Monday, January 13, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(31)

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(31)

جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ- سعودی عرب


سوال: روح القدس سے کیا مراد ہے اور کیا یہ دعا پڑھ سکتے ہیں،"اللہم ایدنی بروح القدس"؟

جواب: بخاری میں ایک حدیث ہے، سعید بن مسیب نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مسجد میں تشریف لائے تو حسان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس وقت یہاں شعر پڑھا کرتا تھا جب آپ سے بہتر شخص (آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) یہاں تشریف رکھتے تھے۔ پھر حسان رضی اللہ عنہ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ میں تم سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہو کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے تم نے نہیں سنا تھا کہ اے حسان! (کفار مکہ کو) میری طرف سے جواب دے۔ اے اللہ! روح القدس کے ذریعہ حسان کی تائید کر۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں بیشک (میں نے سنا تھا)۔(صحیح بخاری:3212)

اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے دعا کی ہے، دعا کے الفاظ یہ ہیں۔(اللهم ايده بروح القدس)اے اللہ! حسان بن ثابت کی روح القدس یعنی جبرائیل کے ذریعہ تائید فرما۔

یہاں پر روح القدس سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں اور یہ خاص دعا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی کیونکہ اس وقت جبرائیل علیہ السلام آپ کے پاس آیا کرتے تھے۔ یہ دعا ہم اپنے لئے نہیں پڑھیں گے، ہم اللہ رب العالمین سے براہ راست اپنی دعا کریں گے جیسے اے اللہ ! ہماری مدد فرما۔

سوال: کیا ہم زکوۃ کے پیسوں سے کوئی نیا کاروبار کرکےاس کے منافع سے کوئی فاؤنڈیشن بنا سکتے ہیں جیسے ویلفیئر فاؤنڈیشن جس سے غریبوں کی امداد اور یتیم بچوں کے کچھ کھانے پینے کا انتظام اور ان کی ضروریات پوری کرسکیں۔ اس طرح فاؤنڈیشن بنانے کا ارادہ ہے، کیا زکوۃ کے پیسے اپنے فاؤنڈیشن میں استعمال کر سکتے ہیں؟

جواب:کسی شخص یا کسی ادارے کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ لوگوں کی زکوۃ جمع کرکے اسے کاروبار میں لگائے۔ زکوۃ کا مقصد حاجات اور ضروریات کا پورا کرنا ہے لہذا جو زکوۃ نکالتا ہے وہ زکوۃ کو فورا اس کے مصرف میں استعمال کرے گا جیسے ایک مالدار نے اپنے مال کی زکوۃ نکالی تو وہ فوری طور پر زکوۃ کے مستحقوں میں تقسیم کر دے اور مال زکوۃ کی تقسیم میں ذرہ برابر بھی تاخیر نہ کرے اس لئے زکوۃ کا پیسہ کاروبار میں لگانا اور اس کی منافع سے فاؤنڈیشن قائم کرنا جائز نہیں ہے۔

آپ اگر کوئی فاؤنڈیشن چلاتے ہیں تو لوگوں سے صدقات اور خیرات حاصل کریں کیونکہ نفلی صدقات کا باب وسیع ہے مگر لوگوں کی زکوۃ جمع نہ کریں کیونکہ فاؤنڈیشن والے عموماً زکوۃ کا صحیح استعمال نہیں کرتے۔ہاں اگر فاؤنڈیشن کے علم میں فقراء اور مساکین ہوں تو مال زکوۃ میں نیابت کر سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے اس کی صورت یہ ہو کہ مالداروں سے زکوۃ لے کر مال کی شکل میں ہی فقراء اور مساکین میں زکوۃ تقسیم کر دے اور اس میں اپنی طرف سے کوئی تصرف نہ کرے یعنی زکوۃ سے سامان خرید کر یا کھانے پینے کی چیز بناکر نہ پیش کرے بلکہ مال کی زکوۃ مال کی شکل میں ادا کرے اور اسے کسی کاروبار میں نہ لگائے۔

بہتر یہی ہے کہ فاؤنڈیشن زکوۃ وصول نہ کرے بلکہ عطیات سے دینی کام کرے اور اگر زکوۃ والے اس کے پاس آئیں تو فقراء اور مساکین کی پہچان بتاکر ان مالداروں کو براہ راست فقراء اور مساکین سے ملوادے تاکہ ڈائریکٹ ان محتاجوں کی ضرورت پوری ہو اور فاؤنڈیشن زکوۃ میں امانت داری برت سکے تو جیسے اوپر بتایا گیا ہے اس حساب سے عمل کرے۔

سوال: محرم اور نامحرم کے مسئلہ میں میرے لئے ایک دقت یہ ہے کہ سفر کرتے ہوئے بعض اوقات ممبئی میں سگنل پر خواجہ سرا مانگنے آجاتے ہیں اور جب انہیں کچھ دیا جائے تو وہ سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دیتے ہیں مگر مجھے چھونے والی یہ حرکت عجیب لگتی ہے اس کے باوجود میں اس لئے نہیں بول پاتی  ہوں کہ انہیں کچھ کہہ دینے سے جلدی برا مان جاتے ہیں ایسے میں خواجہ سرا کے چھونے سے متعلق ہمارے لیے کیا حکم ہے؟

جواب: خواجہ سرا کی جنس سے متعلق دو باتیں ہیں۔ اگراس میں مردوں کی علامات ظاہر ہیں تو اس کے لئے مردوں جیسے احکام ہیں اور اگر اس میں عورت جیسی علامات ظاہر ہیں تو اس کے لئے عورتوں جیسے احکام ہیں۔

اس لحاظ سے اگر کوئی مرد خواجہ سرا ہے تو وہ لباس پہننے میں اور معاملات کرنے میں مردوں جیسا معاملہ کرے گا جیسے عام مردوں کے احکام ہیں اور اگر عورت خواجہ سرا ہے تو لباس اور معاملات میں عورتوں جیسا معاملہ کرے جیساکہ عام عورتوں کے احکام و مسائل ہیں۔ شریعت کے اس اصول کو مدنظر رکھ کر خواجہ سرا کے ساتھ معاملہ کیا جائے یعنی اگر عورت خواجہ سرا ہے تو عورت کے سر پہ ہاتھ رکھ سکتی ہے لیکن اگر مرد خواجہ سرا ہے تو وہ عورت کے سر پر ہاتھ نہیں رکھ سکتا ہے۔ اور ہمیں حق بات کسی کو بتانے میں جھجھکنا نہیں چاہیے کیونکہ یہ دین اسلام کا مسئلہ ہے۔

سوال: جب ہم چار رکعت فرض پڑھتے ہیں تو پہلی دو رکعت کے قعدہ میں التحیات کے ساتھ درود شریف بھی پڑھنا چاہیے؟

جواب: نماز کے پہلے تشہد میں صرف التحیات پڑھنا ہے، درود پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر کوئی درود پڑھ لے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے تاہم درود کو ضروری نہ سمجھے، فقط التحیات پڑھنا کافی ہے۔

سوال: آج کل عام طور سے تمام معاملات آن لائن ہو رہے ہیں تو اس کا اثر دینی معاملات پر بھی پڑ رہا ہے جیسے آن لائن تجوید، آن لائن قرآن، آن لائن حجاب شاپنگ اور آن لائن عالمیت کورس وغیرہ۔ ماحول کے حساب سے کچھ والدین کا مطالبہ ہوتا ہے کہ ہماری بچیوں کو اس طرح پڑھائیں کہ وہ بوریت محسوس نہ کریں بلکہ دلچسپی سے تعلیم حاصل کریں۔ ایسے میں کیا ہم کورس ایڈورٹائزنگ اور شاپنگ ایڈورٹائزنگ کے لئے اے آئی ڈیجیٹل، اے آئی تھری ڈی، اے آئی کریٹڈ کارٹونز کی مدد سے فوٹو یا ویڈیو ایڈٹ کر سکتے ہیں جیسے کارٹونز، اینیمیز، فیسلس(بغیر چہرے والا)، ودفیس(چہرے والا)، حجابی اور نقابی فوٹوز وغیرہ؟

جواب: بچے اور بچیوں کی تعلیم کے لئے ذمہ داروں کی خواہش کو نہیں دیکھا جائے گا بلکہ شرعی تقاضوں کو دیکھا جائے گا اس لئے اگر زمانے میں بے حیائی اور بے پردگی عام ہو رہی ہو، خواہشات نفس کو ہوا مل رہی ہے تو ہم لوگوں کی کہ ایسی نفسانی خواہشات کے تقاضے کو پورا کرتے ہوئے بچوں کو شرعی تعلیم نہیں دیں گے بلکہ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے تعلیم دیں گے۔اور اس معاملہ میں ذمہ داروں سے کہیں آگے ادارے والے یا پڑھانے والے خود ہیں، ان کی مرضی ہوتی ہے کہ ہم لوگوں کو ان کی خواہشات یا زمانے کے حساب سے تعلیم دیں تاکہ زیادہ سے زیادہ بچے ہمارے یہاں علم سیکھنے کے لئے آئیں گویا اس معاملہ میں سرپرستوں سے زیادہ خطاکار تعلیم دینے والے خود ہیں جو بچے اور بچوں کی تعلیم میں غیر شرعی امور انجام دیتے ہیں۔ اس کی بہت ساری مثالیں ہیں جیسے مدرسوں میں مختلف قسم کے ایام منانا، بچے اور بچیوں سے رقص کروانا، ان سے ڈرامے کروانا اور تلاوت یا نظم میں ایکشن اور حرکت کے ساتھ رقص کروانا، جوان بچیوں کی تعلیمی ویڈیوز بناکر سوشل میڈیا پر نشر کرنا وغیرہ۔

زمانے کی ترقی سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں مگر شرعی اصول کے تحت ، یہاں بچے اور بچیوں کی تعلیم کے لئے سوال میں جس قسم کی تصاویر اور ویڈیوز بنانے کا ذکر ہے، یہ سارے غیر شرعی امور ہیں کسی معلمہ کے لئے شرعا یہ جائز نہیں ہے کہ بچوں کی تعلیم و تعلم اور ان کی تربیت کے لئے جاندار پر کسی قسم کی تصاویر یا ویڈیوز تیار کرے۔معلمات سے میری گزارش ہے کہ آپ دنیا کے فتنوں کا شکار نہ بنیں، تعلیم کے نام پر غیر مسلموں اور مغربی تہذیب کی نقالی نہ کریں بلکہ شرعی علوم، شرعی حدود میں رہ کر ہی پڑھائیں۔ آپ اپنے مدارس سے بچیوں کو صالحہ خاتون بنانا چاہتے ہیں تو صالحیت پر ان کی تربیت و تعلیم کا انتظام کریں، کارٹون، اینیمیز ، ویڈیوز اور ڈراموں سے بچوں کے کردار پر منفی اثر پڑے گا۔

سوال: حدیث کی چھ مشہور کتابوں میں موجود تمام احادیث صحیح ہیں یا کچھ ضعیف بھی ہیں؟

جواب: حدیث کی مشہور چھ کتابوں میں صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی تمام احادیث صحیح ہیں جبکہ بخاری اور مسلم کے علاوہ چار کتب احادیث (ابوداؤد ، نسائی ، ترمذی ، ابن ماجہ)میں صحیح اور ضعیف دونوں قسم کی روایات ہیں۔

جب آپ کہیں پر صحیح بخاری یا صحیح مسلم کا حوالہ دیکھیں تو آپ سمجھ جائیں کہ یہ حدیث صحیح ہے لیکن جب کہیں پر بخاری اور مسلم کے علاوہ دیگر چار کتب احادیث سے کوئی حدیث اور اس کا حوالہ ملے تو اہل علم سے اس حدیث کا حکم جاننے کی کوشش کریں کہ وہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف ہے۔ جو صحیح حدیث ہو اس پر عمل کریں اور جو ضعیف حدیث ہو اس پر عمل نہ کریں۔ یہاں پر ایک اور بات ذہن میں رکھیں کہ سوشل میڈیا پر بہت ساری حدیثوں کا حوالہ غلط ملے گا اس لئے حوالہ کی تحقیق ضرور کریں بلکہ بسا اوقات ایک جھوٹی بات پر حدیث کا حوالہ دے دیا جاتا ہے جبکہ وہ حدیث ہی نہیں ہوتی اور حوالہ بھی جھوٹا ہوتا ہے۔

سوال: کیا حیض کی مدت کے دوران پہلے دن سے آخر دن تک کسی بھی رنگ یا شکل کا خون حیض ہی شمار ہوگا؟

جواب: حیض کا اصل رنگ سیاہی مائل ہوتا ہے مگر حیض کے دوران جس طرح کا بھی خون آئے وہ سب حیض ہی میں شمار ہوگا بشرطیکہ مسلسل اور متصلا خون آئے یعنی حیض کے جتنے ایام ہیں ان تمام ایام میں لگاتار خون آئے، حیض ہی کہلائے گا۔ اور اگر حیض سے پاکی حاصل ہونے کے بعد کچھ داغ دھبے ظاہر ہوں تو اسے حیض نہیں مانا جائے گا۔

سوال: غسل جمعہ، غسل حیض اور غسل جنابت میں کیا فرق ہے؟

جواب: غسل جمعہ، غسل حیض، غسل جنابت، غسل نفاس اور غسل عیدین یہ تمام قسم کے غسل کا طریقہ ایک ہی ہے جسے غسل جنابت کہتے ہیں۔ غسل جنابت میں پہلے نماز کی طرح وضو کرنا پڑتا ہے اور پھر پورے بدن پر پانی بہایا جاتا ہے، یہ غسل کا کامل اور افضل طریقہ ہے۔غسل کا ایک کفایتی طریقہ بھی ہے جس میں کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کے بعد پورے بدن پر پانی ڈالا جائے گا۔

اس سلسلے میں، میں نے دلائل کی روشنی میں تفصیل سے غسل کا مسنون طریقہ بیان کیا ہے لہذا اس بارے میں مفصل جانکاری کے لئے غسل سے متعلق میرا مضمون پڑھیں جو میرے بلاگ پر موجود ہے۔

سوال: کیا اپنے وطن کو چھوڑ کر بیرون ملک جاکر کمانا ہے یا کانونٹ یا گورنمنٹ اسکول میں عربی کا استاد بن کر تعلیم دیناہے دین سے دنیا کمانا کہلائے گا؟

جواب:ایک معمولی ذہن والے کے دل میں بھی اس قسم کا خیال نہیں پیدا ہوگا کہ بیرون ملک کمانا یا اسکول میں عربی پڑھانا دین سے دنیا کمانا کہلائے گا۔ایک  حدیث میں ہے کہ فتنوں کے زمانے میں آدمی صبح کے وقت مومن ہوگا اور شام میں کافر ہوگا یا شام میں مومن ہوگا اور صبح ہوتے ہوتے کافر ہو جائے گا، ایسے وقت میں لوگ دین کو دنیاوی سامان کے بدلے بیچیں گے۔ (صحیح مسلم:118)
اس سے مراد یہ ہے کہ دنیا کے سامان کے بدلے دین کو چھوڑ دیں گے۔ اس کی ایک مثال یہ ہو سکتی ہے جیسے لوگ دنیاوی کام کاج میں اس طرح مصروف ہو جاتے ہیں کہ نماز چھوڑ دیتے ہیں، جب ان سے کہا جاتا ہےکہ  نماز کیوں نہیں پڑھتے تو وہ کہتے ہیں کہ چھٹی نہیں ملتی گویا دنیا کے بدلے یہاں پر اس بندے نے دین کو چھوڑ دیا ہے۔ رزق کمانے کے لیے بیرونی ملک جانا یا اسکول اور کالج میں پڑھانا دنیا طلبی یا دین سے دنیا کمانا نہیں کہلائے گابشرطیکہ کہ وہ دین کا پاس ولحاظ رکھتا ہو۔ ہاں اگر کوئی اسکول یا کالج میں پڑھانے کے لیے دین چھوڑ دے یا بیرونی ملک روزگار حاصل کرنے کے لیے دین کو داؤ پر لگا دے تو ایسی صورت میں اس عمل کو دین کے بدلے دنیا کمانا کہا جا سکتا ہے اور یہ ایک خاص صورت ہے۔

سوال: مسجدالحرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ گنا ہے جبکہ مسجد نبوی اور مسجد اقصی کے بارے میں مختلف روایات ملتی ہیں، اس میں صحیح کیا ہے؟

جواب: تین مبارک مساجد جن کی طرف عبادت کی نیت سے سفر کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، ان میں نماز پڑھنے کی فضیلت اس طرح ہے۔مسجد حرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نماز کے برابر ہے۔مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار نماز کے برابر ہے۔مسجد اقصی میں ایک نماز کا ثواب ڈھائی سو نماز کے برابر ہے۔

سوال: جب کسی گروپ میں وفات کی پوسٹ شیئر کی جاتی ہے تو لوگ مختلف قسم کے اسٹیکرز بھیجتے ہیں جیسے(انا للہ وانا الیہ راجعون ) یا (اللھم اغفرلہا) یا ( اللھم اغفرله) وغیرہ۔ یہاں پر میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس عمل کی بجائے سورہ فاتحہ پڑھ کر اس کے لئے دعائے مغفرت کرنی چاہیے یا نماز کے بعد دعا مانگتے ہوئے سورہ فاتحہ پڑھ کر مغفرت کی دعا کرنی چاہیے اور دعا میں سورہ فاتحہ پڑھنا کیسا ہے؟

جواب: اگر کسی گروپ میں کسی کے انتقال کی خبر نشر کی گئی ہو تو اس کے حق میں دعائیہ کلمات لکھ سکتے ہیں یا دعائیہ کلمات سے متعلق اسٹیکرز بھیج سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے مگر یہ طریقہ غلط ہے کہ کوئی سورہ فاتحہ پڑھ کر میت کی مغفرت کی دعا کرے اور اسی طرح دعا کرتے وقت سورہ فاتحہ پڑھنا اس کے بعد دعا کرنا یہ بدعتی طریقہ ہے، یہ طریقہ قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے۔آپ جب دعا کریں تو پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کریں پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجیں اس کے بعد اپنی ضرورت سے متعلق دعا مانگیں۔

سوال: کیا ایک وقت پر دو نکاح ہو سکتے ہیں جیسے دو مرد اور دو عورتوں کی شادی ہے تو ان دونوں کا نکاح ایک وقت میں ایک ہی خطبہ سے ہو سکتا ہے یا الگ الگ خطبہ ہونا چاہیئے؟

جواب: نکاح کے لئے خطبہ پڑھنا ضروری نہیں ہے، بغیر خطبہ پڑھے نکاح ہو سکتا ہے۔ نکاح میں اصل ولی کی رضا مندی کے ساتھ اور دو عادل گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کرایا جائے نکاح ہوجائے گا۔ خطبہ پڑھنا کوئی ضروری نہیں ہے اس لئے ایک وقت میں دو نہیں، دو ہزار نکاح ہوسکتا ہے اور کسی بھی نکاح کے لئے خطبہ پڑھنا ضروری نہیں ہے، صرف ایجاب و قبول کافی ہےتا ہم خطبہ پڑھنا بہتر ہے۔

جب کہیں پر دو لڑکی اور دو لڑکے کا نکاح ہونا ہو تو نکاح خواں(ولی، دو عادل گواہان اور تعین مہرکے ساتھ) ایک خطبہ دے کر دونوں لڑکوں سے ایجاب و قبول کرالے، یہی کافی ہے اس طرح دونوں کا نکاح ہو جائے گا۔

سوال:اگر حج یا عمرہ کے وقت بچہ ساتھ ہو تو جس نے بچے کی طرف سے نیت کی ہے، اسے طواف کے بعد بچے کی طرف سے دو رکعت نماز بھی ادا کرنی ہے؟

جواب: اگر بچہ ہوش مند ہے اور نماز پڑھ سکتا ہے تو طواف کی ادائیگی کے بعد بچے کا ذمہ دار بچے کو دو رکعت نماز پڑھنے کے لئے کہے گا لیکن اگر بچہ ہوش مند نہ ہو اور نماز نہ پڑھ سکتا ہو تو نماز چھوڑ دی جائے گی اور بچے کی طرف سے کوئی دوسرا آدمی طواف کی نماز نہیں ادا کرے گا۔

سوال:کیا دین کا علم حاصل کرنا فرض کفایہ ہے یا فرض عین ہے اور خواتین کی اس میں کیا ذمہ داری ہے، کیا شوہر کی اجازت کے بغیر بھی وہ اس کے لئے گھر سے نکل سکتی ہے یا وہ گناہ گار ہوگی؟

جواب: شریعت کے بنیادی علوم کا حاصل کرنا تمام مرد و عورت پر فرض عین ہے یعنی ہرکسی کوشرعی علم حاصل کرنا فرض ہے اور علم حاصل کرنے کی ایک عمر ہوتی ہے۔ جب لڑکی کی شادی ہو جائے اب وہ اپنے شوہر کی ماتحتی میں ہے لہذا وہ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے قدم باہر نہیں نکال سکتی ہے۔تعلیم حاصل کرنے کا اصل وقت شادی سے پہلے کا ہے، اگر والدین نے شادی سے پہلے لڑکی کو شرعی تعلیم نہیں دلائی تو والدین گناہ گار ہوں گے۔ کچھ سالوں کے بعد بچوں کو بھی شعور پیدا ہو جاتا ہے، اگر ماں باپ نے تعلیم نہیں دی تو شعور ہونے کے بعد لڑکی کو خودبھی  تعلیم کی فکرکرنی تھی ۔

بہرحال! اگر کسی لڑکی کو ذرہ برابر بھی شرعی علم نہ ہو اور اس کی شادی ہو جائے تو ایسے موقع پر شوہر کے مشورے سے جس طرح سے تعلیم حاصل کرنا آسان ہو اس پر عمل کیا جائے گا، آج گھر بیٹھے بھی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں لہذا اس معاملے میں شوہر کی اجازت اور اس کی خوشی سے اس کے مطابق عمل کرے۔

سوال: جو عورت تعلیم یافتہ ہو کیا وہ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر دوسروں کو تعلیم دے سکتی ہے اور یہ تعلیم دینا عورت کے حق میں فرض عین یا فرض کفایہ ہے؟

جواب: عورت کا اصل مقام اس کا گھر ہے یعنی عورت کو اپنے شوہر کے گھر میں سکونت اختیار کرنا ہے اور اس کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہیں نکلنا ہے۔ اگر اللہ تعالی نے کسی عورت کو علم سے نوازا ہے تووہ  اپنے گھر اور اپنے رشتہ داروں کو تعلیم دے، اس کے حق میں یہی کافی ہے اور اگر گھر سے باہر نکل کر تعلیم دینا فتنے سے خالی ہو اور شوہر اجازت دے رہا ہو تو پھر وہ باہر نکل کر بھی تعلیم دے سکتی ہے مگر شوہر منع کر دے تو پھر اسے گھر سے باہر نہیں جانا ہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالی نے تبلیغ کے لئے مردوں کو بھیجا، عورتوں کو منتخب نہیں کیا کیونکہ عورت کا اصل مقام اس کا گھر ہے اور اسی میں عورت کے لیے فتنے سے حفاظت ہے۔ تعلیم یافتہ عورت اپنے گھر اور قرب و جوار کی عورتوں میں تعلیم اور دعوت کا کام کرے اور جب شوہر کی اجازت حاصل ہو تو مامون جگہ پر گھر سے باہر نکل کر بھی تعلیم دے سکتی ہے۔

سوال: رقیہ شرعیہ کا معنی و مفہوم اور اسکے فوائد کیا ہیں اور کیا روزانہ رقیہ شرعیہ پڑھا جاسکتا ہے؟

جواب: قرآن اور حدیث کے مطابق تکلیف کے وقت دم کرنے کو رقیہ شرعیہ کہا جاتا ہے اور یہ روزانہ یا ہر وقت نہیں کیا جائے گا۔ دم کا تعلق تکلیف سے ہے، جب آپ کے جسم میں آپ کو تکلیف محسوس ہو اس وقت دم کریں گےجیسے مرض الموت کی تکلیف کے وقت رسول اللہ ﷺ اپنے اوپر دم کررہے تھے اس لئے روزانہ یہ عمل نہیں کیا جائے گا۔

سوتے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دم کرکے سویا کرتے تھے، یہ سونے کے اذکار میں سے ہے اس لئے سونے کے وقت جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کیا ہے ، اس طرح عمل کریں گے اور صبح و شام کے جو اذکار ہیں یا سونے کے اذکار ہیں ان کی پابندی کی جائے گی۔ اس سے اجر وثواب بھی ملتے ہیں، گناہ بھی ختم ہوتے ہیں اورجن وشیاطین سے حفاظت کے ساتھ  روحانی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔

سوال: ایک حدیث میں ہے کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے اوپر چھ حقوق ہیں۔ ان میں سلام کا جواب دینا اور چھینک کا جواب دینا بھی ہے۔ اس جگہ سوال یہ ہے کہ کیا ایک مرد، عورت کی چھینک اور سلام کا جواب دے سکتا ہے؟

جواب: سوال میں مذکور ہے کہ ایک مرد ، عورت کی چھینک کا جواب یا سلام کا جواب دے سکتاہے؟سلام کے مسئلہ میں  سوال یہ ہونا چاہیے کہ کیا عورت مرد کو سلام کر سکتی ہے، اصل سوال یہ ہونا چاہیے ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ جہاں سلام کرنے میں کسی قسم کے فتنے کا اندیشہ نہ ہو وہاں  عورت ، مرد سے سلام کر سکتی ہے جیسے اپنے محرم سے یا معمر مرد سے یا مردوں کی جماعت پر۔ اور جہاں فتنے کا اندیشہ ہو وہاں عورت مرد سے سلام نہیں کرے گی جیسے جوان اجنبی مرد سے۔ یہی مسئلہ مردوں کے لئے بھی ہے کہ وہ بھی عورت سے اسی وقت سلام کرے گا جب کسی قسم کے فتنے کا اندیشہ نہ ہو۔ اور چھینک کے معاملہ میں بھی عورت احتیاط سے کام لے گی۔ جہاں اجنبی مرد ہوں وہاں عورت چھینک آنے پر الحمدللہ آہستہ کہے تاکہ اس کی آواز اجنبی مردوں تک نہ جائے اور جہاں محرم مرد ہو تو وہاں کوئی مسئلہ نہیں ہے اور ایسی جگہ پر محرم مرد جواب بھی دے سکتے ہیں۔

سوال: جب عورت خلع لے تو کیا اس کی عدت ہوگی؟

 جواب: جب عورت خلع لے اور خلع واقع ہو جائے تو اس کو لازما ایک حیض عدت گزارنی ہوگی یعنی خلع کے بعد ایک حیض آئے اور حیض سے پاکی حاصل ہو جائے تو اس کی عدت مکمل ہو جائے گی۔

سوال: ایک خاتون کا سوال ہے کہ کیا ہم اپنے کپڑے یا تولیہ باتھ روم میں لٹکا سکتے ہیں کیونکہ اس کوکسی نے کہا ہے کہ باتھ روم میں شیاطین ان کپڑوں اور تولیوں میں گھس جاتے ہیں اور انسان پر چڑھ دوڑتے ہیں؟

جواب: گھر میں، باتھ روم میں، کہیں پر بھی آپ اپنا کپڑا لٹکا سکتے ہیں اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے اور اس میں کوئی شیطان نہیں گھستا، نہ شیطان انسان پر چڑھ دوڑتا ہے۔ شیطان اس پر چڑھتا ہے اور سوار ہوتا ہے جو بے دین ہوتا ہے، بے عمل ہوتا ہے اور اللہ کے ذکر سے غافل ہوتا ہے۔اس لئے جس کسی نے یہ بات کہی ہے کہ باتھ روم میں کپڑا لٹکانے سے شیاطین اس میں گھس جاتے ہیں اور انسان پر سوار ہو جاتے ہیں اس نے جھوٹ بولا ہے۔

اصل میں اپنے سماج میں پیسہ کمانے والے فریبی اور مکار عاملین بڑی تعداد میں موجود ہیں جو انسانوں کو اللہ سے ڈرانے کی بجائے شیاطین سے ڈراتے ہیں اور عبادت واعمال صالحہ کی ترغیب دینے  کی بجائے جھوٹی بات بتاتے ہیں کیونکہ انہیں لوگوں کو ڈراکر باطل طریقے سے مال کمانا ہے۔ آپ کبھی پیشہ ور راقیوں، پیشہ ور عاملوں اور پیشہ باباؤں کے پاس نہ جائیں اور نہ ایسے لوگوں کی باتوں پر کبھی اعتبار کریں۔

سوال: حضرت جابر سے روایت ہے کہ سید نا رسول اللہ صلی علیہ اسلام نے فرمایا:يَفْتَقِدُ أَهْلُ الْجَنَّةِ نَاسًا كَانُوا يَعْرِفُوْنَهُمْ فِي الدُّنْيَا، فَيَأْتُونَ الْأَنْبِيَاءَ فَيَذْكُرُونَهُمْ ، فَيَشْفَعُوْنَ فِيْهِمْ فَيُشْفَعُوْنَ، فَيُقَالُ لَهُمْ : الظُّلَقَاءُ، وَكُلُّهُمْ طلقَاءُ، يُصَبُّ عَلَيْهِمْ مَّاءُ الْحَيَاةِ.(المعجم الاوسط:3044، مجمع الزوائد:18529)
ترجمہ: اہل جنت دنیا میں جان پہچان والے کچھ لوگوں کو جنت میں نہ پاکر انبیاء کرام علیہم السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر ان لوگوں کا ذکر کریں گے ، انبیاء کرام علیہم السلام ان کی شفاعت کریں گے اور ان کی شفاعت مقبول ہو گی ، ان نجات پانے والوں کو طلقاء یعنی آزادی پانے والےکہاجائے گا اور وہ سب آزادی پانے والے ہوں گے ،ان پر آب حیات ڈالا جائے گا تاکہ جہنم کی آگ سے متاثر ہونے والے اعضا صاف شفاف ہو جائیں۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟

جواب:طبرانی کی یہ روایت ہے اور اسے ہیثمی نے حسن قرار دیا ہے یعنی یہ حدیث قابل حجت ہے۔ اس میں انبیاء کی شفاعت کا ذکر ہے اور شفاعت سے متعلق متعدد اقسام کی احادیث ہیں۔ صحیح مسلم کی ایک طویل حدیث کا ایک ٹکڑا پڑھیں جس میں جہنم سے نکالے جانے کا ذکر ہے۔ جب مومن آگ سے خلاصی پالیں گے تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں جان ہے! تم میں سے کوئی پورا پورا حق وصول کرنے (کے معاملے) میں اس قدر اللہ سے منت اور آہ وزاری نہیں کرتا جس قدر قیامت کے دن مومن اپنے ان مسلمان بھائیوں کے بارے میں کریں گے جو آگ میں ہوں گے۔ وہ کہیں گے: اے ہمارے رب!وہ ہمارے ساتھ روزے رکھتے، نمازیں پڑھتے اورحج کرتے تھے۔ تو ان سے کہا جائے گا: تم جن کو پہچانتے ہو انہیں نکال لو، ان کی صورتیں آگ پر حرام کر دی گئی ہوں گی۔ تو وہ بہت سے لوگوں کونکال لائیں گے جن کی آدھی پنڈلیوں تک یا گھٹنوں تک آگ پکڑ چکی ہوگی، پھر وہ کہیں گے: ہمارے رب! جنہیں نکالنے کا تو نے حکم دیا تھا ان میں سے کوئی دوزخ میں نہیں رہا۔ تو وہ فرمائے گا: واپس جاؤ، جس کےدل میں دینار بھر خیر (ایمان) پاؤ اس کو نکال لاؤ تو وہ بڑی خلقت کو نکال لائیں گے، پھر کہیں گے: ہمارے رب! جنہیں نکالنے کا تو نے حکم دیا تھا ان میں سے کسی کو ہم دوزخ میں نہیں چھوڑا۔ وہ پھر فرمائے گا: واپس جاؤ، جس کے دل میں آدھے دینار کے برابر خیر پاؤ اس کو نکال لاؤ تو وہ (پھرسے) بڑی خلقت کو نکال لائیں گے، پھر وہ کہیں گے، ہمارے رب! جنہیں نکالنے کا تو نےحکم دیا تھا ہم نے ان میں کسی کو دوزخ میں نہیں چھوڑا۔ وہ پھر فرمائے گا: واپس جاؤ، جس کے دل میں ایک ذرے کے برابر خیر پاؤ اس کو نکال لاؤ تووہ کثیر خلقت کو نکال لائیں گے، پھر وہ کہیں گے: ہمارے رب! ہم نے اس میں کسی صاحب خیر کو نہیں چھوڑا۔ اس کے آگے مزید گنہگاروں کے جہنم سے نکالے جانے کے بارے میں جاننے کے لئے اس حدیث کو صحیح مسلم میں پڑھیں۔ (ترقیم فوادعبدالباقی: 183)

سوال:نکاح شغار یعنی وٹہ سٹہ کی شادی کس صورت میں منع ہے، کیا حق مہر مقرر نہ کیا جائے تو منع ہے اور اگر حق مہر کے ساتھ نکاح ہو رہا تو یہ جائز ہے؟

جواب:کوئی اپنی بہن یا بیٹی کی شادی اس شرط پر کرے کہ دوسرا بھی اپنی بہن یا بیٹی کی شادی کرے گا یہ نکاح شغار ہے۔ اس نکاح میں خواہ مہر مقرر کیا گیا ہو یا مہر مقرر نہیں کیا گیا ہو، دونوں صورت میں یہ نکاح شغار ہے اور نکاح شغار سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا:نهى رَسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم عن الشِّغارِ. زَادَ ابْنُ نُمَيْرٍ: وَالشِّغَارُ أَنْ يَقُولَ الرَّجُلُ لِلرَّجُلِ: زَوِّجْنِي ابْنَتَكَ وَأُزَوِّجُكَ ابْنَتِي، أَوْ زَوِّجْنِي أُخْتَكَ وَأُزَوِّجُكَ أُخْتِي(صحيح مسلم:1416)

جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع فرمایا۔ ابن نمیر نے اضافہ کیا: شغار یہ ہےکہ ایک آدمی دوسرے سے کہے: تم اپنی بیٹی کا نکاح میرے ساتھ کر دو اور میں اپنی بیٹی کا نکاح تمہارے ساتھ کرتا ہوں۔ اور تم اپنی بہن کا نکاح میرےساتھ کر دو میں اپنی بہن کا نکاح تمہارے ساتھ کرتا ہوں۔

یہ روایت عام ہے اس میں مہر والی بات مذکور نہیں ہے اس لئے اس روایت کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ نکاح شعار میں مہر متعین کر دیا جائے تب بھی وہ ممنوع ہے۔ ابن عمر سے مروی صحیح بخاری میں ایک روایت اس طرح آئی ہے۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا:أنَّ رَسولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ نَهَى عَنِ الشِّغَارِ قُلتُ لِنَافِعٍ: ما الشِّغَارُ؟ قالَ: يَنْكِحُ ابْنَةَ الرَّجُلِ ويُنْكِحُهُ ابْنَتَهُ بغيرِ صَدَاقٍ، ويَنْكِحُ أُخْتَ الرَّجُلِ ويُنْكِحُهُ أُخْتَهُ بغيرِ صَدَاقٍ (صحیح البخاری:6960)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع فرمایا۔ میں نے نافع سے پوچھا شغار کیا ہے؟ انہوں نے کہا یہ کہ کوئی شخص بغیر مہر کسی کی لڑکی سے نکاح کرتا ہے یا اس سے بغیر مہر کے اپنی لڑکی کا نکاح کرتا ہے پس اس کے سوا کوئی مہر مقرر نہ ہو۔

اس میں بتایا گیا ہے کہ نکاح شغار یہ ہے کہ کوئی اپنی بیٹی یا اپنی بہن کی اس شرط پر شادی کرے کہ دوسرا بھی اپنی بیٹی یا بہن کی شادی کرے گا بغیر مہر کے۔ گویا اگر کسی مشروط شادی میں مہر نہ رکھا گیا ہو تب بھی نکاح شغار میں داخل ہے اور اگر مہر طے کر لیا جائے تب بھی نکاح شغار میں داخل ہے جیساکہ پہلی حدیث بتاتی ہے۔

سوال: کیا کوئی بھی کسی فوت شدہ کی طرف سے عمرہ بدل کرسکتا ہے یا میت کے خاندان سے ہونا ضروری ہے اور کسی دوسرے سے کرواتے وقت اسے پیسہ دینا کیسا ہے؟

جواب:میت کی طرف سے حج بدل کوئی بھی دوسرا آدمی کر سکتا ہے ، خاص میت کے خاندان سے ہونا کوئی ضروری نہیں ہے جیسے حج بدل ہوتا ہے یعنی کوئی بھی میت کی طرف سے حج بدل کر سکتا ہے خواہ اس کے خاندان کا ہو یا نہیں ہو۔ اس میں ضروری شرط یہ ہے کہ جو حج بدل یا عمرہ بدل کرے گا اس نے پہلے اپنا حج یا عمرہ کر لیا ہو۔ اور جب دوسرے سے عمرہ کروایا جاتا ہے تو عمرہ کا خرچہ دینا پڑے گا۔

سوال: مجھے ایک رشتہ دار نے ولیمہ کی دعوت دی ہے اور کہا ہے کہ ہم اس میں گانے نہیں بجائیں گے ۔ جب آپ لوگ چلے جائیں گے تب گانے وغیرہ جو ہوگا ہم کریں گے، کیا اس دعوت میں شریک ہوسکتے ہیں؟

جواب:ولیمہ کرنا سنت ہےاور اگر کوئی ولیمہ کی دعوت دے تو اس کا قبول کرنا واجب ہوجاتا ہے اس لئے ولیمہ کی دعوت کھانے میں حرج نہیں ہے۔ جہاں تک گانا بجانے کا مسئلہ ہے تو آپ اپنا فریضہ ادا کر دیں  اور ولیمہ کرنے والے سے کہیں کہ گانا بجانے کا تعلق صرف میرے ہونے یا نہ ہونے سے نہیں ہے بلکہ کبھی بھی گانا نہیں بجانا چاہیے، یہ گناہ کا کام ہے۔ باقی آپ دعوت میں شریک ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ دعوت مسنون ہے ۔

سوال: ہندوستان میں گائے و بھینس کے گوشت پر پابندی ہے تو کیا حکومت سے چرا کر گوشت کھانا جائز ہے؟

جواب:اسلام میں گائے اور بھینس کا گوشت کھانا حلال ہے اس لئے مسلمان گائے اور بھینس کا گوشت کھاسکتے ہیں۔ اگر ہندوستان میں حکومت نے ان کے ذبیحہ پر پابندی لگائی ہے پھر بھی ہم کھاسکتے ہیں کیونکہ ہمارے لئے یہ حلال ہے ۔ چونکہ ہندوستان میں بعض مقامات پر گائے گوشت کھانے میں جانی نقصان کا خطرہ ہے اس لئے جن علاقوں میں مسلمانوں کے لئے گائے کا گوشت کھانے میں کسی بھی قسم کا خطرہ اور فتنہ کا اندیشہ ہو وہاں کے مسلمان احتیاطا گائے گوشت نہ کھائے اور جہاں پر گائے گوشت کھانے میں خطرہ نہیں وہاں کے مسلمان کھاسکتے ہیں۔ بعض صوبوں میں بے خوف و خطر گائے ذبح ہوتی ہے اور مسلمان کھاتے ہیں تاہم احتیاطی پہلو مدنظر رکھاجائے  کیونکہ آئے دن  گائے گوشت کے نام پر مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہوتے ہوئے ہم دیکھ رہے ہیں۔

سوال:ہمارے یہاں یہ رواج عام ہے کہ شادی کی دعوت میں شرکت کرنے والے لوگ پیسے دیتے ہیں اور پھر جب وہ خود دعوت دیتے ہیں تو دوسرے لوگ بھی ان کو پیسے دیتے ہیں۔ اسی طرح بچے کی پیدائش پر مٹھائی تقسیم کرنے والے مٹھائی کے بدلے پیسے وصول کرتے ہیں، کیا یہ عمل درست ہے؟

جواب:شادی کی دعوت میں شرکت کرنے پر پیسہ دینا یا مٹھائی تقسیم کے وقت پیسہ دینا یہ سماج کا رواج ہے، اس رواج کا اسلام سے تعلق نہیں ہے، یہ لوگوں کا اپنا رواج ہے۔ اگر یہ رواج تعاون کے طور پر ہے جیساکہ بظاہر معلوم بھی یہی ہوتا ہے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے یعنی ضرورت کے وقت ایک شخص کا مالی تعاون کرنا جائز ہے لیکن اگر پیسہ وصولی میں جبر ہو، جس کے پاس پیسہ نہ ہو وہ بھی قرض لےکر پیسہ دے یا مجبوری میں استطاعت سے زیادہ پیسہ دینا پڑے یا اس عمل سے بجائے تعاون کے لوگوں میں فساد پھیلے تو پھر ایسے رواج سے بچنا بہتر ہے۔

سوال: کوئی آدمی کسی سے دو سال کے وعدہ پر دو لاکھ یا چار لاکھ روپیہ قرض لیتا ہے اور اپنا مکان قرض دینے والے کو گروی دیتا ہے۔ قرض دینے والا مکان سے فائدہ اٹھاتا ہے، اسے اس کا کرایہ دینا نہیں پڑتا پھر جب قرض لوٹا دیتا ہے تو اسے اپنا مکان مل جاتا ہے، کیا یہ عمل درست ہے؟

جواب: کسی سے قرض لینا اور بطور ضمانت اپنا گھر گروی رکھنا جائز ہے لیکن قرض دینے والے کو مکان سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے۔ اگر قرض دینے والا گروی مکان سے فائدہ اٹھاتا ہے تو یہ سود ہے اور سود لینا اسلام میں حرام ہے۔

قرض کے معاملے میں اصل یہ ہے کہ آدمی کسی ضرورت مند کا بغیر کسی نفع کے تعاون کرے اور قرض کے بدلے ایک روپیہ بھی نہ لے۔

سوال: لڑکی کو میکے سے جو زیور ملتا ہے، کیا اس میں سے شوہر اپنا حق مانگ سکتا ہے، وہ ہمیشہ اسے بیچنے کو بولتے ہیں جبکہ شوہر کی مالی حالت صحیح ہے؟

جواب: لڑکی کی شادی کے موقع پر زیورات یا نقدی یا سامان کی صورت میں جو کچھ تحائف ملتے ہیں خواہ سسرال کی طرف سے ہو یا میکے والوں کی طرف سے ہو، وہ سارے تحائف لڑکی کے ہیں، ان پر صرف اسی لڑکی کا حق ہے۔ اور لڑکی کے ملے ہوئے تحفے میں سے شوہر کا کچھ بھی مطالبہ کرنا یاجبرا لینا جائز نہیں ہے۔

آپ نے اپنے سوال میں ذکر کیا ہے کہ میکے سے ملے ہوئے زیور میں سے شوہر اپنا حق مانگتا ہے یا بیچنے کے لیے کہتا ہے۔ درحقیقت شوہر کا اس زیور میں کوئی حق نہیں بنتا پھر وہ کیسے اس زیور سے اپنا حق طلب کرے گا؟

مختصر میں یہ سمجھ لیں کہ شوہر کا میکے سے ملے ہوئے زیورات میں سے حق طلب کرنا جائز نہیں ہے اور اسی طرح زیورات بیچنے کے لئے کہنا بھی شوہر کے لئے درست نہیں ہے۔ میکے سے ملا ہوا زیور لڑکی کا حق ہے، وہ لڑکی اپنی مرضی سے اپنے زیور میں جیسے چاہے تصرف کرے، اس میں شوہر کا کوئی دخل نہیں ہے۔

سوال: کچھ مسلم منہ میں گٹکھا رکھ کر دل میں تسبیح کرتے ہیں ، کیا ان کی یہ عبادت قبول ہوگی؟

جواب:اسلام نے نشہ آور چیزوں کو حرام قرار دیا ہے اس لئے کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ نشہ کی کوئی چیز استعمال کرے۔

جو آدمی اپنے منہ میں گٹکھا رکھتا ہے اور دل میں تسبیح اور ذکر کرتا ہے ایسی عبادت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ تسبیح اور ذکر کرنا عبادت ہے اور عبادت کی قبولیت کے لئے ضروری ہے کہ آدمی اخلاص کے ساتھ اور سنت کے مطابق عمل کرے۔ اخلاص کا تقاضہ ہے کہ زبان و دل کی پاکیزگی کے ساتھ اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لئے اس کا ذکر کرے جبکہ گٹکھا کھانے کی حالت گناہ والی حالت ہے ایسی حالت میں ایک طرف گناہ جاری رکھنا اور دوسری طرف ذکر والی عبادت کرنا غیرمفید اور غیرمقبول عبادت ہے۔

یہاں پر ایک تنبیہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ دل کا حال صرف اللہ جانتا ہے اس لئے بغیر ثبوت اور دلیل کے کسی کے دل کا حال بیان کرنا مناسب نہیں ہے البتہ ہمارا فریضہ ہے کہ جسے گٹکھا کھاتے ہوئے یا نشہ استعمال کرتے ہوئے دیکھیں، اسے اللہ کا خوف دلائیں اور اس حرام عمل سے بچنے کی تلقین کریں۔

سوال:دو بار طلاق رجعی کے بعد رجوع کا وقت گزر جانے پر جب عقد ثانی ہوگا تو اس نئے نکاح کے بعد کیا پہلے والی دو طلاقیں جو ہوچکی تھیں وہ بھی شمار ہوں گی یا نئے نکاح کے بعد پھر سے دوبارہ رجعی طلاق کا حق حاصل ہوگا؟

جواب:اگر کسی مرد نے اپنی بیوی کو ایک مرتبہ طلاق دیا اور عدت میں رجوع کرلیا تو اس طرح مرد سے ایک طلاق کا اختیار ختم ہو جاتا ہے پھر جب دوبارہ طلاق دیتا ہے اور عدت میں رجوع کرلیتا ہے تو اس سے دوسری طلاق کا اختیار ختم ہو جاتا ہے۔ اب اگر تیسری مرتبہ طلاق دے تو پھر شوہر کو رجوع کا اختیار نہیں ہے، نہ ہی اس عورت سے عدت کے بعد شادی کرسکتا ہے۔ تیسری طلاق دیتے ہی دونوں کے درمیان مکمل جدائی ہو جاتی ہے۔

صرف پہلی طلاق یا دوسری طلاق دینے پر اگر شوہر عدت میں رجوع نہیں کرتا اور عدت گزر جاتی ہے تو شوہر دوبارہ نیا نکاح اس عورت سے کرسکتا ہے اور جب نکاح کرے گا تو پہلے دی ہوئی طلاق کا اختیار مرد سے ختم ہو گیا رہتا ہے یعنی اگر اس نے پہلے ایک طلاق دی تھی تو ایک اختیار ختم رہے گا، دوسری طلاق دی تھی تو دوسرا اختیار ختم رہے گا۔ نئے نکاح پر الگ سے پھر سے اختیارات نہیں ملتے ہیں۔

سوال:کسی محرم کے انتقال کے بعد کیا اس کی قبر پر اس کے نام کی تختی لگا سکتے ہیں، اس کی قبر پر کسی قسم کے پھول یا کسی قسم کے جھاڑ کی ٹہنی لگا سکتے ہیں؟

جواب:قبر کی معرفت کے لئے اس کے پاس پتھر یا لکڑی گاڑ سکتے ہیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ فلاں کی قبر ہے۔ نبی ﷺ نے اپنے رضاعی بھائی عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی قبر پر بطور علامت ایک پتھر نصب کیا تھا۔ اس کی دلیل یہ حدیث ہے۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَعْلَمَ قَبْرَ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ بِصَخْرَةٍ(سنن ابن ماجہ:1561،قال الشيخ الألباني: حسن صحيح)

ترجمہ: انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی قبر کو ایک پتھر سے نشان زد کیا۔

اس حدیث کی روشنی میں ہم بھی اپنے کسی قریبی میت کی قبر کے پاس پہچان کی غرض سے پتھر نصب کرسکتے ہیں مگر کسی کی قبر پر اس کے نام کی تختی لگانا جائز نہیں ہے۔ نبی ﷺ نے اس عمل سے ہمیں منع فرمایا ہے۔ اس کی دلیل یہ حدیث ہے۔

عَنْ جَابِرٍ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُكْتَبَ عَلَى الْقَبْرِ شَيْءٌ(سنن ابن ماجہ:1563، قال الشيخ الألباني: صحيح)

ترجمہ: جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر کچھ لکھنے سے منع کیا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ میت کی قبر کی پہچان کے لئے قبر کے پاس پتھر یا لکڑی گاڑ سکتے ہیں لیکن نام والی تختی نہیں لگاسکتے ہیں۔ اسی طرح قبر پر پھول و مالا چڑھانا ، وہاں اگربتی اور موم بتی جلانا ، وہاں پر روشنی اور چراغان کرنا جائز نہیں ہے، یہ سب بدعتی اعمال ہیں حتی کہ قبر والے کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے ٹہنی گاڑنا بھی جائز نہیں ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔