Tuesday, January 14, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(38)

 

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(38)

جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ - سعودی عرب


سوال: بچے کی رضاعت کے سال کو قمری سال کے حساب سے گنا جائے گا یا شمسی اور دودھ چھڑاتے وقت قمری سال کے مطابق کتنے سال اور دن کو گنا جائے؟

جواب: اسلامی احکام اور عبادات کے سلسلے میں صرف ہجری تاریخ کا اعتبار کیا جائے گا۔ انگریزی تاریخ کا اسلام سے کوئی بھی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔

ایک مسلمان اپنے حساب و کتاب، نماز، روزہ، حج اور جمیع قسم کی عبادات کی انجام دہی میں قمری تاریخ کا اعتبار کرے گا، اس بات کو اللہ تعالی نے قرآن میں اس طرح بیان کیا ہے۔ اللہ فرماتا ہے:

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ (البقرة:189)

ترجمہ:لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ یہ لوگوں (کی عبادت) کے وقتوں اور حج کے موسم کے لئے ہے۔

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:

هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ(يونس:5)

ترجمہ:وہ اللہ تعالیٰ ایسا ہے جس نے آفتاب کو چمکتا ہوا بنایا اور چاند کو نورانی بنایا اور اس کے لئے منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرلیا کرو۔

جہاں تک بچے کو دودھ پلانے کی مدت کا معاملہ ہے تو اس کی مدت چوبیس مہینے ہیں یعنی کامل مدت رضاعت دوسال(چوبیس مہینے) ہے۔ جو خاتون اپنے بچے کی مدت رضاعت مکمل کرنا چاہے وہ قمری ماہ کے حساب سے چوبیس مہینے شمار کرے جیساکہ اللہ کا فرمان ہے:

وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ(البقرة:233)

ترجمہ: مائیں اپنی اولاد کو دو سال کامل دودھ پلائیں جن کا ارادہ دودھ پلانے کی مدت بالکل پوری کرنے کا ہو۔

یہاں پر اللہ نے مدت رضاعت کی تکمیل مرضی پر منحصر رکھا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی عورت مصلحت کے تئیں دو سال سے پہلے اپنے بچے کا دودھ چھڑانا چاہے تو اس میں حرج اور گناہ نہیں ہے۔ اسی آیت میں آگے اللہ تعالی یہ بھی ارشاد فرماتا ہے:

فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَن تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا۔

ترجمہ: اگر دونوں (یعنی ماں باپ) اپنی رضامندی سے باہمی مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں۔

خلاصہ یہ ہوا کہ عورت اپنے بچے کی رضاعت مکمل کرنا چاہے تو دوسال یعنی چوبیس مہینے تک اسے دودھ پلائے اور مصلحتا دوسال سے پہلے بھی دودھ چھڑانا چاہے تو اس میں حرج نہیں ہے بشرطیکہ کہ دودھ چھڑانے میں بچے کو نقصان نہ پہنچے۔ اور اگر مجبوری ہو تو دو سال سے زائد بھی دودھ پلاسکتی ہے۔ مدت رضاعت کو شمار کرنے میں ایک ایک دن گننے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس میں قمری تاریخ کے حساب سے مہینے کا اعتبار کیا جائے گا مثلا محرم میں بچے کی ولادت ہوئی تو محرم سے رضاعت شمار کرے۔

سوال: احرام کی حالت میں خوشبو والے کھانے سے منع کیا جاتا ہے، ایسے کون سے کھانے ہیں جو حالت احرام میں نہیں کھانے چاہیے؟

جواب: احرام کی حالت میں ہرقسم کا حلال کھانا جائز ہے البتہ اگر کسی کھانے میں خوشبو ڈال دی جائے تو احرام والا آدمی خوشبو کی وجہ سے وہ کھانا نہیں کھائے گا جیسے کھانے میں خوشبو کے لئے زعفران کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر کسی کھانے میں زعفران ڈال دیا جائے تو احرام والے کو وہ کھانا نہیں کھانا ہے کیونکہ اس میں زعفران کی خوشبو ہے حتی کہ کوئی آدمی احرام کی حالت میں زعفران والا کپڑا بھی استعمال نہیں کرے گا اس لیے کہ زعفران میں خوشبو ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی حالت میں جن کپڑوں سے منع فرمایا ہے ان میں آپ کا یہ بھی فرمان ہے:ولا ثوبا مسه زغفران و لا ورس (صحيح البخاري:5806)

ترجمہ: اور محرم آدمی ایسا کوئی کپڑا نہ پہنے جس میں زعفران اور ورس لگا ہو۔

زعفران ایک رنگ بھی ہے لیکن یہاں پر رنگ کی وجہ سے منع نہیں کیا گیا ہے بلکہ زعفرانی خوشبو کی وجہ سے ایسے کپڑے سے منع کیا گیا ہے یہی معاملہ کھانے سے متعلق بھی ہے۔ اس جگہ یہ بات بھی دھیان رہے کہ احرام کی حالت میں خوشبو کی ممانعت مرد و عورت دونوں کے لئے ہے اس وجہ سے عورت بھی احرام کی حالت میں زعفرانی خوشبو والا کھانا نہیں کھائے گی اور زعفرانی خوشبو والا لباس نہیں پہنے گی ۔

سوال: ایک خاتون اپنے شوہر سے تقریبا چودہ ماہ سے الگ رہ رہی ہے۔ ابھی حیض آیا ہے اور اسی دن اس کا خلع ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسی حیض سے عدت شروع ہوگی اور اس حیض کو شمار کیا جائے گا یا اگلے حیض تک انتظار کرنا ہوگا؟

جواب: حیض کی حالت میں اگر خلع لیا جائے تو خلع واقع ہوگا اور اس کی عدت تو ابھی سے ہی شروع ہوجائے گی مگر موجودہ حیض کو شمار نہیں کرنا ہے بلکہ جب اگلا حیض آئے اور ختم ہو جائے تب اس کی خلع والی عدت ختم ہوگی۔

سوال: سورة قصص آیت دس میں دل کو قلب اور فؤاد کہا گیا ہے، کیا یہ دل کی الگ حالتوں کی وجہ سے نام رکھے گئے ہیں؟

جواب: عربی زبان میں دل کے لئے جیسے قلب کا استعمال ہوتا ہے اسی طرح فواد کا بھی استعمال ہوتا ہے یعنی یہ دونوں لفظ ہم معنی ہیں۔ قلب جسے اردو میں دل اور انگریزی میں ہرٹ کہتے ہیں، یہ ایمان اور ہدایت کا مقام و محل ہے جبکہ فواد دل کی کیفیت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیساکہ سورہ قصص کی مذکورہ آیت ہے۔ اس میں دل کی ایک جذباتی کیفیت کو بیان کرنے کے لئے فواد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے کیونکہ فواد میں شعلہ بھڑکنے اور شعلہ مارنے کا معنی پایا جاتا ہے۔

سوال: اگر پیر پر فریکچر کی وجہ سے پلستر لگا ہو تو غسل جنابت کیسے کریں گے؟

جواب: جیسے غسل جنابت کیا جاتا ہے ٹھیک اسی طرح غسل جنابت کریں گے یعنی پہلے نجاست کی صفائی پھر نماز کی طرح وضو، اس کے بعد پورے جسم پر پانی بہانا ہے۔ جہاں پر پلستر لگا ہوا ہے غسل کے وقت اسے کسی چیز سے مثلا پلاسٹک سے ڈھک لیں اور جب باقی جسم کا غسل ہوجائے تو پیر سے پلاسٹک ہٹاکر آخر میں اس پلستر پر تر ہاتھ پھیر لیں گے جیسے وضو میں سر کا مسح کرتے ہیں۔

سوال: کیا بائیک گروی لے سکتے ہیں نیز یہ بھی وضاحت فرما دیجئے کہ کون سی چیز گروی لے یا دے سکتے ہیں؟

جواب: جو چیز بیچی نہ جاسکتی ہو اس کو چھوڑ کر ہر ایک چیز گروی رکھ سکتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ گروی چیز قرض کے مقابلے میں ایک ضمانت ہے۔ جب قرض لینے والا مقررہ میعاد پر قرض واپس نہ کرسکے تو گروی رکھی ہوئی چیز بیچ کر اپنا حق لے سکتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس چیز کے گروی رکھنے سے نقصان ہو وہ چیز گروی نہیں رکھنا چاہئے جیسے بائیک ہے۔ کوئی اسے گروی رکھ دے اور زیادہ دن ہونے پر بائیک نہ چلے یا رکھے رکھے اس میں کوئی خرابی پیدا ہوجائے تو بلاوجہ دوآدمیوں میں تنازع پیدا ہوجائے گا جبکہ بائیک بھی گروی رکھ سکتے ہیں اس کی ممانعت نہیں ہے۔ کوئی بھی چیز گروی رکھ سکتے ہیں تاہم بہتر ہے کہ جسے بیچا جاسکے اور جس کے رکھنے میں نقصان یا تنازع نہ ہو ایسی چیز گروی رکھی جائے یا گروی لی جائے۔

سوال: کیا ہم اپنے پہنے ہوئے کپڑے ہندو کو دے سکتے ہیں یا نہیں، ایک بہن کو اس بارے میں شبہ ہے اس لئے دلیل سے اس مسئلہ کو سمجھائیں؟

جواب: غیرمسلم اور کافروں کو تحائف و ہدایا دینے میں کوئی حرج نہیں ہے خواہ کسی قسم کا تحفہ ہو مثلا گھر ہو، زمین ہو ، روپئے پیسے ہوں یا کپڑے اور دیگر سامان ہوں۔ جو چیز غیرمسلموں کے لئے نہیں ہے جیسے زکوۃ بس اسے نہیں دیں گے بقیہ عام چیزیں بطور تحفہ غیرمسلم کو دے سکتے ہیں حتی کہ نفلی صدقات بھی دے سکتے ہیں۔

نبی ﷺ نے غیرمسلم کو تحفہ دیا ہے اور آپ نے اس سے تحفہ لیا ہے ، یہی معاملہ صحابہ کرام کا بھی تھا۔ صحیح بخاری اٹھائیں ، امام بخاری نے ایک باب باندھا ہے: بَابُ الْهَدِيَّةِ لِلْمُشْرِكِينَ یعنی باب: مشرکوں کو ہدیہ دینا۔ اس باب کے تحت امام بخاریؒ نے پہلے قرآن کی ایک آیت ذکر فرمائی ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: لا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ(الممتحنة:8)

ترجمہ: جو لوگ تم سے دین کے بارے میں لڑے نہیں اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے انہوں نے نکالا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ احسان کرنے اور ان کے معاملہ میں انصاف کرنے سے تمہیں نہیں روکتا۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ امن پسند غیرمسلموں کو ہدیہ دے سکتے ہیں اور ان کے ساتھ معاملات اور حسن سلوک کرسکتے ہیں۔ اس آیت کے بعد امام بخاری نے ایک حدیث اس طرح ذکر فرمائی ہے۔

عبداللہ بن عمر سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ایک شخص کے یہاں ایک ریشمی جوڑا فروخت ہو رہا ہے۔ تو آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ یہ جوڑا خرید لیجئیے تاکہ جمعہ کے دن اور جب کوئی وفد آئے تو آپ اسے پہنا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے تو وہ لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بہت سے ریشمی جوڑے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک جوڑا عمر رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اسے کس طرح پہن سکتا ہوں جب کہ آپ خود ہی اس کے متعلق جو کچھ ارشاد فرمانا تھا، فرما چکے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمہیں پہننے کے لیے نہیں دیا بلکہ اس لیے دیا کہ تم اسے بیچ دو یا کسی (غیر مسلم) کو پہنا دو۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے مکے میں اپنے ایک بھائی کے گھر بھیج دیا جو ابھی اسلام نہیں لایا تھا۔(صحیح البخاری:2619)

یہ حدیث اس بارے میں صریح ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنا کپڑا اپنے غیرمسلم(مشرک) بھائی کو ہدیہ دیا۔

خلاصہ یہ ہے کہ کوئی مسلمان کسی غیرمسلم کو نیا کپڑا یا پرانا کپڑا پہننے کے واسطے دے سکتا ہے اس میں حرج نہیں ہے۔

سوال:ایک بیوی کو اپنے شوہر کی مرضی اور پسند کا کتنا خیال رکھنا چاہیے، بیوی صرف ان کی ہی پسند کو اہمیت دیتی رہے اور شوہر بیوی کی پسند کا بالکل خیال نہ کرے ایسی بیوی کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا کیا فرمان ہے؟

جواب: شوہر کی پسند اور اس کی مرضی کی کوئی انتہا نہیں ہوسکتی ہے، ایسے میں ایک عورت کو اپنی استطاعت بھر جس میں اس کے شوہر کی خوشی ہو اس کا خیال کرنا چاہیے اور اس کی حد جائز پسند میں شوہر کا خیال کرنا ہے۔ شوہر کی ناجائز پسند میں شوہر کی اطاعت نہیں کرنا ہے۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے:لاطاعةَ لِمخلُوقٍ في معصيةِ الخالِقِ(صحيح الجامع:7520)

ترجمہ: اللہ کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔

شوہر بیوی کی پسندوناپسند کا خیال نہ کرے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بیوی بھی شوہر کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرے۔ بیوی اپنے معاملے میں اپنے حقوق ادا کرے اور شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا حق ادا کرے۔ میاں بیوی کے حقوق میں جو کوتاہی کرے گا وہ اللہ کے یہاں جوابدہ ہوگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے ، آپ گھریلو معاملات میں بھی ہمارے لئے سب سے بہترین نمونہ تھے، آپ ﷺ فرماتے ہیں:

خيرُكم خيرُكم لأهلِه وأنا خيرُكم لأهلِي(صحيح ابن ماجه:1621)

ترجمہ: تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہے اور میں تم لوگوں میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔

اس حدیث کی روشنی میں ایک آدمی کو اپنی بیوی، اپنے والدین اور اپنے بچوں کے لئے بہترین نمونہ بننا چاہیے۔ اسی طرح ایک بیوی کو بھی اپنے شوہر ، اپنی اولاد اور اپنے گھر والوں کے لئے بہترین نمونہ بننا چاہئے۔

سوال: میری بیٹی تین سال کی ہے، اکثر شام پانچ سے سات کے درمیان سو جاتی ہے اور یہ ایک روٹین جیسا بنا ہوا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ شوہر جاب سے لیٹ آتے ہیں یعنی ساڑھے گیارہ بجے رات میں۔ اور وہ بچی کے لئے وقت نہیں دے پاتے ہیں اس لئے پہلے نیند پوری کرنے کے لئے سلادیتے ہیں، ورنہ رات میں تھوڑی دیر کے لئے جگانا پڑتا ہے۔ اس بات پر میری خالہ کا کہنا ہے کہ عصر اور مغرب کے درمیان والے وقت میں نہیں سلانا چاہئے، اس سے بچوں کا ذہن کم ہو جاتا ہے اور وہ کند ذہن ہوجاتے ہیں۔ اس بات میں کتنی سچائی ہے یعنی اسلام کی روشنی میں واقعی اس سے بچوں کا ذہن کم ہوجاتا ہے؟

جواب: ضرورت کی بنا پر اپنے بچے کو عصر اور مغرب کے درمیان سلانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس سے بچے پر کوئی برا اثر نہیں پڑتا ہے، نہ ہی اس کا حافظہ کمزور ہوتا ہے۔ جس نے آپ سے ایسی بات کہی ہے اس نے غلط بیانی کی ہے، اس بات کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے۔ چھوٹی بچی تو ابھی شریعت کو مکلف ہی نہیں ہے، وہ کبھی بھی سوئے جاگے اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جو بڑے لوگ ہیں ان کو نماز کے اوقات کا خیال کرکے سونا چاہئے تاکہ نماز ضائع نہ ہو۔

عصر اور مغرب کے درمیان سونے سے عقل میں فتور پیدا ہوتا ہے اس طرح کی ایک روایت بیان کی جاتی ہے۔ مسند ابی یعلی میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

مَن نام بعدَ العَصْرِ، فاخْتُلِسَ عَقْلُهُ، فلا يَلُومَنَّ إلا نَفْسَهُ۔

ترجمہ: جوعصر کے بعد سویا تواس کی عقل ميں فتور پیدا ہو ا توصرف اپنے آپ کو ہی ملا مت کرےدراصل یہ حدیث ضعیف ہے، اس کو بہت سارے محدثین نے ضعیف کہا ہے۔ علامہ البانی نے اسے ضعیف کہا ہے۔(السلسلة الضعيفة:39)، طحاوی نے منقطع کہا ہے۔(شرح مشكل الآثار:3/99)۔ اسی طرح ابن حبان، ابن عدی، ابن القيسراني ، ابن الجوزي ، ذهبي ، هيثمي، بوصيري، سيوطي وغیرہم نے ضعیف کہا ہے بلکہ علامہ شوكاني نے موضوع کہا ہے۔(دیکھیں: الفوائد المجموعة:216)

چونکہ یہ حدیث ضعیف ہے اس وجہ سے یہ قابل حجت نہیں ہے اور یہ بات اپنی خالہ سے بھی بتائیں کہ ایسی بات بولنا صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ بات دین میں ثابت نہیں ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ جو بات ثابت نہ ہو وہ جھوٹ ہے اور عمدا جھوٹ بولنے پر آدمی گنہگار ہوگا۔ پہلے بھول چوک میں ایسی بات بول دئے تھے تو اللہ معاف کردے گا لیکن اب معلوم ہوگیا تو پھر سے یہ بات نہ بولیں۔

سوال:یتیم کسے کہتے ہیں یعنی کیا اس کی کوئی عمر مقرر ہے کہ وہ کب تک یتیم کہلائے گا اور ہم یتیموں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آتے ہیں لیکن وہ ہمارے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں تو ہمارا کیا عمل ہونا چاہیے؟

جواب: یتیمی کی مدت بلوغت سے پہلے تک ہے۔ بچہ جیسے ہی بالغ ہوتا ہے اس کی یتیمی ختم ہو جاتی ہے اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی موجود ہے۔ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سن کر یاد رکھی ہے کہ احتلام کے بعد یتیمی نہیں (یعنی جب جوان ہو گیا تو یتیم نہیں رہا) اور نہ دن بھر رات کے آنے تک خاموشی ہے۔(ابو داؤد:2873، شیخ البانی نے صحیح کہا ہے)۔

اس بات کی پرواہ نہ کریں کہ یتیم آپ کے ساتھ بدسلوکی کرتا ہے، آپ اللہ کی رضا اور خدمت خلق کی نیت سے یتیموں اور محتاجوں کی خبرگیری کرتے رہیں۔ آپ کی نیکی کا اجر کبھی ضائع نہیں ہوگا۔ آپ اس لئے نیکی کر رہے ہیں کہ آپ کو اللہ تعالی اجر دے پھر بندوں کی بھلائی سے بے نیاز ہو جائیں۔ صحیح بخاری (4141) میں واقعہ افک کا ذکر ہے، مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ بھی انجانے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے والوں میں شامل ہوگئے تھے۔ جب آپ رضی اللہ عنہا کی براءت نازل ہوئی تو ابوبکررضی اللہ عنہ جو مسطح کی کفالت کرتے تھے کہتے ہیں: اللہ کی قسم! مسطح نے جب عائشہ کے متعلق اس طرح کی تہمت تراشی میں حصہ لیا تو میں اس پر اب کبھی کچھ خرچ نہیں کروں گا مگر اللہ نے اس بات پر تنبیہ کی پھر آپ توبہ کرنے لگے اور خرچ بند کرنے کا ارادہ ترک کردیا۔ بہرکیف! دنیاوی منفعت سے بے پرواہ ہوکر ضرورت مندوں اور یتیموں پر خرچ کرناچاہئے۔

سوال: جس مصحف میں اردو زیادہ ہو اور قرآن کے الفاظ کم ہوں ایسے مصحف کو حیض کی حالت میں ہاتھ سے چھوکر پڑھ سکتے ہیں؟

جواب: مصحف ایک معروف لفظ ہے جس کا اطلاق قرآن کریم پر ہوتا ہے اور قرآن کریم سورہ الفاتحہ سے شروع ہوکر سورہ الناس پر ختم ہوتا ہے، یہ مصحف ہے۔ اس مصحف کو عورت حیض کی حالت میں پڑھ سکتی ہے لیکن بغیر آڑ کے چھونا نہیں چاہیے البتہ ہاتھوں میں دستانے لگے ہوں تو چھونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

مصحف میں قرآن کے ہر زبان کے تراجم اور تفاسیر بھی داخل ہیں یعنی قرآن کا کسی زبان میں ترجمہ اور اس کی تفسیر کی گئی ہو وہ بھی مصحف کے حکم میں ہی ہے۔

مصحف کے علاوہ مختلف زبانوں کی دینی کتابیں جیسے عقائد و عبادات اور احکام و مسائل سے متعلق جن میں قرآنی آیات اور احادیث بھی ہوں وہ مصحف کے حکم میں نہیں ہیں اس لئے اس بارے میں اردو کم اور زیادہ کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ جو اوپر مسئلہ ذکر کیا گیا ہے اسے سمجھیں۔

سوال: تہجد کے وقت اگر وضو کے دونفل پڑھ کر پھر دونفل تہجد کے پڑھیں پھر قرآن کی تلاوت کریں یا آٹھ رکعت پڑھ کر قرآن کی تلاوت کرنا چائیے؟

جواب: سنۃ الوضو، تہجد اور تلاوت یہ سب الگ الگ عبادات ہیں اور ان کے الگ الگ احکام ہیں۔جب کوئی نماز نہ ہو اس وقت سنۃ الوضو پڑھیں گے لیکن جب تہجد کی نماز پڑھنا ہو تو بغیر سنۃ الوضوء پڑھے تہجد کی نماز پڑھنا شروع کریں۔

اور جب تہجد پڑھنے کا ارادہ ہو اور وقت بھی کشادہ ہو تو بہتر ہے کہ مکمل تہجد پڑھیں اور پھر تلاوت کرنا ہو تو تلاوت بھی کریں۔ تہجد ایک ایسی نماز ہے جس میں جتنی لمبی تلاوت کرنا چاہیں اتنا ہی بہتر ہے پھر الگ سے تلاوت کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس کے باوجود کوئی تہجد کے ساتھ تلاوت بھی کرنا چاہے تو پہلے مکمل آٹھ رکعات تہجد پڑھ لے پھر وتر پڑھے، اس کے بعد تلاوت کرے۔

سوال: سعودی عرب میں بھی برائی دیکھنے کو ملتی ہے جبکہ دین اسلام اس ملک میں سب سے پہلے آیا اس وجہ سے عقیدت و احترام اور عمل بھی زیادہ اس ملک میں ہونا چاہئے اس لئے لوگ سب سے پہلے اس اعتبار سے اس ملک کو دیکھتے ہیں پھر ایسا وہاں کیوں ہے؟

جواب: جب بات سعودی عرب کی مثال کی ہے تو یہ ملک آج بھی بے مثال ہے۔ اس ملک کا دنیا کے کسی بھی ملک سے کوئی مقابلہ نہیں ہے، یہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس بات کو چند مثالوں سے سمجھ لیں۔ اللہ تعالی نے بنی نوع انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ اللہ فرماتا ہے:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات:56)

ترجمہ:میں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں۔

اور اس مقصد تخلیق کو بتانے کے لئے اس نے ہزاروں انبیاء اور رسول بھیجے، ان تمام انبیاء اور رسولوں نے اپنی اپنی امت کو اللہ کی توحید کا پیغام سنایا۔

جس توحید کو سارے انبیاء لے کر آئے، اس توحید کو پوری دنیا میں تلاشتے ہیں تو خالص صورت میں صرف سعودی عرب میں آپ کو نظر آئے گی۔ یہی وہ توحید ہے جس کی بنیاد پر انسان کا عمل بھی قبول ہوتا ہے اور اسی بنیاد پر اس کی نجات بھی ہوگی۔ اللہ تعالی انسان کی تمام برائیوں کو معاف کرسکتا ہے لیکن شرک کو کبھی نہیں معاف کرے گا اور انسان میں توحید ہو تو اس کی ساری برائیوں کو معاف کرسکتا ہے۔ گویا جس بنیاد پر انسان کی نجات ہوگی وہ بنیاد دنیا میں صرف سعودی عرب میں موجود ہے، باقی، دنیا میں جتنے ممالک ہیں تمام جگہ شرک کے بڑے بڑے اڈے قائم ہیں جنہیں مسلمان چلا رہے ہیں بلکہ بڑی ڈھٹائی سے مزارات کے دھندے کئے جاتے ہیں۔ ان مسلمانوں کا قیامت میں کیا حشر ہوگا، قرآن و حدیث میں شرک سے متعلق دلیلوں کی روشنی میں جان سکتے ہیں۔

سعودی عرب نے توحید کی بنیاد پر پوری دنیا میں ایک اللہ کی عبادت کے لئے مساجد کی تعمیر کی اور ایک اللہ کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے چپے چپے میں قرآن کریم اور اس کے تراجم و تفاسیر بھیجے۔

اپنے ملک کے اندر سینکڑوں دعوتی سنٹر قائم کیا جہاں روزانہ بڑی تعداد میں غیرمسلم اسلام قبول کرتے ہیں حتی کہ دنیا بھر کے مشرک اور بدعتی مسلمان ان سنٹروں میں آکر توبہ کرکے توحید کے متوالے بنتے ہیں۔ اسلام قبول کرنے اور شرک و بدعت سے توبہ کرنے کی یہ مثال سعودی عرب کے علاوہ پوری دنیا میں آپ کو کہیں نہیں ملے گی۔

اس ملک کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالی نے قصاص کو زندگی قرار دیا ہے۔

وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرة:179)

ترجمہ:عقلمندو! قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے اس کے باعث تم (قتل ناحق سے) رکو گے۔

سعودی عرب وہ بے مثال ملک ہے جس میں مختلف قسم کے جرائم پر شریعت کی روشنی میں قصاص نافذ کیا جاتا ہے اور یہ قصاص مومنوں کے لئے زندگی ہے۔ قصاص کے بغیر کسی بھی صالح معاشرہ اور صالح ملک کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔

خلاصہ یہ ہے کہ ایک صالح معاشرہ کے لئے جو اصل بنیاد چاہیے یعنی توحید خالص، وہ سرزمین عرب پر موجود ہے یہاں تک کہ ترکوں نے جو شرکیہ مزارات قائم کر رکھے تھے اس حکومت نے ان کا نام و نشان تک مٹا دیا تاکہ مملکت سعودی عرب میں فقط توحید کا غلغلہ رہے اور شرک کا پوری طرح خاتمہ ہو جائے۔ اس کے باوجود اگر اس ملک میں برائی ہے تو میں اس برائی کا دفاع نہیں کر رہا ہوں لیکن برائی کے مقابلے میں جو مسلم ملک کی اصل بنیاد اور اصل پہچان ہے وہ آج بھی باقی ہے، دنیا کے مسلمانوں کو اس ملک کی خالص توحید اور اس کے جنائی قانون سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔

سوال: بہت زیادہ کھانسی یا چھینک آنے پر اگر پیشاب کے دو چار قطرے نکل جائیں تو کیا غسل کرنا ہوگا یا کمر کے نیچے سے پانی ڈال دینا کافی ہے؟

جواب: کھانسنے یا چھینک آنے پر اگر پیشاب کے قطرے نکل جائیں تو صرف اتنی ہی جگہ دھلنے کی ضرورت ہے جہاں پر پیشاب کے قطرے لگے ہیں۔ کمر سے نیچے پورا حصہ بھی دھونے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی غسل کرنے کی ضرورت ہے۔ جسم پر یا کپڑے میں جہاں پیشاب لگ جائے، بس اتنی جگہ دھل لینا ہی کافی ہے۔ اس کے بعد وضو کرکے نماز پڑھ سکتے ہیں۔

سوال: ایک آدمی، ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھتا ہے جو مشرک ہے جس کے گلے میں تعویذ ہے۔ مقتدی کا سوال ہے کہ کیا اسکی نماز مقبول ہوگی یا وہ اپنی نماز الگ پڑھ لے؟

جواب: گلے میں تعویذ ہونے سے آدمی مشرک نہیں ہوجائے گا، تعویذ لٹکانا عموما شرک اصغر میں داخل ہے۔ ہاں تعویذ بعض صورتوں میں شرک اکبر میں داخل ہو سکتا ہے جیسے اس میں شرکیہ کلمات ہوں یا عبادت کی نیت سے اس کو پہنا گیا ہو یا تعویذ کو بذات خود نفع بخش ماننے کا عقیدہ رکھا جائے۔ نیز تعویذ لٹکانے کا جو گناہ ہے وہ لٹکانے والے پر ہوگا اس کے پیچھے نماز پڑھنے والے پر تعویذ لٹکانے کا گناہ نہیں ہوگا اور نہ ہی امام کے تعویذ لٹکانے سے مقتدی کی نماز قبول نہیں ہوگی۔

مذکورہ بالا صورتحال میں مقتدی کی پہلی کوشش یہ ہو کہ امام سے تعویذ ہٹوایا جائے۔ اگر وہ نہ ہٹائے تو ایسے امام کو بدل دیا جائے۔ اگر وہ امام بھی نہ بدلا جاسکے تو دوسری جگہ جہاں صحیح امام ہو اس کے پیچھے نماز پڑھے اور اگر دوسری جگہ نہ ہو تو اس عمل کو دل میں برا جان کر اس کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے بشرطیکہ وہ شرک اکبر میں مبتلا نہ ہو ۔

سوال: زرد رنگ کا لباس پہننے کے بارے میں حدیث میں مردوں کو منع کیا گیا ہے، کیا یہ ممانعت صرف مردوں کے لیے خاص ہے یا عورتوں کو بھی زرد رنگ کا لباس نہیں پہننا چاہیے؟

جواب: زعفرانی لباس پہننا صرف مردوں کے لیے منع ہے، عورتوں کے لئے زعفرانی لباس منع نہیں ہے اس لئے عورتیں زعفرانی لباس پہن سکتی ہیں البتہ اگر کپڑے میں زعفرانی خوشبو لگی ہو تو عورت اسے حج و عمرہ کے دوران احرام کی حالت میں نہیں پہنے گی حتی کہ عدت والی خاتون بھی اس سے پرہیز کرے کیونکہ عدت میں زینت کی چیزیں منع ہوتی ہیں۔

سوال: اگر لڑکی کی رضامندی نہ ہو پھر بھی اس کا نکاح کردیا جائے تو کیا وہ نکاح نہیں ہوگا جیسے ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا؟

جواب: جیسے ولی کی رضامندی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا اسی طرح لڑکی کی رضامندی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا اس لیے ولی کے لئے شادی کے وقت لڑکی سے اس کی رضامندی حاصل کرنا ضروری ہے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :

الثَّيِّبُ أحقُّ بنفسِها من وليِّها والبِكرُ تستأمرُ وإذنُها سُكوتُه (صحيح مسلم:1421)

ترجمہ: ثیبہ اپنے نفس کا اپنے ولی سے زیادہ حقدار ہے اور کنواری لڑکی سے اس کے بارے میں اجازت لی جائے گی اور اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے ۔

اگر ولی نے لڑکی کی رضامندی کے بغیر یعنی جبرا کہیں لڑکی کا نکاح کر دیا تو نکاح اپنی جگہ ہوجائے گا تاہم لڑکی کو اختیار ہوگا کہ وہ اس نکاح کو قائم رکھے یا قاضی کے ذریعہ نکاح فسخ کرالے جیساکہ ابو داؤد کے اندر حدیث موجود ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

أَنَّ جَارِيَةً بِكْرًا أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَتْ أَنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ كَارِهَةٌ؟ فَخَيَّرَهَا النَّبِيُّصَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.(سنن ابو داؤد:2096، صححہ البانی)

ترجمہ: ایک کنواری لڑکی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی کہ اس کے والد نے اس کا نکاح کر دیا ہے مگر وہ اس کو ناپسند کرتی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی کو اختیار دیا کہ وہ اس نکاح کو باقی رکھے یا ختم کر دے۔

سوال: عمرہ کے لئے بچہ پلاسٹک یا ربڑ سے بنی چپل پہن سکتا ہے، اس میں عمرہ ہوجائے گا یا دوسرا لینا پڑے گا؟

جواب: جی بالکل، احرام میں پلاسٹک یا ربڑ والی چپل پہنی جاسکتی ہے اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے اور اس میں عمرہ ہوجائے گا۔

سوال: کھانے سے پہلے کی صحیح دعا کیا ہے، بِسْمِ اللهِ وَ علی بَرَكَة اللهِ" کہنا صحیح ہے یا صرف"بِسْمِ اللهِ" کہنا چاہیے؟

جواب: کھانا کھاتے وقت بسم اللہ وعلی برکۃ اللہ کہنا ثابت نہیں ہے۔ صحیح حدیث سے کھانا کھاتے وقت بسم اللہ کہنا ثابت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

إذا أكلَ أحدُكم طعامًا فليقل بسمِ اللهِ فإن نسيَ في أوَّلِه فليقل بسمِ اللهِ في أوَّلِه وآخرِه۔(صحيح الترمذي:1858)

ترجمہ: تم میں سے جب کوئی کھانا کھانے لگے تو بسم اللہ کہے اور اگر شروع میں بسم اللہ کہنا بھول  جائے تو کہے بسم اللہ فی اولہ و آخرہ۔

اس لئے جب کھانا کھانے لگیں تو شروع میں بسم اللہ کہیں اور اگر بسم اللہ کہنا بھول جائیں، درمیان میں یاد آئے تو کہیں"بسمِ اللهِ في أوَّلِه وآخرِه"۔

سوال: کیا اگر میت نے اپنی زندگی میں وراثت تقسیم نہیں کی اور وہ انتقال کرگیا تو اس کی مغفرت نہیں ہوگی اور اگر اس کے بعد اس کا بیٹا بھی بغیر وراثت تقسیم کئے انتقال کرگیا تو اس کی بھی مغفرت نہیں ہوگی؟

جواب: آدمی کا اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم کرنا شرعی طور پر غلط ہے، جائیداد کی تقسیم آدمی کے مرنے کے بعد ہوتی ہے۔ سورہ نساء میں وراثت کا پورا نظام بیان کیا گیا ہے جس میں تفاصیل موجود ہیں کہ جب آدمی مرے اور اس کے پیچھے لڑکا ہو یا لڑکی ہو یا بیوی ہو تو کس کو کتنا حصہ ملے گا اس لئے یہ بات غلط ہے کہ آدمی اگر زندگی میں وراثت تقسیم نہ کرے تو اس کی مغفرت نہیں ہوگی، یہ جھوٹی بات ہے کیونکہ وراثت تقسیم کرنے کا تعلق وفات کے بعد ہے، زندگی میں وراثت تقسیم نہیں ہوتی۔

مذکورہ بالا صورت میں اگر والد کی جائیداد سے متعلق سوال پوچھا جارہا ہے تو اس سلسلے میں اصل مسئلہ یہ تھا کہ والد کے انتقال کے فورا بعد ان کے جتنے وارثین تھے، بلاتاخیر سب میں جائیداد تقسیم کر دی جانی چاہیے تھی۔ اگر والد کی جائیداد تقسیم کرنے میں تاخیر ہوئی اور اب تک تقسیم نہیں ہوئی ہے تو اس میں صرف وفات پانے والے بیٹے کا قصور نہیں ہے بلکہ تمام وارث قصور وار ہیں کیونکہ وراثت کی تقسیم کا ذمہ دار ایک بھائی نہیں ہے بلکہ سارے وارثین ذمہ دار ہیں۔ ہاں اگر وراثت کی تقسیم میں کوئی ایک وارث جان بوجھ کر رکاوٹ بنا ہو اور وراثت تقسیم نہ ہونے دیا ہو تو وہ آدمی گنہگار ہوگا لیکن پھر بھی یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس کی مغفرت نہیں ہوگی، یہ بات جھوٹی ہے، اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے۔

بہرحال!والد کی جائیداد اگر ابھی تک تقسیم نہیں ہوئی ہو تو اسے تمام وارثوں میں تقسیم کردی جائے۔

سوال: اگر وضو کرتے وقت ترتیب ادھر اُدھر ہو جائے جیسے پہلے چہرہ دھو لیا اور بعد میں کلی کی تو کیا وضو دوبارہ کرنا پڑے گا؟

جواب: وضو کی شرطوں میں ایک شرط ترتیب بھی ہے یعنی اعضائے وضو کو ترتیب سے دھلنا واجب ہے، اگر کوئی الٹ پلٹ کر وضو کرتا ہے مثلا پہلے چہرہ دھل لیا پھر کلی کیا یا ہاتھ دھونے سے پہلے چہرہ دھلا تو اس کا وضو نہیں ہوگا، ایسے آدمی کو پھر سے وضو کرنا پڑے گا۔

سوال: جب بچے قرآن ناظرہ مکمل کرتے ہیں تو کیا ایک دوسرے کو مبارکبادی دینا چاہئے؟

جواب: بچوں کو پڑھنے سے متعلق دعائیں دینا یا صاحب اولاد ایک دوسرے کو بچوں کے تعلق سے یا اپنے تعلق سے دعائیں دے، اس میں حرج نہیں ہے۔ دعا دینا ہمہ وقت جائز ہے۔ بنابریں بچے کا قرآن ناظرہ مکمل ہونے پر بچے کے لئے خیر و برکت کی دعا کرنا یا بچے کے والدین کے لیے دعائے خیر کرنا کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔

جہاں تک مبارکبادی کا معاملہ ہے اور اگر مبارکبادی کا تعلق اسی قسم کی دعا سے ہے تو ایسی مبارکبادی اور اس قسم کی دعا دینے میں کوئی حرج نہیں ہے مگر مروجہ جمعہ مبارک(جو کہ بدعت ہے) کی طرح مبارکبادی دینا جائز نہیں ہے کیونکہ اس کی دلیل وارد نہیں ہے۔

سوال:ایک بچی نے اپنے لئے استخارہ کیا ہے کیونکہ اس کے لئے رشتہ آیا تھا۔ اس نے خواب دیکھا ہے کہ وہ پیپر میں نقل کر رہی ہے اور اپنی دوست کو بھی کروا رہی ہے، اس کو ٹیچر دیکھ لیتی ہے لیکن وہ ٹیچر اس کی دوست کو پکڑ کر لے جاتی ہے۔ وہ شکر کرتی ہے کہ میں بچ گئی، کیا یہ خواب رہنمائی کررہا ہے یا بس ایسے ہی ایک خواب ہے؟

جواب: چونکہ مجھے خواب کی تعبیر نہیں آتی ہے اس لیے مجھے اس خواب کی تعبیر کے بارے میں کچھ نہیں معلوم ہے۔ جہاں تک استخارہ کا مسئلہ ہے تو اس سلسلے میں کہیں پر شریعت میں یہ بات مذکور نہیں ہے کہ استخارہ کے بعد کوئی خواب آئے گا، لوگوں میں یہ غلط فہمی مشہور ہے کہ استخارہ کے بعد خواب آتا ہے۔

استخارہ اصل میں اللہ سے اپنے کام کی توفیق و مدد طلب کرنے کا نام ہے۔ اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ نماز استخارہ کے بعد بندہ اللہ رب العالمین سے دعا کرے اور کسی صاحب علم و فضل سے اپنے معاملہ میں مشورہ کرے، یہ استخارہ ہے۔

سوال:میرے بیٹے کے ہاتھ کی انگلی پر نیلے رنگ کا پیدائشی نشان ہے۔ شاید اُس کو مسّہ کہتے ہیں۔ سننے میں آیا ہے کہ وہ نشان لوگوں سے چھپانا چاہیے اور بلاضرورت کسی کو بھی نہیں دکھانا چاہیے،

کیا شریعت میں ایسا کوئی حکم ہے؟

جواب: میری معلومات کے مطابق طب کی روشنی میں جسم کے کسی حصے پر نیلے نشان کا ہونا الگ چیز ہے اور مسہ ایک الگ چیز ہے۔ لوگوں کے چہرے، گردن یا ہاتھ وغیرہ کی جلد پر کالے رنگ کا موٹا حصہ ابھر آتا ہے اسے مسہ کہا جاتا ہے۔

جہاں تک پیدائشی طور پر بچے کی انگلی پر نیلے نشان کا شرعی مسئلہ ہے تو شریعت میں ایسی کوئی بات مذکور نہیں ہے کہ جسم پر موجود نیلے رنگ کے نشان کو لوگوں سے چھپانا چاہیے۔ یہ اصل میں ایک طبی مسئلہ ہے اس کے لئے طبیب سے رہنمائی کی ضرورت ہے، وہ جو مشورہ دیں اسی پر عمل کرنا چاہیے۔ باقی شریعت میں اس تعلق سے کسی بات کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔

سوال: کیا گھٹنوں پر بیٹھ کر کھانا کھایا جاسکتا ہے؟

جواب: سب سے پہلے کھانے سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سمجھ لیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں ٹیک لگا کر نہیں کھاتا۔(بخاری:4979)

ایک دوسری حدیث ہے، انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اقعاء کی حالت میں کھجور کھاتے ہوئے دیکھا۔(مسلم:3807)

ان دونوں حدیثوں کی روشنی میں ہمیں معلوم ہوا کہ ٹیک لگاکر نہیں کھانا چاہیے اور دوسری بات یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اقعاء کی حالت میں کھانا تناول فرماتے تھے۔

اقعاء کہتے ہیں دونوں قدموں کے پنجوں کو زمین پر کھڑا رکھ کر دونوں ایڑیوں پر بیٹھنا۔ اس کے علاوہ گھٹنوں کے بل دونوں قدموں کے ظاہر پر بیٹھ کر بھی کھاسکتے ہیں۔

اسی طرح بیٹھ کر کھانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ داہنے پیر کو کھڑا رکھا جائے اور بایاں پیر بچھا کر اس پہ بیٹھا جائے یعنی بیٹھ کر کھانے کی یہ وہ کیفیات ہیں جن میں آدمی بہت آسودہ ہوکر نہیں کھا سکتا ہے اور ایسی ہی کیفیت میں بیٹھ کر کھانا چاہیے تاکہ آدمی اپنے جسم میں مناسب غذا لے۔

سوال: مجھے اس دعا"اللَّهُمَّ حَاسِبْنِي حِسَابًا يَسِيرًا" کی دلیل چاہئے؟

جواب: لوگوں میں مشہور ہے کہ سورہ غاشیہ کے آخر میں "اللهم حاسبني حساباً يسيراً"پڑھنا چاہیے جبکہ سورہ غاشیہ کے آخر میں یہ دعا پڑھنے کی کوئی دلیل نہیں ملتی البتہ ایک روایت اس طرح آتی ہے :سیدہ عائشہ رضى الله عنها فرماتی ہیں :كان النبي، صلى الله عليه وسلم ، يقول في بعض صلاته: "اللهم حاسبني حساباً يسيراً".فقالت عائشةرضي الله عنها:ما الحساب اليسير؟قال:أن ينظر في كتابه فيتجاوز عنه (رواه أحمد وقال الألباني : إسناده جيد)

ترجمہ : نبی کریمﷺ اپنی بعض نمازوں میں"اللهم حاسبني حساباًيسيرا" پڑھا کرتے تھے۔سیدہ عائشہ نے دریافت کیا کہ آسان حساب سے کیا مراد ہے؟ تو آپ نے فرمایا:اللہ اعمال نامہ کو دیکھے اور بندے سے درگزر کردے۔

اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک دعا ہے جسے نبی ﷺ اپنی بعض نمازوں میں پڑھا کرتےتھے، اس لیے ہم اپنی دعاؤں میں اس دعا کو بھی شامل کرکے جب چاہیں اسے پڑھ سکتے ہیں۔

سوال:ایک بھائی کا سوال ہے کہ اس کے چچا نے اس سے کہا ہے کہ میں نے فرسٹ فلور بنایاہے۔ اس اوپری حصہ میں رہائش سے پہلے جانور کا صدقہ دینا چاہتا ہوں۔ ساتھ ہی جانور خریدنے اسے اپنے ساتھ لے گئے اور اس نے مدد کی۔ اس بھائی نے کہا کہ یہ شرکیہ عمل ہے مگر چچا کا کہنا ہے کہ گھر والے نہیں مانتے ہیں، اس ڈر سے کہ پہلے چچا کے دو لڑکوں کا ایکسیڈنٹ ہوچکا ہے۔ اب ان کو اس نئے گھر میں شفٹ کرنا چاہتے ہیں، ڈر ہے کہ کہیں ان کے لڑکے کے ساتھ پھر حادثہ نہ ہوجائے۔ پہلے صدقہ کے جانور کو دو دن کے لئے اکیلے گھر میں چھوڑا گیا ہے۔ مدد کرنے والے بھائی کو ڈر ہے کہ کیا اس کو بھی گناہ ملے گا؟

جواب: کسی حادثہ سے بچنے کی نیت سے جانور ذبح کرنا شرکیہ عمل ہے اور چونکہ اس بھائی کو پہلے سے اس بات کی خبر تھی لہذا وہ اپنے چچا کو اس عمل سے منع کرتا اور اگر اس کے چچا ماننے پر آمادہ نہیں ہوئے تو خود کو اس عمل سے دور رکھتا اور دل میں اسے برا جانتا۔

خیر! انسان سے ہی غلطی ہوتی ہے اور اللہ تعالی اپنے بندے کو غلطی کی اصلاح کا موقع بھی دیتا ہے۔ جس نے اس کام پر مدد کی وہ اللہ سے توبہ کرلے ، اللہ معاف کرنے والا ہے۔ ساتھ ہی وہ بھائی اپنے چچا کو اس ناجائز عمل پر اچھے سے سمجھائے، وہ اگر صحیح سے نہ سمجھا سکے تو کسی قریبی عالم کے ذریعہ اپنے چچا کو اس عمل کا شرعی حکم بتائے۔

سوال:کیا ہم اپنی اولاد کو یہ نصیحت کرسکتے ہیں کہ فرض عبادات کے ساتھ ساری زندگی کم ازکم ہر ماہ کے تین روزے اور چاشت کی نماز ادا کرنا اپنی عادت بنالو تاکہ ان تین روزوں کا اجر اور جسم کےتمام جوڑوں کا شکر ادا ہوسکے کیونکہ تہجد کی ادائیگی ہر کوئی نہیں کر پاتا ہے؟

جواب:اپنی اولاد کو بلاشبہ ان باتوں کی نصیحت کرسکتے ہیں، نبی ﷺ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو عمر بھر تین باتوں پر عمل کرنے کی وصیت فرمائی تھی چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

أَوْصَانِي خَلِيلِي بِثَلَاثٍ لَا أَدَعُهُنَّ حَتَّى أَمُوتَ، صَوْمِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَصَلَاةِ الضُّحَى، وَنَوْمٍ عَلَى وِتْرٍ(صحیح البخاری:1178)

ترجمہ: مجھے میرے جانی دوست (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تین چیزوں کی وصیت کی ہے کہ موت سے پہلے ان کو نہ چھوڑوں۔ ہر مہینہ میں تین دن روزے۔ چاشت کی نماز اور وتر پڑھ کر سونا۔

سوال:ظہر کی نماز میں سنت موکدہ چھ رکعت ہوتی ہیں ، اگر کبھی دو پڑھ لیں ، کبھی چار پڑھ لیں تو نماز درست ہوگی یا پوری چھ رکعت پڑھنی ہوگی؟

جواب:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے طے شدہ عبادت میں کوئی اپنی مرضی سے کم اور زیادہ نہیں کرسکتا ہے، جو عبادت جس تعداد میں بیان ہوئی ہے، ہمیں اسی تعداد میں ادا کرنی چاہیے۔ سنت موکدہ کی ادائیگی واجب نہیں ہے اس لئے کبھی چھوٹ جائے یا چھ رکعت نہیں ادا کر سکیں، کم ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن سنت موکدہ کے تعلق سے یہ نہ سمجھیں کہ دو پڑھنے سے بھی کام چلے گا یا چار پڑھنے سے بھی چلے گا بلکہ یہ سمجھیں کہ سنت موکدہ کی تعداد چھ رکعات ہیں ہمیں اتنی تعداد میں ادا کرنا ہے۔ کبھی عذر کی وجہ سے کچھ کم ہو جائے یا چھوٹ جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ سنت مؤکدہ نہیں بھی پڑھتے ہیں تب بھی فرض ادا کرنے سے فرض ادا ہو جائے گا مگر سنت کی فضیلت سے آدمی محروم ہوگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سنت مؤکدہ برابر ادا کرتے، ہمیں بھی سنت پر مواظبت کرنی چاہیے۔

سوال: ہم عام طور سے اہل حدیث مسجد میں نماز پڑھتے ہیں لیکن کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ اہل حدیث مسجد نہیں ملتی اور اس میں نماز بھی تاخیر سے ادا کی جاتی ہے ایسے وقت میں عام مسجد میں نماز پڑھنا چاہیے یا اول وقت پر اکیلے نماز پڑھ لینا چاہیے؟

جواب: اول وقت پر نماز ادا کرنا افضل ہے جبکہ جماعت سے نماز ادا کرنا اکیلے نماز ادا کرنے سے ستائیس گنا زیادہ افضل ہے اور حکما جماعت سے نماز پڑھنا واجب ہے۔ اس وجہ سے آپ پر لازم ہے کہ جماعت سے نماز ادا کریں کیونکہ یہ واجبی عمل ہے جبکہ اول وقت میں پڑھنا واجبی عمل نہیں بلکہ افضل عمل ہے تاہم اس بات کا خیال رہے کہ نماز پڑھانے والا صحیح عقیدہ والا ہو۔ اگر مسجد کا امام شرکیہ عقیدہ رکھنے والا اور شرک کرنے والا ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنے سے بہتر ہے اکیلے نماز ادا کر لیں۔ 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔