسی بات کو بے ادبی نہیں کہہ
سکتے ہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب اور پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف چہرہ یا
پیٹھ کرنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ آگے اور پیچھے دونوں جانب شرمگاہ ہے، یہ بھی اس
وقت منع ہے جب ہم حاجت پوری کر رہے ہوں جبکہ عام حالات میں قبلہ کی طرف چہرہ یا
پیٹھ کرنا ممنوع نہیں ہے۔
اور پیر سے متعلق شریعت میں کوئی مسئلہ نہیں، پہلے جواب
میں واضح طور پر میں نے بتایا دیا تھا کہ قبلہ کی طرف پیر کرنا منع نہیں ہے اور
اسی طرح یہ بھی بتایا گیا تھا کہ قبلہ کی طرف پیر کرکے سو سکتے ہیں یعنی سوال کا
جواب بالکل واضح تھا پھربھی یہ سوال کرنابلاضرورت معلوم ہوتا ہے۔
سوال: کیا نماز میں اپنی کسی پریشانی، غم یا دکھ میں رونا جائز ہے
یا اس سے نماز باطل ہو جاتی ہے یا صرف
اللہ کی خشیت میں رونا جائز ہے؟
جواب: نماز اللہ کی بندگی اور اس کی عبادت ہے لہذا نماز
پڑھتے ہوئے توجہ اللہ کی جانب ہونی چاہیے نہ کہ دنیاوی مسائل اور اپنی پریشانیوں
کی طرف، حدیث جبریل میں احسان کی تعریف کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر
فرمایا ہے کہ تم اللہ کی اس طرح عبادت کرو گویا کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو اور اگر
تم اس کو نہیں دیکھ سکتے تو یہ تصور کرو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔گویا ہمیں اسی
انداز میں اللہ رب العالمین کی بندگی کرنی چاہیے اوراگر نادانستہ طور پر نماز میں
کوئی خیال آجائے یا اپنی تکلیف یاد آجائے اور رو دے تو اس سے نماز پر اثر نہیں پڑے
گا لیکن ہماری ذمہ داری یہ ہو کہ ہم نماز میں اپنے مسائل کی طرف عمدا توجہ نہ کریں
بلکہ اللہ کی طرف متوجہ رہیں اور اللہ کی خشیت اور اس کے خوف سے اگر آنکھوں سے
آنسو جاری ہو جائے تو اس حالت میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
سوال: کیا شیعہ کے گھر کھانا کھانا مناسب
ہے؟
جواب:شیعہ کے گھر کا حلال
کھانا کھا سکتے ہیں لیکن اگر مذہبی رسومات کا کھانا ہو تو کھانا جائز نہیں ہے
اگرچہ وہ کھانا حلال ہی کیوں نہ ہو۔
سوال: ہم موبائل پر نعت سنتے ہیں تو کیا ہم نعت خوان کے ساتھ ساتھ
نعت کے اشعار دہرا سکتے ہیں جبکہ وہ نامحرم ہوتے ہیں، کیا یہ جائز ہے؟
جواب:مرد کی آواز سے آواز ملا کر نعتیہ اشعار پڑھنے میں
عورت کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ فقط آواز میں محرم اور غیر محرم کا کوئی
مسئلہ نہیں ہےیعنی ایک عورت محرم یا غیرمحرم کسی کی بھی آواز سن سکتی ہے اور اسے دہرا
سکتی ہے۔
سوال :ایک بہن کا سوال ہے کہ وہ پانچ ماہ
کے حمل سے ہیں، بچے کی نشونما ٹھیک نہیں ہے اور ان کو کبھی کبھی خون آتا ہے، ڈاکٹر
کہتے ہیں کہ بچے کے دل کی دھڑکن پیدا ہو جاتی ہے تو ٹھیک ورنہ اس بچے کو ضائع کر
دیا جائے گا۔ اس طرح بچہ ضائع کروایا جا سکتا ہے اگر اس کی نشو نما نہ ہو رہی
ہواورکیا ایسی صورت میں ان کو غسل کرکے نماز پڑھنی ہوگی یا پھر وضو کرنا کافی ہے
نماز پڑھنے کے لیے؟
جواب: کسی
ڈاکٹر کے کہنے کی وجہ سے ماں کے پیٹ کا بچہ اس بنیاد پر ضائع نہیں کیا جائے گا کہ
بچے میں کچھ نقص ہے یا اس میں نشونما کی کمی ہے۔ کیونکہ ان کی بات گمان اور اندازہ
پر مبنی ہے جبکہ بچے کے بارے میں یقینی
اورصحیح علم اللہ کے پاس ہے اس لئے ڈاکٹر کی اس طرح کی بات پر اعتماد نہیں کیا
جائے گا اور حمل ضائع نہیں کیا جائے گا۔ دکھ اور پریشانی زندگی کا حصہ ہے، انسان
جب زندہ ہوتا ہے تب بھی کبھی دکھ میں اور کبھی سکھ میں ہوتا ہے۔ کیا کسی پریشان
حال آدمی کو قتل کرنا جائز ہے یا کسی پاگل دیوانہ اور معذور آدمی کو قتل کر دینا
چاہیے کہ وہ تکلیف میں ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ ٹھیک یہی معاملہ ماں کے پیٹ کے بچے کا
ہے اللہ جس حال میں چاہے اس حال میں بچہ کو دنیا میں لائے گا۔ جب بچہ ماں کے پیٹ
میں فوت ہوجائے تو پھر آپریشن سے اسے نکالا جائے گا یا بچے کی وجہ سے ماں کی جان
کوخطرہ ہوتو ایسی صورت میں اسقاط حمل جائز ہےورنہ ظن وگمان کی وجہ سے بغیرعذر کے
زندہ بچے کا اسقاط جائز نہیں ہے۔
جب ہمیں معلوم ہوا کہ مذکورہ صورت میں حمل ضائع نہیں کر سکتے ہیں تو
غسل کرنے اور وضو کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ہے۔
سوال: آج كل ایک بات بہت زياده لوگوں میں
توجہ کا سبب بنی ہوئی ہے کہ ایک مزار سانس لے رہا ہے، اس صورت میں ہم اولیاء کے
بارے میں غلط عقیدہ نہیں رکھتے لیکن اس قبر کی سچائی دیکھنے کے بعد ادبا ان کااحترام کرنا چاہئے اور یہ کہاں تک سچی قبر
ہے؟
جواب: اس سوال کے تعلق سے
اپنے ذہن میں قبر پرستوں کا تصور پیدا کریں اور یہ دھیان رکھیں کہ قبروں پر مزار
بنانے والے، قبروں کو چومنے والے، قبروں پر سجدہ کرنے والے، قبروں پر چادر اور
مالا چڑھانے والے، اور مردوں سے مرادیں مانگنے والے بدعتی لوگ چونکہ قبروں کی
تجارت کرتے ہیں اس لئے آئے روز قبروں کے تعلق سے لوگوں میں جھوٹا قصہ بیان کرتے
رہتے ہیں۔اس طرح کے جھوٹے قصے کہانی بنانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ زیادہ سے
زیادہ اس کے مزار پر آئیں اور مزار کی دکانوں سے خرید و فروخت کریں اور مجاور بن
کر بیٹھے ہوئے لوگوں کو نذرانے پیش کریں۔
آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ قبروں کو پکی بنانا، ان پر
مزار تعمیر کرنا، وہاں پر مجاور بن کر بیٹھنا، وہاں پر میلہ ٹھیلہ لگانا اور اس
جگہ قوالی اور عرس قائم کرنا یہ سب حرام کام ہیں پھر بھی قبر پرست لوگ یہ سارے کام
،دین کے نام پر مال و دولت کمانے کے لئے کرتے ہیں۔
دنیا میں سب سے بڑے ایمان والوں کی قبریں مدینہ میں
موجود ہیں مگر کبھی آپ نے یہ نہیں سنا ہوگا کہ مدینہ کی قبر سانس لے رہی ہے یا
مدینہ کی قبر سے مردہ زندہ نکل آیا ہے یا میت کا کفن میلا نہیں ہوا ہے کیونکہ
مدینہ والے الحمدللہ توحید پرست ہیں۔
جتنے بھی قبروں کے کرشمے بیان کئے جاتے ہیں ، یہ سب
بدعتیوں کے مزارات کے ہیں اور یہ کرشمے ان کے خود ساختہ ہوتے ہیں یعنی یہ خود سے
ڈرامائی اور جادوئی طریقے سے کرشمے کرتے ہیں تاکہ لوگوں کے دل میں مزار کی عقیدت
پیدا کی جائے اور مال کمایا جائے۔ پاکستان کا ایک بدعتی بیان کر رہا تھا کہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں ہمارے گھر آئے تھے اور وہ جھوٹاشخص، نبی صلی اللہ
علیہ وسلم کے پیر کے نشان بھی لوگوں کو دکھا رہا تھا۔ گویا قبر پرستوں کے یہاں اس
طرح کی جھوٹی بات بیان کرنا پرانا رواج ہے یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ باباؤں، پیروں اور
ولیوں کے بارے میں اسی طرح کے جھوٹے جھوٹے کشف وکرامات بیان کرتےرہتے ہیں۔
میں نے وہ ویڈیو دیکھی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ قبر
سانس لے رہی ہے، اس ویڈیو کے بارے میں آپ سے میں یہی کہوں گا کہ آپ خود بھی وہاں
جا کر ایسا دیکھیں تو آپ سمجھیں کہ قبر
پرستوں کا یہ جھوٹا ڈرامہ ہے اور اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ ایک ٹی وی والے نے
کہا بھی ہے کہ کسی نے خود سے کوئی مشینری چیز رکھ کر اس طرح کی حرکت کی ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ اللہ رب العالمین اپنی قدرت سے زمین
میں کہیں بھی کرشمہ ظاہر کر سکتا ہے، یہ اللہ کی قدرت ہے لیکن کسی قبر یا بابا یا
مزار یا مزار والے کے بارے میں جھوٹے کرشمے پر کوئی اعتبار نہیں کریں۔
سوال: كیا پیدل مطاف کے اندر طواف کرنے
کا اجر و ثواب اور مسجد الحرام کی اوپری منزل پر سواری پر طواف کرنے کا اجر و ثواب
برابر ہوگا، ایک صحتمند شخص جو اپنے قدموں پر چلتا پھرتا ہے لیکن ضعیف والدین کو
سواری پر طواف کرواتے اکیلا نہیں چھوڑ سکتا
اور ان کے ساتھ ساتھ وہ بھی سواری پر طواف کرلے تو اس کے اجر و ثواب میں
کمی تو نہ ہو گی ان شاء اللہ؟
جواب: مطاف میں طواف کرنے یا اوپری منزل پر طواف کرنے،
ان دونوں صورتوں میں اجر میں کوئی فرق نہیں آئے گا کیونکہ دونوں ہی طواف کہلائے گا
البتہ یہاں ایک دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جو شخص خود صحت مند اور تندرست ہے اور اپنے
قدموں پر طواف کر سکتا ہے تو اس کے حق میں بہتر ہے کہ وہ بغیر سواری کے طواف کرے۔
بھلے وہ اوپری منزل پر طواف کرے لیکن قدموں سے طواف کرے۔ اور عبادت کے معاملے میں
واضح حدیث ہے کہ جس عبادت میں زیادہ تکلیف ہوتی ہے اس میں زیادہ اجر ملتا ہے یعنی
خود سے کوئی تکلیف مول نہیں لینی ہے لیکن نفس عبادت میں جو تکلیف ہوتی ہے اس تکلیف
پر اجر ملتا ہے۔
اس کے باوجود صحت مند کے لیے سواری پر طواف کرنا جائز
ہے مگر اس عمل کو افضل نہیں کہا جا سکتا۔
سوال:
کیا عقیقہ میں پانچ ماہ کا بکرا ذبح کر سکتے ہیں؟
جواب: عقیقہ کے لیے پانچ مہینے کا بکرا کافی نہیں ہے
بلکہ ضروری ہے کہ بکرا کم از کم ایک سال کا ہو اس سے کم کا نہ ہو۔
لہذا پانچ مہینے کے بکرا کو عقیقہ کے طور پر ذبح نہیں
کیا جائےگا۔
مزید اس مسئلے کو دلائل سے جاننے کے لیے میرا مضمون "عقیقہ میں جانور کی
عمر" کا مطالعہ کریں جو میرے بلاگ اور ٹیلی گرام چینل پر مل جائے گا۔
سوال:
میں اکثر بیمار رہتی ہوں اور میں جانتی ہوں کہ ذکر ویسے ہی کرنا چاہیے جیسے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے لیکن پھر بھی لوگ بتاتے ہیں کہ الم نشرح 21
مرتبہ پڑھا کریں، میرے خیال سے یہ طریقہ صحیح نہیں ہے لیکن کیا ہم اس سورت کو نماز
میں یا دن میں چلتے پھرتے کبھی اس کو پڑھ سکتے ہیں کیونکہ یہ بہترین سورت ہے؟
جواب: ذکر و اذکار کے تعلق سے سنت یہی ہے کہ جیسے نبی
صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے اسی طرح سے ہمیں ذکر کرنا چاہیے اور نہ کسی بیماری
کے لیے اپنی طرف سے کوئی ذکر خاص کرنا چاہیے اور نہ ہی ذکر کی تعداد اپنی طرف سے
خاص کرنا چاہیے ورنہ یہ دونوں عمل بدعت کہلائے گا۔
باقی آپ شفایابی کے لیے قرآن پڑھتے رہیں، ذکر کرتے
رہیں، درود پڑھیں اور اللہ سے دعائیں کرتے رہیں الحمدللہ اس میں کوئی حرج کی بات
نہیں ہے حتی کہ اپنی نماز میں الم نشرح بھی پڑھتے ہیں یا دن ورات میں کبھی بغیر
تخصیص کے بطور ذکرپڑھتے ہیں تو اس میں بھی کوئی حرج کی بات نہیں۔ حرج تب ہے جب آپ
اس سورت کو مخصوص کرکے اور مخصوص تعداد میں پڑھیں۔
سوال: اگر کوئی عورت شیعہ کی مسجد میں
ظہر کی نماز پڑھ لی تو کیا وہ گنہگار ہوگی؟
جواب: اگر کسی نے شیعہ کی مسجد میں نماز پڑھ لی ہو تو
وہ گنہگار نہیں ہے کیونکہ وہ بھی مسجد ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان
کیا کہ دنیا کی پوری سرزمین مسجد ہے لہذا ہم کسی بھی جگہ پر نماز پڑھ سکتے ہیں جو
پاک اور صاف ستھری ہو۔
لیکن چونکہ شیعہ کے عقائد برے ہیں اور ان کی مسجدوں میں
بہت ساری شرعی مخالفات پائی جاتی ہیں لہذا ہمیں ان کی مسجد میں نماز پڑھنے سے
پرہیز کرنا چاہیے، کسی نے پہلے پڑھ لیا تو کوئی مسئلہ نہیں آئندہ اس میں احتیاط
کرے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر کسی نے شیعہ امام کے پیچھے نماز
ادا کی ہے تو پھر اس کی نماز درست نہیں ہے کیونکہ شیعہ کے عقائد میں کفر و شرک
پایا جاتا ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔