﷽
آپ کے سوالات اور ان کے جوابات (26)
جواب از : شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ - سعودی عرب
سوال:کچھ لوگ باہر یورپ میں رہتے ہیں ان میں سے کہیں کچھ لوگوں کو
جمعہ پڑھنے کی اجازت ہے مگر کہیں پر کچھ لوگوں کو جمعہ پڑھنے کی اجازت نہیں ہے ،
جاب کی وجہ سے ادھر رہنااور جاب کی ایسی ریکوائرمنٹس پوری کرنا ان کی مجبوری ہے
جبکہ وہ حلال طریقے سے کمارہے ہیں مگر جمعہ پڑھنے کی نہ انہیں چھٹی دی جاتی ہے اور
نہ ہی وقفہ دیا جاتا ہے اس صورت میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان پر جمعہ فرض نہیں ہے ،
اس بارے میں صحیح کیا ہے ، کیا ان کو جمعہ پڑھنا ہوگا یا جاب چھوڑنا ہوگا ، اس طرح
بہت سے طلبہ بھی یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں جن کے لئے یونیورسٹی سے نکلنا مشکل
ہوتا ہے؟
جواب: ایک مسلمان پر دن اور رات میں پانچ
وقت کی نمازیں فرض ہیں اور مردوں پر جمعہ کی نماز بھی فرض ہے لہذا جس جگہ بھی
مسلمان رہتے ہوں اور ان کو اذان سنائی دیتی ہو تو اس کے اوپر واجب ہے کہ وہ مسجد
حاضر ہو کر جماعت سے نماز ادا کرے خواہ جمعہ کی نماز ہو یا اور دیگر نمازیں ہوں۔
جہاں تک مسئلہ ہے ایسی کمپنی یا یونیورسٹی
کا جہاں کے مسلمانوں کو جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے تو
وہاں پہ موجود سارے مسلمانوں کو ایک جگہ کسی مناسب کمرہ یا چھت پر جمع ہو کر جمعہ
کی نماز ادا کرلینا چاہیے۔ ان لوگوں میں موجود جو بھی جمعہ پڑھا سکتا ہو وہ جمعہ
پڑھادے حتی کہ اگر خطبہ دینے کی کسی میں صلاحیت نہ ہو تو کتاب دیکھ کر خطبہ دے
سکتا ہے یا جمعہ پڑھانے کے لئے باہر سے کسی عالم کو بلالیں تو اور اچھی بات ہے۔
اگر وہاں پر مسلمانوں کی مسجد نہ ہو،اذان کی آواز سنائی نہ دیتی ہواور اپنے طور پر
جمعہ قائم کرنے کےلئےمسلم افراد نہ ہوں تو
ایسی صورت میں پھر ظہر کی نماز ادا کرے ۔
یاد رہے نماز جمعہ اہم ترین عبادت ہے جو
مسلسل تین جمعہ چھوڑ دیتا ہے اس کے دل پر مہر لگ جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا: ”جو شخص سستی سے تین جمعہ چھوڑ دے تو اس کی وجہ سے اللہ اس کے دل
پر مہر لگا دے گا"۔(ابوداؤد:1052)
ایک مسلمان کے لئے صرف جمعہ کی نماز پڑھنا
ہی کافی نہیں ہے بلکہ پنج وقتہ نمازوں کی ادائیگی ضروری ہے اور نوکری یا تعلیم کے
لئے کسی کو ہمیشہ نمازیں چھوڑنی پڑے تو ایسی کمائی اور ایسی تعلیم کا کوئی فائدہ
نہیں جس سے وہ دنیا کی زندگی تو بہتر بنالے لیکن آخرت کی زندگی تباہ کرلے۔
ہم
اللہ رب العالمین کی بندگی کے لیے پیدا کیے گئے ہیں اور ہماری زندگی میں بندگی سب
سے اہم ہے اس لئے اگر کوئی ایسی جگہ پر کام کرتا ہو یا تعلیم حاصل کرتا ہو جہاں پر
اسے نمازیں چھوڑنی پڑتی ہو تو ایسے آدمی کو اپنی جگہ بدل کر مناسب جگہ اختیار کرنی
چاہیے جہاں عبادت کرنے کی سہولت میسر ہو اور الحمدللہ، اللہ کی سرزمین بہت وسیع
ہے۔
سوال: کیا کسی غیر مسلم کو
گھر کرایہ پر دے سکتے ہیں، ان کے کرایہ کا پیسہ جائز ہے اور اگر مسلمان پڑوسی
اعتراض کرے تو کیا کرنا چاہئے؟
جواب: غیر مسلم کو کرایہ پر گھر دینا جائز
ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جہاں تک اس کے کرائے کے پیسے کا معاملہ ہے۔ اگر یقین
سے معلوم ہو کہ وہ حرام کاروبار کرتا ہے یا اس کی کمائی مکمل حرام ہے اور اس حرام
پیسے سے کرایہ دیتا ہے تو ظاہر سی بات ہے ایسے حرام کاروبار یا کمائی کرنے والے کو
اپنے گھر میں رکھنا اور ایسا پیسہ کرایہ کے طور پر لینا درست نہیں ہے۔ آپ اپنے گھر
میں ایسے آدمی کو رکھیں جس کی کمائی حلال ہو یا کم از کم مکمل کمائی حرام نہ ہو۔
اور جہاں تک پڑوسی کے اعتراض کا مسئلہ ہے تو
دیکھیں کہ اعتراض کس نوعیت کا ہے، اعتراض بجا ہے تو قبول کریں اور اعتراض بے جا تو
رد کردیں لیکن یہ بات ضرور ہے کہ مسلم
کرایہ دار غیر مسلم کرایہ دار سے بہتر ہے مگر صحیح مسلم ہو تب، ورنہ کتنے سارے
مسلم شرک و بدعت اور کفر و معصیت میں اس قدر ملوث ملیں گے جو ہندو سے بھی بدتر نظر
آئیں گے۔
سوال: ایک آدمی نے گاڑی کا
انشورنس کیا ہوا تھا جو ایکسیڈنٹ میں فوت ہوگیا، اس کے مرنے کے بعد اس کے دوست نے
اس کی فیملی کے لئے انشورنس کے پیسے دلوانے میں مدد کی، چارسال سے ہر ماہ پیسہ
آرہاہے اور اس انشورنس کے پیسے سے فیملی کا گذارا ہورہا ہے۔ دوست نے جن پیسوں کو
دلوانے میں مدد کی تھی کیا وہ پیسے حرام ہیں اور دوست نے فیملی کی مدد کی تھی کیا
اس کو اس کا گناہ ملےگا؟
جواب: گاڑی کے انشورنس کی وجہ سے جو پیسہ میت کے گھر والوں کو مل رہا ہے ان کے حق میں انشورنس کا پیسہ لینا اپنی جگہ پر درست ہے یعنی وہ لوگ اس پیسے کو استعمال کر سکتے ہیں۔جہاں تک اس آدمی کا مسئلہ ہے جس نے انشورنش کے پیسے جاری کروائے اس کے ذمہ کوئی گناہ نہیں ہے بلکہ یہ ضرورت مند کا ایک طرح سے تعاون ہے۔
سوال: کرایہ دار وں نے سترہ
ماہ تک مکان کا کرایہ ادا نہیں کیا، اب جب وہ ایک ساتھ کرایہ ادا کریں گے جیساکہ
ان کا وعدہ ہے تو کیا اس رقم پر زکوة واجب ہوگی اور اگر ہوگی تو اس کا کیا طریقہ
ہوگا جبکہ ساری رقم پر سال نہیں گزرا ہے پھر اس کا حساب کیسے کرنا ہوگا؟
جواب:کرایہ کے پیسوں پر فوری طور پر زکوۃ
ادا نہیں کرنی ہے بلکہ زکوۃ کے لئے پیسوں کا نصاب تک پہنچنا اور ایک سال گزر جانا
ضروری ہوتا ہے لہذا کرائے داروں کی جانب سے آنے والا پیسہ جب اپنے ہاتھ میں آجائے
اور وہ نصاب تک پہنچ رہا ہو پھر یہ نصاب بھر پیسہ ایک سال تک باقی رہتا ہے تو سال
مکمل ہونے پر اس کی زکوۃ ادا کرنی ہوگی۔ گویا سترہ ماہ کے کرایہ پر فوری طور پر
کوئی زکوۃ نہیں ہے بلکہ یہ پیسے سال بھر موجود رہیں اور نصاب کے بقدر ہوں تو اس
وقت زکوۃ دینا ہے۔
سوال: شوہر نے بیوی کو طلاق
دے دی، بیوی میکے چلی گئی دو حیض گزرے اور شوہر کی نیت تھی کہ رجوع کرنا ہے لیکن بالکل
درست الفاظ کی ادائیگی کا علم نہ ہونے کی وجہ سے اتنا کہا ہے کہ "میں اپنا
گھر بسانا چاہتا ہوں، میری بیوی واپس آجائے ، شرمندہ ہوں، مجھ سے غلطی ہوئی "۔کیا
رجوع ہو گیا یا عدت گزرنے کے بعد نیا نکاح کرنا ہوگا کیونکہ بیوی ابھی میکے میں ہی
ہے اور تین حیض گزر گئے ہیں؟
جواب: جب شوہر نے اپنی بیوی سے عدت کے دوران اپنی غلطی کا اظہار کرتے ہوئے بیوی سے کہاکہ میں اپنا گھر بسانا چاہتا ہوں، میری بیوی واپس آجائے، شوہر کا یہ کہنا رجوع کے حکم میں ہے۔ اس بنا پر میاں بیوی کا رشتہ اپنی جگہ برقرار ہے لہذا جب چاہے بیوی اپنے شوہر کے گھر آسکتی ہے اس میں نئے نکاح کی ضرورت نہیں ہے۔
سوال: پرندوں کی خشک بیٹ پر
اگر بیٹھا جائے تو کیا کپڑے ناپاک ہوجاتے ہیں؟
جواب: جانور کے پیشاب اور پاخانہ سے متعلق شرعی
معاملہ یہ ہے کہ جو بھی حلال جانور ہے اس کا پیشاب اور پاخانہ حکما پاک ہے اس کے
لگ جانے سے جسم یا کپڑا ناپاک نہیں ہوتا۔ اسی طرح پرندے کا معاملہ ہے کہ تمام قسم
کے حلال پرندوں کی بیٹ پاکی کے حکم میں ہے لہذا خشک یا تر بیٹ کے چھونے یا لگ جانے
سے کپڑا یا بدن ناپاک نہیں ہوتا۔بیٹ کا نشان یا دھبہ لگ جائے تو اسے کھرچ کر یا
دھوکر صاف کرلیں ، یہ صفائی نجاست زائل
کرنےکے مقصد سے نہیں ہے بلکہ یونہی نفاست کے مقصد سے ہے۔
سوال: میرے والد نے گورنمنٹ
کے ایک اسکیم کے تحت لون لئے ہیں۔ اسی پیسے سے گھر میں کھانا بن رہا ہے، میں تو
انکی کفالت میں ہوں اس وجہ سے مُجھے وہ کھانا کھانا پڑ رہا ہے تو کیا میں گناہ گار
ہوں گی؟
جواب: کسی مسلمان کے لئے سودی لون لینا
جائز نہیں ہے کیونکہ یہ سود پر تعاون ہے۔ جہاں تک گھر میں بیوی اور بچوں کا معاملہ
ہے تو وہ اس معاملے میں معذور ہیں ، اصل گناہگار وہ ہے جس نے گورنمنٹ اسکیم کے تحت
سودی لون لیا ہے، اس گناہ میں بیوی بچے شریک نہیں ہیں۔ایک مرتبہ غلطی ہوگئی آئندہ
ایسی غلطی نہ ہو اس کے لئے بیوی اپنے شوہر کو تنبیہ کرے اور اس کام کی خطرناکی اور
گناہ کو بیان کر کے اس سے اپنے شوہر کو باز رکھے۔
سوال: کیا نفلی طواف کے لئے
بھی سات چکر مکمل کرنا ضروری ہے اور نفل طواف کے بعد دو نفل ادا کرنا اور زمزم
پینا بھی ضروری ہے، کیا نفل طواف میں کوئی شخص تھکاوٹ یا وقت کی کمی کی وجہ سے کم
چکر لگا سکتا ہے؟
جواب: نفلی طواف بھی اسی طرح کریں گے جیسے
ہم حج اور عمرہ میں طواف کرتے ہیں یعنی نفلی طواف کرتے ہوئے سات چکر کیا جائے گا
اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز ادا کی جائے گی اس طرح سے طواف کا اجر
حاصل ہوگا اور اگر کوئی سات چکر سے کم طواف کرتا ہے تو طواف کی جو فضیلت ہے وہ اسے
نہیں ملے گی لہذا جس کے پاس وقت ہو اور امید ہو کہ سات چکر لگاسکتا ہے وہی نفلی
طواف کرے ۔اور زمزم پینے کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، خواہ زمزم پئیں یا نہ پئیں۔
سوال: کیا نماز میں چھینک
آئے تو الحمدللہ کہنا چاہیے یا سلام کا جواب دے سکتے ہیں یا چھینک کا جواب دے سکتے
ہیں ۔ اقبال کیلانی کی کتاب فضائل قرآن مجید میں یہ بات کہی گئی ہے اور حدیث بھی
ہے؟
جواب: نماز میں چھینک آجائے تو آہستہ سے دل
میں الحمدللہ کہہ سکتے ہیں لیکن کوئی دوسرا نمازی اس کا جواب نہیں دے گا اور اسی
طرح سے نماز میں کوئی سلام کرے تو اشارہ سے جواب دیا جا سکتا ہے مگر زبان سے بول
کر نماز میں جواب دینا ممنوع ہے۔
سوال: احرام سلا ہوا نہ ہو،
اس سے کیا مراد ہے اور دوسرا سوال یہ ہے حالت احرام میں کسی وجہ سے احرام اتارنا
پڑے تو کیا کریں؟
جواب:جیسے کرتا پاجامہ سلا ہوا ہوتا ہے یعنی الگ الگ حصہ کاٹ کر جوڑا ہوا، اس طرح کا سلا ہواکپڑا احرام کی حالت میں پہننا منع ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ احرام کپڑے کا نام نہیں
ہے بلکہ حج یا عمرہ کی نیت کا نام ہے اور جو لباس لگایا جاتا ہے اسے احرام کا لباس
کہا جاتا ہے ، ضرورت کے وقت اس لباس کو اتار سکتے ہیں ، بدل بھی سکتے ہیں اور دھو
بھی سکتے ہیں ۔
سوال: وضو کے نفل پڑھنے کے
لئے کیا ضروری ہے کہ کوئی نماز یا قرآن نہ پڑھا ہو تبھی وضو کے نفل پڑھ سکتے ہیں؟
جواب:تحیۃ الوضوء وہ نماز ہے کہ جب آپ وضو
کرتے ہیں اسی وقت فورا اسے ادا کرنا ہوتا ہے اور جب وضو کرکے تاخیر ہو جائے تو اس
نماز کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔اسی طرح وضو کرکے تلاوت کرنے لگیں یا دوسری نماز پڑھنے لگیں تو اس کے بعد بھی تحیۃ الوضو نہیں ہے۔ وضو کرکے
فورا وضو کی نیت سے دو رکعت نماز ادا کرنا تحیۃ الوضوء کہلاتا ہے۔
سوال: کیااسلامی شریعت میں نكاح سے پہلے منگنی
كرنا جائز ہے، اگر اس منگنی میں لڑکے اور لڑکی کے درمیان انگوٹھیاں بدلنے کا کوئی
رواج نہ رکھا جائے۔ بس یہ عمل ہو کہ لڑکے کے گھر والے آئیں اور لڑکی کو تحفہ دیدیں
جیسے کپڑے، زیور وغیرہ اور رشتہ طے کریں تو کیا ایسے رسومات کرنا جائز ہے یا یہ
کفار کی پیروی میں آئے گا یا ہمیں صرف بات کرکے ہی رشتہ طے کر دینا چاہیے اور
سادگی سے نکاح کرنا چاہیے نیز اگر لڑکے والے ایسی رسومات کرنے پر زور دیں تو انہیں
کیسے سمجھایا جا سکتا ہے؟
جواب: منگنی کرنا جائز ہے اور منگنی کہتے ہیں نکاح کا پیغام دینے کو مگر اس میں آج کل منگنی کےمروجہ رسم و رواج اسلامی تعلیمات کے یکسر مخالف ہیں ۔اسلام میں شادی کا طریقہ بہت سادگی والا ہے۔ شادی سے پہلے نکاح کا پیغام دیا جاتا ہے اور جب پیغام قبول کر لیا جائے تو پھر مل بیٹھ کر شادی کی ایک تاریخ متعین کر لی جاتی ہے اور اس کے بعد متعین تاریخ پر عقد نکاح کیا جاتا ہے ۔
آج کل منگنی سے لے کر نکاح ہونے تک جس قدر
بدترین رسم و رواج انجام دئے جاتے ہیں اس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ایک مسلمان
کی حیثیت سے منگنی کی رسم بھی سادگی سے ہو یعنی اس میں تحائف اور لین دین کا
معاملہ نہ ہو، فقط بات چیت سے شادی طے ہو اور اس کے بعد شادی تک کا مرحلہ بھی
سادگی سے انجام دیا جائے۔ شادی میں جو دوسری پارٹی ہے اس کو بھی ہم سادگی کی دعوت
دیں گے، ہم کسی کو کہہ سکتے ہیں مجبور تو نہیں کر سکتے، ہاں ایسے لوگوں کو چھوڑ
ضرور سکتے ہیں جو غیر شرعی طریقے سے نکاح کرے۔
سوال: ایک حدیث میں ہے کہ "مرد
کا اپنے سر میں کیل ٹھوک لینا نامحرم عورت کو چھونے سے بہتر ہے"۔ اگر کوئی
عورت کسی نامحرم کو جو تقریباً اسکی عمر ہی کا ہو گلے لگائے یا بوسہ دے تو یہ حدیث اس کے لئے بھی ہے اور کیا اسے اس کی
غلطی پہ ٹوک سکتے ہیں جبکہ وہ ہمارے لئے رزق دینے کا سبب بنی ہوئی ہو؟
جواب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا
فرمان ہے: "تم میں سے کسی کا سر لوہے کی کیل سے پھاڑ دیا جاتا ہے یہ اس کے
لیے کسی غیر محرم عورت کو چھونے سے بہتر ہے"۔یہ حدیث معجم طبرانی میں موجود
ہے اور شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
یہ حدیث اس عورت کے لئے بھی ہے جو اپنے ہم عمر اجنبی مرد سے گلے لگاتی ہے بلکہ کوئی مرد کسی اجنبی عورت کو یا کوئی عورت کسی اجنبی مرد کو گلے لگائے ان سب کے لئے حدیث ہے خواہ دونوں کی عمریں کچھ بھی ہوں۔
اور جو اس طرح کسی کو کرتے ہوئے دیکھے وہ
ان دونوں کو منع کرے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے برائی دیکھنے پر ہمیں منع
کرنے کا حکم دیا ہے چاہے وہ ہمارے لئے رشتہ دار ہوں یا ہماری معاشی کفالت کرنے والے ہوں یا ہمارا کسی طرح سے تعاون کرنے والے ہوں ۔اور
ایک مسلمان کا اس بات پر ایمان ہے کہ اس کو روزی دینے والا اللہ رب العالمین ہے،
دنیا میں بعض بندے ایک دوسرے کے لئے معیشت کا سبب ضرور بنتے ہیں مگر ہمارا رازق اللہ
ہے، وہی سب کو روزی دیتا ہے۔
سوال: ایک خاتون کو ایک
مرتبہ حیض آنے کے دو دن تک رک جاتا ہے پھر چھ سات دن حیض آتا ہے،کیا دو دن حیض کے
مان کر اس میں نماز نہ پڑھے یا پورے حیض کے ایام ختم ہونے تک انتظار کرے؟
جواب : کبھی ایسا ہوسکتا ہے کہ کسی کو چند
دن حیض آکر بیچ میں گیپ ہو پھر اس کے بعد چند دن کے لئے حیض آئے،اس سلسلے میں دو
باتیں اہم ہیں۔
پہلی بات: اگر حیض سے پاکی حاصل ہوگئی یعنی
حیض کی مدت گزر کر سفید پانی خارج ہوگیا تو اس کے بعد آنے والا براؤن کلر اور داغ
دھبے حیض میں شمار نہیں کئے جائیں گے چاہے ایک دن یا دو دن یا تین دن یا کچھ دن کے
بعد آئیں۔
دوسری بات: ایک مرتبہ چند دن کے لئے حیض آیا پھر بیچ میں ایک یا دو دن خشکی رہی، اس کے بعد پھر خون آئے تو اس میں دیکھنا یہ ہے کہ دوبارہ آنے والے خون میں حیض کے صفات ہیں یعنی وہ کالا ،گاڑھا اور بدبودار ہے۔ اگر اس میں حیض کے صفات ہیں تو دوبارہ آنے والا خون بھی حیض میں شمار کیا جائے گا اور اس موقع سے عورت کو نماز سے رکنا پڑے گا، ساتھ ساتھ عورت کو یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ پہلے اور بعد والے دونوں حیض کی مدت پندرہ دن تک ہی مانی جاسکتی ہے اس سے زیادہ نہیں لہذا پندرہ دن سے زیادہ آنے والا خون استحاضہ کا مانا جائے گا۔
جہاں تک خشکی کے دو دنوں کی بات ہے تو اس
نے غسل کرکے نماز ادا کرنا ہے۔
سوال: کیا عورت گھر میں ہر
نماز کے وقت تحیۃ الوضوء پڑھ سکتی ہے یعنی وضو کرکے پہلے دو رکعت تحیۃ الوضوء پڑھے
پھر وہ نماز پڑھے جس کا وقت ہو؟
جواب: جب کسی نماز کے لئے اذان ہو جائے اور
اس نماز کے لئے سنت موجود ہو تو اس وقت عورت تحیۃ الوضوء نہیں پڑھے گی بلکہ وہ
براہ راست نماز کی سنت ادا کرے گی لیکن اگر نماز کی سنت نہ ہو جیسے عصر کی نماز تو
اس وقت تحیۃ الوضوء پڑھ سکتی ہے اور نماز کے اوقات کے علاوہ جب چاہے وضو کرکے تحیۃ
الوضوء پڑھ سکتی ہے۔
سوال: ایک بے اولاد خاتون کے
ملازم پیشہ شوہر نے ایک بڑا پلاٹ خریدا اور میاں بیوی کے نام مشترکہ رجسٹری کیا اس
زمین کا آدھا حصہ بیچ دیا اور آدھے حصے پر گھر بنایا اور شوہر نے کہا کہ میں نے
اپنے حصے کی زمین بیچ دی ہے، اب بچا ہوا حصہ اور مکان تمہارا ہے، اس بات پر اپنے
بھائی کو گواہ بنایا۔ایک ماہ بعد شوہر انتقال کر گیا اور اب بیوی یہ پوچھتی کہ
میرے شوہر نے زندگی میں مجھے یہ مکان دے دیا تھا، کیا اس مکان میں سسرال کے کسی
فرد کا حصہ ہے ؟
جواب: سوال میں جو مسئلہ ذکر کیا گیا ہے کہ
ایک ملازم شوہر نے اپنے پیسے سے زمین خرید کر اس پر گھر بنایا اور اس گھر کو اپنی
بیوی کے نام ہدیہ کر دیا تو ایسی صورت میں یہ گھر بیوی کی ملکیت ہے، شوہر کے
انتقال کے بعد اس گھر کی تقسیم نہیں ہوگی کیونکہ یہ بیوی کی ملکیت ہے اور نہ ہی اس
میں سے سسرالی کسی رشتہ دار کو کوئی حصہ دیا جائے گا۔جب بیوی کی وفات ہوگی تب اس
کی جائیداد اس کے وارثوں میں تقسیم کی
جائے گی۔
سوال: مینو پاز(ماہواری) بند
ہونے کے وقت اگر کسی عورت کو حیض کے دن سے زیادہ دنوں تک خون آئے اور علامات حیض
کے خون جیسی ہوں تو نماز و روزے کا کیا حکم ہے؟
جواب: جب بڑی عمر میں حیض ختم ہونے لگے
ایسے وقت میں اگر حیض کے ایام کم یا زیادہ ہو جائیں اس حال میں کہ اس میں حیض کی
صفات ہوں تو جتنے دن تک حیض آئے، اسے حیض ہی مانیں گے اور نماز و روزہ سے پرہیز
کریں گے مگر یہ بات بھی یاد رہے کہ زیادہ سے زیادہ پندرہ دن تک ہی ہے حیض مانا
جائے گا، اگر اس سے زیادہ آنے لگے تو عورت پندرہ دن کے بعد غسل کرکے نماز ادا کرے گی۔
سوال: ایک شوہر نے اپنی بیوی
کو تین طلاق اکٹھی دے دی، ابھی چند دن ہوئے ہیں اور اب وہ رجوع کرنا چاہتا ہے، کیا
اس میں رجوع ہو سکتا ہے؟
جواب: جب مرد اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دیتا ہے تو اس صورت میں صرف ایک طلاق واقع ہوتی ہے لہذا مذکورہ صورت میں اس مرد کی بیوی پر ایک طلاق واقع ہوگئی ہے ۔ اگر شوہر عدت میں رجوع کرنا چاہے تو رجوع کرسکتا ہے ۔ شوہر اپنی بیوی سے کہے کہ میں رجوع کرتا ہوں اس طرح بیوی رجوع ہوجائے گی ۔
سوال: اگر وضو کے بعد کچھ
کھالیں تو کلی کرنا ضروری ہوتا ہے یا بغیر کلی کے نماز ہوجائے گی؟
جواب:وضو کے بعد اگر کچھ کھالیں تو پھر سے
وضو کرنے یا کلی کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے لیکن اگر منہ پر کچھ لگا ہو تو اسے
دھولیا جائے یا دانتوں اور منہ میں کھانے پینے کے ذرات محسوس ہوں تو پانی پی کر یا
کلی کرکے صاف کرلیا جائے کیونکہ جب کسی کے منہ میں ریشے اور ذرات ہوں تو نماز میں آدمی کا دھیان اس جانب رہے گا اور اپنی
زبان سے ذرات کو نگلنے یا ادھر ادھر کرنے میں مشغول رہے گا۔ جب منہ میں کچھ نہ ہو
تو پھر پانی پینے یا کلی کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اس جگہ یہ بھی معلوم رہے کہ
اونٹ کا گوشت ناقض وضو ہے۔
سوال: کیا سنت نماز کے ساتھ تحیۃ الوضوء کی بھی نیت کر سکتے ہیں؟
جواب: تحیۃ الوضوء مستقل بالذات نماز نہیں
ہے ، یہ وہ نماز ہے کہ جب کوئی نماز نہ ہو تو یہ پڑھ سکتے ہیں جیسے تحیۃ المسجد
بھی ہے اور کوئی مستقل نماز موجود ہو تو وہ پڑھنا ہے ۔ چونکہ تحیۃ الوضوء مستقل
نماز نہیں ہے اس لئے سنت مؤکدہ کے ساتھ اس نماز کی بھی نیت کرسکتے ہیں اس میں حرج
نہیں ہے ۔
سوال: کیا چوہے اور موذی حشرات
سے محفوظ رہنے کے لئے اور انہیں بھگانے کے لئے سورہ ماعون بلند آواز سے پڑھنا درست
ہے یا کوئی دعا ہو تو وہ بتادیں؟
جواب: گھروں کے زہریلے اور موذی حشرات سے
محفوظ رہنے کے لئے دو کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک کام تو یہ ہے کہ ایسے موذی حشرات
کی اپنے گھر وں سے صفائی کریں اور دوسرا کام یہ ہے کہ موذی حشرات الارض یا اس قسم
کے دیگر نقصان دہ امور اور خبیث شیاطین سے حفاظت کی دعائیں پڑھیں۔ اس کام کے لئے
سورہ ماعون پڑھنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس بارے میں نبی ﷺ نے جو رہنمائی فرمائی
ہے وہ ہمارے لئے کافی ہے۔ آپ پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں۔ پانچوں فرض نمازوں کے بعد
نماز کے اذکار پڑھیں، پھر صبح وشام مسنون اذکار کیا کریں اور سونے و جاگنے کے اذکار
کا التزام کریں ۔ اس طرح آپ گھر رہیں یا باہر ہرجگہ محفوظ رہیں گے۔ ان تمام مقامات
کے اذکار میں ہرقسم کے شر سے حفاظت کی دعائیں موجود ہیں ۔ اس بارے میں میرے یوٹیوب
چینل پر "جن و شیاطین سے حفاظت کے لئے ذکر کے آٹھ اہم مقامات" ضرور
سماعت کریں۔
سوال: عمرہ کرتے ہوئے ایک
چودہ سالہ بچی طواف کے تیسرے چکر میں اپنے والدین سے بچھڑ گئی اور تھک کر طواف
چھوڑ کر ایک جگہ بیٹھ گئی پھر بعد میں والدین سے ملاقات ہوئی مگر طواف تین ہی چکر
رہا تاہم اس نے سعی کی اور بال کٹا کر احرام کی حالت سے نکل گئی، ابھی ایک دن ہوا
ہے تو کیا اس صورت میں کوئی کفارہ ہے یا
پھر سے طواف کرنا ہوگا؟
جواب : اگر لڑکی نے طواف کے صرف تین چکر
کئے اور اس کے بعد سعی کرکے بال کٹالیا تو اس سے اس کا عمرہ نہیں ہوگا کیونکہ عمرہ
میں طواف ایک رکن ہے جس کی تکمیل کے بغیر عمرہ نہیں ہے۔اس نے طواف کی تکمیل کے
بغیر سعی کرلی اور بال کٹا لیا یہ اس کی غلطی تھی، اسے چاہیے کہ پھر سے حرم جاکر
ازسرنو مکمل طواف کرے پھر سعی کرے کیونکہ سعی کا مقام طواف کے بعد ہے اور پہلی
والی سعی نہیں مانی جائے گی کیونکہ طواف مکمل نہیں تھا پھر اس کے بعد بال کٹا کر
حلال ہو ایسا کر لینے سے اس کے اوپر کچھ بھی نہیں رہے گا خواہ ایک دن کیوں نہ گزر
گیاہو ۔دوسری بات یہ ہے کہ احرام کسی کپڑے کا نام نہیں ہے کہ اس کے اتار لینے سے
کوئی احرام سے نکل جائے گا احرام نیت کا نام ہے۔
سوال: حیض سے پاکی کے بعد
ایک عورت نے عام غسل کیا اور خاوند سے تعلق قائم کرکیا لیکن شرعی غسل نہیں کیا تھا
تو کیا یہ تعلق درست تھا یا کفارہ ادا کرنا ہوگا اور اگر کفارہ دینا ہوگا تو کتنا
کفارہ ہے؟
جواب: غسل کرنے کا دو طریقہ ہے ایک کامل
غسل جسے غسل جنابت کہتے ہیں اور دوسرا کفایتی غسل ۔ اگر کوئی کفایتی غسل کرتا ہے
تو اس سے بھی غسل ہوجائے گا مگر غسل جنابت کرنا افضل ہے ۔ چونکہ بیوی کا غسل کرنا
صحیح ہے اس صورت میں کوئی کفارہ نہیں ہے۔ کفایتی غسل یہ ہے کہ غسل کی نیت کرکےبسم
اللہ کہہ کردونوں ہاتھوں کو دھلیں ، کلی کریں اور ناک میں پانی ڈالیں پھر پورے جسم
پر پانی بہالیں ۔
سوال: کسی ضرورت مند کی
ضرورت پوری کرنا نیکی ہے مگر کچھ لوگ یہ کام خود کرسکنے کے باوجود دوسروں سے
کرواتے ہیں ، کیا یہ درست ہے ؟
جواب: نیکی اور صدقہ کا کام خود سے کیا
جائے اور اخلاص کے ساتھ کیا جائے ، اس میں ریاکاری اور شہرت نہ ہو تو یہ زیادہ
بہتر ہے تاہم اگر کوئی کسی دوسرے امانتدار آدمی کے ذریعہ صدقہ وخیرات کا کام
کرواتا ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔ اس میں اہم بات یہی ہے کہ جس کے ذریعہ
صدقہ وخیرات کروائے وہ قابل اعتماد اور امانتدار ہو تاکہ امانتداری کے ساتھ سونپی
گئی امانت ادا کرسکے۔
سوال: اگر کوئی سورہ ملک و
سجدہ اور سورہ بقرہ کی آیت بھی سونے کے وقت پڑھنے کی بجائے عشاء بعد پڑھ لے تو کیا
یہ بدعت ہے؟
جواب: اگر کوئی سورہ ملک ، سورہ سجدہ اور
سورہ بقرہ کی آخری دو آیات عشاء کی نماز کے بعد پڑھ لے تو یہ کفایت کر جائے گا اور
اس عمل کو بدعت نہیں کہیں گے، اسے بدعت کہنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ یہاں یہ
کہاجاسکتا ہے کہ بہتر و افضل ہے کہ سونے کے اذکار اس وقت پڑھے جائیں جب سونے کی
نیت سے بستر پر آجائیں۔
سوال: کیا پڑوسی کے کہنے سے
اپنا ہرا بھرا درخت یا بیل کٹوا سکتے ہیں کیونکہ اس کے گھر درخت کے کچھ پتے چلے
جاتے ہیں؟
جواب: آپ کے کسی کام یا کسی چیز سے کسی کو
کوئی تکلیف پہنچے تو اس تکلیف کو دور کرنا چاہیے۔ آپ کے پڑوسی کی جو تکلیف اور
شکایت ہے اسے دور کریں ، یہ آپ کا فریضہ ہے۔ اس کے لئے درخت کاٹیں یا شاخیں کاٹیں
یا پڑوسی کے گھر جھاڑو لگائیں یعنی جس سے مسئلہ حل ہوتا ہو وہ عمل کریں ۔ آپس میں
مل کر رہیں اور ہر اس بات سے بچیں جس سے پڑوسی کو تکلیف ہو کیونکہ نبی ﷺ نے پڑوسی
کو تکلیف دینے سے منع فرمایا ہے۔
سوال: ایک بہن کہتی ہے کہ جب
موذن اللہ اکبر کہے تو اس کے جواب میں ہمیں" مرحبا بالقائلین عدلا مرحبا
بالصلوۃ اھلا "کہنی ہے، کیا یہ بات صحیح ہے ؟
جواب: دینی اور شرعی مسائل میں آپ کو ایک
اصول بتا دیتا ہوں وہ یہ ہے کہ آپ سے کوئی ایسی بات کہے جس کا آپ کو پتہ نہ ہو تو
اسی کہنے والے سے اس بات کی دلیل طلب کریں کیونکہ دین دلیل پر قائم ہے، وہ دلیل نہ
دے تو آپ کو حق ہے، اسے کہیں کہ جس بات کی تمہارے پاس دلیل نہ ہو تم وہ بات کیوں
بیان کرتے ہو اور اگر دلیل دے تو پھر اس کی تحقیق کریں کہ وہ صحیح ہےیا نہیں؟
اذان کا جواب دینے کے سلسلے میں نبی ﷺ کا
فرمان ہے: إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ، فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ(صحیح
مسلم:849)
ترجمہ:جب تم مؤذن کو سنو تو اسی طرح کہو
جیسے وہ کہتا ہے۔
اس حدیث کی روشنی میں ہمیں اذان کا جواب
انہیں الفاظ میں دینا ہے سوائے حی علی الصلاۃ اور حی علی الفلاح کےکیونکہ اس کی
دلیل ہے۔ اور اللہ اکبر کے جواب میں اللہ اکبر ہی کہا جائے گا، کچھ دوسرا نہیں کہا
جائے گا۔"مرحبا بالقائلین۔۔۔۔۔۔ والے کلمات کسی حدیث سے ثابت نہیں ہیں اس لئے
اللہ اکبر کے جواب میں یہ نہیں کہاجائے گا اور جو یہ کہتا ہے وہ رسول اللہ ﷺ کے
فرمان کی مخالفت کرتا ہے اس کو دلیل سے سمجھایا جائے تاکہ وہ صحیح حدیث پر عمل کرے
اور اذان کا جواب دینے کا اجر پاسکے۔
سوال: میرے خاوند کی بھانجی جو آسٹریلیا میں رہتی ہے اس نے دین اسلام چھوڑ کر ایک ہندو لڑکے سے شادی کرلی ہے، اسے ایک بیٹی بھی ہے۔ اس کی ماں بہت دیندار خاتون ہے ۔ جب اس نے وہاں کسی سے مسئلہ پوچھا تو اس نے کہا کہ آپ بیٹی سے بالکل لا تعلق نہ ہوں بلکہ اس کے ساتھ رابطے میں رہیں، کیا پتہ دین کی طرف واپس آجائے۔اب وہ لڑکی اپنی ماں کے ساتھ پاکستان آرہی ہے ، مجھے یہ جاننا ہے کہ ایسی صورت میں کیا ہمیں اس لڑکی سے ملنا چاہیے اور کیا ہمیں اس سےتعلق رکھنا چاہیے یا پھر بلکل لاتعلق ہو جائیں ؟
جواب: اسلام سے مرتد ہونے والے کی سزا
گردن زدنی ہے مگر افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے ملکوں میں شرعی قانون نہیں ہے، آج
اسلامی قانون ہوتا ہے تو اس مرتدہ سے تعلق رکھنے کے بارے میں سوال کرنے کی نوبت
نہیں آتی۔
بہرکیف! جو کافر ہو اس سے دوستی کرنا جائز نہیں ہے مگر کافروں سے معاملات اور دنیاوی حد تک تعلق رکھنے میں حرج نہیں ہے ۔ عام کافروں کی طرح اس مرتدہ سے اس حد تک تعلق رکھا جاسکتا ہے تاکہ اس کو حق بتاسکیں ، اس کی غلط فہمی دور کرسکیں اوراسے اسلام کی طرف راغب کرسکیں مگر دوستی نہیں کی جائے گی کیونکہ اس نے کفر اپنا کر اپنے لئے مسلمانوں کی محبت کو کھودیا ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔