Tuesday, January 14, 2025

آپ کے سوالات اور آن کے جوابات(37)

آپ کے سوالات اور آن کے جوابات(37)

جواب ازشیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ - سعودی عرب


سوال : ہم بچوں کو سکول کی کتابوں میں جہاں اے فور ایپل پڑھاتے ہیں، وہیں ہمیں ایکس فور ایکسمس ٹری بھی پڑھانا پڑتا ہے، ساتھ میں درخت کی تصویر بھی ہوتی ہے جسے بچے پسند بھی کرتے ہیں۔ اس درخت کا تعلق عیسائی عقیدہ سے ہے مگر اس کے بارے میں تفصیل نہیں معلوم ہے۔ اس کے بارے میں کچھ معلومات درکار ہے نیز ایک استاد کو ایسے موقع پر کیا کرنا چاہئے اس بارے میں بھی کچھ روشنی ڈالیں؟

جواب: دنیا کا یہی رواج ہے کہ تمام دین والے اپنے دین و مذہب کا پرچار کرتے ہیں بطور خاص اگر ان کو مدارس و اسکول میں اپنی مذہبی چیزیں پڑھانے کا موقع مل جائے تو اپنے دین کو پھیلانے کا یہ سب سے اہم ذریعہ ہوتا ہے۔ ایسے میں ایک استاد کی اولین ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے اسکول کے نصاب میں اس قسم کی چیزیں داخل نہ ہونے دے جن سے بچوں کے عقیدے پر ضرب لگتی ہو اور نصاب میں داخل ایسی تمام کتابیں بدل دی جائیں جن میں غیر اقوام کی تعلیمات موجود ہوں۔ ویسے تو چھوٹے بچوں کی عقلیں ناپختہ ہوتی ہیں اس لئے غیر اقوام کی بات ان سے نہیں کرنی چاہیے پھر بھی اگرتعلیم کے دوران ایسی کوئی بات ذکر ہوجائے تو ساتھ ساتھ اس کی تردید کرنی چاہیےتاکہ بچے سمجھ لیں کہ یہ بات اسلام میں نہیں ہے بلکہ غیروں کی بات ہے۔

جہاں تک اس درخت کا معاملہ ہے تو یہودیوں کے نزدیک ایک مقدس درخت ہے جو قیامت کے آخر میں اس کی مدد کرے گا، اس کا نام غرقد ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقَاتِلَ الْمُسْلِمُونَ الْيَهُودَ، فَيَقْتُلُهُمُ الْمُسْلِمُونَ حَتَّى يَخْتَبِئَ الْيَهُودِيُّ مِنْ وَرَاءِ الْحَجَرِ وَالشَّجَرِ، فَيَقُولُ الْحَجَرُ أَوِ الشَّجَرُ: يَا مُسْلِمُ يَا عَبْدَ اللَّهِ هَذَا يَهُودِيٌّ خَلْفِي فَتَعَالَ فَاقْتُلْهُ، إِلَّا الْغَرْقَدَ فَإِنَّهُ مِنْ شَجَرِ الْيَهُودِ(صحیح مسلم:2922)

ترجمہ :قیامت قائم نہیں ہوگی، یہاں تک کہ مسلمان یہودیوں کے خلاف جنگ لڑیں گے اور مسلمان ان کو قتل کریں گے حتیٰ کہ یہودی درخت یا پتھر کے پیچھے پیچھے کا اور پتھر یا درخت کہے گا: اے مسلمان!اے اللہ کے بندے!میرے پیچھے یہ ایک یہودی ہےآگے بڑھ، اس کوقتل کردے، سوائے غرقد کے درخت کے (وہ نہیں کہے گا) کیونکہ وہ یہود کا درخت ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے غرقد نامی درخت یہودیوں کی نسبت سے یہودیوں کا درخت کہا گیا ہے۔ یہ ایک کانٹے دار درخت ہوتا ہے جو بیت المقدس کی جانب زیادہ ہوتا ہے اور یہ وہی غرقد ہے جس کے نام پر مدینہ کا قبرستان بقیع الغرقد ہے جہاں پہلے کبھی یہ درخت موجود تھا، جب یہاں یہودی بھی آباد تھے۔ اب صرف نام ہے مگر وہ درخت موجود نہیں ہے اور نہ یہودی موجود ہے۔ جب معاملہ ایسا ہے کہ قیامت کے قریب ہرچیز یہودیوں کے خلاف ہوگی اور مسلم کو آواز لگائے گی کہ اے مسلم فلاں جگہ یہودی ہے اسے قتل کرو، ایسے میں غرقد یہودیوں کا سہارا بنے گا اس لئے یہودی اس درخت سے محبت کرتے ہیں ، اسے زیادہ سے زیادہ لگاتے ہیں اور اس کی تصویر نشرکرتے ہیں۔

سوال: اگر چار رکعت والی نماز میں تین رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا، بعد میں آدھے گھنٹے یا ایک گھنٹے کے بعد یاد آئے تو کیا تب بھی ایک رکعت پڑھ کر سجدہ سہو کریں گے یا پوری نماز دہرانی پڑے گی؟

جواب: اگر چار رکعت والی نماز پڑھتے ہوئے تین رکعت پہ ہی سلام پھیر دیتے ہیں اور کافی دیر بعد یاد آتا ہے کہ ایک رکعت باقی ہے تو ایسی صورت میں مکمل نماز دہرانی ہوگی لیکن اگر سلام پھرنے کے فورا بعد یا کچھ دیر بعد یاد آجائے تو صرف ایک رکعت پڑھ کر سجدہ سہو کریں گے۔دوسری بات یہ ہے کہ نماز پڑھ لینے کے بعد فقط دل میں وسوسہ پیدا ہو کہ تین رکعت پڑھے ہیں، یقینی علم نہ ہو تو اس بات پہ توجہ نہیں دی جائے گی اور نماز اپنی جگہ درست مانی جائے گی ۔

سوال: اجمیر درگاہ سے متعلق ووٹنگ کی جارہی ہے اور اس کے لئے ایک پوسٹ نشر کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ((کیا اجمیر کی درگاہ شریف پر کوئی قدیم شیو مندر ہونا چاہیے یا اسے معین الدین چشتی کی مسجد اور درگاہ کے طور پر رہنا چاہیے؟ فی الحال اس معاملے پر ووٹنگ جاری ہے اور اس معاملے کو عدالت میں لے جایا گیا ہے۔ اس وقت ووٹنگ ہمارے حق میں نہیں ہے۔ میں آپ سے ہاتھ جوڑ کر عاجزانہ درخواست کرتا ہوں کہ میرا ساتھ دیں اور کم از کم ایک ووٹ ڈالنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کر کے میری عزت کو برقرار رکھیں۔ اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک شیئر کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ ووٹ اکٹھے ہو سکیں۔ووٹ ڈالنے کی آخری تاریخ 31 دسمبر ہے۔))

بطور ایک مسلمان ہمیں ایسا ووٹ دینا چاہیے اور اگر مسجد کے لیے ووٹ کی نیت رکھیں اور درگاہ کے لئے نہیں تو کیا ووٹ دے سکتے ہیں؟

جواب: اجمیر کا مزار، مزار اور درگاہ ہے، یہ کوئی مسجد نہیں ہے۔ اگر مزار کے پاس مسجد بنادی جائے تب بھی اس مسجد میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے حتی کہ کسی مسجد میں کوئی قبربنائی گئی ہواس مسجد میں بھی نماز جائز نہیں ہے ۔مسجد کا معاملہ واضح ہے ، وہ یہ ہے کہ مسجد میں کوئی قبر نہ ہو اور نہ ہی مسجد قبرستان میں بنائی جائےگی ۔

اجمیرمزار کے لئے نہ مسجد کی نیت کی جائے گی اور نہ ہی مسجد کی نیت کرنے سے مزار مسجد ہو جائے گا۔ یہ ہمیشہ سے شرکیہ مقام یعنی ایک مزار رہا ہے اور جب تک باقی رہے گا مزار ہی کہلائے گا۔

ایک موحد کو کبھی بھی مزار کی تائید نہیں کرنی ہے بلکہ موحد کو اگر موقع ملے تو تعمیر کئے ہوئے مزارات کو منہدم کر دینا چاہیے جیسے شاہ عبدالعزیز آل سعود نے عرب کی سرزمین سے مزارات کی صفائی کی۔ اور یہ حکم رسول ہے، نبی ﷺ نے حضرت علی کا تمام قسم کے مجسمے اور اونچی قبر کو توڑنے کا حکم دیا تھا۔ ابو الہیاج اسدی سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا:

أَلَا أَبْعَثُكَ عَلَى مَا بَعَثَنِي عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ أَنْ لَا تَدَعَ تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَهُ، وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّيْتَهُ(صحیح مسلم:969)

ترجمہ:کیا میں تمھیں اس (مہم) پر روانہ نہ کروں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھےروانہ کیا تھا؟ (وہ یہ ہے) کہ تم کسی تصویر یا مجسمے کو نہ چھوڑنا مگر اسے مٹا دینا اور کسی بلند قبر کو نہ چھوڑنا مگر اسے (زمین کے) برابر کردینا۔

سوال: ایک بچی پیدائشی مخنث ہے، اس بچی کے علاج کے لئے ڈاکٹر سے کنسلٹ کیا گیا تو ڈاکٹر مشورہ دئے کہ جب اٹھارہ سال کی ہوگی اس وقت پہلے ہارمونز کا علاج ہوگا پھر اس کا آپریشن کرسکتے ہیں، کیا اس طرح آپریشن کروانا جائز ہے؟

جواب: بغیر ضرورت جنس کی تبدیلی اسلام میں حرام ہے یعنی کوئی لڑکا اپنی جنس بدل کر لڑکی بن جائے یا لڑکی اپنے جنس بدل کر لڑکا ہو جائے یہ حرام ہے کیونکہ یہ اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کرنا ہے لیکن جو پیدائشی مخنث ہو اور علاج کے ذریعہ اس کی اصلاح ہو سکتی ہو تو آپریشن کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ یہ آپریشن بطور ضرورت اور علاج ہے اور اللہ رب العالمین نے ہمیں علاج کرنے کی اجازت دی ہے تاہم آپریشن کے لئے اس بات کی کوشش کی جائے کہ اگر اس مخنث میں لڑکی کے صفات غالب ہوں تو خاتون ڈاکٹر سے آپریشن کرایا جائے اور خاتون ڈاکٹر میسر نہ ہو سکے تو مجبوری میں مرد ڈاکٹر سے بھی علاج کرایا جا سکتا ہے۔

سوال:اگر کسی کے یہاں ہماری دعوت ہو اور ہمارے گھر مہمان ہو تو کیا اس مہمان کو بھی دعوت میں لے جاسکتے ہیں؟

جواب:جس کو دعوت دی گئی ہو دعوت کھانے صرف وہی جاسکتا ہے اور اگر گھر میں کوئی مہمان بھی موجود ہو تو اس کے لئے الگ سے اجازت لینی پڑے گی۔ اگر مہمان کے لئے اجازت مل جائے تب ہی اس مہمان کو دعوت میں شریک کرسکتے ہیں وگرنہ بغیر اجازت دعوت میں لے کر جانا صحیح نہیں ہے۔ ہاں اگر یقین ہوتا کہ میزبان ناراض نہ ہوگا یا اسے ناگواری محسوس نہیں ہوگی تو غیرمدعو شخص کو اپنے ساتھ لے جاسکتے ہیں۔ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ ابوبکروعمر کو دیکھتے ہیں جو بھوکے ہوتے ہیں اور آپ خود بھی بھوکے ہوتے ہیں ، نبی نے کہا ساتھ چلو، ایک انصاری کے گھر گئے مگر وہ اس وقت موجودنہیں تھے، ان کی زوجہ تھیں، انہوں نے آپ کو خوش آمدید کہا پھر انصاری بھی آگئے اور آپ لوگوں کو دیکھ کر خوشی سے کہتے ہیں :

الْحَمْدُ لِلَّهِ مَا أَحَدٌ الْيَوْمَ أَكْرَمَ أَضْيَافًا مِنِّي(صحیح البخاری:2038) یعنی اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج کے دن کسی کے پاس ایسے مہمان نہیں ہیں جیسے میرے پاس ہیں۔ پھرانہوں نے بکری کی دعوت کی ۔

اسی لئے اس پر امام مسلم نے باب باندھاہے:(باب جَوَازِ اسْتِتْبَاعِهِ غَيْرَهُ إِلَى دَارِ مَنْ يَثِقُ بِرِضَاهُ بِذَلِكَ وَيَتَحَقَّقُهُ تَحَقُّقًا تَامًّا وَاسْتِحْبَابِ الاِجْتِمَاعِ عَلَى الطَّعَامِ)یعنی باب: اگر مہمان کو یقین ہو کہ میزبان دوسرے کسی شخص کو ساتھ لے جانے سے ناراض نہ ہو گا تو ساتھ لے جا سکتا ہے۔

سوال: کیا بچے کے منہ سے نکلنے والا دودھ پیشاب کی طرح ناپاک ہوتا ہے؟

جواب:قے کے پاک وناپاک ہونے کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف پایا جاتا ہے ۔ شیخ ابن عثیمینؒ قے کو پاک کہتے ہیں جبکہ شیخ ابن بازکا میلان نجس ہونے کی طرف ہے ۔ اس بارے میں احتیاط کا تقاضہ ہے کہ بچہ جب کپڑے پر قے کردے تو اسے دھل دیا جائے لیکن اگر معمولی قے ہو یا قے میں بدبونہ ہویا بچہ باربار قے کرتا ہوں تو ان صورتوں میں کپڑا دھلنے میں ضرورت نہیں ہے کیونکہ قے کی اصل طہارت ہے اس کےنا پاک ہونے کی کوئی صریح دلیل نہیں ہے ۔کپڑا دھلنے والی بات فقط احتیاطی طور پر کہی گئی ہے۔

سوال: کیا عورت تنہائی میں یا عبایا کے نیچے یا محرم کے سامنے پینٹ و شرٹ پہن سکتی ہے، ڈاکٹر ذاکر نائیک کا کہنا ہے "ہاں" تو کیا اس طرح مردوں سے مشابہت نہیں ہوگی؟

جواب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو مردوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے اس لئے کوئی عورت ایسا لباس نہیں لگا سکتی ہے جو مردوں والا ہو البتہ وہ لباس جو عورتوں کے لئے مخصوص طور پر بنا ہو یعنی وہ عورتیں ہی پہنتی ہوں تو ایسا لباس عورت پہن سکتی ہے، ایسی صورت میں مشابہت نہیں کہلائے گی ۔

اور ایک عورت اپنے گھر میں شوہر کے پاس یا تنہائی میں عورتوں کے لئے مخصوص طور پر تیار شدہ جینز پینٹ یا ٹی شرٹ لگا سکتی ہے مگر شوہر کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لئے نہیں حتی کہ محرموں کے لئے بھی نہیں کیونکہ اس میں عموما جسم کا صحیح سے پردہ نہیں ہوتا ہے تاہم ایسے لباس سے بچنا ہی بہتر ہے کیونکہ لباس ہر سماج میں اپنے سماج کے شرفاء کے حساب سے لگانا چاہیے، اگر آپ سماج کے شریف لوگوں سے ہٹ کر دوسرے قسم کا لباس لگاتے ہیں تو لوگ اسے معیوب سمجھتے ہیں گو کہ جواز کا پہلو نکلتا ہے مگر سماج کا خیال کرنا بہتر ہے۔ مثال کے طور پر ایک عالم بھی پینٹ اور شرٹ پہن سکتے ہیں مگر ہندوستانی ماحول میں اسے معیوب سمجھا جاتا ہے یہی لباس مغربی ممالک میں عالم بھی لگاتے ہیں وہاں معیوب نہیں سمجھا جاتا کیونکہ اس معاشرے کا یہ لباس ہے۔

آپ کہیں گے کہ گھر میں پہننے سے کون دیکھے گا یا عبایا کے نیچے پہننے سے کون دیکھے گا ،اس کا جواب یہ ہے کہ آپ اگر گھر میں بھی پہنتے ہیں یا عبایا کے نیچے پہنتے ہیں تب بھی سماج کی عورتوں کو آپ کے لباس کا علم ہوجائے گا اور آپ کے لباس کے بارے میں عورتیں چرچا کریں گی۔

سوال:میں سردی کے موسم میں جلدی غسل نہیں کر پاتی ہوں کیونکہ مجھے زیادہ سردی پڑ جانے سے تکلیف ہوتی ہے۔ اور حیض کے شروع میں ہی بہت تکلیف اور کمزوری ہوتی ہے ، حیض کے دن ختم ہو کر دس دن ہو جائیں تب بھی غسل کرنا میرے لیے بہت مشکل ہے۔ غسل کرنے سے بہت نقصانات ہوتے ہیں اور میں معذور بھی ہوں، میری طبیعت کے نقصانات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں اللہ کے حکم اور صحیح احادیث سے کیا حل مل سکتا ہے؟

جواب: اگر کوئی ایسی جسمانی معذور خاتون ہے جس کے لئے سخت سردی کی وجہ سے حیض سے پاکی پر پانی کا استعمال صحت کے لیے مضر ہو تو وہ پانی گرم کرکے غسل کرے اور اگر گرم پانی کی سہولت نہ ہو یا گرم پانی سے بھی نہانا مضر ہو تو ایسی صورت میں وہ خاتون حیض سے پاک ہونے پر تیمم کرے گی اور تیمم سے اس کا غسل ہو جائے گا اور جب نماز ادا کرنا ہو تو تیمم کرے گی اس سے وضو ہو جائے گا۔ ساتھ ہی یہ بات دھیان میں رہے کہ جب نہانے کی سہولت میسر ہو جائے تو اس وقت غسل کرنا ضروری ہے۔ مثلا آپ کو حیض سے پاک ہونے پر دس دنوں تک غسل کرنا باعث ضرر ہے اس کے بعد غسل کرسکتے ہیں تو اس کے بعد ہی جب غسل کرسکیں، اس وقت غسل کریں گے

سوال: جب کوئی عورت تین ماہ سے قبل یا بچے کے اعضاء ظاہر ہونے سے پہلے بچہ جنے یا حمل ساقط ہوجائے اور خون نکلے تو وہ فاسد قرار دیا گیا ہے اور اس خاتون پر اس حال میں نماز اور روزہ ادا کرنا ہے تو میرا سوال یہ ہے کہ یہ خون نفاس کیوں نہیں مانا جائے گا، کیا صحابیات بھی اسی طرح شمار کرتی تھیں؟

جواب: تین ماہ نہیں بلکہ چار ماہ سے قبل جو حمل گر جائے اس وقت شرمگاہ سے خارج ہونے والاخون نفاس نہیں کہلائے گا کیونکہ اس وقت بچے کے مکمل اعضاء تیار نہیں ہوتے ہیں۔ جب بچہ مکمل نہیں بلکہ ناتمام ہے تو اس صورت میں خارج ہونے والا خون نفاس کیوں کر ہوگا؟

جہاں تک معاملہ صحابیات کا ہے تو ان کے تعلق سے کتابوں میں ایسا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔

سوال: ایک کتاب میں پڑھا ہوں کہ کافر کا جھوٹا پاک ہے لیکن عالم لوگ کافر کے ہاتھ سے بنا کھانا کھانے سے منع کرتے ہیں جبکہ شادی وغیرہ میں اکثر کھانا کافر ہی بناتے ہیں پھر اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: آدمی کا جھوٹا پاک ہوتا ہے خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر ہو، شریعت کا یہی مسئلہ ہے۔ اسی لیے کافر کے ہاتھ کا تیار کیا ہوا سامان کھا سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ روز مرہ کی زندگی میں ہزاروں لاکھوں چیزیں دکان سے خرید کر کھاتے ہیں جو کافروں کی تیار شدہ ہوتی ہیں۔
یہ بات اپنی درست ہے کہ کافر مسلمانوں کی طرح صفائی ستھرائی کا خیال نہیں کرتا اس وجہ سے کھانا بنانے کے لئے مسلمان کوک رکھا جائے تو بہتر ہے ۔

سوال: ایک عورت عمرہ پر گئی ہے، اس کی عمر اس وقت سینتالیس سال ہے اور اس کو تین مہینے سے حیض نہیں آیا تھا، ابھی عمرہ کرنے گئی ہے تو حیض آیا ہے، وہ بھی بہت تھوڑا قطرہ، خون کا دکھائی دے رہا ہے۔ کیا اس کو حیض شمار کرے گی یا نہیں؟

جواب: بڑی عمر میں حیض کے نظام میں گڑبڑی آتی ہے کیونکہ دھیرے دھیرے پھر حیض کا سلسلہ بند ہونا شروع ہوتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ مکمل طور پر حیض بند ہوجاتا ہے۔

ابھی جو مسئلہ ہے کہ تین مہینے کے بعد خون کا ہلکا قطرہ آیا ہے، اس میں دیکھا جائے کہ حیض کے صفات ہیں یا نہیں؟اگر اس میں حیض کے صفات ہیں یعنی خون گاڑھا، بدبودار اور سیاہی مائل ہے تو اسے حیض ہی مانا جائے گا اور نماز روزہ سے رکنا پڑے گا لیکن اگر اس میں حیض کے صفات نہ ہوں تو اسے حیض شمار نہیں کریں گے۔

سوال: میری والدہ کی عمر نوے سال کے قریب ہے۔ ان کو یوٹیرس کا مسئلہ ہو گیا ہے جس کی وجہ سے کبھی کبھی خون آرہا ہے اور عمر کی وجہ سے اس کا آپریشن نہیں کیا جاسکتا ایسی صورت میں ان کے لئے نماز کا کیا حکم ہے، کیا وہ استحاضہ کی طرح ہیں؟

جواب: اس وقت رحم سے جو خون آرہا ہے، یہ استحاضہ کا ہی ہے اور اس صورت میں استحاضہ کا حکم لگے گا۔استحاضہ والی عورت کے لئے نماز منع نہیں ہے، اس وجہ سے ان کو پانچوں وقت کی نماز ادا کرنی ہے۔ نماز سے پہلے وضو بناتے وقت پہلے کپڑے اور جسم کے اس حصے کی صفائی کرلے جہاں پر خون لگا ہوا ہے پھر لنگوٹ لگالے تاکہ وضو کے بعد اور نماز میں خون نہ ٹپکے۔ اس کے بعد وضو کرکے ایک وضو سے ایک وقت کی نماز ادا کرے۔ پھر دوسری نماز کے وقت بھی پہلے صفائی کرے پھر وضو کرے اس کے بعد نماز ادا کرے یہی عمل پانچوں وقت کی نماز میں ہونا چاہیے۔

سوال:ایک خاتون کے چار بچے ہیں اور تمام بچے نارمل ڈلیوری سے ہوئے ہیں۔ جب وہ حالت نماز میں ہوتی ہے۔ بطور خاص جب سجدے میں جاتی ہے تو اس کی شرمگاہ میں ہوا بھر جاتی ہے، پھر جب وہ سجدے سے اٹھتی ہے تو ہوا خارج ہوتی ہے تو کیا اس کی نماز باطل ہو جائے گی یا پھر اسے عذر میں شمار کیا جائے گا اور کیا شرمگاہ سے ہوا کا خارج ہونا نواقض وضو میں سے ہے؟

جواب: عورت کی اگلی شرمگاہ سے ہوا نکلے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا لہذا جس خاتون کو نماز کی حالت میں اگلی شرمگاہ سے ہوا خارج ہوتی ہے اس کی نماز اپنی جگہ درست ہے، اس سے نہ وضوٹوٹے گا اور نہ ہی اس کی نماز پر کوئی اثر پڑے گا۔

پچھلی شرمگاہ سے ہوا نکلنا وضو کے ٹوٹنے کا سبب ہے لیکن اگلی شرمگاہ سے ہوا نکلنا وضو ٹوٹنے کا سبب نہیں ہے۔

سوال: حیض کی حالت میں موبائل سے تلاوت کرتے ہوئے اسکرین کو ٹچ کرنے لئے کیا ہاتھ میں دستانہ پہننا ضروری ہے؟

جواب: موبائل سے تلاوت کرنا جائز ہے اور اسکرین پر حیض کی حالت میں آیت چھونے پر کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ موبائل میں موجود قرآنی اپلیکیشن مصحف کے حکم میں نہیں ہے، بس یہ ایک فائل اور ایپلیکیشن ہے۔ جب ضرورت پڑتی ہے تو اس ایپلیکیشن کو ڈاؤنلوڈ کرلیتے ہیں اور جب ضرورت پڑتی ہے تو اس کو کبھی ڈیلیٹ بھی کر دیتے ہیں، ظاہر سی بات ہے، یہ ڈیلیٹ کرنا قرآن ڈیلیٹ کرنا نہیں ہے بلکہ ضرورت کے وقت ایک فائل اور ایک ایپلیکیشن ڈیلیٹ کرنا ہے۔

سوال: قضا نماز میں صرف فرض پڑھیں گے یا سنتیں بھی پڑھنی ہوگی؟

جواب:اگر کسی شرع عذر کی وجہ سے کسی آدمی کی نماز قضا ہوجائے تو اس کو بھی ہوبہو ویسے ہی ادا کرنا ہے جیسے وقت پر نماز ادا کرتے ہیں یعنی فرائض اور سنن کے ساتھ۔ بسا اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنت چھوٹ گئی تو آپ نے بعد میں اس کی قضا کی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرض کی قضا تو اپنی جگہ پر ہے ہی، سنت کی بھی قضا کرنا ثابت ہے۔

لہذا نماز کی قضا پڑھنے والا فرض اور سنت دونوں کی قضا کرے۔ یہ الگ مسئلہ ہے کہ اگر کبھی کوئی سنت چھوڑ دے تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔

سوال: ایک خاتون باہری ملک میں رہتی ہے اور وہ طلاق یافتہ ہے، اس کے دو بیٹے ہیں اور شوہر کی وفات ہو چکی ہے. والد اور بھائی باحیات ہیں. ان کی کچھ پراپرٹی اور سونا ہے. وہ جس ملک میں رہتی ہے، وہاں کا قانون ہے کہ اسے اپنے مال کی وصیت کرنی ہوگی کہ اس کی وفات کے بعد یہ سب مال فلاں کو دے دیا جائے. بیٹے ساتھ نہیں رہتے، بڑا بیٹا ان کو کبھی کبھار کال کرلیتا ہے جبکہ چھوٹا ماں کو نہیں پوچھتا بلکہ یہ کہتا ہے کہ مروگی تو میرے لئے کچھ وصیت نہ کرکے جانا، میں کچھ بھی نہیں لوں گا اور اس طرح وہ سب مال گورنمنٹ کو چلا جائے گا اور مال ضائع ہوجائے گا۔ وہ پوچھتی ہے کہ کیا میں اس کو صرف بڑے بیٹے اور باقی کسی اور ضرورت مند یا کسی ٹرسٹ کے نام کردوں تاکہ یہ صحیح ہاتھوں پہنچ جائے۔ اس کے بچوں کے پاس بہت دولت ہے، ان کے باپ ان کے لئے بہت چھوڑ کرگیا۔ بڑا بیٹا بھی کروڑوں میں کماتا ہے مگر وہ کہتا ہے اگر ماں وصيت کرتی ہے وصول کرلوں گالیکن چھوٹا کہتا ہے کہ وصول نہیں کروں گا؟

جواب: شرعی لحاظ سے جائیداد کی تقسیم آدمی کی وفات کے بعد ہوتی ہے لیکن چونکہ صورت بالا میں جو مجبوری بیان کی گئی ہے اس کے تحت ماں کو اپنی جائیداد اپنے وارثوں کے نام کرنا ہے لہٰذا ایسی صورت میں ماں کو چاہیے کہ اس کے جتنے وارثین ہیں سب کے نام برابر برابر اپنی جائیداد وصیت کرے۔ اور اسے اس بات کی قطعی فکر نہیں کرنی ہے کہ اس کی اولاد کے پاس کتنی دولت ہے یا وہ کتنی کماتی ہے اور اس بات کی بھی پرواہ نہیں کرنی ہے کہ اس کی اولاد نے کیا کہا ہے یا اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ ماں کو بحیثیت ماں اپنا فرض نبھانا چاہیے اور اولاد والدین کے حق میں ناانصافی کرے تو اس کا وبال اسی کے اوپر ہوگا لیکن ماں بھی اپنی اولاد کے حق میں ناانصافی کرے تو وہ بھی اللہ کے یہاں جواب دہ ہو سکتی ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ ایک آدمی کو اپنے مال میں غیر وارث کے لئے وصیت کرنے کی بھی اجازت ہے اس لئے وہ خیراتی ادارے یا ضرورت مندوں کے لئے بھی وصیت کرسکتی ہے لیکن صرف ایک تہائی مال تک، اس سے زیادہ نہیں۔

سوال: اگر کہیں راستے سے ہمارا گزر ہو اور وہاں مزار ہو تو کیا اسے دیکھنے جانا جائز ہے؟

جواب: مزار شرک کا اڈہ ہے، اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے توڑنے اور منہدم کرنے کا حکم دیا ہے پھر کوئی مسلمان شرک کے اڈے کو دیکھنے کیسے جائے گا؟

جس چیز سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نفرت کا اظہار کیا ہو اور اس کو ختم کرنے کا حکم دیا ہو اس کو دیکھنے کے لئے جانا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی نافرمانی ہے، اس سے آدمی کو گناہ ملے گا لہذا اگر راہ چلتے ہوئے کسی مزار کی جانب سے گزرنا ہوا تو مزار پر ہرگز نہ جائے، نہ ہی پروگرام بنا کر مزار پر حاضری دے۔

سوال: کیا ہر قسم کا تعویذ لٹکانا شرک و بدعت میں آئے گا اور شرعی تعویذ کا کیا حکم ہے؟

جواب: اسلام میں کسی قسم کا تعویذ شرعی تعویذ نہیں ہے، ہر قسم کا تعویذ شرک میں داخل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: من تعلق تميمة فقد أشرك(مسند احمد:17404)

ترجمہ: جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی روشنی میں نفع کی غرض سے ہر قسم کی لٹکائی جانے والی چیز تعویذ میں داخل ہے اس لئے کسی مسلمان کو کسی طرح کا کوئی تعویذ نہیں لٹکانا چاہیے خواہ اس میں قرآن ہی کیوں نہ لکھا ہو یا کوئی دھاگہ، کڑا، چھلہ اور کسی قسم کی کوئی چیز ہو۔

سوال:اکثر لوگ کہتے ہیں کہ میت کو نہلانے اور کفنانے کے وقت بہت احتیاط کرنا چاہیے تاکہ میت کو بالکل تکلیف نہ ہو کیونکہ وہ سب کچھ محسوس کرتا ہے، یہ بات کہاں تک درست ہے؟

جواب:ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس کی بنیاد پر یہ کہا جائے کہ میت کو نہلانے اور کفنانے میں احتیاط کرنا چاہیے ورنہ میت کو تکلیف ہوگی، یہ لوگوں کی جانب سے بنی بنائی باتیں ہیں، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

حدیث میں یہ بات ضرور ہے کہ میت پر رونے سے اس کو عذاب دیا جاتا ہے اس لئے میت پر نہیں رونا چاہیے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:

إن الميت ليعذب ببكاء أهله عليه (صحيح البخاري:1286)

ترجمہ: میت پر گھر والوں کے رونے سے عذاب ہوتا ہے۔

اس وجہ سے یہ بات کہنا کہ میت کو غسل دینے یا کفن دینے سے تکلیف ہوتی ہے، یہ غلط ہے تاہم نہانے اور کفن دینے میں ہمیں اطمینان و سکون کا مظاہرہ کرنا چاہیے، اس میں جلد بازی اور غیر سکون والی حرکت سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ مومن اپنا کام سکون سے کرتا ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔

سوال: ایک بہن کے ساتھ گیس کا مسئلہ بہت زیادہ ہے، باوجود علاج کے افاقہ نہیں ہوتا۔ دونوں جگہوں سے ہوا خارج ہوتی رہتی ہے، اس بہن کے حوالے سے رہنمائی حاصل کرنی ہے ۔کسی نے کہا تھا کہ آپ نماز کے وقت ایک دفعہ وضو کیا کریں اور پھر گیس کے اخراج کی صورت میں نماز جاری رکھیں پھر سلام پھیر کر تیمم کرکے نیت باندھیں۔ طواف کے دوران بھی، کیا وہ تیمم کرسکتی ہے کیونکہ گھڑی گھڑی وضو کرنا ممکن نہیں ہوتا؟

جواب:اگر کسی خاتون کے ساتھ گیس کا مسئلہ شدید نوعیت کا ہے جیساکہ اوپر مذکور ہے تو ایسیصورت میں اس خاتون کا وہی حکم ہے جو استحاضہ والی عورت کا ہے اور پیشاب کے مریض کا ہے۔

ایسی خاتون کو ہر نماز کے لئے وضو کرنا ہے اور ایک وضو سے ایک وقت کی وہ ساری نمازیں ادا کرسکتی ہے۔ مثال کے طور پر ظہر کی نماز پڑھنی ہو تو وضو کرکے ظہر سے پہلے کی سنت، ظہر کی فرض نماز اور اس کے بعد کی سنت یہ ساری نمازیں ایک وضو سے پڑھے گی اور درمیان میں ہوا خارج ہونے پر اسے تیمم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جس نے تیمم کرنے کہا ہے اس نے غلط بات بتائی ہے، اسے اس بارے میں شریعت کا علم نہیں ہے۔

ایسی عورت طواف کے وقت بھی طواف سے پہلے وضو کرلے اسی وضو سے مکمل طواف کرسکتی ہے چاہے درمیان میں ہوا خارج کیوں نہ ہو۔

سوال:کیا نفل یا قضا کے طور پر صرف اتوار کے دن روزہ رکھ سکتے ہیں؟

جواب:صرف اتوار کو نفل روزہ یا قضا روزہ رکھنے میں حرج نہیں ہے کیونکہ اس دن روزہ رکھنے کی ممانعت نہیں ہے جبکہ کئی احادیث سے اتوار کو روزہ رکھنے کا ثبوت ملتا ہے جیسے ام سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں:

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ يَوْمَ السَّبْتِ وَيَوْمَ الْأَحَدِ أَكْثَرَ مَا يَصُومُ مِنَ الْأَيَّامِ وَيَقُولُ:إِنَّهُمَا يَوْمَا عِيدٍ لِلْمُشْرِكِينَ فَأَنَا أُحِبُّ أَن أخالفهم(مسند احمد:27286)

ترجمہ:رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زیادہ تر ہفتہ اور اتوار کے دن روزہ رکھا کرتے تھے اور آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمایا کرتے تھے:یہ دونوں مشرکین کے ایام عید ہیں، لہذا میں ان کی مخالفت کرنا پسند کرتا ہوں۔

اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے مگر دوسرے متعدد اہل علم جن میں علامہ ابن تیمیہ، شیخ ابن باز، شیخ ابن عثیمین ، شعیب ارناووط، منذری اور شیخ زبیر علی زئی وغیرہ نے قابل حجت قرار دیا ہے۔

ترمذی (744) اور ابن ماجہ (1726) میں ہفتہ(سنیچر) کے دن اکیلا روزہ رکھنے کی ممانعت وارد ہے اس وجہ سے ہفتہ کے دن اکیلے روزہ رکھنا مکروہ کہا جاتا ہے، ویسے اہل علم یہ بھی کہتے ہیں کہ ہفتہ کے دن بھی اکیلا روزہ رکھا جاتا ہے جبکہ اتوار کو اکیلا روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جمعہ کو خاص کرکے صرف جمعہ کا منفرد روزہ رکھنا منع ہے اس سے پرہیز کیا جائے، جمعہ کا روزہ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد سے ملا کر رکھا جائے۔

سوال: ایک خاتون جس کے رمضان کا روزہ باقی تھا اس نے انجانے میں جمعہ کے دن روزہ رکھ لیا، اسے معلوم نہیں تھا کہ اس دن روزہ رکھنا منع ہے۔ ایسے میں سوال ہے کہ کیا اس کا روزہ ہوگیا یا دوبارہ رکھنا ہے اور اسی طرح جمعہ کو نفلی روزہ منع ہے یا قضا روزہ بھی منع ہے ؟

جواب: جس خاتون نے جمعہ کے دن رمضان کا قضا روزہ رکھ لیا اس سے اس کا روزہ ادا ہو گیا، اسے دوبارہ روزہ رکھنے کی ضرورت نہیں ہے البتہ وہ آئندہ اس بات کا خیال کرے کہ وہ خاص کرکے صرف جمعہ کے دن نفلی یا قضا کوئی روزہ نہ رکھے البتہ جمعہ سے ایک دن پہلے یا جمعہ کے بعد ایک دن ملا کر رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔جمعہ کے دن روزے کی ممانعت میں نفل اور قضا دونوں شامل ہیں۔

سوال: ایک آدمی کو سحرکا مسئلہ ہے، کسی نے ایک کاغذ پہ سورہ المومنون کی آیت "أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ، فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ، وَمَن يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِندَ رَبِّهِ" لکھ کر دیا ہے۔ اسے پانی میں ڈال کر نہانا اور پانی میں ڈال کر پینا کیسا ہے؟

جواب: سحر کو دور کرنے میں ایک بات واضح طور پر ذہن نشین کرلیں کہ اس کا شرعی علاج صرف اور صرف شرعی طور پر دم کرنا ہے۔ سحر و آسیب دور کرنے کے لئے آیت لکھ کر اور پانی میں گھول کر مریض کو پلانا یا اس سے مریض کو غسل دینا یہ دونوں غیر شرعی طریقے ہیں کیونکہ اس کا قرآن و حدیث اور اسلاف امت سے کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے۔

جادو اور آسیب کا توڑ قرآن پڑھ کر براہ راست مریض پر دم کرنا ہے۔

سوال: کیا خاتون اپنے ہاتھوں میں گلاب اور موگرے کا پھول پہن سکتی ہے اور کیا دلہن شادی کے دو دن پہلے مہندی سے اپنے ہونے والے محرم کا نام لکھ سکتی ہے؟

جواب: بلاشبہ عورت زینت کی حلال چیزیں استعمال کر سکتی ہے، پھول حلال چیزوں میں شمار ہوتا ہے اور اسے اپنے ہاتھوں میں باند سکتی ہے لیکن یاد رہے کہ زیب و زینت کی چیز اجنبی مردوں پر ظاہر نہیں کرنا ہے اسی طرح کوئی خوشبودار چیز استعمال کر کے گھر سے باہر نہیں نکلنا ہے۔
اور جہاں تک مہندی سے اپنے محرم کا نام لکھنے کا مسئلہ ہے اور یہاں محرم سے مراد، ہونے والا شوہر ہے تو یہ جائز نہیں ہے کیونکہ بغیر نکاح کے اس لڑکی کا منگیتر پر کوئی حق نہیں ہے اور نہ ہی وہ ابھی اس کا محرم ہے بلکہ وہ ابھی اجنبی مرد ہے۔ عقد نکاح کے بعد منگیتر محرم کہلائے گا پھر لڑکی اپنے شوہر کی خوشی کے لئے جو چاہے زینت کی حلال چیز استعمال کرے۔

سوال: کھانا کھاکر پلیٹ میں ہاتھ دھونا کیسا ہے، ہم نے سنا ہے کہ اسلام میں اس کی ممانعت ہے، کیا یہ بات صحیح ہے؟

جواب: کھانا کھانے کے بعد اسی پلیٹ میں ہاتھ دھونے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اس سلسلے میں مانعت کی کوئی دلیل نہیں ملتی ہے۔ بعض لوگوں نے اس عمل کو مکروہ اور ناجائز کہا ہے مگر مکروہ یا ناجائز کہنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس پلیٹ میں ہم نے کھانا کھایا ہے اسی پلیٹ میں ہاتھ دھو سکتے ہیں البتہ پلیٹ میں کھانا موجود ہو اور اسی میں ہاتھ دھل لیا جائے، یہ یقینا غلط ہے اس کو نعمت کی ناقدری کہیں گے۔ کھانے کا طریقہ یہ ہے کہ پلیٹ میں موجود سارا کھانا کھایا جائے پھر ہاتھ دھلا جائے یا پلیٹ میں اتنا ہی کھانا لیں جتنا کھا سکتے ہیں۔

سوال:مجھے پی ایج ڈی میں تھیسس رائٹنگ، آرٹیکل سیٹنگ اور پیپر پزنٹیشن رائٹنگ میں خصوصیت حاصل ہے۔ اس میں جو سب سے اہم کام، جس سے ڈگری ملتی ہے، میں وہ کام کرنا چاہتا ہوں اور دوسروں کے کام کرسکتا ہوں۔ اب تک تو فری میں کام کیا مگر اسے بطور پیشہ اختیار کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے سنا ہے کہ تھیسس، پروجکٹ اور آرٹیکل لکھ کر نہیں دے سکتے ہیں۔ نوے فیصد نہیں لکھ سکتے، دس فیصد لکھ سکتے ہیں ، اس سلسلے میں صحیح مسئلہ جاننا چاہتا ہوں؟

جواب: یہ حقیقت ہے کہ کوئی آدمی کسی دوسرے کا مقالہ، آرٹیکل اور تھیسس لکھ کر نہیں دےسکتا ہے، یہ امانت میں خیانت اور اس ادارے کے ساتھ دھوکہ ہے جس ادارے میں یہ تھیسس جمع کیا جائے گا گویا ایک طرح سے، کسی دوسرے کا تھیسس لکھنا تین لوگوں کے حق میں ناانصافی ہے۔ ایک تو خود لکھنے والے کے حق میں، دوسرا جس کے لئے لکھا جائے اس کے حق میں اور تیسرا جس ادارے میں جمع کیا جائے اس کی حق میں۔ چونکہ اس کی بنیاد پر ڈگری ملتی ہے اس لئے اگر کوئی، کسی دوسرے کو تھیسس لکھ کر دیتا ہے اور اس بنیاد پر ڈگری ملتی ہے تو وہ ڈگری بھی فرضی مانی جائے گی اور اس ڈگری سے نوکری حاصل کرنا بھی جائز نہیں ہوگا۔ غیر کے لئے پورا تھیسس لکھنا یا نوے فیصد یا دس فیصد لکھنا ان میں سے کوئی بھی عمل درست نہیں ہے۔ لہذا آپ اس عمل کو بطور پیشہ اختیار نہ کریں۔ اللہ نے صلاحیت دی ہے تو دوسروں کو لکھنے پڑھنے کا یہ ہنر سکھائیں، نہ کہ اپنے ہاتھ سے لکھ کر دوسروں کو دیں اور اس سے روپیہ پیسہ کمائیں، ایسی کمائی جائز نہیں ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔