﷽
آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(34)
جواب از : شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، السلامہ- سعودی عرب
سوال: جہری نماز کو اگر جہرا نہ پڑھا جائے تو کیا نماز ہو جائے گی
یا اسے دوبارہ ادا کرنا ہوگا ؟
جواب: پانچ نمازوں میں بعض نمازیں جہری اور
بعض نمازیں سری ہیں۔ جہری نماز کو جہرا پڑھنا مسنون ہے اور سری نماز کو سرا پڑھنا
مسنون ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ تم اسی طرح نماز پڑھو جیسے
مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح سے نماز
پڑھی ہے، ہمیں بھی اسی طرح نماز پڑھنی چاہیے۔اگر کوئی مرد یا عورت جہری نماز کو
سری طور پر ادا کرلے تو نماز اپنی جگہ پر ہو جائے گی، اسے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے
تاہم آئندہ وہ اس بات کا خیال کرے کہ جہری کو جہرا اور سری کو سرا ادا کرے۔
سوال: ایک آدمی جنت میں اپنی
چاروں بیویوں کے ساتھ رہے گا یا ان میں اس کو اختیار دیا جائے گا؟
جواب: اگر ایک شخص کو دنیا میں چار بیویاں تھیں تو جنت میں ان سب کے ساتھ رہے گا اگر وہ سب جنت میں داخل ہوتی ہیں۔ اس میں اختیار کا معاملہ نہیں ہے۔اختیار کا معاملہ اس عورت کے لئے بیان کیا جاتا ہے جس کو دنیا میں ایک سے زیادہ شوہر ملا ہو۔ حالانکہ اس میں بھی صحیح موقف یہ ہے کہ جس عورت کو ایک سے زیادہ شوہر رہا ہو وہ اپنے آخری شوہر کے ساتھ جنت میں رہے گی۔
سوال: حیض کی حالت میں سجدہ
شکر جائز ہے؟
جواب: عورت، حیض کی حالت میں سجدہ شکر کر
سکتی ہے اس میں حرج نہیں ہے کیونکہ سجدہ شکر کے لئے طہارت شرط نہیں ہے۔
سوال: دوصورتوں میں سجدہ سہو
کے تعلق سے مشکوک ہوں، ازراہ کرم شرعی جانکاری دیں۔پہلی صورت: کوئی چار رکعت فرض
نماز میں ایک رکعت پر بیٹھے رہ جائے، التحیات پڑھنے کے بعد کھڑے ہونے پر معلوم ہو
کہ دوسری رکعت پڑھے بغیر تشہد کرلیا گیا ہے۔ ایسے میں تین رکعت پڑھ کر التحیات اور
اس کے بعد کی دعائیں پڑھنا ہے پھر سجدہ سہو کرنا ہے پھر سلام پھیرنا ہے؟دوسری
صورت: چار رکعت نماز میں پہلا قعدہ کیا پھر تیسری رکعت پڑھ کر بیٹھے رہ گئے،
التحیات کے دوران یاد آیا کہ یہ تیسری رکعت ہے تو کیا وہ اٹھ کر ایک رکعت مکمل کرے
پھر دوبارہ بیٹھ کر التحیات پڑھے پھر سلام پھیرے پھر سجدہ سہو کرے؟
جواب:پہلی صورت کا جواب یہ ہے کہ جب کوئی چار رکعت والی نماز پڑھتے ہوئے ایک رکعت پڑھ کر، بیٹھا ہی رہے، دوسری رکعت کے لئے نہ اٹھے یہاں تک کہ قعدہ میں التحیات پڑھ لے، کھڑے ہو کر اس بات کا علم ہو کہ دوسری رکعت پڑھے بغیر قعدہ کرلیا گیا تو ایسی صورت میں دوسری رکعت پڑھ کر پھر قعدہ میں بیٹھا جائے گا اور التحیات پڑھا جائے گا۔ اس کے بعد مزید دو رکعتیں پڑھ کر آخری قعدہ میں بیٹھا جائے گا اور سلام پھیرنے کے بعد سجدہ سہو کیا جائے گا کیونکہ یہاں پر نماز میں ایک قعدہ کی زیادتی کر دی گئی ہے اور نماز میں زیادتی ہوجانے پر سجدہ سہو سلام کے بعد ہوگا۔
دوسری صورت کا
جواب یہ ہے کہ اگر کوئی چار رکعت والی نماز میں تیسری رکعت پہ بیٹھ جائے اور
التحیات کے دوران ایک رکعت باقی رہنے کا علم ہو تو اسے کھڑا ہو کر مزید ایک رکعت
ادا کرنا ہے پھر قعدہ میں بیٹھ کر تشہد کی دعائیں پڑھنی ہے پھر سلام پھیرنا ہے پھر
اس کے بعد سجدہ سہو کرنا ہے یعنی اس دوسری صورت میں بھی سجدہ سہو سلام کرنے کے بعد
ہوگا۔ سجدہ سہو سے متعلق تفصیلی جانکاری کے لئے میرے چینل پر سجدہ سہو کے احکام
جان سکتے ہیں۔
سوال: ایک بہن کا سوال ہے کہ
میری کزن کا ایک مہینہ پہلے نکاح ہوا تھا رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ اب کل اس کی رخصتی
اور ولیمہ ایک ساتھ کردیا ہے یعنی دلہا اور دلہن کے والدین نے پیسے ملاکر دعوت
کردی۔ کیا یہ طریقہ ٹھیک ہے اور کیا رخصتی سے پہلے ولیمہ ہوسکتا ہے؟
جواب: سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ولیمہ لڑکے
کی جانب سے ہوتا ہے، نہ کہ لڑکی کی جانب سے اور ولیمہ میں لڑکے کو جتنی وسعت ہو
اسی حیثیت سے دعوت کرنی چاہیے۔ ولیمہ کے لئے لڑکی والوں سے پیسہ لینا یا فضول خرچی
کرنا اور دھوم دھام سے عالیشان، بڑی قسم کی تقریب منعقد کرنا یہ سب غلط باتیں ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ نکاح کرنے کے بعد کسی
بھی وقت ولیمہ کیا جا سکتا ہے اس کے لئے رخصتی شرط نہیں ہے یعنی بغیر رخصتی کے بھی
ولیمہ کیا جا سکتا ہے اور رخصتی کے بعد ولیمہ ہو تو اور اچھی بات ہے مگر رخصتی سے
پہلے یا رخصتی کے ساتھ ولیمہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال: ہم لائٹ پرنٹ قرآن مجید منگوانا چاہتے ہیں تاکہ ہم شوقیہ طور پر اپنے ہاتھوں سے اللہ کی کتاب کو لکھیں، کیا قرآن کو اپنے ہاتھوں سے لکھنے کا اجر ہے یا کوئی فضیلت ہے اور کیا ہم یہ قرآن خرید سکتے ہیں؟
جواب: آپ کو قرآن کا یہ نسخہ نہیں خریدنا
چاہیے کیونکہ اس کی کوئی فضیلت نہیں ہے اور اس میں شوقیہ لکھنے پر کوئی اجر و ثواب
نہیں ملے گا۔
جس نے بھی یہ بدعت ایجاد کی ہے اس نے لوگوں
کے ساتھ بہت برا معاملہ کیا ہے، آپ اسے خرید کر اس کام کو بڑھاوا نہ دیں اور اپنی
پہچان والی عورتوں کو بھی آگاہ کریں کہ یہ کوئی خیر کا کام نہیں ہے اس لئے ہرگز اس
طرح کا شوقیہ عمل انجام نہ دیں بلکہ ہوسکے تو اس طرح کا قرآن چھاپنے والے اور
بیچنے والے کو اس عمل سے منع کریں ۔
اللہ اور اس کے رسول نےہمیں قرآن کا علم سیکھنے، اس پر عمل کرنے اور قرآن کا
علم دوسروں تک پہنچانے کا حکم دیا ہے لہذا آپ اللہ اور اس کے رسول کے انہی احکام
کی تابعداری کریں۔
بلاضرورت شوقیہ قرآن لکھنے کا کوئی فائدہ
نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کوئی اجر اور نہ اس کی کوئی فضیلت ہے جبکہ بلاضرورت لائٹ قرآن لکھ کر اپنے گھروں میں بے
فائدہ ڈھیرلگاسکتے ہیں جسے لکھنے کے بعد پھر کبھی استعمال نہیں کیا جائے گا بلکہ
کہیں رکھ دیا جائے گا۔ یہ عمل درست نہیں ہے۔
سوال: کیا نکاح کے دن میک اپ
کے لئے دلہن مغرب اور عشاء کی نماز جمع کر سکتی ہے؟
جواب: عذر کے وقت دو نمازوں کو جمع کرنا جائز ہے مثلا مرض ، سفر، خوف اور بارش کے
وقت مگرمیک
اپ کی وجہ سے دو نمازوں کو جمع کرنے کا شریعت میں جواز نہیں ہے۔اور اصل یہی ہے کہ ہر
نماز کو اپنے وقت پر ادا کرنا ہے اور بغیر کسی شرعی عذر کے دو نمازوں کو جمع کرنا
جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى
الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا (النساء:103)
ترجمہ: یقیناً نماز مومنوں پر مقررہ وقتوں
پر فرض ہے۔
سوال: میرا بیٹا انیس سال کا
ہے۔ کبھی نماز پڑھتا ہے اور کبھی چھوڑتا ہے۔ مسجد نہیں جاتا ہے، کیا اس کے ساتھ
جہاد کرنے اور اسے مارنے پیٹنے کا حکم ہے یا پھر پیار سے سمجھایا جائے گا یا اسے
چھوڑ دیا جائے گا۔ ان کے والد کہتے ہیں ایسے لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم ہے اور رشتے
ناطے ختم کرنے کا حکم ہے، اس بارے میں قرآن وحدیث کی روشنی میں صحیح جانکاری دیں؟
جواب: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نماز مومن
کے لئے ایک اہم فریضہ ہے۔ اس معاملہ میں اولاد سے غفلت ہو تو والدین کو سخت رویہ
اپنانا چاہیے تاکہ اولاد اپنی اصلاح کرے۔انیس سال کا لڑکا بالغ ہوتا ہے جبکہ اللہ
کے رسول ﷺ نے سات سال میں ہی بچے کو نماز پڑھنے کا حکم دینے کے لیے کہا ہے اور دس سال
کا ہو جائے، نماز نہ پڑھے تو اسے مارنے کا حکم دیا ہے۔ جب دس سال کے بچے کو مار
سکتے ہیں جو ابھی بالغ نہیں ہوا ہے پھر جو بچہ انیس سال کا بالغ ہو اور وہ نماز نہ
پڑھے یا کبھی پڑھے اور کبھی نہ پڑھے تو ایسی اولاد کو یقینا مار سکتے ہیں، سزا دے
سکتے ہیں اور سخت طور پر تنبیہ کرسکتے ہیں۔
اپنی اولاد سے جہاد نہیں کرنا ہے اور نہ ہی
رشتہ ناطہ ختم کرنا ہے بلکہ اس طرح نماز کی تعلیم دینی ہے کہ اس میں حکمت بھی ہو
اور سختی بھی ہو۔ آج حالات ایسے ہیں کہ سختی کرنے پر اولاد نافرمان ہو جائے گی اور
آپ سے وہ خود ہی رشتہ ختم کرلے گی لہذا مناسب انداز میں نصیحت بھی کریں اور رشتہ
بھی قائم رکھیں۔
سوال: قرآنی وظیفہ کرنا ہو
تو حیض کی حالت میں کرسکتے ہیں یا نہیں؟
جواب: قرآنی وظیفہ سے مراد کسی بیماری میں
اپنی جانب سے سورہ مخصوص کرنا، تعداد مخصوص کرنا، ایام مخصوص کرنا تویہ بدعتی عمل
ہے اس عمل سے پرہیز کیا جائے گا۔باقی قرآن کی تلاوت حیض کی حالت میں عورت کرسکتی
ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے حتی کہ اگر دم کرنا ہو تو قرآن پڑھ کر دم بھی کرسکتی
ہے، رات میں سوتے وقت اذکار کرسکتی ہے، وہ صبح و شام کے اذکار بھی کر سکتی ہے اس
میں کوئی حرج نہیں۔
سوال: ایک خاتون کا سوال ہے
کہ ابھی پاکستان میں بہت سردی چل رہی ہے ایسے میں اگر وہ فجر کے وقت وضو کرکے
پیروں میں موزہ پہن لیتی ہے تو باقی نمازیں ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کے لئے وضو
کرتے وقت سردی سے بچنے کے لئے موزہ پر مسح کرسکتی ہے کیونکہ یہاں سردی بہت ہے یا
ہر وضو کے وقت لازما موزہ اتارکر پیر دھلنا ہوگا؟
جواب: مقیم کے لئے ایک دن اور ایک رات جراب
پر مسح کرنا جائز ہے اس لئے جو عورت فجر کے وقت وضو کرکے جراب لگاتی ہے، وہ ظہر،
عصر، مغرب اور عشاء کی نمازوں کے لئے وضو کرتے وقت جراب پر مسح کر سکتی ہے، جراب
اتارنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اوراس پر مسح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مسح کی مدت اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب پہلی دفعہ جراب پر مسح کرے۔ اس وقت سےلے کر وہ چوبیس گھنٹے تک مسح کر سکتی ہے۔
سوال: ایک خاتون کی اپنے
شوہر کے ساتھ بحث ہوگئی، اس دوران اس نے شوہر سے کہا "مجھے چھوڑ دیجئے"،
اس کے شوہر نے کہاکہ جاؤ، خاتون نے پھر کہا ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیجئے، شوہر نے کہا
جاؤ۔ بیوی کا کہنا ہے کہ خلع یا طلاق کا کوئی ارادہ نہیں تھا، بس غصے میں بحث
ہوگئی اور شوہر کا کہنا ہے کہ اس کی نیت طلاق کی نہیں تھی۔ایسے میں سوال یہ ہے کہ
یہ خلع یا ایک طلاق مانی جائے گی یا ان کی نیتوں کا اعتبار ہوگا؟
جواب: شوہر کا یہ کہنا کہ "جاؤ"
یہ طلاق کے لئے صریح لفظ نہیں ہے۔ اگر طلاق کے لیے صراحت کے ساتھ لفظ استعمال کیا
جاتا تو طلاق واقع ہو جاتی لیکن صرف جاؤ کہنے میں طلاق کی صراحت نہیں ہے اس لیے
یہاں پر شوہر کی نیت دیکھی جائے گی۔
اگر شوہر طلاق کی نیت سے بیوی کے مطالبہ
پرکہتا ہے کہ جاؤ تو طلاق مانی جائے گی لیکن اگر اس کی نیت طلاق نہیں تھی تو اس سے
طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اور چونکہ شوہر کا کہنا ہے کہ اس کی نیت طلاق کی نہیں تھی
لہذا اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس معاملہ میں عورت کی
حرکت غیر محتاط نظر آتی ہے لہذا اس عورت کو آئندہ اپنی زبان کو لگام دینا چاہیے
اور اس طرح کا مطالبہ اپنے شوہر سے نہیں کرنا چاہیے۔
سوال: عمرہ پر جاتے وقت خوشبو نہیں لگا سکتے ہیں تو کیا صابن اور شیمپو کا استعمال بھی نہیں کرنا ہے اور عورت کو چہرہ پر دوپٹہ ڈالنا ہے لیکن چہرے پر بندھ نہیں لگا سکتی ہے تو بلا بندھ باندھے مکمل چہرہ کیسے ڈھکے؟ اس کا کیا طریقہ ہوگا؟ کیا چہرے پر دوپٹہ ڈال کر چہرے سے دور رکھا جائے گا،تب بھی چہرے سے لگے گا؟
جواب: عمرہ پر جاتے ہوئے خوشبو لگانا منع
نہیں ہے بلکہ جب تک احرام کی حالت میں آدمی رہے اس حالت میں خوشبو کی کوئی بھی چیز
استعمال کرنا منع ہے خواہ صابن ہو یا شیمپو ہو یا کھانے پینے کی کوئی چیز ہو۔ عورت
ہو تو خوشبو لگاکر کبھی بھی اسے گھر سے باہر نہیں نکلنا ہے۔
جب عورت عمرہ کے لیے حرام باندھ لے اس وقت
سے لے کر عمرہ ادا کر لینے تک خوشبودار صابن اور شیمپو سے پرہیز کرے لیکن ایسا
صابن یا شیمپو جس میں خوشبو نہ ہو اس کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔
احرام کی حالت میں عورت کے لئے نقاب و برقع
منع ہے۔وہ چہرے کے پردہ کے لئے چادر کا استعمال کرے، اس چادر کو رسی سے بھی باندھ
سکتی ہے، اس میں بند لگاسکتی ہے، پن لگا سکتی ہے اور جس طرح سے بھی چادر کو
سنبھالنا ممکن ہو وہ طریقہ اختیار کر سکتی ہے اس میں حرج نہیں ہے مگر یہ بات صحیح
نہیں ہے کہ دوپٹہ چہرے سے مس نہیں ہونا چاہئے، یہ لوگوں کی پھیلائی ہوئی جھوٹی بات
ہے۔ بالکل کپڑا چہرہ سے مس کرسکتا ہے اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
سوال:آپ کے رسالہ خلع کے
احکام میں خلع کی عدت ایک حیض ہے تو کیا یہ عدت ایک حیض سے دوسرے حیض تک کی جو مدت
ہوتی ہے، وہ ہوگی یا خلع کے بعد جو حیض آئے گا بس وہی مدت ہوگی، مجھے اس کے بارے
میں آگاہ کردیں؟
جواب: خلع کی عدت ایک حیض ہے اور عدت کا طریقہ یہ ہے کہ جب عورت کا خلع ہو اس کے بعد جب پہلی مرتبہ حیض آئے اور حیض آکر ختم ہوجائے تو خلع کی عدت ختم ہو جاتی ہے گویا خلع کےبعد صرف ایک حیض آنا ہی عدت ہے۔
سوال: کیا ماں ایک سال کے
بچے کو دودھ پلانا چھوڑ سکتی ہے اور اگر پورے دو سال دودھ نہ پلائے تو گناہ ہوگا؟
جواب: اللہ تعالی کا فرمان ہے:وَالْوَالِدَاتُ
يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ
أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ (البقرة:233)
ترجمہ:مائیں اپنی اولاد کو دو سال کامل
دودھ پلائیں جن کا ارادہ دودھ پلانے کی مدت بالکل پوری کرنے کا ہو۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں اپنے بچوں
کوزیاہ سے زیادہ دو سال تک دودھ پلا سکتی
ہے اور اگر دو سال سے کم دودھ پلاتی ہے تو اس میں کوئی حرج اور گناہ نہیں ہے لیکن
بلاضرورت دو سال سے زیادہ دودھ پلانا صحیح نہیں ہے۔
جو بچہ ایک سال کا ہے اور اسے ابھی مزید
ماں کے دودھ کی ضرورت ہے، دودھ چھڑانے پر بچے کو صحت کا مسئلہ درپیش ہو سکتا ہے تو
ایسی صورت میں ماں اپنے بچے کو دودھ پلانا نہیں چھوڑے گی بلکہ رضاعت کی مدت پوری
کرے گی۔ معلوم یہ ہوا کہ دو سال سے پہلے دودھ چھڑانے میں بچے کو کوئی نقصان نہ ہو
تو ماں دودھ چھڑا سکتی ہے لیکن اگر دودھ چھڑانے پر نقصان ہو تو دودھ چھڑانا جائز
نہیں ہے، اگر ماں اس صورت میں دودھ چھڑا دے تو وہ گنہگار ہوگی کیونکہ یہ اس کا حق
ہے جس سے محروم کررہی ہے اور اس سے بچے کو ضرر لاحق ہوسکتا ہے۔
سوال:اگر ایک لڑکی خلع لیتی ہے اور سٹی کونسل سے بھی شادی شدہ کا اندراج کلیئر ہو جائے تو کیااس مرد کا زبان سے طلاق کہنا ضروری ہوتا ہے اور وہ مرد اس کے بعد بھی تنگ کرے اور کہے کہ نہ تو میں تمہیں اپنے ساتھ رکھوں گا اور نہ ہی تمہیں آزاد کروں گا۔ اس صورت میں عورت کے لیے شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب: طلاق اور خلع میاں بیوی کے درمیان کا
معاملہ ہے یعنی شوہر بیوی کو طلاق دیدے تو اس سے بیوی جدا ہو جاتی ہے اور اسی طرح
بیوی شوہر سے خلع طلب کرے اور شوہر خلع دیدے تو اس سے بھی میاں بیوی میں جدائی
حاصل ہو جاتی ہے۔
بسا اوقات عورت کے لئے خلع طلب کرنے کا عذر
لاحق ہو جاتا ہے مگر شوہر طلاق دینے یا خلع دینے پر راضی نہیں ہوتا ہے تو ایسی
صورت میں عورت محکمہ کے ذریعہ خلع حاصل کرسکتی ہے۔ جب محکمہ سے خلع کی کاروائی
مکمل ہو جائے یعنی محکمہ خلع ڈکلیئر کردے تو پھر میاں بیوی میں جدائی ہو جاتی ہے
اس کے بعد شوہر کا بیوی پر کوئی حق نہیں رہتا اور نہ ہی اس مرد کو یہ اختیار رہتا
ہے کہ سابقہ بیوی کو دھمکی دے یا اس سے کہے کہ نہ ساتھ رکھوں گا اور نہ آزاد کروں
گا۔ اسے یہ بات کہنے کا کوئی اختیار ہی نہیں ہے۔
اگر عورت ایسے مرد سے پریشان ہو تو خلع کے
کاغذات کے ذریعہ اس مرد کے خلاف شکایت درج کراسکتی ہے یا سماجی اعتبار سے پنچایت
کرکے اپنے معاملہ کو حل کراسکتی ہے۔
سوال: کیا فرضی قضاء روزوں
کا اجر نفلی روزے رکھنے سے مل جائے گا جیسے سوموار اور جمعرات کے اور ایّامِ بیض
وغیرہ کے روزوں سے ؟
جواب:نفلی روزے مثلا سوموار، جمعرات اور ایام بیض کے روزے رکھنے سے چھوٹے ہوئےفرض روزوں کی تلافی نہیں ہوگی، قضا روزوں کو ہر حال میں الگ سے رکھنا پڑے گا۔
فرض اور نفل دونوں روزوں کا معاملہ الگ ہے
اور دونوں کا اجر بھی الگ ہے۔ نفل روزے رکھنے سے نفل کا ثواب ملتا ہے اور فرض روزے
رکھنے سے فرض کا ثواب ملتا ہے۔
سوال: قادیانی کے ساتھ تعامل
کرنے کا کیا حکم ہے، کیا اس کے ساتھ بول چال، میل جول اور کھانا پینا جائز ہے، اگر
کوئی غریب بندہ ہو تو اس سے کام کرانا، برتن صفائی کراکر اجرت دینا یا صدقہ وخیرات دینا کیسا ہے، اور
اگر وہ کھانا دے تو کھایا جاسکتا ہے؟
جواب: قادیانی بالاتفاق کافر ہے اور عام
کافروں سے دنیاوی معاملات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن قادیانی کا معاملہ عام
کافروں سے برعکس ہے، یہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اس وجہ سے ان کی باتوں سے
سیدھے سادے مسلمان بہک سکتے ہیں بلکہ وہ قادیانی بھی بن سکتے ہیں بنابریں ایسے
لوگوں سے میل جول کے بجائے دوری اختیار کرنا ایمان کی سلامتی کے اعتبار سے بہتر
ہے۔نیزقادیانی مرتد کافر ہے، اس کا پورے طور پر بائیکاٹ کریں، اس سے بول چال، اس
سے میل جول، اس کے ساتھ کھاناپینا، اس کو کام پر رکھنا، اسے کچھ دینا اور اس سے
کچھ لینا یہ سارے معاملات منقطع ہونے چاہیے۔
سوال:کیا بیٹی کی شادی اس
خاندان میں کرسکتے ہیں جو شیعہ ہے مگر اس لڑکے کی فیملی شیعہ نہیں ہے؟
جواب:شادی میں اصل لڑکا اور لڑکی ہے اس بنا
پر جس لڑکے سے شادی ہو رہی ہے، اگر اس کا عقیدہ اور دین درست و سلامت ہے تو بیٹی
کی اس لڑکے سے شادی کرنا جائز ہے، خاندان اور فیملی بھی کوئی معنی نہیں رکھتی لیکن
چونکہ لڑکی سسرال میں سسرال والوں کی مرضی سے چلتی ہے، اس کے پاس انکار کی ہمت
نہیں ہوتی، اس وجہ سے فیملی اور خاندان کا مناسب ہونا ضروری ہوتا ہے۔
مذکورہ
بالا فیملی کے تعلق سے یہ جاننا ضروری ہے کہ اپنے شیعہ خاندان سے اس کے کیا تعلقات
ہیں، کیا یہ فیملی بھی شیعی رسومات میں شریک ہوتی ہے اور پھر یہ فیملی کس عقیدے پر
ہے۔ کیا یہ بریلوی ہے یا اس کا عقیدہ اور دین سلفی منہج کے مطابق ہے؟
اگر یہ فیملی شیعی رسومات میں شرکت کرتی ہے،
تب اس سے رشتہ کرنا جائز نہیں ہے، اسی طرح اگر یہ فیملی شرک و بدعت والی یعنی
بریلوی ہے تب بھی اس سے رشتہ کرنا جائز نہیں ہے۔ رشتے کے جواز کے لئے ایک صورت ہے
وہ یہ کہ اس فیملی کا شیعی رسم و رواج سے کوئی تعلق نہ ہو اور یہ فیملی اور یہ
لڑکا سلفی عقیدہ ومنہج پر ہو۔
سوال: اولاد کو نفلی صدقہ
دینا جائز ہے جبکہ انسان جانتا ہے کہ میں اپنی اولاد کو دے رہا ہوں؟
جواب: صدقات و خیرات کا اصل مستحق فقراء
اور مساکین ہیں لہذا صدقات و خیرات محتاج، یتیم، بیوہ، غریب، نادار، مسکین، فقیر
اور ضرورت مند کو دینا چاہیے۔ اپنی اولاد کو آدمی صدقات کے علاوہ مال دے تاہم یہ
بات علم میں رہے کہ صدقہ اولاد کو بھی دے سکتے ہیں اور اولاد پر واجبی نفقہ خرچ
کرنے سے بھی صدقہ کا اجر ملتا ہے نیز واجبی زکوۃ اولاد کو نہیں دینا ہے۔
سوال: ایک خاتون کا سوال ہے
کہ اس کی خالہ نے نیا گھر بنایاہے، اس خوشی میں سارے خاندان والوں کو کھانے کی
دعوت دی ہے، کیا وہ ان کے گھر تحفہ لے کر جاسکتی ہے؟
جواب: اگر اللہ تعالی نے کسی کو گھر کی
نعمت دی ہے اور اللہ کی توفیق سے کسی نے گھر بنایا ہے تو وہ خوشی میں لوگوں کو
دعوت کھلا سکتا ہے اس میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے، اہل علم نے اس کے جواز کا فتوی
دیا ہے۔جہاں تک تحفہ کا مسئلہ ہے تو کسی بھی وقت ایک دوسرے مسلمان کو تحفہ دیا جا
سکتا ہے، تحفہ لینا اور دینا مسنون ہے اس وجہ سے آپ تقریب کے موقع پر کسی کے گھر
جائیں یا یونہی ملنے کے لئے جائیں، تحفہ لے کر اس کے گھر جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال: کیا صدقہ بغیر پوچھے
دے سکتے ہیں یا اگلے انسان سے پوچھ لیں کہ وہ صدقہ لیتا ہے یا نہیں؟
جواب: صدقہ دینے کے لئے پوچھنا اور بتانا
ضروری نہیں ہے بلکہ صدقہ دینے والے کو خود ہی اس بات کا خیال کرنا ہے کہ وہ جسے
صدقہ دے رہا ہے کیا وہ محتاج و مسکین ہے۔ اگر محتاج و مسکین ہے تو اسے صدقہ دے
سکتا ہے۔ہاں اگر لینے والا سوال کرے کہ یہ کون سا مال ہے تو دینے والے کو بتانا
چاہیے کہ یہ صدقہ کا مال ہے۔
سوال: جب ہم قرآن کی تلاوت
کرتے ہیں یا قرآن پڑھاتے ہیں تو اس کے آخر میں صدق اللہ العظیم یا سبحانک اللھم
وبحمدک اشھد۔۔۔والی دعا پڑھنا چاہیئے؟
جواب:قرآن کی تلاوت کے وقت آخر میں صدق
اللہ العظیم کہنا کسی بھی دلیل سے ثابت نہیں ہے، نبی ﷺ پر قرآن نازل ہوا مگر آپ نے
قرآن کی تلاوت کے آخر میں کبھی یہ جملہ نہیں کہا اور نہ ہی آپ نے صحابہ کو اس کی
تعلیم دی ہے اور نہ کسی صحابی سے یہ کہنا ثابت ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے صحیح
بخاری کی ایک دلیل کافی ہے۔ محمد ﷺ جن پر قرآن نازل ہوا، وہ ایک صحابی سے قرآن کی
تلاوت کرنے کا حکم دیتے ہیں مگر وہ صحابی تلاوت کے آخر میں صدق اللہ العظیم نہیں
کہتے ہیں اور نہ ہی آپ نے صحابی سے کہا کہ آخر میں صدق اللہ العظیم کہو، حدیث
دیکھیں۔عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:
قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اقْرَأْ عَلَيَّ، قُلْتُ: أَأَقْرَأُ عَلَيْكَ وَعَلَيْكَ
أُنْزِلَ، قَالَ: فَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْ غَيْرِي، فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ
سُورَةَ النِّسَاءِ حَتَّى بَلَغْتُ فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ
بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاءِ شَهِيدًا سورة النساء آية 41، قَالَ:
أَمْسِكْ، فَإِذَا عَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ(صحیح البخاری:4582)
ترجمہ:مجھ
سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ۔ میں نے عرض
کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میں پڑھ کے سناؤں؟ وہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر
ہی نازل ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں دوسرے سے سننا چاہتا
ہوں۔ چنانچہ میں نے آپ کو سورۃ نساء سنانی شروع کی، جب میں «فكيف إذا جئنا من كل
أمة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيدا» پر پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا کہ ٹھہر جاؤ۔ میں نے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہہ
رہے تھے۔
اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ صحابی نے تلاوت
کے وقت رکنے پر صدق اللہ العظیم نہیں کہا اور نہ آپ ﷺ نے انہیں ایسا کہنے کا حکم
دیا اس لئے قرآن کی تلاوت کے آخر میں صدق اللہ العظیم نہیں کہا جائے گا۔
جہاں تک بات "سبحانك اللهم وبحمدك
اشهد ان لا إله إلا انت استغفرك واتوب إليك" کی ہے تو یہ کفارہ مجلس کی دعا
ہے، جب ہم کہیں پر مجلس میں بیٹھے ہوں ، وہاں سے اٹھتے وقت یہ ذکر کرنا چاہئے۔(
حدیث دیکھیں: ابوداؤد:4859)
سوال:کیا حجامہ کرنے والے کی
اور حجام کی کمائی جائز نہیں ہے؟
جواب: نسائی ،ابن ماجہ اور مسند احمد وغیرہ
کی صحیح حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے حجامہ کی اجرت لینے سے منع کیا ہے مگر
صحیحین میں سینگی لگانے پر رسول اللہ ﷺ نے خود اجرت دی ہے اس کا ذکر ہے ۔ دونوں
قسم کی احادیث موجود ہیں ،ان دونوں کی روشنی میں یہ کہا جائے گا کہ سینگی پراجرت
لینا کراہت کے ساتھ جائز و حلال ہے اس وجہ سے حجامہ پہ اجرت لی جاسکتی ہے اور حجام
کی اجرت حلال ہے۔
سوال:جسم کے مختلف حصوں پہ
نیل کے نشان پڑنا یا ہاتھ و پیر سے بہت زیادہ پسینے کا آنا جادو کی علامت ہے؟
جواب:قرآن اور حدیث میں ایسی کوئی بات نہیں
ہے کہ جسم پر نیل کا نشان ہو یا پیروں سے زیادہ پسینہ آئے تو یہ جادو کی علامت ہے۔
انسان کو کسی بھی قسم کا مرض لاحق ہو سکتا
ہے اور کوئی بھی دقت اور پریشانی اسے لاحق ہوسکتی ہے اس کی کوئی انتہاء اور کوئی
حد نہیں ہے۔
ایسی صورت میں ایک آدمی کو ڈاکٹر کے پاس
جانا چاہیے اور اس سے اپنا علاج کرانا چاہیے۔ اس قسم کی اپنی پریشانی لےکر کبھی
بھی کسی عامل یا پیشہ ور راقی کے پاس نہیں جانا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
ہمیں بتایا ہے کہ اللہ نے ہر ایک بیماری کی دوا نازل کی ہے اس لئے ہمیں دنیاوی
اسباب کے ذریعہ جسمانی پریشانی دور کرنی چاہیے۔
سوال:کیا ہمیں مردہ خواب میں
مل سکتے ہیں؟
جواب:خواب میں کسی کو اتفاقی طور پر مردہ
نظر آسکتا ہے مگر شریعت میں کوئی ایسا طریقہ نہیں ہے کہ کوئی از خود مردہ دیکھنے
کے لئے کوشش کرے اور اس کی چاہت سے وہ مردہ خواب میں نظر آنے لگے۔
کچھ لوگ مردہ نظر آنے کے لئے مخصوص وظیفہ
کرتے ہیں، یہ غلط طریقہ ہے ایسا نہیں کیا جائے گا۔ صوفی طبقہ میں خواب میں نبی ﷺ
کی زیارت کے لئے مخصوص طریقہ پر درود پڑھا جاتا ہے، یہ دین میں نئی ایجاد بدعت ہے
ایسا کرنے سے فائدہ نہیں بلکہ گناہ ملے گا کیونکہ بدعت گناہ کا کام ہے۔
سوال: زکوۃ یا صدقہ جس کو
دیا جائے کیا اس کو بتانا ضروری ہے اور زکوۃ کن کو نہیں دی جاسکتی ہے؟
جواب:صدقہ یا زکوۃ دینے کے لئے کسی کو
بتانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ شریعت نے ہمیں بتانے کا حکم نہیں دیا ہے بلکہ صدقہ
اور زکوۃ دینے کا حکم دیا ہے۔ اور پھر شریعت نے واضح طور پر یہ بھی بتا دیا ہے کہ
زکوۃ کس کو دیں گے اس لئے سوال یہ نہیں ہونا چاہیے کہ زکوۃ کس کو نہیں دینا ہے
بلکہ سوال یہ ہونا چاہیے کہ زکوۃ کس کو دینا ہے، آپ کا سوال ہی الٹا ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن میں ذکر کیا کہ زکوۃ
آٹھ لوگوں کو دینا چاہیے ، دو آٹھ لوگ مندرجہ ذیل ہیں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ
وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي
الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاِبْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً
مِنْ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ۔(التوبہ:60)
ترجمہ: صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے
لیے اور [زکاۃ جمع کرنے والے]عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت
ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے
راستے میں اور مسافر پر (خرچ کرنے کے لیے ہیں)،یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور
اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔
انہی آٹھ قسم کے لوگوں کو زکوۃ دی جائے گی،
ان کے علاوہ اور کسی کو زکوۃ نہیں دی جائے گی اور اگر اہل بیت میں سے کوئی ان میں
سے کسی زمرہ سے تعلق رکھتا ہو تو اسے زکوۃ نہیں دی جائے گی کیونکہ اہل بیت کے لئے
زکوۃ جائز نہیں ہے۔
سوال: کیا "لا بأس
طَهُور إن شاء الله" کہنے سے صغیرہ اور کبیرہ سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور
کیا اس میں حقوق العباد بھی شامل ہو جاتے ہیں؟
جواب:اصل میں یہ ایک دعا ہے جو عیادت کرنے
والا مریض سے کہتا ہے اور اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اللہ تمہیں مرض سے ٹھیک کر دے گا
تاہم دوسرے دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ بیماری سے گناہ بھی جھڑتے ہیں اور درجات بھی
بلند ہوتے ہیں۔ اور یہاں پر بھی طہور میں گناہوں سے پاکی داخل ہے۔اس میں صرف صغیرہ
گناہ داخل ہے، کبیرہ گناہوں کے لئے توبہ کرنا لازم ہے اور حقوق العباد بھی اس میں
داخل نہیں ہے بلکہ حقوق العباد تو کوئی بھی نیکی کرنے سے معاف نہیں ہوتا حتی کہ حج
کرنے سے بھی نہیں۔ یہ بندوں کے حقوق ہیں بندوں کے ذریعہ ہی معاف ہوتے ہیں۔
سوال:کیا کسی شیعہ کو عمرہ
پر جانے کے لئے اس کو رقم دی جاسکتی ہے؟
جواب:کسی شیعہ کو عمرہ کرنے کے لئے پیسہ
نہیں دینا چاہیے، نہ ہی کسی شیعہ کو پیسہ دے کر عمرہ کروانا چاہیے کیونکہ ان لوگوں
کا ایمان و عقیدہ درست نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے کسی کو پیسہ دیا ہے تو وہ ضرورت مند
مسلمانوں کی مدد کرے جن کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
سوال: عورت کے لئے اس کے
شوہر کی پہلی بیوی کی بیٹی کے شوہر (یعنی
سوتیلے داماد) سے پردہ ہے؟
جواب:دوسری بیوی کے لئے اپنے شوہر کی پہلی
بیوی کی بیٹی کے شوہر سے پردہ ہے کیونکہ وہ اس کے لئے نامحرم ہے۔
سوال: ایک بہن کا سوال ہے کہ
ان کے شوہر کی وفات 22/ اگست 2024 مطابق 18/صفر کو ہوئی تو اس کی عدت کب ختم ہو
گی؟
جواب:بیوہ کے لئے عدت وفات چار ماہ دس دن
ہیں اور ایام جوڑ کر 130 دن بنتے ہیں۔22/اگست2024 کو وفات ہے تو عدت کا آخری دن
29/دسمبر 2024 ہوگا۔
سوال: نبی ﷺ مسجد میں فرض
نمازیں جماعت سے جہری اور سری طور پر ادا کیا کرتے تھے تو کیا عورتیں گھر میں نماز
ادا کرتے ہوئے بھی فجر، مغرب اور عشاء کی نماز پڑھتے ہوئے بلند آواز سے پڑھے گی یا
کوئی اکیلا پڑھے تو وہ بھی بلند آواز سے ان نمازوں کو پڑھے گا، اس بات کو دلیل سے
واضح کریں؟
جواب:جی ہاں، عورت کو بھی گھر میں اکیلے نماز پڑھتے ہوئے فجر، مغرب اور عشاء کو جہرا یعنی بلند آواز سے پڑھنا ہے اور ظہر و عصر کی نماز سرا یعنی آہستہ پڑھنا ہے حتی کہ کوئی مرد بھی اکیلے فرض نماز ادا کرے تو جہری کو جہرا اور سری کو سرا پڑھے گا۔
اس بات کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا "تم اسی طرح نماز پڑھو جیسے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے
ہو"۔ اس حدیث کی روشنی میں ہم مکمل نماز اسی طرح ادا کریں گے جیسے نبی صلی
اللہ علیہ وسلم نے ادا فرمایا ہے اور ایسا نہیں ہے کہ مسجد میں نماز کا طریقہ الگ
ہے اور گھر میں نماز کا طریقہ الگ ہے یا جماعت سے نماز کا طریقہ الگ ہے اور اکیلے
نماز پڑھنے کا طریقہ الگ ہے۔
سوال: اکثر اوقات دیکھنے میں
آتا ہے کہ کسی شخص کا غائبانہ تذکرہ کیا جاتا ہے وہ شخص اچانک آجائے تو ایک جملہ
کہاجاتا ہے کہ "بہت لمبی عمر ہے تمہاری" ایسا کہنا درست ہے؟
جواب: کسی کے تذکرہ کرنے پر اگر وہ شخص وہاں
آجائے تو یہ کہنا کہ "بہت لمبی عمر ہے تمہاری" درست و مناسب نہیں ہے
کیونکہ زندگی کسی کے ہاتھ میں نہیں ہے، زندگی کا مالک تو اللہ ہے پھر کسی کو مستقل
کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں سوائے اللہ کے تو کوئی کیسے یہ کہہ سکتا ہے کہ
تمہاری عمر لمبی ہوگی یا بہت لمبی عمر ہے تمہاری۔
ہاں کسی کے لئے لمبی عمر کی دعا کرسکتے ہیں
اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور جب کسی کو لمبی عمر کی دعا دیں گے تو اس طرح دیں گے
کہ اللہ تعالی آپ کو نیک کام کرنے کے لئے لمبی عمر دے، صرف لمبی عمر کی دعا نہ دیں
بلکہ نیک کام کے ساتھ لمبی عمر کی دعا دیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی کی عمر لمبی
ہو اور وہ برا کام کرے تو اس کی لمبی عمر اس کے لئے وبال جان ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ کسی کا ذکر ہو رہا ہو اور وہی شخص وہاں پر دوران گفتگو آجائے تو اس کے لئے یہ کہناکہ تمہاری عمر لمبی ہوگی یا تمہاری زندگی لمبی ہے، صحیح بات نہیں ہے اس لئے ہمیں یہ بات نہیں کہنی چاہیے۔
سوال:ایک بہن کا سوال ہے کہ
اگر کسی بچے کی وفات ہوجائےتو کیا ماں اسکی تصویر بنوا کر اپنے پاس رکھ سکتی ہے،
اس بارے میں ہمیں اسلام کیا سکھاتا ہے؟
جواب:تصویر بچے کی ہو یا بڑے کی اور تصویر
میت کی ہو یا زندہ کی ، ہرقسم کی ذی روح تصویر اسلام میں حرام ہے ۔ اس بارے میں
مختلف قسم کی شدید وعیدیں آئی ہیں جن کے بارے میں پڑھ کر روح کانپ جاتی ہے جیسے
نبی ﷺ نے فرمایا:
مَنْ صَوَّرَ صُورَةً فِي الدُّنْيَا
كُلِّفَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنْ يَنْفُخَ فِيهَا الرُّوحَ وَلَيْسَ
بِنَافِخٍ(صحیح البخاری:5963)
ترجمہ: جو شخص دنیا میں مورت بنائے گا
قیامت کے دن اس پر زور ڈالا جائے گا کہ اسے وہ زندہ بھی کرے حالانکہ وہ اسے زندہ
نہیں کر سکتا۔
اسی طرح ایک دوسری جگہ نبی ﷺ کا فرمان ہے:
كُلُّ مُصَوِّرٍ فِي النَّارِ يَجْعَلُ
لَهُ بِكُلِّ صُورَةٍ صَوَّرَهَا نَفْسًا فَتُعَذِّبُهُ فِي جَهَنَّمَ(صحيح
مسلم:2110)
ترجمہ: ہر تصویر بنانے والا جہنم میں ہو گا
اور اس کی بنائی ہوئی تصویر کے بدلے میں اللہ تعالیٰ ایک جاندار بنائے گا وہ اسے
جہنم میں عذاب دے گا۔
اس بارے میں اور بھی بہت ساری احادیث ہیں
مگر نصیحت کے لئے یہی دو حدیث کافی ہیں، کیا اس قسم کی وعید ہونے کے باوجود کوئی
مسلمان اپنے پاس جاندار کی تصویر محفوظ کرکے رکھے گا۔ نہیں ہرگز نہیں۔اس لئے اس
خاتون کو چاہئے کہ وفات پانے والے بچے کی جو تصویر اس کے پاس ہے اسے ضائع کردے اور
اس کو کسی قسم کے فریم یا البم میں نہ سجائے۔
سوال: یہ واقعہ یوٹیوب پر
بھی دیکھی تھی اور ایک دو دفعہ اس طرح کی پوسٹ بھی میری نظر سے گزری ہے۔ کیا یہ
واقعہ ٹھیک ہے۔ اس طرح کے واقعات کی ویڈیوز بناکر شیئر کر سکتی ہوں؟
(مکھی کی وجہ سے ایک آدمی جہنم میں چلا
گیا) رسول اللهﷺ نے فرمایا ایک آدمی صرف مکھی کی وجہ سے جنت میں چلا گیا اور دوسرا
جہنم میں۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! وہ کیسے ؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: دو
آدمی ایک قبیلے کے پاس سے گزرے، اس قبیلے کا ایک بت تھا جس پر چڑھاوا چڑھائے بغیر
کوئی آدمی وہاں سے نہیں گزر سکتا تھا چنانچہ ان میں سے ایک شخص سے کہا گیا کہ اس
بت پر چڑھاوا چڑھاؤ، اس نے کہا کہ میرے پاس ایسی کوئی چیز نہیں، قبیلے کے لوگوں نے
کہا تمہیں چڑھاوا ضرور چڑھانا ہوگا خواہ مکھی ہی پکڑ کر چڑھاؤ۔ مسافر نے مکھی پکڑی
اور بت کی نذر کر دی ۔ لوگوں نے اسے جانے دیا چنانچہ وہ اس چڑھاوے کی وجہ سے جہنم
میں چلا گیا۔ قبیلے کے لوگوں نے دوسرے آدمی سے کہا تم بھی کوئی چیز بت کی نذر کرو
اس نے کہا ... میں اللہ تعالیٰ عزوجل کے علاوہ کسی دوسرے کے نام کا چڑھاوا نہیں
چڑھاؤں گا لوگوں نے اسے قتل کر دیا اور وہ
جنت میں چلا گیا ۔ (ابن ابی شیبة ، شعب الايمان للبيهقي : 7093)
جواب:مرفوع ہونے کے اعتبار سے یہ روایت
ثابت نہیں ہے یعنی یہ کلام رسول نہیں ہے لیکن موقوفا یعنی کلام صحابی ہونے کے اعتبار سے صحیح ہے۔ شیخ البانی نے کہا
ہے کہ یہ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ پر موقوفا صحیح ہے۔(سلسلة الأحاديث
الضعيفة:12/722)
جہاں تک ویڈیو بنانے کی بات ہے تو آپ ایک
خاتون ہیں اس لئے ویڈیو نہ بنایا کریں، دعوت و تبلیغ کے لئے مرد علماء کی تعداد
بہت ہے، عورتوں کو ویڈیو نہیں بنانا چاہئے۔
سوال:مسلمان لڑکے کا نام
ایہان، میکائیل یا زید رکھ سکتے ہیں؟
جواب:ایھان عربی زبان کا لفظ ہے اس کا معنی
کمزور کرنے کے ہیں، یہ نام نہیں رکھنا چاہئے کیونکہ معنی درست نہیں ہے ۔ میکائیل
فرشتے کا نام ہے۔ بعض لوگ فرشتوں کے نام پر نام رکھنے سے منع کرتے ہیں مگر اس بارے
میں صحیح یہ ہے کہ فرشتوں کے نام رکھے جاسکتے ہیں اور زید بھی نام رکھ سکتے ہیں۔
سوال: کوئی عورت جائے نماز
پر اپنا نام لکھوا سکتی ہے، اس میں گناہ تونہیں ہوگا؟
جواب:جائے نماز پر اپنا نام لکھنا صحیح
نہیں ہے بلکہ جائے نماز پر کچھ بھی لکھا ہوا نہیں ہونا چاہئے ۔ بیل بوٹے اور نقش
ونگار والے جائے نماز سے بچنا ہے کیونکہ یہ نماز میں دھیان بھٹکانے کا سبب ہے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک رنگین باریک پردہ تھا جسے انہوں نے اپنے گھر کے
ایک طرف پردہ کے لیے لٹکا دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے سامنے
سے اپنا یہ پردہ ہٹا دو کیونکہ اس پر نقش شدہ تصاویر برابر میری نماز میں خلل
انداز ہوتی رہی ہیں۔(صحیح البخاری:374)
جب نمازی کے سامنے نقش و نگار نہیں ہونا
چاہئے تو لکھا ہوا یا نقش والا مصلی بدرجہ اولی نہیں ہونا چاہئے۔ مصلی بالکل سادہ ہونا چاہئے۔
سوال:جب پوری دنیا کا خالق
ومالک ایک ہی ہے تو اس کے متعدد نام کیوں ہیں؟
جواب:اللہ ایک ہے اور اس کے نام متعدد ہیں
تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ آخری پیغمبرحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی
ایک ہیں اور آپ کے اسماء کئی ایک ہیں۔ خود
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا جو صحیح بخاری کی حدیث ہے۔ میرے پانچ نام
ہیں۔ میں محمد ،احمد، ماحی، حاشر اور عاقب ہوں۔(بخاری:3532)
ویسے اللہ رب العالمین کے لیے ذاتی نام ایک
ہی ہے اور وہ اللہ ہے۔ باقی جو بھی اسماء ہیں وہ سب صفاتی ہیں۔
سوال: وضو کرنے کے بیس منٹ
بعد ظہر کی نماز ادا کی پھر موزہ پہن لیا وضو کی حالت میں ، اب جب ہم عصر کی نماز
کے لئے وضو کریں گے تب اس پر مسح کرسکتے ہیں یا پھر وضو کے فورا بعد موزہ پہننے
پرہی مسح کیا جائے گا ؟
جواب:جب وضو کرکے اس وضو سے نماز پڑھی گئی اور نماز کے بعد وضو باقی ہی تھا کہ موزہ لگایا گیا تو دوسرے وقت میں اس پر مسح کرسکتے ہیں کیونکہ وضو کی حالت میں موزہ لگایا گیا ہے۔ کوئی ضروری نہیں ہے کہ وضو کے فورا بعد موزہ لگایا جائے تب ہی اس پر مسح کرسکتے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ موزہ حالت وضو میں لگایا گیا ہو تو اس پر مسح کرسکتے ہیں۔

0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔