Monday, January 13, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات (32)

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات (32)

جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ- سعودی عرب


سوال: کسی نے عرب امارات سے سوال کیا ہے کہ ان کے یہاں ہندو ڈرائیور کی بیوی فوت ہوگئی۔ اس کی آخری رسومات کے لئے 4500 ریال کی ضرورت اس ڈرائیور کو تھی، انہوں نے اس کو اتنے پیسےدئے اور ہندو کو تو جلایا جاتا ہے اس لئے اب وہ پریشان ہیں کہ کیا انہوں نے درست کیا یا غلط کیا؟

جواب: عرب ملکوں میں ایک نظام ہے کہ جو کسی کے یہاں کام کرتا ہے تو آخری وقت میں اسے کئے ہوئے سالوں کے حساب سے اپنے کام کا بونس دیا جاتا ہے جسے خدمہ نہائیہ کہتے ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ مرنے والی عورت بھلے اس آدمی کے یہاں کام کرتی ہو یا نہیں کرتی ہو اس کے لئے پیسہ دینا اس بنیاد پر ہے کہ اس کے پاس اس کا شوہر کام کرتا ہے اور عام طور سے لوگوں میں اور خاص طور سے عرب ممالک میں مشکل کے وقت کفیل اپنے ملازم کی مدد کرتا ہے۔

اس وجہ سے ہندو ڈرائیور کی بیوی کی وفات پر جو پیسہ دیا گیا ہے وہ ضرورت کے وقت  اس ڈرائیور کے کام کرنے کی وجہ سے بطور تعاون و معاوضہ ہے، اسے آخری رسومات کا خرچہ نہیں کہا جائے گا۔ اگر ہندو ڈرائیور اس کے پاس کام نہیں کرتا تو تو وہ آدمی ہرگز اس ہندو کو 4500 ریال نہیں دیتا۔ اس وجہ سے یہ پیسہ دینا جلانے والی رسوم کے لئے دینا نہیں کہلائے گا بلکہ ملازم کے لئے تعاون کہا جائے گا۔

آخری بات یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی غیرمسلم کو بلا ضرورت یہ کہہ کر پیسہ دےکہ میں  میت کو جلانے کے لئے پیسہ دے رہا ہوں تو بلا ضرورت ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا تاہم ملازم کے تعاون ومعاوضہ کے طور پر مدد کرنے میں حرج نہیں جیساکہ اوپر بتایا گیا ہے۔

سوال: ایک بچی کے حیض ختم ہونے کے تین یا چار دن بعد دوبارہ خون آ جاتا ہے اور وہ غسل کرکے نماز پڑھتی ہے۔ کیا وہ ایک غسل سے ایک دن کی ساری نماز پڑھ سکتی ہے اور اگلے دن دوبارہ  غسل کرنا ہوگا یعنی وہ ہر دن غسل کرکے نماز پڑ ھے گی؟

جواب: اگر کسی عورت کو حیض آیا اور حیض سے مکمل پاکی حاصل ہوگئی تو اب وہ غسل حیض کرکے نماز ادا کرتی رہے گی۔ پھر اگر تین چار دن کے بعد دوبارہ خون آنے لگے جس میں حیض کے صفات نہ ہوں تو اسے حیض کا خون نہیں مانے اور اس خون کے لئے نہ پہلے دن نہانا ہے، نہ دوسرے دن نہانا ہے بلکہ وہ نماز کے وقت صرف وضو کرکے نماز ادا کرتی رہے اور پہلی دفعہ جو غسل حیض کیا تھا وہی غسل کافی ہوگا۔

سوال: اگر کسی عورت کے شوہر کا انتقال ہوجائے اور اس عورت کو ایک لڑکا ہو پھر وہ عورت دوسری جگہ نکاح کرلے اور دوسرے شوہر سے بھی اسے اولاد ہو تو کیا اس عورت کو پہلے شوہر کی جائداد میں سے حصہ ملے گا یا نہیں ملے گا اور اسی طرح کسی عورت کے شوہر کا انتقال ہوجائے اور اس عورت کو کوئی اولاد نہ ہو اور وہ عورت کسی دوسری جگہ نکاح کرلے تو کیا اس عورت کو پہلے شوہر کی جائداد میں سے حصہ ملے گا یا نہیں ملے گا؟

جواب: جو عورت اپنے شوہر کی زوجیت میں تھی اور اسی حال میں اس کے شوہر کا انتقال ہو گیا تو اس عورت کو اپنے شوہر کی جائیداد سے حصہ ملے گا چاہے وہ عورت کسی جگہ دوسرے مرد سے شادی کرلے یا شادی نہیں کرے اور اس عورت کو پہلے مرد سے یا دوسرے مرد سے اولاد ہو یا نہیں ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ بیوی کو ان تمام صورتوں میں شوہر کی جائیداد سے حصہ ملے گا۔

سوال: میرے ماموں کے بیٹے اور بیٹے کی بیوی حج پہ جائیں تو کیا میں ان کے ساتھ جاسکتی ہوں یا اپنے محرم کے ساتھ ہی جانا پڑے گا؟

جواب: حالت سفر میں عورت کے لئے اس کا اپنا محرم ہونا ضروری ہے، عورت بغیر محرم کے حج یا عمرہ کا سفر نہیں کر سکتی ہے اور ماموں کا بیٹا محرم نہیں ہے بلکہ وہ غیرمحرم میں آتا ہے اس لئے ماموں کے بیٹے کے ساتھ سفر کرنا جائز نہیں ہے۔آپ کے ماموں کے بیٹے کی بیوی اپنے شوہر کے ساتھ جا رہی ہے تو اس کے لئے یہ سفر جائز ہے لیکن آپ کے لیے آپ کے ماموں کا بیٹا محرم نہیں ہے۔

سوال:اگر فوتگی والے گھر میں کھانا بنا کر دینا ہو تو کیا اس کے لئےصدقہ کے پیسے استعمال کر سکتےہیں۔ گھر میں لوگ تعزیت کے لئے آئیں اور کھانے کا وقت ہو تو وہ بھی کھائیں اور گھر والے بھی کھائیں۔ کچھ لوگ دوسرے شہر سے بھی آئے ہوتے ہیں؟

جواب: جس کے گھر کسی کی وفات ہو جائے اس کے گھر کھانا بنا کر بھیجنا سنت سے ثابت ہے کیونکہ میت کے گھر والے اس وقت رنج و الم میں ہوتے ہیں۔ اور جس پڑوسی کو کھلانے کی طاقت ہو وہ اپنے گھر سے کھانا بناکر میت کے گھر والوں کو کھلائے اس کے لئے صدقہ جمع کرنے یا کسی سے قرض لینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ صرف میت کے گھر والوں کا ہی انتظام کرنا ہے۔

دراصل اپنے معاشرے میں رسم و رواج چلتے ہیں۔ جس کے گھر میت ہو جائے وہاں پرتقریب کی طرح  بہت سارے لوگوں کا کھانا تیار کیا جاتا ہے بلکہ بعض جگہ پورے گاؤں والوں کی دعوت کی جاتی ہے یہ ایک بدعتی رسم ہے، اس رسم کا ہمیں خاتمہ کرنا چاہیے، نہ کہ اس رسم کو بڑھاوا دینا چاہیے۔
جو لوگ کسی شہر سے جنازے میں شرکت کے لئے آتے ہیں انہیں چاہیے کہ جنازے میں شریک ہوکر رخصت ہو جائیں کیونکہ میت کے گھر والے خود تکلیف میں ہوتے ہیں وہ  اپنا انتظام نہیں کر سکتے ہیں تو مہمانوں کا انتظام کہاں سے کریں گے۔ ہاں جو چند قریبی مخصوص لوگ رہ جائیں تو پڑوسی انہیں کھلا دے اس میں حرج نہیں ہے۔بعض مقامات پر فوتگی کے دن کے علاوہ دوسرے ایام میں بھی کھلانے کا رواج پایا جاتا ہے اور فوتگی کے علاوہ کئی ایام تک لوگوں کے جمع ہونے اور دعوت کرنے کا رواج بھی بدعت ہے، اسے بھی ختم کرنا چاہیے۔

سوال: میرے پاس اپنے گھر میں  بہت سارے سامان، کپڑے اور چیزیں ہیں جن میں مختلف قسم کی تصاویر ہیں ایسی چیزوں کے پہننے،گھر میں  رکھنے اور استعمال کرنے کا کیا مسئلہ ہے؟

جواب: تصویریں دو قسم کی ہوتی ہیں، ایک تصویر جاندار والی چیزوں کی اور دوسری تصویر بغیر جان والی چیزوں کی۔ اور اس بات کو سمجھنے میں آپ کو دقت نہیں ہونی چاہیے کہ کس میں جان ہوتی ہے تو کس میں جان نہیں ہوتی۔

ان دونوں قسم کی تصویروں سے متعلق شرعی حکم یہ ہے کہ جو جاندار کی تصویر ہے، ایسی تصویر والی کوئی چیز استعمال کرنا جائز نہیں ہے خواہ بستر ہو یا لباس ہو یا کوئی سامان ہو لیکن جو جاندار والی تصویر نہیں ہے تو ایسی تصویر والی کوئی چیز استعمال کرنے میں حرج نہیں ہے جیسے زمین کی، آسمان کی، پیڑ پودوں کی تصویر ہو اس کے استعمال میں حرج نہیں ہے۔

سوال: آج کل کے دور میں پہلے دور جیسی مشقت نہیں ہوتی ہے تو کیا عورت بغیر محرم کے سفر کرسکتی ہے اور کسی بھی سفر کے لئے محرم کا ہونا ضروری ہے یا صرف حج اور عمرہ کے سفر کے لئے محرم کی پابندی ہے ، قرآن اور حدیث کی روشنی میں اس بات کی وضاحت کریں؟

جواب: ایک عورت بغیر محرم کے کوئی بھی سفر نہیں کرسکتی ہے خواہ حج و عمرہ کا سفر ہو یا تعلیم یا گھوم گھوم یا دیگر ضرورت کے لئےسفر ہو۔ ہر قسم کے سفر کے لئے عورت کے واسطے محرم کی پابندی کی ہے۔ اور سفر مشقت والا ہو یا بغیر مشقت والا ہو، ہر سفر میں محرم ہونا ضروری ہے۔ صحیح بخاری کی حدیث ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، أَنْ تُسَافِرَ مَسِيرَةَ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ لَيْسَ مَعَهَا حُرْمَةٌ(صحیح البخاری:1088)

ترجمہ: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی خاتون کے لیے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتی ہو، جائز نہیں کہ ایک دن اور ایک رات کا سفر بغیر کسی ذی رحم محرم کے کرے۔

یہ حدیث عام ہے جو ہرقسم کے سفر کو شامل ہے خواہ مشقت والا ہو یا بغیر مشقت والا ہو اور خواہ حج و عمرہ کا سفر ہو یا دوسرے اسفار ہوں۔ نیز جو عورت اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہوئے بغیر محرم کسی قسم کا سفرکرے وہ گنہگار ہوگی۔

اللہ تعالی نے قرآن میں بے شمار مقامات پر ارشاد فرمایا جیسے سورہ محمد میں ہے کہ تم اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو۔ (محمد:33)اللہ نے یہاں تک ہمیں حکم دیا کہ رسول جو کچھ تمہیں حکم دیں اسے پوری طرح تسلیم کر لو، ذرہ برابر بھی اس میں تردد نہ کرو۔(نساء:65)اور ایک جگہ اللہ تعالی یہ بیان کرتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے۔(احزاب:21)

قرآن کی یہ ساری آیات اس بات کی دلیل ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی ہمیں حکم دیں وہ اللہ کا حکم ہے اور اس حکم پر شبہ ظاہر کرنے والا، اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی نافرمانی کرنے والا ہے، اللہ تعالی نے قرآن میں یہاں تک بتا دیا کہ رسول کی بات ماننا گویا کہ اللہ کی بات ماننا ہے۔(نساء:80)

سوال: اگر کسی کمپنی کا مالک اپنے ملازم کو سو روپے کی ایک چیز لانے کو کہے اور وہ شخص وہی چیز بارگیننگ کرکے اسی روپے میں خرید لے تو کیا باقی بیس روپے وہ رکھ سکتا ہے؟

جواب: اگر کوئی کمپنی اپنے ملازم کو سو روپیہ دے کر کوئی چیز لانے کے لئے کہے اور وہ چیز اسی روپے میں مل جائے تو بیس روپے اس ملازم کو اپنے مالک کے پاس آکر جمع کرنا چاہیے، اسے اپنے پاس نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ بچا ہوا پیسہ اس کے مالک کا ہے۔ اگر مالک یہ کہہ کر بھیجے کہ اس میں سے بچنے والا پیسہ تمہارا ہے تو ایسی صورت میں ملازم بچا ہوا پیسہ رکھ سکتا ہے ورنہ بچا ہوا پیسہ اپنے مالک کو لوٹائے گا۔

اسی جگہ ٹھہر کر سوچیں کہ اگر وہ سامان سو کے بجائے ایک سو بیس میں خریدنا پڑتا تو کیا ملازم یہ بات اپنے مالک سے بتا کر مزید بیس روپے وصول نہیں کرتا؟

سوال: کیا ہم عیسائیوں کو صدقہ دے سکتے ہیں ؟

جواب: عیسائی کو نفلی صدقہ دے سکتے ہیں بلکہ تمام قسم کے غیر مسلموں کو نفلی صدقہ دے سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال: ایک مشہور حدیث ہے کہ دو قبر والوں کو عذاب ہو رہا تھا جن میں ایک چغلی کرنے والا اور دوسرا پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنے والا تھا۔ ان دونوں کی قبر پہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے، ٹہنی لگائی بعض لوگ اس حدیث کا حوالہ دیکر قبر پر پودا یا ٹہنی لگاتے ہیں، کیا ایسا کرنے سے میت کی مغفرت ہوتی ہے؟

جواب: یہ حدیث صحیح ہے اور بخاری و مسلم میں موجود ہے اور یہ عمل انہی دونوں لوگوں کے لیے خاص تھا لہذا اس حدیث سے دلیل پکڑتے ہوئے کوئی آدمی کسی کی  قبر پر ٹہنی نہیں لگائے گا اور اگر کوئی لگاتا ہے تووہ  سنت کے خلاف عمل کرتا ہے اور ایسا کرنے سے میت کو کوئی فائدہ بھی نہیں پہنچے گا، نہ اس سے میت کی مغفرت ہوسکتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے والے صحابہ کرام میں سے کسی سے بھی ایسا کرنے کی کوئی دلیل نہیں ملتی ہے۔

سوال: ایک عورت کا سوال ہے کہ اس کے رشتہ داروں میں شغار کی شادی ہوتی ہے جسے وٹہ سٹہ کہا جاتا ہے۔ ان لوگوں کو پتہ ہے کہ وٹہ سٹہ صح نہیں ہے پھر بھی وہ ایسی شادی کرتے ہیں۔ اگر ایسے لوگ دعوت دینے آئیں تو کیا ایسی شادی کے ولیمے میں ہم شریک ہوسکتے ہیں؟

 جواب: سٹے وٹے کی شادی جائز نہیں ہے، اگر کوئی ایسی شادی کرے تو ہمیں ایسی شادی سے منع کرنا چاہیے کیونکہ نبی ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے :مَن رَأَى مِنكُم مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بيَدِهِ، فإنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسانِهِ، فإنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وذلكَ أضْعَفُ الإيمانِ(صحيح مسلم:49)

ترجمہ:جب تم کوئی منکر دیکھوتو اسے ہاتھ سے مٹاؤ، اگر ہاتھ سے مٹانے کی طاقت نہ ہو تو زبان سے نصیحت کرو اور اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل میں برا جاؤ، اور یہ ایمان کا کمتردرجہ ہے۔

نبی ﷺ کے فرمان کے مطابق آپ اپنا فریضہ انجام دیں، ممکن ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرلے اور اگر وہ نصیحت قبول نہ کرے تو آپ ایسی دعوت سے دور رہیں تاکہ اس سے آپ کی برات ظاہرہواور دوسروں کو نصیحت ملے ۔ یہاں یہ بھی معلوم رہے کہ نکاح شغار یہ ہے کہ کوئی اس شرط پر اپنی بیٹی یا بہن کسی کے یہاں شادی کرے کہ وہ بھی اپنی بیوی یا بہن کا رشتہ کرے گاخواہ مہر طے ہو یا نہ ہو۔اگر اس قسم کی مشروط شادی نہ ہو اور کوئی یونہی ایک دوسرے کے گھر دہری رشتہ داریاں کرے تو اس میں حرج نہیں ہے۔

سوال: چھوٹے بچوں کو سبق آموز فرضی کہانیاں سنا سکتے ہیں یا انہیں انبیائے کرام، صحابہ و صحابیات کے واقعات ہی سنانا چاہیے اور اس بارے میں کچھ کتابوں کی طرف رہنمائی بھی کر دیں؟

جواب: بچوں کو فرضی اور گھڑی ہوئی کہانیاں نہیں سنانا چاہیے کیونکہ فرضی اور گھڑی ہوئی کہانی جھوٹی باتیں ہیں جبکہ اسلام کسی بھی حال میں جھوٹی بات کی تائید نہیں کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اٹھا کر دیکھیں آپ نے مزاج میں بھی حق بات ہی بولا ہے۔اور جھوٹی باتوں سے بچوں پر منفی اثر پڑےگا جبکہ سچی اسلامی کہانیوں سے بچوں میں مثبت اثر پیدا ہوگا اور ان کی دینی تربیت بھی ہوگی۔ اس لئے اپنے بچوں کو انبیاء اور اسلاف کی سبق آموز کہانیاں اور ان کی سیرت سنائیں ۔ اس بارے میں مختلف کتابیں دستیاب ہیں جن سے استفادہ کرسکتے ہیں جیسے علامہ ابن کثیر کی قصص الانبیاء، ابی عبد الصبور عبد الغفور دامنی کی اصدق القصص( اس میں بخاری ومسلم کے واقعات ہیں)، محمد بن جمیل زینو کی صحیح قصص النبی، احمد جان کی قصص النساء فی القرآن الکریم اور محمد حفظ الرحمن سیوہاروی کی قصص القرآن وغیرہ۔

سوال: کیا یوسف علیہ السلام کی شادی زلیخا سے ہوئی تھی؟

جواب: اپنے معاشرے میں زلیخا نام مشہور ہو گیا ہے جبکہ مصر کے بادشاہ کی بیوی کا نام زلیخا تھا اس بات کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ہے بلکہ اسرائیلی روایات میں اس کا ذکر ملتا ہے، اسلامی تاریخ میں نہیں  اس لئے یہ نام ثابت نہیں ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ مصر کے بادشاہ کی بیوی کی شادی حضرت یوسف علیہ السلام سے ہوئی تھی اس لئے کسی سے ہمیں اس طرح کی بات نہیں کرنی چاہیے۔

سوال: ایک خاتون عمرے پہ جارہی ہے۔ گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کے لئے اپنی بہن جو ابھی بیوہ ہوئی ہے کو رکھنا چاہتی ہے جو عدت میں ہے، کیا وہ عدت کے دن یہاں گزار سکتی ہے؟

جواب: بیوہ کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنا گھر چھوڑ کر اپنی بہن کے گھر جائے بلکہ بیوہ پر لازم اور ضروری ہے کہ اپنے شوہر کے گھر میں عدت کے مکمل ایام پورا کرے۔عمرہ پر جانے والی بہن اپنا دوسرا انتظام کرے یا ضرورت ہو تو اپنے بچوں کو اپنی بیوہ بہن کے گھر بھیج دے۔

سوال: مسلمان کہتے ہیں کہ ہفتے کے دن مچھلی نہیں کھانی چاہیے، ایسا کیوں؟

جواب:جس مسلمان نے آپ سے کہا کہ ہفتے کے دن مچھلی نہیں کھانا چاہیے آپ کے اوپر ضروری ہے کہ اس سے پوچھیں کہ ایسا کیوں ہے؟

ہم آپ سے کہتے ہیں کہ ہفتہ کے ساتوں دن یعنی ہفتہ کے دن بھی آپ مچھلی کھائیں، ہم کسی دن مچھلی کھانے سے منع نہیں کرتے ہیں کیونکہ قرآن و حدیث میں کسی بھی دن ہمارے لئے مچھلی کھانا منع نہیں ہے لیکن جو آپ کو اس سے منع کرے اس سے دلیل پوچھیں۔

سوال: تعزیت کے لئے اجتماع کا اعلان کرنا کیسا ہے یعنی ایک خاص دن اور وقت مقرر کرکے لوگوں کو گھر یا کسی ہال میں بلانا کسی کی وفات کے بعد، اس میں میت کا ذکر خیر اور دعا کرنا کیسا ہے؟

جواب: جس کے گھر میت ہو جائے اس کی تعزیت کے لئے آنا مسنون ہے اور تعزیت کہتے ہیں زبان سے میت کے گھر والے کو صبر اور تسلی دلانا اور میت کے حق میں دعائے استغفار کرنا۔تعزیت کے لئے جب جس کو سہولت ہو اس وقت آکر تعزیت کرکے چلا جائے۔

تعزیت کے لئے اجتماع اور مجلس کا اہتمام کرنا تاکہ لوگ وہاں جمع ہوں شرعا یہ عمل جائز نہیں ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور عہد صحابہ میں اس طرح کا عمل نہیں ہوتا تھا اس لئے جو عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یا آپ کے اصحاب نے نہیں کیا وہ عمل درست نہیں ہے بلکہ صحابہ کرام میت کے لئے اکٹھا ہونے اور کھانا بنانے کو نوحہ سمجھتے تھے۔

اور پھر جہاں تعزیت کے لئے مجلس قائم کی جاتی ہے پھر وہاں متعدد قسم کی بدعات اور غیر شرعی اعمال بھی انجام دئے جانے لگتے ہیں جیسے دعوت یعنی کھانے کا اہتمام، دینی پروگرام اور اجتماعی دعا کا اہتمام یہ سب غیر شرعی امور ہیں۔

سوال:لوگ گیارہ تیس کو ظہر کے وقت بھی نماز پڑھتے ہیں کیا اس وقت نماز پڑھ سکتے ؟

جواب:سورج نکل کر جب ایک نیزہ بلند ہو جائے اس وقت سے لے کر نصف النہار سے پہلے تک نوافل ادا کر سکتے ہیں اور اسی دوران چاشت کی بھی نماز پڑھی جاتی ہے لہذا اس وقت میں نوافل ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔جب نصف النہار ہو یعنی سورج بالکل سر کے اوپر ہو اس وقت نوافل ادا کرنا منع ہے یہاں تک کہ سورج ڈھل نہ جائے اور سورج ڈھلنے یعنی زوال ہو جانے سے ظہر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔

سوال: کیا ڈائمنڈ پر زکوۃ دی جائے گی، اگر دی جائے گی تو کس طرح دی جائے گی؟

جواب: ہیرے جواہرات پر کوئی زکوۃ نہیں ہے اگر وہ زینت یا استعمال کے لئے ہوں خواہ وہ کتنے ہی قیمتی کیوں نہ ہوں لیکن اگر ہیرے اور جواہرات کی تجارت کی جائے تو سامان تجارت کی حیثیت سے اس کی زکوۃ ادا کرنی ہوگی۔

اصل میں سونا اور چاندی پر زکوۃ ہے جبکہ ہیرے اور جواہرات نہ سونے میں داخل ہیں اور نہ ہی چاندی میں اس لئے سونا یا چاندی کی حیثیت سے اس میں زکوۃ نہیں ہے البتہ ڈائمنڈ تجارت کی غرض سے ہو تو تجارت کے اصول کے تحت زکوۃ دینی ہوگی۔ڈائمنڈ کی تجارت میں زکوۃ کا طریقہ یہ ہے کہ جب سال مکمل ہو تو جتنی مالیت کا ڈائمنڈ ہو اور جو اس تجارت میں منافع ہواہو دونوں ملاکر سال کے آخر میں اس کا ڈھائی فیصد زکوۃ ادا کریں گے اور ہرسال سامان تجارت اور منافع ملاکر زکوۃ اداکریں گے۔

سوال: ہمارے ہمسائے میں ایک آدمی نے اپنے لئے ایک جانور کا صدقہ کیا اور اسکا گوشت ہمیں بھی دیا، کیا وہ گوشت ہم کھا سکتے ہیں؟

جواب: ویسے صدقہ کا بکرا اصل میں فقراء اور مساکین کا حق ہے لہذا اسے محتاج و مسکین میں تقسیم کرنا چاہیے۔اور اگر کوئی صدقہ کے بکرا میں اپنے گھر والے، ہمسایہ اور رشتہ دار کو بھی دینے کی نیت کر لے تو یہ سب لوگ اس بکرے کا گوشت کھا سکتے ہیں یعنی اصل اعتبار نیت کا ہوگا، جیسی نیت ہو اس طرح سے بکرا تقسیم کرنا چاہیے۔ اس بنا پر اگر آپ کو آپ کے پڑوسی نے صدقہ کے بکرا سے گوشت دیا ہے تو اس کے لینے اور کھانے میں حرج نہیں ہے۔

سوال: ہمارے یہاں یعنی لاہور میں گروی گھر لینے کا رواج ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ مکان مالک سال دو سال کے لیے مکان گروی دیتا ہے اور اس کے عوض طے شدہ رقم اکٹھی لیتا ہے۔ وقت مقررہ پر مکان مالک لی ہوئی رقم کرایہ دار کوواپس کر دیتا ہے اور اپنا مکان لے لیتا ہے گویا کہ مکان مہینہ مہینہ کرایہ پر نہیں ہوتا بلکہ اکٹھےگروی  مکان کے لئے پیسہ دیا جاتاہے اورپیسہ دینے والا مکان میں رہتا ہے،کیا یہ مروجہ طریقہ درست ہے؟

جواب:  بعض جگہوں پر یہ طریقہ رائج ہے کہ جس کے پاس مکان ہوتا ہے وہ کرایہ دار سے ایڈوانس کے نام پر موٹی رقم وصول کرتا ہے اور آپس میں یہ بات طے ہوتی ہے کہ جب تک کرایہ دار مکان میں رہے گا اس سے کرایہ نہیں لیا جائے گا اور جب مکان واپس کر دے گا تو مکان مالک لیا ہوا ایڈوانس واپس کر دے گا اور کہیں پر سال دو سال کی میعاد متعین کر لی جاتی ہے۔
یہاں پرکرایہ دار سے مکان مالک ایڈوانس کے نام سے جو رقم وصول کرتا ہے وہ  قرض کے حکم میں داخل ہے۔ اور اسلام میں یہ بات بحیثیت اصول متعین ہے کہ "ہر وہ قرض جو منفعت کا باعث ہو وہ سود ہے"۔گویا اس جگہ ایڈوانس کے نام پر قرض دینے والا، قرض دے کر مکان حاصل کرتا ہے اور اس مکان سے فائدہ اٹھاتا ہے اور مکان مالک بھی اس لئے فائدہ اٹھانے دیتا ہے کیونکہ اسے قرض ملا ہے۔ یہ معاملہ سودی ہے اور حرمت کا حکم رکھتا ہے اس لئے کسی مسلمان کو اپنا گھر اس طرح رقم لے کر دینا جائز نہیں ہے اور نہ ہی کسی کے لئے جائز ہے کہ وہ اڈوانس دے کر اس طرح کا گھر رہنے کے لئے حاصل کرے۔

سوال: اگر شادی کے لئے لڑکی کو اپنی تصویر دینی پڑے تو عبایا والی ہی تصویر دینی ہوگی جبکہ لڑکے والے رشتے کے لئے بغیر عبایا اور اسکارف کے تصویر مانگتے ہیں، ایسے میں کیا کرنا چاہیے؟

جواب: شادی کے لئے اصل میں لڑکی کو اپنی تصویردینی ہی  نہیں دینا چاہیے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ جاندار کی تصویر ہے جو حرمت میں داخل ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس تصویر کو عورتوں کے علاوہ غیر محرم لوگ بھی دیکھیں گے جو کہ شرعا جائز نہیں ہے۔

اور پھر تصویر سے حقیقت کی صحیح عکاسی نہیں ہو پاتی ہے اور کوئی بھی رشتہ صرف تصویر دیکھ کر طے بھی  نہیں ہوتا بلکہ ہر حال میں لڑکی دیکھی جاتی ہے پھر ایسے میں تصویر دینا بھی فضول اور بلا ضرورت ہے اس لئے کوشش یہ ہو کہ تصویر نہ دی جائے لیکن جہاں آدمی تصویر دینے کے لئے مجبور ہو جائے تو مجبوری میں تصویر دی جا سکتی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ لڑکی کی تصویر مکمل پردے میں ہو، ہاتھ اور چہرہ کھلا رکھ سکتی ہے باقی تمام اعضاء اچھے سے ڈھکے ہوئے ہوں۔ اگر کوئی آدمی بغیر عبایا یا بغیر حجاب اور اسکارف کے تصویر مانگتا ہے تو ایسی جگہ کے رشتہ سے انکارکر دینا چاہیے تاکہ غیر شرعی کام نہ کرنا پڑے۔ اور بلاحجاب تصویر مانگنے والے دیندار نہیں ہوسکتے ہیں پھر ایسے بے دینوں کے یہاں کیوں رشتہ کرنا؟

سوال: اس حدیث کی وضاحت فرما دیں۔ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى امْرَأَتَيْنِ تُصَلِّيَانِ، فَقَالَ: إِذَا سَجَدْتُمَا فَضُمَّا بَعْضَ اللَّحْمِ إِلَى الأَرْضِ، فَإِنَّ الْمَرْأَةَ لَيْسَتْ فِي ذَلِكَ كَالرَّجُلِ". (مراسیل أبي داؤد: ص103 باب مِنَ الصَّلاةِ، السنن الکبری للبیهقي: ج2ص223, جُمَّاعُ أَبْوَابِ الاسْتِطَابَة)

ترجمہ : حضرت یزید بن ابی حبیب سے مروی ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں، آپ ﷺ نے فرمایا: جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کا کچھ حصہ زمین سے ملالیا کروکیوں کہ عورت (کا حکم سجدہ کی حالت میں) مرد کی طرح نہیں ہے۔

جواب: اس حدیث کو امام ابو داؤد نے مراسیل میں ذکر کیا ہے، مراسیل مرسل کی جمع ہے اور مرسل ضعیف روایت ہوتی ہے۔شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔(دیکھیں،سلسلہ ضعیفہ: 2652) اس لئے اس سے دلیل نہیں پکڑی جائے گی ۔

حقیقت یہ ہے کہ عورت اور مرد کے سجدہ میں فرق کرنے والی کوئی بھی صحیح مرفوع روایت نہیں ہے اس وجہ سے عورت بھی اسی طرح سجدہ کرے گی جیسے مرد سجدہ کرتا ہے۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ دین میں حجت صرف اللہ اور اس کے رسول کا کلام ہے۔

سوال: ایک عورت کو دو ماہ کا بچہ ہے جس کی وجہ سے ایک مرتبہ اس کی عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں چھوٹ گئیں۔ انہوں نے دوسرے دن عصر کی نماز پڑھنے کے بعد ایک دن پہلے کی عصر بھی قضا کی اور مغرب کی نماز کے بعد چھوٹی ہوئی مغرب کی قضا کی اور عشاء کی نماز کے بعد چھوٹی ہوئی عشاء کی قضا کی تو کیا اس طرح کرنا صحیح ہے؟

جواب:بچے کی مصروفیت کی وجہ سے جس خاتون کے تین وقتوں کی نماز یعنی عصر، مغرب اور عشاء کی نماز چھوٹ گئی تھی۔ اس خاتون کو چاہیے تھا کہ جس وقت فرصت ملی اسی وقت پہلے عصر کی نماز پھر مغرب کی نماز پھر عشاء کی نماز ادا کرتی پھر اگر دوسری نماز کا وقت ہوتا تو وہ نماز ادا کرتی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ کئی نمازیں چھوٹ گئیں تو آپ نے اسی طرح چھوٹی ہوئی قضا نمازوں کو ترتیب سے ادا کیا تھا۔

بہر کیف! جس طرح خاتون نے تینوں نمازوں کو تین الگ الگ نمازوں کے بعد ادا کیا اس سے ان کی قضا نماز ادا ہوگئی لیکن اس نے جو طریقہ اختیار کیا وہ طریقہ غلط تھا۔ اصل میں اس کو پہلی فرصت میں قضا نمازیں ادا کرنی تھیں اور ترتیب سے ادا کرنی تھی لہذا آئندہ کے لیے یاد رہے کہ پہلے چھوٹی ہوئی نماز پڑھے پھر دوسری نماز۔

سوال: دین دار صحیح عقیدے والا لڑکا نہیں مل پا رہا ہے اور میری عمر انتیس سال ہوگئی ہے جس کی وجہ سے والدین ایک ایسے آدمی سے رشتہ لگا رہے ہیں جو دین دار نہیں ہے اور اس کے گھر میں بدعت ہوتی ہے مگر وہ لڑکافاتحہ خوانی نہیں کرتا اور وہ اہل حدیث بھی نہیں ہے ایسی صورت حال میں نکاح سے منع کرنا ٹھیک ہے جبکہ منع کرنے پر والدین کا کہنا ہے کہ اپنا رشتہ خود تلاش کر لو، از راہ کرم میری رہنمائی کریں؟

جواب: شادی کے لئے لڑکے کا عقیدہ درست ہونا اور دیندار ہونا ضروری ہے۔ اگر لڑکے کا عقیدہ  ہی درست نہیں ہے تو پھر اس سے شادی کرنا شرعا جائز نہیں ہے، اس صورتحال میں نہ لڑکی کو ایسی شادی سے راضی ہونا چاہیے اور نہ ہی لڑکی کے والدین کو ایسا رشتہ کرنا چاہیے۔

اللہ تعالی مسبب الاسباب ہے، اس ذات پر بھروسہ رکھیں، وہ ضرور مدد کرے گا۔ والدین کو شرک و بدعت کی خطرناکی اور آخرت میں اس کے نقصان سے آگاہ کریں وہ یقینا آپ کی بات مانیں گے اور اگر آپ کی بات نہ مانیں تو کسی اچھے عالم دین کے توسط سے اپنے والدین کو نصیحت کروائیں۔نیز اللہ تعالی سے اپنے معاملہ میں آسانی کے لئے اور نیک شوہر کے لئے دعائیں بھی کریں خصوصا افضل اوقات میں ۔

دوسری بات یہ ہے کہ شادی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہماری اپنی وجہ سے ہوتی ہے ہم ذات و برادری، حسن و جمال، مال و دولت اور دنیا داری دیکھتے ہیں جس کی وجہ سے شادی میں تاخیر ہوتی ہے۔ میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ کوئی بھی نیک  رشتہ ملے قبول کرلیں خواہ وہ غریب گھرانے سے ہی کیوں نہ ہواور دنیدار شخص کے یہاں دوسری شادی کے طور پر نکاح کرنا پڑے تب بھی اس میں کوئی حرج نہیں محسوس کرنا چاہئے۔

سوال: ایک مولانا مؤکل جن کے ذریعہ ماضی کی ساری خبریں بتا دیتے ہیں کیا یہ صحیح ہے اور ایسے لوگوں کے پاس جانا کس حد تک درست ہے؟

جواب: سب سے پہلے یہ بات سمجھ لیں کہ شیطان  اکثر جھوٹ بولتا ہے اس لئے جو لوگ مؤکل شیطان کے ذریعہ خبریں بتاتے ہیں ان کی اکثر بات جھوٹی ہوگی۔دوسری بات یہ ہے کہ شرعی اعتبار سے کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے قبضے میں جنات و شیاطین رکھے اور ان کی مدد حاصل کرے۔ اور نہ ہی کسی مسلمان کے لیے جائز ہے کہ ایسے کسی مسلمان کے پاس جائے جو غیب کی خبریں بتانے کا دعوی کرے یا اپنے پاس موکل ہونے کا دعوی کرے ایسے لوگوں کے پاس جانا جائز نہیں ہے یہ کفریہ عمل ہے۔ اگر کسی آدمی پر سحر و آسیب ہو تو اپنا علاج قرآن و حدیث میں مذکور مسنون اذکار کے ذریعہ کرے۔ مسنون اذکار کے علاوہ اسلام میں سحر وجادو کا کوئی دوسرا علاج نہیں ہےاس لئے اس بات کو اچھی طرح ذہن نشیں کرلیں اور کسی مولوی یا پیشہ ور عامل کے فریب میں نہ آئیں ۔

سوال: عورت جب  حیض سے پاک ہوگی تو کیا غسل کرکے اسی وقت کی نماز پڑھے گی یا اس سے پہلے والے وقت کی بھی نماز پڑھے گی؟

جواب: حیض سے پاک ہونے والی عورت کے لئے غسل حیض کے بعد مسافر کی طرح دونمازوں کے جمع کرنے کا قاعدہ ہے وہ بھی جمع تاخیر والا قاعدہ ۔اس کی تفصیل تمام نماز کے اوقات کے اعتبار سے مندرجہ ذیل ہے۔

٭ اگر عورت طلوع فجر سے قبل حیض سے پاک ہوتی ہے تو وہ غسل کرکے مغرب وعشاء دونوں نمازیں ادا کرے گی ۔

٭ اگر عورت طلوع فجر کے بعد اور سورج نکلنے سے قبل ، اس دوران کسی وقت پاک ہوتی ہے تو وہ صرف فجر کی نماز ادا کرے گی ۔

٭ اگر طلوع شمس  کے بعدسے لے کر زوال سے پہلے تک کسی وقت پاک ہوتو  یہ  پانچ نمازوں میں سے کسی نماز کا وقت نہیں ہے اس لئے اسے غسل کرکے اس وقت کوئی نماز نہیں ادا کرنا ہے ۔

٭ اگر عورت زوال کے بعد یا عصر سے پہلے پاک ہو تو غسل کرکے صرف  ظہر کی نماز ادا کرے گی۔

٭ اگر عورت عصر کے بعد یا سورج ڈوبنے سے پہلے کسی وقت پاک ہوتو اس صورت میں ظہر وعصر دونوں ادا کرے گی ۔

٭ اگر عورت مغرب کے بعد پاک ہوتو غسل کرکے صرف مغرب کی نماز ادا کرے گی ۔

٭ اوراگرعورت  عشاء کے بعد یا طلوع فجر سے قبل ، اس دوران کسی بھی وقت پاک ہوتوغسل کرکے مغرب وعشاء دونوں نمازیں ادا کرے گی ۔

اس تفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ اگر عورت ایسے وقت میں حیض سے پاک ہورہی ہے جس میں مسافر دو نمازوں کو جمع کرتا ہے تو حیض سے پاک ہونے والی بھی دو نمازوں کو جمع کرکے پڑھے گی اور یہ قاعدہ صرف جمع تاخیر سے متعلق ہے ، جمع تقدیم کے لئے نہیں اس لئے ظہر کے وقت عورت پاک ہوتو صرف ظہر پڑھے گی اور مغرب کے وقت پاک ہو تو صرف مغرب پڑھے گی اور فجر کے بعد پاک ہوتو صرف فجر پڑھنا ہے۔

سوال: ایک عورت کے پاس غلاف کعبہ ہے، وہ پوچھتی ہے کہ کیا اس کی کوئی فضیلت ہے، کیا وہ اس کا بوسہ لے سکتی ہے۔ اس کی آنکھوں میں درد ہوتا ہے تووہ اسے چھوتی اور آنکھوں کو لگاتی ہے ،اس سے  سکون ملتا ہے اور اسی طرح بچوں کو بھی غلاف پکڑ کر دعا کرنے کہتی ہے ، کیا یہ عمل صحیح ہے؟

جواب: اصل میں یہ بدعتیوں کا کارنامہ ہے جو مکہ سے غلاف کعبہ منگاکر اس کے ٹکڑے برکت کی نیت سے اپنے گھروں میں رکھتے ہیں اور تبرک و شفا کی نیت سے اسے چھوتے بھی ہیں۔درحقیقت یہ عمل نہ صرف بے دینی ،جہالت اور ضعیف الاعتقادی ہے بلکہ اس کا تعلق شرک سے بھی جڑ جاتا ہے وہ اس طرح کہ اس ٹکڑا کو نفع پہنچانے کا باعث سمجھا جاتا ہے اور یہ شرک ہے۔

یہ عمل ان بدعتیوں نے شروع کیا جو مصنوعی بال کو نبی ﷺ  کا بال کہتے ہیں اور نبی کے نام پر لوگوں کو اجر کی نیت سے جھوٹے بال کی زیارت کرواتے ہیں۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل بیت کے نام پر متعدد جھوٹی چیزیں ان کی طرف منسوب کرکے اہل بیت کی جھوٹی عقیدت و محبت ظاہر کرتے ہیں، درحقیقت یہ بدعتی لوگ ہیں۔

واضح رہے کہ غلاف کعبہ کی کوئی فضیلت ثابت نہیں ہے، نہ اسے گھر میں رکھنا ہے، نہ اسے پکڑ کر دعا کرنا ہے اور نہ اسے آنکھوں سے لگانا ہے اس لئے جس کسی بہن کے پاس غلاف کعبہ کا ٹکڑا ہو اسے میری نصیحت ہے کہ اس ٹکڑے کو جلاکر ختم کر دیں تاکہ اس کے ذریعہ آپ شرک و بدعت کا شکار نہ ہوں۔ذرا سوچیں کہ جہاں کعبۃ اللہ ہے اور جہاں پر ہر سال غلاف کعبہ تبدیل کیا جاتا ہے وہاں کے لوگوں میں اس طرح خلاف کعبہ کا ٹکڑا تقسیم نہیں کیا جاتا۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ سعودی عرب والے اہل توحید ہیں جبکہ ہندو پاک کی اکثریت بدعتی ہے اس لئے ایسی بدعت کرتے ہیں۔

سوال: ہم دو بہنوں نے ارادہ کیا ہے کہ اپنی بیٹی اس کے گھر اور اس کی بیٹی اپنے گھر میں بیاہ کر لانا ہے اس ڈر سے کہ کہیں باہر رشتہ کرنے میں کوئی دھوکا نہ ہو جائے کیا یہ نکاح اپنی جگہ پر درست ہے؟

جواب: اگر دونوں شادی میں کوئی شرط نہیں ہے یعنی اس شرط کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی نہیں کر رہے ہیں کہ آپ بھی اپنی بہن کی بیٹی سے اپنے بیٹے کا نکاح کریں گے تو اس طرح شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔اصل مسئلہ اس وقت ہے جب شرط کے ساتھ شادی کی جائے اور عموما اس قسم کی شادی شرط کے ساتھ ہی کی جاتی ہے۔

سوال: کیا عبدالاحد نام رکھنا درست ہے اور احد کا معنی اکیلا ہوتا ہے؟

جواب: الاحد اللہ کے اسمائے حسنی میں سے ہے اور یہ سورہ اخلاص کی پہلی آیت میں مذکور ہے۔ اس کا معنی اکیلا ہے اور عبدالاحد نام رکھنا درست ہے۔

سوال:کیا والدہ اپنے بیٹے کی شادی میں حالت عدت میں شریک ہو سکتی ہے جبکہ بیٹے کے والد نے شادی کی تاریخ متعین کی تھی، والد کا انتقال ہو چکا ہے اور لڑکے کی والدہ عدت میں ہے تو کیا ایسی حالت میں شرکت کر سکتی ہے؟

جواب:عدت کے دوران عورت کو گھر سے باہر نکلنے کی ممانعت ہے۔ بیٹے کی شادی میں اس کی ماں اپنے گھر میں رہتے ہوئے شرکت کر سکتی ہے لیکن دوسرے شہر یا گھر سے نکل کر دوسرے گاؤں جانا اس کے لئے جائز نہیں ہے۔ چونکہ یہ عدت وفات ہے اس لئے شادی کے موقع پر اس کےلئے بناؤ سنگار کرنا یا زینت اختیار کرنا بھی جائز نہیں ہے۔

سوال: زید ایم بی بی ایس کی پڑھائی کر رہا ہے اس کے والد کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ روپے ہے۔ سرکار کو اپنی سالانہ آمدنی (60000) دکھا کر زید کے لئے وظیفہ لیتے ہیں، اگر اپنی سالانہ آمدنی ایک لاکھ دکھاتے ہیں تو سرکار وظیفہ نہیں دیگی اور زید کی پڑھائی بند ہوجائے گی۔ کیا ایسی صورت میں سرکار کو کم آمدنی دکھا کر وظیفہ لینا جائز ہے؟

جواب: اسلام میں دھوکہ دینے سے منع کیا گیا ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے:مَن غَشَّنا فليسَ مِنَّا(مسلم:101)

ترجمہ: جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے یعنی دھوکہ دینا مسلمانوں کا شیوہ و شعار نہیں ہے۔اس وجہ سے اگر کوئی آدمی اپنی آمدنی ایک لاکھ کی بجائے 60 ہزار بتاتا ہے تو یہ حکومت کے ساتھ فریب اور دھوکہ ہے لہذا شریعت اس بات کی اجازت نہیں دیتی ہے کہ کوئی تعلیم حاصل کرنے کے لیے حکومت کے ساتھ فریب کرے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔