﷽
آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(33)
جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ - سعودی عرب
سوال: سکولز وغیرہ میں پچوں
اور بڑوں کو جو magic show دکھائے جاتے ہیں،کیا وہ ٹھیک ہیں؟
جواب: میجک شو جسے ہاتھ کا کرشمہ بھی کہا جاتا ہے اس
طرح کا عمل کسی مسلمان کے لئے سیکھنا اور اس کا دیکھنا ناجائز و حرام ہے کیونکہ اس
کی نسبت جادو سے ہے اور جادو اسلام میں شیطانی اور کفریہ عمل ہے۔ گوکہ یہ حقیقی
جادو نہیں ہوتا فقط تخیلاتی ہوتا ہے اس کے باوجود بھی اس میجک شو کا دیکھنا کسی
مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کیونکہ یہ حقیقت نہیں ہے بلکہ فریب، جھوٹ اور دغا ہے
بلکہ یہ شیطانی عمل ہے۔ اس کے دیکھنے کا مطلب شیطانی عمل کی تائید کرنا ہے۔
شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ"
سحر تمثیلی دیکھنے کا کیا حکم ہے تو آپ نے جواب دیا کہ سحر خواہ حقیقی ہو یا
تمثیلی اور تصوراتی ہو اس کا دیکھنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ باطل ہے اور انسان کے
لئے باطل چیزوں کا مشاہدہ کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی باطل کو دیکھتا ہے گویا کہ
وہ اس کا اقرار کرتا ہے۔ ہاں اگر کوئی اس لئے دیکھے تاکہ اس منکر پر نکیر کر سکے
اور اس عمل کو مٹا سکے تو ایسی صورت میں حرج نہیں ہے لیکن اگر خاموش تماشائی بن کر
اس کا مشاہدہ کرے تو یہ حرام ہے کیونکہ یہ باطل کھیل ہے"۔
اس لئے آپ کے اوپر ضروری ہے کہ اسکول اور کالج یا کہیں
پر دکھائے جانے والے میجک شو سے اپنے بچوں کو دور رکھیں۔
سوال:ام ابیہا اس طرح ملاکر نام رکھنا
کیسا ہے یعنی ام ساتھ لگا نام رکھ سکتے ہیں؟
جواب:ام ابیہا فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی کنیت تھی ،
یہ نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ام کے ساتھ ام ابیہا نام رکھنا درست ہے۔
سوال: کیااس قسم کی کوئی حدیث ہے کہ نبی
صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے تو آپ کی قمیض مبارک پر بلی آکر بیٹھ گئی اور وہ آپ
کے قمیض مبارک پر سو گئی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ بلی ابھی تک سوئی
ہوئی ہے اور نبی کو اٹھنا تھا تو آپ اپنے قمیض کو قینچی سے کاٹ کر اٹھ گئے تاکہ
بلی کی نیند نہ خراب ہو ؟
جواب: صوفی بدعتی لوگ اس طرح کا ایک قصہ بیان کرتے ہیں
کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوئے تھے، جب آپ نیند سے بیدار ہوتے ہیں تو
اپنی چادر کے ایک کنارے پر بلی سویا ہوا پاتے ہیں جو گہری نیند میں سو رہی تھی۔ آپ
نے اس بلی کو لذیذ نام سے محروم کرنا مناسب نہیں سمجھا اس لئے آپ بیٹھے ایک مدت تک
انتظار کرتے رہے تاکہ خود سے بیدار ہو جائے۔ جب بلی کو خبر ہوئی تو کھڑی ہو گئی
اور چل پڑی، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کام کی طرف روانہ ہوئے۔اس قصے
میں بعض لوگ یہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر کے کنارے کو
کاٹ دیا پھر آپ اٹھے۔اسی قسم کا قصہ بعض لوگ ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے
میں بھی بیان کرتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ یہ جھوٹی بات ہے اس کا سچائی سے کوئی تعلق
نہیں ہے اس لئے کوئی مسلمان نبی کی طرف نسبت کرکے اس طرح کی جھوٹی بات نہ بیان
کرے۔
سوال: بخاری ومسلم کی احادیث کے علاوہ
دیگر کتب کی بہت ساری احادیث میں علماء الگ الگ حکم بیان کرتے ہیں ، کوئی صحیح
کہتے ہیں اور کوئی ضعیف کہتے ہیں ، ہم عام آدمی کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے کیسے
سمجھیں۔ مثال کے طور پر صلوۃ التسبیح کو بعض علماء ضعیف حدیث کہتےہیں جبکہ الدعاء
المقبول (اسلامی وظائف) میں شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالسلام بستوی رحمۃ اللہ علیہ
لکھتے ہیں کہ امام مسلم ،ابو داؤد ،دارقطنی اور حافظ ابن حجر رحمہم اللہ نے اسے
صحیح حدیث قرار دیا ہے ؟
جواب: الحمدللہ احادیث کی صحت اور ضعف کا معاملہ بہت
واضح ہے، اس میں عام اور خاص کسی کے لئے تردد نہیں ہے کیونکہ محدثین نے احادیث کی
چھان پھٹک کے بعد حدیث کے صحیح اور ضعیف ہونے کوبالکل واضح کر دیا ہے۔محض چند
احادیث کے بارے میں آپ کو دونوں قسم کے نظرئے ملیں گے اور اس میں بھی حدیث کی
تحقیق کے دونوں قسم کے نظرئے پر غور کریں تو ایک پہلو ضرور غالب نظر آئے گا۔
صلاۃ التسبیح سے متعلق اہل علم کے مختلف آراء ملتے ہیں اس سلسلے میں شیخ ابن عثیمین ؒ کا قول درج کرنامناسب ہوگا۔آپ فرماتے ہیں کہ "لوگوں نے نماز تسبیح والی حدیث کی صحت اور اس پر عمل کرنے کے متعلق اختلاف کیا ہے ۔ ان میں سے بعض نے اسے صحیح کہاہے ، بعض نے حسن قرار دیا ہے، بعض نے ضعیف کہا ہے اور بعض نے اس حدیث کو موضوعات میں شمار کیا ہے ۔ ابن الجوزی نے تسبیح والی نماز کی احادیث اور ان کے طرق کو جمع کیا ہے اور تمام کی تمام کو ضعیف قرار دیا ہے اور انہیں اپنی کتاب "الموضوعات" میں ذکر کیا ہے "۔
گویا صلاۃ التسبیح کا مسئلہ ایسا ہے کہ اس میں بعض اہل
علم بھی تذبذب کے شکار ہوگئے جبکہ اس نماز کا ضعیف ہونا ہی راحج معلوم ہوتا ہے۔
اور جہاں تک صحیحین کے علاوہ دیگر کتب حدیث کے حکم جاننے کا معاملہ ہے تو اس کے
لئے میں عام لوگوں کو مشورہ دوں گا کہ صحیحین کے علاوہ کوئی دوسری حدیث ہو تو اس
کے بارے میں شیخ البانی رحمہ اللہ کا حکم معلوم کر لیں، اگر وہ صحیح کہتے ہیں تو
اس پر عمل کریں اور اگر اس کو ضعیف کہتے ہیں تو اس کو چھوڑ دیں۔ شیخ البانی رحمہ
اللہ بعد کے محدثین میں سے ہیں اور الحمدللہ ان کی تحقیق اطمینان بخش ہے۔
سوال: روزے کی حالت میں کھانے میں سے نمک
اور مرچ چیک کر سکتے ہیں یعنی ہلکا سا ٹیسٹ کرسکتے ہیں؟
جواب: روزہ کھانے پینے اور کھانے پینے کے قبیل سے جتنی
چیزیں ہوں ان تمام چیزوں سے رک جانے کا نام ہے اس لئے روزہ کی حالت میں کوئی آدمی
خواہ مرد ہو یا عورت کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں چکھے۔ ظاہر سی بات ہے کھانے پینے
کی چیز کوئی روزہ دار بلا ضرورت اپنی منہ میں کیوں رکھے گااور روزہ کی حالت میں کوئی کچھ کھا تو سکتا نہیں،
زیادہ سے زیادہ زبان پر رکھ کر نمک و مرچ ہونے یا نہ ہونے یا کم اور زیادہ ہونے کا
اندازہ لگا سکتا ہے جبکہ کھانا بنانے والی عورتوں کو کھانے میں نمک ڈالنے کی مقدار
معلوم رہتی ہے اس لئے اسے چکھنے اور ٹیسٹ کرنے کی حقیقت میں ضرورت نہیں رہتی ہے۔
اس وجہ سے اگر مسئلہ پر غور کیا جائے تو کھانا ٹیسٹ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی
ہے۔
اس کے باوجود اگر کسی عورت یا مرد کو سبزی زبان پررکھ
کر ٹیسٹ کرنے کی ضرورت پڑجائے تومجبوری میں سالن ٹیسٹ کیا جاسکتا ہے ، زبان پر رکھ
کر پھر باہر پھینک دیا جائے، اسے حلق کے نیچے نہ اترنے دیا جائےاور پھر کلی کرکے
منہ صاف کرلے۔
سوال:اگر عصر کی صرف ایک ہی رکعت ملے اور
مغرب کا وقت شروع ہو جائے تو عصر کی نماز ہو جائے گی۔ سورج غروب ہو رہا ہو سرخی
باقی ہو تواس وقت عصر کی نماز ہو جائے گی؟
جواب: اگر کسی کی کوئی نماز چھوٹی ہوئی ہو تو جس وقت
فرصت ملے فورا اسے اپنی نماز ادا کر لینی ہے اور اسے قطعا یہ نہیں دیکھنا ہے کہ
سورج نکل رہا ہے یا ڈوب رہا ہے۔ اور نماز صحیح ہونے میں کسی طرح کا کوئی شک نہیں
ہے، جس وقت بھی آپ فریضہ ادا کریں آپ کی نماز درست و صحیح ہے۔
اور یہاں پر ایک دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالے تو اس کی نماز ادا کہلائے گی، قضا نماز نہیں کہلائے گی۔ باقی نماز ہونے میں کوئی شک ہی نہیں ہے، نماز اپنی جگہ درست ہے حتی کہ کسی کی عصر چھوٹی ہو اور سورج ڈوب رہا ہو تو اس وقت بھی وہ اپنی نماز ادا کرے گا کیونکہ فریضہ کی ادائیگی کے لئے کوئی وقت منع نہیں ہے۔
سوال: سکول و کالج والےبچیوں کا ٹرپ لے
کر ایک شہر سے دوسرے شہرجاتےہیں، بچیوں کے ساتھ ٹیچرز ہوتی ہیں، کوئی محرم ساتھ
نہیں ہوتا تو کیا اس طرح جوان بچیوں کو اکیلے بھیجنا صحیح ہےجبکہ کوئی ٹرپ صبح
جاکر رات کو واپس آجاتا اور کوئی دو دن بعد بھی واپس لوٹتا ہے۔ میں اوکاڑہ سے ہوں،
میری بیٹی کے کالج والے ٹرپ لے کے مری اسلام آباد جارہے ہیں؟
جواب: اوکاڑہ سے اسلام آباد کی دوری 400 کلومیٹر سے بھی
زیادہ نظر آتی ہے اور یہ سفر کہلائے گا۔ اس وجہ سے کسی بچی کو بغیر محرم کے اوکاڑہ
سے اسلام آباد جانا شرعا جائز نہیں ہے۔اس سفر کے لئے ضروری ہے کہ ہر بچی کے ساتھ
اس کا محرم ساتھ میں موجود ہو ورنہ اس طرح کا ٹرپ کالج والے کے لئے کرانا جائز
نہیں ہے، نہ ہی کسی ذمہ دار کو اپنی بچی اس طرح بغیر محرم کے لمبے سفر پر بھیجنا
چاہیے چاہے ٹرپ شام میں واپس آجائے یا ایک دو دن بعد واپس آئے ، اصل میں بغیر
محرم، سفر پہ جانا ہی جائز نہیں ہے۔
سوال: حدیث میں کہا گیا ہے کہ جنت میں
بغیر حساب کے داخل ہونے والوں کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ دم نہیں کرتے اور نہ دم
کرواتے ہیں تو کیا پھر دم کرنا اور کروانا گناہ ہے؟
جواب: دم کرنا اور کروانا جائز ہے اس میں کوئی گناہ
نہیں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دم کیا ہے بلکہ آپ روزانہ سوتے وقت
دم کر کے سوتے تھے اور اپنی امت کو بھی دم کرنے کا حکم دیا ہے اس لیے دم کرنا کوئی
گناہ کا کام نہیں ہے۔یہاں پر اس حدیث میں اصل میں خالص توحید کو بیان کیا گیا ہے
اور کسی دوسرے سے دم کروانا کمال توحید کے منافی ہے تاہم خود سے اپنے اوپر دم کرنا
یہ کمال توحید کے منافی نہیں ہے۔اس بات کی
جانکاری کے ساتھ کہ دوسروں سے دم کروانا بھی جائز ہے تاہم بہتر ہے کہ دوسروں سے دم نہ کروائے، ازخود
دم کرے۔
سوال: حضرت سلیمان علیہ السلام نہر کے
کنارے بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کی نگاہ ایک چیونٹی پر پڑی جو گیہوں کا ایک دانہ لے کر
شہر کی طرف جارہی تھی ، حضرت سلیمان علیہ السلام اس کو بہت غور سے دیکھنے لگے ، جب
چیونٹی پانی کے قریب پہنچی تو اچانک ایک مینڈک نے اپنا سر پانی سے نکالا اور اپنا
منہ کھولا تو یہ چیونٹی اپنے دانہ کے ساتھ اس کے منہ میں چلی گئی، میڈک پانی میں
داخل ہو گیا اور پانی ہی میں بہت دیر تک رہا ، سلیمان علیہ السلام اس کو بہت غور
سے دیکھتے رہے ، ذرا ہی دیر میں مینڈک پانی سے نکلا اور اپنا منہ کھولا تو چیونٹی
باہر نکلی البتہ اس کے ساتھ دانہ نہ تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کو بلا کر
معلوم کیا کہ ”ماجرہ کیا تھا اور وہ کہاں گئی تھی“ اس نے بتایا کہ اے اللہ کے نبی
آپ جو نہر کی تہہ میں ایک بڑا کھو کھلا پتھر دیکھ رہے ہیں ، اس کے اندر بہت سے
اندھے کیڑے مکوڑے ؟ ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو وہاں پر پیدا کیا ہے، وہ وہاں سے
روزی تلاش کرنے کے لیے نہیں نکل سکتے اللہ تعالی نے مجھے اس کی روزی کا وکیل بنایا
ہے ، میں اس کی روزی کو اٹھا کر لے جاتی ہوں اور اللہ نے اس مینڈک کو میرے لیے
مسخر کیا ہے تاکہ وہ مجھے لے کر جائے ، اس کے منہ میں ہونے کی وجہ سے پانی مجھے
نقصان نہیں پہنچاتا، وہ اپنا منھ بند پتھر کے سوراخ کے سامنے کھول دیتا ہے ، میں
اس میں داخل ہو جاتی ہوں ، جب میں اس کی روزی اس تک پہنچا کر پتھر کے سوراخ سے اس
کے منہ تک آتی ہوں تو مینڈک مجھے منہ سے باہر نکال دیتا ہے ۔ حضرت سلیمان علیہ
السلام نے کہا: "کیا تو نے ان کیڑوں کی کسی تسبیح کو سنا “ چیونٹی نے بتایا :
ہاں! وہ سب کہتے ہیں :اے وہ ذات جو مجھے اس گہرے پانی کے اندر بھی نہیں بھولتا“ (
قصص الانبياء)کیا یہ واقعہ صحیح ہے؟
جواب:احادیث کی تحقیق کی مشہور ویب سائٹ الدرر السنیۃ
نے اس قسم کی ایک روایت ذکر کرکے اس کے بارے میں حکم لگایا ہے کہ کتب حدیث میں اس
کا قصہ کا وجود ہی نہیں ہے گویا یہ جھوٹی بات اور جھوٹا قصہ ہے ۔ ویب سائٹ پہ عربی
عبارت حکم کے ساتھ اس طرح ہے۔
(ذكروا أنَّ سليمان كان جالسًا على شاطئ بحر، فبصُر بنملة تحمل حبة قمح، تذهب بها نحو البحر، فجعل سليمان ينظر إليها حتى بلغت الماء، فإذا بضِفْدِعة قد أخرجت رأسها من الماء، ففتحت فاها، فدخلت النملة، وغاصت الضِّفدِعة في البحر ساعة طويلة، وسليمان يتفكر في ذلك متعجبًا، ثم أنها خرجت من الماء، وفتحت فاها، وخرجت النملة ولم يكن معها الحَبَّة، فدعاها سليمان عليه السلام، وسألها وشأنها، وأين كانت؟ فقالت: يا نبيَّ الله، إن في قعر البحر الذي تراه صخرةً مجوفة، وفي جوفها دودة عمياء، وقد خلقها الله تعالى هنالك، فلا تقدر أن تخرج منها لطلب معاشها، وقد وكلني الله برزقها، فأنا أحمل رزقها، وسخَّر الله تعالى هذه الضِّفدِعة لتحملني؛ فلا يضرني الماء في فيها، وتضع فاها على ثقب الصخرة وأدخلها، ثم إذا أوصلت رزقها إليها وخرجت من ثقب الصخرة إلى فيها فتخرجني من البحر، فقال سليمان عليه السلام: وهل سمعت لها من تسبيحة؟ قالت: نعم، إنها تقول: يا مَن لا تنساني في جوف هذه الصخرة تحت هذه اللجة برزقك، لا تنسَ عبادك المؤمنين برحمتك)۔
الدرجة: ليس لهذه القصة وجود في كتب السُّنة
سوال: حج وعمرہ کرنے کے بعد گھر لوٹنے پر
دعوت طعام کرنا سنت سے ثابت ہے، کیا نبی ﷺ نے اس طرح کا شکرانہ کا کھانا حج وعمرہ
سے لوٹنے کے بعد کھلایا تھا ۔ کافی لوگ کہتے ہیں کہ یہ دعوت کرنا سنت ہے، کیا ایسی
دعوت میں شرکت کرنی چاہئے اور ہمیں بھی حج وعمرہ کے بعد اس طرح کی دعوت کرنی
چاہئے؟
جواب:سفر سے لوٹنے کے بعد دعوت کرنے کا ثبوت نبی ﷺ سے ملتا ہے اس لئے کوئی آدمی کسی بھی قسم کے سفر سے واپس ہوتو وہ اپنے قریبی رشتہ داروں کی دعوت کرسکتا ہے ۔ حج وعمرہ سے لوٹنا بھی سفر سے لوٹنا ہے اس لئے حج یا عمرہ سے واپسی پر دعوت کی جاسکتی ہے مگر آج کل حج وعمرہ کے نام پر سفر سے پہلے یا سفر سے لوٹنے پر جس قسم کی دعوت اور تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے یہ قطعا رسول اللہ ﷺ کی سنت نہیں ہے۔ اس میں دکھاوا، فخر، شہرت اور فضول خرچی نظر آتی ہے ۔ اس لئے میں حج وعمرہ سے لوٹنے والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ حج ایک عظیم عبادت ہے اس کی ادائیگی کے بعد ایسے اعمال انجام دینے سے بچیں جو عبادت کے خلوص کو کم کرے ۔ اس موقع سے اگر کوئی اپنےچند قریبی رشتہ داروں کی سادگی کے ساتھ دعوت کرے تو اس میں حرج نہیں ہے مگر نگرنگراور پوری بستی کومدعوکرکے شان وشوکت والی دعوت کرے یہ صحیح نہیں ہے اور کسی آدمی کو بھی اس قسم کی دعوت کا حصہ نہیں بننا چاہئے ، وہ ایسی دعوت سے دوری اختیار کرے اور خود بھی ایسی دعوت نہ کرے جس میں دکھاوا ہو۔
سوال: اگر ہم گھر کے کام کاج جیسے صاف
صفائی کریں تو دعا کرسکتے ہیں کہ جیسے ہم صاف صفائی کررہے ہیں ویسے ہی اللہ تعالی
ہمارے نامہ اعمال سے گناہ مٹادے اور کچھ بھی ہم پکارہے ہیں تو اس میں بھی اجر طلب
کرتے ہوئے دعا کریں کہ یہ کھانے سے گھر والوں کو قوت ملے گی تو ہمیں اس کام کا اجر
دے اللہ ؟
جواب:کام کاج کرتے ہوئے ذکر و اذکار اور دعائیں کرنے
میں کوئی حرج نہیں ہے اور دعائیں اپنی ضرورت، مغفرت، قبولیت اور حصول جنت کے لئے
ہو۔جہاں تک دنیاوی کام کاج کا مسئلہ ہے تو اس میں نیکی کی نیت نہیں کریں گے کیونکہ
دین کے معاملات دو قسم کے ہیں۔ ایک عبادت، دوسرے دنیاوی معاملات۔
جب ہم عبادت اور نیکی کا کوئی کام کرتے ہیں تو اس میں
اللہ کی رضا اور سنت کی تابعداری کرتے ہوئے اجر و ثواب کی نیت کرتے ہیں لیکن جب
دنیا کا کوئی کام کاج کرتے ہیں تو اس میں ثواب کی نیت نہیں کریں گے اس لیے جھاڑو
لگاتے ہوئے یا کپڑا دھوتے ہوئے یا کھانا بناتے ہوئے اجر و ثواب کی نیت نہیں کریں
گے یہ دنیاوی کام کاج ہیں۔اس کے باوجود جہاں پر ہم خدمت خلق کرتے ہیں، کسی کو
فائدہ پہنچانے کا کام کرتے ہیں تو اس پر اللہ رب العالمین ہمیں اجر دے گا کیونکہ
لوگوں کو فائدہ پہنچانے کا حکم دیا گیا ہے۔
سوال:ايك فیملی پاکستان سے عمرہ کے لئے آئی۔اسں نے عمرہ کر لیا ، اب وہ طائف جائی گی ، سوال یہ ہے کہ مکہ واپس آئے گی تووہ میقات سے گزرے گی ایسے میں کیا احرام باندھنا لازمی ہو گا؟
جواب:جو آدمی عمرہ کے لئے آیا اور عمرہ کرلیا، اس کا
معاملہ ختم ہوگیا۔ اب اگر وہ طائف جائے تو اسے واپسی پر احرام باندھنا ضروری نہیں
ہے۔ دن و رات لاکھوں لوگ بغیر احرام کے میقات سے اندر داخل ہوتے ہیں، اس میں کوئی
مسئلہ نہیں ہے۔
سوال: ایک برتن میں غلطی سے کسی بچے یا
بڑے نے چھوٹا پیشاب کردیا تو کیا اب اس برتن کو استعمال کیا جاسکتا ہے؟
جواب:اگر کسی نے غلطی سے برتن میں پیشاب کر دیا خواہ وہ
بڑا ہو یا چھوٹا تو پیشاب پھینک کر اور اس برتن کی صفائی ستھرائی کرکے برتن کا
استعمال کر سکتے ہیں اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔برتن ٹھوس چیز سے بنا ہوگا، اسٹیل
یا المونیم، یا پلاسٹک وغیرہ سے اس میں پیشاب جذب نہیں کرتا ہے اس لیے اس کو دھل
کر استعمال کرنے میں حرج نہیں ہے۔
ایک کپڑا جس میں نجاست لگ جائے اور نجاست اس میں جذب ہو
جاتی ہے اس کے باوجود اس کی صفائی کرکے ہم اس کا استعمال کرتے ہیں گویا نجاست کے
ازالہ کے بعد سامان کا استعمال کرنا صحیح ہے۔
سوال: موبائل میں اپنے اور گھر والوں کی
تصویر رکھنا کیسا ہے اور نامحرم کو موبائل اسکرین پر دیکھنا کیسا ہے جیسے کوئی
ویڈیو دیکھتے ہیں تو اس میں تصویر ہوتی ہے؟
جواب: اسلام میں تصویر کا حکم واضح ہے، وہ یہ ہے کہ اگر
جاندار کی تصویر ہے تو اس کا بلا ضرورت رکھنا جائز نہیں ہے خواہ گھر میں رکھیں،
موبائل میں رکھیں، پرس میں رکھیں یا اور کہیں پر رکھیں۔اور عورت کے لئے اجنبی مرد
کا چہرہ دیکھنا جائز ہے اس وجہ سے اگر دعوتی و علمی ویڈیوز دیکھتے ہوئے اس میں
عورت کی نظر اجنبی مرد پہ پڑتی ہے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
سوال: عرفہ کے دن جو حجاج کرام مسجد نمرہ
میں نماز ادا کرتے ہیں وہ دو دو رکعت نماز ادا کرتے ہیں۔ جو لوگ خیمہ میں ہوں گے،
کیا وہ بھی قصر پڑھیں گے یا انہیں پوری نماز پڑھنی ہوگی؟
جواب:حج کے دنوں میں تمام حجاج، تمام نمازیں قصر کے
ساتھ ادا کریں گے خواہ وہ خیمہ میں ادا کریں یا سڑک پہ ادا کریں یا مسجد میں ادا
کریں۔ حج کے دوران منی، عرفات اور مزدلفہ میں حجاج مرد و عورت کو تمام نمازیں قصر
سے پڑھنا ہے خواہ ان کی رہائش کہیں بھی ہو۔ وہ جہاں بھی نماز پڑھیں گے قصر سے
پڑھیں گے اور یوم عرفہ کو حجاج ظہر و عصر کی نمازیں قصر کرتے ہوئے جمع تقدیم سے
ادا کریں گے جبکہ مزدلفہ کی رات قصر کرتے ہوئے مغرب و عشاء جمع تاخیر سے ادا کریں
گے۔
سوال: کسی کے گھر شادی ہے مگر نکاح خواں
حنفی ہیں جو بینک میں نوکری کرنے والوں کی بھی دعوت کھاتے ہیں۔ اس صورتحال میں جس
خاتون کی بیٹی کا نکاح ہے وہ پوچھتی ہیں کہ گھریلو اختلاف سے بچنے کے لئے اس عالم
سے نکاح پڑھائیں یا کسی اہل حدیث عالم کو بلانا ضروری ہے اور کیا مسجد میں نکاح
پڑھانا ضروری ہے اور اسی طرح کیا قاضی خود لڑکی سے قبول کرائے یا نکاح نامہ پر
دستخط کرانا کافی ہوگا؟
جواب:حنفی عالم نکاح پڑھا سکتے ہیں، اس میں کوئی حرج
نہیں ہے اور کوئی ضروری نہیں ہے کہ نکاح کے لئے اہل حدیث عالم کو ہی بلایا جائے
اگر کسی فتنے کا اندیشہ ہو۔اور نکاح مسجد وغیرہ مسجد کہیں پر بھی منعقد کیا جا
سکتا ہے، بعض لوگ مسجد میں نکاح کو سنت سمجھتے ہیں یہ غلط ہے البتہ مسجد میں نکاح
کرنا جائز ہے، سنت سمجھنا غلط ہے۔ جہاں تک نکاح میں لڑکی کا مسئلہ ہے تو اس میں
لڑکی سے نکاح نہیں پڑھایا جاتا ہے بلکہ اس کی رضامندی جو ولی کی جانب سے حاصل ہے،
وہی کافی ہے اور کاغذی کاروائی کے لئے دستخط کرا لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، نکاح
میں دستخط سے زیادہ کوئی عمل لڑکی کے لئے نہیں ہے اس لئے نکاح خواں کو لڑکی کے پاس
جانے اور اس سے قبول کروانے کی قطعا کوئی ضرورت نہیں ہے۔
سوال: کیا پنشن لینا جائز ہے؟
جواب:جس کمپنی یا ادارے میں پنشن کا نظام ہے، اس کمپنی
کے ملازم کے لئے پنشن لینا اس کا ذاتی حق ہے اس میں شرعا کوئی مسئلہ نہیں ہے اس
لئے کمپنی کا ملازم ریٹائر ہونے کے بعد اپنی کمپنی کا پنشن حاصل کر سکتا ہے۔
سوال: ایک لڑکی کا نکاح اپنے سگے مامو کے
بیٹے سے ہوا تھا اور کسی وجہ سے اس نے خلع لے لیا ، اب وہ لڑکی اس کے گھر نہیں
جاتی ہے کیونکہ اسے حیا اور غیرت آتی ہے لیکن وہ اپنے ماموں اور ان کے دوسرے بچوں
سے تعلق رکھتی ہے۔ سلام و دعا اور خیرت فون پر دریافت کرتی رہتی ہے اور اپنے
والدین کو ان کے گھر بھیجتی ہے اور ماموں بھی اس کے گھر آتے ہیں۔ اب اس لڑکی کے
دوسرے ماموں جن کے بچوں کا نکاح ہے وہ اسے گھر آنے کی دعوت دے رہے ہیں لیکن وہ
نہیں جاتی کیونکہ وہاں اس کا ماموں زاد بھی ہوتا ہے جس سے اس کا نکاح ہوا تھا اس
وجہ سے وہ وہاں نہیں جاتی اور اس صورت حال کو لے کر بہت پریشان ہے ، وہ قطع تعلق
بھی نہیں چاہتی مگر مجبوری میں وہاں نہیں جارہی ہے۔ اگر ان کے گھر نہیں جائے تو
کیا گنہگار ہوگی اور اسے کیا کرنا چاہئے جس سے صلہ رحمی بھی ہو اور اس شخص کا
سامنا بھی نہ ہو؟
جواب:شادی کے بعد اگر کوئی شرعی عذر لاحق ہوجائے تو
عورت یا مرد ایک دوسرے سے جدا ہو سکتے ہیں اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے اور اس کو
زندگی میں شرمندگی کا باعث نہیں بنانا ہے۔
مذکورہ بالا صورتحال میں اگر لڑکی نے شرعی عذر کے تحت
اپنے شوہر سے خلع حاصل کیا تھا تو اس میں لڑکی کو پچھتانے اور شرمندہ ہونے کی کوئی
ضرورت نہیں ہے، یہ تو اسلام کا دیا ہوا حق ہے جس کا اس نے استعمال کیا ہے۔
جہاں تک صلہ رحمی اور رشتہ داری نبھانے کا مسئلہ ہے تو
لڑکی کا مامو اس کے لئے محرم ہے جن سے صلہ رحمی کرنا اور رشتہ داری نبھانا اس کا
حق ہے جبکہ مامو زاد بھائی لڑکی کے حق میں نامحرم ہیں، نامحرموں سے اس لڑکی کو
پردہ کرنا ہے۔ نہ ہی بلا پردہ ان کے سامنے آنا ہے، نہ ان سے فون پربلا ضرورت بات چیت کرنی ہے ۔ یہ تو وہ مسئلہ ہے جو شادی سے
پہلے بھی تھا اور شادی کے بعد بھی جوں کا توں ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اس میں کوئی ایسی شرم و حیا والی بات نہیں ہے جس کی وجہ سے ماموں سے رشتہ نہیں نبھایا جاسکتا۔ اس بات کی جانکاری کے ساتھ کہ مامو زاد بھائی نامحرم ہیں ان سے پردہ کرنا ہے اوران کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا نہیں بلکہ الگ تھلگ رہنا ہے اور اس سے بھی پردہ کرنا ہے جس سے نکاح ہوا تھا کیونکہ اب زوجیت کا رشتہ ختم ہو چکا ہے۔
سوال: میرا بیٹا ایک نئے گھر میں شفٹ ہوا
ہے جہاں دیوار پر تہدیدی نامہ مبارک نام سے فریم میں ایک لمبی تحریر لٹکی ہوئی ہے، یہ کیا چیز ہے اور اس
کو کیسے تلف کرنا ہے؟
جواب:لوگ اپنے گھروں کو جنات کے شر سے حفاظت کے لیے یہ
تہدیدی نامہ مبارک اپنے گھروں میں لٹکاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس تہدیدی نامہ
مبارک کی کوئی حقیقت نہیں ہے کیونکہ یہ ثابت شدہ چیز نہیں ہے، یہ ایک جھوٹا تہدیدی
نامہ ہے۔ آپ اپنے بیٹے سے کہیں کہ اس فریم کو اتار کر اسے توڑ دے اور اس میں جو
تحریر ہے اس کو جلا کر ختم کر دے، اور اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ نہ ہی اس میں
ڈرنے والی کوئی بات ہے۔
سوال: مذہب اور مسلک میں کیا فرق ہے ۔
بریلوی اور دیوبندی کس مسلک پر ہوتے ہیں اور تبلیغی جماعت والے اور اہل سنت
والجماعت والے کس مسلک و مذہب سے ہوتے ہیں یعنی کس امام کو فالو کرتے ہیں؟
جواب:مذہب اور مسلک فقہ کے اعتبار سے دونوں ہم معنی
ہیں۔ مذہب یا مسلک کہتے ہیں بلا دلیل کسی ایک امام کی تقلید کرنے کو۔ حدیث کی
روشنی میں یہ تقلید غلط ہے، اللہ اور اس کے رسول نے ہمیں قرآن اور حدیث کی پیروی
کرنے کا حکم دیا ہے۔ جگہ جگہ اللہ نے قرآن میں ارشاد فرمایا کہ تم اللہ اور اس کے
رسول کی اطاعت کرو اور قرآن و حدیث میں کہیں پر بھی اماموں کی تقلید کا حکم نہیں
دیا گیا ہے۔
دیوبندی اور بریلوی دونوں اپنے آپ کو امام ابو حنیفہ
رحمہ اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں اور ان کی تقلید کرتے ہیں۔ دیوبندی تو پورے طور
پر امام حنیفہ کی تقلید کرتے ہیں جبکہ بریلوی امام ابو حنیفہ کے ساتھ احمد رضا
بریلوی کی بھی تقلید کرتے ہیں۔ تبلیغی جماعت، دیوبندی مسلک کی تبلیغ والی جماعت ہے
گویا تبلیغی جماعت بھی دیوبندی ہے۔
اور اہل سنت والجماعت ایک لقب ہے جس کے مستحق اصل میں
اہل حدیث ہیں مگر لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے دیوبندی اور بریلوی دونوں خود کو اہل
سنت والجماعت کہتے ہیں مگر ان کا دعوی صحیح نہیں ہے کیونکہ وہ لوگ سنت کی پیروی
نہیں کرتے بلکہ اماموں کی تقلید کرتے ہیں پھر اہل سنت والجماعت میں سے کیسے ہو
سکتے ہیں۔
دیوبندی اور بریلوی فرقوں کی حقیقت جاننا چاہتے ہیں تو
کتاب و سنت لائبریری پر ان کے عقائد اور افکار و نظریات سے متعلق بے شمار کتابیں
ہیں ان میں سے کم از کم دو کتابیں مطالعہ کرلیں۔دیوبندی سے متعلق پروفیسر ڈاکٹر
طالب الرحمن شاہ صاحب کی الدیوبندیہ تعریف وعقائد اور بریلوی سے متعلق علامہ احسان
الہی ظہیر کی کتاب بریلویت: تاریخ و عقائد بلکہ تبلیغی جماعت سے متعلق بھی ڈاکٹرطالب الرحمن صاحب کی کتاب تبلیغی جماعت
تاریخ وعقائد دیکھیں ۔
سوال: ظہر کی نماز سے پہلے چار سنت اور اس کے بعد دو سنت ہے مگر میں نے شیخ صالح فوزان ؒکی کتاب میں لکھا ہوا دیکھا کہ بعد والی سنت میں دو نوافل کا اضافہ کرلیں یعنی ظہر کی فرض نماز کے بعد تو اس انسان پر اللہ تعالی جنت واجب کردیتا ہے، کیا یہ بات صحیح ہے، اگر ہاں تو اس کی دلیل بھی پیش کردیں؟
جواب: ظہر کی فرض نماز سے پہلے چار رکعت سنت مؤکدہ تو
معروف ہے، جہاں تک ظہر کی نماز کے بعد سنت کا معاملہ ہے تو وہ بھی واضح ہے اور وہ
صرف دو رکعت ہے۔ ایک حدیث ترمذی ، ابو داؤد اور مسند احمد وغیرہ میں اس طرح آتی
ہے۔ ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا:
مَنْ صَلَّى قَبْلَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا، وَبَعْدَهَا
أَرْبَعًا، حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ(سنن ابن ماجہ: 1160، صححہ البانی)
ترجمہ: جس نے ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور ظہر کے بعد چار
رکعتیں پڑھیں تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم پر حرام کر دے گا۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ظہر کی نماز سے قبل اور اس
کے بعد چار رکعت نماز پڑھنا باعث فضیلت ہے۔ اسی حدیث کی طرف شیخ صالح الفوزانؒ نے
اشارہ کیا ہے لہذا ظہر سے پہلے چار سنتیں تو پڑھتے ہی ہیں، ظہر کی فرض نماز کے بعد
بھی دو دو رکعت کرکے چار رکعت ادا کرلیں تو حدیث میں مذکور فضیلت حاصل ہوگی تاہم
یہ فضیلت حاصل کرنے کے لئے تسلسل کے ساتھ
یہ عمل انجام دینا چاہیے۔
سوال: احرام کی حالت میں مرد کے لئے موزہ اور جوتا پہننا کیسا ہے، نیز کس قسم کے موزے یاجوتے پہن سکتا ہے؟
جواب: احرام کی حالت میں مرد کے لیے کسی قسم کے موزہ
اور جوتا پہننے کی اجازت نہیں ہے، وہ اپنا پیر کھلا رکھے گا۔ زیادہ سے زیادہ اسے
اپنے پیر میں چپل پہنے کی اجازت ہے اور وہ اپنا پیر کھلا ہوا رکھے گا۔
سوال: والدین کی لاعلمی اور غربت کے سبب
بچے کا عقیقہ نہیں ہوسکا، کیا اب وہ خود سے اپنا عقیقہ کرسکتے ہیں؟
جواب: اگر کسی نے اپنی اولاد کا عقیقہ نہیں کیا خواہ
کچھ بھی وجہ ہو، غربت ہو یا لاعلمی ہو یا جہالت ہو، اگر اسے بعد میں اپنے بچے کا
عقیقہ دینے کی طاقت ہوجاتی ہے اور ماں باپ عقیقہ دینا چاہیں یا بچہ بڑا ہو جائے تو
خود اپنا عقیقہ دینا چاہے، شادی شدہ ہو جائے اس وقت دینا چاہے ان سب صورتوں میں
کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جب بھی طاقت ہو جائے اور عقیقہ دینے کا ارادہ ہو تو عقیقہ دیا
جا سکتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔
سوال: اگر ہم کسی جگہ سے گزرتے ہیں، وہاں کے راستوں پر کھلا ہوا مسلمانوں کا قبرستان ہوتا ہے اس کے اطراف کوئی دیوار کھڑی نہیں ہوتی ہے، قبریں بالکل صاف دکھائی دیتی ہیں، عورتوں کا وہاں سے گزر ہوتا ہے تو وہ مردوں کو سلام کرسکتی ہیں اور کیا وہ وہاں تھوڑی دیر کھڑی ہوکر مغفرت کی دعا کرسکتی ہیں اور موت کی فکر اور عذاب قبر کا خوف کر سکتی ہیں۔ انڈیا میں عورتوں کو قبرستان جانے سے منع کیا جاتا ہے، ایسے میں عورت قبرستان کی کیسے زیارت کرے، پھر آخرت یاد کرنے کے لئے اور مرحومین کی مغفرت کی دعا کے لئے کیا کرے؟
جواب: عورتوں کے لئے کبھی کبھار قبرستان جانا جائز ہے،
برابر اور کثرت کے ساتھ قبرستان جانا ان کے حق میں جائز نہیں ہے تاہم کبھی کبھار
زیارت کر سکتی ہیں اس سلسلے میں کئی دلائل ملتے ہیں۔ جہاں پر عورتوں کے لئے
قبرستان جانے کی ممانعت ہے وہاں ان کے لئے مجبوری ہے اس جگہ عورت قبرستان نہ جائے۔
اور کسی کی مغفرت کی دعا کے لیے قبرستان ہی جانا ضروری نہیں ہے، گھر بیٹھے دعا کی
جاسکتی ہے۔ اور آخرت کی یاد تازہ کرنے کے لئے بھی قبرستان جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
اللہ تعالی نے عمل کے لیے اور آخرت کی فکر کے لیے دین اسلام بھیجا ہے جو قرآن اور
حدیث میں ہے۔ عورت و مرد کو قرآن و حدیث پڑھنا چاہیے، اسی میں ساری نصیحت اور ساری
ہدایت ہے اور اگر عورت کو کہیں پر قبرستان جانے کی اجازت ہو تو وہاں کبھی کبھار
قبرستان چلی جایا کرے یا قبرستان کے بغل سے گزر رہی ہے اور اندر داخل نہیں ہوسکتی
ہو تو باہر رہتے ہوئے بھی وہاں دعا پڑھ سکتی ہے، وہاں کچھ دیر کے لیے ٹھہر سکتی ہے
اور آخرت کی فکر پیدا کر سکتی ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال: سردی میں ہمبستری کرنے کے بعد رات
میں غسل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور نماز فجر چھوٹنے کا بھی ڈر رہتا ہے ایسی صورت
میں کیا کریں؟
جواب: جب آدمی کو جنابت لاحق ہو تو نماز کے لئے اسے غسل
کرنا ضروری ہے لہذا جو آدمی حالت جنابت میں ہو وہ فجر سے پہلے غسل جنابت کرے۔ اگر
پانی ٹھنڈا ہو تو گرم پانی استعمال کرے اور اگر پانی گرم کرنے کی سہولت نہ ہو اور
پانی بھی اس قدر ٹھنڈا ہو کہ نہانے سے مرض یا جسمانی نقصان ہونے کا خطرہ ہو تو
ایسی صورت میں آدمی تیمم کر کے فجر کی نماز ادا کر سکتا ہے اور جب نہانے کی سہولت
میسر ہو تو اس وقت پھر غسل کرلے۔
سوال: میری عمر چالیس سال ہے اور آنلائن
قرآن کی تعلیم دیتی ہوں۔ میں طلاق یافتہ ہوں، دو بچے ہیں جن کی کفالت میں خود کرتی
ہوں، تھائیرائیڈ کی مریضہ ہوں اور بہت زیادہ سردی لگتی ہے۔ جیسے ہی وضو کروں
چھینکیں شروع ہو جاتی ہیں اور وضو ٹوٹ جاتا ہے اور دوبارہ کرنا پڑتا ہے۔ بار بار
وضو کرنا ممکن نہیں، ٹائم بہت کم ہوتا ہے مگر اس سے بھی بڑا مسئلہ سردی لگ کر
کھانسی، فلو اور بخار کی کیفیت ہونا ہے جو تقریباً روز ہی کا مسئلہ ہوتا ہے۔ اپنے
کام کو بھی احسن طریقے سے انجام نہیں دے پاتی ہوں۔ پوچھنا یہ تھا کہ کیا میں اس
صورت میں تیمم کرکے نماز ادا کر سکتی ہوں؟
جواب: جب پانی کے استعمال سے مرض لگنے کا اندیشہ ہو تو
ایسی صورت میں تیمم کرنا جائز ہوتا ہے۔ اور سوال میں وضو کے سبب ٹھنڈے پانی کے
استعمال سے جس نقصان کا ذکر ہوا ہے ایسی صورت میں آپ تیمم کر سکتے ہیں اس میں کوئی
حرج نہیں ہے۔ وقت کم ہونے کے سبب تیمم نہیں کیا جا سکتا ہے، وقت کے علاوہ سرد پانی
سے وضو کرنے پر اگر تکلیف، مرض اور الرجی کا مسئلہ ہے تو ایسی صورت میں ہر نماز کے
لئے جب تک یہ مرض یا یہ تکلیف ہو تب تک تیمم کیا جا سکتا ہے اس میں کوئی حرج کی
بات نہیں ہے لیکن جب یہ تکلیف دور ہو جائے تو اس وقت وضو کرنا ضروری ہے۔
سوال: ایک عورت بہت پریشان ہے کیونکہ اس
سے ایک گناہ ہوا ہے مگر وہ چاہ کر بھی اس کا ازالہ نہیں کر پا رہی ہے۔دراصل اس نے
اپنی بہن کی نند کی نند کی دو انگوٹھیاں چرائی تھی۔ اگر وہ یہ بات بتاتی ہے تو اس
کی باجی جو ابھی لاعلم ہے اس کا جینا عذاب کر دے گی۔ جب پیسوں کی ضرورت تھی اس نے
انگوٹھیاں چرائی جسے بیچ کر اپنی ضرورت پوری کی تھی، اب اس کے پاس اتنے پیسے موجود
ہیں جسے وہ ادا کرنا چاہتی ہے۔اس وقت سونا چار ہزار روپے تولہ تھا اور دونوں
انگوٹھیوں کی قیمت جو بیچ کر ملی وہ چھ ہزار دو سو تھی۔ اب سونا بہت زیادہ مہنگا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس نے اللہ سے سچے دل سے معافی مانگ لی ہے اور اب ایسا گناہ کرنے سے
توبہ بھی کرلی ہے مگر اس کی رقم کتنی اور کیسے ادا کی جائے، آج کے حساب سے یا جس
حساب سے اس نے خرچ کی تھی اور اس کو بتانا ضروری ہے کہ میں نے آپ کی چوری کی تھی،
حکمت کے ساتھ معاملہ کیسے حل کیا جائے تاکہ سسرال والے طعنہ بھی نہ دیں، معاشرے
میں فساد بھی نہ ہو اور اس بہن کا پچھتاوہ بھی دور ہو جائے جو گناہ کی وجہ سے اب
تک ہے؟
جواب: چوری کے مسئلہ میں اصل تو یہی ہے کہ صاحب معاملہ
کو بتایا جائے اور اس سے معافی مانگی جائے، اس کو بتایا جائے کہ میں نے آپ کی
انگوٹھی چرائی تھی کیونکہ انگوٹھی کھونے کا اسے اب تک ملال ہو سکتا ہے، ممکن ہے وہ
بد دعائیں بھی دے رہی ہو اور نہ جانے کس کس پر شبہ بھی کر رہی ہو۔ ان تمام باتوں
کے حل کے لئے اور حقوق العباد کا مسئلہ ختم کرنے کے لئے صاحب معاملہ سے بتاکر اس
سے معافی مانگ لینا اور اس کا چرایا ہوا حق واپس کر دینا ہی اصل ہے۔ اگر بتانے سے
کسی بڑے فساد کا اندیشہ ہے تو ایسی صورت میں اس بات کی اطلاع نہ دی جائے تاہم
حقدار کا جو حق ہے کسی صورت میں اس تک حق پہنچا دیا جائے اور چونکہ چوری میں دو
انگوٹھیاں تھیں اور انگوٹھی واپس کرنے میں فتنہ ہے تو ان دونوں انگوٹھی کی جو
موجودہ قیمت بنے گی اتنے پیسے ادا کرنا ضروری ہے۔ وہ اللہ رب العالمین سے توبہ
کرنے کے ساتھ اپنے اس بہن کے لئے بھی کثرت سے دعا کرے۔
سوال: میرے ایک جاننے والے نے اپنی زندگی
میں ہی بچوں کی شادی کے ساتھ ہی جائیداد (وراثت) تقسیم کر دی ہے تاکہ بعد میں
لڑائی جھگڑے نہ ہوں کیا ایسا کیا جا سکتا ہے اور مجھے جاننا ہے کہ وراثت کب تقسیم
ہوتی ہے، کیا وراثت اپنی زندگی میں تقسیم ہو سکتی ہے؟
جواب: جائداد کی تقسیم وفات کے بعد ہے، وفات ہونے سے
وراثت کی تقسیم کا تعلق ہوتا ہے۔ زندگی میں وراثت تقسیم نہیں کی جاتی ہے، یہ اللہ
کا بنایا ہوا نظام ہے، اس نظام میں من مانی کرنا اور اپنی مرضی سے عمل کرنا شرعی
نظام میں مداخلت کرنا ہے۔ وراثت تقسیم کرنے میں اصل یہی ہے کہ جب آدمی کی وفات ہو
جائے اور اس نے پیچھے جائیداد چھوڑی ہے تو اس کی تدفین کے بعد اس کے وارثوں میں
جائیداد تقسیم کی جائے گی۔ تقسیم وراثت میں شریعت کا یہی مسئلہ ہے البتہ اگر کسی
کو اپنی زندگی میں محسوس ہو کہ اس کی جائیداد کی تقسیم میں بہت ہی زیادہ فتنہ و
فساد ہو سکتا ہے، سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں یعنی اس طرح کے مسائل ہوں تو آدمی
اپنی زندگی میں اولاد کے درمیان جائیداد تقسیم کر سکتا ہے مگر نظام وراثت کے تحت
جائیداد تقسیم نہیں ہوگی بلکہ عطیہ کے طور پہ سب کو برابر برابر حصہ دیا جائے گا۔
یاد رہے کہ بلا عذر اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم کرنا صحیح نہیں ہے۔
سوال: اگر شوہر اپنی بیوی سے کہے کہ میں
نے تم کو خلع دیا تو کیا خلع ہو جائے گا؟
جواب: اگر کوئی شوہر اپنی بیوی سے کہے کہ میں تمہیں خلع
دیتا ہوں یا خلع دے رہا ہوں یا خلع دے دیا ہو تو شوہر کے ایسا کہنے سے خلع نہیں
ہوگا۔ خلع کا طریقہ یہ ہے کہ ایک جانب سے بیوی خلع مانگے اور دوسری جانب سے شوہر اسی
وقت خلع پر راضی ہو جائے اور یہ بات کہہ دے کہ ٹھیک ہے میں تمہیں خلع دیتا ہوں اس
سے خلع واقع ہو جائے گا ساتھ ہی خلع میں بیوی معاوضہ بھی پیش کرے۔ شوہر بغیر بیوی
کے مطالبہ کے خلع دے تو اس سے خلع نہیں ہوگا اور اسی طرح اگر بیوی کسی وقت خلع طلب
کی ہو مگر شوہر بعد میں خلع پر رضامندی ظاہر کرے تو اس سے بھی خلع نہیں ہوگا۔ خلع
کے لیے بیوی کی طرف سے طلب اور شوہر کی طرف سے رضامندی بیک وقت ہو۔
سوال: میں نے ایک ہندو عورت کی مدد کی جس
کا کسی حادثے میں اسکا چہرہ اور بدن کا کچھ حصہ جل گیا تھا۔ اس نے سوشل میڈیا کے
ذریعہ پیسوں کی مدد مانگی تھی اطلاع ملنے پر مجھ سے جو ہو سکا میں نے اس کی مالی
مدد کی۔ سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان ہندو کی مدد کر سکتا ہے جبکہ وہ بے پردہ پھرا
کرتی ہے اور اپنے حسن کو ظاہر کرتی ہے، کیا مالی مدد کرنے سے ہمیں گناہ ملے گا؟
جواب: دنیاوی اعتبار سے ہندو سے معاملات کرنےاور مالی اعتبار سے ضرورت کے وقت اس کی مدد کرنے سے
اسلام نہیں روکتا ہے۔ یہ تو انسانیت کے ساتھ بھلائی اور خدمت خلق ہے جس پر اسلام
نے ہمیں ابھارا ہے اور اس پر عمل کرنے سے اجر و ثواب ملتا ہے۔ آپ نے جو تعاون کیا
ہے، یہ کوئی گناہ کا کام نہیں ہے، یہ تو بھلائی کا کام ہے بلکہ آپ نے انسانیت کی
خدمت کی ہے اور اسلام کے سنہرے پہلو کو اجاگر کیا ہے۔ اس طرح کے موقع پر ہمیں
ضرورت مند ہندوؤں کی مدد کرنی چاہیے،جس سے اس کے دل میں اسلام کی طرف رغبت پیدا
ہوگی۔
جہاں تک مسئلہ ہے اس عورت کی بے پردگی کا تو اس معاملے
میں ہم اسے پیار و حکمت کے ساتھ بھلی باتوں کی نصیحت کر سکتے ہیں، ساتھ ہی اسلام
کی حقانیت اور اس کی خوبیوں کو بھی اس پر واضح کر سکتے ہیں۔
سوال:زید ایک مہینہ سے بیمار ہے ، تیمم
کرکے نمازیں ادا کر رہا ہے کیونکہ پانی کے ٹچ میں جانے سے اس کی بیماری میں اضافہ
ہو جاتا ہے، زید اسی درمیان ایک رات اپنی خواہش پر کنٹرول نہیں رکھ سکا اور اپنی
بیوی سے جماع کر لیا تو کیا اب اس کے لئے غسلِ جنابت ضروری ہے یا اس صورت میں تیمم
کفایت کر جائے گا؟
جواب: جب پانی کا استعمال آدمی کے لئے مضر ہوتا ہے تو
غسل کے وقت تیمم کرنا اس کے لیے جائز ہوتا ہے اور چونکہ صاحب مسئلہ بیمار ہے جس کی
وجہ سے وہ تیمم کرکے نماز پڑھتا ہے لہذا جنابت کی ناپاکی دور کرنے کے واسطے تیمم
کرنا کافی ہے۔ زید غسل جنابت کے طور پر تیمم کر لے اس سے اس کا غسل بھی ہو جائے گا
اور اس سے وضو بھی ہو جائے گا اور بیوی جس کے لئے پانی مضر نہ ہو وہ جنابت دور
کرنے کے لئے غسل کرے گی۔
سوال: میرے ایک دوست نے لو میرج کیا تھا،
اب چار سال ہو گئے اور بچے بھی ہیں جبکہ شریعت میں بغیر ولی کے نکاح نہیں ہے ایسی
صورت میں اس کو کیا کرنا چاہیے؟
جواب: جس نے بغیر ولی کے لو میرج کیا ہے اسے پہلے دن سے
ہی اپنی غلطی کا علم ہوگا، یہ الگ مسئلہ ہے کہ اسے آج احساس ہو رہا ہو۔ کسی اجنبی
لڑکی سے پیار کرنا اور اس سے بغیر ولی کے شادی کر لینا ناجائز و حرام ہے۔ اور بغیر
ولی کے شادی کرنے سے شادی نہیں ہوتی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ لڑکا ایک لڑکی کے
ساتھ بغیر شادی کے چار سال سے رہ رہا ہے اور گناہ کا کام کر رہا ہے۔اس صورت میں
لڑکا اور لڑکی دونوں کو سچے دل سے توبہ کرنا چاہیے اور شرعی طور پر ازسرنو نکاح
کرنا چاہیے جس میں ولی اور دو عادل گواہ موجود ہوں۔
سوال:سخت سردی میں نمازوں کو جمع کرنا
صحیح ہے کہ نہیں؟
جواب: سخت سردی جو عادت کے مطابق ہو تو اس میں نمازوں
کو جمع کرنا جائز نہیں ہے لیکن اگر سردی عام عادت سے زیادہ ہو اس طور پر کہ شدید
ٹھنڈی ہوا چل رہی ہو جو لوگوں کے لئے مشقت کا باعث ہو اور گھر سے نکلنا تکلیف دہ
اذیت کا سبب ہو اس وقت دو نمازوں کو جمع کرسکتے ہیں جیسے بارش اور کیچڑ کے وقت گھر
سے نکلنا دشوار ہونے پر دو نمازوں کو جمع کرنے کی اجازت ہے مگر ہرسال آنے والی
طبعی ٹھنڈی کی وجہ سے نمازوں کو جمع نہیں کرسکتے ہیں۔
سوال: ایک لڑکا جب اپنے سسرال جائے جو
کافی دوری پر ہو تو کیا وہاں قصر سے نماز ادا کرے گا؟
جواب: اگر لڑکے کا سسرال اسی کلومیٹر یا اس سے زیادہ دوری پر ہو اور چار دن یا اس سے کمسسرال میں ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو وہ قصر سے نماز ادا کرے گا لیکن اگر سسرال میں چار دن سے زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو پہلے ہی دن سے مکمل نماز ادا کرے گا۔

0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔