Tuesday, January 14, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(39)


آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(39)

جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ- سعودی عرب


سوال:مقام الھدا اور السیل الکبیر جو طائف میں ہے، اگر کوئی ان میقات سے پہلے کسی ہوٹل میں رکے اور وہاں غسل کرکے احرام باندھ کر وہاں جاکر گزرتے ہوئے نیت کرے تو کیا یہ درست ہوگا جیسے کہ ہم فقہ کی کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ میقات سے آگے بغیر نیت کے نہیں گزر سکتے؟

جواب:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف اور اس راستے سے گزرنے والوں کے لیے جو میقات متعین فرمائی ہے وہ قرن المنازل ہے، اس کا نیا نام السیل الکبیر ہے۔

پہاڑی راستے الھدا میں رسول اللہ نے میقات متعین نہیں کی ہے اس لئے عمرہ کرنے والوں کو السیل سے احرام باندھنا چاہیے۔ الھدا، السیل الکبیر کے ٹھیک مقابل ہے اس لئے وہاں سے بعض لوگ احرام باندھتے ہیں پھر بھی صحیح یہ ہے کہ السیل سے احرام باندھیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی جگہ کو میقات متعین فرمایا ہے۔

اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ آپ ہوٹل میں ٹھہر کر وہاں غسل کرلیں اور احرام کا لباس لگالیں پھر میقات آئیں اور وہاں سے نیت کرلیں یعنی میقات پر ہی غسل کرنا کوئی ضروری نہیں ہے، ہوٹل میں بھی غسل کرکے احرام کا لباس لگاکر میقات سے گزرتے وقت اس کے پاس نیت کرسکتے ہیں۔

سوال: اگر کسی نے ایک دو دفعہ مقام الھدا سے عمرہ کے لئے نیت کی ہو تو کیا نیت ہو گئی ہوگی یعنی عمرہ صحیح ہوگا؟

جواب:الھدا کے راستے سے پہلے جو عمرہ کیا گیا اس کی صحت میں کوئی شک نہیں ہے، عمرہ اپنی جگہ درست اور صحیح ہے تاہم آئندہ اصل میقات سے احرام باندھنا چاہیے۔

سوال: اگر کوئی احرام ہوٹل میں باندھ کر سواری پر بیٹھ کر نیت وہیں کر لے اور میقات کے قریب سے گزر جائے تو کیا یہ ٹھیک ہوگا یا نیت بھی میقات پر ہی کرنی چائیے اور کیا اس کے لئے شرط ہے کہ گاڑی سے اترے میقات کی مسجد پر؟

جواب:نیت ہوٹل اور رہائش سے نہیں کرنا ہے بلکہ میقات کے قریب آکر کرنا ہے اور نیت کے لئے میقات کی مسجد میں جانا یا گاڑی سے اترنا ضروری نہیں ہے۔ گاڑی سے گزرتے وقت ٹھیک میقات کے پاس زبان سے "لبیک عمرۃ" کہتے ہوئے نیت کرلیں یہی کافی ہے۔

سوال: کیا سعی میں صفا و مردہ پر تین مرتبہ تکبیر کہنا ضروری ہے، اگر کوئی شروع میں (إن الصفا والمروة من شعائر الله) پڑھ لیتا ہے اور ہر بار ایک ایک مرتبہ تکبیر صفا یا مروی پر پہنچ کر پڑھتا ہے تو کیا یہ کافی ہوگا یا تین مرتبہ ہی پڑھنا چائیے اور عمرہ کے طریقہ میں جس دعا کا آپ نے ذکرکیا ہے، اگر کوئی نہ پڑھے تو کیا گناہگار ہوگا؟

جواب: آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج و عمرہ کا طریقہ معلوم کریں خصوصا صحیح مسلم(حدیث نمبر:1218) کی ایک طویل ترین حدیث دیکھیں، اس حدیث میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم طواف اور دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد صفا کی طرف گئے اور آیت پڑھی۔

"ان الصفا والمروة من شعائر الله".

پھر کہا۔"أبدأ بما بدأ الله به"۔

پھر آپ اونچائی پر چڑھے یہاں تک کہ آپ نے بیت اللہ دیکھ لیا اور آپ نے قبلہ کا استقبال کیا، اللہ کی وحدانیت بیان کی اور تکبیر کہی پھر اس کے بعد یہ کہا:

"لا اله الا الله وحده، لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير، لا اله الا الله وحده، انجز وعده ونصر عبده وهزم الاحزاب وحده".

یہ دعا آپ نے تین مرتبہ پڑھی اور اس کے درمیان آپ نے دعا کی۔

پھر آپ مروہ پر گئے اور آپ نے اسی طرح سے کیا جیسے آپ نے صفا پرکیا تھا۔

یہاں پر علماء یہ کہتے ہیں کہ قرآن کی آیت صرف صفا پر پہلی مرتبہ پڑھنا ہے، باقی مرتبہ صفا اور مروہ پر جس دعا کو نبی نے تین مرتبہ پڑھی ہے اس کو تین تین مرتبہ پڑھیں گے اور درمیان میں مزید دعا کریں گے لہذا ٹھیک اسی طرح ہمیں بھی صفا و مروہ کی سعی میں عمل کرنا چاہیے۔
کوئی سعی میں دعا بھول جائے یا دعا کم ہو جائے یا دعا زیادہ ہو جائے اس کی وجہ سے آدمی گنہگار نہیں ہوگا تاہم ہمیں سنت کی پابندی کرنی چاہیے۔

سوال: مکہ میں مسجد جعرانہ ہے، کیا یہ ایک میقات بھی ہے، یہاں سے کون لوگ احرام باندھ سکتے ہیں، کیا جدہ والے یہاں احرام باندھ سکتے ہیں، یہاں سے احرام باندھنے کی کوئی فضیلت ہے، ایسا سننے میں آیا ہے کہ یہاں سے احرام باندھ کر عمرہ کرنے سے بڑا عمرہ ہوتا ہے.کیا یہ درست ہے؟

جواب:پہلی بات تو یہ ہے کہ دنیا والوں کے لیے میقات پانچ ہے، جو سب کو معلوم ہے، اس کے علاوہ کوئی دوسری میقات نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جدہ والے اپنی رہائش سے ہی احرام باندھیں گے، ورنہ اسے دم لگے گا۔ تیسری بات یہ ہے کہ جو مکہ والے ہیں وہ حدودِ حرم سے باہر نکل کر کسی بھی جگہ سے احرام باندھ سکتے ہیں خواہ مسجد عائشہ ہو، جعرانہ ہو، تنعیم ہو یا عرفات ہو اور آخری بات یہ ہے کہ جعرانہ سے احرام باندھنے کی کوئی خصوصی فضیلت نہیں ہے اور نہ یہاں سے احرام باندھنا بڑا عمرہ کہلاتا ہے۔ معلوم رہے کہ جعرانہ حدود حرم سے باہر کا حصہ ہے، یہ میقات نہیں ہے البتہ حدود حرم میں رہنے والے عمرہ کرنے کے واسطے جعرانہ سے احرام باندھ سکتے ہیں۔

سوال: ایک آدمی نے صحیح مسلم کی ایک حدیث کے حوالے سے کہا ہے کہ جمائی کے وقت منہ پر ہاتھ رکھ کر أعوذ بالله من الشيطان الرجيم پڑھنا مسنون ہے۔ کیا یہ بات درست ہے؟

جواب: صحیح مسلم کے حوالے سے جو بات کہی گئی ہے کہ جمائی کے دوران اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھنا مسنون ہے، یہ بات صحیح نہیں ہے کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے اور جس بات کی دلیل ملتی ہے اس میں صرف اتنی بات ہے کہ جمائی شیطان کی طرف سے ہے۔ اگر کسی کو جمائی آئے تو روکنے کی کوشش کرے یا اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لے کیونکہ شیطان اندر داخل ہو سکتا ہے، صحیح مسلم 2994، اور 2995 میں یہی بات ہے۔

اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جمائی کے وقت تعوذ پڑھ لیں لیکن اس کو مسنون کہنا غلط ہے کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔

سوال: کیا موت سے پہلے آدمی کو روح قبض کرنے والے فرشتے نظر آتے ہیں؟

جواب: اہل علم نے قرآن و حدیث اور متعدد آثار کی روشنی میں کہا ہے کہ موت کے وقت مومن اور کافر کو فرشتے نظر آتے ہیں۔ موت کے وقت مومن کے پاس رحمت کے فرشتے آتے ہیں اور کافر کے پاس عذاب کے فرشتے آتے ہیں۔

سوال:میزان بینک دعوی کرتا ہے کہ وہ انٹرسٹ فری مختلف چیزیں قسطوں پہ دیتے ہیں، کیا وہ لینا جائز ہے اور کیا شیئرز میں انوسٹ کرنا جائز ہے؟

جواب:سب سے پہلی بات یہ ہے کہ میزان بینک شرعی اصول پر قائم نہیں ہے اس لئے اس بینک سے معاملہ کرنا یا اس کا منافع لینا جائز نہیں ہے۔

قسطوں کا کاروبار سودی بینک کے ذریعہ تو کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے، بینک سے ہٹ کر بھی عام دکانوں سے قسطوں پر سامان لینا اس طور پر کہ نقد کے مقابلے میں قسطوں کا پیسہ زیادہ ہو تو یہ جائز نہیں ہے۔ مزیدبرآں قسطوں کے کاروبار میں عموماً تاخیر پر مالی جرمانہ لگایا جاتا ہے، اگر یہ بات معاہدہ میں شامل ہو تو ایسے کاروبار کو کوئی بھی عالم جائز نہیں قرار دیتا۔

آج کل جو شیئر بازار چلتے ہیں عام طور سے اس میں سود، جوا اور فریب شامل ہوتا ہے اس لئے شیئر بازار کے کاروبار سے اپنے آپ کو دور رکھیں۔ الحمدللہ ہزاروں حلال تجارتیں ہیں ان میں اپنا پیسہ لگائیں۔

سوال:جو لوگ عمرہ کرنے آتے ہیں اور جب وہ عمرہ کرلیتے ہیں تو پھر وہ مدینہ جاتے ہیں۔ اگر واپسی پر احرام نہیں باندھا تو کیا ان کو کفارہ دینا ہوگا؟

جواب: پہلی بات یہ ہے کہ جو لوگ عمرہ پر آتے ہیں، اگر وہ عمرہ کرکے اپنے ملک واپس لوٹ جائیں تب بھی ان کا عمرہ درست ہے، انہیں مدینہ جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے یعنی مدینہ کی زیارت کا عمرہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ جو عمرہ پر آئے اور مسجد نبوی کی زیارت کے لیے جائے، اس کو مکہ واپس آنے پر دوبارہ عمرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ اس کی اپنی مرضی پر منحصر ہے، اگر عمرہ کرنا چاہے تو مدینہ کی میقات سے عمرہ کا احرام باندھ سکتا ہے اور عمرہ نہیں کرنا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مدینہ سے احرام باندھ کر ہی واپس آنا پڑے گا ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔

سوال:جو مرد کالج و یونیورسٹی میں بچیوں کو پڑھاتے ہیں کیا یہ جائز ہے اور کیا یہ روحانی باپ ہوسکتے ہیں؟

جواب:آج کل عموماً کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم کا جو طریقہ رائج ہے وہ غیر شرعی ہے۔ شرعی طور پر کسی بھی لڑکی کے لئے لڑکوں والی جگہ میں تعلیم حاصل کرنا جائز نہیں ہے، نہ ہی کسی مرد کے لئے لڑکے اور لڑکی والی جگہ پہ تعلیم دینا جائز ہے یعنی اسلام میں مرد و عورت کا ایک ساتھ مل کر تعلیم حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔ ایسی جگہ پڑھانے والے جو غیر شرعی کام کرتے ہیں، وہ روحانی باپ کہاں سے ہو سکتے ہیں؟

سوال:اذان میں محمد رسول اللہ آتا ہے، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے بھی یہی اذان دی جاتی تھی یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آتا تھا؟

جواب: بعثت نبوی سے پہلے اذان کا تصور نہیں تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ آئے اور مسلمانوں کو نماز کے لئے بلانے کی ضرورت پڑی پھر جاکر اذان کا اعلان ہوا، اس بارےمیں ایک حدیث دیکھیں۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: جب مسلمان مدینہ آئے تو وہ اکٹھے ہو جاتے اور نمازوں کے اوقات کا انتظار کرتے، کوئی اس کا اعلان نہیں کرتا تھا۔ ایک دن انہوں نے اس کے بارے میں گفتگو کی تو بعض نے کہا: عیسائیوں کے گھنٹے کے مانند ایک گھنٹا لے لو اور بعض نے کہا: یہود کے قرنا جیسا قرنا، البتہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم ایک آدمی ہی کیوں نہیں بھیج دیتے جو نماز کا اعلان کرے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بلال! اٹھو اور نماز کا اعلان کرو۔( صحیح مسلم:837)

سوال: سورہ بقرہ اور آل عمران بڑی بڑی سورتیں ہیں، انہیں روز کیسے پورا پڑھنا ہے جیساکہ ہم حدیث میں سنتے ہیں کہ ان دونوں سورتوں کے پڑھنے والوں کو یہ سورت اللہ سے جھگڑ کر جنت میں داخل کرائے گی؟

جواب: قرآن و حدیث میں ایسا کوئی حکم نہیں ہے کہ آپ کو روزانہ سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران پڑھنا ہے۔ آپ اپنی آسانی کے حساب سے قرآن کی تلاوت شروع قرآن سے کرتے رہیں اور کسی مخصوص حاجت و ضرورت کے لئے اپنی جانب سے کوئی سورت مخصوص کرکے صرف اس کی تلاوت کرنا جائز نہیں ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران کی فضیلت میں کئی صحیح احادیث آتی ہیں لیکن جس بات کو آپ نے پوچھا ہے کہ ان دونوں سورتوں کے پڑھنے والے کو یہ سورتیں جھگڑ کر جنت میں داخل کرائیں گی، ایسی کوئی صحیح حدیث میرے علم میں نہیں ہے۔ ان دونوں سورتوں کی فضیلت سے متعلق ایک صحیح حدیث، صحیح مسلم میں اس طرح سے آتی ہے۔

حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انھوں کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا:

اقرَؤوا القُرآنَ فإنَّه يأتي يومَ القيامةِ شفيعًا لأصحابِه اقرَؤوا الزَّهْرَاوَيْنِ سورةَ البقرةِ وسورةَ آلِ عِمْرانَ فإنَّهما يأتيانِ يومَ القيامةِ كأنَّهما غَمَامَتَانِ أو غَيَايَتَانِ أو كأنَّهما فِرْقَانِ مِن طيرٍ صَوَافَّ تُحاجَّانِ عن أصحابِهما اقرَؤوا سورةَ البقرةِ فإنَّ أَخْذَها بركةٌ وتَرْكَها حَسرةٌ ولا يستطيعُها البَطَلَةُ(صحیح مسلم:804)

ترجمہ:قرآن پڑھو اس لئے کہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کا سفارشی ہو کر آئے گا اور دو سر سبز و شاداب سورتوں یعنی سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران کو پڑھتے رہو، اس لئے کہ وہ میدان قیامت میں اپنے پڑھنے والوں کی طرف حجت کرتی ہوئی آئیں گی گویا کہ وہ دو بادل ہیں یا دو سائبان یا دو کڑیاں اڑتے چڑیوں کی۔ اور سورۂ بقرہ پڑھتے رہنا کیونکہ اس کا پڑھنا برکت ہے اور چھوڑنا حسرت اور جادو گر لوگ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔

سوال:صحیح بخاری میں کتاب استتابۃ المعاندین والمرتدین حدیث نمبر 6939 میں ہم نے پڑھا کہ حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے اھل مکہ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ آنے کی خبر دی تھی۔ جس عورت کے ہاتھ خط بھجوایا جب اس کی تلاشی لی گئی تو اس نے اپنی کمر جس میں ایک چادر سے باندھ رکھی تھی وھاں سے خط نکال کر دیا جبکہ یہی واقعہ اس سے پہلے پڑھا، صحیح بخاری کے ایک باب میں وہاں یہ ہے کہ اس نے اپنے سر کے جوڑے میں خط چھپا رکھا تھا، کیا یہ دو الگ الگ واقعات ھوئے تھے؟

جواب:یہ ایک ہی واقعہ ہے جسے مختلف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ خط نکالنے کی جگہ سے متعلق صحیح بخاری میں کئی روایات ملتی ہیں بلکہ ان دونوں مفہوم والی روایات بھی ہیں جن کی طرف سوال میں اشارہ کیا گیا ہے۔

صحیح بخاری (3007) میں یہ الفاظ ہیں۔(فاخرجته من عقاصها)

ترجمہ: اس پر اس نے اپنی گندھی ہوئی چوٹی کے اندر سے خط نکال کر دیا۔

حدیث نمبر (3081) کے الفاظ ہیں۔

(فاخرجت من حجزتها)

ترجمہ: اس نے خط اپنے نیفے میں سے نکال کر دیا۔

اور حدیث نمبر(3983) کے الفاظ ہیں۔

(فلما رات الجد اهوت إلى حجزتها وهي محتجزة بكساء فاخرجته)

ترجمہ: جب اس نے ہمارا یہ سخت رویہ دیکھا تو ازار باندھنے کی جگہ کی طرف اپنا ہاتھ لے گئی وہ ایک چادر میں لپٹی ہوئی تھی اور اس نے خط نکال کر ہم کو دے دیا۔

حدیث نمبر(6939) کے الفاظ ہیں۔

(فاهوت إلى حجزتها وهي محتجزة بكساء، فاخرجت الصحيفة)

ترجمہ: اب وہ عورت اپنے نیفے کی طرف جھکی اس نے ایک چادر کمر پر باندھ رکھی تھی اور خط نکالا۔

سارے الفاظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خط بال اور کمر کے پاس سے نکالا گیا، اس کا مطلب ہے بالوں کی چوٹی کمر کے پاس چھپائی گئی تھی جس میں خط موجود تھا اسی کیفیت کو حدیث میں کہیں پر بالوں سے خط نکالنے کا ذکر ہے تو کہیں کمر کے پاس چادر اور ازار سے نکالنے کا ذکر ہے۔

سوال:کیا لڑکی کا نام اقرا رکھ سکتے ہیں، ایک شیخ کہہ رہے ہیں کہ اقرا فعل کے طور پر قرآن مجید میں آیا ہے تو فعل کو اسم کے طور پر استعمال نہیں کرسکتے، کیا یہ بات درست ہے؟

جواب:جس نے یہ بات کہی ہے ان کی بات درست ہے۔ اقرا فعل ہے جبکہ نام رکھنے کے لئے اسم چاہیے، فعل نہیں چاہیے۔ اور وہ بھی مذکر کے لیے استعمال ہونے والا فعل ہے جبکہ اپنے یہاں لڑکیوں کے لئے یہ نام رکھا جاتا ہے۔

بہرکیف! اقرا نام لڑکیوں کے لئے یا لڑکوں کے لیے رکھنا صحیح نہیں ہے۔

سوال: اوپن یونیورسٹی میں زیادہ تر کلاس آن لائن ہوتی ہے جیسے بی اے، بی ایڈ، ایم ایڈ۔ کچھ طالب کو دور دراز علاقوں میں ہونے کی وجہ سے سگنل کے مسائل ہونے کی وجہ سے کلاس نہیں لے پاتے یا کسی کو لینی نہیں آتی یا کچھ شادی شدہ خواتین مصروفیت کی وجہ سے خود سے کلاس نہیں لے پاتیں اور یہ کام کوئی متفرغ آدمی ہو ان کی کلاس اٹئنڈ کردے تو کلاس اٹینڈ کرنے کی اجرت لی جاتی ہے۔ اس طرح آن لائن کلاس یا کوئز وغیرہ حل کرکے پیسے کمانا جائز ہوگا یا نہیں؟

جواب:دوسروں کے لئے آن لائن کلاس اٹینڈ کرنا اور اس پہ پیسہ لینا جائز نہیں ہے، اسی طرح کسی دوسرے کے لئے کوئز کے سوالات حل کر دینا اور اس کا پیسہ لینا جائز نہیں ہے۔ اس معاملہ میں دونوں آدمی گنہگار ہوں گے، ایک وہ جو یہ کام کروا رہا ہے اور ایک وہ جو یہ کام کر رہا ہے، یہ دونوں آدمی ادارہ کی نظر میں مجرم ہیں۔ اس وجہ سے کسی کو بھی اپنے آنلائن کلاس اٹینڈ کروانے کے لئے نہ آدمی متعین کرنا چاہیے اور نہ اسے پیسہ دینا چاہیے۔ نہ ہی کسی کو منافع کمانے کے لیے ایسا عمل انجام دینا چاہیے۔

جو تعلیم حاصل کر رہا ہے کلاس جوائن کرنا اس کی ذمہ داری اور اس کا کام ہے اور اس معاملے میں کوئی عذر اور کوئی مجبوری نہیں دیکھی جائے گی۔

جس کسی کو تعلیم حاصل کرنا ہے اور اس کے لئے جس طرح تعلیم حاصل کرنا آسان ہے اسی طرح تعلیم حاصل کرے اور تعلیم کا وہ طریقہ جو اس کے لئے مشکل ہے یعنی اس طریقہ پر اس کے لئے کلاس اٹینڈ کرنا مشکل ہے جبکہ کلاس اٹینڈ کرنا اس کے لیے ضروری ہو تو حصول تعلیم کے لیے ایسا طریقہ اختیار نہ کرے۔

سوال:ایک خاتون ہر نماز خواہ جہری ہو یا سری سنت ہو یا نفل، بلند آواز سے نماز پڑھتی ہے، اس وجہ سے کہ نماز سے دھیان نہ ہٹے۔ وہ پوچھتی ہے کہ کیا ایسا کرنے سے نماز میں فرق آئےگا؟

جواب:کوئی عورت نماز میں اپنی مرضی چلائے گی تو نماز پر فرق تو آئے گا۔ نماز اللہ کی بندگی ہے، اس بندگی کو اسی طرف انجام دینا ہے جیسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انجام دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ تم اسی طرح نماز پڑھو جیسے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔ لہذا کسی خاتون کا سری نمازوں کی قرات بلند آواز میں کرنا جائز نہیں ہے، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی صریح مخالفت ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ جب کسی کو دین کے کسی مسئلہ کا علم نہ ہو تو پہلے عالم دین سے اس مسئلہ کےبارے میں رہنمائی حاصل کرے پھر اس پر عمل کرے جبکہ یہاں پر ایک خاتون اپنی مرضی سے عمل کر رہی ہے اور بعد میں مسئلہ پوچھ رہی ہے، ان کا یہ طریقہ بالکل غلط ہے۔

سوال: شادی شدہ لڑکے پہ والدین سے پہلے بیوی بچوں کی ذمہ داری ہے یا والدین کی ذمہ داری ہے؟

جواب: ایک مرد پر جہاں اس کی اولاد اور بیوی کی ذمہ داری ہے، وہیں اس کے والدین کی بھی ذمہ داری ہے۔ اس میں پہلے اور دوسرے نمبر کا سوال نہیں ہے، یہ ساری ذمہ داری مرد کی ہے اور ایک ساتھ ہے، الگ الگ نہیں ہے بلکہ دیکھا جائے تو خدمت کے معاملہ میں والدین کا مقام سب سے اونچا ہے اور اس میں بھی والدہ کا مقام والد سے کہیں زیادہ ہے۔ ان ساری باتوں کے باوجود ایک مرد اپنے گھر کے ان سارے افراد کا ایک ساتھ ذمہ دار ہے۔

سوال: میں تہجد نماز پڑھ رہی تھی۔ نماز پڑھ کر پھر قرآن پڑھ کر تھوڑی دیر کے لئے آرام کررہی تھی، ریلکس کے لئے آنکھ بند کیا تو میرے سر پر یکبارگی کسی نے دوبار ہاتھ پھیرا جیسے شاباشی دیتے ہوئے پھر میں چونک گئی کہ کوئی ہے لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ ایسا کیوں ہوا اور اس کا مطلب کیا ہے؟

جواب:ممکن ہو آپ کی آنکھ لگ گئی ہو اور آپ نے خواب میں ایسا دیکھا ہو مگر لگتا ہو کہ آپ سوئے نہیں تھے، صرف آنکھ بند کی تھی۔ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے آپ سوئے ہوتے ہیں مگر لگتا ہے آپ جاگ رہے ہیں۔ مجھے زیادہ گمان ہے آپ نے نیند میں ایسا دیکھا ہوگا۔ اور اگر جاگ بھی رہے ہوں تو اکیلے میں آدمی کو وہم بھی ہوجاتا ہے خصوصاً عورتوں کو رات میں اور اکیلے میں زیادہ وہم ہوتا ہے۔ نیز جن و شیاطین بھی ایک مخلوق ہے جسے ہم نہیں دیکھ پاتے ہیں مگر وہ ہمیں دیکھتی ہے اور ہمارے آس پاس بھی ہوتی ہے۔

خیر معاملہ کچھ بھی ہو اسے زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس سے نہ ثواب میں اضافہ ہوگا اور نہ ہی گناہ ملے گا، آپ جو نیک کام کر رہے ہیں اس کا آپ کو یقینا بہتر بدلہ ملے گا لہذا آپ وہ کام جاری رکھیں۔

سوال: جس طرح کانوں میں اور ناک میں سوراخ کرکے زیورات پہنے جاتے ہیں ایسے ہی ہاتھ پر بھی عورتیں سوراخ کروارہی ہیں، کیا اس طرح کرنا اسلام میں جائز و حلال ہے؟

جواب:عورتوں کے لئے مباح زینت کا استعمال جائز ہے لیکن زینت کے استعمال کے لئے اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کرنا جائز نہیں ہے۔ جیسے داغ کر جسم میں خوبصورتی لانا یا جسم میں چیر پھاڑ کرکے خوبصورتی پیدا کرنا جائز نہیں ہے، اسلام نے جسم کو چیر پھاڑ سے منع کیا ہے۔

عہد رسول کی خواتین کے بارے میں کان کی بالیوں کا ذکر ملتا ہے اس بنیاد پر عورتوں کا کان چھیدنا جائز ہے، اسی طرح ناک چھیدنے سے متعلق بھی بعض علماء جواز کا فتویٰ دیتے ہیں جبکہ بعض علماء اس سے منع بھی کرتے ہیں۔

ناک و کان کے علاوہ عورت کے لئے بطور زینت جسم کے کسی حصے کو کاٹنا یا سوراخ کرکے اس میں کچھ پہننا جائز نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اللہ نے جسم کو چیر پھاڑ سے منع فرمایا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس میں فاحشہ عورت کی مشابہت ہے کیونکہ اس طرح کا عمل بے حیا اور فاحشہ عورت میں پایا جاتا ہے، پاکباز اور باحیا عورت کبھی ایسا کام نہیں کرے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ اسی میں سے ہے۔

سوال:عمرہ کے بعد ایک خاتون حائضہ ہوگئی اور اس کے خاوند بیمار تھے۔ نماز کے لئے اسے شوہر کے ساتھ مسجد حرام جانا پڑا لیکن وہ پیچھے بیٹھی رہی، کیا اس پر گناہ یا کوئی کفارہ ہے؟

جواب:مسجد حرام کے صحن میں حائضہ عورت کے بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس میں کوئی گناہ نہیں ہے البتہ حائضہ عورت کے لئے مسجد حرام کے گیٹ کے اندر جانا اور وہاں ٹھہرنا جائز نہیں ہے۔

سوال: حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ننانوے نام جو اکثر قرآن مجید کے آخر میں لکھے ہوتے ہیں، ان کے متعلق میں یہ جاننا چاہتی ہوں کیا یہ نام پڑھ سکتی ہوں، کیا یہ نام صحیح ہیں، کیا واقعی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ تعالی کی طرح ننانوے نام ہیں اور اگر کوئی ان کو پڑھے تو وہ گنہگار ہوگا؟

جواب:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرح کے ننانوے نام آپ کو انڈیا و پاکستان یا بدعتی لوگوں کے یہاں ملیں گے لیکن جو ہمارے سلف ہیں یا جو توحید والے اور قرآن و سنت پر عمل کرنے والے ہیں، ان کے یہاں قرآن میں یہ ننانوے نام ہرگز نہیں ملیں گے۔ سعودی عرب سے زیادہ دنیا میں کہیں بھی اتنا قرآن نہ چھپتا ہے، نہ سعودی عرب سے زیادہ کہیں قرآن تقسیم ہوتا ہے اور قرآن نازل بھی سعودی عرب ہی میں ہوا ہے لیکن آپ کو یہاں کسی قرآن میں اس طرح کے نام نہیں ملیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سارے نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ثابت نہیں ہے۔ نیز سعودی عرب کی فتوی کمیٹی لجنہ دائمہ کا یہ فتوی ہے کہ "مذکورہ ناموں کو قرآن مجید کے آغاز میں یا آخر میں تحریر کرنا ناجائز ہے۔ قرآن مجید کو ہر طرح غیر قرآن کے اضافہ سے خالی رکھا جائے جیساکہ اسلاف کرام رضی اللہ عنہم سے مشهور ہے تاکہ قرآن کریم کو کسی قسم کے اضافے وآمیزش سے محفوظ رکھا جاسکے"۔

لہذا اس طرح کا قرآن آپ خریدیں ہی نہیں اور اگر کسی کے گھر میں ہے تو ان ناموں کو پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر کوئی پڑھے بھی تو اس کو کوئی ثواب نہیں ملے گا البتہ سنت سمجھ کر اس پر عمل کرنے سے اس کو گناہ ضرور ملے گا۔

سوال: ایک لڑکی اپنے نکاح پر حق مہر میں پیسوں کی جگہ یہ رکھوانا چاہ رہی ہے کہ اس کا شوہر دوسری شادی اس کی زندگی میں نہ کرے۔ کیا ایسا حق مہر رکھوانا جائز ہے؟

جواب:چونکہ اللہ تعالی نے مرد کو چار شادی کرنے کی اجازت دی ہے اس وجہ سے کسی عورت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنی شادی میں اللہ کی طرف سے ملے ہوئے حق سے مرد کو روک سکے۔

دوسری بات یہ ہے کہ شوہر کو دوسری شادی سے روکنا، یہ مہر نہیں ہے۔ مہر کسی چیز کا نام ہے جو نفع اور قیمت بن سکے جیسے روپیہ پیسہ اور سامان وغیرہ لہذا اس لڑکی کو چاہیے کہ اپنی شادی میں سنت کے مطابق مہر طے کرے یعنی روپئے پیسے اور مہر کے طور پر معاشرے میں رائج سامان وغیرہ۔

سوال:ایک ماں کا بچہ ابھی ایک سال، چار ماہ کا ہے، اس کا دودھ چھڑوا دیا تھا کیونکہ اگلا بچہ پیدا ہونے والا ہوگیا لیکن جو بچہ پیدا ہوا اس کی وفات ہوگئی اور بڑا بیٹا ابھی ایک سال چار ماہ کا ہے، کیا ماں اس بیٹے کو دودھ پلاسکتی ہے؟

جواب:دودھ پلانے کی مکمل مدت یعنی کامل مدت رضاعت، اللہ کی طرف سے دو سال متعین ہے اور چونکہ بڑے بچے کی عمر ابھی ایک سال اور چار ماہ ہے۔ اس حساب سے مدت رضاعت ابھی باقی ہے لہذا ماں اپنے بچے کو باقی بچے آٹھ مہینے مزید دودھ پلا سکتی ہے، اس میں بالکل بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال: عصر کی نماز کی سنت کو ادا کرنے کے بعد فرض ادا کئے، نماز کے بعد اذکار پڑھے اور پھر بے خیالی میں دو سنتوں کی نیت باندھ لی، دوسری رکعت میں ایک دم خیال آیا کہ یہ ظہر نہیں، عصر کا وقت ہے اور اب نفل/ سنت نہیں پڑھ سکتے تو گھبرا کر نیت توڑ دی۔ آپ کی رہنمائی چاہیے کہ ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے تھا اور اب نیت توڑنے کا کیا کوئی کفارہ ہے؟

جواب:عصر کی نماز سے پہلے اور اس کے بعد کوئی سنت مؤکدہ نہیں ہے البتہ فرض نماز سے پہلے چار رکعت نوافل ادا کرسکتے ہیں اور عصر کی نماز کے بعد بھی دو رکعت مزید نوافل ادا کر سکتے ہیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:

كان لا يَدَعُ ركعتيْنِ قبلَ الفجرِ، وركعتيْنِ بعدَ العَصْرِ( السلسلة الصحيحة:3174)

ترجمہ:بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فجر سے پہلے دورکعتیں اور عصر کے بعد دورکعتیں نہیں چھوڑ تے تھے۔

اس لئے اس میں کوئی مسئلہ نہیں تھا، آپ نے نیت باندھ لی تھی تو دو رکعت نفل نماز مکمل کرلیتے اور علم نہ ہونے کی وجہ سے نماز توڑ دئے تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے اور اس میں کوئی کفارے والی بات نہیں ہے۔

سوال:اگر بیوی شوہر کی کسی بات سے ناراض ہو تو وہ اپنا غصہ اور ناراضگی کس طرح ظاہر کرے؟

جواب:اگر بیوی کو شوہر کی کسی بات سے تکلیف پہنچے تو اسے احسن انداز میں نصیحت کر دے کہ مجھے فلاں بات سے تکلیف پہنچی ہے یا آپ کا فلاں عمل درست نہیں ہے۔ یاد رکھیں کہ اللہ تعالی غصہ نرم کرنے والے کو، غلطی کرنے والے کے ساتھ معاف کرنے والے کو اور برائی کرنے والے کے ساتھ احسان کرنے کو پسند کرتا ہے لہذا ایک مثالی بیوی کا کردار یہ ہے کہ شوہر سے کسی بات پر ناراضگی اور تکلیف پہنچے ہو تو اس سے ناراض ہونے کی بجائے غصہ پی جائے اور شوہر کو درگزر کردے، اللہ تعالی فرماتا ہے:

وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ، الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (آل عمران: 133-134)

ترجمہ: اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اُس جنّت کی طرف دوڑو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جو پرہیزگاروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔ جو لوگ آسانی میں اور سختی کے موقع پر بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، غصّہ پینے والے اور لوگوں سے در گُزر کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے۔

البتہ جہاں شوہر کی غلطی پر تنبیہ کی ضرورت ہو تو وہاں اس کی غلطی پر ضرور بتائیں کہ یہ آپ کی غلطی ہے، ایسا آپ کو نہیں کرنا چاہیے۔

سوال: کسی نے کہا ہے کہ جہنم کی شکل جانور کی طرح ہوگی اسے ستر ہزار فرشتوں کے ذریعہ کھیچ کرلایا جائے گا ، کیا ایسی کوئی بات ہے؟

جواب: یہ بات کسی حدیث میں نہیں ہے کہ جہنم جانور کی شکل میں ہوگی البتہ یہ بات متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ قیامت کے دن جہنم کو سترہزار لگامیں ہوں گی اور ہر لگام کے ساتھ سترہزار فرشتے ہوں گے جو اسے کھینچ رہے ہوں گے چنانچہ حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

يُؤْتَى بِجَهَنَّمَ يَوْمَئِذٍ لَهَا سَبْعُونَ أَلْفَ زِمَامٍ مَعَ كُلِّ زِمَامٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ يَجُرُّونَهَا(صحیح مسلم:2842)

ترجمہ: اس (قیامت کے) روز جہنم کو لایا جائے گا، اس کی ستر ہزار لگامیں ہوں گی، ہر کام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے جو اسے کھینچ رہے ہوں گے۔

جہنم لائے جانے کا ذکر قرآن میں بھی اس طرح مذکور ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے:

وَجِيءَ يَوْمَئِذٍ بِجَهَنَّمَ ۚ يَوْمَئِذٍ يَتَذَكَّرُ الْإِنسَانُ وَأَنَّىٰ لَهُ الذِّكْرَىٰ (الفجر:23)

ترجمہ:اور اس دن جہنم کو لایا جائے گا، اس دن انسان نصیحت حاصل کرے گا اور ( اس وقت) اس کے لیے نصیحت کہاں۔

سوال: اپنے رشتہ دار میں ایک عورت کو چوٹ لگی تھی اور بہت غریب تھی اس وجہ سے ہم لوگوں نے اس کے لئے 4500 روپئے جمع کئے لیکن ہم نے اسے صرف 1000روپئے ہی دئے کیونکہ سارے پیسے ضائع کردیتی اور اپنا بہترین علاج نہیں کراتی اس لئے ہم نے آدھا آدھا پیسہ دینے کو سوچا تھا لیکن اس کی چوٹ اب ٹھیک ہوگئی تو کیا اب ان بچے پیسوں کو انہیں کو دینا ہوگا یا پھر کسی دوسرے ضرورت مند کو دے دیا جائے؟

جواب:اصل میں جب کسی آدمی کے لئے پیسہ جمع کیا گیا تو بلاتاخیر اس آدمی کو جمع شدہ رقم دے دینا چاہیے اور اگر یہ خطرہ تھا کہ پیسہ ضائع کر دے گا تو خود سے اس کا علاج کرانا چاہیے یعنی اسے ہاسپٹل لے جاکر فیس اور دوا وغیرہ خود سے دلانا چاہیے مگر ظاہری طور پر یہاں کوتاہی نظر آتی ہے۔

اب جس کے لئے پیسہ جمع کیا گیا تھا اس سے پوچھا جائے کہ حقیقت میں اس کے علاج میں کتنا پیسہ خرچ ہوا ہے۔ اس کے خرچ کے حساب سے اسے پیسہ دیا جائے اور پھر بھی پیسہ باقی بچ جائے تو دوسرے ضرورت مند کو دیا جاسکتا ہے۔

سوال: کیا دو سجدوں کے بیچ انگلی سے اشارہ کریں گے، جس طرح تشھد میں کرتے ہیں؟

جواب:دو سجدوں کے بیچ میں انگلی سے اشارہ کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ انگلی کو حرکت دینا صرف تشہد میں ہے، اس کے علاوہ نہیں اس لیے دو سجدوں کے درمیان انگلی کو حرکت نہیں دیں گے، یہاں پر دوسجدوں کے درمیان والی دعا پڑھنے پر اکتفا کریں گے۔

سوال: میرے پیٹ میں پانچ ماہ کا بچہ وفات پایا گیا تھا اسے آپریشن کے ذریعہ نکالا گیا، اب بیس دن ہوگئے ہیں، خون بند ہے، کیا نماز پڑھ سکتی ہوں، بعض لوگ کہتے ہیں کہ چالیس دن مکمل کرنا ہوگا اور کیا بچے کا نام بھی رکھا جائے گا؟

جواب: اگر اس وقت خون نہیں آرہا ہے تو نفاس سے پاکی حاصل ہوگئی ہے۔ آپ غسل کرکے نماز شروع کریں گے کیونکہ نفاس کی حالت میں عورت جب بھی پاک ہو جائے چالیس دن سے پہلے،اسے غسل کرکے نماز کی پابندی کرنی ہوتی ہے۔

جہاں تک نام رکھنے کا مسئلہ ہے تو جو بچہ آپریشن سے مردہ حالت میں نکالا گیا ہے، اس کا نام نہیں رکھا جائے گا۔ نام اصل میں اس بچے کا رکھا جاتا ہے جو ساتویں دن زندہ رہتا ہے اور نام کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اسے لوگ اس کے نام سے پکارتے ہیں۔ جو بچہ دنیا ہی میں نہیں رہا تو اس کو پکارنے کی ضرورت ہی نہیں ہے پھر اس کا نام بھلا کیوں رکھا جائے گا۔

سوال: کیا پاگل اور مجنوں کو سلام کیا جا سکتا ہے؟

جواب: چونکہ پاگل اور مجنوں میں صحیح چیز کی سمجھ نہیں ہوتی ہے اس لیے اسے سلام کرنا درست نہیں ہے۔ پاگل تو پاگل ہے، بسا اوقات اس کو محض ٹوکنے سے آدمی کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے، ایسے میں سلام کرنا ٹھیک نہیں ہے البتہ اگر کوئی مجنوں سلام کرے تو اس کا جواب دیا جائے گا۔

سوال: پرفیوم میں الکوحل کی ملاوٹ ہوتی ہے ایسے میں کیا پرفیوم کی تجارت کرنا جائز ہے؟

جواب: یہ بات درست ہے کہ عموما پرفیوم میں الکوحل کی ملاوٹ ہوتی ہے لیکن پرفیوم استعمال کرنا منع نہیں ہے۔ یہ ایک کیمیا ہے جو بطور ضرورت بہت ساری چیزوں میں استعمال کیا جاتا ہے اور ہم استعمال کی جانے والی چیزوں کو جس میں الکوحل ہے استعمال کرسکتے ہیں البتہ کھانے پینے والی چیز جس میں الکوحل ہو اس کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔

سوال: گھروں کے پنجڑے میں پرندے قید کرکے رکھے جاتے ہیں اور اس کی تجارت بھی ہوتی ہے، کیا یہ صحیح ہے؟

جواب: اگر پرندے کی صحیح سے دیکھ ریکھ کی جائے اور اس کی خوراک کا صحیح انتظام کیا جائے تو پرندے کو قید کر کے رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس کی تجارت کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال: ایک کلپ میں سنا تھا کہ سونا 85 گرام، صرف 24 کیرٹ والے پہ زکوٰۃ ہے۔ اگر سونا 18، 20، 22 کیرٹ ہے تو اس کے 85 گرام پہ زکوٰۃ نہیں بنتی، کیونکہ اس میں دھات (copper) بھی ہوتی ہیں، اس مسئلہ میں اصل کیا ہے، قرآن و حدیث سے رہنمائی فرما دیں؟

جواب: اس مسئلے میں صحیح بات یہ ہے کہ جو 24 قیراط سے کم کا سونا ہے اس پر بھی زکوۃ نکالی جائے گی اور اس کی زکوۃ نکالنے کا طریقہ ہے۔ اگرچہ 18، 20، 22 قیراط سونا میں کچھ ملاوٹ ہوتی ہے لیکن زکوۃ دیتے وقت اس ملاوٹ کو دور کر کے خالص سونے کا وزن نکالا جاتا ہے پھر اس خالص سونے کا وزن جو نصاب کو پہنچے اسی کی زکوۃ نکالی جاتی ہے۔

مثال کے طور پر ہمارے پاس بائیس قیراط کا سو گرام سونا ہے۔ اس سے پہلے ملاوٹ دور کریں اور خالص سونا بناکر زکوۃ نکالیں گے ۔ اس کا طریقہ یہ ہوگا۔(100× 22) ÷ 24 = 91.66

گویا بائیس قیراط والے سو گرام سونا کا چوبیس قیراط کے حساب سے ساڑھے اکانوے گرام سونا بنتا ہے، اب ہم اس چوبیس قیراط والے سونے کے حساب سے زکوۃ نکالیں گے۔

سوال: میں نے ایک آدمی سے قرض لیا تھا جس کا انتقال ہو گیا ہے، اب اس پیسے کا کیا کیا جائے گا؟

جواب: آپ نے جس آدمی سے قرض لیا تھا جو اب وفات پا گیا ہے، اس سے لیا ہوا قرض اس کے وارثوں کو لوٹایا جائے گا اور یہ میت کی وراثت میں شامل کر کے اس کے وارثوں میں تقسیم کیا جائے گا۔

سوال: لوگوں میں ایک میسج گردش کررہا ہے کہ ((کیلیفورنیا کے جنگل میں لگی آگ کو بجھانے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر عمل کیا گیا. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم نقصان دینے والی آگ کو دیکھو تو تکبیر کہو، یہ آگ کو ختم کر دے گا۔ ابن قیم اس حدیث پر کہتے ہیں کہ شیطان اور آگ اللہ کے نام سے دور چلے جاتے ہیں))۔ کیا اس میں مذکور حدیث صحیح ہے؟

جواب: لوگوں میں مشہور ہے کہ جب آگ لگ جائے تو اذان دینی چاہئے مگر یہ بات کسی صحیح سے ثابت نہیں ہے اور مذکورہ بالا پوسٹ میں جو حدیث مذکور ہے وہ حدیث ضعیف ہے۔ ابن السني نے "عمل اليوم والليلة" (295) میں اور طبراني نے "الدعاء" (1/307) میں ذکر کیا ہے، نبی ﷺ فرماتے ہیں:

إذا رأيتُم الحرِيقَ فكَبِّرُوا، فإِنَّه يُطْفِئُ النارَ۔

ترجمہ: جب تم آگ دیکھو تو تکبیر کہو کیونکہ یہ(تکبیر) آگ کو بجھا دیتی ہے۔

اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے۔ (دیکھیں،ضعيف الجامع:505)

اس لئے آگ کے وقت اذان دینے والی بات اور تکبیر کہنے والی بات ثابت نہیں ہے۔

سوال: جب ہم حمام بناتے ہیں تو کیا ڈبلیو سی قبلہ رخ نہیں ہونا چاہیے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر دیوار آجائے تو سترہ بن جاتی ہے ایسے میں قبلہ رخ لگا سکتے ہیں جبکہ دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ نہیں لگا سکتے ہیں مطلب یہ کہ قبلہ رخ نہ تھوکنا چاہیے، نہ پیشاب و پاخانہ کے لئے پیٹھ اور چہرہ کرنا چاہیے؟

جواب: گھر کی شکل میں حمام ہو تو قبلہ رخ ڈبلیو سی لگانے میں حرج نہیں ہے کیونکہ اس بارے میں جواز کی دلیل ملتی ہے۔ ایک حدیث جو کتب ستہ میں پائی جاتی ہے۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: ارْتَقَيْتُ فَوْقَ بَيْتِ حَفْصَةَ، فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَقْضِي حَاجَتَهُ مُسْتَدْبِرَ الْقِبْلَةِ مُسْتَقْبِلَ الشَّأْمِ(صحیح البخاری:3102)

ترجمہ:عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں (ام المؤمنین) حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر کے اوپر چڑھا تو دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ قبلہ کی طرف تھی اور چہرہ مبارک شام کی طرف تھا۔

یہ حدیث عبداللہ بن عمر سے مروی ہے ، چنانچہ وہ اس حدیث پر عمل بھی کرتے نظر آتے ہیں، ابوداؤد کی حدیث دیکھیں جسے شیخ البانی نے حسن قرار دیا ہے۔

عَنْ مَرْوَانَ الأَصْفَرِ، قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ أَنَاخَ رَاحِلَتَهُ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ، ثُمَّ جَلَسَ يَبُولُ إِلَيْهَا، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَلَيْسَ قَدْ نُهِيَ عَنْ هَذَا؟ قَالَ: بَلَى،" إِنَّمَا نُهِيَ عَنْ ذَلِكَ فِي الْفَضَاءِ، فَإِذَا كَانَ بَيْنَكَ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ شَيْءٌ يَسْتُرُكَ، فَلَا بَأْسَ".(سنن ابی داؤد:11)

مروان اصفر کہتے ہیں میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا، انہوں نے قبلہ کی طرف اپنی سواری بٹھائی پھر بیٹھ کر اسی کی طرف رخ کرکے پیشاب کرنے لگے، میں نے پوچھا: ابوعبدالرحمٰن! (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی کنیت ہے) کیا اس سے منع نہیں کیا گیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: کیوں نہیں، اس سے صرف میدان میں روکا گیا ہے لیکن جب تمہارے اور قبلہ کے بیچ میں کوئی ایسی چیز ہو جو تمہارے لیے آڑ ہو تو کوئی حرج نہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ فضا میں قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کرکے پیشاب و پاخانہ نہیں کریں گے لیکن حمام میں کوئی مسئلہ نہیں ہے پھر بھی کوئی حمام میں بھی احتیاط کرتا ہے تو اچھی بات ہے۔ آپ حمام کی تعمیر میں ڈبلیو سی لگاتے وقت خیال کریں تاکہ قبلہ رخ نہ ہو۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔