Tuesday, January 14, 2025

آپ کے سوالات اوران کے جوابات (35)

آپ کے سوالات اوران کے جوابات (35)

جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ - سعودی عرب


سوال: جب ہم نئے گھر میں شفٹ ہوتے ہیں تو سورہ بقرہ کتنے دنوں تک پڑھنا ہے۔ ایک آدمی ایک سورہ مکمل کرے یا اسے دویا تین لوگ آپس میں بانٹ لیں۔ ایک خاتون کی خالہ نے نیا گھر بنایا ہے وہ مہمانوں کو یہ کہہ کر مدعو کر رہی ہیں کہ سورہ بقرہ کی تلاوت کرنی ہے؟

جواب: نئے گھر میں داخل ہونے کے لئے سورہ بقرہ پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں پر ہمیں حکم نہیں دیا ہے کہ نئے گھر میں شفٹ ہونے کے لئے سورہ بقرہ کی تلاوت کی جائے۔

جب معاملہ ایسا ہے تو پھر کتنے دن تک سورہ بقرہ پڑھیں، اکیلے پڑھیں یا مل بانٹ کر پڑھیں یا اجتماعی شکل میں لوگوں کو بلاکر پڑھیں، ان سب باتوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور یہ ساری باتیں سنت کے خلاف ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد(مسلم:1718)

ترجمہ: جس میں کوئی ایسا کام کیا جو دین میں سے نہیں ہے وہ مردود و باطل ہے۔

لہذا نئے گھر میں بغیر کسی تکلف اور بغیر قرآن خوانی کے داخل ہو جائیں۔

سوال: اجتماعی دعا کرنے کا کیا حکم ہے اور اجتماعی دعا کب جائز ہے؟

جواب: ہمارے یہاں فرض نماز کے بعد ، تقریر کے بعد، اجتماع کے بعد، ہر قسم کی مجلس کے اختتام پر، تعزیت کے وقت اور میت کی تدفین کے بعد یعنی اس طرح کے بے شمار مقامات پر اجتماعی دعا کی جاتی ہے جبکہ ان جگہوں پر اجتماعی دعا کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے لہذا ہمیں جب بھی دعا کی ضرورت ہو انفرادی طور پر دعا کریں خواہ ہاتھ اٹھا کر دعا کریں یا بغیر ہاتھ اٹھائے دعا کریں مگر اکیلے دعا کریں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی میں کبھی ان مقامات پر اجتماعی دعا نہیں کی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے متعلق صحیح مسلم کی ایک حدیث ملاحظہ کریں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم استسقاء کے سوا کسی اور دعا کے لئے اپنے ہاتھ بلند نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ اس سے آپ کی بغلوں کی سفیدی دکھائی دینے لگتی۔(صحیح مسلم:895)

اس وجہ سے بارش کی نماز کے وقت اجتماعی دعا کرسکتے ہیں، اسی طرح قنوت نازلہ اور قنوت وتر کے وقت اجتماعی دعا کرسکتے ہیں ان کے علاوہ اور کسی مقامات پر اجتماعی دعا نہیں کرنا ہے۔

سوال:آپ نے کہا ہے کہ سجدۂ شکر حیض کی حالت میں جائز ہے۔ اس پہ میرا سوال یہ ہے کہ نماز اور تلاوتِ سجدہ کے علاوہ کیا ہم الگ سے شکر کا سجدہ اور سجدہ کر کے دعا کرسکتے ہیں۔ میں نے پڑھا ہے کہ تلاوتِ سجدہ کے علاوہ نماز سے ہٹ کر کوئی بھی سجدہ جائز نہیں، کیا یہ درست ہے؟

جواب: نماز کے سجدہ کے علاوہ دو قسم کے سجدوں کی دلیل ملتی ہے۔

پہلا سجدہ: سجدہ تلاوت ہے، یہ سجدہ اس وقت کرتے ہیں جب قرآن کی آیت سجدہ، تلاوت کرتے ہیں۔

دوسرا سجدہ:سجدہ شکرہے، یہ سجدہ اس وقت کرتے ہیں جب ہمیں اللہ کی طرف سے کوئی فضل اور کوئی نعمت ملتی ہے۔ یونہی بغیر نعمت کے اور بغیر کسی فضل کے سجدہ شکر نہیں کریں گے۔ اور سجدہ شکر میں ہم اللہ رب العالمین کی نعمت پر اس کا شکریہ بجا لاتے ہیں اور اس میں مزید جو چاہیں دعا بھی کرسکتے ہیں کوئی حرج نہیں۔

ان دو سجدوں کے علاوہ دعا کے لئے صرف سجدہ کرنا جائز نہیں ہے۔

سوال: عدت کے چار مہینے دس دن ہی کیوں ہیں؟

جواب: اتباع اور پیروی کے لئے ہمارے واسطے اللہ اور اس کے رسول کا کلام ہونا ہی کافی ہے اور ہمارے اوپر اس کی حکمت اور وجہ جاننا قطعاً ضروری نہیں ہے۔ جیسے ہمیں معلوم ہوکہ یہ اللہ اور اس کے رسول کا کلام ہے فورآ اس پر آمنا اور صدقنا کہنا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں شریعت نے ہر ہر بات کی حکمت اور وجہ نہیں بتائی ہے لہذا جس چیز کی شریعت نے حکمت نہیں بتائی ہے اس کے لئے ہمیں بس اللہ اور اس کے رسول کا کلام ہونا ہی کافی ہے۔ بیوہ کے لئے شوہر کی وفات کی عدت کی حکمت بھی قرآن و حدیث میں کہیں مذکور نہیں ہے، اس کی حکمت اللہ بہتر جانتا ہے۔ عورت کے لئے بس اللہ کی اس حکم پر عمل کرنا ہے۔

بعض اہل علم نے یہ کہا ہے کہ حمل کا پتہ لگانے کے لیے چار ماہ دس دن کی عدت ہے کیونکہ عام طور سے چار ماہ میں بچہ پیٹ میں حرکت کرنے لگتا ہے اور کبھی بچے میں کمزوری ہو تو کچھ ایام زیادہ لگتے ہیں اس لئے دس دن کا اضافہ بھی ہے مگر آج ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے، بڑی آسانی سے حمل پتہ لگایا جا سکتا ہے۔

سوال: ایک بیٹے کی تنخواہ بھی زیادہ ہے اور اخراجات بھی اور دوسرے کی تنخواہ بھی کم ہے اور اخراجات بھی کم تو ایک کو کم جیب خرچ دینا اور ایک کو زیادہ جیب خرچ دینا بچوں میں ناانصافی تو نہیں ہے، بڑی تشویش رہتی ہے، بچوں کی تنخواہ برابر نہ ہونے پر بچوں کے درمیان کیسے انصاف کو برقرار رکھا جائے گا؟

جواب: آپ کا سوال جوائنٹ فیملی سسٹم سے متعلق ہے اور آپ جانتے ہیں کہ جوائنٹ فیملی سسٹم میں بہت ساری شرعی خامیاں پائی جاتی ہیں مثلا پردے سے متعلق، عدل و انصاف سے متعلق، مالیات سے متعلق، کام کاج سے متعلق، رشتہ اور آپسی محبت سے متعلق وغیرہ ۔

اس سلسلے میں عدل و انصاف کا تقاضہ ہے کہ جیسے کسی بیٹے کی شادی ہو جائے اس بیٹے کو الگ کر دیا جائے تاکہ وہ عائلی ذمہ داری کو اچھی طرح محسوس کرسکے اور محنت و مشقت سے روزی روٹی کا بندوبست کرے۔ جو کچھ کمائے اپنے اور اپنی بیوی و بچوں کے لئے کمائے اور اچھی طرح ان کی پرورش اور دیکھ ریکھ کرے۔

اور یاد رہے کہ شادی شدہ کئی بیٹوں کو جوائنٹ فیملی میں رکھ کر کبھی بھی آپ ان بچوں، ان کی بیویوں اور ان کی اولاد کے درمیان برابری اور انصاف نہیں کرسکتے ہیں بلکہ عدل و انصاف کی ہزار کوشش کے باوجود بھی ان سب کو خوش رکھنا ممکن نہیں ہے نیز ان سب کا ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے بہت ساری شرعی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اس لئے اگر عدل چاہتے ہیں اور ان سب کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں تو بہتر ہے کہ شادی شدہ بیٹے کو الگ الگ کر دیا جائے۔

جہاں کہیں کئی بیٹوں کا ایک ساتھ رہنا ضرورت و مصلحت کے تحت ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال:کیا کسی کی اولاد کو لے کر پال سکتے ہیں اور ولدیت علم میں نہ ہونے کی وجہ سے اسے اپنا نام دے سکتے ہیں، اگر نہیں تو اس کی ولدیت کی جگہ کیا لکھیں؟

جواب: ایک صورت یہ ہے کہ کسی کو اولاد نہ ہو، وہ دوسرے کی اولاد گود لے اسے لے پالک یا متبنی کہتے ہیں اس میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی بچہ لاوارث اور یتیم ہو، اس کی پرورش کی ضرورت ہو تو ایسے بچے کی پرورش نہایت اجر کا کام ہے۔ اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے اور آپ نے شہادت اور درمیانی انگلیوں کے اشارہ سے (قرب کو) بتایا۔ (صحیح البخاری:6005)

اس لئے کسی لاوارث یتیم اور بے سہارا بچے کو پالنے میں حرج نہیں بلکہ بڑے اجرکا کام ہے۔ جہاں تک اس بچے کو اپنی ولدیت کی نسبت سے نام دینے کا معاملہ ہے تو یہ ناجائز اور حرام ہے۔ کسی بچے کو اپنے باپ کے علاوہ دوسرے کی طرف نسبت کرنا منع ہے۔

اس لئے اگر بچے کی ولدیت معلوم ہے تو والد کی طرف نسبت کی جائے گی اور ولدیت نہ معلوم ہوتو ولدیت کے خانے میں نامعلوم لکھا جائے گا اور جو بچے کی پرورش کرے گا وہ اپنا نام صرف سرپرست اور گارجین کی حیثیت سے لکھے گا۔

سوال: ایک بہن کے شوہر کماتے نہیں ہیں اور اس کے اخرجات اس کے میکے والے اٹھاتے ہیں، اس کے بچوں اور شوہر کا بھی۔ ایک لمبی مدت سےکام نہیں کرتے بچے بڑے ہیں، ان کے اسکول اور زندگی گزارنے کے سامان سب قسم کے اخراجات ان کی نانی پورا کرتی ہے۔ چونکہ شوہر اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے اس لئے وہ اپنے شوہر کے ساتھ بالکل بھی رات نہیں گزارتی مگر اسے لگتا ہے کہ وہ گناہگار ہورہی ہے، کیا وہ صحیح کررہی ہے؟

جواب: اگر شوہر تندرست و توانا ہے پھر بھی اپنی بیوی اور بچوں کے حقوق نہیں ادا کرتا ہے تو ایسے شوہر پر سختی ہونی چاہیے، اسے اپنی ذمہ داری کا احساس دلانا چاہیے جبکہ کئی سال سے شوہر اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں کوتاہ ہے اور بیوی نے اس بات کا کبھی احساس نہیں دلایا تو جہاں شوہر مجرم ہے وہیں بیوی بھی اس کے جرم میں شریک ہے کیونکہ وہ اس پر آج تک خاموش رہی، اسے پہلے ہی سوچ سمجھ کر مناسب قدم اٹھالینا چاہئے۔

دوسری بات یہ ہے کہ جب شوہر اپنی ذمہ داری نہ نبھائے تو بیوی کو اس سے طلاق یا خلع کے ذریعہ الگ ہوجانے کا حق حاصل ہے۔

بہرکیف! میاں بیوی کی حیثیت سے نفرت کے ساتھ اور الگ الگ زندگی گزارنا اچھی بات نہیں ہے، یا تو محبت کے ساتھ دونوں زندگی گزاریں یا معروف طریقہ سے دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں۔

سوال: کسی عورت کا تعلیم کے لئے ملک سے باہر جانا اور وہاں پر رہنا شریعت کے پہلو سے جائز ہے کہ نہیں حدیث کی روشنی میں رہنمائی کردیں؟

جواب: ایک عورت ملک سے باہر جاکر تعلیم حاصل کرسکتی ہے، وہاں پر اقامت پذیر ہوسکتی ہے یعنی اپنے ملک سے باہر رہ کر وہاں رہائش اختیار کرکے تعلیم حاصل کرسکتی ہے مگر اس کے لئے چند شرائط ہیں۔ آپ سمجھ لیں کہ اس تعلق سے بنیادی طور پر تین بڑی شرطیں ہیں۔ پہلی شرط یہ ہے کہ عورت کا دوسرے ملک جانا اور وہاں سے آنا محرم کے ساتھ ہو، بغیر محرم کے سفر کرنا عورت کے لئے جائز نہیں ہے ۔ دوسری شرط یہ ہے کہ صرف لڑکیوں کے اسکول میں تعلیم حاصل کرے، مخلوط ادارہ میں تعلیم حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔

تیسری شرط یہ ہے کہ وہ لڑکیوں کی رہائش گاہ میں قیام کرے یا اپنے محرم کے ساتھ رہے۔ اجنبی لڑکوں کے ساتھ قیام کرنا جائز نہیں ہے۔ یہ تین اہم شرطیں ہیں، ان کے علاوہ عورت کے لئے اس جگہ قیام مامون ہو، اس کی عفت و عصمت اور دین کے اعتبار سے خطرہ کا باعث نہ ہو اور وہ وہاں پر شرعی حدود میں حجاب کے ساتھ تعلیم حاصل کرسکے اور قیام کرسکے۔

اس مسئلہ کو شرعی دلائل کی روشنی میں سمجھنے کے لئے بنیادی مسئلہ یہ سمجھیں کہ مردوں کے حق میں عورت کا فتنہ سب سے زیادہ شدید ہے جیساکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے :ما تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً هي أَضَرُّ علَى الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ(صحيح مسلم:2740)

ترجمہ:میں نے اپنے بعد کوئی آزمائش نہیں چھوڑی جو مردوں کے لیے عورتوں (کی آزمائش) سے بڑھ کر نقصان پہنچانے والی ہو۔

جب عورتوں کا معاملہ اس قدر سنگیں اور پرخطر ہے تو اس کا گھر سے نکلنا مزید آزمائش کا سبب ہے اسی لئے عورتوں کو اپنے گھروں میں سکونت اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک عورت جب گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کو تکتا رہتا ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے:

المرأةُ عورةٌ فإذا خرجتِ استشرفَها الشَّيطانُ(صحيح الترمذي:1173)

ترجمہ:عورت (سراپا) پردہ ہے، جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے۔

انہیں وجوہات اور خطرے کے سبب آپ ﷺ نے عورتوں کو بغیر محرم سفر کرنے سے منع فرمایا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:

لا تُسافِرِ المَرْأَةُ ثَلاثًا إلَّا مع ذِي مَحْرَمٍ(صحيح البخاري:1087)

ترجمہ:عورت تین دن کا سفر اس وقت تک نہ کرے جب تک اس کے ساتھ کوئی محرم رشتہ دار نہ ہو۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ مذکورہ بالا شرائط کی روشنی میں عورت کے لئے باہر تعلیم کے لئے سفر کرنا جائز ہے اور یہ شرائط مفقود ہوں تو پھر تعلیم کے لئے باہر جانا جائز نہیں ہے۔

سوال:بچوں کو پڑھنے کے لئے کالج میں بڑی رقم جمع کرنی ہوتی ہے، اتنے پیسے ہمارے پاس نہیں ہوتے تو کیا ہم لون لے کر جمع کرسکتے ہیں، اگر زیرو پرسنٹ انٹرسٹ مل رہا ہو۔ اگر نہ ملے تو کیا کریں۔ اسی طرح گاڑی اور موبائل زیرو پرسنٹ انٹرسٹ پر خرید سکتے ہیں؟

جواب: تعلیم کی غرض سے جو بڑی رقم کالج میں جمع کرنی پڑتی ہے اس کے لئے سودی لون لینا جائزنہیں ہے۔ زیرو پرسنٹ لون بھی دراصل سودی لون ہے کیونکہ اس میں ایک معاہدہ ہوتا ہے کہ اگر تاخیر ہوئی تو مالی جرمانہ دینا پڑے گا۔ اسی طرح لون سے متعلق کاغذات پر نظر ڈالیں تو اس میں سود کا ذکر ہوتا ہے خواہ وہ سود معاف کیا جاتا ہو یا دوسری طرح سے لیا جاتا ہو اس وجہ سے زیرو پرسنٹ لون لینا بھی جائز نہیں ہے۔

اور جس آدمی کے پاس تعلیمی فیس جمع کرنے کی استطاعت نہ ہو وہ ایسی تعلیم حاصل نہ کرے، آدمی کو اپنی حیثیت اور طاقت کے مطابق کام کرنا چاہیے۔ اپنی اولاد کو دنیاوی اور مہنگی تعلیم دلائیں یا نہ دلائیں مگر شرعی تعلیم ضرور دلائیں، اس میں معمولی خرچ ہے اور شرعی تعلیم حاصل کرنا واجب بھی ہے۔

زیرو پرسنٹ پر گاڑی اور موبائل وغیرہ لینا بھی اسی قسم کا سودی لون ہے۔ اس میں بھی تاخیر پر مالی جرمانہ ہوتا ہے اور اس میں بھی سود کا ذکر موجود ہوتا ہے، وہ اس طرح پیپر پر مذکور ہوتا ہے کہ اس کے اتنے سود بنتے ہیں وہ معاف کیا جاتا ہے۔ گویا یہ بھی سودی معاملہ ہے اس قسم کی بھی چیز خریدنا جائز نہیں ہے۔

سوال: ہر فرض نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھنے کے لئے جو حدیث بیان کی جاتی ہے کہ اس کو ہر فرض نماز کے بعد پڑھنے والے اور جنت کے درمیان موت کا فاصلہ ہے، کیا یہ حدیث مستند ہے؟

جواب: فرض نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھنے سے متعلق سنن نسائی میں حدیث ہے، اس حدیث کی صحت سے متعلق اہل علم میں اختلاف ہے تاہم متعدد اہل علم نے اس حدیث کو صحیح بھی قرار دیا ہے جن میں شیخ ابن باز اور شیخ البانی رحمہما اللہ بھی ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کا حکم دیکھنے کے لئےحدیث کے تحت درج حوالہ دیکھیں۔

(مَنْ قرأَ آيةً الكُرسِيِّ دُبُرَ كلِّ صلاةٍ مكتوبةٍ ، لمْ يمنعْهُ من دُخُولِ الجنةَ إلَّا أنْ يمُوتَ)(صحيح الجامع:6464)

سوال: کیا وضو میں گردن کا مسح کرنا ضروری ہے؟

جواب: وضو میں سر اور کان کا مسح کیا جائے گا کیونکہ انہی دونوں کا مسح کرنا ثابت ہے۔ گردن کا مسح کرنا ثابت نہیں ہے اس لئے وضو میں گردن کا مسح نہیں کیا جائے گا۔

گردن کے مسح سے متعلق جو بھی احادیث یا آثار ذکر کئے جاتے ہیں وہ سب ضعیف و موضوع ہیں اس لئے ان سے استدلال نہیں کیا جائے گا جیسے لوگوں میں ایک روایت بہت مشہور ہے۔(مسح الرقبةِ آمانٌ من الغُلِّ)

ترجمہ: گردن کا مسح طوق سے امان ہے۔

اس حدیث کو شیخ البانی نے موضوع قرار دیا ہے۔(السلسلة الضعيفة:69)

ابو داؤد کی روایت ہے، طلحہ کے دادا کعب بن عمرو یامی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سر کا ایک بار مسح کرتے دیکھا یہاں تک کہ یہ «قذال» (گردن کے سرے) تک پہنچا۔

اس حدیث سے بھی گردن کے مسح پر استدلال کیا جاتا ہے مگر یہ حدیث بھی ضعیف ہے۔(دیکھیں، ضعيف أبي داود:132)

غرض یہ کہ گردن کے مسح سے متعلق کوئی بھی صحیح روایت نہیں ہے اس لئے وضو میں گردن کا مسح نہیں کیا جائے گا۔

سوال:میری ایک سہیلی کے شوہر کا چار سال قبل انتقال ہوگیا ہے، اس نے بچوں کی اچھی پرورش کے لئے مدینہ میں رہنے والے ایک شخص سے رشتہ کیا اور نکاح کے بعد مدینہ آگئی۔ چار ماہ بعد اس کے کالج میں پی ایچ ڈی کا پروگرام تھا جس کے لئے اسے آنا ضروری تھا، شوہر نے اجازت بھی دی ، اب وہ کہہ رہے ہیں کہ بچوں کو ہاسٹل میں داخلہ کروادے، بہت برا برتاؤ کر رہے ہیں، ساس بہت زبردستی کر رہی ہے۔ پہلے بچے باپ کی محبت کے لئے خوش تھے، اب بچے بھی بہت غمگین ہیں۔ اس صورت میں ماں کو کیا کرنا چاہئے؟

جواب: سوتیلا باپ سوتیلا ہی ہوتا ہے، وہ دوسروں کے بچوں کا خیال حقیقی باپ کی طرح کبھی نہیں کرسکتا۔

دوسری بات یہ ہے کہ ایک خاتون کو بغیر محرم کے ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر کرنا جائز نہیں ہے اس لئے اگر وہ بغیر محرم کے ادھر ادھر سفر کر رہی ہے تو وہ گنہگار ٹھہرے گی۔

اور چونکہ بچوں کا اصل باپ انتقال کرچکا ہے اور سوتیلا باب بچوں کا اچھے ڈھنگ سے خیال نہیں کر رہا ہے تو ایسی صورت میں یا تو ماں اپنے بچوں کے پاس جائے یا بچوں کو اپنے پاس بلالے، یہی دو بہتر راستے ہیں اور خود سے اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرے۔

سوال: ایک بہن کے شوہر کا بھائی یعنی دیور مرتد ہو گیا ہے۔(استغفراللہ) ۔وہ اپنے بھائی کی باپردہ بیوی کو ان کے پردہ کرنے کی وجہ سے نہیں ملنا چاہتے، نہ ہی اپنے بچوں کو ان کے گھر بھیجنا چاہتے ہیں بلکہ سلام دعا بھی نہیں رکھنا چاہتے۔ ایسے میں تعلق قائم نہ رکھنا جائز ہے یا قطع رحمی کہلائے گا۔ وہ دوسرے ملک نیوزی لینڈ میں رہتا ہے اور صرف تین ہفتے کے لئے اپنی ضعیف والدہ کو ملنے آیا ہے، کیا وہ اس سے نہ ملے؟

جواب: مرتد واجب القتل ہوتا ہے، اس کے لئے کسی طرح کی کوئی مروت، محبت اور کسی قسم کی کوئی رشتہ داری نہیں نبھائی جائے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: مَن بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ( صحيح البخاري:3017)

ترجمہ:جس نے اپنا دین بدل دیا اس کو قتل کر دو۔

لہذا مرتد کا معاملہ یہ ہے کہ اس سے توبہ کرائی جائے توبہ قبول کر لے تو ٹھیک ورنہ اسے قتل کیا جائے گا۔

ظاہر سی بات ہے کہ اپنے ملک میں یہ شرعی حکم نافذ نہیں کرسکتے ہیں مگر ایسے مجرم سے ہم الگ سے رہ سکتے ہیں لہذا ایسے آدمی سے کنارہ کشی اختیار کرلینا چاہیے۔ اور ایک عورت کا اپنے دیور سے پردہ ہوتا ہے اس لئے عورت اس کے سامنے کبھی بھی نہیں جائے گی۔ بھائی، اس کی والدہ اور بچے یعنی پورے گھر والے اس کا بائیکاٹ کریں۔

سوال: کیا نور البشر نام بچے کے لئے رکھ سکتے ہیں جبکہ نور البشر نبی ، رہنما اور شخصیات کے لئے استعمال ہوتا ہے رہنمائی کی وجہ سے؟

جواب: یہ نام رکھنے میں شرعا کوئی قباحت نہیں ہے اور کہیں پر بھی یہ لفظ نبی کے لئے استعمال نہیں ہوا ہے۔ قرآن میں نبی کی تعلیمات کو نور کہا گیا ہے اور نبی کو نہ نور کہا گیا ہے اور نہ آپ کو نورالبشرکہا گیا ہے بلکہ قرآن نے آپ کو بشر کہا ہے۔

آدمی اپنا نام نور بھی رکھ سکتا ہے اور نور کی اضافت کرکے بھی رکھ سکتا ہے جیسے نورالبشر یا نورالاسلام وغیرہ۔ اور شخصیات یا رہنما کے تعلق سے بھی ایسا کوئی لفظ نہیں استعمال کیا جاتا ہے جہاں سے آپ نے جانکاری حاصل کی ہے وہ غلط جانکاری ہے۔

اگر غلط کو ہی صحیح مان لیا جائے کہ یہ نام نبی، رہنما یا اعلی شخصیت کے لئے استعمال ہوتا ہے تو نبی یا اعلی شخصیت کے نام پر نام رکھنا تو اچھی بات ہے اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ نبی ﷺ انسان میں سب سے اعلی ہستی ہیں اس لئے آپ کو خیرالبشر کہاجاتا ہے۔

سوال: موت کی سختی سے بچنے کے لئے دعا بتادیجئے؟

جواب: اس سلسلے میں پہلی بات جو ہمارے علم و عقیدہ میں ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ موت کے وقت سکرات کا عالم ہر ایک پر طاری ہوتا ہے اور یہ سکرات موت کی سختی کا نام ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے:

إنَّ لِلْمَوْتِ سَكَرَاتٍ(بخاری:6510)

ترجمہ:بلاشبہ موت میں تکلیف ہوتی ہے۔

موت کی سختی سے بچنے کے لیے ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ میں ایک دعا مذکور ہے۔

(اللهم أعني على غمرات الموت أو سكرات الموت) ”اے اللہ! سکرات الموت میں میری مدد فرما“۔

اس دعا کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ ضعیف دعا کبھی کبھار پڑھ سکتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ ہم اللہ رب العالمین سے حسن خاتمہ کی دعا کریں گے کیونکہ موت کی سختی سے بچنا اصل نہیں ہے بلکہ ایمان پر خاتمہ اصل ہے لہذا ہم اپنی زبان میں اللہ رب العالمین سے حسن خاتمہ کی دعا کریں اور حسن خاتمہ کے اسباب کو اپنائیں۔ ایمان اور عمل صالح پر خاتمہ ہو تو موت کے وقت جو سختی لاحق ہوتی ہے اس سختی سے ایمان والوں کے درجات بلند ہوتے ہیں اور گناہ گاروں کے گناہ معاف کئے جاتے ہیں اس لئے موت کی سختی فی نفسہ بری نہیں ہے بلکہ ایمان والوں کے حق میں یہ اجر و ثواب کا باعث ہے۔جنازہ سے متعلق میری کتاب میں حسن خاتمہ کے بارے میں تذکرہ موجود ہے لہذا کتاب کا آخری حصہ ضرور مطالعہ کریں۔

سوال:جب عورت، گھوڑا اور گھر راس نہ آئیں تو ان چیزوں کو بدلنا چاہیے، کیا یہ بات صحیح ہے؟

جواب: اصل میں صحیح بخاری کی ایک حدیث ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہیں کہ تین چیزوں میں نحوست ہے، گھوڑا، گھر اور عورت میں۔شاید اسی حدیث کی بنیاد پر لوگ غلط مفہوم نکالتے ہوں اور یہ کہتے ہوں کہ اگر یہ چیزیں راس نہ آئیں تو انہیں بدلنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا مطلب نکالنا بالکل غلط ہے۔

اگر حدیث کے ظاہری لفظ کو دیکھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہونا چاہیے کہ ان تین چیزوں کو استعمال ہی نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ان تینوں میں نحوست ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ حدیث کا یہ مطلب قطعا نہیں ہو سکتا ہے۔اس حدیث کا اصل مطلب یہ ہے کہ یہ تینوں چیزیں فتنے کا باعث ہیں یعنی یہ فتنے کا سبب بن سکتی ہیں۔

عورت فتنہ ہے، یہ بات متعدد احادیث سے ثابت ہے۔ اسی طرح گھر اور گھوڑا زینت اور مال و دولت میں شمار ہوتے ہیں اور مال و دولت کو بھی فتنہ قرار دیا گیا ہے۔ گویا ان چیزوں میں احتیاط برتیں گے تاکہ کسی فتنے کا شکار نہ ہوں ۔

خلاصہ یہ ہوا کہ عورت یا گھوڑا یا گھر بدلنے کا خیال غلط ہے۔ ہاں اگر بدلنے کا کوئی عذر ہو تو بدلا جاسکتا ہے جیسے کوئی عورت بدچلن ہو تو ایسی صورت میں شوہر اسے طلاق دے سکتا ہے۔ اسی طرح کوئی آدمی ایک شہر سے دوسرے شہر جاکر بسنا چاہتا ہو تو پرانا گھر بیچ سکتا ہے۔ اسی طرح گھوڑا کمزور یا بیمار ہو جائے اور اس سے فائدہ نہ ہوتا ہو تو اسے بیچا جاسکتا ہے مگر یہ بات کہنا کہ راس نہ آئے تو اسے بدل دینا چاہیے، یہ خیال غلط ہے۔ ہاں اگر راس نہ آنے کا مطلب یہ ہو کہ کسی حقیقی مجبوری کے تحت اسے بدلنا پڑے جس کا ذکر ابھی اوپر ہوا ہے تو اس معنی میں یہ جملہ ٹھیک ہے۔

سوال:ایک خاتون کی دونوں بھوئوں کے بال آپس میں مِلے ہوئے ہیں جو دیکھنے میں اچھے نہیں لگتے تو کیا ان بالوں کو ہٹایا جا سکتا ہے۔ اگر ہٹایا جائے تو کس طرح سے، ریزر کا استعمال کریں یا اُنہیں اُکھاڑا جائے؟

جواب: اگر دونوں جانب کے ابرو کے بال آپس میں مل جائیں تو یہ ایک قسم کا عیب ہے لہذا عورت اس حد تک ابرو کے بال کو زائل کرسکتی ہے جو اس کے عیب کو ختم کر دے اور یہ بال زائل کرنا کسی بھی شکل میں جائز ہے۔ اس کے لئے بلیڈ، ریزر، استرا، پاؤڈر، لوشن اور کریم کچھ بھی استعمال کرسکتے ہیں۔

سوال: عمرہ کے دوران مردوں کو سلائی کیا ہوا کپڑا (undergarments) پہننا کیوں منع ہےجبکہ احرام کی چادریں بھی تو جسم کے ساتھ ٹچ ہوتی ہیں؟

جواب: احرام کی حالت میں سلا ہوا کپڑا پہننا منع ہے، بدن سے کپڑا ٹچ ہونا منع نہیں ہے بلکہ سلا ہوا کسی بھی قسم کا کپڑا پہننا منع ہے خواہ وہ بنیان ہو، ٹوپی ہو، انڈر ویئر ہو، کرتا ہو، پاجامہ ہو، دستانہ ہو یا موزہ ہو۔

مردوں کے لئے احرام میں تمام قسم کے سلے ہوئے کپڑے استعمال کرنا منع ہے لیکن عورتوں کے لئے سلا ہوا کپڑا منع نہیں ہے سوائے برقع اور دستانہ کے۔مسئلہ اپنی جگہ واضح ہے کہ جسم سے کپڑا ٹچ ہونے کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوال: دعا کے لئے خاص سجدہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: دعا کے لئے خاص سجدہ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ نماز کے علاوہ صرف دو ہی قسم کے سجدے کرنا جائز ہے۔ ایک سجدہ شکر ہے اور دوسرا سجدہ تلاوت ہے۔ان دو سجدوں کے علاوہ کوئی تیسرا سجدہ الگ سے نہیں کرسکتے ہیں اور دعا کے لئے بھی الگ سے سجدہ نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ اس عمل کے لئے قرآن و حدیث میں کوئی دلیل نہیں ہے لہذا جس کو دعا کرنا ہو وہ بغیر سجدہ کے دعا کرے خواہ ہاتھ اٹھا کر دعا کرے یا بغیر ہاتھ اٹھائے دعا کرے۔

سوال: میں ایک دینی ادارے میں پڑھتی ہوں۔ وہاں بعض اوقات کچھ ایسے مسائل بتائے جاتے جو درست نہیں ہوتے۔ استانی کے عقائد صحیح ییں مگر کچھ باتیں علم نہ ہونے کی وجہ سے صحیح نہیں بتاتی اور پھر جب ہم اپنی استانی کو بتاتے ہیں تو انہیں اچھا نہیں لگتا، یہ کہا جاتا کہ ہم استاد ہیں تم نہیں۔ چونکہ بات دین کے علم کی ہے اس لئے میں انہیں بتا دیا کرتی تھی، اگر ایسی صورت میں صحیح بات پتہ ہوتے ہوئے بھی انہیں نہ بتاؤں تو کیا میں گناہگار ہوں گی اور یہ فیصلہ میری استانی کا ہی ہے وہ نہیں چاہتی میں انہیں بتاؤں؟

جواب: جو کوئی دینی معاملہ میں غلطی کرے اس کو اس کی غلطی پر تنبیہ کرنا ہماری واجبی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم غلطی پر تنبیہ کرنے کے بجائے خاموش رہتے ہیں تو یقینا ہم گناہ گار ہوں گے لہذا بات استانی کی ہو یا غیر استانی کی ان کی غلطی پر بتانا ہماری ذمہ داری میں داخل ہے خواہ انہیں یہ بات بری لگے یا اچھی لگے آپ اپنی ذمہ داری ضرور نبھائیں تاکہ آپ اپنی ذمہ داری سے بری ہو جائیں۔ اگر انہیں کلاس میں بتانے سے ناراضگی ہوتی ہے تو اکیلے میں صحیح بات بتا دیں، ساتھ ساتھ یہ بھی بتائیں کہ طالبات کو بھی اس بات کی آگاہی دی جائے کیونکہ انہیں پہلے غلط بتایا گیا ہے۔

سوال: شوہر نے عدالت کے ذریعہ خلع لینے کی کوشش کی۔ عدالت نے ہر دفعہ نوٹس بھیجا لیکن انہوں نے جان بوجھ کر ریسیو نہیں کیا۔ اب عدالت ان کی طلاق کا فیصلہ جاری کر دے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح طلاق واقع ہو جائے گی شریعت کے حساب سے؟

جواب: یہاں پر سوال کرنے والی بہن کے لئے دو باتیں بتانا ضروری ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ شوہر عدالت کے ذریعہ خلع نہیں لیتا ہے، اس کے پاس طلاق کا اختیار ہوتا ہے جبکہ خلع بیوی کا حق ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ عدالت کے پاس نکاح فسخ کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔

مذکورہ بالا صورتحال میں اگر بیوی کے پاس شرعی عذر ہو اور شوہر کو عدالت حاضر ہونے کے لیے کہا جائے مگر وہ حاضر نہ ہو تو عدالت بغیر شوہر کی حاضری اور بغیر اس کی رضامندی کے نکاح فسخ کر سکتی ہے اور نکاح فسخ کردے تو عورت ایک حیض گزار کر کہیں اور شادی کرسکتی ہے۔ پہلے شوہرسے اس کا رشتہ ختم ہوجاتا ہے۔

سوال:موت کی سختی کا ذکر قرآن مجید میں اور بہت سی روایات میں آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ موت کی سختی سب پر آئے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے وقت بھی اس سختی کا ذکر فرمایا اور اسے محسوس بھی کیا۔ اسی طرح بعض صحابہ کرام نے بھی جیسے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اپنی کیفیات کو بیان کیا جبکہ دوسری طرف بعض روایات میں مومن کی جان کے آرام سے نکلنے اور کافر کی جان کے سختی سے نکلنے کا ذکر ہے۔ یہ امور ظاہر میں پیش بھی آرہے ہوتے ہیں، ان دونوں باتوں میں تطبیق کیسے ہوگی؟

جواب: انسان کا جسم سے روح نکلنا سخت معاملہ ہے اسی لئے اللہ تعالی نے روح کھیچنے والے فرشتوں سے متعلق ارشاد فرمایا ہے:

وَالنَّازِعَاتِ غَرْقًا(النازعات:1) یعنی ان (فرشتوں) کی قسم جو ڈوب کر سختی سے (جان) کھینچ لینے والے ہیں۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ روح نکلنا ایک دشوار معاملہ ہے اس لئے نبی ﷺ نے بھی اس قسم کی بات ہمیں بتائی ہے کہ موت کے وقت سختی ہوتی ہے۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں: إن للموت سكرات(صحیح البخاری:6510) یعنی موت میں تکلیف ہوتی ہے۔

یہ اور دیگر نصوص سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ موت کے وقت سکرات (تکلیف) سب کے لئے ہے۔ اس کے باوجود کافر کے مقابلہ میں مومن کو موت کے وقت راحت نصیب ہوتی ہے اور جو کچھ تکلیف محسوس ہوتی ہے اس سے درجات بلند ہوتے ہیں اور اجر وثواب ملتا ہے یعنی موت کے وقت مومن کو تکلیف محسوس ہو تب بھی اس کے لئے اس میں خیر ہی ہے جبکہ موت کے وقت تکلیف کافر کے لئے عذاب کے طور پر ہوتا ہے۔

سوال:ایک لڑکی کا رشتہ پہلے ایک گھر سے آیا تھا اس وقت اس لڑکی کی امی بہت زیادہ بیمار تھی اس لئے رشتہ پر دھیان نہیں دی، بعد میں اس لڑکے کی شادی ہوگئی۔ اب پھر اس لڑکی کے لئے رشتہ آیا ہے اور اس کے گھر والوں نے اس لڑکی سے شادی کے لئے ہاں کردی ہے۔ لڑکا شادی شدہ ہے، ایک بیٹی بھی ہے اور اپنی بیوی سے خوش بھی ہے مگر اسے دوسری شادی کرنے کی کیا ضرورت پڑگئی۔ مرد تو اس وقت شادی کرتا ہے جب اسے اولاد نہ ہو۔ اس لڑکی کو ڈر سا لگا ہے کہ پتہ نہیں لڑکا کل انصاف کر پائے یا نہیں، ایسے میں اس لڑکی کو اس سے شادی کرنی چاہئے یا نہیں؟

جواب: جس لڑکی کی شادی ہے، اسے اس معاملہ میں اللہ کا حکم صحیح سے معلوم نہیں ہے اس لیے پہلے اسے یہ بتائیں کہ اللہ تعالی نے ایک مرد کو چار شادی کرنے کی اجازت دی ہے اور ایسا نہیں ہے کہ جس کو پہلی بیوی سے اولاد نہ ہو وہی دوسری شادی کرے گا۔ کوئی بھی مرد جس کے پاس ایک بیوی ہے اور اولاد بھی ہے، وہ دوسری شادی کرسکتا ہے، تیسری شادی کرسکتا ہے اور چوتھی بھی شادی کر سکتا ہے۔ اس معاملہ میں کسی لڑکی کو اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے کیونکہ اللہ رب العالمین کی طرف سے مردوں کو ایک سے زائد شادی کرنے کی اجازت ہے۔
اب جو صورتحال ہے ایک شادی شدہ لڑکا کنواری لڑکی کو نکاح کا پیغام دیا ہے ایسی صورت میں اس لڑکی کی اپنی مرضی ہے۔ وہ چاہے تو اس سے شادی کرے اور چاہے تو انکار کر دے۔ اس میں اسلام اسے زبردستی شادی شدہ لڑکے سے شادی کرنے کا حکم نہیں دیتا ہے بلکہ یہاں پر وہ اپنی مرضی اور اختیار استعمال کرے۔

بالکل یہاں پر کوئی زور زبردستی کا معاملہ نہیں بلکہ لڑکی کی مرضی کا معاملہ ہے۔ اسے اطمینان ہو تو شادی کرے اور اس کا دل مطمئن نہ ہو تو شادی نہ کرے۔ اور وہ مزید ایک کام کرے کہ وہ استخارہ کی نماز پڑھے پھر اپنے گھر والوں سے اس معاملہ میں تمام پہلوؤں پر مشورہ کرے اور جس بات پر سب کا دل مطمئن ہو خصوصا لڑکی کا، اس پر عمل کرے۔

سوال: تہجد کی نماز کے بعد آنکھ لگ جائے اور فجر ختم ہونے والا ہو اس وقت آنکھ کھلے تو پہلے کیا پڑھا جائے گا یعنی نماز فجر یا وتر؟

جواب: پہلی بات یہ ہے کہ کوئی تہجد کی نماز پڑھے اور فجر کے لئے سو جائے ایسے تہجد پڑھنے کا فائدہ نہیں ہے کیونکہ تہجد نفل ہے اور فجر کی نماز فریضہ ہے اس لئے تہجد پڑھنے والے کو اس بات کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے۔دوسری بات یہ ہے کہ فجر کا وقت شروع ہوتے ہی وتر کی نماز کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ جو آدمی سورج نکلتے وقت یا اس سے پہلے یا اس کے بعد نیند سے بیدار ہوتا ہے وہ جیسے بیدار ہوگا فجر کی نماز پڑھے گا کیونکہ فجر کی نماز فریضہ ہے، اسے وتر نہیں پڑھنا ہے کیونکہ وتر کا وقت فجر کا وقت داخل ہوتے ہی ختم ہوجاتا ہے۔ ہاں اگر دن میں کسی وقت وتر کی قضا کرنا چاہے تو وتر کی قضا بھی کی جا سکتی ہے۔

سوال:کتاب الدیات میں قتل عمد اور قتل شبہ عمد کے بارے میں پڑھا جس میں مذکور ہے کہ دیت اور کفارہ سے تصفیہ کرایا جائے گا تو ان میں فرق کیا ہے، وضاحت فرما دیجئے گا؟

جواب: قتل عمد کہتے ہیں کہ کوئی آدمی کسی کو جان بوجھ کر قتل کرنے کی نیت سے قتل کرے۔

سزا: اس قتل پر اسلام کا حکم یہ ہے کہ اسے قصاصا قتل کیا جائے گا۔ اگر مقتول کے ورثاء قصاص معاف کر دیں تو اس کے بدلے دیت لے سکتے ہیں اور دیت بھی کم کرسکتے ہیں یا چاہیں تو معاف بھی کرسکتے ہیں۔

قتل شبہ عمد یا قتل خطا: کوئی آدمی جان بوجھ کر کسی کو قتل نہ کرنا چاہتا ہو بلکہ غلطی سے قتل ہوجائے۔

سزا: اس کی سزا یہ ہے کہ اس میں دیت ہے اور کفارہ بھی ہے۔ مقتول کے ورثاء چاہیں تو دیت معاف کرسکتے ہیں لیکن کفارہ ادا کرنا پڑے گا یہ نہیں معاف ہوتا ہے۔

دونوں قسم کے قتل میں فرق یہ ہے کہ قتل عمد میں قاتل کو قصاصا قتل کیا جائے گا جبکہ قتل خطا میں قاتل کو قصاصا قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ صرف دیت لی جائے گی اور کفارہ ادا کرنا پڑے گا۔

بعض علماء نے قتل عمد میں بھی کفارہ مانا ہے جبکہ بعض علماء کفارہ صرف قتل شبہ عمد میں مانتے ہیں۔

سوال:آجکل سروگیسی (surrogacy) کا جو فتنہ ہے کیا یہ بھی اس حدیث کے معنی کو شامل ہے کہ "لونڈی اپنی مالکہ جنے گی"؟

جواب:اولاد کے حصول کے لئے "سروگیٹ مدر ہوڈ" کا جو طریقہ رائج ہے وہ تو بالکل حرام طریقہ ہے۔ جہاں تک مسئلہ ہے حدیث کا کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی۔ اس اعتبار سے سروگیسی کو اس میں نہیں مانا جائے گا کیونکہ حدیث کی اصل یہ ہے کہ اولاد مالکہ بنے گی۔ اگر سروگیسی والی اولادبھی مالکہ بننے لگے تو ایسی صورت میں یہ بھی اس میں داخل مانی جائے گی۔

سوال: ایک بیوہ خاتون کے تین بیٹے ہیں، ایک بیٹا نو سال کا ، دوسرا آٹھ سال اور تیسرا پانچ سال کا ہے۔ یہ سید فیملی ہے اس کو نہ زکوۃ دے سکتے ہیں اور نہ ہی صدقہ دے سکتے ہیں تو ہم اس خاتون کی کیسے مدد کریں۔ وہ کہہ رہی ہیں کہ مجھے چھوٹا سا کام ڈال دیں تاکہ میں اپنے گھر کا کرایہ ادا کرسکوں۔ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے بڑے بیٹے کا اسکول جانا بند کروانا پڑگیا ہے؟

جواب:ہندو پاک میں بہت سے لوگ یونہی سید ہونے کا دعوی کرتے ہیں اس لئے پہلے اس بات کی تاکید کرلی جائے۔ اگر سید خاندان سے ہونے کا یقین ہو یعنی بنو ہاشم سے ہو تو اسے زکوۃ نہیں دی جائے گی۔

زکوۃ کے علاوہ نفلی صدقات بلاشبہ سید خاندان کو دے سکتے ہیں، نفلی صدقات دینے میں حرج نہیں ہے۔نیز اگر اصل مال یا عطیات و صدقات سے مدد کرنے والا کوئی نہ ہو اور زکوۃ لینے پر مجبور ہو تو مجبوری میں سید خاندان والے زکوۃ بھی لے سکتے ہیں۔

سوال میں مذکور جس کام کی طرف اشارہ ہے، اگر کوئی تعاون کرتے ہی اسے مطلوبہ کام دلادے تو وہ بھی ٹھیک رہے گا۔

سوال: ایک خاتون کہتی ہیں کہ نئے گھر میں شفٹ ہونے پر جانور کا صدقہ دینا چاہتی ہوں، اس بارے میں پوچھتی ہیں کہ اس کی نیت کیسے کرنا ہے؟

جواب:کچھ لوگ نیا گھر بنانے کے بعد اس میں داخل ہوتے وقت گھر اور گھر والوں کی سلامتی کے لئے جانور ذبح کرتے ہیں اور لوگوں کا یہ عقیدہ بھی ہوتا ہے کہ اس سے گھر بھی محفوظ رہے گا اورگھر والے بھی جنات و شیاطین کے شر سے محفوظ رہیں گے۔

دراصل یہ بے اعتقادی، جہالت اور بے دینی ہے بلکہ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ عمل شرک میں داخل ہے۔

قرآن و حدیث میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ نئے گھر میں داخل ہونے پر جانور کا صدقہ دینا چاہیے، نہ ہی ہمارے اسلاف سے اس عمل کی کوئی توثیق ہوتی ہے اس لئے نئے گھر میں داخل ہوتے وقت جانور ذبح کرنے کا عمل ترک کیا جائے۔ ہاں اگر کوئی نئے گھر میں داخل ہوتے وقت خوشی میں گھر کی نعمت ملنے پر لوگوں کی دعوت کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال: اگر کوئی ڈاکٹر ہو تو وہ کیسے نماز ادا کرے اپنے کام کے اوقات میں، اگر آپریشن کرنا رہتا ہے اور وقت سے پہلے آپریشن کے لئے جانا پڑے اور بعد میں وقت نہ بچے تو کیا کرے، کیا دوسری نماز کے ساتھ جمع کرسکتا ہے اور کیا یہ قضا کی حالت ہوجائے گی ، اگر آپریشن سے پہلے وقت ہو تو کوشش رہتی ہے کہ نماز پڑھے اور مسجد میں جانے کا کیسا حکم ہے ، کیا کبھی بھی ہاسپیٹل میں ادا کرسکتے ہیں یا مسجد میں ہی جانا پڑے گا؟

جواب:نماز سب کے لئے برابر ہے خواہ کوئی ڈاکٹرو انجیئر ہو، یا کوئی عامل و مزدور ہو یا کوئی عالم، ولی اور عظیم المرتبت ہستی ہو۔ سب کے اوپر یکساں طور پر نماز فرض ہے اور تمام قسم کے مردوں کو مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا واجب ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر دنیا میں کوئی عظیم ہستی نہیں آئی اور آپ کے اوپر ایک طرف سماجی ومعاشرتی اعتبار سے تبلیغ دین کی بڑی ذمہ داری تھی تو دوسری طرف کئی بیویوں کی گھریلو ذمہ داری تھی۔ تمام ذمہ داریوں کو نبھاتےہوئے آپ ہمارے لئے ہر معاملہ ایک بہترین نمونہ ہیں۔

جو مرد ڈاکٹر ہو اسے بھی مردوں کے ساتھ مسجد میں تمام نمازیں ادا کرنا واجب ہے۔ اور اگر عورت ڈاکٹر ہو تو وہ اپنی رہائش پر نماز ادا کر سکتی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ہر نماز کے لئے اللہ کی طرف سے ایک مناسب وقت دیا گیا ہے اس دوران نماز ادا کرنا ضروری ہے، کبھی کام یا آپریشن کی وجہ سے تاخیر ہوجائے تو جیسے فرصت ملے پہلی فرصت میں اپنی چھوٹی ہوئی نماز ادا کرلے۔

خلاصہ یہ ہے کہ ڈاکٹر کے لئے بھی یہی حکم ہے کہ وہ پانچ نمازیں مسجد میں جا کر ادا کرے، جب کبھی آپریشن کی وجہ سے تاخیر ہو جائے تو وقت ملتے ہی فورا نماز ادا کرے لیکن وہ وقت سے پہلے کوئی نماز نہ پڑھے اور نہ ہی دو نمازوں کو جمع کرنے کا معمول بنائے۔ مشغولیت کی وجہ سے کسی نماز میں تاخیر ہوگئی یہاں تک کہ دوسری نماز کا وقت ہوگیا تو اس وقت دونوں نماز ادا کرلے اس میں کوئی حرج نہیں۔ نماز کو اس کے وقت کے دوران ادا کرنا قضا نہیں ہے، نماز قضا اس وقت ہوتی ہے جب نماز کا مکمل وقت نکل جائے۔

سوال: کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ حضرت مجاہدؒ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جانور کے سات اعضاء کو ناپسند فرماتے تھے ۔ ایک خون، دومادہ جانور کی شرمگاہ، تین خصیتین(کپورے)، چار غدود، پانچ نرجانور کی پیشاب گاہ، چھ مثانہ، سات پتہ۔(مصنف عبدالرزاق جلد4 ص 535، سنن الکبری للبیہقی)۔

جواب:مجاہد بن جبر تابعی کہتے ہیں: کان رسول اللہ ﷺیکرہ من الشاۃ سبعا: الدم،الحیاء،والأنثیین، والغدۃ، والذکر،والمثانۃ، والمراراۃ۔

ترجمہ: رسولﷺ بکری (وغیرہ) سے ان سات اعضاء کو ناپسند کرتے تھے: (بوقت ذبح بہنے والا) خون، شرمگاہ، خصیتین ، غدود، اگلی شرمگاہ، مثانہ اور پتہ۔ (مصنف عبدالرزاق: ۵۵/۴،ح:۸۷۷۱، السنن الکبری للبیہقی:۷/۱۰)

یہ روایت کئی علتوں کی وجہ سے ضعیف اور باطل ہے اس لئے یہ روایت قابل عمل اور قابل استدلال نہیں ہے۔

سوال: ایک عالم کہہ رہے ہیں کہ لڑکی والوں کے گھر جانا، اس کے گھر نکاح کے وقت کھانا پینا جائز ہے جبکہ بعض علماء اس کو حرام کہتے ہیں اس مسئلہ میں صحیح کیا ہے؟

جواب: بارات کی دعوت، دین میں ایک نئی ایجاد ہے اس میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے کیونکہ نکاح کے وقت اس قسم کی بھاری بھرکم دعوت کا ثبوت قرآن و حدیث اور سلف کی زندگی میں کہیں پر نہیں ملتا۔

نکاح کی غرض سے اگر لڑکی کے گھر چند لوگ جمع ہوتے ہیں اور لڑکی والے ان لوگوں کی ضیافت کرتے ہیں یہ ایک الگ مسئلہ ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ہزار دو ہزار لوگوں کا ہجوم لے کر لڑکی کے گھر جانا اور باقاعدہ ڈیمانڈ کے ساتھ دعوت کھانا ناجائز اور حرام ہے۔ آپ ذرا سوچیں کہ دعوت کہتے کس کو ہیں؟

اگر میں کھلانے والا ہوں تو میں جس کو دعوت دوں گا وہ میرے یہاں دعوت کھانے آئے گا جبکہ بارات میں دعوت کھلانے والے کی طرف سے دعوت نہیں ہوتی ہے، کھانے والا اپنی مرضی سے لڑکی کے گھر لوگوں کو لے کر آتا ہے، یہ الگ مسئلہ ہے کہ تعداد بتا دی جاتی ہے مگر لانے والا لڑکے کی طرف سے ہے۔ دعوت کی یہ شکل اسلام کے اندر موجود ہی نہیں ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لڑکا کی جانب سے بارات کا انکار کیا جاتا ہے مگر لڑکی والے بارات لانے پر اصرار کرتے ہیں اس جگہ میں یہ نصیحت کروں گا کہ لڑکی والوں کی ایسی خواہش پوری نہ کی جائے۔

سوال: انڈیا میں اور بھی ممالک جہاں اکثریت غیر مسلموں کی ہے وہاں کے ریسٹورینٹ میں مرغی کے کئی پکوان ہوتے ہیں، کیا وہاں کھانے جاسکتا کیونکہ پتہ نہیں ہوتا ہے کہ وہ حلال ذبح ہے یا نہیں ہے؟

 جواب:غیر مسلم ہوٹل میں بھول کر بھی گوشت نہیں کھانا چاہیے کیونکہ اس کے پاس ایمان نہیں ہے، وہ کسی بھی قسم کا ذبیحہ کھلا سکتا ہے خواہ وہ شرعی طور پر ذبح ہوا ہو یا نہیں ہوا ہو۔ بعض ہوٹل والے مسلم قصائی سے گوشت لینے کا دعوی کرتے ہیں اس کے باوجود ہندو کے ہوٹل میں گوشت نہیں کھانا چاہیے اور اس معاملے میں کبھی بھی ہندو پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔

سوال: جب کوئی آدمی مرنے لگے تو اس سے پہلے کھانا کرنا چاہ رہا ہے تو کیا اس میں ہر کوئی کھانا کھا سکتا ہے یا صرف غریب ہی کھا سکتا ہے جبکہ کھلانے والا ہر کسی کو دعوت دے رہا ہے اور کوئی آدمی اپنا عقیقہ خود کی شادی کے موقع پر کرسکتا ہے؟

جواب: جو آدمی مر رہا ہے ایسے آدمی کو نصیحت کی جائے کہ ایسے وقت میں آپ دعوت طعام پر نہیں بلکہ ذکر و اذکار، توبہ و استغفار اور عبادت پر توجہ دیں اور اللہ نے مال دیا ہے تو اپنے وارثین کو صدقہ و خیرات کرنے کا بھی حکم دے سکتے ہیں۔

جب راحت و اطمینان ہو اس وقت دعوت کرے اور دعوت کھانے میں حرج نہیں ہے اور اس میں صرف فقیر و مسکین کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ جس کو دعوت دی جائے وہ دعوت کھا سکتا ہے۔

شادی کے موقع پر بھی عقیقہ دے سکتے ہیں اس میں حرج نہیں ہے لیکن اگر کسی کو عقیقہ دینے کی طاقت جب ہو جائے اسی وقت عقیقہ کرنا بہتر ہوتا ہے اس کے لئے شادی یا عید کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

سوال: مسجد میں اگر بتی یا دھونی یا بخور وغیرہ کی خوشبو استعمال کی جا سکتی ہے؟

جواب: مسجد میں خوشبو کا استعمال کرسکتے ہیں خواہ وہ اگربتی ہو، بخور ہو یا سنٹ اور اسپرے ہو۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ سنن ابی داؤد میں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں:

أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبِنَاءِ الْمَسَاجِدِ فِي الدُّورِ وَأَنْ تُنَظَّفَ وَتُطَيَّبَ(سنن ابی داؤد: 455، صححہ البانی)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر اور محلہ میں مسجدیں بنانے، انہیں پاک صاف رکھنے اور خوشبو سے بسانے کا حکم دیا ہے۔

سوال:نماز کا وقت داخل ہوجائے اور نماز ادا کئے بغیر حیض شروع ہوجائے تب غسل کے بعد اس نماز کی قضا کریں گے؟

جواب:اگر کوئی عورت نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد حائضہ ہوتی ہے اور اسے اتنا وقت ملتا ہے کہ کم از کم وہ ایک رکعت نماز ادا کر سکتی ہے تو ایسی صورت میں حیض سے پاک ہونے اور غسل حیض کرنے کے بعد اس نماز کی قضا کرے گی۔ یہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا موقف ہے۔
اس سلسلے میں شیخ ابن باز رحمہ اللہ یہ فرماتے ہیں کہ اگر نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد شروع ہی میں حیض آجائے تو اس نماز کی قضا نہیں ہے لیکن اگر عورت نے نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد اس کی ادائیگی میں تاخیر کی تو پھر ایسی صورت میں پاک ہونے پر اس نماز کی قضا کرے گی۔

ان دونوں باتوں میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا موقف قوی معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد عورت حائضہ ہوتی ہے تو پاک ہونے پر اس نماز کی قضا کرے گی خواہ حیض شروع وقت میں آئے یا درمیان وقت میں یا نماز ختم ہونے کے آخری وقت میں اس شرط کے ساتھ کہ حائضہ کو کم از کم اتنا وقت ضرور ملا ہو جس میں وہ ایک رکعت نماز ادا کرسکتی تھی، اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ جس کو نماز کی ایک رکعت مل جائے اس نے پوری نماز پالی۔(بخاری:580)

سوال: ماں باپ کی موجودگی میں بیٹے کا انتقال ہوجائے تو اس کے بچوں کو وراثت میں سے کچھ نہیں ملے گا یا اگر دونوں میں سے کسی ایک کی موجودگی میں بیٹے کا انتقال ہوجائے تو اس کے بچوں کے لئے وراثت میں کتنا حق ہے؟

جواب:وراثت میں ماں کی جائیداد کا مسئلہ الگ ہے اور باپ کی جائیداد کا مسئلہ الگ ہے اس لئے ماں اور باپ دونوں کو ملاکر مسئلہ نہیں دیکھا جائے گا۔اگر باپ کی زندگی میں بیٹا مرجائے تو باپ کی جائیداد سے اس بیٹے کا حصہ نہیں نکالا جائے گا جو وفات پا گیا ہے، جہاں تک وفات پانے والے بیٹے کی اولاد کا مسئلہ ہے تو اس کے مختلف حالات ہیں۔

٭اگر باپ کو بیٹا اور بیٹی دونوں ہوں تو مرنے والے بیٹے کی اولاد کا حصہ نہیں ہے۔

٭اگر باپ کو دو یا دو سے زیادہ بیٹی ہو تب بھی مرنے والے بیٹے کی اولاد کو حصہ نہیں ملے گا۔

٭اگر باپ کو ایک بیٹی ہو تو مرنے والے بیٹے کی اولاد کا بھی حصہ ہے۔

٭اسی طرح باپ کی کوئی اولاد نہ ہو سوائے مرنے والے بیٹے کے تو ایسی صورت میں بھی بیٹے کی اولاد کا حصہ ہے۔

ایک اور چیز یہ ہے کہ جب پوتا پوتی اپنے دادا کی وراثت سے محروم ہوں تو ایسی صورت میں دادا کو اپنے پوتے پوتیوں کے حق میں مناسب وصیت کرنا چاہیے اور وصیت ایک تہائی مال تک کی جا سکتی ہے اس سے زیادہ نہیں۔

سوال: جب عورت کے گھر بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ چالیس دن نماز نہیں پڑھتی ہے اور چالیس دن گھر سے باہر نہیں نکلنا ہے، اس بارے میں اسلام کیا کہتا ہے؟

جواب:جب عورت بچہ جنم دے تو ایسی صورت میں جب تک اسے نفاس کا خون آتا ہے اس حالت میں اس کے لئے نماز اور روزہ منع ہوتا ہے۔ کوئی ضروری نہیں ہے کہ چالیس دن تک خون آئے، جب بھی عورت پاک ہو جائے غسل کرکے نماز ادا کرے گی اور نفاس کی اکثر مدت چالیس دن ہے۔

اور نفاس کوئی عدت نہیں ہے کہ عورت گھر سے نہیں نکل سکتی، اس میں گھر سے نکلنا منع نہیں ہے، وہ اپنی ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکل سکتی ہے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوال: کیا نومولود کے سر کے بال نکالنا ضروری ہے، مطلب یہ ہے کہ بچے کے عقیقہ کے وقت بچے کے سر کے بال کے وزن کے برابر چاندی دیتے ہیں، کیا یہ ضروری ہے یا بال نکالے بنا صرف بال کے وزن کا اندازہ لگاکر دینا کافی ہے اور اسی طرح چاندی کا صدقہ کئے بغیر جانور ذبح کرنا کافی ہوگا؟

جواب:نومولود بچے کے ساتویں دن بال منڈانا سنت ہے اور اس بال کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرنا بھی سنت ہے۔ اگر نومولود بچی ہو تو اس کا بال نہیں منڈانا چاہیے، صرف لڑکے کا بال منڈاناچاہیے۔

چونکہ بال کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرنا مسنون ہے اس لیے جس کو اس کی طاقت ہو وہ صدقہ کرے اور جس کو اس کی طاقت نہ ہو وہ اس کا مکلف نہیں ہے۔ بال منڈانے اور اس کے وزن کے برابر صدقہ دینے والی بات ساتویں دن سے متعلق ہے، اگر کوئی بعد میں اپنے بچے کا عقیقہ کر رہا ہے اس وقت بال منڈانے کی ضرورت نہیں ہے، بس عقیقہ کر دینا کافی ہے۔

اگر کوئی صدقہ دینا بھی چاہے تو کوئی حرج کی بات نہیں، بال کے وزن کا اندازہ لگا کر صدقہ دیا جا سکتا ہے۔

سوال:مدرسہ میں مغرب کی نماز عورتوں کی باجماعت ہوتی ہے، عورت ہی امامت کرتی ہے، کیا باجماعت نماز پڑھنے سے دگنا ثواب ملتا ہے؟

جواب:جماعت سے نماز پڑھنے میں ستائیس گنا زیادہ اجر ملتا ہے، یہ اجر جہاں مردوں کے لئے ہےوہیں پر عورتوں کے لئے بھی ہے لہذا جب عورتیں جماعت سے نماز ادا کریں تو ان کو بھی یہ فضیلت ملے گی۔

سوال:ابلیس نے تکبر کی بناپر سجدہ نہیں کیا تھا،کیا اس نے بعد میں معافی مانگی تھی؟

جواب:ابلیس نے اپنی غلطی پر نہ توبہ کیا اور نہ معافی مانگا بلکہ وہ اپنے کبر و عناد پر قائم رہا اور ابھی بھی اسی پر قائم ہے اسی وجہ سے وہ اللہ کے نیک بندوں کو بہکانے اور ورغلانے میں لگا ہواہے۔ اگر وہ توبہ کرلیتا تو بندوں کو نہیں بہکاتا۔ 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔