Monday, January 13, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات (28)

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات (28)

جواب از : شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

جدہ دعوہ سنٹر ، سعودی عرب


سوال:اگر بیوی حق مہر معاف کردے تو کیا پھر بھی خاوند پر حق مہر دینا فرض ہے؟

جواب: بسااوقات بیوی کو بہلا پھسلاکر یا زبردستی مہر معاف کروایا جاتا ہے، اگر ایسی صورتحال نہ ہو اور شوہر نے مہر معاف کرانے کے لئے بیوی پر جبر نہ کیا ہو، بیوی نے از خود، دلی خوشی سے مہر معاف کر دیا ہو تو پھر شوہر کو دوبارہ مہر دینے کی ضرورت نہیں ہے، ایک بار معاف کر دینا ہی کافی ہے پھر شوہر کے ذمے سے مہر ساقط ہو جاتا ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا (النساء:4)
ترجمہ: اور عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی دے دو ہاں اگر وہ خود اپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہو کر کھاؤ پیو۔

اللہ کے اس فرمان سے معلوم ہوتا ہے کہ مہر بیوی کا حق ہے شوہر کو چاہیے کہ خوشی خوشی بیوی کو اس کا مہر عطا کر دے لیکن جو مہر ابھی شوہر کے ذمہ باقی ہے، بیوی خوش دلی سے مہر معاف کر دے تو شوہر کو ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہاں اگر جبرا مہر معاف کرایا گیا ہو تو یہ نہیں مانا جائے گا اور شوہر کو مہر ادا کرنا پڑے گا۔

سوال:ایک شخص کے والد نے اپنی بیوی کو مہر ادا نہیں کیا تھا اور اب وہ دونوں وفات پاچکے ہیں۔ اب یہ صاحب اپنے والد کا قرض یعنی مہر ادا کرنا چاہتے ہیں تو کیسے کریں، کیا وہ مہر کی اس رقم کو والدہ کی جانب سے صدقہ کردے؟

جواب: جب شوہر نے بیوی کو مہر نہ دیا ہو اور اس کا انتقال ہو جائے تو میت کی وراثت میں سے مہر نکال کر بیوی کو دیا جائے گا اور جب بیوی کا بھی انتقال ہوگیا ہو جیساکہ مذکورہ صورتحال ایسی ہی ہے تو پھر یہ مہر بیوی کے وارثوں کا حق ہے لہذا بیوی کی وفات کے وقت بیوی کے جو وارثین زندہ تھے ان لوگوں میں یہ تقسیم کیا جائے گا اور اگر اسے بیوی کی طرف سے غریبوں میں صدقہ کر دیا جائے تو بھی اس میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم اس کے لئے وارثوں کی رضامندی ضروری ہے یعنی تمام وارثوں کی رضامندی ہو تو میت کی طرف سے صدقہ کرسکتے ہیں۔

سوال:میرے والد صاحب اپنی زندگی میں ہی تقریباً ساری وراثت تقسیم کرگئے تھے، کچھ حصہ والدہ کے نام کر گئے تھے۔ بیٹوں کے نام پورا حصہ تھا اور بیٹیوں کا کچھ حصہ والدہ کے نام کرگئے اور انہوں نے کئی بار بیٹیوں سے کہا تھا کہ ماں کا حصہ ڈال کر آپ لوگوں کا حصہ پورا ہو جائے گا۔ بیٹیوں نے اپنی خوشی سے زرخیز زمین بھائیوں کے نام کرنے کو کہا تھا جبکہ ان کی زمین دوگنا کم مالیت کی تھی۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ والدہ بہت ضعیف ہیں وہ جاکر زمین کا انتقال نہیں کرا سکتی۔ ان کے بعد پھر زیادہ حصہ بھائیوں کو چلا جائے گا۔ بہنوں نے بھائیوں سے درخواست کی ہے کہ وہ جو تھوڑا حصہ ان کا بنتا ہے وہ زرخیز زمین سے دے دیں، کیا بہنوں کا زرخیز زمین سے طلب کرنا گناہ ہے جبکہ پہلے دینے پر راضی تھیں اور ان کے شوہر بھی زرخیز زمین سے لینے کے حق میں ہیں؟

جواب:اصل میں کسی آدمی کا اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم کردینا یہ شریعت میں مداخلت ہے یعنی اپنی من مرضی جائیداد تقسیم کرنا ہے جبکہ شریعت کا اصول یہ ہے کہ جب آدمی کی وفات ہوجاتی ہے تب اس کی جائیداد نظام وراثت کے تحت وارثوں میں تقسیم کی جائے گی ۔

بہرکیف! جب والد نے اپنی جائیداد تقسیم کی، اسی وقت سب کو برابر برابر حصہ دے کر معاملہ مکمل طور پر ختم کر دینا چاہیے تھا اور بیٹیوں کا حصہ ماں کے لیے نہیں چھوڑنا تھا بلکہ ماں کو بھی الگ حصہ دینا تھا۔

دوسری بات یہ ہے کہ جس تقسیم پر پہلے سب لوگ راضی تھے اس وقت اسی تقسیم پر قائم رہیں اور ماں کے حصے میں اس وقت جو زمین ہے اس کے لئے بھائیوں کے ساتھ مل کر بیٹھیں اور ماں کے حصے والی زمین کے بارے میں مشورہ کرنے کے بعد کاغذ بنالیں تاکہ وہ ثبوت کے طور پر بعد میں کام آئے۔ اور چونکہ اس تقسیم کی اصل حقیقت صرف ایک جانب سے بات سننے کے بعد سمجھ میں نہیں آسکتی ہے اس لئے اس مسئلے کو گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر اور مشورے سے حل کریں اور بیٹھک میں عالم دین کو بھی رکھیں تاکہ وہ شرعی رہنمائی کریں گے اور تقسیم میں اگر گربڑی ہوئی ہو تو اس کی اصلاح کر دیں گے۔

سوال: اگر حیض آکر پانچ دن ہو جائے اور خون پوری طرح بند ہو جائے پھر غسل کرلینے کے بعد اگر تھوڑا سا خون جیسا عجیب رنگ خارج ہو تو کپڑا بدلنا چاہیے یا اسے صاف کر لینا کافی ہو گا یا واپس سے غسل حیض کرنا ہوگا؟

جواب:اگر کسی عورت کو پانچ دن حیض آیا اور حیض سے پاکی حاصل ہو گئی تو وہ غسل کرکے نماز ادا کر سکتی ہے اور غسل کے بعد داغ دھبے یا کسی رنگ کا کچھ ظاہر ہو تو اس کی طرف توجہ نہ دے۔

سوال میں جو مسئلہ پوچھا گیا ہے کہ حیض کا خون پوری طرح بند ہوجانے کے بعد تھوڑا سا رنگین کچھ ظاہر ہو تو اس کے لئے کیا کرنا ہے؟

یہاں پر ایک بات یہ عرض کر دوں کہ عورتوں کو حیض سے پاکی کے لئے پوری طرح اطمینان حاصل کر لینا چاہیے، اگر لگے کہ خون بند ہو گیا ہے تو اس کے لئے یہ دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ اندرون حصہ خون تو نہیں کیونکہ ممکن ہے خون گرنا بند ہو جائے لیکن اندرون حصہ خون موجود ہو، اس کو پاکی نہیں کہتے جب تک کہ اندرون حصہ بھی خشک نہ ہو جائے اس لئے روئی داخل کرکے خشکی چیک کرنا چاہیے۔

دوسری بات یہ ہے کہ حیض سے پاکی حاصل ہونے پر غسل کے وقت ممکن ہے اندرون حصہ کچھ مواد چپکا ہوا تھا جو باہر نکلا ہو۔ جب وہ کپڑے میں لگ جائے تو مکمل کپڑا بدلنے کی ضرورت نہیں ہے بس اس حصے کو دھو لینا کافی ہے اور دوبارہ غسل کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

سوال: عورت حیض کی حالت میں ہو اور چار پانچ دن گزر جائیں تو کیا وہ مسجد جاسکتی ہے؟

جواب:اگر عورت ماہواری سے ہو اور ابھی تک ماہواری جاری ہو تو عورت مسجد نہیں جا سکتی ہے چاہے پانچ دن ہی کیوں نہ گزر گئے ہوں۔ اصل یہ ہے کہ ماہواری ختم ہو جائے تب عورت مسجد جاسکتی لیکن ماہواری جاری ہو تو مسجد نہیں جائے گی۔

سوال:کیا جو شخص قرضہ میں ڈوبا ہو اسکی نماز جنازہ پڑھنا گناہ ہے؟

جواب:مقروض مسلمان کی وفات ہو جائے تو بلاشک اس کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔ قرض خواہ جس قدر بھی ہو نماز جنازہ ادا کرنے میں کوئی شک نہیں ہے۔صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جب کسی ایسے شخص کا جنازہ لایا جاتا جس پر قرض ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دریافت فرماتے کہ مرنے والے نے قرض کی ادائیگی کے لیے ترکہ چھوڑا ہے یا نہیں۔ اگر کہا جاتا کہ اتنا چھوڑا ہے جس سے ان کا قرض ادا ہو سکتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی نماز پڑھتے، ورنہ مسلمانوں سے کہتے کہ اپنے ساتھی پر تم ہی نماز پڑھ لو۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر فتوحات کے دروازے کھول دیئے تو فرمایا کہ میں مسلمانوں سے ان کی خود اپنی ذات سے بھی زیادہ قریب ہوں اس لیے ان مسلمانوں میں جو کوئی وفات پائے اور قرض چھوڑے تو اس کی ادائیگی کی ذمہ داری میری ہے اور جو کوئی مال چھوڑے وہ اس کے ورثاء کا ہے۔(صحیح بخاری: 5371)

اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ شروع میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مقروض کی نماز جنازہ نہیں ادا فرماتے بعد میں آپ ہر کسی کا جنازہ پڑھنے لگے۔ جس وقت آپ مقروض کا جنازہ نہیں پڑھاتے اس وقت بھی مقروض کی نماز جنازہ ادا کی جاتی، صرف لوگوں کی عبرت و نصیحت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ لہذا مقروض کی نماز جنازہ ہرحال میں ادا کی جائے گی بشرطیکہ وہ مسلمان ہو اور ایسے شخص کے جنازہ پڑھنے میں کسی کو کوئی گناہ نہیں ہے۔جنازہ کی نماز ادا کرنا تو بڑے اجر کا کام ہے۔

سوال:حافظ بچوں کو رمضان کی تیاری کے لئے گھر میں نوافل پڑھائے جاتے ہیں تاکہ تراویح نماز کے لئے اپنا قرآن اچھے سے تیار کرسکیں۔ ایسے میں کیا ماں بچوں کو سامعہ بن کر لقمہ دے سکتی اور غلطی پر اصلاح کرسکتی ہے؟

جواب:جو حفاظ رمضان میں قرآن پڑھانے کے لئے قرآن کی تیاری کرتے ہیں، ان کو اپنا حفظ اور قرات چیک کرنے کے لئے محض قرآن سنانے کی ضرورت ہے اس کے لئے باقاعدہ نماز میں پڑھ کر مشق کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔قیام اللیل اور نوافل کی حیثیت سے نماز پڑھی جائے تو اس میں حرج نہیں ہے لیکن محض تراویح کی مشق کے لئے نوافل پڑھی جائے، یہ درست عمل نہیں ہے اس لئے اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس عمل سے اسے پرہیز کرنے کے لیے کہا جائے گا۔

دوسری بات یہ ہے کہ کوئی عورت مردوں کی نماز میں لقمہ نہیں دے سکتی ہے، عورتوں کے لئے زبانی طور پر لقمہ دینا ممنوع ہے۔

سوال: ایک مرد نے دوسری شادی کرلی، اس نے پہلی بیوی اور اس کے بچوں کو چھوڑ دیا۔ بیوی خلع لینا چاہ رہی تھی مگر وہ بچوں سمیت سعودی عرب چلی گئی اور خلع نہیں ہوا۔ اب جب اس کے بچے اپنے والد کو ویزہ دے کر پاکستان سے سعودی بلارہے ہیں تو وہ بہن کہتی ہے کہ نہ میں اس کے حقوق ادا کرنا چاہتی ہوں ، نہ اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں بلکہ ہوسکتا ہے میں گھر چھوڑ دوں، اور وہ پوچھتی ہے کہ بنا حقوق ادا کئے اور بنا تعلق رکھے ایک گھر میں رہ سکتی ہے، کیا اس طرح ایک گھر میں رہنے پر گناہ ہوگا؟

جواب:عورت کے لئے ایسی صورت میں دو راستے ہیں۔ ایک راستہ یہ ہے کہ یا تو وہ پرانی باتوں کو بھول کر اور شوہر کو معاف کرکے اسے قبول کرلے اور اس کے ساتھ رہنے لگے۔دوسری صورت یہ ہے کہ شوہر کی زوجیت میں رہتے ہوئے یوں ہی لا تعلق ہوکر شوہر سے الگ زندگی گزارنا مناسب نہیں ہے اس لئے اپنی زندگی کا راستہ واضح کرلینا چاہیے۔ اگر ساتھ رہنے کا امکان ہو تو ساتھ رہے اور اگر ساتھ رہنے کا امکان نہ ہو تو خلع یا طلاق لے کر الگ ہو جائے۔

بہرحال! جب تک طلاق یا خلع نہ ہو وہ دونوں آپس میں میاں بیوی ہیں اور وہ دونوں ایک جگہ اکٹھا رہ سکتے ہیں اس میں حرج نہیں ہےلیکن ایک دوسرے سے نفرت کرکے رہنے کی اسلام تعلیم نہیں دیتا اور کسی مسلمان مرد یا عورت کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع کلامی کرے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

لا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أنْ يَهْجُرَ أخاهُ فَوْقَ ثَلاثِ لَيالٍ، يَلْتَقِيانِ فيُعْرِضُ هذا ويُعْرِضُ هذا، وخَيْرُهُما الذي يَبْدَأُ بالسَّلامِ(صحیح مسلم:2560)

ترجمہ:کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین راتوں سے زیادہ چھوڑے رکھے وہ دونوں ملیں تو یہ اس طرف منہ پھیر لے اور وہ (اس طرف) منہ پھیر لے اور ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔

سوال:مدرسہ تعمیر کرنے کے لئے صدقہ و خیرات اور زکوٰۃ کے پیسے یعنی یہ سارے مکس پیسے لگاسکتے ہیں جبکہ مدرسہ میں غریب، یتیم اور نارمل ہر قسم کے بچے اور بچیاں پڑھیں گے؟

جواب:اس میں پہلا مسئلہ یہ ہے کہ اہل علم کے درمیان اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ زکوۃ کی رقم مدرسے میں لگا سکتے ہیں یا نہیں لگا سکتے اور اہل علم کے راحج قول روشنی میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ زکوۃ کا پیسہ مدرسے میں نہیں لگا سکتے ہیں کیونکہ زکوۃ کے آٹھ مصارف میں مدرسے کا کہیں ذکر نہیں ہے۔تاہم یہ مسئلہ اپنی جگہ درست ہے کہ اگر کوئی مدرسہ خالص غریب یا یتیم بچوں کے لئے ہو تو ایسے مدرسہ کی تعمیر یا بچوں پر زکوۃ کا پیسہ صرف کرسکتے ہیں۔ اور جس مدرسے میں غریب اور مالدار دونوں قسم کے بچے پڑھیں اس مدرسے کی نہ تعمیر پر زکوۃ کی رقم لگا سکتے ہیں اور نہ ہی مدرسے کے اخراجات پر زکوۃ کا پیسہ لگا سکتے ہیں، البتہ یتیم و نادار بچوں کے اخراجات کے لئے زکوۃ صرف کرسکتے ہیں۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ زکوۃ اور صدقات کو ایک ساتھ مکس کرکے نہیں رکھنا چاہیے بلکہ زکوۃ کو نفلی صدقات سے الگ رکھا جائے تاکہ زکوۃ کو اس کے مصارف میں خرچ کیا جا سکے جبکہ صدقات و خیرات کا باب بہت وسیع ہے، یہ کسی بھی نیک کام میں خرچ کر سکتے ہیں خواہ مدرسے کا کام ہو یا مسجد کا کام ہو یا اور کوئی نیک کام یا رفاہی کام ہو۔

سوال: یونیورسٹی کے دوستوں نے پوچھا ہے کہ کیا چیئرز کر کے کوئی ڈرنک پینا حرام ہے جیسے پانی یا شربت وغیرہ؟

جواب: اس میں پہلی بات یہ ہے کہ جو حلال کھانا یا پینا ہے وہ اپنی جگہ پر حلال ہی رہتا ہے خواہ زبان سے ہم کچھ بھی بول دیں یا ہاتھوں سے کوئی بھی حرکت کرلیں۔یہاں چیئرز کہنے اور آپس میں گلاس ٹکرانے کا معاملہ سمجھنے والا ہے، اس بارے میں ہم دیکھیں گے کہ یہ کس کا طریقہ ہے، کیا یہ شریفوں کا ہے، کیا یہ مذہبی لوگوں کا ہے؟

غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کافروں کا طریقہ ہے اور کافروں میں بھی جو فساق و فجار ہیں ان لوگوں کا شیوہ ہے، یہ لوگ جب شراب پیتے ہیں تو اس طرح سے چیئرز کہتے ہیں اور جام ٹکراتے ہیں۔ عام لوگوں میں یہ طریقہ ان فساق و فجار کی وجہ سے رائج ہوا گویا یہ ان کی علامت و پہچان ہے۔ ایسے میں ہمیں کبھی بھی ایسے لوگوں کی علامت کو نہیں اپنانا چاہیے خاص طور سے وہ علامت جو فحش لوگوں کی ہو اور شراب پینے کی علامت ہو۔ ایسی حرکتوں اور ایسی علامتوں سے مسلمان کو پرہیز کرنا چاہیے۔ الحمدللہ اسلام نے ہمیں زندگی کے تمام امور کی طرف بہترین رہنمائی کی ہے، ہمیں کھانے پینے کے آداب بھی سکھائے ہیں، وہ آداب ہمارے لئے غیروں سے بہتر ہیں۔

سوال:کیا ریشم کی کوئی خاص قسم ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے، ہم نے سنا ہے کہ ریشم تو بہت ہی مہنگی ہوتی ہے ، عام سلکی کپڑا جسے ہم ریشم کہتے ہیں یہ منع نہیں ہے کیا یہ بات درست ہے۔ عام سلکی کپڑا پاکستانی ہزار روپے کا بھی مل جاتا ہے، ایسے میں درزی پوچھتا ہے کہ کیا میں سلکی کپڑے سلائی کر دیا کروں، اس میں گناہ تو نہیں ہوگا اور اسی طرح ریشمی سلائی کرنے کا حکم کیا ہے؟

جواب: عورتوں کے برخلاف مردوں کے لئے ہر قسم کے باریک یا موٹے یا عام ریشم کے لباس، رومال، تکیہ، بستر اور گدااستعمال کرنا منع ہے۔حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سونے اور چاندی کے برتن میں پینے اور کھانے سے منع فرمایا تھا اور ریشم اور دیباج پہننے اور اس پر بیٹھنے سے منع فرمایا تھا۔(صحیح بخاری:5837)

ریشم فی نفسہ حرام نہیں ہے اس لئے عورتوں کے واسطے ہر قسم کا ریشم استعمال کرنا مباح ہے لہذا اس کی تجارت کرنا اور اس کی سلائی کرنا جائز ہے۔ مردوں کو ریشم سے بنے کسی طرح کی چیز کے استعمال سے پرہیز کرنا ہے۔ اور ریشم سے مراد وہ کپڑا ہے جسے ریشم کے کیڑے تیار کرتے ہیں تاہم اس میں وہ کپڑا بھی داخل ہے جس کا اکثر حصہ ریشم کا ہو مگرجس کپڑے میں تھوڑی بہت برائے نام ملاوٹ ہو اس کے استعمال میں حرج نہیں ہے۔ سلکی سے مراد بوکسی کپڑا ہے تو یہ عموما مصنوعی دھاگے کے ہوتے ہیں جبکہ بعض بوکسی میں ریشم غالب ہوتا ہے لہذا جانچ پرکھ کے بعد جس میں کچھ ریشم ملا ہو یا مصنوعی دھاگے کا ہو اس کے پہننے میں حرج نہیں لیکن جس میں ریشم غالب ہو  یاخالص ریشم کا ہواس کو استعمال نہیں کیا جائے گا اور اگر سلکی سے مراد حقیقی ریشم ہے تو اس کا بھی استعمال جائز نہیں ہے۔

درزی کے لئے وہی حکم ہے جو مرد کے لیے ہے یعنی جس کا استعمال مرد کے لئے جائز ہے درزی اسی کپڑے کو سلے اور جس کا پہننا مرد کے لیے جائز نہیں ہے وہ نہ سلے البتہ  درزی عورتوں کے لیے کسی بھی طرح کے ریشم کا کپڑا سل سکتا ہے۔

سوال: میرا ایک دوست کارپنٹر کا کام کرتا ہے، اس کام میں فیویکول لگتا ہے جو چپکانے کا کام آتا ہے، اس سے پلائی وغیرہ چپکائی جاتی ہے۔ فیویکول کے ڈبے پر کمپنی کی طرف سے ایک بارکوڈ ہوتا ہے اور اس کمپنی نے ایک موبائل ایپ دے رکھا ہے۔ جب  کارپنٹر مستری فیویکول کا ڈبہ خریدتا ہے تو اس کے بارکوڈ اسکین کرلیتا ہے جس سے کچھ پوائنٹ بنتے چلے جاتے ہیں۔ جب پوائنٹ کی تعداد پندرہ ہزار ہوجاتی ہے تو کمپنی اس مستری کو انعام دیتی ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ڈبے کی قیمت بارکوڈ کی وجہ سے کم ہوتی ہے یا زیادہ ہوتی ہے۔ کبھی اس ڈبے کو مستری خریدتا ہے اور کبھی مکان مالک خریدتا ہے تاہم مکان مالک کے لئے وہ بارکوڈ کسی کام کا نہیں ہوتا یعنی وہ پوائنٹ اس کے لئے کوئی معنی رکھتے۔ میرے دوست کے پاس بیس ہزار پوائنٹ بن گئے ہیں اور اس کو کمپنی کچھ انعام دینا چاہتی ہے تو کیا اس کے لئے وہ انعام لینا درست ہے؟

جواب: مستری کو پوائنٹس کے بدلے کمپنی سے انعام لینے سے پہلے یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ کیا کسی دوسرے کے لئے خریدے گئے فیویکول ڈبے کا بارکوڈ اسکین کرنا جائز ہے یا نہیں؟اس لئے اس میں پہلے مسئلہ کا جواب یہ ہے کہ جب مستری اپنے پیسے سے اور اپنی ضرورت کے لئے یعنی اپنا سامان تیار کرنے کے لئے فیویکول کا ڈبہ خریدتاہے تو وہ اس کا ذاتی ہے، اس ڈبے کا بارکوڈ استعمال کرنا اور اس کے پوائنٹس سے انعام حاصل کرنا اس کے لئے جائز ہے اس میں کوئی شک نہیں۔
اور جب مستری فیویکول کا ڈبہ کسی خاص آدمی کے لیے اس کے ذاتی کام کے واسطے خرید کر لاتا ہے یا خود مکان مالک خرید کر لاتا ہے ایسے میں اس ڈبے کا مالک وہ آدمی ہے جس کے لئے وہ ڈبہ خریدا گیا ہے ایسی صورت میں مستری کو چاہیے کہ ڈبے کے مالک سے بارکوڈ کے لئے اجازت لےلے۔ اگر مستری مالک کی اجازت سے بارکوڈ استعمال کرتا ہے تو اس سے بننے والے پوائنٹس اور پوائنٹس کے بدلے کمپنی سے حاصل ہونے والا انعام لینا اس کے حق میں جائز ہوگا۔

اور اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ بارکوڈ کی وجہ سے ڈبے کا پیسہ کم ہے یا زیادہ اور اس بات سے بھی غرض نہیں ہے کہ مکان مالک کے لئے یہ بارکوڈ کوئی حیثیت نہیں رکھتا ہے یعنی گرچہ یہ معمولی چیز ہے لیکن جس کے لیے ڈبہ خریدا گیا اس کے بارکوڈ کا مالک وہی ہے لہذا مستری اس کی اجازت سے بارکوڈ استعمال کرے۔

سوال: ایک خاتون جس کے پاس حج کرنے کی رقم موجود ہے اور وہ حج پر جانا چاہتی ہے لیکن شوہر، صاحب استطاعت ہونے کے باوجود حج کے لئے ساتھ نہیں جاتا جبکہ بیٹا اور بھائی میں سے کوئی بھی ابھی صاحب استطاعت نہیں ہے تاکہ وہ اس کے ساتھ جائے اور وہ خود ان کے حج کی رقم بھی ادا نہیں کر سکتی، ایسی صورت میں وہ حج پر کیسے جائے گی، حج پر عورت کے ساتھ کوئی محرم نہ جائے تو وہ گورنمنٹ کے ذریعہ گروپ کی شکل میں اکیلے حج پر جا سکتی ہے؟

جواب: جس خاتون کے پاس حج کرنے کے لئے محرم کا انتظام نہیں ہے اس کے اوپر حج فرض نہیں ہے ، حج کی فرضیت کے لئے عورت کے ساتھ اس کا محرم کا ہونا ضروری ہے لہذا وہ گورنمنٹ کے ذریعہ گروپ کی شکل میں اکیلے حج پر نہیں جا سکتی ہے۔اس صورت میں ابھی وہ انتظار کرے اور اللہ سے دعا کرے تاکہ محرم کا انتظام ہو جائے، ساتھ ہی اس کے لئے کوشش بھی کرے۔

سوال: آج کل کچھ خواتین کے مدارس، اپنی تنظیم کی کال پہ ورکشاپس ، دروس ، اور اسلام سیکھنے کے نام پہ خواتین کو مختلف جگہوں پہ اکٹھا کرتے ہیں ، یہ جگہیں کبھی تو اسی شہر میں ہوتی ہیں اور بسا اوقات دوسرے شہروں میں بھی لے جایا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ ایک شہر کی مختلف جگہوں سے خواتین کو اکٹھا کرکے ایک ، دو یا تین چار دن تک کے لئے بھی دوسرے شہر لے جاتے ہیں۔ کیا یہ عمل شرعی حیثیت سے درست ہے اور عورت کس حد تک اس طرح کے معاملات میں شامل ہوسکتی ہے۔ کیا عورت بغیر محرم کےاپنے شہر میں گھر سے تین چار گھنٹے کی دوری پہ اکیلی ایسے اجتماع میں شرکت کر سکتی ہے، کیا عورت بغیر محرم دوسرے شہر میں صبح سے شام تک کے لئے جا سکتی ہے، کیا عورت بغیر محرم دوسرے شہر میں تین چار دن ٹھہر سکتی ہے۔ ادارہ صرف خواتین کا ہے اور وہ اپنی ٹرانسپورٹ مہیا کرتے ہیں؟

جواب: عورت کا عورتوں کی محفل میں، عورتوں کی مجلس میں اور عورتوں والی جگہ پر رہنے میں کوئی حرج نہیں ہے خواہ وہ اپنے محلے میں عورتوں کے درمیان رہے یا اپنے محلے سے دور کسی دوسرے شہر میں کسی دوسری جگہ میں رہے۔ اور اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ گھر سے دور کسی جگہ پر خواتین اکٹھے ہو کر تعلیمی ورکشاپ کریں۔

یہاں پر جو اصل اور ضروری چیز ہے وہ جانے اور آنے میں محرم کا ساتھ چاہیے یعنی ہر لڑکی کو اس کا محرم اس مقام تک پہنچائے اور ہر لڑکی کو اس کا محرم اس مقام سے گھر تک لے کر آئے۔ادارے کی طرف سے ٹرانسپورٹ کا ہونا کافی نہیں ہے بلکہ ہر لڑکی کا اس کے ساتھ سفر میں محرم ہونا ضروری ہے جبکہ اپنے شہر کے قرب و جوار میں آنے جانے کے لئے محرم کی ضرورت نہیں ہے، محرم صرف سفر کے لیے چاہیے۔

سوال: ریشم کے کپڑے پہن کر نماز پڑھنا کیسا ہے، نماز ہوگی یا نہیں؟

جواب: ریشم کا لباس اصل میں مردوں کے لئے پہننا منع ہے خواہ نماز کے اندر ہو یا نماز کے باہر ہو لیکن اگر کوئی ریشم کے لباس میں نماز پڑھ لیتا ہے تو اس کی نماز اپنی جگہ پر درست ہے۔ یہ مسئلہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی جاندار کی تصویر والے لباس میں نماز پڑھ لے تو اس کی نماز اپنی جگہ پر درست ہے لیکن ایسا لباس نماز اور غیر نماز ہر حال میں ممنوع ہے۔

سوال: ممبئی کے اطراف میں ہیرے کی ایک دکان کھلی ہے۔ اس میں اکثر مسلمان کام کرتے ہیں۔ بزنس کا طریقہ کار یہ ہے کہ مثلا آپ نے اس سے دس ہزار کا ایک ہیرا خریدا۔ تقریباً باون ہفتے متعین ہوتے ہیں ، ہر ہفتے دس ہزار میں سے پانچ فیصد آپ کو پیسہ واپس دیا جائے گا، اس طرح باون ہفتے تک آپ کو اپنا دس ہزار روپئے بھی مل جائے گا اور ہیرا بھی مل جائے گا بلکہ کچھ منافع بھی حاصل ہو جائے گا۔ شاپ والے کا کہنا ہے کہ ہم یہ ایڈورٹائز کے لئے کر رہے ہیں یعنی جو پیسہ ایڈورٹائز پہ خرچ ہوتا ہے اس کو ہم اس طریقے سے لوگوں کو دینا چاہتے ہیں تاکہ بزنس بھی چلے

اور ہمارا پرچار بھی ہو جائے۔ کیا اس طرح سامان خریدنا شرعا جائز ہے؟

جواب: ڈائمنڈ کے اس معاملہ کو خرید و فروخت کی حیثیت سے دیکھتے ہیں یعنی بیع و شراء کا نظام دیکھتے ہیں تو یہ بیع و شراء معلوم نہیں ہوتی کیونکہ یہاں پر سامان کے خریدنے کے لئے پیسہ دیا جاتا ہے اور پھر وہ پیسہ واپس ہو جاتا ہے اس لئے یہ خرید و فروخت ہے نہیں۔ خرید و فروخت میں پیسہ دیا جاتا ہے اور سامان لیا جاتا ہے۔ اگر خرید و فروخت میں سہولت دے مثلا دس ہزار کا ہیرا خریدنے پر اس کی قیمت ہفتہ واری قسط کی شکل میں پانچ فیصد لے تو یہ ٹھیک ہے لیکن یہاں پر تو ایک مرتبہ پیسہ لے کر پھر قسطوں میں خریدار کو ہی واپس کیا جاتا ہے بلکہ فائدہ بھی دیا جاتا ہے مزید سامان بھی فری میں مل جاتا ہے اس لئے یہ خرید و فروخت کی شکل نہیں ہے۔

اب دیکھتے ہیں کیا یہ کاروبار میں پیسہ انویسٹ کرنے جیسا عمل ہے تو یہ صورت بھی نظر نہیں آتی ہے۔ ایک تیسری صورت قرض کی بنتی ہے، وہ اس طرح کہ خریدار نے ایک دکاندار کو دس ہزار روپئے بطور قرض دیا وہ دکاندار خریدار کو اس کے پیسے میں سے تھوڑا تھوڑا کرکے ہفتہ واری طور پر لوٹاتا ہے۔ دوکاندار قرض لوٹانے کے ساتھ کچھ منافع بھی دیتا ہے اور قرض کے مماثل ڈائمنڈ بھی دیتا ہے گویا یہ قرض کی شکل بن رہی ہے اور قرض کے ذریعہ نفع اٹھانے کی شکل بن رہی ہے اور یہ سودی معاملہ بن رہا ہے۔ نتیجہ اور خلاصہ یہ نکلا کہ یہ خالص سودی معاملہ ہے اس لئے اس طرح کا سامان ہمیں نہیں خریدنا چاہئے ۔

سوال: میں فرقہ بازی نہیں مانتی اور مجھے فرقہ بازی سمجھ میں بھی نہیں آتی ہے حتی کہ میرے علم میں پاکستان میں کوئی قرآن و سنت کا ادارہ موجود نہیں ہے۔اہل حدیث کو صحیح کہاجاتا ہے مگرلوگ اس پر یہ  اعتراض کرتے ہیں کہ جب فرقہ بنانا غلط ہے تو اہل حدیث/سلفی بھی فرقے کا نام ہے اس کا کیا جواب ہے؟

جواب: یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے دین میں گروہ بندی اور فرقہ بنانے سے منع کیا ہے مگر فرقہ کسے کہتے ہیں اسے آپ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ فرقہ کہتے ہیں جو اصل سے الگ ہو کر کسی شخصیت کی طرف منسوب کرکے بنایا گیا ہو جیسے حنفی امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب ایک فرقہ ہے۔ یہ فرقہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کرتا ہے اور چوتھی صدی ہجری کے بعد وجود میں آیا ہے، اس سے پہلے اس کا وجود نہیں تھا۔ اسی طرح بریلوی مکتبہ فکر احمد رضا بریلوی کی پیدائش کے بعد یہ فرقہ وجود میں آیا۔ جہاں تک اہل حدیث کی بات ہے تو یہ کوئی نیا فرقہ نہیں ہے بلکہ ایک جماعت ہے جو سدا سے چلی آرہی ہے۔ یہ جماعت اپنا انتساب کسی شخصیت کی طرف نہیں کرتی بلکہ یہ جماعت اپنا امام محمد ﷺ کو مانتی ہے اور دین قرآن اور حدیث سے اخذ کرتی ہے۔ اور ظاہر سی بات ہے کہ صحابہ کے طریقے پر چلنے والے کچھ لوگ قیامت تک قائم رہیں گے جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی ہے۔ حضرت ثوبان رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے رسول اﷲ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم نے فرمایا ہمیشہ میری امت کا ایک گروہ حق پر قائم رہے گا کوئی ان کا نقصان نہ پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ کا حکم آوے ( یعنی قیامت ) اور وہ اسی حال میں ہوں گے۔(مسلم:1020)

اہل حدیث وہی جماعت ہے جس کی بشارت مذکورہ حدیث میں دی گئی ہے کیونکہ جماعت اہل حدیث اسی منہج کو اختیار کرتی ہے جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تہتر فرقوں والی حدیث میں حق پر ہونے کی علامت بیان کی ہے۔"ما انا علیہ واصحابی الیوم" یعنی حق والی جماعت وہی ہے جس پر میں اور آج کے دن میرے صحابہ ہیں۔آج دنیا میں تلاش کریں کہ طائفہ منصورہ کی علامت کس میں پائی جاتی ہے، آپ کو پتہ چلے گا کہ وہ فقط اہل حدیث اور سلفی ہیں، باقی تمام فرقے اپنے اپنے اماموں کی طرف بلاتے ہیں۔

آپ نے کہاکہ پاکستان میں میرے حساب سے کوئی قرآن و حدیث والے نہیں ہیں، یہ آپ کی ناقص معلومات ہے بلکہ ابھی تک جن شکوک و شبہات میں زندگی گزار رہے ہیں وہ آپ کے لئے کافی خطرناک ہیں لہذا آپ اپنی اصلاح کریں اور اس بارے میں مزید تفصیل سے جاننے کے لئے میرا دو بیان ضرور سنیں تاکہ آپ کے ذہن سے شکوک و شبہات دور ہو سکیں۔
(1)
منہج سلف کی ضرورت و اہمیت
https://youtu.be/Vlo08Aud0tI?si=8lu6X17aivtWBMZY

(2)
طائفہ منصورہ اور اس کے بعض صفات
https://youtu.be/8eInDcYo1Lo?si=RjBAgWtNhGmtHmM1

سوال: اگر عشاء کی نماز میں ہم صرف فرض پڑھیں تو نماز ہو جائے گی اور وتر پڑھنا ضروری ہے؟

جواب : نماز عشاء کی مکمل رکعات چھ ہیں، ان میں چار رکعات فرض ہیں اور دو رکعات سنت مؤکدہ ہیں۔ اور وتر رات کی آخری نماز ہے، اس کا شمار عشاء کی نماز میں نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ عشاء کی علاحدہ نماز ہے تاہم اس کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے شروع ہو جاتا ہے اس لئے وتر کی نماز، عشاء کے فوراً بعد بھی پڑھ سکتے ہیں، درمیانی رات میں بھی پڑھ سکتے ہیں اور فجر سے پہلے بھی کسی وقت پڑھ سکتے ہیں۔

جہاں تک آپ کا سوال ہے کہ عشاء میں صرف فرض نماز پڑھنے سے نماز ہو جائے گی؟

اس کا جواب یہ ہے کہ عشاء کی فرض نماز ادا کرنے سے فریضہ ادا ہو جائے گا یعنی عشاء کی نماز ہو جائے گی لیکن سنت چھوڑنے سے سنت کی جو فضیلت وارد ہوئی ہے اس سے محروم ہو جائیں گے اور سنت کی ادائیگی سے فرض نماز کی کوتاہی دور ہوتی ہے یہ فضیلت بھی نہیں مل پائے گی ۔ اور وتر کی نماز واجب نہیں ہے چھوڑ دینے سے آدمی گنہگار نہیں ہوگا لیکن اس کی بہت تاکید آئی ہوئی ہے اس لئے کبھی کبھار چھوٹ جائے تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن عام طور سے اس کو نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر اور حضر کبھی بھی وتر کو نہیں چھوڑتے تھے اور نبی ﷺ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو زندگی میں تین بات کبھی نہ چھوڑنے کی وصیت فرمائی تھی ان میں ایک وصیت یہ تھی کہ وتر پڑھے بغیر کبھی نہ سونا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں:

أَوْصَانِي خَلِيلِي صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ بثَلَاثٍ: صِيَامِ ثَلَاثَةِ أيَّامٍ مِن كُلِّ شَهْرٍ، ورَكْعَتَيِ الضُّحَى، وأَنْ أُوتِرَ قَبْلَ أنْ أنَامَ(صحيح البخاري:1981)

ترجمہ: میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ہر مہینے کی تین تاریخوں میں روزہ رکھنے کی وصیت فرمائی تھی۔ اسی طرح چاشت کی دو رکعتوں کی بھی وصیت فرمائی تھی اور اس کی بھی کہ سونے سے پہلے ہی میں وتر پڑھ لیا کروں۔

سوال:قرات مقابلہ کیوں کروایا جاتا ہے، سنت میں اس کی کوئی دلیل ہے تو بتائیے اور اس کا اصل مقصد بتائیے؟

جواب: لوگوں میں قرآن، حدیث اور علم کی ترغیب پیدا کرنے کے لئے قرآنی مسابقہ یا حدیث کا مسابقہ یا سوال و جواب اور کوئی دوسرا علمی مسابقہ کرانے میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے۔ میں خود بھی ہر ماہ پابندی سے اپنے طلبہ کے درمیان سوال و جواب کا مسابقہ کراتا ہوں یعنی اپنے سابقہ دروس سے سوال پوچھتا ہوں اور جو صحیح جواب دیتا ہے اس کو انعام سے نوازتا ہوں۔ اس کا مقصد لوگوں میں شرعی علوم کی ترغیب دینا ہے اور اس میں شرعی حیثیت سے کوئی حرج نہیں۔یہی معاملہ قرات مسابقہ کا بھی ہے۔ اس طرح کے مسابقہ کرنے سے بچوں میں قرآن کے تئیں شغف بیدار ہوتا ہے حتی کہ عام لوگوں میں بھی قرآن کی طرف میلان پیدا ہوتا ہے اور کتاب اللہ سے رشتہ استوار ہوتا ہے۔

سوال: سوتے وقت کے اذکار میں( اللھم اسلمت نفسی) والی دعا کو تمام اذکار کے آخر میں پڑھنا چا ہئے؟

جواب: سونے کے اذکار میں ایسی کوئی خاص ترتیب وارد نہیں ہے کہ ہم فلاں دعا کو بعد میں پڑھیں اور فلاں دعا کو پہلے پڑھیں۔ یہ آپ کی آسانی پر منحصر ہے۔ آپ جس طرح ،جس آسانی سے  بعض اذکار کوپہلے اوربعض کو بعد میں پڑھیں اس ترتیب میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوال: ایک خاتون تین مہینوں کے لئے سعودی آئی۔ ہر مہینے ایک عمرہ ادا کیا۔ پہلے دو عمرے میں انہوں نے بال نہیں کاٹے۔ شوہر کے ساتھ تعلق قائم کیا لیکن خوشبو نہیں لگائی۔ اسی طرح اگلے مہینے دوبارہ عمرہ ادا کیا، بال نہیں کٹوائے۔ شوہر کے ساتھ تعلق قائم کیا لیکن خوشبو نہیں لگائی۔ تیسرے عمرے میں بال کٹوائے، کیا اس پر دم واجب ہے اور کیسے دینا ہوگا؟

جواب: جس عورت نے تین عمرے کئے اور پہلے و دوسرے عمرہ میں اپنا بال نہیں کٹایا یہاں تک کہ ان دونوں عمرہ کے بعد شوہر سے جنسی تعلق قائم کی۔ اس طرح کے مسئلے میں شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا تو آپ فرماتے ہیں۔

جس نے عمرہ میں طواف و سعی کیا اور جہل یا نسیان کی وجہ سے بال نہیں کٹایا اور مباشرت کرلی تو اس کا عمرہ صحیح ہے لیکن اسے ایک دم دینا ہے یا چھ مسکین کو کھانا کھلانا ہے یا تین روزہ رکھنا ہے تاہم بکری ذبح کرنا احسن و احوط ہے کیونکہ بال کٹانے سے پہلے وطی(جماع) کرلیا ہے۔
اس طرح گویا اس عورت کو اپنے پہلے دو عمروں کے لئے فدیہ کے طور پر دو بکری مکہ میں ذبح کرنا پڑے گا۔ 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔