Monday, January 13, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات (29)

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات (29)

جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

جدہ دعوہ سنٹر ، سعودی عرب


سوال: ميرے بیٹے نے مجھے کچھ گولڈ کی چیزیں خرید کر دی ہے اور وہ میں پہنتی ہوں۔ کیا میرے مرنے کے بعد وہ گولڈ کی چیزیں اسی بیٹے کی ہوگی یا دوسرے بچوں میں بھی تقسیم ہوگی؟

جواب:آپ کے کسی بیٹے نے گولڈ خرید کر آپ کو ہدیہ دیا ہے تو اب اس گولڈ کا مالک آپ ہیں، آپ کا وہ بیٹا نہیں ہے لہذا آپ اپنی زندگی میں بھی اس گولڈ میں جیسے چاہیں تصرف کرسکتے ہیں اور آپ کی وفات کے بعد یہ گولڈ بحیثیت میراث ہوگا اور آپ کے جتنے وارثین ہیں ان تمام میں شرعی وراثت کے تحت تقسیم کیا جائے گا۔

اللہ سے دعا ہے کہ آپ کا خاتمہ بالخیر فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔

سوال: ایک سولہ سالہ بچی اپنی والدہ کے ساتھ اسی شہر میں رہتی ہے۔ والدین میں طلاق کے بعد اس کے والد دوسرے شہر میں رہتے ہیں جن سے ملنے وہ کبھی وہاں جایا کرتی ہے اور تین سے چار دن قیام کرتی ہے۔ وہ پوچھنا چاہتی ہے کہ کیا والد کے گھر قصر سے نماز پڑھے گی یا پوری نماز پڑھے گی؟

جواب: بچی جب اپنے والد سے ملنے کے لئے دوسرے شہر جائے اور اگر تین چار دن کا وہاں پر قیام ہوتا ہے تو وہاں پر وہ قصر سے نماز ادا کرے گی اس شرط کے ساتھ کہ اپنے شہر سے والد کے شہر کی دوری کم از کم اسی کلومیٹر یا اس سے زیادہ کی ہو۔اور اگر اسی کلومیٹر سے کم کا سفر ہے تو قصر نہیں کرے گی، اسی طرح اگر چار دن سے زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو اس وقت بھی قصر نہیں کرے گی کیونکہ قصر کی مدت چار دن تک ہے، چار دن سے زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو پہلے ہی دن سے مکمل نماز پڑھنا ہے۔

سوال: فرمان رسول کی روشنی میں مغرب سے پہلے بچوں کو گھروں میں روکنے کا حکم ہے، کیا یہ حکم نابالغ بچوں کے لئے ہے؟

جواب: اس حدیث میں بچوں سے مراد نابالغ بچے ہی ہیں اور مغرب کے بعد گھر سے باہر نہ جانے دینے کی حکمت اس وقت شیطان کا پھیلنا ہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَا تُرْسِلُوا فَوَاشِيَكُمْ وَصِبْيَانَكُمْ إِذَا غَابَتِ الشَّمْسُ حَتَّى تَذْهَبَ، فَحْمَةُ الْعِشَاءِ فَإِنَّ الشَّيَاطِينَ تَنْبَعِثُ إِذَا غَابَتِ الشَّمْسُ حَتَّى تَذْهَبَ فَحْمَةُ الْعِشَاءِ(صحیح مسلم:2013)

 ترجمہ: اپنے جانوروں کو مت چھوڑو اور بچوں کو جب آفتاب ڈوبے، یہاں تک کہ عشاء کی تاریکی جاتی رہے کیونکہ شیطان بھیجے جاتے ہیں آفتاب ڈوبتے ہی عشاء کی تاریکی جانے تک۔
یہاں پر بچوں کو روکنے کا حکم واجبی نہیں بلکہ استحبابی ہے اور یہ روکنا بھی مغرب کے بعد کچھ دیر تک کے لیے یعنی گھڑی بھر کے لئے ہے۔ پھر بھی ہمیں احتیاطا اس وقت بچوں کو گھر میں روک کر رکھنا چاہیے اور صبح و شام کے اذکار کا اہتمام کریں بطور خاص یہ ذکر ضرور کریں اور بچوں کو بھی یاد کرا دیں تاکہ وہ بھی پڑھا کریں۔(بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ) ابو داود (5088) اور ترمذی(3388) میں ہے کہ جو شخص روزانہ تین مرتبہ صبح اور تین مرتبہ شام یہ کلمات کہے گا اسے صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک اچانک کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔

سوال: اہل علم اپنے بیان میں کہتے ہیں کہ اگر معاملات میں بھی اللہ کی رضا کی نیت کی جائے تو وہ بھی عبادت ہے۔ اگر ایک بندہ کاروبار کے لئے گھر سے نکلتا ہے اور اس کی نیت حلال کمانے کی ہے تاکہ اپنے گھر والوں کی ذمہ داری پوری کر سکے اور کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ ایسے آدمی کو عبادت کا ثواب پانے کے لئے روز گھر سے نکلتے وقت نیت کرنی چاہیے؟

جواب:دنیا کا معاملہ الگ ہے اور دین کا معاملہ الگ ہے۔ ہم کو جو اجر و ثواب ملتا ہے وہ دین کے کام پر ملتا ہے اور دنیا کا کام ثواب کی نیت سے نہیں کیا جاتا ہے جیسے کوئی چھت پہ چڑھے گا تو اس میں ثواب کی نیت سے نہیں چڑھے گا، چھت سے اترے گا تو ثواب کی نیت سے نہیں اترے گا۔ کوئی حاجت کے لئے جائے گا تو ثواب کی نیت سے نہیں جائے گا۔ یہ دنیا کی ضرورتیں ہیں اس طرح سے بے شمار کام کاج ہیں ان میں اجر و ثواب کی نیت نہیں کی جائے گی۔ اس کے باوجود ایک مسلمان دنیاوی معاملات میں بھی شرعی تعلیمات کو مدنظر رکھتا ہے ایسے میں وہ  مسلمان یقینا اللہ کے یہاں اجر پائے گا۔

روزی روٹی کمانا بھی دنیاوی معاملہ ہے مگر اس سلسلے میں اسلام نے ہماری مکمل رہنمائی کی ہے کہ ہم کس طرح سے کمائیں اور کس طرح سے نہیں کمائیں۔ اور جب مسلمان حلال طریقے سے رزق کماتا ہے تو اسے اس پر ثواب دیا جاتا ہے بلکہ حلال روزی کما کر اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنے والے آدمی کو صدقہ کا اجر ملتا ہے۔

لہذا  جو آدمی حلال کمائی کے لیے روز گھر سے نکلتا ہے اسے روزانہ اسی طرح کی کوئی خاص نیت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس کا حلال روزی تلاش کرنا اوراللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے  امانت داری سے اہل و عیال پر خرچ کرنا اجر و ثواب کے لئے کافی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

إِذَا أَنْفَقَ الْمُسْلِمُ نَفَقَةً عَلَى أَهْلِهِ وَهُوَ يَحْتَسِبُهَا كَانَتْ لَهُ صَدَقَةً(5351)

ترجمہ: جب مسلمان اپنے گھر میں اپنے جورو بال بچوں پر اللہ کا حکم ادا کرنے کی نیت سے خرچ کرے تو اس میں بھی اس کو صدقے کا ثواب ملتا ہے۔

سوال: ایک خاتون بیرون ملک رہتی ہے، کام کے دوران نماز کا وقت نہیں ملتا، وضو بھی ٹوٹ جاتا ہے نیز معذوری کی وجہ سے کورٹ اور سکارف خود نہیں پہن سکتی، گھر سے بہن پہنا کر بھیجتی ہے، اس صورت میں نماز کا کیا حکم ہیں؟

جواب: ایک مرد اور ایک عورت پر دن اور رات میں پانچ وقت کی نماز فرض ہے لہذا ہر مسلمان مرد اور عورت کو ہر حال میں پانچ وقت کی نماز اپنے اپنے وقت پر ادا کرنا ہے۔اس بنا پر کسی مرد یا کسی عورت کو ایسا کوئی کام نہیں کرنا ہے جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ نماز نہ پڑھ پائے، ایک مومن اپنی زندگی میں عبادت کو ترجیح دیتا ہے لہذا جو خاتون بیرون ملک رہتی ہے اور ایسی نوکری کرتی ہے جس میں وہ نمازنہیں پڑھ سکتی ہے، ایسی نوکری کا کوئی فائدہ نہیں جس میں دنیا کمالے مگر دین پر عمل نہ کر سکے، بہتر ہے کہ اس قسم کی نوکری چھوڑ ایسی نوکری تلاش کرے جس میں اس کا دین بھی بچے اور حلال طریقے سے روزی بھی کما سکے۔ ویسے اللہ تعالی نے مردوں کو عورتوں کا کفیل بنایا ہے اس لئے عورت کو کمانے کی ضرورت ہی نہیں، بایں سبب اگر اس خاتون کے لئے کوئی عذر نہ ہو تو اپنے گھر لوٹ جائے اور اپنے شوہر کا کمایا ہوا کھائے اور اپنے ہی گھر میں سکونت اختیار کرے اوراگرمجبوری و عذر ہے تونوکری کے لئے صحیح جگہ کا انتخاب کرے یا اپنے اسی کام میں نماز کے لئے وقت نکالے۔ الحمدللہ عورت کے لئے جماعت سے نماز پڑھنے کی پابندی نہیں ہے، وہ اول وقت سے لے کر آخر وقت تک کسی بھی وقت میں نماز ادا کر سکتی ہے اور اگر چاہے تو جمع صوری کرکے نماز پڑھ لے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ ایک نماز کو آخری وقت میں پڑھے اور دوسری نماز کو اول وقت میں پڑھے اس طرح دو نمازیں تھوڑی دیر کے وقفہ کے ساتھ ادا کر سکتی ہے۔

سوال: ایک سلفی عالم بتا رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا نہیں مانگی اور نماز کے دوران سات مقامات پر دعا مانگتے تھے، کیا یہ بات درست ہے؟

جواب: یہ بات درست ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کا ثبوت نہیں ملتا لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی آدمی نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا نہیں مانگ سکتا ہے۔دعا کے لئے ہاتھ اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے تاہم دعا کے آداب میں سے ہے کہ آدمی ہاتھ اٹھا کر دعا کرے اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس کی دلیل ملتی ہے۔

سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إنَّ ربَّكم تبارَكَ وتعالى حيِيٌّ كريمٌ، يستحيي من عبدِهِ إذا رفعَ يديهِ إليهِ، أن يردَّهُما صِفرًا( صحيح أبي داود:1488)
ترجمہ:تمہارا رب بہت باحیاء اور کریم (کرم والا) ہے، جب اس کا بندہ اس کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتا ہے تو انہیں خالی لوٹاتے ہوئے اسے اپنے بندے سے شرم آتی ہے۔

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ آدمی ہاتھ اٹھا کر اللہ سے دعا مانگ سکتا ہے، فرض نماز کے بعد بھی ہاتھ اٹھا کر دعا مانگ سکتا ہے لیکن اجتماعی دعا نہیں بلکہ انفرادی طور پر دعا کرنا ہے۔

اور یہ بات بھی درست ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں مختلف مقامات پر دعا کرتے تھے، ان مقامات کی تعداد مختلف اہل علم مختلف طرح سے بیان کرتے ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فتح الباری میں چھ مقامات ذکر کئے ہیں۔ پہلا مقام تکبیر تحریمہ کے بعد، دوسرا مقام رکوع سے اٹھ کر سیدھا کھڑا ہونے کے بعد، تیسرا مقام رکوع میں، چوتھا مقام سجدے کے دوران، پانچواں مقام دو سجدوں کے درمیان اور چھٹا مقام تشہد میں۔ اس کے بعد بھی حافظ صاحب نے جو مزید مقامات کا ذکر کیا ہے ایک مقام قنوت اور دوسرا مقام قرات کے دوران۔

سوال: حدیث میں ہے کہ رشتے داروں پر خرچ کرنے سے دہرا اجر ملتا ہے تو اس میں صرف قریبی

رشتہ دار آئیں گے یا سسرالی قریبی رشتہ دار بھی شامل ہیں؟

جواب: یہاں پر رشتہ داروں سے مراد نسبی رشتہ دار ہیں رضاعی یا سسرالی رشتہ دار نہیں۔ نسب سے جو رشتے بنتے ہیں خواہ والد کی طرف سے ہوں یا والدہ کی طرف سے جن سے صلہ رحمی کا حکم دیا گیا ہے وہ سب اس میں داخل ہیں۔

سوال: فوت شدہ کی طرف سے طواف ہوسکتا ہے ؟

جواب: کسی زندہ یا مردہ کی جانب سے طواف نہیں کیا جائے گا، طواف صرف اور صرف آدمی اپنی طرف سے کرسکتا ہے۔ کسی غیر کی طرف سے طواف کرنے کا کوئی ثبوت کسی حدیث سے نہیں ملتا ہے اس لئے کسی آدمی کو کسی زندہ آدمی کی طرف سے یا میت کی طرف سے طواف نہیں کرنا چاہیے۔ ویسے ہر آدمی خود نیکیوں کا محتاج ہوتا ہے اس لئے جب کسی کو طواف کرنے کا موقع ملے تو اپنی جانب سے ساتھ چکر طواف کرے اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز ادا کرے۔

سوال: میرا بیٹا فوت ہوگیا ہے جو ذہنی طور پر مریض تھا روزہ بھی رکھا کرتا تھا لیکن جس سال وفات ہوئی اس سال روزہ نہیں رکھا تو کیا اس کے روزے ہمیں رکھنا چاہیے؟

جواب: جو لوگ ذہنی اعتبار سے معذور ہوتے ہیں یعنی ذہنی مریض ہوتے ہیں اس کے اوپر روزہ اور نماز فرض نہیں ہوتی ہے۔ دین کے احکام کا وہی آدمی مکلف ہوتا ہے جو ذہنی اعتبار سے صحت مند ہوتا ہے لہذا آپ کے بیٹے کے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

سوال: دوران سفر اگر ظہر، عصر مغرب یہ تینوں نمازیں چھوٹ جائیں اور ان کی قضا گھر پہونچ کر کرنا ہے تو کس طرح قضا کرنا ہے، کیا صرف فرض کی ادائیگی کر لینا کافی ہے؟

جواب: کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ سفر میں عمدا نمازیں چھوڑ دے۔ ہاں اگر عذر کی وجہ سے سفر میں نمازیں نہ پڑھ سکے تو حرج نہیں ہے۔اگر کسی سے عذر کے سبب سفر میں ظہر، عصر اور مغرب کی نمازیں چھوٹ جائیں تو گھر آنے کے بعد مکمل نمازیں ادا کرنی ہیں کیونکہ سفر کی وجہ سے جو رخصت تھی وہ رخصت ختم ہو گئی ہے اور قضا نمازیں ادا کرتے ہوئے سنتوں کو بھی ادا کرنا ہے جیسے ہم عام حالات میں فرض کے ساتھ سنت پڑھا کرتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ سنت نماز، فرض کے درجے میں نہیں ہے، اگر کبھی سنت چھوڑ دیتے ہیں تو گناہ نہیں ہے تاہم سنت بھی ادا کرنا بڑے اجر و ثواب کا عمل ہے۔

سوال: شادیوں میں آج کل یہ دیکھا جارہا ہے کہ مرد حضرات ایک خاص قسم کا ہار پہنتے ہیں جو موتیوں سے بنا ہوا ہے اور کڑھائی شدہ چادر اوڑھتے ہیں۔ اسی طرح دولہا کو پھولوں اور پیسوں کے ہار بھی پہنائے جاتے ہیں، شریعت کی روشنی میں ان اعمال کی کیا حیثیت ہے؟

جواب: شادی کے معاملہ میں صرف لڑکے کا مسئلہ نہیں ہے، اس سے زیادہ بدتر حال لڑکیوں کے رسم و رواج کا ہے بلکہ یہ کہیں کہ شادی ابتدائی دن سے لے کر انتہائی دن تک بدترین رسم و رواج کا شکار ہوتی ہے۔ اس میں اسلام کہیں نہیں جھلکتا، فقط ہندوانہ رسم و رواج، غیروں کی مشابہت اور مغربی تہذیب کی نقالی اختیار کی جاتی ہے۔

جہاں تک سوال میں مذکور دولہا کے ہار پہننے کا مسئلہ ہے خواہ موتیوں کا ہو یا پھول پیسوں کا، یہ عورتوں کی مشابہت کے ساتھ غیر اقوام کی نقالی بھی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرد کو عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے اور اسی طرح غیر اقوام کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔ شادی سے متعلق یہ سارے امور غیر اسلامی ہیں اس سلسلے میں ایک حدیث ہی ہماری نصیحت کے لئے کافی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

مَن عَمِلَ عَمَلًا ليسَ عليه أمْرُنا فَهو رَدٌّ(صحيح مسلم:1718)

ترجمہ:جو شخص ایسا کام کرے جس کے لیے ہمارا حکم نہ ہو (یعنی دین میں ایسا عمل نکالے) تو وہ مردود ہے۔

کڑھائی والے بعض کپڑے  یا چادربھی ہندوانہ رسم و رواج کے ہوتے ہیں لہذا جو غیروں کی نقالی والا کوئی کپڑا  اور چادرہو اس سے بھی بچا جائے گا یا زیب و زینت سے لیس عورتوں کی خصوصیت والی چادر بھی استعمال کرنا درست نہیں ہے کیونکہ اس میں عورتوں کی مشابہت پائی جاتی ہے۔

سوال: ضعیف و شہید قرآن کے نسخوں کا کیا کرنا چاہیے، بعض لوگ پانی میں بہا دیتے ہیں یا پھر قبرستان میں ایک مخصوص عمارت میں رکھ دیتے یا پھر دفن کر دیتے ہیں، کئی لوگ تو میت کے ساتھ دفن کر دیتے ہیں؟

جواب: جب قرآن بوسیدہ ہو جائے تو اسے جلا بھی سکتے ہیں، پانی میں بہا بھی سکتے ہیں اور زمین میں دفن بھی کر سکتے ہیں یعنی ان میں سے جو بھی عمل کریں وہ سارے اعمال درست ہیں۔اور اگر کہیں پر محفوظ کمرہ بنایا گیا ہو اس جگہ پر رکھ دیا جائے تو بھی کوئی حرج نہیں جبکہ میت کے ساتھ دفن کرنے والا عمل درست نہیں ہے، اس عمل سے پرہیز کرنا چاہیے۔

سوال: اگر میاں بیوی اور دیور بیرون ملک رہتے ہوں اور ایک ساتھ کھانا کھائیں۔ فیملی والے چاہتے ہیں کہ دونوں بھائی اکٹھے رات کا کھانا کھالیا کریں، عورت دیور سے اپنا چہرہ کور نہ کرے باقی پردے کا خیال رکھے تو ایسا کرنا پردے میں شمار ہوگا؟

جواب: جب لڑکی نے دیور سے اپنا چہرہ ہی نہیں چھپایا پھر اسے پردہ کیسے کہیں گے، پردہ میں غیرمحرم سے  چہرے کا چھپانا سب سے اہم ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ عورت کا اپنے دیور کے ساتھ بیٹھ کر بغیر چہرہ ڈھکے کھانا بے پردگی کے ساتھ گناہ کبیرہ والا عمل ہے اس لئے اس عورت کو اپنے دیور سے پورے جسم سمیت چہرے کا بھی پردہ کرنا چاہیے اور اس کی خلوت سے بھی بچنا چاہیے اور اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانے پینے سے بھی بچنا چاہیے۔ صرف دونوں بھائی مل کر کھاتے ہیں تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوال: شادی پر جو حق مہر ہوتا ہے وہ کون سا صحیح ہوتا ہے جو فورا دے دیا جاتا ہے یا جو زیورات کی شکل میں لکھوایا جاتا ہے؟

جواب: مہر کے طور پر پیسہ دیں یا زیورات دیں یا مکان و زمین اور کوئی دوسری چیز دیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم مہر شادی کے وقت ہی اصل میں دینا چاہئے ۔ نبی ﷺ کے زمانہ میں مہر نکاح کرنے کے وقت ہی دیا جاتا تھا۔ بعد میں بھی مہر ادا کیا جاسکتا ہے مگر نکاح کے وقت ادا کر دینا بہتر و افضل ہے۔ شوہر کو بطور مہر جو کچھ دینے کی استطاعت ہو نکاح کے وقت اپنی بیوی کو ادا کردے، یہ بہتر طریقہ ہے۔ نکاح نامہ پر حیثیت  و طاقت سے زیادہ مہر لکھا دینا اور ادائیگی میں غفلت برتنا درست نہیں ہے۔

سوال: ایک خاتون نے انڈیا سے مکہ جاکر اپنے محرم کے ساتھ ایک عمرہ کرلیا پھر چار دن کے بعد طائف گئی، اب اگر اس کا محرم دوسرا عمرہ نہ کرنا چاہے تو کیا وہ خاتون بغیر محرم کے عمرہ کرسکتی ہے یا پھر عمرہ کرتے وقت محرم کا ساتھ ہونا ضروری ہے؟

جواب: عمرہ کرتے وقت مسجد حرام میں محرم کا ساتھ ہونا ضروری نہیں ہے، محرم صرف سفر کے لئے چاہئے اس لئے جب عورت طائف سے عمرہ کا احرام باندھتی ہے جبکہ سفر میں شوہر بھی ہوتا ہے اور وہ شوہر مکہ آکر حرم نہ جائے تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ عورت اکیلے حرم جاکر عمرہ کرسکتی ہے۔

سوال: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رات سونے سے پہلے دروازہ بند کرنے، آگ بجھانے اور کھانے پینے کی چیزیں ڈھکنے کا حکم دیا ہے۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ اب ہرگھر میں فریج ہوتا ہے اور تمام چیزیں اسی میں رکھتے ہیں، اگر کچھ چیزیں بغیر ڈھکے ہوں تو فریج کا بند دروازہ کفایت کرجائے گا؟

جواب: رات میں برتن ڈھک کر رکھنے کا حکم دیا گیا ہے بطور خاص جب برتن میں کھانے پینے کی چیزیں ہوں تو ڈھک دینا چاہیے تاکہ اس میں کوئی زہریلی چیز نہ داخل ہو یا جن و شیاطین نقصان نہ پہنچائے اور جب ہانڈی اور برتن فریج میں رکھ دئے جائیں تو اب مزید ڈھکنے کی ضرورت نہیں ہے، فریج ہی اس کے لیے ڈھکن کے قائم مقام ہو جائے گا اور فریج میں بھی کھلے برتن ڈھک کر رکھتے ہیں تو اور بھی بہتر ہے کیونکہ کبھی فریج میں بغیر ڈھکے رکھنے سے فریج کا پانی ٹپکتا ہے تو کبھی ایک دوسرے کھانے کی بو سرایت کر جاتی ہے۔

سوال: اسلامک میچیول فنڈنگ میں پیسہ انویسٹ کرنا کیسا ہے اور وہ لڑکی کیا کرے جس کا شوہر نہ مانے اور انویسٹ کرے کیونکہ شوہر مفتی تقی عثمانی کے فتوی کو مانتے ہیں؟

جواب: اسلامک میچول فنڈ ایک دھوکہ ہے ، یہ کوئی اسلامی فنڈ نہیں ہے، یہ ادارہ لوگوں سے پیسہ لے کر بنکوں میں، اسٹاک ایکسچنج میں ، پرائیویٹ اور گورنمنٹ کمپنیوں میں اور سونا چاندی کے مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرتا ہے پھر اس کی کمائی سے لوگوں کو منافع دیتا ہے ۔ اس میں سرمایہ کاری کرنا جائز نہیں ہے۔ جس بہن کا شوہر تقی عثمانی کو مانتا ہے اس کو بہت ساری اصلاح کی ضرورت ہوگی ، وہ تقلید کے راستے پر چلتے ہوں گے ، ایسے لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت نہیں کرتے ، امام کی تقلید کرتے ہیں۔ اس بہن کو چاہئے کہ قریبی کسی عالم کی مدد سے اپنے شوہر کی ہر پہلو سے اصلاح کرے۔

سوال: ایک میڈیکل سائنس طالبہ کا سوال ہے کہ اسے ریسرچ اور تعلیم کی غرض سے مرے ہوئے انسان کی ہڈیاں خریدنا ضروری ہوتا ہے اور گھر اور کالج میں ساتھ رکھنا بھی پڑتا ہے تو اسکا کیا حکم ہے؟

جواب: تعلیم اور ریسرچ کی غرض سے مسلمان میت کی ہڈی خریدنا یا بیچنا یا اپنے پاس رکھنا کسیمسلمان کے لیے جائز نہیں ہے، مسلمان میت کے مکمل جسم کی حفاظت کی جائے گی حتی کہ اس کی ہڈی کی بھی۔ اور کہیں مسلمان میت کی ہڈی نظر آئے بھی تو باقاعدہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا چاہیے۔

ریسرچ اور تجربہ کے طور پر کافر میت پر ریسرچ کرنے کی اہل علم نے اجازت دی ہے لہذا کافر میت کی ہی ہڈی تعلیم اور تجربہ کے لئے استعمال کی جائے اور اس ہڈی کو اضطراری صورت میں خرید سکتے ہیں تاہم اس عمل سے اگر بچنا ممکن ہو تو بچنا بہتر ہے۔

سوال: سورہ توبہ میں بسم اللہ نہیں ہے، اگر ہم اس سورہ کی تقریبا تیس آیات تلاوت کرتے ہیں پھر رک کر کچھ دیر بعد وہاں سے دوبارہ تلاوت شروع کرتے ہیں تو کیا ہمیں بسم اللہ پڑھنا پڑے گا؟

جواب: تلاوت کا طریقہ یہ ہے کہ جب آپ قرآن کی تلاوت شروع کریں تو سب سے پہلے تعوذ یعنی اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھ کر تلاوت کریں اور شروع سورت سے تلاوت کرتے ہیں تو بسم اللہ پڑھیں گے، شروع سورت سے تلاوت نہیں کرتے ہیں تو صرف تعوذ کے ساتھ ہی تلاوت شروع کر دیں گے۔ ٹھیک اسی طرح سورہ توبہ کی تلاوت کے وقت بھی کریں گے یعنی جب آپ ایک مرتبہ تلاوت کرکے دوبارہ کچھ دیر کے بعد سورۃ توبہ پڑھنا شروع کریں گے تو صرف تعوذ پڑھ کر تلاوت شروع کریں گے۔

سوال: نبی ﷺ کو والی کل کہنا کیسا ہے؟

جواب:ولی جس کے معنی مددگار اور کارساز کے ہوتے ہیں اسی سے مولی بنا ہے، یہ اللہ کے اسمائےحسنی میں سے ہے یعنی ولی اور مولی۔

اسی سے ایک لفظ نکلا ہے وہ والی۔لغت میں والی کے متعدد معانی ہیں جیسے آقا و مالک اور مراد اللہ بھی ہوتا ہے۔اسی طرح حاکم، امیر اور فرماں روا کے لئے بھی والی  کا لفظ بولا جاتا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ امیر کے لئے والی کا لفظ استعمال کرنا جائز ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے "والی کل" استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بادشاہوں کے بادشاہ کہنے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ صحیحین میں ہے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

أَخْنَى الْأَسْمَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ اللَّهِ رَجُلٌ تَسَمَّى مَلِكَ الْأَمْلَاكِ(صحيح البخاري:6205)

ترجمہ:قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے بدترین نام اس کا ہو گا جو اپنا نام ملک الاملاک (شہنشاہ) رکھے۔

سوال: چغلی اور غیبت میں کیا فرق ہے؟

جواب: غیبت کہتے ہیں ایک مسلمان کا اس کی پیٹھ پیچھے ایسی بات کہنا جو اسے ناپسند کرے ، اس بات کو حدیث میں  اس طرح کہا گیا ہے"ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ(صحیح مسلم:2589) یعنی کسی کے سامنے اپنے بھائی کا ایسے ذکر کرنا جسے وہ ناپسند کرے۔ اور چغلی جسے عربی میں نمیمہ کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی کے بارے میں اس مقصدسے برائی بیان کرے تاکہ اس کے خلاف فتنہ و فساد پھیلے۔ حافظ ابن حجر ؒ غیبت و چغلی میں فرق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ غیبت اور چغلی میں اس طور پر اختلاف پایا ہے کہ یہ دونوں الگ الگ ہیں یا دونوں ایک ہی ہیں ؟اس سلسلے میں راجح بات یہ ہے کہ یہ دو علاحدہ کام ہیں اور دونوں کے مابین عموم و خصوص من وجہ پایا جاتا ہے یعنی نمیمہ (چغلی) کسی کے حال کو دوسرے تک اس غرض سے پہنچانا کہ فساد پیدا ہو اور یہ نقل حال صاحب حال کو ناپسند ہو ۔اور یہ اس کے اسکے علم میں ہو یا نہ ہو برابر ہے اور غیبت محض کسی کی ناپسندیدہ بات دوسرے تک پہنچانے کو کہا جاتا ہے اس طرح چغلی میں فساد ڈلوانے کی غرض ممتاز ہوتی ہے جبکہ غیبت میں یہ شرط نہیں پائی جاتی۔ اور غیبت میں امتیاز یہ ہے کہ آدمی کی عدم موجودگی میں بات کہی جاتی ہے باقی اس کے علاوہ صفات دونوں میں مشترک ہیں۔ بعض علماء غیبت میں یہ شرط لگاتے ہیں کہ جس کے بارے میں کہا جائے وہ موجود نہ ہو۔ واللہ اعلم۔(فتح الباري: 10/ 473).

اور ابن حجر ہیثمی ؒ کہتے ہیں کہ ہر چغلی غیبت ہے اور ہر غیبت چغلی نہیں ہے۔ انسان بسا اوقات کسی کے بارے میں ایسی بات کہہ دیتا ہے جو اسے ناپسند ہو اور اس میں اس کے اور دوسرے کے درمیان فساد کا پہلو نہیں ہو تو یہ غیبت ہے اور کبھی انسان کسی کے بارے میں ایسی بات کہتا ہے جو اس کو ناپسند ہو اور اس میں فساد بھی ہو تو یہ ایک ساتھ غیبت اور چغلی دونوں ہے۔(تطهير العيبة من دنس الغيبة: 45).

سوال: جو بچے حفظ کر رہے ہیں ان کے لئے کوئی دعا بتادیں جو بچہ خود پڑھ سکے یا اس کے والدین پڑھ سکیں جس سے بچے کو حفظ کرنے میں آسانی ہو۔اور جب بچہ اپنا سبق شروع کرنے لگے تو اس سے پہلے دعا پڑھ لے جس سے اس کو آسانی ہو؟

جواب:قرآن کا حفظ ایک عمل ہے یعنی جو قرآن یاد کرے گا، وقت لگائے گا اور محنت کرے گا صرف اسے قرآن یاد ہوگا اور جو قرآن حفظ کرنے کے لئے محنت نہیں کرے گا اسے قرآن اچھے سے  یاد نہیں ہوگا گویا حفظ کا تعلق عمل کرنے سے ہے جو جس قدر حفظ قرآن میں محنت کرے گا اس کو اتنا زیادہ اور بہتر طور پر قرآن یاد ہوگا اور جو قرآن حفظ کرنے میں جتنی سستی کرے گا وہ بہتر طور پر قرآن حفظ نہیں کر پائے گا۔ اللہ کا فرمان ہے:وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ (النجم:39)اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے لیے نہیں ہے مگر وہی کچھ جس کی اس نے کوشش کی ہوگی یعنی کوشش کرنے سے کسی کام میں فائدہ ہوگا فقط تمنا کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
حفظ قرآن میں محنت کے ساتھ اپنی زبان میں اللہ رب العالمین سے حفظ میں آسانی کے لئے، ٹھوس حفظ کے لئے اور یاد کیا ہوا نہ بھولنے کے لئے افضل اوقات میں دعائیں کریں جیسے سجدے میں ، اذان و اقامت کے درمیان ، رات کے آخری پہر میں اور جمعہ کے دن عصرومغرب کے درمیان وغیرہ ۔ ساتھ ہی کتاب وسنت سے منقول جو دعائیں ہیں وہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ اس بارے میں میرا ایک اہم مضمون "طلب علم کے آداب" ضرور پڑھیں، اس مضمون سے چند دعائیں نقل کرکے بھیجتا ہوں۔

(1)اللَّهمّ علّمني الكتاب، وفقّهني في الدين۔

ترجمہ: اے اللہ ! مجھے کتاب کا علم عطا فرما اور دین کی سمجھ دے۔

(یہ دو دعاؤں سے ماخود ہے، ایک بخاری (75) اور دوسری بخاری(143) سے)۔

آپ کی دعا کی برکت سے ابن عباس رضی اللہ عنہما فقیہ امت قرار پائے ۔

(2)اسی طرح قرآن کی ایک دعا ہے:رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا (طہ:114)

ترجمہ:اے میرے پروردگار! مجھے مزیدعلم عطا کر۔

(3)اسی طرح موسی علیہ السلام کی دعا کریں ۔

رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي يَفْقَهُوا قَوْلِي (طہ:25-28)

ترجمہ:پروردگار! میرا سینہ کھول دے اور میرے لئے میرا کام آسان بنا دے اور میری زبان سے (لکنت کی) گرہ کھول دے تاکہ وہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔

(4)اسی طرح فجر کی نماز کے بعد ایک عظیم دعا پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے، ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز فجر میں سلام پھیرتے تو یہ دعا پڑھتے:اللَّهمَّ إنِّي أسألُكَ عِلمًا نافعًا ورزقًا طيِّبًا وعملًا متقبَّلًا(صحيح ابن ماجه:762)

ترجمہ:اے اللہ! میں تجھ سے نفع بخش علم، پاکیزہ روزی اور مقبول عمل کا سوال کرتا ہوں۔

جب بچہ اپنا سبق یاد کرنا شروع کرے تو شروع میں تعوذ اور بسملہ پڑھ کر اپنا سبق یاد کرنا شروع کرے جیسے تلاوت کے آداب میں بیان کیا جاتا ہے ، شروع میں یہی پڑھنا کافی ہے اور باقی عام حالات اور افضل اوقات میں جیسے اوپر کہا گیا ہے اس طرح دعائیں کریں۔

سوال:کیا وضو میں ہاتھ اور پاؤں کی انگلیوں کا خلال  کرناضروری ہے؟

جواب:وضو کرتے وقت ہاتھ و پیر کی انگلیوں کے درمیان خلال کرنے کا حکم دیا گیا ہے چنانچہ لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أسبِغِ الوضوءَ وخلِّلْ بين الأصابعِ(صحيح ابن ماجه:367)

ترجمہ:کامل وضو کرو اور انگلیوں کے درمیان خلال کرو۔

یہاں پر خلال کا حکم استحبابی ہے یعنی یہ واجبی حکم نہیں ہے بلکہ مستحب و مسنون ہے اور وضو میں اصل تمام اعضائے وضو تک پانی پہنچانا ہے۔ شیخ ابن عثمینؒ کہتے ہیں کہ سنت یہ ہے کہ آدمی اپنے دونوں ہاتھوں اور دونوں پیروں کی انگلیوں میں خلال کرے تاکہ اسے اس بات کا یقین ہوجائے کہ پانی انگلیوں کے درمیان تک پہنچ چکا ہے بطور خاص پیر کی انگلیوں میں کیونکہ یہ ملی ہوئی ہوتی ہیں۔(لقاء الباب المفتوح:8/7) .

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔