Tuesday, January 14, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات (36)

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات (36)

جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ – سعودی عرب

 

سوال: میں نے آٹھ تولہ زیور بیچ کر (2200000) کسی کو قرض دیا ہے، اس قرض کی واپسی کو کئی سال لگ سکتے ہیں۔ مجھے اس کی زکوۃ کس طرح دینی ہے، کیا ہر سال 22 /لاکھ روپے کے حساب سے زکوۃ نکالوں یا پھر ہر سال آٹھ تولہ زیور کے حساب سے زکوۃ نکالوں جو کہ ہر سال بڑھتی جائے گی؟

جواب:چونکہ پیسے کی شکل میں قرض دیا گیا ہے اس لئے پیسے کا اعتبار کر کے زکوۃ دینا ہے اور ہر سال اپنے وقت پر 22 /لاکھ کی ڈھائی فیصد زکوۃ ادا کرنی ہے۔ یہاں پر زکوۃ کے لئے زیور کا اعتبار نہیں ہوگا بلکہ پیسے کا اعتبار ہوگا اور زکوۃ کی واپسی خواہ جتنے سالوں میں بھی ہو ہر سال قرض کی مقدار کے حساب سے اس کی ڈھائی فیصد زکوۃ ادا کرنی پڑے گی۔

سوال: میرے بھائی کا انتقال ہوگیا ہے، ان کے پانچ بچے ہیں جو سب نابالغ ہیں اور میری بھابھی کو بھی کسی طرح کا کوئی ہنر نہیں آتا ہے جس کے ذریعہ وہ اپنے اور اپنے بچوں کا گزربسر کرسکے اور میری بھی معاشی حالت اچھی نہیں ہے جس سے ان کی مدد کرسکوں ۔ کیا میں جان پہچان کے لوگوں سے صدقہ و زکوۃ مانگ کر اپنی بھابھی کو دے سکتی ہوں ، بھائی کا پچاس ہزار قرضہ بھی ہے، کیا زکوۃ کے پیسوں سے قرضہ ادا کرسکتی ہوں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ حدیث میں ذکر ہے کہ مانگنے والوں کے چہرے پرقیامت کے دن گوشت نہیں ہوگا ایسے میں، میں گنہگار ہوں گی یا میں بھی اس زمرے میں شمار کی جاؤں گی؟

جواب:اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ لوگوں سے مانگنے سے بہتر خود کفیل ہونا ہے اس لئے اس بہن کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ جو کام کرسکتی ہے اسے اپنے گزر بسر کا ذریعہ بنائےاور اگر شادی کرسکے تو شادی کرلے ۔ کام کے لئے کسی ہنر کی ضرورت نہیں ہے، دنیا میں ہزاروں ایسے کام ہیں جن کو بغیر ہنر کے انجام دے سکتے ہیں، صرف محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔

جب آپ کی بھابھی کے پاس کوئی ذریعہ معاش نہ ہوتوایسی صورت میں ان کی مدد کرنا ضروری ہے اور چونکہ وہ اکیلی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ کئی چھوٹے بچے بھی ہیں اس وجہ سے ایسی بہن کی ضروریات پوری کرنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ بلاشبہ آپ ایسی بہن کے لئے لوگوں سے صدقات و خیرات، عطیات اور زکوۃ طلب کرسکتے ہیں اور اس کے ذریعہ اس بہن کی مدد کرسکتے ہیں یہاں تک کہ صدقہ اور زکوۃ کے ذریعہ اپنے بھائی کا قرض بھی اتار سکتے ہیں۔

اس تعاون میں گناہ کی کوئی بات نہیں ہے بلکہ یہ تو تعاون علی البر ہے جس پر اللہ رب العالمین اجر و ثواب دے گا۔ اور یہاں پر مانگنا اپنے لئے نہیں ، ضرورت مند کے لئے ہے۔ جو کوئی اپنے لئے بلاضرورت مانگتا ہے جبکہ اسے کماکر کھانے کی طاقت ہے ایسے لوگوں کے لئے وعید بیان کی گئی ہے مگر ضرورت مندوں کے لئے مانگنے میں حرج نہیں ہے۔

سوال: بعض دفعہ اچھی طرح غسل کے باوجود دوران نماز شیطان یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ جسم کا کوئی حصہ خشک رہ گیا تو کیا اگلے غسل سے پہلے کی تمام نمازیں قضا پڑھنی ہونگی؟

جواب:آج کل پانی کی ہر جگہ فراوانی ہے اس وجہ سے غسل میں شک و شبہ کرنا فضول ہے۔ اس وقت ہم سب لوگ ضرورت سے زیادہ غسل میں پانی استعمال کرتے ہیں، غسل میں صابن اور شیمپو کا استعمال ہوتا ہے جس کی صفائی کے لئے ڈھیر سارا پانی استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اس وجہ سے خوب پانی بہا کر اچھی طرح سارا جسم دھویا جاتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر غسل کے فورا بعد جسم کا کوئی حصہ خشک ہونے کا شک ہو اور دیکھنے پر وہ حصہ خشک نظر آئے تو اس کو دھولیں لیکن غسل کے کافی دیر کے بعد یا نماز کی ادائیگی کے بعد دل میں اگر کسی حصے کے خشک ہونے کا خیال پیدا ہو تو یہ شیطانی وسوسہ ہے اس کی طرف توجہ نہیں دی جائے گی اور نہ کوئی عبادت دہرانے کی ضرورت ہے۔

سوال:کیاموزوں پر مسح کرنا جائز ہے اور کن حالات میں موزوں کو اتار کر مسح کرنا ہے؟

جواب:موزوں پر مسح کرنا کسی حالت کے ساتھ خاص نہیں ہے، تمام حالات میں علی الاطلاق موزوں پر مسح کر سکتے ہیں اس کی کوئی قید نہیں ہے۔مسح کے لئے وقت متعین ہے،مسافر کے لئے موزوں پر مسح کرنا تین دن اور تین رات جائز ہے اور مقیم کے لئے ایک دن اور ایک رات موزوں پر مسح کرنا جائز ہے۔ایک مرتبہ وضو کرکے موزہ لگاکرجب پہلی بار مسح کریں گے اس وقت سے مسح کی مدت شروع ہوتی ہے اور مسح کی جب مدت ختم ہو جائے تب موزہ اتار کر پھر سے پیر دھلنا ہے اس کے بعد موزہ لگانا ہے۔

سوال: اگر نماز میں وضو ٹوٹ جائے تو کیا نماز دہرانی ہوگی یا وضو کے بعد باقی نماز ادا کرنی ہوگی اور اگر چار رکعت والی نماز میں تین رکعت پڑھنے کے بعد یاد آئے تو کیا ایک رکعت پڑھ کر سجدہ سہو کرنا ہے یا چار رکعت پھر سے پڑھنا ہے؟

جواب:٭اگر نماز کے دوران وضو ٹوٹ جائے تو وضو کرنے کے بعد ازسرنو نماز پڑھنی ہوگی اورپہلے جو پڑھے تھے اس کو شمار نہیں کرنا ہے۔

٭اگر کسی نے چار رکعت والی نماز میں تین رکعت پہ سلام پھیر دیا پھر اس کے بعد یاد آیا کہ ایک رکعت باقی رہ گئی ہے تو ایسی صورت میں صرف ایک رکعت پڑھنا ہے اور اس کے بعد سلام پھیرنا ہے پھر سجدہ سہو کرنا ہے پھر سلام پھیرنا ہے۔

٭ اس میں ایک صورت یہ ہے کہ اگر چار رکعت والی نمازمیں تیسری رکعت پہ بیٹھ گئے اور سلام پھیرنے سے پہلے یاد آگیا کہ ابھی ایک رکعت باقی ہے تو اٹھ کر پھر ایک رکعت ادا کریں گے اور اس صورت میں بھی سلام کے بعد سجدہ سہو کریں گے جیسے اوپربیایا گیا ہے۔

سوال: اللہ عزوجل کا ذکر اُنگلیوں کے پوروں پر پڑھنا چائیے یا صرف اُنگلی پر پڑھنا سنت ہے؟

جواب:اصل میں اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں پر تسبیح گننا چاہئے اس بارے میں ترمذی اور ابوداؤد کی ایک حدیث ملاحظہ کریں۔یسیرہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:

أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ أمرَهنَّ أن يُراعينَ بالتَّكبيرِ والتَّقديسِ والتَّهليلِ وأن يعقِدنَ بالأناملِ فإنَّهنَّ مَسئولاتٌ مُستَنطَقاتٌ(صحيح أبي داود:1501)

ترجمہ:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ تکبیر، تقدیس اور تہلیل کا اہتمام کیا کریں اور اس بات کا کہ وہ انگلیوں کے پوروں سے گنا کریں اس لیے کہ انگلیوں سے (قیامت کے روز) سوال کیا جائے گا اور وہ بولیں گی۔

یہاں پر انامل کا لفظ استعمال ہوا ہے، انامل کہتے ہیں انگلیوں کے کنارے اور اس کے اوپری حصے کو یعنی سر والے حصے کو جس میں ناخن ہوتا ہے۔ اہل لغت نے انامل کا یہی معنی بیان کیا ہےتاہم یہاں پراس سے مراد انگلیاں ہیں۔ اس حدیث کے اعتبار سے دائیں ہاتھ کی پانچ انگلیوں پر تسبیح گننا چاہئے، انگلیوں کو کھولتے ہوئے اور بند کرتے ہوئے جیساکہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔

بعض اہل علم نے انامل سے مراد مفاصل یعنی جوڑ لیا ہے اور کہا ہے کہ انگوٹھے کو ہر تسبیح پر انگلیوں کے جوڑ پر رکھا جائے۔

بہرکیف! اس معامعلہ میں وسعت ہے خواہ انگلیوں پر تسبیح گنیں یا دائیں ہاتھ کی انگلیوں کے ہر پور پر تسبیح گنیں اس میں حرج نہیں ہے تاہم سنت یہ ہے کہ انگلیوں پر تسبیح گنیں ۔ تسبیح کے دانوں پر بھی تسبیح گننا جائز ہے جبکہ انگلیوں پر تسبیح گننا افضل ہے کیونگہ یہ انگلیاں قیامت میں گواہی دیں گی۔

سوال: میرے بیٹے کو این جی او سے اسکالرشب ملتی ہے اس اسکالرشب کے جو ڈونر ہیں ان میں انٹرنیشنل بنک بھی ہے لیکن کچھ چھوٹے چھوٹے ڈونر بھی ہیں جو اپنی سیلری سے ڈونیٹ کرتے ہیں تو کیا ایسی جگہ سے اسکالرشب لینا جائز ہے؟

جواب: جو لوگ اپنی سیلری سے اسکالرشب دیتے ہیں، یہ لینا جائز ہے لیکن جس اسکالر شب میں بنک شامل ہو یعنی بنک بھی اسکالرشب دیتا ہو تو ایسا اسکالرشب لینا جائز نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں آدمی سودی پیسہ حاصل کرتا ہے اور سودی لینا حرام ہے خواہ اس کی مقدار کم ہو یا زیادہ ۔

سوال: کیا کینسر کے مریض کے لئے سورہ فاتحہ ایک دن میں چالیس مرتبہ پڑھنے کی حدیث ثابت ہے اور کینسر کے مریض کی یا بیماری سے شفا کی دعائیں بتادیجئے؟

جواب:نہ تو اس بات کے لئے کوئی دلیل ہے کہ کینسر کا وظیفہ سورہ فاتحہ ہے اور نہ ہی اس بات کے لئے کوئی دلیل ہے کہ کینسر کے علاج کے لئے ایک دن میں چالیس مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھنا ہے۔ ان دونوں باتوں میں سے کسی چیز کی دلیل نہیں ہےاس لئے کینسر کے مریض کے لئے روزانہ چالیس مرتبہ سورہ فاتحہ خاص کرکے پڑھنا بدعتی عمل کہلائے گا۔

کینسر ایک بیماری ہے اور کسی بھی قسم کی بیماری کے لئے جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رقیہ کیا ہے ہم بھی اسی طرح سے رقیہ کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت کے وقت تکلیف کی شدت میں تین سورتیں(سورہ اخلاص ، سورہ فلق اور سورہ ناس)پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر پھونکتے اور اپنے چہرے پر مل لیتے۔ یہی رسول اللہ کا دم ہے اس طرح ہمیں بھی مرض میں دم کرنا چاہیے۔

کینسر کے مریض کو بھی اس طرح رقیہ کرنا چاہیے اور سوتے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم تین مرتبہ انہی سورتوں کو پڑھ کر اپنے اوپر دم کر کے سویا کرتے تھے، یہ عمل بھی ہمیشہ کرنا چاہیے۔ مزید برآں دن و رات میں جب بھی دم کرنے کی ضرورت پڑے انہی تین صورتوں کو پڑھ کر دم کر لیا کرے اور اگر چاہے تو مزید قرآن میں سے جہاں سے چاہے پڑھ کر دم کر سکتا ہے یا مسنون اذکار بھی شامل کرسکتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اپنی جانب سے کسی سورت کو مخصوص کرنا یا اس کی تعداد مخصوص کرنا جائز نہیں ہے۔

سوال: ایک عالم بتارہے تھے کہ لوگ ٹھنڈی کے موسم میں چادر اوڑھتے ہیں تو اس سے اپنے چہرے کو چھپا دیتے ہیں ایسا کرنا مکروہ ہے کیا یہ بات درست ہے؟

جواب: ابو داؤد 643 نمبر کی حدیث ہے، اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی حالت میں چہرہ ڈھکنے سے منع کیا ہے اس لئے بلاضرورت نماز میں چہرہ ڈھکنا اس طرح کے ناک اور منہ ڈھک جائے، یہ مکروہ ہےلیکن اگر کسی نےنماز میں ایسا کر لیا تو اس کی نماز اپنی جگہ درست ہے تاہم بلا ضرورت ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ ہاں اگر کوئی غدر ہو جیسے کورونا کے وقت لوگ ماکس لگاتے تھے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔اسی طرح سخت سردی میں اس کی ضرورت ہو تو کوئی حرج نہیں ہے اور ضرورت نہ ہو تو چہرہ کھول کر رکھا جائے۔عورت نماز پڑھ رہی ہو اور اس کے پاس اجنبی مرد ہو تو وہ بھی اپنا چہرہ اجنبی مرد سے چھپائے گی ۔

سوال: ایک آدمی نے کہا ہے کہ ٹھنڈی میں لوگ گرم ٹوپی پہنتے ہیں جس سے پیشانی ڈھک جاتی ہے، ایسا کرنے سے نماز نہیں ہوتی ہے کیا یہ بات درست ہے؟

جواب: اگر کسی نے سردی میں موٹی ٹوپی لگائی ہے تو یہ ضرورت اور غدر کے سبب ہے، وہ اس پر سجدہ کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس سے نماز کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔صحیح بخاری میں ہے، انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ کے ساتھ نماز پڑھتے تو ہم میں سے ہر آدمی گرمی سے بچنے کے لئے اپنے کپڑے کے دامن پر سجدہ کرتا۔(بخاری:385)

اس حدیث سے پہلے امام بخاری رحمہ اللہ نے حسن بصری رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پگڑی اور ٹوپی پر سجدہ کرلیتے تھے اور ہاتھ آستین میں ہوتے۔

لہذا سردی والی ٹوپی پر سجدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہےکیونکہ یہ ضرورت کے تحت ہے جبکہ بلاضرورت اس سے زیادہ موٹے قالین پر آج کل لوگ نماز ادا کرتے ہیں۔

سوال: مجھے باربار پشاب آتا ہے جس کی وجہ سے میرے کپڑے گیلے ہو جاتے ہیں، کپڑے سے پیشاب نہیں ٹپکتا مگر اس سے بدبو آتی ہے تو کیا نماز کے وقت کپڑے بدلنا ضروری ہے یا اسی کپڑے میں نماز ادا کر سکتی ہوں؟

جواب: ایسی صورت میں ہر نماز کے وقت وضو کرنے سے پہلے کپڑے میں لگے پیشاب کو دھونا ضروری ہے تاکہ پیشاب اور اس کی بو زائل ہو جائے حتی کہ شرمگاہ کے آس پاس جہاں بھی پیشاب لگا ہو سب جگہ کو دھونا ضروری ہے۔ کپڑا بدلنا ضروری نہیں ہے لیکن جہاں پیشاب لگا ہوکپڑا اور بدن میں اس کو دھونا ضروری ہے ۔اس کے بعد وضو کریں پھر نماز ادا کریں یہ عمل آپ کو ہر وضو سے پہلے کرنا پڑے گا جیسے استحاضہ والی عورت وضو سے قبل کپڑے اور بدن سے خون کی صفائی کرتی ہے۔

آج کل بازار میں پیڈ دستیاب ہے، چاہیں تو اس کا استعمال کرسکتے ہیں۔ اس کے استعمال کا یہ طریقہ اختیار کریں کہ نماز ادا کرنے کے بعد پیڈ لگالیں اور وضو سے پہلے پیڈ نکال کر اس جگہ کو دھل لیں جہاں پر پیشاب لگا ہوا ہے پھر وضو بنائیں اور نماز ادا کریں۔ نماز کے بعد پھر چاہیں تو اسی پیڈ کو دوبارہ استعمال کرسکتے ہیں اور وضو سے پہلے اس کو نکال لیں گے اور پیشاب لگے جگہ کو دھل لیں گے۔ اس طرح آپ کو زیادہ پیڈ خریدنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور آپ کا کپڑا بھی گیلا نہیں ہوگا۔

سوال: ایک شخص نے سات سال قبل ایک عرضی نویس معاہدہ کے تحت زمین خریدی اور آدھی رقم ادا کی کیونکہ اس پر سٹے تھا پھر 2022 میں سٹہ ختم ہوگیا۔ اسے پھر کئی بار کہا کہ باقی پیسے دو اور زمین نام کراؤ۔ قبضہ اس کے پاس ہونے کی وجہ سے وہ ٹال مٹول کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ ،یہ زمین جب بیچی گئی اس کی مالیت سے اب چار گنا قیمت بڑھ گئی ہے ۔ کیا باقی آدھی قیمت نئے ریٹ سے لینے کا مطالبہ کرسکتے ہیں کیونکہ معاہدہ کی مدت تین سال ہوتی ہے جو اب ختم ہوچکی ہے؟

جواب:زمین کے معاملہ میں سٹہ کی نوعیت کیا تھی اس کا تذکرہ نہیں ہے لیکن چونکہ اس معاہدہ میں سٹہ بھی شامل تھا اور معاہدہ میں جو وقت متعین تھا وہ بھی تجاوز کر گیا ہو تو اس وجہ سے خرید و فروخت کے اس معاہدے کو ملغی کر دیا جائے اور اگر اسی آدمی سے بیچنا ہو تو ازسر نو معاہدہ کیا جائے۔ نیا معاہدہ کرتے وقت جو قیمت چاہیں، زمین کی متعین کر سکتے ہیں۔

سوال: میں نے کسی کو پانچ سال پہلے چار سو ریال دیا ہے تو وہ انڈین پیسہ آج کے حساب سے دے گا یا پہلے والے وقت کے حساب سے اور مسئلہ یہ ہے کہ آدمی اس وقت انڈیا میں ہے؟

جواب:جس کو آپ نے پانچ سال پہلے چار سو ریال دیا ہے، وہ آج بھی آپ کو ریال کے حساب سے چار سو ریال دے گا۔ روپیہ کے حساب سے نہیں دے گا۔اگر اس کے لئے ریال لوٹانا ممکن نہ ہو، وہ انڈیا میں ہو تو چار سو ریال کی اس وقت جو قیمت بنے گی وہ قیمت دینی ہوگی۔

سوال: آدمی اپنی بیوی سے مباشرت کیا، اس کے بعد کیا بیوی اپنے بچے کو ناپاکی کی حالت میں دودھ پلا سکتی ہے؟

جواب: بچے کو دودھ پلانا ایک کام ہے، عورت جنابت کی حالت میں جیسے دنیاوی سارے کام کاج کرسکتی ہے مثلا کھانابنانا، کھانا، پیناوغیرہ اسی طرح اپنے بچے کو بھی دودھ پلاسکتی ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال: الخبر سے مکہ عمرہ کرنے کے لیے گئے تو وہاں پر دو رکعت نماز پڑھنی ہے یا مکمل نماز پڑھنی ہے؟

جواب:اگر الخبر سے بغرض عمرہ مکہ کا سفر کرتے ہیں اور مکہ میں چار دن یا اس سے کم ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو ایسی صورت میں مسافر کے حکم میں ہوں گے اور قصر کے ساتھ نماز ادا کریں گے لیکن اگر مقیم امام کے پیچھے نماز ادا کریں گے تو مکمل نماز ادا کرنی پڑے گی اگرچہ آپ مسافر کیوں نہ ہوں۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر آپ مکہ میں چار دن سے زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو ایسی صورت میں پہلے دن سے مقیم کے حکم میں ہیں اور مکمل نماز ادا کرنی پڑے گی۔

سوال: میں جس کمپنی میں ہوں اس میں عیسائی لوگ بھی ہیں اور کل کرسمس ڈے ہے، اس کی مناسبت سے آج رات میں سارے میس والوں کو بریانی کی دعوت دی گئی ہے، ہم سب کا میس ایک ساتھ ہے تو کیا ہم یہ دعوت کھا سکتے ہیں؟

جواب: چونکہ یہ دعوت کرسمس ڈے کی نسبت سے ہے اس لئے یہ دعوت کھانا آپ کے لئے جائز نہیں ہے کیونکہ کرسمس ڈے منانا شرعی حیثیت سے حرام ہے۔ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ عیسی علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں اس لحاظ سے عیسی علیہ السلام کے جنم دن منانے کا مطلب ہے کہ آج کے دن اللہ نے اپنا بیٹا جنم دیا۔ یہ شرکیہ عقیدہ ہے اس لئے اس مناسبت سے منعقد کی جانے والی محفل میں شرکت کرنا یا اس کی مبارکباد دینا یا اس تعلق سے دعوت کھانا کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے۔

سوال: ہم لوگ باہری ملک میں ہوٹل لائن میں کام کرتے ہیں، یہاں پر ایک مسئلہ یہ ہے کہ باہر سے ہمارے یہاں عورت و مرد سیاح آتے ہیں، ان کے لباس چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں یعنی یہ ننگے ہوتے ہیں ان کے درمیان کام کرنا پڑتا ہے، ان سے ہی پیسے آتے ہیں۔ ایسے میں یہاں پر رہنا اور گھر سیلری بھیجنا جائز ہے؟

جواب: جو صورتحال ذکر کی گئی ہے اس حساب سے ایسی جگہ رہنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس کی آنکھوں سے دن اور رات گناہ ہوگا اور اس گناہ سے وہ خود کو نہیں بچا پائے گا بلکہ عام طور سے اس قسم کے ہوٹلوں میں حرام ماکولات و مشروبات بھی تیار کئے جاتے ہوں گے اور عاملوں کی معرفت متعدد حرام اشیاء زائرین کے لئے پیش کی جاتی ہوں گی۔

اس لئے مسلم لڑکوں کو ایسے ہوٹل اور ایسی جگہ کو چھوڑ کر دوسری کسی ایسی جگہ منتقل ہوجانا چاہیے جہاں پر نگاہوں کی حفاظت ہو اور روزگار بھی اپنی جگہ پر حلال ہو۔

سوال: کیا عورت حیض کی حالت میں مسجد کے وضو خانے میں درس کے لئے بیٹھ سکتی ہے؟

جواب: حائضہ عورت مسجد کے وضو خانے میں درس کے لئے ٹھہر سکتی ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کے لئے مسجد کے اس حصے میں ٹھہرنا ممنوع ہے جہاں پر نماز ادا کی جاتی ہو اور نماز کے لئے ہی اس حصے کو مخصوص کیا گیا ہو۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔