آپ کے سوالات اور آن کے جوابات (30)
جواب از: شیخ مقبول
احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی
السلامہ - سعودی عرب
سوال: میرے پاس سبع
سورہ ہے، اس میں سات سورتوں کے فضائل لکھے ہوئے، کیا اسے چھاپ کر صدقہ جاریہ کی
نیت سے لوگوں میں تقسیم کرسکتی ہوں؟
جواب:بدعتی لوگوں کے
گھروں میں عام طور سے پانچ سورتوں یا سات سورتوں پر مشتمل ایک کتاب پائی جاتی ہے۔
پانچ سورتوں (سورہ یٰسین، سورہ رحمان، سورہ واقعہ، سورہ ملک، سورہ مزمل) پر مشتمل
کتاب کو پنج سورہ نام دیا جاتا ہے اور سات سورتوں(سورہ کہف، سورہ سجدہ، سورہ
یاسین، سورہ رحمن، سورہ واقعہ ، سورہ ملک، سورہ مزمل) پر مشتمل کتاب کو سبع سورہ
کہا جاتا ہے۔
اس کتاب میں عموما قرآن
کی مذکورہ بالا سورتیں درج ہوتی ہیں اور ان سورتوں کے فضائل بیان کئے گئے ہوتے
ہیں۔ ان فضائل میں بعض صحیح فضائل ہوتے ہیں جبکہ اکثر و بیشتر فضائل ضعیف اور
موضوع ہوتے ہیں۔ سورہ یاسین کی فضیلت میں ایک بھی صحیح حدیث نہیں ہے ، اس بارے میں
جتنی احادیث آتی ہیں سب ضعیف ہیں مگربدعتی تمام ضعیف و موضوع روایات بیان کرتے
ہیں۔
اس کتاب میں صحیح اور
ضعیف فضائل کے ساتھ حاجات و ضروریات پورا کرنے کے مصنوعی اور بدعتی طریقے بھی بیان
کیے گئے ہوتے ہیں۔
اس کتاب کے تیار کرنے
اور لوگوں میں پھیلانے کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنے گھروں میں اس کتاب کو
رکھیں اور جب بھی کسی کو جس قسم کی حاجت وضرورت پیش آئے پنج سورہ یا سبع سورہ پڑھ
لے اس کی ضرورت پوری ہو جائے گی یا کوئی بلا آئی ہو تو وہ ٹل جائے گی۔ اس لئے اس
کتاب کا اصل نام بلاؤں کو ٹالنے والی کتاب ہونا چاہئے۔ بعض لوگوں کا یہ عقیدہ بھی
ہوتا ہے کہ مصائب و مشکلات سے بچنے کے لئے اس کتاب کو روزانہ پڑھنا ضروری ہے۔ پھر
ان میں موجود الگ الگ سورت کے الگ الگ مصنوعی وظائف بیان کئے گئے ہوتے ہیں کہ فلاں
فلاں مصیبت میں اتنے اتنے دفعہ فلاں سورت کو پڑھو تمہاری مشکل آسان ہوجائے گی ۔
اس پنج یا سبع سورہ سے
متعلق شرعی حکم یہ ہے کہ قرآن سے الگ کرکے چند سورتوں کا اس طرح مجموعہ تیار کرنا
غلط ہے۔ اللہ کی جانب سے جس طرح تیس پارے نازل ہوئے ہیں ، ہمیں اپنے گھروں میں تیس
پاروں والا قرآن رکھنا چاہئے اور یہ اعتقاد رکھنا چاہئے کہ مکمل قرآن شفا ہے۔ اور
نزول قرآن کا مقصد اسے سمجھ کر پڑھنا اور اس پر عمل کرنا ہے۔یاد رکھیں کہ جو قرآن
پر عمل نہیں کرتا ، اسے قرآن سے فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔
دوسری بات یہ ہے کہ
قرآنی سورتوں کو اپنی جانب سے بیماریوں کے لئے خاص کرنا اور پڑھنے کا خاص وقت مقرر
کرنا اور اس کی مخصوص تعداد متعین کرنا شریعت کے خلاف ہے۔ اس لئے کسی مسلمان کو اس
قسم کا تیار کردہ پنج سورہ یا سبع سورہ اپنے گھر میں رکھنا، مشکلات دور کرنے کے
لئے اسے پڑھنا ، صدقہ جاریہ کے لئے اسے خرید کر یا پرنٹ کراکر تقسیم کرنا یہ سارے
کام غلط ہیں۔ آپ اپنے گھر میں دعا کی کتاب کے طور پر حصن المسلم رکھیں، سادہ قرآن
رکھیں اور تفسیر احسن البیان رکھیں۔اگرکوئی آپ سے کہے کہ یہ تو قرآن کی سورتیں
ہیں، توآپ اس سے کہیں کہ بالکل اس کتاب میں قرآن کی سورتیں ہیں مگر اس میں سورتوں
کے علاوہ جو باتیں لکھی گئی ہیں اور اس کتاب کے ساتھ جو عقیدہ پایا جاتا ہے وہ غلط
ہے ۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کوئی ہمارے قرآن میں اپنی جانب سے ایک آیت اضافہ
کردے تو آپ وہ قرآن تسلیم کریں گے ، نہیں ہرگز نہیں ۔ بلکہ کوئی ایک نقطہ بھی قرآن
میں زیادہ کردے ہم اسے برداشت نہیں کریں گے پھر پنج سورہ یا سبع سورہ میں سورتوں
کے علاوہ جو جھوٹی اور بناوٹی باتیں لکھی ہوئی ہیں ایسے مجموعہ کو کیسے قبول کریں
گے ؟
سوال:ایک بہن پوچھتی ہے
کہ صحیح بخاری کی روشنی میں بھائی چارہ کے نام پر ایک انصاری نے مہاجر کو پیشکش کی
تھی کہ وہ اپنی بیویاں اور اپنا مال آدھا آدھا تقسیم کردیتے ہیں، اس میں مال کے
بارے میں بات سمجھ میں آتی ہے لیکن عورت کے بارے میں ایسا کہنا کہ آدھا تقسیم
کردیتے ہیں یعنی تم کو دو میں سے کوئی پسند ہے تو بتادو میں اس کو طلاق دے دوں گا
تم اس سے نکاح کرلینا سمجھ نہیں آتی، کیا عورت کی کوئی عزت نفس نہیں ہے؟
جواب:اس حدیث سے جیسے
مال سمجھ میں آتا ہے ویسے ہی عورت کا معاملہ بھی سمجھ میں آتا ہے، یہ بھائی چارہ
کی ایک بہترین مثال ہے، اس میں عورت کی کوئی توہین نہیں ہے۔ اس میں عورت کو نہ
رکھیل بنانے والی، نہ بیچنے والی ،نہ بے عزت کرنے والی کوئی بات ہے بلکہ اس واقعہ
میں نکاح کی بات کہی گئی ہے، نکاح سے عزت وعصمت حفاظت کی ہوتی ہے نیزیہاں انصار اور مہاجر کے درمیان بھائی چارہ کی عمدہ
مثال نظر آتی ہے۔ دیکھا جائے تو اس میں عورت کا مقام بلند ہو رہا ہے وہ اس طرح کہ
اگر کسی عورت کی شادی انصار کے مقابلے میں مہاجر سے ہو تو اس کا مقام بلند ہوگا
کیونکہ مہاجر کو انصار پر فوقیت حاصل ہے۔ اور اگر اس معاملہ میں ذرہ برابر بھی
توہین ہوتی تو یہ توہین اصل میں ان بیویوں کو محسوس ہوتی جن کے بارے میں یہ بات
کہی گئی تھی مگر حقیقت میں یہاں پر اہانت کا کوئی پہلو ہی نہیں ہے بلکہ بھائی
چارگی اور عزت و احترام گا ہی پہلو غالب ہے۔
ایک طرف مہاجر اپنے مال
اور رشتہ داروں کو چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہجرت کرتے ہیں تو دوسری طرف
انصاری اپنے مال اور بیوی سے ضرورت مند بھائی کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ قربان جائیے
مہاجر بھائی کی بھائی چارگی پر کہ وہ نہ مال سے کچھ قبول کرتے ہیں، نہ بیوی سے کچھ
قبول کرتے ہیں بلکہ بازار جاکر خود سے محنت کرتے ہیں اور اپنی محنت کی کمائی سے
شادی بھی کرتے ہیں۔
سوال:کیا حجامہ کے بعد
غسل کرنا فرض ہے، اور اگر کسی نے لاعلمی کی وجہ سے غسل نہیں کیا تو اس پر گناہ ہے
یا اسے فدیہ دینا ہے اور ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ نبی کریم ﷺ چار کاموں (کی
وجہ) سے غسل کیا کرتے تھے، جنابت سے،جمعہ کے دن،سینگی لگوانے سے اور میت کو غسل
دینے سے۔ کیا یہ روایت صحیح ہے؟
جواب:حجامہ کرنے کے بعد
غسل کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ حجامہ موجبات غسل میں سے نہیں ہے یعنی شریعت میں
ایسی کوئی دلیل موجود نہیں ہے جس کی بنیاد پر یہ کہا جائے کہ حجامہ کرنے سے غسل
واجب ہو جاتا ہے۔جب حجامہ کرنے پر غسل کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے پھر اس پر نہ گناہ
ہے نہ فدیہ ہے۔اور مذکورہ بالا حدیث ضعیف ہے، شیخ البانی نے اس کو ضعیف قرار دیا
ہے۔
اس کے برخلاف دار قطنی
میں ایک حدیث آتی ہے : "ان النبی احتجم و صلی ولم یتوضا "کہ نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے حجامہ کروایا اور آپ نے وضو نہیں کیا اور نماز پڑھ لی تو یہ
حدیث بھی ضعیف ہے۔
سوال: دس پندرہ عورتیں
مل کر کمیٹی ڈالتی ہیں اور ہر مہینہ کسی ایک عورت کا نام قرعہ اندازی سے نکلتا ہے
جسے جمع شدہ ساری رقم مل جاتی ہے، اسی طرح اگلے مہینہ دوسری عورت کا نام نکلتا ہے۔
اس طرح مہینہ در مہینہ یہ کمیٹی چلتی رہتی ہے۔ اس کی میعاد مثلا سال یا دوسال
متعین ہوتی ہے اس وقت کمیٹی چلتی ہے۔ کیا اس طرح کمیٹی بنانا اور اس میں پیسہ جمع
کرکے قرعہ اندازی کے ذریعہ نام نکلنے پر پیسہ لینا جائز ہے؟
جواب: بظاہر اس طرح کی
کمیٹی چلانے اور اس میں پیسہ جمع کرنے اور قرعہ اندازی میں اپنا نام نکلنے پر پیسہ
لینے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
اس میں ایک دوسرے کے
ساتھ تعاون ہے، اس طرح ایک دوسرے کو مالی طور پر تعاون کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال: کیا ہم آن لائن
نکاح کر سکتے ہیں کیونکہ میرے سسرال والے دور ہیں وہ ابھی نہیں آسکتے ہیں اور شادی
سے پہلے رمضان میں ہی نکاح کرنا چاہتے ہیں تو ایسے میں کیا ہم آن لائن نکاح کرسکتے
ہیں؟
جواب:سب سے پہلی بات یہ
ہے کہ شادی اور نکاح یہ دونوں ایک ہی چیز ہے دو الگ الگ چیز کا نام نہیں ہے۔ عربی
میں جسے نکاح کہتے ہیں اسی کو اردو یا ہندی میں شادی کہا جاتا ہے، جب شرعی طور پر
نکاح منعقد ہو جائے تو لڑکا اور لڑکی دونوں آپس میں میاں بیوی کے رشتے میں بندھ
جاتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ آن
لائن نکاح کرنے میں دھوکے کا امکان ہے اس لئے آن لائن نکاح سے بچنا چاہیے۔ آپ کو
جب نکاح کی سہولت میسر ہو اس وقت مجلس میں نکاح کریں نکاح کا یہی طریقہ ہے اور اسی
میں تحفظ ہے۔
تاہم ناگزیر حالات میں
آن لائن نکاح کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ شرعی طور پر نکاح منعقد کیا جائے یعنی نکاح
سے پہلے تمام معلومات کی توثیق کرلی جائے تاکہ کوئی فریب نہ ہو اور نکاح کے وقت
ولی کی رضامندی ، دو عادل گواہان کی موجودگی و توثیق، مہر کا تعین ہوجائے پھر نکاح
کیا جائے تو نکاح ہو سکتا ہے۔
سوال: ایک عورت نے اپنی
تنخواہ سے کچھ پیسے عمرہ کی نیت سے جمع کی تھی، شادی کے بعد اس کے شوہر چاہتے ہیں
کہ یہ پیسے کہیں اور انویسٹ کردیں اور بیوی عمرہ پہ نہ جائے اور وہ خود بھی عمرہ
پر نہیں جانا چاہتے، ایسی صورت میں کیا وہ عورت اپنی خالہ کے ساتھ عمرہ پہ شوہر کی
رضامندی کے بغیر جاسکتی ہے؟
جواب:جس خاتون نے اپنی
تنخواہ سے پیسے بچا کر عمرہ کی نیت سے رکھی تھی اس پیسے میں تصرف کا اختیار صرف
اسی خاتون کو ہے کیونکہ اس پیسے پر صرف خاتون کا مالکانہ حق ہے لہذا شوہر اپنی
بیوی کی مرضی کے خلاف اس مال پر نہ مالکانہ حق جتا سکتا ہے، نہ اپنی بیوی کی مرضی
کے خلاف کسی کاروبار میں وہ پیسہ لگا سکتا ہے۔
جہاں تک عمرہ کا مسئلہ
ہے تو خاتون کے لئے عمرہ کے سفر کے واسطے ہرحال میں محرم چاہیے۔ بغیر محرم کے کوئی
خاتون سفر نہیں کر سکتی ہے اور عورت کی خالہ اس کے لئے محرم نہیں ہے، محرم مردوں
میں سے ہوتا ہے جن سے نکاح حرام ہے اور جن سے پردہ نہیں ہے۔
سوال: سوتے وقت سورہ
ملک پڑھنا ہوتا ہے، کیا میں اسے موبائل سے دیکھ کر پڑھ سکتی ہوں کیونکہ یہ سورت
یاد نہیں ہے؟
جواب: آپ سوتے وقت اپنے موبائل سے سورہ ملک پڑھ سکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہےیعنی جس کو زبانی سورہ ملک یاد نہ ہو وہ قرآن سے دیکھ کر پڑھ سکتا ہے اور اگر موبائل سے دیکھ کر پڑھنا چاہے تو اس میں بھی کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
سوال:اسلام 360 کے
حوالے سے سوال ہے کہ اس میں ایڈور ٹائزمنٹ زیادہ ہوتے ہیں، کیا یہ ایپ اپنے موبائل
میں رکھ سکتے ہیں؟
جواب: اصل میں اس ایپ
کے ذمہ دار زاہد حسین چھیپا نے کمانے کی غرض سے اسلام 360 تیار کیا ہے اس لئے صحیح
چیزوں کے ساتھ غلط علوم بھی اس ایپ میں جمع کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں کافی
سارے ایڈورٹائز آتے رہتے ہیں۔ سلفی علماء کی مخالفت کے باوجود بھی انہوں نے اس ایپ
کی اصلاح نہیں کی، جس کی وجہ سے کئی اہل حدیث عالم جنہوں نے اس ایپ کے لئے تصدیق
نامہ جاری کیا تھا ڈیلیٹ کروا دیا۔ اس میں انجینئر محمد علی مرزا جہلمی کی تفسیر
بھی شامل کردیا تھا مگر اس کی پرزور مذمت کی گئی تو اس نے اسے ڈیلیٹ کردیا۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسلام
360 میں صحیح علوم کے ساتھ غلط علوم بھی پائے جاتے ہیں۔ خصوصا قرآن کریم کے تراجم
و تفاسیر میں دیوبندی، بریلوی ، جماعت اسلامی حتی کہ شیعہ مترجم بھی شامل ہے اس
لئے عام لوگوں کو یہ ایپ استعمال نہیں کرنا چاہئے لیکن جو اچھے خاصے پڑھے لکھے ہوں
، صحیح اور غلط میں تمیز کی صلاحیت ہو وہ اس ایپ کو صرف آیات اور احادیث سرچ کے
لئے استعمال کرے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اسے مطالعہ کا ذریعہ نہ بنائے بلکہ محض سرچ
کے لئے وہ اہل علم جو صحیح و غلط میں تمیز کرسکیں استعمال کرسکتے ہیں، عوام کو اس
ایپ سے بچنا چاہئے۔
عام و خاص سبھی آدمی کے
لئے مکتبہ شاملہ اردو ایپ بہت ہی زیادہ مفید اور بہتر ہے۔ اس میں احادیث کے ساتھ
قرآن کی بارہ سلفی تفاسیر موجود ہیں نیز متعدد علوم و فنون پر مبنی ڈھیر سارے
مقالات وکتب بھی دستیاب
ہیں ۔
سوال: عدت میں عورت
قرآن کی تعلیم کے لئے گھر سے پردہ میں باہر جاسکتی ہے اور ضرورت پڑنے پر سادہ نئے
کپڑے پہن سکتی ہے؟
جواب:عدت میں عورت کے
لئے اصل یہ ہے کہ وہ گھر میں سکونت اختیار کرے، جب عدت مکمل ہوجائے پھر وہ گھر سے
باہر نکلے۔ اگر کوئی عورت کسی جگہ تعلیم دیتی ہو تو اسے عدت کے لئے چھٹی لینی
چاہئے۔ اور چھٹی نہ ملے یا چھٹی لینے سے نوکری جانے کا خدشہ ہو تو اس ضرورت کے تحت
وہ تعلیم دینے گھر سے باہر جاسکتی ہے اور نیا یا پرانا سادہ لباس لگاسکتی ہے اس
میں حرج نہیں ہے لیکن عدت اگر وفات سے متعلق ہو تو نئے لباس سے پرہیز کرے ۔
سوال:نماز کے دوران وضو
ٹوٹ جائے اور دوبارہ وضو کرنے کے بعد جہاں سے نماز چھوڑی ہوئی تھی وہیں سے شروع
کرلیں تو نماز ہوجائے گی یا ساری نماز دہرانی ہوگی؟
جواب:اگر نماز پڑھتے
ہوئے وضو ٹوٹ جائے تو پھر سے ازسرے نو نماز پڑھنی ہوگی ، جو نماز پہلے ادا کی گئی
تھی وہ شمار نہیں ہوگی۔ اگر کسی نے پہلی والی نماز شمار کرکے نماز ادا کی تو اس کی
نماز نہیں ہوئی، اسے پھر سے اپنی نماز دہرانی ہوگی۔
سوال: چار رکعت نماز
پڑھنے کے بعد اگر وضو ٹوٹ جائے تو کیا وہ چار رکعت نماز دوبارہ پڑھنی پڑے گی؟
جواب: اگر کسی نے چار
رکعت نماز ادا کرلی یعنی سلام پھیر لیا اس کے بعد وضو ٹوٹتا ہے تو کوئی مسئلہ نہیں
ہے، اس کی نماز مکمل ہوگئی ہے اسے دہرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔اور اگر چار رکعت
پڑھ کر سلام پھیرنے سے پہلے وضو ٹوٹ جائے تو پھر وضو کرنے کے بعد مکمل نماز دہرانی
پڑے گی۔
سوال : شوہر کے انتقال
کے بعد شوہر کے والد کا شمار غیر محرم میں گا یا محرم میں؟
جواب: شوہر کا انتقال
ہو جائے یا شوہر اپنی بیوی کو طلاق دیدےتو ان دونوں صورتوں میں سسر اپنی بہو کے
لئے محرم ہی رہتا ہے ۔
سوال: آج کل کے ماحول
کی وجہ سے بچوں کو کہہ رکھا ہے کہ اسکول، کالج، یونیورسٹی سے واپس آکر سب احوال
بتایا کرو کہ آج پورا دن وہاں کیا کچھ ہوا، کیا یہ درست ہے اور یہ سب پوچھنا کہیں
غیبت میں تو شمار نہیں ہوگا؟
جواب: یہ کوئی غیبت کا
معاملہ نہیں ہے اپنے بچوں سے اس کے احوال جاننا اس کے اسکول کے حالات جاننا، اس کا
غیبت سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ آدمی کی اپنی ضرورت سے اس کا تعلق ہے۔ آج کل کے
حالات خصوصا ہندوستانی مسلمانوں کے بہت ہی ناگفتہ بہ ہیں، ان حالات میں اپنے بچوں
کی خبرگیری کرنا، آمد و رفت کی مکمل چھان بین کرتے رہنا اور اسکول و کالج کی پوری
جانکاری حاصل کرنا نہایت ضروری ہے۔
سوال: شیعہ کی اذان میں
اللہ اکبر اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک بھی ہوتا ہے جیسے اشھد ان
محمد رسول اللہ ۔ تو کیا ہم شیعہ کی اذان کا جواب دے سکتے ہیں؟
جواب: شیعہ نے اذان میں
اپنی طرف سے اضافہ کر رکھا ہے، یہ اضافہ خلفائے ثلاثہ سے بغض و حسد میں ہے۔ کسی
مسلمان کے لئے اذان کے کلمات میں اضافہ کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لئے شیعوں کی اذان
مسلمانوں کے یہاں معتبر نہیں ہے لہذا اس کی اذان کا جواب نہیں دیا جائے گا۔ شیعوں
کی اذان کا جواب دینے کا مطلب ہے آپ اس کی اذان سے راضی ہیں، اس کو صحیح مانتے ہیں
جبکہ ہم اضافہ شدہ اذان کو تسلیم نہیں کرتے۔
سوال: کھانے کی چیزوں
میں ٹھنڈا کرنے کے لئے پھونک مار سکتے ہیں؟
جواب: کھانے پینے کی
چیز پر پھونک مارنے سے منع کیا گیا ہے لہذا کھانا ٹھنڈا کرنے کے لیے اس پر پھونک
مارنا درست نہیں ہے۔
سوال: اگر امام بیٹھ کر
نماز پڑھائے تو مقتدیوں کو بیٹھنا چاہیے یا کھڑے ہو کر نماز پڑھنا چاہیے؟
جواب: بہتر ہے کہ مریض
امامت نہ کرائے تاکہ اس مریض کو اور اس کے پیچھے دیگر نمازی کو تکلیف نہ ہو تاہم
اس کی امامت میں نماز جائز ہے۔ جب کوئی امام کسی عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز
پڑھائے تو اس کے پیچھے نمازی بھی بیٹھ کر نماز پڑھے کیونکہ مقتدی کوامام کی متابعت
کا حکم دیا گیا ہے۔نبی ﷺکا فرمان ہے : وإذا صلى قاعدًا فصلوا قعودًا أجمعون(صحيح
مسلم:411)
ترجمہ: اور جب امام
نماز بیٹھ کر پڑھائے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔
بعض علماء مقتدی کےلئے
کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کے قائل ہیں مگر قوی موقف بیٹھ کر پڑھنا ہی جیساکہ فرمان
رسول سے ظاہر ہوتا ہے البتہ مقتدی نے کھڑے ہوکر بھی نماز ادا کرلی تو اس کی نماز
صحیح ہے۔(منقول: بیٹھ کر نماز پڑھنے کے احکام از مقبول احمد سلفی)
سوال: اگر ایک لڑکا
نکاح سے پہلے لڑکی کو دیکھنا چاہے تو اس وقت لڑکی اپنے محرم کی موجودگی میں کون سا
حصہ کھلا رکھ سکتی ہے؟
جواب: نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کے متعدد فرامین سے معلوم ہوتا ہے کہ شادی سے پہلے لڑکا منگیتر کو
دیکھ سکتا ہے، منگیتر کو دیکھنے سے متعلق ایک روایت یہ ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كُنْتُ عَنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَأَخْبَرَهُ: أَنَّهُ تَزَوَّجَ امْرَأَةً مِنَ الْأَنْصَارِ، فقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَظَرْتَ إِلَيْهَا؟، قَالَ: لَا، قَالَ: فَاذْهَبْ فَانْظُرْإِلَيْهَا، فَإِنَّ فِي أَعْيُنِ الْأَنْصَارِ شَيْئًا۔(صحیح مسلم:1424)
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس
حاضر تھا، آپ کے پاس ایک آدمی آیا اور بتایا کہ اس نے انصار کی ایک عورت سے نکاح
(طے) کیا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: کیا تم نے اسے
دیکھا ہے؟ اس نے جواب دیا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جاؤ اور اسے
دیکھ لو کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ ہے۔
یہ حدیث اس بات کی صریح
دلیل ہے کہ آدمی نکاح سے پہلے اپنی منگیتر کو دیکھ سکتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب
نہیں کہ منگیتر کو دیکھنا ضروری ہی ہے بلکہ اصل مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی منگیتر کو
دیکھنا چاہے تو نکاح سے قبل اسے دیکھ سکتا ہے۔ اب یہاں سوال یہ ہے کہ منگیتر کو
دیکھنے کی کیا حد ہے یعنی لڑکا منگیتر کے کسی حصے کو دیکھ سکتا ہے؟
اس سلسلے میں اہل علم
کے راجح قول کے مطابق لڑکا لڑکی کے چہرے اور ہتھیلی کو دیکھ سکتا ہے، بعض اہل علم
نے قدم کا بھی اضافہ کیا ہے یعنی ہاتھ و پیر اور چہرے کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے
علاوہ جسم کے دوسرے حصے کو نہیں دیکھا جائے گا لہذا جب پیغام نکاح کے وقت لڑکا کی
جانب سے منگیتر کو دیکھنے کا مطالبہ ہو تو لڑکی مکمل پردے میں اپنے محرم کی
موجودگی میں لڑکا کے پاس جائے۔ وہ لڑکا کے سامنے صرف اپنے چہرے اور ہتھیلی کو کھلا
رکھے باقی جسم، سر اور بالوں سمیت، بازو وغیرہ کو بھی ڈھک کر رکھے۔ یہاں یہ بھی
یاد رہے کہ لڑکی کو صرف وہی لڑکا دیکھ سکتا ہے جسے نکاح کرنا ہو باقی دوسرے اجنبی
مرد نہیں دیکھ سکتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ منگیتر سے تنہائی میں بات کرنا یا منگیتر سے خلوت اختیار کرنا یا منگیتر کو چھونا یامنگیتر کے سر ، ہاتھ اور پیر کے کپڑے ہٹاکر دیکھنا جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی لڑکا اس طرح کی غیر شرعی حرکت کرے تو لڑکی اور اس کا محرم اس عمل سے منع کرے۔جس لڑکا کو لڑکی کے ہاتھ و چہرہ دیکھنے سے تسلی نہ ہو تو وہ اپنی تسلی کے لیے کسی خاتون کو بھیج کر اس کے ذریعہ لڑکی کے مواصفات کے بارے میں مزید معلومات کر سکتا ہے اس کی گنجائش ہے۔
سوال:سیاسی دھرنے کے
تحت حکومتی روک تھام میں مرنے والے کو شہید کہا جا سکتا ہے؟
جواب:سیاسی دھرنے میں
مرنے والے کو شہید نہیں کہا جائے گا، شہید تو وہ ہے جو فی سبیل اللہ قتل کیا جائے۔
اور بعض دوسری وفات کو بھی شہادت قرار دی گئی ہے مگر ان میں مظاہرہ داخل نہیں ہے۔
مظاہرہ تو اسلام مخالف عمل ہے، مسلمانوں کو شرعی لحاظ سے مظاہرہ کرنا ہی نہیں
چاہئے۔ جب مظاہرہ غیرشرعی عمل ہے تو اس کے تحت مرنے والے کو شہید کیسے کہا جا سکتا
ہے؟
سوال: ایک بندے کو دو
جڑواں بیٹے ہوئے ہیں، وہ دونوں کی طرف سے ایک کٹا عقیقہ کرنا چاہ رہا ہے، کیا یہ درست
ہے؟
جواب: یہ عمل سنت کے
خلاف ہے یعنی بڑے جانور میں عقیقہ مسنون نہیں ہے۔ اگر اللہ نے استطاعت دی ہے تو ہر
بیٹے کی طرف سے دو دو چھوٹے جانور ذبح کرے اور استطاعت نہ ہو تو عقیقہ چھوڑ دے، اس
پر کوئی گناہ نہیں ہے ۔اصل میں بطور عقیقہ بچہ کی طرف سے مستقل طور پر خون بہانا
مقصود ہوتا ہے اس لئے ہر بچہ کی طرف سے مستقل جانور ذبح کیا جائے گا۔
سوال: میٹھی چیز کھانے کا کیا حکم ہے،
عموما لوگ سنت سمجھ کر کھانا کھانے کے بعد میٹھی چیز کھاتے ہیں؟
جواب:متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ نبی ﷺ میٹھی چیز پسند کرتے تھے جیساکہ بخاری ومسلم کی روایت ہے ۔
عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ كَانَ
رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم يُحِبُّ الْحَلْوَاءَ وَالْعَسَلَ۔(رواه
البخاري:5431ومسلم :1474).
ترجمہ :حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم میٹھی چیز اور شہد پسند کرتے تھے۔
اس حدیث میں حلواء سے تمام میٹھی چیز مراد ہے پھر بھی
حلواء کے ساتھ عسل کا ذکرہے ۔
حافظ ابن حجرلکھتے ہیں کہ حلواء سے مراد پکائی جانے
والی (میٹھی) چیز ہے اور عسل سے مراد نچوڑنے والی (میٹھی ) چیزہے۔ (الفتح 66/10)
امام نووی لکھتے ہیں کہ علماء نے کہا حلواء میں ہرمیٹھی
چیز داخل ہے اور عسل کا ذکر اس کی خصوصیت کی بناپر ہے یعنی عام کے ذکر کے بعد خاص
کا ذکر۔(المنہاج: 77/10)
بخاری میں اسی معنی کی دوسری روایت اس طرح سے ہے ۔
كان النبيُّ صلى الله عليه وسلم يُعْجِبُه الحَلْواءَ
والعسلَ .(صحیح البخاری : 5614)
ترجمہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم میٹھی چیز اور شہد پسند
کرتے تھے۔
میٹھے مشروب سے متعلق ایک روایت اس طرح سے ہے :
كانَ أحبَّ الشَّرابِ إلى رسولِ اللَّهِ صلى الله عليه
وسلم الحلوُ الباردُ(صحیح الترمذی: 1895)
ترجمہ : نبی کو ٹھنڈی میٹھی چیززیادہ پسند تھی۔
اس میں میٹھے چشمے کا پانی، زمزم، دودھ، شہد اور
کجھوروکشمکش وغیرہ کا تیار شدہ مشروب سب داخل ہے۔
یہاں ایک بات اور جان لیں کہ میٹھی چیز کھانے سے متعلق
مذکورہ روایات کے علاوہ بھی بہت ساری روایات میں ان میں بعض صحیح ہیں اور بعض
ضعیف۔اس لئے کسی روایت سے متعلق پہلے اس کی صحت کی جانکاری لے لیں۔
میٹھی اشیاء کھانے سے متعلق قرآنی آیات وصحیح احادیث پہ
غور کرنے پتہ چلتا ہے کہ میٹھی چیز کھانے کاکوئی وقت متعین نہیں ہے جیساکہ بعض
لوگوں کے یہاں شب برات میں، ہر جمعرات کو، ہرعرس پہ ، ہرخوشی کے موقع پہ، کھانے سے
پہلے، کھانے کے بعد اور ہرفنکشن کی مناسبت سے میٹھی چیز کااستعمال کیاجاتاہے اور
اسے سنت بتلایا جاتاہے جبکہ میٹھی چیز بھی عام کھانے کی طرح ہے، یہ کبھی بھی اور
کسی وقت بھی کھاسکتے ہیں ، اسے کسی وقت سے خاص کرکےسنت کا نام دینا دین میں نئی
ایجاد مانی جائے گی ۔
اللہ تعالی ہمیں دین میں غلوکرنے، بدعت ایجاد کرنے اور اس پہ عمل کرنے سے بچائے ۔ آمین

0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔