Monday, January 13, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات (27)

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات (27)

جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

جدہ دعوہ سنٹر حی السلامہ- سعودی عرب


سوال: ایک عورت نے اپنی بھتیجی کو ایک دفعہ اپنا دودھ پلایا تھا، کیا ایک دفعہ دودھ پلانے سے رضاعت ثابت ہو جاتی ہے اور کیا وہ اس سے اپنے بیٹے کی شادی کرسکتی ہے؟

جواب: ایک دفعہ دودھ پلانے سے رضاعت ثابت نہیں ہوگی بلکہ رضاعت کے لئے پانچ مرتبہ پیٹ بھر کر دودھ پلانا ضروری ہے اور وہ بھی تب جب بچہ دو سال کے اندر کا ہو۔مذکورہ مسئلہ میں رضاعت ثابت نہیں ہوتی ہے اس وجہ سے وہ عورت اپنے بیٹے کی شادی اپنی بھتیجی سے کر سکتی ہے۔

سوال: ایک لڑکی نے ولی کی اجازت کے بغیر ڈیڑھ سال پہلے نکاح کیا، اب اس کو پتہ چلا کہ بغیر ولی کے نکاح نہیں ہوتا، تو اب اس کا کیا حکم ہے؟

 جواب: عموماً لڑکیوں کو معلوم ہوتا ہے کہ ولی کے بغیر شادی نہیں ہوتی مگر ماحول و معاشرے کے برے اثرات کی وجہ سے لڑکی کسی کے جھانسے میں آکر یا عشق و محبت کرکے بھاگ کر اور اسی طرح چوری چھپے ولی کی اجازت کے بغیر شادی کرلیتی ہے۔ اور ہمیں اس سلسلے میں معلوم رہے کہ بغیر ولی کی رضامندی کے شادی منعقد نہیں ہوتی ہے خواہ لڑکی کو معلوم ہو یا نہیں معلوم ہو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:"لا نِكاحَ إلَّا بوليٍّ"یعنی بغیر ولی کے نکاح نہیں ہے۔(صحیح ابن ماجہ: 1537) اسی طرح صحیح ابوداؤد للالبانی (رقم:2083)میں ہے :أيُّما امرأةٍ نَكَحَت بغيرِ إذنِ مَواليها ، فنِكاحُها باطلٌ ، ثلاثَ مرَّاتٍ۔ یعنی جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے۔یہ بات آپ ﷺ نے تین بار کہی ۔

جب ہمیں یہ معلوم ہو گیا کہ بغیر ولی کے نکاح نہیں ہوتا ہے ایسی صورت میں اس لڑکی کا ڈیڑھ سال سے لڑکے کے ساتھ رہنا فحش کاری میں شمار کیا جائے گا۔ ایسی لڑکی اور لڑکے کو فورا ایک دوسرے سے الگ کیا جائے گااور  دونوں سے توبہ کراکر دوبارہ شرعی طور پر نکاح کیا جا سکتا ہے۔

سوال: حديث الحال المرتحل کی روشنی میں بتائیں کہ کیا قرآن کے اختتام پر سورہ بقرہ کی پانچ آیات تک پڑھنا جائز ہے اور اس وقت ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا اور اس کو قبولیت کا وقت سمجھنا صحیح ہے؟

جواب: عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کون سا عمل اللہ کو زیادہ پسند ہے؟ آپ نے فرمایا: «الحال» اور «المرتحل» (اترنے اور کوچ کرنے والا) عمل۔ اس نے کہا: «الحال» اور «المرتحل» (اترنے اور کوچ کرنے والا) سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: ”جو قرآن شروع سے لے کر آخر تک پڑھتا ہے، جب بھی وہ اترتا ہے کوچ کر دیتا ہے۔

یہ سنن الترمذی کی روایت ہے جسے شیخ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے. دیکھیں(ضعيف الترمذي الالباني:2948)
مذکورہ حدیث ضعیف ہونے کے سبب اس سے کوئی بھی حکم مستنبط نہیں کیا جائے گا۔اور قرآن کے اختتام پر سورہ بقرہ کی پانچ آیات پڑھنا، اس وقت دعا کرنا اور اس وقت کو دعا کی قبولیت کا وقت سمجھنا یہ سب بے دلیل باتیں ہیں۔

سوال: جو روپیہ پیسہ ہم جمع کرتے ہیں اس کی کتنی مقدار پر زکوۃ بنتی ہے اور اسی مقدار کو اپنے اپنے ملک کی کرنسی میں تبدیل کرکے زکوٰۃ ادا کی جائے گی مثلا اگر ایک لاکھ درہم پر زکوٰۃ شروع ہوتی ہے تو کیا ہم اپنے ملک کی کرنسی کو پہلے درہم میں حساب کریں گے یا پھر ایک لاکھ روپیہ کو ہی فالو کرکے زکوٰۃ ادا کریں گے؟

 جواب: نقدی پیسوں میں زکوۃ کی کوئی رقم متعین نہیں ہے بلکہ اس کے لئے سونا اور چاندی کے نصاب کا اعتبار کیا جائے گا۔ سونے کا نصاب پچاسی گرام اور چاندی کا نصاب پانچ سو پنچانوے گرام ہے۔
لہذا جس کے پاس اپنے شہر کے اعتبار سے پچاسی گرام سونے کی قیمت کے برابر پیسہ ہو یا پانچ سو پنچانوے گرام چاندی کی قیمت کے برابر پیسہ ہو تو یہ زکوۃ کا نصاب مانا جائے گا یعنی دنیا میں جہاں بھی مسلمان رہتے ہوں وہ روپیہ پیسہ میں زکوۃ دینے کے لئے سونا اور چاندی کے اس مذکورہ نصاب کا اعتبار کریں گے اورجب  اس کی قیمت کے برابر پیسہ ہوجائے اور ایک سال تک وہ پیسہ موجود رہے تو اس میں سے ڈھائی فیصد زکوۃ دینی ہے۔

سوال: اگر کسی پروگرام میں بچے ڈرامہ کرنا چاہے تو اس ڈرامہ میں کسی بچے کو فرشتے کا کردار نبھانے کے لئے دے سکتے ہیں؟

جواب: فرشتوں کا معاملہ ایمان بالغیب کا معاملہ ہے ، ہم میں سے کسی نے فرشتہ کو دیکھا تک نہیں ہے ، ان کے بارے میں قرآن وحدیث میں جو بعض تفاصیل مذکور ہیں، ہم فقط وہی جانتے ہیں، ان باتوں کے علاوہ کوئی ایک بات بھی فرشتوں کی طرف بغیر دلیل کے منسوب کرنا جائز نہیں ہے۔ کردار پیش کرنا اس سے بھی زیادہ اہم اور نازک معاملہ ہے لہذا کسی پروگرام میں فرشتہ کا کردار پیش کرنا مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے، یہ ایمان وعقیدہ کا معاملہ ہے۔

ویسے بھی بچوں سے ڈرامے کروانا صحیح عمل نہیں ہے کیونکہ عموماً ڈراموں کا مقصد لوگوں کو ہنسانا ہوتا ہے۔ اس میں نہ صرف الٹی سیدھی حرکتیں بلکہ مضحکہ خیز، جھوٹی اور واہیات باتیں شامل ہوتی ہیں جو اسلام کے منافی ہیں۔ اسلام ہمیں جھوٹ بول کر ہنسانے ، واہیات حرکتیں کرنے اور لایعنی باتیں کرنے سے منع کرتا ہے۔

سوال: ہوائی جہاز میں فرض نماز پڑھ سکتے ہیں؟

جواب: اصلا فرض نماز سواری پر پڑھنا درست نہیں ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری پر فرض نماز ادا کرنا ثابت نہیں ہے، آپ نے سواری پر صرف نوافل ادا کیا ہے لیکن اگر ہوائی جہاز کے سفر میں نماز کا اپنے وقت سے نکل جانے کا خدشہ ہو یہاں تک کہ دو نمازوں کو جمع کرکے پڑھنا بھی ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں ہوائی جہاز پر فرض نماز ادا کر سکتے ہیں۔

نماز کے لئے قبلہ اور قیام ضروری ہے تاہم جہاز میں اس کا اہتمام ممکن نہیں ہے۔ جہاز کی کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کرسکتے ہیں جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کی قدرت نہ ہونے پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ رکوع کے لئے سر جھکائیں گے اور سجدہ کے لئے اس سے تھوڑا سا زیادہ سر جھکائیں گے۔

سوال: کیا قرآن کے آخر میں ختم قرآن پڑھنا ہے؟

جواب: قرآن ختم کرنے پر ختم قرآن کی دعا کرنا کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے لہذا ہم اس طرح کا عمل انجام نہیں دیں گے۔قرآن پڑھنا خود ہی باعث اجر ہے، اس کے ایک ایک حرف پر دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں گویا ایک آدمی جب سے قرآن پڑھ رہا ہے اور جب تک پڑھتا رہا ہے تب تک اسے ہر ہر حرف پر دس نیکی لکھی جا رہی ہے پھر اس کو الگ سے دعا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔اور ہمیں صرف قرآن کی تلاوت پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ سمجھ کر قرآن پڑھنا چاہیے تاکہ جس مقصد سے قرآن کا نزول ہوا ہے وہ مقصد پورا ہو۔

سوال: آج کل نوجوان لڑکیاں اور خواتین دوران حیض سنیٹری پیڈ کے بجائےایک نئی طبی ایجاد مینسٹرل کپ استعمال کرتی ہیں ۔ اگر حائضہ میت کے یہ کپ لگا ہو تو اس صورت میں اسکا کیا حکم ہوگا؟

جواب: حائضہ کے انتقال پر تدفین سے پہلے اس کو غسل دینے کی ضرورت ہے اور غسل میں پورے بدن کو دھلنا اور اس کی نجاست کو زائل کرنا ہوتا ہے لہذا اگر کسی میت کے ساتھ سنیٹری پیڈ لگا ہوا تو اسے نکال کر الگ کردیا جائے گا یا مینسٹرل کپ لگاہو تواس کپ  کوبھی نکالا جائے گاکیونکہ اس میں نجس خون جمع ہوتا ہے  تاکہ اس جگہ کی اچھی طرح صفائی کی جا سکے حتی کہ میت کا پیٹ دبا کر پاخانہ کی بھی صفائی کی جاتی ہے تاکہ بعد میں نجاست نہ نکلے۔

سوال: کہا جاتا ہے کہ آپ کے گھر میں چار مقامات ایسے ہیں جہاں پر جنات ٹھہرتے ہیں، ایک طویل وقت تک پڑا ہوابستر، دوسرا غسل خانا، تیسرا لٹکے ہوئے کپڑے جو دھل کر خشک کرنے کے لئے رسی پر یا استری کے لئے الماری میں لٹکاتے ہیں اور چوتھا گھر میں جلائی جانے والی آگ کی جگہ۔پھر اس قسم کی ایک تحریر میں بتایا گیا ہے کہ بوتل میں دم کیا ہوا پانی رکھیں، اس کا چھڑکاؤ تکیہ پر، لٹکے ہوئے کپڑوں پر اور آگ والی جگہوں پر کرتے رہا کریں، کیا یہ بات درست ہے؟

جواب: اس قسم کی ایک تحریر اردو میں نشر کی گئی ہے ،اس میں چار مقامات کا ذکر کیا گیا ہے اور چاروں کی دلیل دی گئی ہے ۔

پہلا مقام: صحیح مسلم میں حدیث ہے۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں: ایک بستر مرد کے لئے ہے ایک اس کی بیوی کے لیے تیسرا بستر مہمان کے لیے اور چوتھا بستر شیطان کے لیے ہے۔(مسلم:2084) اس حدیث پر امام مسلم نے باب باندھا ہے (باب كَرَاهَةِ مَا زَادَ عَلَى الْحَاجَةِ مِنَ الْفِرَاشِ وَاللِّبَاسِ) یعنی باب ،حاجت سے زیادہ بچھونے اور لباس بنانا مکروہ ہے۔ باب سے سمجھ سکتے ہیں کہ بستر شیطان کا مسکن نہیں ہے بلکہ حاجت سے زائد بستر ،شیطان کی طرف منسوب کیا گیاہے کیونکہ فضول خرچ کرنے والا شیطان کا بھائی ہوتا ہے۔

دوسرا مقام: زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ پاخانہ جنوں کے حاضر ہونے کی جگہیں ہیں، لہٰذا جب کوئی پاخانہ میں جائے تو کہے: «اللهم إني أعوذ بك من الخبث والخبائث» یعنی: ”اے اللہ! میں ناپاک جنوں اور جنیوں سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔(ابن ماجہ:296)اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے جن وشیاطین نجاست کی جگہوں پر ہوتے ہیں۔

تیسرا مقام: اردو تحریر میں لٹکے ہوئے لباس کی دلیل یہ دی گئی ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:أَطْفِئُوا الْمَصَابِيحَ حِينَ تَكُونُ الرِّيحُ، وَأَغْلِقُوا الأَبْوَابَ، وَأَوْكُوا الأَسْقِيَةَ، وَخَمِّرُوا الأَثْيَابَ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لاَ يَحُلُّ سِقَاءً، وَلاَ يَفْتَحُ بَابًا، وَلاَ يَكْشِفُ إِنَاءً.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: چراغوں کو اس وقت بجھا دو جب ہوا چل رہی ہو، دروازے بند کر دو، مشکیزوں کو باندھ دو، اور کپڑوں کو ڈھانپ کر رکھو، کیونکہ شیطان نہ کسی مشکیزے کو کھولتا ہے، نہ دروازہ کھولتا ہے، اور نہ کسی برتن کو بے پردہ کرتا ہے۔(صحیح البخاری)

بخاری کی حدیث میں " وَخَمِّرُوا الأَثْيَابَ" (اورکپڑوں کو ڈھانپ کر رکھو)کے الفاظ نہیں ہیں، کسی آدمی نے عمدا حدیث رسول میں یہ لفظ زیادہ کردیا ہے، اللہ اسے ہدایت دے ۔ بخاری میں دروازہ بندکرنے ، مشکیزہ ، برتن  اورکھانا پینا ڈھکنے اور چراغ بجھانے کا ذکر ہے ۔ آپ بخاری کی ان احادیث(3280، 3304، 5623، 5624)کو دیکھ سکتے ہیں۔ ایک روایت اس طرح سے آتی ہے کہ کپڑے کو لپیٹ کر رکھو کیونکہ شیطان لپیٹا ہوا کپڑا نہیں پہنتا اور کھلا ہوا کپڑا پہن لیتا ہے۔ روایت کے  الفاظ اس طرح ہیں:

اطووا ثيابَكُم ترجِعُ إليها أرواحُها، فإنَّ الشَّيطانَ إذا وجَدَ الثَّوبَ مطويًّا؛ لم يلبَسهُ؛ وإذا وجدَهُ منشورًا؛ لبسَهُ(المعجم الأوسط للطبراني:5702)

شیخ البانی نے اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے۔(السلسلة الضعيفة: 2801، 5904) گویا لٹکے ہوئے کپڑا کو شیطان کا مسکن قرار دینا جھوٹی بات ہے۔

چوتھا مقام: اس بارے میں کہا جاتا ہے کہ شیطان آگ کے قریب ہوتا ہے اور دلیل پیش کی جاتی  ہے کہ  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا ہے اور جنوں کو آگ کے شعلے سے اورآدم علیہ السلام کو اس (مادے) سے پیدا کیا گیا ہے جس کو تمہارے لئے جان کیا گیا ہے۔(مسلم:2996)اس میں کہیں یہ مذکور نہیں ہے کہ آگ شیطان کا مسکن ہے بلکہ شیطان کی خلقت کی بات کی گئی ہے۔

شیطان سے متعلق اردو تحریر کی حقیقت پیش کردی گئی ہے ، یہاں یہ معلوم رہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شیطان گھروں میں سکونت پذیر ہوتے ہیں، ہمیں چند خاص مقام ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ پورے گھر میں کہیں بھی شیاطین ہوسکتے ہیں اسی لئے نبی ﷺ نے شیاطین سے گھر کی حفاظت کے طریقے بتائے ہیں جیسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ مَقابِرَ ، إنَّ الشَّيْطانَ يَنْفِرُ مِنَ البَيْتِ الذي تُقْرَأُ فيه سُورَةُ البَقَرَةِ(صحيح مسلم:780)
ترجمہ:اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنا ؤ شیطان اس گھر سے بھا گتا ہے جس میں سورہ بقرہ پڑھی جاتی ہے۔
شیطان گھروں میں ہوتےہیں  بلکہ انسان کے ساتھ پیدائش سے لے کر موت تک ایک شیطان لگارہتا ہے حتی کہ انسان کے خون میں ڈورتا ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنَ الْإِنْسَانِ مَجْرَى الدَّمِ(صحیح البخاری: 2038)

ترجمہ:شیطان (انسان کے جسم میں) خون کی طرح دوڑتا ہے۔

یہ تو کچھ نہیں، اس سے بڑھ کر شیطان ہر روز سوتے وقت انسان کے سر کے پیچھے تین گرہیں لگاتا ہے۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

يَعْقِدُ الشَّيْطَانُ علَى قَافِيَةِ رَأْسِ أَحَدِكُمْ إذَا هو نَامَ ثَلَاثَ عُقَدٍ يَضْرِبُ كُلَّ عُقْدَةٍ عَلَيْكَ لَيْلٌ طَوِيلٌ، فَارْقُدْ فَإِنِ اسْتَيْقَظَ فَذَكَرَ اللَّهَ، انْحَلَّتْ عُقْدَةٌ، فإنْ تَوَضَّأَ انْحَلَّتْ عُقْدَةٌ، فإنْ صَلَّى انْحَلَّتْ عُقْدَةٌ، فأصْبَحَ نَشِيطًا طَيِّبَ النَّفْسِ وإلَّا أَصْبَحَ خَبِيثَ النَّفْسِ كَسْلَانَ( صحيح البخاري:1142)

ترجمہ: شیطان آدمی کے سر کے پیچھے رات میں سوتے وقت تین گرہیں لگا دیتا ہے اور ہر گرہ پر یہ افسوں پھونک دیتا ہے کہ سو جا ابھی رات بہت باقی ہے پھر اگر کوئی بیدار ہو کر اللہ کی یاد کرنے لگا تو ایک گرہ کھل جاتی ہے پھر جب وضو کرتا ہے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے۔ پھر اگر نماز (فرض یا نفل) پڑھے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے۔ اس طرح صبح کے وقت آدمی چاق و چوبند خوش مزاج رہتا ہے۔ ورنہ سست اور بدباطن رہتا ہے۔

ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو خصوصا اپنے مفاد کے لئے لوگوں کو شیطان سے ڈراتے ہیں تاکہ باطل طریقے سے مال کمائیں اسی لئے دم کیا ہوا پانی ان جگہوں پر جھڑکنے کے لئے کہتے ہیں۔ دم کیا ہوا پانی بستر پر ، یا لٹکے ہوئے کپڑے پر اور آگ پر جھڑکنا دین میں نئی ایجاد ہے ، یہ بدعت ہے ۔

شیطان ہمارے گھروں میں موجود ہوتا ہے بلکہ ہمارے ساتھ بھی ہوتا ہے ایسے میں ہمیں اپنے ایمان کو مضبوط کرنے اور اعمال صالحہ کی طرف التفات کرنے کی ضرورت ہے۔ ایمان وعمل صالح شیطان سے حفاظت کا ذریعہ ہے اور اسی بنیاد پر آخرت میں بھی  نجات ملے گی لہذا ہمیں پیشہ ور راقیوں اور فریبی عاملوں کی باتوں میں نہیں آنا چاہئے۔

سوال:کیا بچوں کو چلڈرن ڈے میں بھیج سکتے ہیں؟

جواب: چلڈرن ڈے منانا اسلامی شعار اور مسلمانوں کا طریقہ نہیں ہے یہ غیروں کی نقالی ہے لہذا اس طرح کے ڈے میں اپنے بچے کو بھیجنا درست نہیں ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:مَن تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ (ابوداؤد:4031)

ترجمہ: جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہیں میں سے ہے۔

اس حدیث کی روشنی میں غیر قوموں کی نقالی کرنا اور ان کی مشابہت اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔

سوال: گھر کے کسی کام کی وجہ سے میاں بیوی میں لڑائی ہوگئی، شوہر نے غصے میں بیوی سے کہا "اگر مجھے کبھی کال کی تو میری طرف سے طلاق ہے"۔ کچھ گھنٹوں کے بعد دونوں کی صلح ہوگئی اس بہن نے پوچھاہے کہ اب کوئی کفارہ ادا کرنا پڑے گا؟

جواب:شوہر کا اپنی بیوی سے یہ کہنا کہ اگر مجھے کبھی کال کی تو میری طرف سے طلاق ہے، اسے طلاق معلق کہتے ہیں یعنی کسی چیز سے طلاق کو معلق کر دینا۔ میاں بیوی کی صلح سے یہ طلاق معلق ختم نہیں ہو جائے گی بلکہ یہ طلاق معلق اپنی جگہ پر برقرار رہے گی کیونکہ طلاق معلق کو واپس لینے کا کوئی اختیار نہیں رہتا ہے۔

اس وجہ سے اگر بیوی کبھی شوہر کو کال کرے گی تو اسے ایک رجعی طلاق واقع ہو جائے گی اور پھر شوہر کو عدت میں رجوع کا اختیار حاصل ہوگا یعنی اگر وہ عدت میں رجوع کرلیتا ہے تو رشتہ بحال رہے گا اور طلاق معلق کا معاملہ بھی ختم ہوجائے گا۔

سوال: ایک خاتون کو اس کے شوہر نے پہلے دو طلاقیں دی تھی، اب اگر اسے تیسری طلاق دیدے یا وہ خود ہی خلع لے لے تو اس کو عدت شوہر کے گھر گزارنی ہوگی یا کہیں اور کیونکہ وہ اپنے شوہر سے بددل ہوگئی ہے۔ خاتون پوچھتی ہے کہ اس سے قبل کہ شوہر تیسری طلاق دے کیا اسے خود ہی مطالبہ کردینا چاہئے؟

جواب: بغیر سبب کے شوہر کا طلاق دینا یا بغیر سبب کے بیوی کا خلع طلب کرنا جائز نہیں ہے ، اس پر گناہ ملے گا ۔ ہاں کوئی شرعی عذر ہو تو بیوی اپنے شوہر سے طلاق یا خلع کا مطالبہ کرسکتی ہے۔ اس کے لئے اس خاتون کو چاہئے کہ کسی قریبی عالم دین سے اپنی پوری بات بتائے اور پوچھے کہ کیا اس طرح کی صورت حال میں طلاق یا خلع کا مطالبہ درست ہے پھر کوئی قدم بڑھائے ۔ اور اگر شوہر کی طرف سے تیسری طلاق دی جاتی ہے یا خلع واقع ہوتا ہے تو شوہر کے گھر عدت گزارنا ضروری نہیں ہے، بیوی کہیں بھی عدت گزار سکتی ہے کیونکہ تیسری طلاق میں رجوع نہیں ہوتا اور خلع میں بھی رجوع نہیں ہے۔

سوال: شوہر عیسائی ہے اور اس کی بیوی مسلم ہے جو کرایہ پر رہتے ہیں ، ایسے میں مکان مالک پوچھتے ہیں کہ کیا ان کو کرایہ پر رکھنا جائز ہے اور ان کی دی ہوئی چیزیں کھاسکتے ہیں؟

جواب: دنیاوی معاملات کرنا الگ معاملہ ہے اور دینی معاملہ کرنا ایک دوسرا معاملہ ہے۔ دنیاوی معاملات ایک کافر سے بھی کرسکتے ہیں یعنی بات کرنا، مکان کرایہ پر دینا یا اس کی طرف سے پیش کیا ہوا حلال تحفہ قبول کرنا ان سب باتوں میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم مسلم لڑکی کا عیسائی کے ساتھ رہنا ایک سنگین معاملہ ہے اور اس صورت میں مسلم لڑکی مسلم نہیں رہ جاتی، وہ اسلام سے خارج ہو جاتی ہے کیونکہ وہ عیسائی مذہب کو پسند کرتی ہے۔ اسلام کے نواقض میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اگر کوئی کسی دوسرے دین اور دوسرے طریقہ کو اسلام سے بہتر سمجھے تو وہ اسلام سے باہر ہو جاتا ہے اس لڑکی کا بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔

دنیاوی لحاظ سے اس کے ساتھ دنیاوی معاملہ کرنے میں حرج نہیں ہے لیکن مسلمان ہوکر شرمناک حرکت کرنے کی وجہ سے بطور عبرت اس کی چیزیں نہیں کھاتے ہیں تو یہ بہتر ہی ہے۔ ساتھ ہی اسے لڑکی کو سمجھانے اور توبہ کراکر دین اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ وہ توبہ کرے یا نہ کرے پھربھی  ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمیں دعوتی فریضہ انجام دینا چاہئے۔

سوال:ایک خاتون کا سوال ہے کہ اس کے سسر کی کمائی حلال نہیں تھی، اس وجہ سے گھر میں اس کا خریدا ہوا سامان رکھا جاسکتا ہے یا بیچ کرصدقہ کردیا جائے یا بطور زکوۃ یا قرض ادا کردیا جائے؟

جواب: اگر کسی کے گھر میں حرام پیسے سے خریدی ہوئی کوئی چیز ہو یا سامان ہو اسے یونہی کسی محتاج و ضرورت مند کو دے کر اپنی جان چھڑا لی جائے یا سماجی کام میں صرف کردیا جائے جیسے سڑک ، کنواں، نالہ وغیرہ۔ اس کو صدقہ یا زکوۃ یا قرض میں نہیں دینا ہے کیونکہ یہ مال پاک نہیں ہے۔

سوال: اگر وراثت کے مال میں تھوڑا حرام اور تھوڑا حلال ہو تو کیا وراثت لے سکتی ہوں یا چھوڑ دینا چاہئے؟

جواب: مال کے بارے میں یقین کے ساتھ حرام ہونے کا علم نہ ہو یعنی محض شک ہو یا معمولی حصہ حرام کا مال وراثت میں مکس ہو تو ایسی وراثت تقسیم کرنے اور لینے میں حرج نہیں ہے لیکن اگر مال حرام ہونے کا علم ہو تو جتنا مال حرام ہو اتنا کسی محتاج و ضرورت مند کو دے دیا جائے اور جو حلال مال بچے اسے وارثوں میں تقسیم کیا جائے ۔

سوال:ایک خاتون کے لئے سن گلاسز استعمال کرنا جائز ہے جبکہ یہ روشنی کی چمک کم کرنے اور آنکھوں کی حفاظت کے لئے استعمال کئے جائیں اور اگر یہ فیشن اور زینت کے طور پر پہنے جائیں تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟

جواب: اللہ تعالی نے عورت کو اپنی زینت چھپانے کا حکم دیا ہے اور چشمہ بھی ایک طرح کی زینت میں داخل ہے اس وجہ سے اگر عورت اس طرح چشمہ لگائے کہ لوگ اس کی طرف نظر اٹھاکے دیکھیں تو یہ جائز نہیں ہے لیکن اگر عورت ضرورت کے تحت مثلا دھوپ سے بچنے کے لئے اس طور پر چشمہ لگائے کہ اجنبی لوگوں کی نظریں اس کی طرف نہ اٹھیں تو پھر ایسی صورت میں کوئی حرج نہیں ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ پردہ کے ساتھ نکلنے والی خاتون کو دھوپ کا چشمہ لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ باقی نظر کا چشمہ لگانا عذر کی وجہ سے جائز ہے۔

جہاں تک شوقیہ یا فیشن کے طور پر چشمہ پہننے کا معاملہ ہے تو اسے لگاکر گھر سے باہر نکلنا اور لوگوں کو دکھانا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ فتنہ کا سبب ہے۔

سوال: کیا خالی بنی ہوئی قبر میں داخل ہوکر ویڈیوز بنانا شرعاً جائز ہے؟

جواب: نصیحت کے واسطے ہمارے لئے قرآن و حدیث ہی کافی ہے اس لئے لوگوں کو دین کی بات بتانے کے لئے قبروں کی تصاویر اور ویڈیوز بنانے کی ضرورت نہیں ہے پھر بھی اگر کوئی قبر کی تصویر یا ویڈیوز بناتا ہے تو اس میں حرج نہیں ہے کیونکہ یہ جاندار کی تصویر نہیں ہے لیکن یہاں یہ یاد رہے کہ بعض لوگ قبروں کو اس طرح دکھاتے ہیں جیسے اس میں عذاب ہورہا ہے یا بعض لوگ کرامت دکھاتے ہیں، ایسا کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ جھوٹی باتیں ہوتی ہیں۔ اور اگر کہیں کچھ قبر میں عجیب وغریب چیز دکھائی بھی دے پھر بھی اسے پردہ میں رکھنا چاہئے کیونکہ اس کی اصل حقیقت کو ہم نہیں جانتے ، بسا اوقات لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے قبروں کے ساتھ جادوئی حرکت انجام دی جاتی ہے۔

سوال: کیا ہم ایسے شخص کو وائی فائی اور انٹرنیٹ سروسز مہیا کرسکتے ہیں جس کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ اس کا استعمال گناہ کے کاموں میں کرے گا جیسے فلم ، موسیقی اور دوسرے حرام ویڈیوز دیکھنے میں۔ کیا یہ گناہ کے کام میں ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہوگا؟

جواب:کسی ایسے شخص کو انٹرنیٹ کا وائی فائی دینا جس کے بارے میں یقین کے ساتھ معلوم ہو کہ وہ گناہ کے کام میں ہی اس کا استعمال کرے گا یعنی وہ فلمیں دیکھے گا، گانے سنے گا اور اس قسم کے گناہ اور فحش چیزوں کے لئے انٹرنیٹ استعمال کرے گا تو ایسے شخص کو انٹرنیٹ وائی فائی دینا گناہ کے کام پر تعاون ہے جس سے اللہ رب العالمین نے ہمیں منع فرمایا ہے لہذا ایسے لوگوں کے لئے وائی فائی مہیا نہ کرایا جائے۔

سوال: عورتوں کو گھر میں کیسے پردہ کرنا چاہئے جبکہ گھر میں کزن ، دیور، پھوپھا ، خالو اور دیگر نامحرم لوگ موجود ہوں۔ کیا ہمارے لئے ڈھیلا اور لمبا عام لباس جس میں کوئی زینت نہ ہو اور اسکارف، چہرہ ڈھکنے کے لئے نوز پیس لگانا کافی ہوگا، اس سے پردہ ہوجائے گا یا شرعی پردہ کے لئے برقع پہنا ضروری ہے؟

 جواب:اصل میں اسلامی معاشرے میں جوائنٹ فیملی کا تصور نہیں ہے لیکن ہمارے یہاں عموما جوائنٹ فیملی پائی جاتی ہے جس میں بہت ساری خرابیاں ہیں، ان میں سے ایک خرابی بے پردگی ہے یعنی اس سسٹم میں رہتے ہوئے خواتین کے لئے غیرمحرم سے پردہ کرنا دشوار ترین معاملہ ہے۔
آپ جہاں رہتے ہیں اگر وہاں پر محرم اور غیر محرم دونوں قسم کے مرد ہوں تو محرم کے سامنے عورت اپنے سر، بال، چہرہ اور ہاتھ و پیر کھول سکتی ہے، بقیہ حصوں کو گلے کے نیچے سے لے کر ٹخنوں تک پوری طرح ڈھک کر رکھنا ہے سوائے شوہر کے ۔

جہاں تک غیرمحرم کا مسئلہ ہے تو اس سے چہرہ سمیت پورے جسم کو پردے میں رکھنا ہے۔ آپ یہ سمجھ لیں جیسے حجاب و برقع میں گھر سے باہر نکلتے ہیں تاکہ کوئی  اجنبی مرد آپ کو نہ دیکھے، اپنے گھر کے اندر بھی غیرمحرموں سے ٹھیک اسی طرح سے پردہ کرنا واجب ہے، آپ کا لباس، ڈھیلا ڈھالا، دبیز اور سادہ ہونا چاہیے ، نہ چست ہو، نہ چھوٹا ہو اور نہ بھڑکیلا ہو بلکہ محرموں کے سامنے بھی چست، چھوٹا اور بھڑکیلا لباس لگانے سے پرہیز کرنا ہے اور صرف اوپر مذکور حصے ہی محرم کے سامنے کھول سکتے ہیں جبکہ شوہر کے پاس عورت جیسے چاہے رہ سکتی ہے۔

جہاں تک اسکارف اور نوزپیس کا مسئلہ  ہے تو واضح رہے کہ غیرمحرموں سے سر، بال اور پیشانی سمیت پورا چہرہ ڈھکنا ہے خواہ اسکارف سے ڈھکیں یا بڑی چادر اور اوڑھنی سے ڈھکیں۔

سوال: کسی عورت کو اولاد نہ ہو اور وہ میراث میں گھر چھوڑ جائے جسے شوہر نے ھدیہ کے طور پردیا ہو۔ پیچھے رہنے والوں میں شوہر کے والدین، بھائی، بہن، بھتیجے، بھانجے وغیرہ ہیں تو کیسے تقسیم ہوگا

اور کیا عورت کی طرف سے کوئی حقدار نہیں ہوگا؟

جواب: اگر شوہر نے بیوی کو اپنی زندگی میں گھر ہدیہ کیا تھا تو یہ گھر بیوی کی ملکیت ہے، بیوی کی وفات کے بعد بیوی کی جانب سے جو وارثین ہیں ان کو اس گھر سے حصہ ملے گا ، شوہر کے وارثوں کو حصہ نہیں ملے گا۔ سوال میں جن لوگوں کا ذکر ہوا ہے ان میں سے کسی کو اس گھر سے حصہ نہیں ملے گا۔ بیوی کے والد یا والدہ یا بھائی یا بہن وغیرہ حصہ دار ہوں گے بشرطیکہ یہ ثابت ہوجائے کہ گھر بیوی کی ملکیت ہے۔

اس لئے اس مسئلہ میں ضروری ہے کہ پہلے دونوں خاندان کے درمیان ایک بیٹھک کی جائے جس میں عالم دین موجود ہوں پھر پہلے یہ طے کیا جائے کہ کیا واقعی شوہر نے بیوی کو گھر تحفہ دیا تھا یا یہ شوہر کی ملکیت ہے۔ اس کے بعد وراثت تقسیم کی جائے تاکہ دو خاندانوں میں تنازع نہ ہو اور آپس میں کسی قسم کی غلط فہمی نہ رہے۔

سوال: کبھی ایسے ہوتا ہے کہ ایک اذان ختم ہوکر کہیں سے دوسری اذان شروع ہوجاتی ہے پھر دوسری اذان کا جواب دینے لگ جاتی ہوں جبکہ پہلی اذان کے بعد کی دعا نہیں پڑھ پاتی ہوں ۔ کیا ساری اذانوں کا جواب دے کر ایک ساتھ تمام اذانوں کے بعد کے اذکار پڑھ سکتی ہوں ؟

جواب:اذان اس لئے دی جاتی ہے تاکہ لوگوں کو نماز کی خبر دی جائے اور لوگ نماز کی طرف آئیں۔ چونکہ مردوں پر مسجد جاکر جماعت سے نماز پڑھنا فرض ہے اس لئے اذان سن کر مرد تو مسجد جائیں گے مگر عورتیں اپنے گھر میں نماز ادا کریں گی۔ اور جس طرح مردوں کے حق میں اول وقت پر نماز پڑھنا افضل ہے اسی طرح عورتوں کے حق میں بھی ہے۔ لہذا عورتوں کے حق میں صحیح عمل یہ ہے کہ وہ جیسے کہیں اذان سنے ، اس کا جواب دے کر فورا وقت پر اپنی نماز ادا کرے ، اسے دوسری اذان کا انتظار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کے حق میں بہتر و افضل ہے کہ وہ جلدی سے وضو بناکر اول وقت پر نماز ادا کرے۔ ایک اذان سن کر اس کا جواب دینا اور اذان کے بعد کی دعا پڑھ لینا کافی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ جب پہلی اذان سن کر جواب دئے تو اسی وقت آخر میں اذان کے بعد کی دعا پڑھیں، یہ دعا بعد میں نہیں پڑھنا ہے اور نہ ہی دو تین اذان سن کر ایک ساتھ پڑھنا ہے ۔ پہلی اذان کی  وجہ سے دوسری اذان کے کچھ کلمات چھوٹ جائیں یا خود بھی چھوڑ دیتے ہیں تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے کیونکہ اذان کا جواب دینا واجب نہیں ہے مسنون ہے۔ عورت کے حق میں اصل یہ ہے کہ جیسے نماز کا وقت ہوجائے وہ اپنی نماز ادا کرے، اس میں تاخیر نہ کرے۔
ہاں ناپاکی کے دنوں میں جب نماز نہ پڑھنا ہو تو جتنی اذانوں کا جواب دے سکیں جواب دیں کیونکہ اس وقت آپ کو نماز نہیں پڑھنا ہے۔

سوال: پاکستان میں اپنے مذہبی تہوار کے لئے سکھ لوگ آتے ہیں تو کیا ان کو رہائش کے لئے اپنا گھر کرائے پر دیاجا سکتا ہے؟

جواب: قرآن وحدیث کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلم کی مذہبی رسومات اور اس کے تہوار پر کسی طرح کا کوئی تعاون کرنا گناہ میں آئے گا لہذا اگر سکھ لوگ فقط اپنے مذہبی تہوار کے لئے کہیں پر آتے ہوں تو ایسے لوگوں کو کرائے پر روم دینا مسلمانوں کے لئے درست نہیں ہے۔ اور کاروبار اور دنیاوی غرض وغایت سے ٹھہرنے کے لئے روم لیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال: ایک شادی شدہ لڑکی اپنی زندگی میں خوش نہیں ہے، ایک دن لڑکا لڑکی دونوں بند کمرے میں تھے، کوئی گواہ نہیں تھا اور آپس میں کچھ جھگڑا ہوا تو لڑکی نے کہا کہ مجھے بخش دو ، مجھے چھوڑ دو  اور میرے اوپر رحم کرو وغیرہ، اس بات پہ لڑکے نے لڑکی کو لکھ کر تین طلاق دے دیا اور زبانی طور پر بول کر بھی کہا کہ میں تمہیں پورے ہوش وحواس میں تین طلاق دے رہا ہوں ۔ ثبوت کے لئے اس کو رکارڈ کرلیا تھا مگر لڑکے کے گھر والے نہیں مانتے اور کہہ رہے ہیں کہ لڑکی نے جبرا گن پوائنٹ پہ طلاق دلوائی ہے اس لئے یہ طلاق نہیں ہوگی اور لڑکی کے گھر والے کہہ رہے ہیں کہ بعض فرقے میں تین طلاق ایک ہی ہوتی ہے وہ کون سا فرقہ ہے اور اس بارے میں صحیح مسئلہ کیا ہے بتائیں ؟

جواب: جب لڑکے نے بیوی کے کہنے سے اس کو لکھ کر اور بول کر ایک ساتھ تین طلاق دے دیا تو اس سے ایک رجعی طلاق مانی جائے گی یعنی یہ تینوں طلاق واقع نہیں ہوں گی، صرف ایک طلاق واقع ہوگی ۔ طلاق رجعی میں تین حیض عدت ہوتی ہے ، اگر طلاق کی عدت باقی ہے تو شوہر اپنی بیوی سے رجوع کرسکتا ہے اور اگر رجوع نہ کرے تو تین حیض کی عدت گزرنے کے بعد میاں بیوی میں جدائی ہوجائے گی ۔

جہاں تک لڑکے کے گھر والوں کا کہنا کہ یہ جبری طلاق ہے ، یہ نہیں مانی جائے گی ، غلط ہے ۔ یہ کوئی   جبری طلاق کا معاملہ نہیں لگتا ہے، بیوی نے محض طلاق کا مطالبہ کیا ہے اور شوہر نے طلاق دیدی ہے اس لئے اس کے واقع ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ جہاں تک ایک مجلس کی تین طلاقوں کا معاملہ ہے تو اس بارے میں حق یہی ہے کہ صرف ایک طلاق واقع ہوتی ہے، یہ قرآن و حدیث کا فیصلہ ہے ، یہ کسی فرقہ کی بات نہیں ہے۔

سوال: سورہ کہف پڑھنے کا صحیح وقت کون سا ہے ، بعض لوگ کہتے ہیں کہ جمعرات کے بعد سے مغرب کا وقت شروع ہوجاتا ہے اس لئے جمعرات کے مغرب کے بعد سے کبھی بھی سورہ کہف پڑھ سکتے ہیں، اس بارے میں صحیح رہنمائی فرمائیں؟

جواب: جمعہ کو سورہ کہف پڑھنے کے سلسلے میں اختلاف پایا جاتا ہے کیونکہ اس سلسلے میں وارد احادیث کو بعض اہل علم نے ضعیف اور بعض نے صحیح کہا ہے اس کے باوجود جمعہ کو سورہ کہف پڑھنے کی مشروعیت معلوم ہوتی ہے۔ جہاں تک سورہ کہف پڑھنے کے وقت کا معاملہ ہے تو اس بارے میں صحیح ابن عثیمین ؒ کہتے ہیں کہ جمعہ کو سورج طلوع ہونے سے لے کر غروب ہونے کے درمیان کسی بھی وقت پڑھ سکتے ہیں اور شیخ ابن بازؒ کی بھی رائے یہی ہے کہ جمعہ کے دن اول وقت، اوسط وقت یا آخر وقت کبھی بھی پڑھ سکتے ہیں۔

یہ بات صحیح ہے کہ جمعرات کا سورج ڈوبنے سے جمعہ کا دن شروع ہوجاتا ہے اس وجہ سے بعض اہل علم جمعرات کی رات کو بھی سورہ کہف پڑھنے کے قائل ہیں بلکہ حدیث میں لیلۃ الجمعہ کا لفظ بھی وارد ہے مگر ضعف سے خالی نہیں ہے ۔ اس وجہ سے بہتر یہ ہے کہ جمعہ کے دن طلوع شمس  سے لے کر غروب شمس کے درمیان سورہ کہف کی تلاوت کی جائے ۔

سوال: حضرت علی کا قول ہے کہ دنیا اگر حرام طریقے سے کماؤگے تو عذاب ہے اور حلال کماؤگے تو حساب ہےیعنی دونوں طرح سے مشکلات ہیں پھر کیا ہمیں زیادہ مال کمانے سے پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ چاہے جتنی اچھی جگہ استعمال کرلیں ، حساب تو ہونا ہے ، ایسے میں کس طرح چھٹکارا پایا جائے گا؟

جواب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا یہ قول بعض کتب میں ملتا ہے ،آپ دنیا کا وصف بیان کرتے ہوئے اس طرح سے ذکر کرتے ہیں:حلالُها حسابٌ وحرامُها النارُ.(الزهد لابن أبي الدنيا:17)
ترجمہ: دنیا حلال طریقے سے کمانے پر حساب ہے اور اس کو حرام طریقے سے کمانے پر آگ ہے۔

اس قول کو سخاوی رحمہ اللہ نے منقطع کہا ہے اور یہ ضعیف روایت ہوتی ہے۔(المقاصد الحسنة:232)
چونکہ مذکورہ قول ضعیف ہے اس لئے اس بات کو حوالہ کے طور پر پیش کرنا درست نہیں ہے تا ہم یہ بات صحیح ہے کہ انسان جو کچھ بھی کماتا ہے ان سب کا حساب لیا جائے گا خواہ جائز طریقے سے کمائے یا حرام طریقے سے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم حلال کمائی زیادہ سے زیادہ نہیں کما سکتے ہیں۔ حلال کمائی ہمارے لیے حلال ہے اور جس کے پاس زیادہ پیسے ہوں وہ خیر کے کام زیادہ سے زیادہ کر سکتا ہے۔ آئیے صحیح بخاری کی ایک حدیث سے اس بات کا اندازہ لگاتے ہیں۔حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا :

جاء الفقراء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالوا: ذهب أهل الدثور بالدرجات العُلى والنعيم المقيم، يصلون كما نصلي ويصومون كما نصوم، ولهم فَضْلٌ من أموال يحجون بها ويعتمرون ويجاهدون ويتصدقون، قال: ألا أحدثكم بأمر إن أخذتم به أدركتم من سبقكم ولم يدرككم أحد بعدكم، وكنتم خير من أنتم بين ظهرانيه إلا من عمل مثله: تسبحون وتحمدون وتكبرون خلف كل صلاة ثلاثاً وثلاثين.(صحیح البخاری: 843)

ترجمہ : کچھ مسکین لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اوربولے کہ مال والے تو بلند مقام اورجنت لے گئے ۔ وہ ہماری ہی طرح نمازپڑھتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں ۔ اوران کے لئے مال کی وجہ سے فضیلت ہے ، مال سے حج کرتے ہیں، اورعمرہ کرتے ہیں، اورجہاد کرتے ہیں، اورصدقہ دیتے ہیں ۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جس کی وجہ سے تم پہلے والوں کے درجہ پاسکو اورکوئی تمہیں تمہارے بعد نہ پاسکے اورتم اپنے بیچ سب سے اچھے بن جاؤ سوائے ان کے جو ایسا عمل کرے ۔ وہ یہ ہے کہ ہرنمازکے بعد تم تینتیس بار(33) سبحان اللہ تینتیس بار(33) الحمدللہ اورتینتیس بار(33) اللہ اکبرکہو۔

اس حدیث سے بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مالداروں کو برا بھلا نہیں کہا ہے  بلکہ یہاں سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اگر کسی کو زیادہ مال و دولت دے تو زیادہ سے زیادہ نیکی کا کام کرے۔

بہرحال حلال طریقہ سے زیادہ سے زیادہ کمانے میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم حلال کمائی کو اچھی جگہ پر خرچ کرنا چاہیے تاکہ آخرت میں مالی محاسبہ آسان ہو۔

سوال: بچوں کو کوئی چیز دلاکر جمعہ کے دن مسجد میں لے جاسکتے ہیں؟

جواب: بچوں کو مسجد اور نماز کا شوق دلانے کے لئے انہیں تحفے اور انعام دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بلا شبہ والدین اپنے بچوں کو ان کی پسند کی کوئی چیز دلاکر مسجد بھیج سکتے ہیں یا مسجد جانے اور نماز پڑھنے پر اپنے بچوں سے وعدہ کرسکتے ہیں کہ نمازوں کی پابندی پر انہیں فلاں فلاں چیز یا فلاں فلاں ہدیہ  وتحفہ ملے گا۔

سوال: کنگھے کے ٹوٹے ہوئے بالوں کو بیچنے کی ممانعت ہو تو براہ کرم اس کی دلیل عنایت فرمائیں ؟

جواب: اس پر اہل علم کا اتفاق ہے کہ انسانی جسم کا کوئی عضو بیچنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ انسان کی اپنی ملکیت نہیں ہے اور اللہ تعالی نے انسان کو مکرم بنایا ہے لہذا جسم کا کوئی حصہ بیچنا اس تکریم کے منافی ہے اور بال بھی جسم کا ایک حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آَدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْاِيلً (الإسراء:70)

ترجمہ: اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو جنگل اور دریا میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی۔

اس وجہ سے انسان اپنے جسم کا بال، آنکھ ، گردہ، خون اور کوئی بھی چیز نہیں بیچ سکتا ہے ۔

سوال: کیا دوران خطبہ ذِکر الٰہی اور درود شریف پڑھ سکتے ہیں؟

جواب: خطبہ اس لئے دیا جاتا ہے تاکہ سامعین اسے بغور سنیں اور خطبہ سے نصیحت حاصل کریں۔ خطبہ کے دوران بولنا، بات کرنا اور کسی قسم کی حرکت کرنا ممنوع ہے بلکہ ہمہ تن گوش ہوکر بالکل چپ چاپ خطبہ سماعت کرنا چاہیے ۔ صحیح مسلم(857) میں ہے، نبی ﷺ فرماتے ہیں:"مَن مَسَّ الحَصا فقد لَغا" جس نے (جمعہ کے دوران) کنکری چھوا اس نے لغو کام کیا یعنی جو خطبہ کے دوران معمولی کام کنکری چھوتا یا فضول کام کرتا ہے وہ لغو ہےاس لئے دوران خطبہ ذکر الہی اور درود پڑھنا درست نہیں ہے۔

سوال: میرے یہاں سردی کا موسم ہے، میں نے عشاء کے وقت وضو کرکے موزہ پہن لیا، سردی کی شدت کی وجہ سے موزہ پر دوسرا موزہ بھی لگالیا۔ عشاء کی نماز کے بعد سونے کے وقت دوبارہ وضو کرکے لیٹے ہوئے نفل اور وتر کی نماز پڑھی اور پھر سونے سے قبل موزے کا ایک سیٹ اتار دیا۔ اس وقت یہ ارادہ تھا کہ فجر کے وقت وضو میں پاؤں دھلوں گی مگر یہ بات بھول گئی اور فجر کے وقت اسی ایک سیٹ پہنے موزہ پر مسح کرکے نماز ادا کرلی پھر اپنا پہلا ارادہ یاد آیا، ایسے میں وضو کا حکم کیا ہے اور کیا نماز دہرانی ہوگی؟

جواب: موزہ پر مسح کرنے کی شرط یہ ہے کہ اسے وضو کر کے پہنا گیا ہو اور چونکہ آپ نے وضو کرکے موزہ لگایا پھر اس پر مسح کیا لہذا اس میں کوئی حرج نہیں ہے آپ کا وضو درست ہے اور فجر کے وقت پڑھی گئی نماز بھی درست ہے اسے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک موزہ پر دوسرا سیٹ لگالینے میں کوئی حرج نہیں ہے اور دوسرا سیٹ اتار کر پہلے سیٹ پر فجر کے وقت مسح کیا گیا اس میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوال: اپنے شہر سے دوسرے شہر جانا ہے۔ ایک بہن کا محرم اس کے ساتھ ہے مگر چار پانچ خواتین اور بھی ہیں جن کے ساتھ مرد محرم نہیں ہیں۔ کیا یہ خواتین بھی محرم والی خاتون کے ساتھ سفر کر سکتی ہیں۔ سفر اورنگ آباد سے حیدرآباد تک کا ہے۔ میں نے تو اس طرح جانے سے انکار کر دیا مگر ایک عورت کہتی ہے کہ عورتیں بھی ایک دوسرے کی محرم بنتی ہیں، کیا یہ بات درست ہے؟

جواب: یہ یاد رہے کہ ہر عورت کے لئے سفر میں اس کا محرم ہونا ضروری ہے اور کوئی بھی عورت کسی عورت کے لئے محرم نہیں بن سکتی ہے بلکہ محرم صرف مرد ہوتا ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں محرم کا ذکر بھی کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

لا تسافر المراة سفرا ثلاثة ايام فصاعدا، إلا مع ابيها او اخيها او ابنها او زوجها، او ذي محرم(ابن ماجہ:2898)
ترجمہ: عورت تین یا اس سے زیادہ دنوں کا سفر باپ یا بھائی یا بیٹے یا شوہر یا کسی محرم کے بغیر نہ کرے۔(شیخ البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے)۔

جس عورت نے کہا کہ عورت بھی عورت کا محرم ہوتی ہے اس عورت نے غلط کہا ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ عورت کا محرم اس کا وہ مرد ہوتا ہے جس سے اس کا نکاح حرام ہے۔

سوال: نماز کے دوران آسمان کی طرف دیکھنا منع ہے مگر کیا دعا مانگتے وقت آسمان کی طرف دیکھا جا سکتا ہے؟

جواب: نماز کے اندر آسمان کی طرف دیکھنا ممنوع ہے ,نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: لوگوں کا کیا حال ہے جو نماز میں اپنی نظریں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے نہایت سختی سے روکا۔ یہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ اس حرکت سے باز آ جائیں ورنہ ان کی بینائی اچک لی جائے گی۔(بخاری:750)

چونکہ نماز کے اندر آسمان کی طرف نظر اٹھانے کی ممانعت ہے اور یہ ممانعت عام حالات میں نہیں ہے لہذا نماز سے باہر دعا مانگتے ہوئے آسمان کی طرف نظر اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ عام حالت میں آسمان کی طرف نظر اٹھانے کی ممانعت نہیں ہے۔

سوال: ایک خاتون کی شادی کو آٹھ سال سے زیادہ ہوگئے مگر اسے کوئی اولاد نہیں ہوئی، وہ کہتی ہے کہ میرا شوہر اپنا علاج کرانے کے بجائے میرے اوپر اولاد نہ ہونے کا الزام لگاتا ہے جبکہ وہ اپنا علاج کراچکی ہے۔ اب وہ اس سے علاحدہ ہونا چاہتی ہے لیکن اس کا شوہر طلاق نہیں دے رہا ہے اور خلع طلب کرنے پر کہتا ہے کہ پہلے چھ لاکھ دو، تب کاغذ پر دستخط کروں گا۔ ایسے میں عورت کیا کرے وہ چھ ماہ سے اپنے میکے میں ہے اور شوہر کہتا ہے کہ ساری عمر اسی طرح لٹکا کر رکھوں گا؟

جواب: جس خاتون کی شادی کو آٹھ سال سے زیادہ ہو گئے اور اولاد نہیں ہوئی جس کی وجہ سے اس کا شوہر بیوی کو مورد الزام ٹھہراتا ہے اس خاتون کو صبر سے کام لینا چاہیے اور اس بات پر یقین کرنا چاہیے کہ اولاد دینا صرف اللہ رب العالمین کا کام ہے, نہ یہ شوہر کے ہاتھ میں ہے اور نہ ہی بیوی کے ہاتھ میں ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

لِّلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ يَهَبُ لِمَن يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَ(الشوری:49)
ترجمہ: اللہ زمین و آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جسے چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے۔

اس آیت سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اولاد دینے والا صرف اللہ تعالی ہے اور اللہ جسے چاہتا ہے اولاد سے محروم کر دیتا ہے لہذا انسان کو اولاد کے لئے اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے اور جسے اولاد ہونے میں تاخیر ہو یا جسے اولاد نہ ہو وہ صبر کرے اللہ تعالی اسے صبر کا بدلہ عطا فرمائے گا۔

مذکورہ صورتحال میں، میں اس بہن سے عرض کروں گا کہ اگر شوہر سے نباہ کی صورت ہو بھلے اس سے کچھ تکلیف بھی پہنچتی ہو پھر بھی واپس اپنے شوہر کے پاس چلی جائے اور اس کے پاس زندگی گزارے، اگر اولاد اس کی قسمت میں ہوگی تو ضرور اللہ اولاد سے نوازے گا۔

اور اگر نباہ کی کوئی صورت نہ ہو تو وہ  اپنے قریب کے عالم دین کی مدد حاصل کرے، وہ جانبین کے حالات کو دیکھ کر صحیح مشورہ دے سکتے ہیں حتی کہ خلع کی نوبت پڑے تو وہ خلع کی کاروائی کا فریضہ بھی انجام دے سکتے ہیں۔ اس کے لئے میرا تفصیلی مضمون "خلع کا طریقہ اوراس کےبعض مسائل" کا مطالعہ کریں جو میرے بلاگ پر موجود ہے۔

سوال: سحری اذان سے کتنی دیر پہلے کھالینی چاہیے، بعض لوگ اذان کے قریب سحری کھاتے ہیں اور جب اذان ہونے لگتی ہے تو پانی پیتے ہیں کیا یہ صحیح ہے؟

جواب: ویسے تو فجر کی اذان سے پہلے پہلے تک سحری کا وقت ہوتا ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اذان فجر سے کچھ دیر پہلے ہی سحری کھا کر فارغ ہو جاتے جیسا کہ صحابی رسول زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

تسَحَّرْنا معَ النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم، ثم قام إلى الصلاةِ، قلتُ : كم كان بينَ الأذانِ والسُّحورِ ؟ قال : قدْرَ خمسينَ آيةً (صحيح البخاري:1921)

ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے سحری کھائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ میں نے پوچھا کہ سحری اور اذان میں کتنا فاصلہ ہوتا تھا تو انہوں نے کہا کہ پچاس آیتیں (پڑھنے) کے موافق فاصلہ ہوتا تھا۔

لہذا ہمیں بھی سحری کھانے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سنت کی پیروی کرنا چاہیے اور اذان فجر سے چند منٹ پہلے ہی سحری سے فراغت حاصل کر لینی چاہیے۔ اگر کبھی اتفاقی طور پر سحری کھاتے ہوئے اذان فجر ہونے لگے تو جلدی سے اپنی ضرورت پوری کرلینی چاہیے لیکن جو لوگ عمدا(جان بوجھ کر) اذان کے وقت سحری کھاتے ہیں اور اذان کے بعد پانی پیتے ہیں ایسے لوگوں کا روزہ بھی خراب ہوسکتا ہے کیونکہ ایسے وقت میں پانی پیتے ہیں جس وقت میں بھوکا رہنا ہے۔ اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ رمضان کے علاوہ دیگر مہینوں میں فجر کی اذان بہت ساری جگہوں پر تاخیر سے ہوتی    ہے ایسے میں سحری کھانے والوں کو محتاط رہنا چاہیے۔

سوال: کیا عورتوں کے لئے ہر قسم کے بالوں کا جوڑا کرنا منع ہے۔ اگر کوئی عورت بالوں کو اکٹھا کرکے درمیان سر پہ نہیں بلکہ تھوڑا سا نیچے کرکے اکٹھے بال باندھ لیتی ہے تو کیا ایسا کرنا بھی گناہ کے زمرے میں آئے گا۔ عام طور پر عورتیں گرمی سے بچنے کے لئے بالوں کو اکٹھا کرکے باندھ لیتی ہیں کیونکہ چوٹی سے اکثر بال باہر نکل جاتے ہیں؟

جواب: بالوں کو جمع کرکے درمیان سر کے اوپر جوڑا بنا لینا جو بختی اونٹ کے کوہان کی طرح معلوم ہو دراصل بالوں کا یہ جوڑا بنانا ممنوع ہے اور اس کے علاوہ دوسرے قسم کے جوڑے بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے جیسے عورت گرمی سے بچنے کے لئے بالوں کا جوڑا بنا کر سر کے نیچے لٹکا لے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال: جب بھی نماز پڑھتی ہوں تو پیر کو بائیں طرف نکال لیتی ہوں خواہ جلسہ ہو یا قعدہ کیونکہ پیر میں اکڑاہٹ پیدا ہوتی ہے اور سلام پھیرنے کے بعد فورا آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتی ہوں، کیا ایسا کرنے سے نماز میں فرق آئےگا؟

جواب:  جلسہ استراحت، جلوس بین السجدتین اور قعدہ اولی میں افتراش کرنا چاہئے ۔ افتراش کا مطلب ہے دائیں پیر کھڑا کرکےاسے قبلہ رخ کرنا اور بائیں پیر بچھاکر اس پر بیٹھنا۔ اور آخری قعدہ میں تورک کیا جائے گا۔ تورک کا طریقہ یہ ہے کہ دائیں پیر کو کھڑا کرکے قبلہ رخ کریں اور بائیں  پیر دائیں جانب نکال کر زمین پر بیٹھیں ۔ نماز میں بیٹھتے وقت اس مسنون طریقہ کا التزام کیا جائے گا لیکن کسی کو مشقت کی وجہ سے اس کیفیت میں بیٹھنے  میں دشواری ہو تو کم ازکم  وہ افتراش والی بیٹھک اپنائے اور اگر وہ بھی دشوار ہو تو بیٹھنے میں جو سہولت ہو اپنائے ۔ نبی ﷺ نے کھڑے ہوکر نماز نہ پڑھ سکنے والے کو بیٹھ کر اور بیٹھ کر نماز نہ پڑھ سکنے والے کو پہلو کے بل نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے۔

بہرکیف!مکمل نماز آدمی کو اسی طرح پڑھنا چاہئے جیسے نبی ﷺنے ادا فرمائی ہے اور آپ نے حکم دیا ہے کہ تم اسی طرح نماز پڑھو جیسے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔(بخاری) اگر عذر کی وجہ سے پیروں کو بائیں جانب نکالتے ہیں تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن عذر نہ ہو سنت کے مطابق نماز میں بیٹھیں اور سلام پھیرنے کے بعد چاہے جیسے بیٹھیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوال: حدیث میں ہے کہ "جو شخص تین مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے گا اسے پورا قرآن پڑھنے کے برابر ثواب ملے گا". (بخاری:6643) اس حدیث کو کس طرح سمجھیں گے؟

جواب:  نبی ﷺ نے سورہ اخلاص کو قرآن کا ایک تہائی حصہ قرار دیا ہے اس سے بلاشبہ اس سورت کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے بلکہ اس سورت کے فضائل میں اور بھی متعدد احادیث ہیں ۔ ایک تہائی قرآن کہنے سے کیا مراد ہے اس بارے میں اہل علم کے متعدد آراء ملتے ہیں ۔ ایک رائے یہ ہے کہ اپنے مضامین کے اعتبار سے ایک تہائی ہے یعنی قرآن تین قسم کے علوم پر مبنی ہے ، ایک  علم توحید ، دوسراعلم  رسالت اور تیسراعلم آخرت ۔ سورہ اخلاص میں توحید کا علم ہے گویا ایک تہائی قرآنی علم اس سورت میں موجود ہے ۔اس سلسلے میں صحیح مسلم میں ایک حدیث ملتی ہے۔نبی ﷺ فرماتے ہیں : إنَّ اللَّهَ جَزَّأَ القُرْآنَ ثَلاثَةَ أجْزاءٍ، فَجَعَلَ {قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ} جُزْءًا مِن أجْزاءِ القُرْآنِ(صحیح مسلم:811)

ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے تین اجزاء (حصے) کئے ہیں اور قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ کو قرآن کے اجزاء میں سے ایک جز قرار دیاہے۔

اسی طرح تہائی قرآن سے مراد ایک رائے یہ ہے کہ اس کی تلاوت تہائی قرآن کے برابر ہے ، جو سورہ اخلاص کی تین بار تلاوت کرے گا اسے پورا قرآن پڑھنے کا اجر ملے  گااور اس بارے میں ایک حدیث بھی ملتی ہے۔ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ کیا تم میں سے کسی کے لیے یہ ممکن نہیں کہ قرآن کا ایک تہائی حصہ ایک رات میں پڑھا کرے؟ صحابہ کو یہ عمل بڑا مشکل معلوم ہوا اور انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم میں سے کون اس کی طاقت رکھتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ «الواحد الصمد» (یعنی «قل هو الله أحد‏») قرآن مجید کا ایک تہائی حصہ ہے۔ (صحیح مسلم:5015)

خلاصہ یہ ہے کہ دلائل سے اس سورت کی جو جو فضیلت ثابت ہوتی ہے ہم اسے ثابت مانیں گے لہذا سورہ اخلاص تہائی قرآن کے برابر کہنے کا مطلب مضامین کے اعتبار سے بھی ہے اور تلاوت کی فضیلت کے اعتبار سے بھی مگر کوئی صرف سورہ اخلاص کی تلاوت کو لازم پکڑلے اور پورے قرآن کی تلاوت سے بے نیاز ہوجائے یہ مناسب نہیں ہے۔ ہم پورے قرآن کی تلاوت کریں   گے اور جب چاہیں گے بکثرت سورہ اخلاص کی بھی تلاوت کریں گے ۔

سوال:استاد کا سزا کے طور پر بچوں سے فائن لینا جائز ہوگا؟

جواب: مدارس میں بچوں سے تاخیر کرنے پر یا کسی طرح کی غلطی کرنے پر مالی جرمانہ لیا جاتا ہے یہ شرعا درست نہیں ہے۔ فتاوی لجنہ دائمہ سے اس مالی جرمانہ کے متعلق سوال کیا گیا جو قبائل کے بعض افراد کی طرف سے بعض امور کے ارتکاب پہ عائد کیا جاتا ہے تو کمیٹی نے جواب دیا:
من أخذ غرامة مالية لمن يفعل كذا وكذا. فهذا إجراء لا يجوز؛ لأنه عقوبة تعزيرية مالية ممن لا يملكها شرعًا، بل مرد ذلك للقضاة، فيجب ترك هذه الغرامات(فتاوى اللجنة الدائمة، رقم:20904 )

ترجمہ: جس نے مالی جرمانہ لیا ایسے شخص سے جو ایسا یا ویسا کرے تو یہ جائز نہیں ہے کیونکہ شرعی طورپرمالی سزا نافذ کرنے کا اختیار ایسے اشخاص کو نہیں ہے بلکہ یہ قاضی کے ذمہ ہے اس لئے یہ جرمانے ترک کرنا واجب ہے۔

سوال:ایک عورت نے پہلے شوہر سے نکاح ختم کر لیا اور دوسرے سے نکاح کیا اور پھر دوسرے شوہر سے بھی نکاح ختم کرلیا۔ اب اگر پہلے شوہر سے نکاح کرنا ہو تو کیا دوسرے شوہر کا طلاق دینا ضروری ہے یا عورت خود خلع لےکر پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے اور کیا یہ حلالہ کی صورت ہے؟

جواب: یہاں پر سب سے بنیادی بات یہ علم میں رہے کہ بغیر شرعی عذر کے کسی عورت کا شوہر سے طلاق لینا یا خلع طلب کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی عورت بغیر عذر کے شوہر سے جدائی حاصل کرتی ہے تو وہ گنہگار ہوگی لیکن اگر عورت کے ساتھ شرعی عذر تھا اور اس نے پہلے شوہر سے علاحدگی اختیار کی پھر دوسرے مرد سے شادی کی اور وہاں پر بھی شرعی عذر کی بنیاد پر طلاق ہوگئی یا خلع ہوگیا۔ اب اگر وہ واپس پہلے شوہر کے پاس آنا چاہتی ہے تو شرعی طور پر نکاح کرکے اس کی زوجیت میں آسکتی ہے۔ دوسرے شوہر نے طلاق دی ہو یا دوسرے شوہر سے خلع ہوا ہو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، دونوں صورتوں میں عورت پہلے شوہر سے نکاح کر سکتی ہے اور یہ وہ حلالہ  نہیں ہے جس پر لعنت کی گئی ہے۔

سوال: کیا کھانا کھاتے وقت بات نہ کرنا سنت ہے؟

جواب:  نبی ﷺ نے کھاتے وقت بات کرنے سے کبھی کسی صحابی کو منع نہیں کیا بلکہ متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے کھاتے وقت بھی باتیں کی ہیں ۔ اس  کے بے شمار دلائل ہیں مثلا حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

أنَّ النبيَّ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ سَأَلَ أَهْلَهُ الأُدُمَ ، فَقالوا: ما عِنْدَنَا إلَّا خَلٌّ، فَدَعَا به، فَجَعَلَ يَأْكُلُ به، ويقولُ: نِعْمَ الأُدُمُ الخَلُّ، نِعْمَ الأُدُمُ الخَلُّ(صحيح مسلم:2052)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں سے سالن کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا: ہمارے پاس تو صرف سرکہ ہے آپ نے سرکہ منگایا اور اسی کے ساتھ روٹی کھانا شروع کردی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے۔سرکہ عمدہ سالن ہے سرکہ عمدہ سالن ہے۔

دلیل کے لئے ایک حدیث ہی کافی ہے ، اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے آدمی کھاتےوقت بھی بات کرسکتا ہے اس لئے یہ کہنا کہ کھانے وقت بات نہ کرنا سنت ہے، صحیح بات نہیں ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ کھاتے وقت یا عام حالات میں بھی بلاضرورت بولنا صحیح نہیں ہے اور جب بھی بولیں اچھی بات بولیں ورنہ خاموشی اختیار کریں۔

سوال: ایک عورت عمرہ کرنے آئی تھی اس نے عمرہ کر لیا اور اب اسے دوبارہ عمرہ کے لئے مدینہ سے مکہ جانا ہے مگراسے حیض آگیاہے۔ یہ ناپاکی پاکستان جانے تک رہ سکتی ہے تو کیا وہ میقات سے ایسے ہی گزر جائے یا اگر شک ہو کہ پاک ہو جائے گی تو شرط لگا کر نیت کرلے؟

جواب:جو عورت اپنے ملک سے عمرہ کے لئے آتی تھی اور اس نے اپنا عمرہ کرلیا ، الحمدللہ اس کا مقصد پورا ہوگیا اور اصل میں ایک سفر میں ایک ہی عمرہ کرنا سنت ہے ۔ اور چونکہ ابھی وہ حالت حیض میں ہے اس لئے وہ مدینہ سے مکہ جاتے وقت عمرہ کا احرام نہیں باندھے کیونکہ عمرہ کا احرام باندھنے کے بعد پاک ہونے تک اسے مکہ میں احرام کی پابندی کے ساتھ ٹھہرنا پڑے گا اور پاکی کی حالت میں عمرہ کرنا پڑے گا جوکہ ایک مشکل امر ہے ۔اس حال میں شرط لگانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ، شرط تو اس وقت لگانا مفید ہوتاجب وہ پاکی کی حالت میں ہوتی اوراحرام باندھتے وقت  شرط لگانے کے بعد حیض آجاتاتو پھر وہ عمرہ چھوڑ سکتی ہے مگر مذکورہ صورت حال دوسری ہے۔

سوال: سعودی عرب میں بعض سونے کی دکانوں میں کیش خریدنے پر پندرہ فیصد حکومتی ٹیکس کے بغیرزیورات بیچے جاتے ہیں، کیا اس طرح زیورات خرید سکتے ہیں جبکہ کارڈ سے آن لائن پیمنٹ کرنے پر پندرہ فیصد ٹیکس بھی دینا پڑتا ہے؟

جواب: زیوارت کیش خریدنے پر ٹکیس نہ لگتا ہو تو اس طرح زیورات خریدنے میں خرج نہیں ہے ۔ آپ اس طرح زیورات خرید سکتے ہیں ۔ خرید و فروخت کی اصل شکل تو کیش ہی ہے ، آن لائن ایک سہولت ہے۔ کہیں کہیں آن لائن پیمنٹ نہ کرنے پر قانونی مشکل آتی ہے لہذا اس مشکل کو دھیان میں رہ کر خرید وفروخت کریں ۔

سوال: ابوداؤد(3230) میں ہے کہ ایک شخص جوتا پہنے قبروں کے درمیان چل رہا تھا تو نبی ﷺ نے اسے جوتا اتارنے کا حکم دیا چنانچہ اس نے جوتا اتار پھینکا۔ اس حدیث کی روشنی میں بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ قبروں کے درمیان جوتیاں پہن کر نہیں چلنا چاہئے مگر بعض جگہوں پر جیسے بقیع غرقد میں عموما دیکھا جاتا ہے کہ سبھی لوگ جوتیاں پہن کر چلتے ہیں، ایسا کیوں ہے؟

جواب: ابوداؤد کی مذکورہ بالا حدیث کو شیخ البانی نے حسن قرار دیا ہے اور اس حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو اپنا جوتا قبرستان سے باہر نکالنا چاہئے اور خالی پیر قبروں کے درمیان چلنا چاہئے تاکہ قبروں کی بے حرمتی نہ ہو تاہم بعض اہل علم نے جوتے پہن کر بھی قبرستان جانا جائز قرار دیا ہے اور دلیل میں ابوداؤد کی مذکورہ بالا حدیث کے بعد مروی یہ حدیث پیش کی جاتی ہے۔انس رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ”جب بندہ اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی لوٹنے لگتے ہیں تو وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے“۔(ابوداؤد:3231)
اس حدیث سے صاف طور پر یہ معلوم نہیں ہوتا ہے کہ قبروں کے درمیان جوتے پہن کر چلنا چاہئے مگر اہل علم کے راحج موقف کی روشنی میں عذر کے وقت جوتوں سمیت قبرستان میں داخل ہوسکتے ہیں جیسے قبرستان میں کانٹے ، جھاڑ اور کنکروپتھر وغیرہ ہوں اور کوئی عذر نہ ہو تو جوتے پہن کر قبرستان نہ جایا جائے ۔ نیز ایسے قبرستان جس میں چلنے کے لئےراستے بنائے گئے ہوں تو وہاں جوتے پہن کر چلنے میں حرج نہیں ہے اور بقیع کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے کہ اس میں چلنے کے لئے راستہ بنایا گیا ہے لہذا اس میں جوتا سمیت داخل ہوسکتے ہیں ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔